استاد اسامہ محمود نے یہ سلسلۂ مضامین ’اصحاب الاخدود‘ والی حدیث کو سامنے رکھ کر تحریر کیا ہے۔ (ادارہ)
[……گزشتہ سے پیوستہ……]
حدیث میں مذکور اس نوجوان کے واقعے کو ہم نے زیربحث بنایاہے جو وقت کے طاغوت کے خلاف کھڑا ہوا، کٹھن آزمائشوں سے گزرا، حق پر ثابت قدمی دکھائی ،دوسروں کے لیے مشعل راہ بنا اور بالآخر خود شہید ہوکر کامیاب وکامران ٹھہرا ، اس نے اپنی زندگی قربان کردی مگر ایک پوری قوم ، بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی اللہ کی خاطر جینے اور مرنے کا پیام دےدیا۔ یہ اس واقعے کا مختصرخلاصہ ہے ،واقعہ تفصیلی ہے اور اس کے متعدد پہلوؤں پر رک کر ، ہم نے علیحدہ علیحدہ موضوعات اور حلقوں کی صورت میں بحث کی ، خاص اس واقعے کے متعلق پچھلے حلقوں میں ہم نے پڑھا کہ بادشاہ اس کو جادو گر بناکر اپنی فوج میں بھرتی کرنا چاہتاتھا مگر راہب کی دعوت پر وہ صاحب ِ ایمان، اللہ کے دین کا داعی بن گیا،اس کی دعوت پھیلتی گئی اورلوگوں پر اثر ڈالتی گئی ، بادشاہ کے وزیر نے بھی اس کی دعوت قبول کی۔ بادشاہ نے وزیر ، راہب اور نوجوان تینوں کو گرفتار کیا، راہب اور وزیر کو کفر اختیار کرنے کے لیے ڈرایا دھمکایا، وہ نہیں مانے تو انہیں شہید کیا ،اس کے بعد پھر نوجوان کی باری آئی ،یہاں تک ہم پہنچ گئے تھے، آگے کا واقعہ پھرکچھ یوں ہے :
’’بادشاہ نے نوجوان کو (بھی )اپنے دین میں واپس آنے کی دعوت دی، اس نے انکار کیا۔سزا میں بادشاہ نے اُسے اپنے سپاہیوں کے حوالے کیا، اور حکم دیا کہ پہاڑ کی چوٹی پر اسے لے جاکر اپنے دین سے پلٹنے کی دعوت دو، مان گیا توٹھیک ، نہیں ماناتو پہاڑسے نیچے گرانا، پہاڑکی چوٹی پر پہنچ کر نوجوان نے کہا۔’ اللَّھُمَّ اكْفِنِيھِمْ بِمَا شِئْتَ‘ ’اے اللہ ان کے مقابل جیسے تو چاہے میرے لیے کافی ہوجا‘،سپاہی سب پہاڑ سے گر کر مرگئے جبکہ نو جوان صحیح سالم واپس بادشاہ کے دربار میں پہنچا اور بادشاہ کو بتادیا کہ اللہ نے اسے بچالیا۔ بادشاہ نے ایک دفعہ پھر اسے اپنے سپاہیوں کے حوالے کیا اور حکم صادر کیا کہ اسے کشتی میں سوار کرکے سمندر میں لےجانا،اگر تو بات مان گیا تو واپس لانا ، ورنہ سمندر میں گرادینا، نوجوان نے پھر سے وہ دعا پڑھ لی ، سپاہی غرق ہوگئے اور خودنوجوان بحفاظت ایک دفعہ پھر بادشاہ کے دربار میں پہنچ گیا۔‘‘
حلقۂ حالیہ کے زیر بحث نکات
