قطعہ
کل ایک شوریدہ خواب گاہِ نبیؐ پہ رو رو کے کہہ رہا تھا
کہ مصر و ہندوستاں کے مسلم بِنائے ملّت مِٹا رہے ہیں
یہ زائرانِ حریمِ مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے
ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے ناآشنا رہے ہیں
غضب ہیں یہ ’مُرشدانِ خود بیں، خُدا تری قوم کو بچائے!
بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزّت بنا رہے ہیں
سُنے گا اقبالؔ کون ان کو، یہ انجمن ہی بدل گئی ہے
نئے زمانے میں آپ ہم کو پُرانی باتیں سنا رہے ہیں!
اقبال کے کل اور ہمارے کل بلکہ آج میں کوئی فرق نہیں……رو رو کر جو حالِ امت کل ایک دیوانہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اقدس پر سنا رہا تھا کہ مصرو ہندوستان کے مسلمان قومیتِ اسلام کی جڑ کاٹ کر وطن پرستی کی داغ بیل ڈال رہے ہیں،یہ معاملہ آج صد چند ہو گیا ہے۔ مصر تا ہندوستان بلکہ مراکش تا جزائرِ سماٹرا و جاوا، مجموعاً امت کی پہچان اب امت و اسلام نہیں، وطن و قوم سے ہوتی ہے اور مسلمان خود ہی اس میں آگے آگے ہے۔ عوام کا یہ حال ہے تو خواص کا تو ذکر ہی کیا؟! یورپ و امریکہ کی درس گاہوں میں پلنے اور پڑھنے والے ، پھر صرف زائرینِ درس گاہانِ مغرب ہی نہیں بلکہ نظامِ مغرب کو طوعاً یا کرہاً قبول کر لینے والے، اسی سرمایہ داری، اسی ڈیموکریسی، اسی ساہوکاری کو ہم پر مسلط کرنے والے اور انہی مغربی ابلیسی فلسفوں کو اسلامیانے والے چاہے ہزار بار اپنے آپ کو ہم مسلمانوں، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کا رہنما کہیں لیکن اے رسولِ امیںؐ! خاتم المرسلیںؐ! شارعِ دینِ متیںؐ! ہمیں ان سے کوئی نسبت، کوئی واسطہ، کوئی تعلق، کوئی رشتہ نہیں! ہم تو آپؐ ہی کے پاکیزہ دین اور آپؐ ہی کی مطہر شریعت کے پیرو ہیں۔ یہ شریعت جس طرح آپؐ پر سات آسمانوں کے اوپر سے اتری، آپؐ نے نافذ کی، صحابہؓ نے آپؐ سے سیکھی اور امت کو دی اور فقہاء ؒو محدثینؒ نے جیسے اس کو بلا کم و کاست کسی ملامت گر کی ملامت کے بغیر آگے بڑھایا…… ہم تو اسی شریعت کے متبع و متوالے ہیں! رسولِ امیں (صلی اللہ علیک وسلم)! ہم مسلمانوں پر مسلط یہ چالاک و مکار رہنما بس اپنے اقتدار کے دوام کے لیے محنتیں کرنے والے ہیں۔ اپنی کرسی و بادشاہی کی خاطر یہ وسائلِ امت سے صلیبیوں کو بھی کھلاتے ہیں اور صہیونیوں کو بھی پالتے ہیں، حتیٰ کہ آپ کے اسی روضے کے پاس جہاں آپ کا ایک عاشق و دیوانہ کھڑا رو رو کر آپ کو حالِ امت سنا رہا تھا، اسی روضے کے پڑوس میں، آپ جس بیت اللہ سے کمر ٹکایا کرتےتھے، اسی بیت اللہ سے چند میل دور فحاشی و عریانی کے اڈے بھی ہیں اور امریکی و برطانوی فوج کے برّی و فضائی اڈے بھی۔ انہوں نے آپؐ کے امتیوں کا ایمان بھی بیچا، زمین بھی اور مال و دولت بھی، اپنی چار دن کی بادشاہی کی خاطر! اللہ ان کے شر سے آپ کی امت کی حفاظت فرمائے اور ان کو ان سے لڑنے کے لیے فکر و تبر دے! ہائے ہائے!! اس خود غرضی و مادیت پرستی کے زمانے میں ان افکار و نظریات کو کون سنے گا؟! اس جدیدیت، مادیت اور ماڈرن ازم کے دور میں کون اس جانب ملتفت ہو گا؟ لیکن اقبال یہ دہائی دینے کے باوجود اس شکوے میں یہ پیغام چھپائے ہوئے ہیں کہ پرانے لوگ یعنی نئے زمانے میں جینے والے وہی قدامت پسندی کی معراج لوگ، اسی پرانے پیغام کو سن کر اٹھیں گے اور دنیا کو وہی پاکیزہ و مطہر نظام دیں گے، امت کو وہی سربلندی پھر سے لوٹائیں گے کہ جس کے متعلق اقبال رحمہ اللہ نے خود ہی ایک اور مقام پر کہا:
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
٭٭٭٭٭