جاوید کے نام
خودی کے ساز میں ہے عُمرِ جاوداں کا سُراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں اُمتوں کے چراغ
یہ ایک بات کہ آدم ہے صاحبِ مقصود
ہزار گُونہ فروغ و ہزار گُونہ فراغ!
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صُحبتِ زاغ
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ
ٹھہَر سکا نہ کسی خانقاہ میں اقبالؔ
کہ ہے ظریف و خوش اندیشہ و شگُفتہ دماغ
اپنے بیٹے جاوید کو مخاطب کرتے ہوئے دراصل اقبال کے سامنے امتِ مسلمہ کی آئندہ کی ساری ہی نسلیں ہیں، امت کے جوان بیٹے بیٹیاں اقبال کے مخاطب ہیں۔ اقبالؒ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس نے خودی کو پا لیا تو عمرِ جاوداں اس کو حاصل ہو گئی[خودی خدا و رسولِ خدا (علیہ صلاۃ اللہ وسلام) کے عشق اور اتباع و فرماں برداری کا نام ہے]۔ اور اہلِ ایمان بخوبی باخبر ہیں کہ مومن کے سامنے تو ہر گھڑی آخرت کی زندگی رہتی ہے، عمرِ جاوداں، نہ ختم ہونے والی زندگی تو جنت ہی کی ہے اور اتباعِ خدا و رسولِ خدا (علیہ صلاۃ اللہ وسلام) اس جنت کا پتہ ہے اور جنت کے محلات کی شاہ کلید بھی۔ پھر اس حیاتِ جاودانی سے مراد دنیا میں بھی صاحبِ خودی کے عمل کا زندہ رہنا ہے۔ اتباعِ شریعت وہ خودی ہے کہ جب تک رہے تو دِلّی و لاہورکے ظاہری و باطنی چراغ روشن رہیں اور جب اتباعِ شریعت سیاست و معاشرت سے اٹھ جائے تو عالمگیرؒ کے تخت کے وارث ہندوؤں کی غلامی کی زندگی پر مجبور ہو جائیں! یہی خودی ہے جو اپنی گرمی سے قوموں کی راہ پر رکھے چراغوں کو روشن رکھتی ہے، وہ راہیں جو عروج کی طرف لے جاتی ہیں۔
اقبال امت کے جوانوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ ہر انسان کسی نہ کسی مقصد کے پیچھے لگا ہوا ہے، خودی کے تناظر میں یہاں مقصد بھی اللہ کی غلامی ہونا چاہیے۔ پھر اس غلامی میں جہاں حي علی الصلاۃ کی آواز آئے تو قبلہ رُو ہو کر سر بسجود ہو اور جہاں حي علی الجہاد کی صدا سنے تو وہی سر جو نماز میں جھکایا تھا کٹوانے پر آمادہ ہو جائے۔ با مقصد زندگی ایک ایسا عزم ہے جس کی راہ میں ہزاروں قسم کی زیب و زینت اور ہزار قسم کی راحت و آرام ہیچ ہیں۔
دوسرے کا بچا شکار کھانے والا، دوسرے سے عیاری سے رزق کے ٹکڑے چھیننے والا نہ بلند نظر ہوتا ہے اور نہ ہی بلند پرواز۔پس ایسے پست قد و پست کردار لوگوں سے بقول میاں محمد بخش صاحب ’فیض کِسے نا پایا‘(فیض کسی نے حاصل نہ کیا)، ’کِکر تے انگور چڑھایا، تے ہر گچھا زخمایا‘(کیکر سے خاردار درخت کی شاخوں پر جس نے ثمر آور انگور کی بیل چڑھائی تو انگور کا ہر ہر خوشہ چھلنی کروا دیا)۔ ایسے کوّوں گِدھوں کی صحبت نے شاہین صفت جوانوں کو پست ہمت و پست نظر کر دیا۔جن شاہین صفت جوانوں کے آباؤاجداد کل نوکِ تلوار سے اپنی تاریخ لکھا کرتے اور جغرافیے تشکیل دیتے تھے وہ جوان آج مظاہروں میں شرکت اور دیواروں پر پوسٹر چسپاں کر کے کشمیر و فلسطین فتح کرنے کی سوچتے ہیں۔
آج زمانہ بے حیائی کی ہر قید پھلانگ گیا ہے اور سب سے بڑی حیا تو اللہ کی ذات سے حیا ہے کہ انسان اس ذاتِ باری کی نافرمانی سے شرمائے۔ عصمت و غیرت کے جنازے معاشرے میں عام ہیں، حتیٰ کہ جس مملکتِ خداداد کو (غلط طور سے)اقبال ہی کے خواب کی تعبیر کہا جاتا ہے وہاں کے آئین و قانون میں غیرت و حیا کے ایسے چیتھڑے اڑائے جا رہے ہیں کہ الامان والحفیظ! اقبال سبھی جوانوں کی پاک دامنی کی دعا اللہ جلّ جلالہٗ سے کر رہے ہیں!
خانقاہیں اہلِ دین کے شعائر میں سے ہیں، جہاں اللہ ہُو کے بول ہوں اور نفس و باطن کی پاکیزگی کی ریاضتیں تو اس کے خلاف کوئی اللہ والا کیسے ہو سکتا ہے۔ ہاں اقبال جمود کے مخالف ہیں اور جہاد کے قائل ہیں، بقولِ شاعرِ جہاد احسن عزیز شہیدؒ:
پامال کر اس نفس کو تُو خانقہوں میں
جاں تیری مگر شورشِ میداں کے لیے ہے
پس پیامِ اقبال یہی ہے کہ راتوں کے راہب بنو اور دنوں کے شہ سوار۔ راتیں خانقاہوں میں اللہ کے سامنے داڑھیاں اور مصلے رو رو کر تر کرنے میں گزارو اور دن میں ’نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیریؓ‘، اسی شبّیر رضی اللہ عنہ کے عمل کو تازہ کرو جن کے نانا نے ستائیس غزوے لڑے اور تہتّر سریے روانہ کیے(صلی اللہ علیہ وسلم)، وہی شبّیرؓ جن کے ابا (کرم اللہ وجہہ)سے صوفیہ کے اکثر طرق جا کر ملتے ہیں۔
٭٭٭٭٭