نوجوان بادشاہ سے کیوں نہیں بھاگا ؟ وہ باربار دربار ہی کا رُخ کیوں کرتاتھا؟ پھر بادشاہ نے نوجوان کو دورپار بھیج کر خود اپنے ہاتھوں اس کی دعوت کی تشہیر کیوں کرائی ؟ راہب اور وزیر کی طرح اسے بھی دربار میں ہی قتل کیوں نہیں کیا ؟…… اس ضمن میں اللہ کی اس سنت کا ذکربھی ہوگا کہ اللہ تکوینی طور پر حق کے لیے ماحول پیدا کرتاہےاور اس میں بعض اوقات دشمنان دین کو اندھا کرکے ان سے بھی ایسے کام کرواتاہے جو حق کی تقویت وترویج میں مفید ثابت ہوتے ہیں ۔ اس پربھی بات ہوگی کہ کیا مجاہدین کو باطل کی ایسی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے یانہیں؟ اگر ہاں تو اس کے حدود و ضوابط کیا ہیں؟ اس کے بعد تحریک ِ جہاد کی اس تباہی کا ذکر ہوگا جو باطل سے بلالحاظ قواعد وضوابط تعاون لینے کے سبب آتی ہے اور جس کی وجہ سے یا تو قافلۂ جہاد راہِ راست سے اترجاتاہے اور یا مجاہدین بے اختیار ہو کردوسروں کے ہاتھ میں ہتھیار اور کھلونے بن جاتے ہیں ، آخر میں پھر طواغیت کے اثر سے آزاد جبکہ شریعت مطہرہ کے تابع جہاد پر بات ہوگی،اور اس کے تحت عرض کریں گے کہ وہ توازن کیا ہے کہ جس کو اپنا کر تحریک ِ جہاد اردگرد کے ماحول سے لاتعلق بھی نہیں رہتی، اسے اپنے حق میں استعمال بھی کرتی ہے مگرساتھ ہی اپنے مقاصد و مبادی سے بھی نہیں ہٹتی ہے ،نہ دشمن کی آلۂ کار بنتی ہے اور نہ ہی اپنے ہاتھ خودکشی کرتی ہے ……بسم اللہ کرتے ہیں، نقطہ وار آگے بڑھیں گے :
راہ ِپُر خطر کا ہی ہر بار انتخاب کیوں ؟
نوجوان یہ کرسکتاتھا کہ بادشاہ سے بھاگ کر اپنے لیے دور کوئی گوشۂ عافیت ڈھونڈتا اور باقی ماندہ زندگی خطرات سےمحفوظ ہوکر چین وآرام کے ساتھ گزار تا ، مگر اس نے ایسا نہیں کیا ، وہ الٹے پاؤں واپس دربار ہی میں آیا ،بادشاہ کے سامنے حق کی دعوت بن کر کھڑا ہوا اور یوں خود ہی کئی بار اپنے آپ کو خطرے میں ڈالا…… یہ سب اس لیے کہ وہ دکھانا چاہتاتھا کہ یہ دین حق ہے ، اس کی دعوت حق ہے اور ا ہم یہ کہ اس حق کو غالب کرنے کی سعی میں وہ شہادت چاہتاتھا، راہِ حق میں سرکٹوانا اس کی آرزو تھی اور یہ وہ خواہش تھی کہ جو خطرات سے بھاگنے کی جگہ خطرات میں کودنے پر اسے مجبور کرتی تھی ، اللہ کوپانے کی یہ چاہت ہی تھی جو اس کو آرام سے بیٹھنے نہیں دیتی تھی بلکہ اُسے سکون ہی اس بے سکونی میں ملتاتھا اور یہ وہ صفت ہے جو اللہ کو محبوب ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان مبارک ہے ’’مِنْ خَيْرِ مَعَاشِ النَّاسِ لَهُمْ، رَجُلٌ مُمْسِكٌ عِنَانَ فَرَسِهِ فِي سَبِيلِ اللهِ، يَطِيرُ عَلَى مَتْنِهِ، كُلَّمَا سَمِعَ هَيْعَةً، أَوْ فَزْعَةً طَارَ عَلَيْهِ، يَبْتَغِي الْقَتْلَ وَالْمَوْتَ مَظَانَّهُ……الخ‘‘۔’’ لوگوں میں بہترین زندگی اس شخص کی ہے جو اپنے گھوڑے کی لگام تھامے اس کی پشت پر اللہ کے راستے میں اڑا جا رہا ہو جہاں وہ دشمن کی آواز سنے یا خوف محسوس کرے تو اسی طرف اُڑ کر جائے، قتل اور موت کو اس کی جگہوں میں تلاش کرتاہے ۔ ‘‘ زندگی ان کی بہترین نہیں ہے جوہر اس سمت بھاگے جاتے ہیں جہاں چار دن کی زندگی کا کوئی فائدہ نظر آتاہو ، بلکہ زندگی ان کی اچھی ہے جو اپنی جان ومال کی پرواہ کیے بغیراللہ کی خاطر موت کوگلے لگاتے ہوں ۔ حق و باطل کے بیچ معرکہ جب گرم ہو تو اللہ سے محبت کرنے والے یہ رجالِ کار اس سے ’بچ نکلنے ‘ کا جشن نہیں منا تے ہیں، کنارے پر بیٹھ کر بےکار تجزیوں اور تبصروں میں وقت ضائع نہیں کرتے ہیں ، یہ عمل ڈھونڈتے ہیں اور عمل میں ہی انہیں سکون ملتاہے، یہ جانتے ہیں کہ اعتبار زیادہ عرصہ چلتے رہنے کا نہیں بلکہ آخری خاتمے کاہے اور خاتمہ بالخیر انہی کو ملتاہے جو اس راہ پر مسلسل چلتے ہیں ، سو قید و بند کی عقوبتیں اور ہجرت و جہاد کی صعوبتیں انہیں سفر پر نظر ثانی نہیں کرواتیں اور نہ ہی دنیا کی حقیر متاع ان کی آنکھوں پر پردہ ڈالتی ہے ، عرصۂ دراز تک آزمائشوں سے گزرنے کے باوجود بھی یہ رکتے نہیں ، تھکتے نہیں ، بیٹھ نہیں جاتے ہیں بلکہ ان کا عشق انہیں دوبارہ آتش نمرود میں کودنے کے لیے واپس لاتاہے، فرار اور قرار کے راستے اگر ان کے آگے کھولے جائیں اور دشمن خود ہی انہیں اگر ’باعزت‘ واپسی کے ’محفوظ ‘ راستے کی پیشکش بھی کرے، یہ حق پرسمجھوتہ نہیں کرتے ، اپنے اعمال دریا بردہونے سے بچانا ان کی فکر ہوتی ہے اور حق پر یہ سمجھوتہ ان کی نظر میں بدترین تباہی ہوتی ہے، باطل جھکے تو جھکے اور باطل ہی نے بالآخر جھکنا ہوتاہے مگر حق کو کبھی بھی یہ باطل کے در پر جھکاتے نہیں ہیں۔پس یہ ڈٹے رہتے ہیں اورواپسی کا نہیں سوچتے ہیں، بلکہ میدان اگر سرد پڑ جائے تویہ ایک دفعہ پھراسے گرماتے ہیں، ساتھی اگر بکھر جائیں تو یہ جھنڈا گاڑ کر انہیں پکار تے ہیں ، حق پر ڈٹنے اور اس کی تکالیف پر صبر و ثبات کی یہ ایک دوسرے کو تلقین کرتے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ یہ جہاد کبھی ختم نہیں ہوگا، طواغیت چاہے جو بھی دام تیار کریں ہم کسی دام میں آنے والے نہیں ۔اللہ کے دین کو اپنے دانتوں سے پکڑے رکھنا، دوسروں کو اس سے جوڑنے کی سعی کرنا اور اس کو غالب کرنے کی خاطر یہ جہاد وقتال اور دعوت واعداد کافرض ادا کرنا چونکہ انہیں دنیا کی ہر راحت سے زیادہ محبوب ہوتاہے، اس لیے انہیں اسی میں سرور ملتاہے اور اسی کے ساتھ ان کے سارے دکھ وسکھ مربوط ہوتے ہیں ۔یوں ایک معرکہ سر کرکے یہ دوسرے میں گھستے ہیں،ایک محاذ سے فارغ ہوکر دوسرا تلاش کرتے ہیں ، خود بھی چلتے ہیں اور ساتھ دوسروں کو بھی چلاتے ہیں اور اس وقت تک چلتے ہیں جب موت انہیں گھیر لیتی ہے ، یہی اچھی زندگی ہے ، مبارک اور اللہ کو محبوب زندگی ہے اور اسی زندگی کو اپنانے کا یہ نوجوان ، یہ واقعہ ہمیں دعوت دیتاہے!
ایک دعا جو یقین کے ساتھ جب مانگی جائے!
جب سپاہی نوجوان کو قتل کرنے لگتے ہیں تو وہ دعا مانگتاہے ،’’اللھم اکفنیھم بما شئت‘‘ اللہ اس کوبچالیتا ہے جبکہ سپاہی الٹا ہلاک ہوجاتے ہیں ۔ یہ بہت مؤثر دعا ہے ، اللہ سے یہ مانگنا اور صرف زبان سے مانگنے پر اکتفا نہیں کرنا ، بلکہ اس سے قبل دل و جان سے اللہ کو اپنے لیے کا فی سمجھ لینا ، یہ یقین رکھنا کہ مجھے صرف وہی کچھ پہنچے گا جو میرا رب چاہے ، مخلوق مجھے صرف اتنا نقصان دے سکتی ہے جتنا اللہ کو منظو رہو ، اور اگر وہ اللہ مجھے بچانا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت میرا ایک بال بھی بیکا نہیں کرسکتی ،ایک مومن سے یہ یقین و تصور مطلوب ہے اور اس کے ساتھ جب اللہ سے یہ دعا مانگی جائے تو ایک تو یہ عبادت ہے ، اللہ کی قربت کا ذریعہ ہے ، دوسرا یہ کہ اس کے سبب بڑی سے بڑی مشکل بھی اللہ آسان کردیتاہے۔اس دعا میں دراصل مخلوق سے مکمل ناامیدی و مایوسی کا اظہار ہے کہ مخلوق خود کسی بھی خیر و شر کی مالک نہیں ، جبکہ خالق ہی سے مکمل طورپر امید و آس کا اعلان ہے اور اسی سے ہی مدد مانگتے رہنے کا عزم ہے ۔ ابراہیم علیہ السلام کو جب منجنیق میں بٹھاکر آگ میں ڈالا جانے لگا، تو حضرت جبرائیل علیہ السلام فضا میں نمودار ہوئے ، پوچھا ’أَلَكَ حَاجَةٌ‘، ’کیا آپ کی کوئی حاجت ہے؟ ‘سبحان اللہ !!کس نے سوال پوچھا؟ کیا سوال پوچھا اور جن سے پوچھا،ان کے کس حال میں پوچھا ! جواب دیکھیے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کیا جواب دیتے ہیں ؟ فرمایا ’أَمَّا إِلَيْكَ فَلَا ‘’’ اگرتمہارے لیے (کہ تم میری حاجت پوری کرو) تو نہیں ہے!‘‘پھر آپ علیہ السلام نے’حسبی اللہ و نعم الوکیل‘فرمایا،یعنی صرف اللہ کو اپنے لیے کافی اور مددگار ٹھہرایا اور پھر جب آگ میں گرے تواسے اللہ کے اذن سے اپنے لیے گل و گلزار پایا۔ ہجرتِ مدینہ کے موقع پر جب مشرکین مکہ آپﷺ کے تعاقب میں تھے اور سراقہ بن مالک آپﷺ کی تلاش میں آپ ﷺ کے قریب پہنچ گئے تو آپ ﷺ نے نوجوان والی یہ دعا مانگی ، فرمایا ’’اللھم اکفنیھم بما شئت‘‘ سراقہ کا گھوڑا اسی جگہ زمین میں دھنس گیا ۔ تو اللہ ہی اپنے بندوں کے لیے کافی ہے اور وہ ہی اکیلے اپنے بندے کی حفاظت کرسکتاہے، بس ضروری ہے کہ بندہ خاص اپنے رب کاہوکر رہے، اسی سے امید رکھے ، اسی سے مانگے اور اس کے سوا کسی کے خوف اور کسی کی طمع کو اپنے دل میں جگہ نہ دے ۔
نصرت الٰہی کا تکوینی انتظام
بادشاہ نے راہب اور وزیر کو دربار میں قتل کیا مگر نوجوان کو پہلے پہاڑ اور پھر سمندر بھیجا، وہاں اس کے ہاتھ پر اللہ نے جو کرامت لوگوں کو دکھائی، اس کے سبب اس کی دعوت کا مزید چرچا ہوا ، بادشاہ کویہ شدید ناگوار تھا کہ اس نوجوان کی دعوت پھیل جائے مگر خود بادشاہ کی یہ مہلت اور اسے دور دراز بھیجنا نوجوان کی دعوت کے پھیلنے کا باعث بنی ۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتاہے کہ بادشاہ نے کیوں اپنے ہاتھوں ہی وہ کچھ کیا کرایا جس سے وہ بچنا چاہتاتھا ؟ یہ سارا یہ دکھاتاہے کہ بندوں کی تدبیر جو بھی ہو ، تقدیر وتدبیر اللہ کی غالب آتی ہے ،بارہا ایسا ہوا ہے کہ باطل کو اللہ اس قدر اندھا اور مجبور کرتا ہے کہ وہ خود ہی وہ کچھ اپنے ہاتھ سے کرجاتاہے جس سے الٹا حق کو فائدہ ہو جاتاہے ۔ یہاں بادشاہ نوجوان کی جان لیناچاہتاتھا مگر ساتھ ہی اس کے دل میں یہ خواہش بھی تھی کہ اگر یہ اپنے دین سے پھر کر اس کا سپاہی بن گیا تو اس سے بادشاہ مضبوط ہو گا۔ اس رغبت کو اللہ نے وہ ذریعہ بنایا کہ جس سے بادشاہ نے اسے فوراً قتل نہیں کیا ۔فرعون نے بھی موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے انہیں قتل کر نے کی تیاری کی ہوئی تھی ، ایسی بلا کی منصوبہ بندی اس نے کی تھی کہ بنی اسرائیل کا یہاں بچہ پیدا ہوتے ہی اسے قتل کیا جاتا تھا، مگر کیا ہوا کہ جب موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوکر دنیا میں آتے ہیں اور ان کی والدہ انہیں صندوق میں ڈال کر دریا میں ڈالتی ہیں ، پھر وہ صندوق فرعون کے محل میں جب داخل ہوتاہے تو فرعون خود ہی موسیٰ علیہ السلام کو اٹھاتاہے اور اپنے ہی محل میں شہزادہ بناکر انہیں پالنا شروع کرتاہے۔ اللہ نے یہاں فرعون کی بیوی کے دل میں بچے کی محبت ڈالی اور اس محبت کوموسیٰ علیہ السلام کے زندہ رکھنے کا سبب بنایا، پھر فرعون خود ہی اپنے اُس دشمن کو پالنے لگا کہ جو بالآخر اس کے غرق ہونے اور اس کی بادشاہت ختم کرنے کا باعث بنا ۔گویا ایک طرف فرعون کی منصوبہ بندی تھی اور دوسری طرف اس کے خلاف اللہ کی وہ تدبیر وتقدیر تھی کہ جس کے تحت اللہ کا یہ دشمن خود اپنے ہی خلاف استعمال ہوا، ﴿ وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ ﴾… …غرض اللہ جب نصرتِ حق کا ارادہ فرماتاہے توپھر اسباب کی دنیا میں اس کا اہتمام وہ اپنی حکمتِ بالغہ سے کر دیتاہے اور ایسے میں اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں کہ اپنے دشمنوں تک کو بھی اس کے لیے سبب بنالیں ،ایسے میں بظاہر تو کوئی کفریہ قوت اس کا سبب بنتی ہے اور وہ اپنی کسی مجبوری یا رغبت کے باعث حق کے لیے راستہ کھولتی ہے مگر حقیقت میں یہ اللہ ہی کا وہ تکوینی انتظام ہوتاہے جس میں وہ دنیاوی طاقت تقدیرِ الٰہی کے آگے بے بس ہوتی ہے ۔ اللہ کے پاس لشکروں کی کمی نہیں ، مگر وہ رب قدیر اپنے فیصلوں کی تکمیل میں جب کافروں تک کو استعمال کرتاہے تو اس سے اللہ کی شانِ قدیری نظر آتی ہے اور جھوٹے خداؤں کی چالوں کے مقابل’ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ ‘کی زندہ و عملی تفسیر دنیا کے سامنے آجاتی ہے، نیز اس سے اللہ غالباً یہ بھی دکھاتاہے کہ خدائی کے دعویدار یہ طواغیت تکوینی طورپر اللہ کے سامنے کیسے مجبورِ محض ہیں اور ان کا علم کس قدر محدود ،نظر کتنی کوتاہ اورطاقت کس قدرضعیف ہے ۔
تمکین دین کا تصور
باطل چاہتاہے کہ دنیا میں جہاں بھی کوئی خیر ہو ، وہ اسی کا کرشمہ نظرآئے اور کہیں بھی کسی بھی انداز میں یہ خیر حق کے ساتھ کبھی نظر نہ آئے، یہی وجہ ہے کہ اگر کہیں باطل مجبور ہوکر حق کے فائدے میں استعمال ہوجاتاہے اور اللہ حق کو غلبہ عطا کرتاہے تو پھر پروپیگنڈہ کیا جاتاہے کہ حق کے اندر خود اپنی کوئی قوت اور جان نہیں تھی ، بلکہ وہ فی الاصل فلاں اور فلاں کا ایجنٹ تھا ، اس کی مدد سے یہ میدان میں تھا اوراسی کے لیے یہ کام کر رہاتھا ۔ایسے میں حق اگر واقعی حق ہو ،مقصد و ہدف میں بھی اور عمل وطریق کار میں بھی ، تو جلد ہی اس جھوٹ کا پول کھل جاتاہے اور نظر آجاتاہے کہ اہل حق کسی کے ایجنٹ نہیں ،بلکہ یہ اپنا ایک مقصد ، ایک نظریہ ، ایک منزل اور اس منزل تک پہنچنے کااپنا ایک خاص طرزِ عمل رکھتے ہیں ، اسی کی خاطر یہ دنیا سے برسرِجنگ بھی رہتے ہیں اور اسی کے لیے ضرورت پڑےتو دنیا کو استعمال بھی کرتے ہیں ۔ لہٰذا اہل حق کو باطل کے پروپیگنڈوں کی طرف زیادہ دھیان نہیں دینا چاہیے بلکہ اپنی توجہ اپنے مقصد کی پاکی ، دعوت کی سچائی اور کردار کی پختگی پر مرکوز رکھنی چاہیے کہ اسی میں خود اپنی کامیابی ہے ، حق کی نصرت ہے اور اسی کے ذریعہ ہی باطل کے پروپیگنڈوں کا زور ٹوٹے گا ۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ ہمارے ہاں بعض حلقے ان پروپیگنڈوں سے متاثر بھی ہوجاتے ہیں اور وہ رد عمل میں ایسی دوسری انتہا پر چلے جاتے ہیں کہ پھر حق کے وجود ، اس کی تحریک اور زمین پر اس کے جڑپکڑنے اور آگے بڑھنے کے متعلق ایک ایسا تصور اپنالیتے ہیں اوراس پر دوسروں کو بھی پرکھتے ہیں کہ جو بالکل غیر عملی اور خیالی ہوتاہے، وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وسائل ِدنیا پر باطل کا قبضہ ہو ، تو حق دنیا سے الگ تھلگ خلا میں پرورش پاتاہے ، تنہائی میں وہ اپنی قوت پیدا کرتاہے اور پھر وہاں سے ہی آکر باطل کا مقابلہ کرتاہے، لہٰذا وہ سمجھتے ہیں کہ حق کسی بھی حالت میں کسی اور سے کبھی بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں کرتا، باطل کے آپس کی کسی کشمکش ، ان کی صفوں میں موجود دراڑوں ، ان کے مفادات میں ٹکراؤیا کسی بھی اور وجہ سے اگر حق کو اپنے لیے فائدہ اٹھانے کا موقع ملتاہے تو حق کے شایانِ شان نہیں کہ وہ ایسے مواقع سے کام لے اور انہیں اپنے مقصد کے حق میں استعمال کرے…… یہ ساری باتیں اچھی خواہشات تو ہوسکتی ہیں ، مگر عملاً اکثر و بیشتر نہ ایسا ہو ا ہے اور نہ ہوتا ہے۔ اللہ نے اپنا تکوینی نظام کچھ اس طرح بنایا ہے کہ حق کو اپنے سفر میں صراطِ مستقیم پر قائم رہتے ہوئے اردگرد کے ماحول کو بھی استعمال کرنا ہوتاہے۔ آپﷺ دعوتِ توحید لےکر مکہ میں جب اٹھے اور مشرکین مکہ کی بدترین دشمنی کا آپؐ نے سامنا کیا تو اس عرصے میں دس سال تک آپﷺ ابوطالب کی پناہ میں رہے، حالانکہ ابوطالب مسلمان نہیں تھے، اسی طرح سفر ِ طائف سے واپسی پر ،جب کہ ابوطالب فوت ہوچکے تھے اور آپﷺ کے لیے مکہ میں اپنا دفاع خود کرنا آسان نہیں تھا، آپﷺ نے مطعم بن عدی کی طرف پناہ کے لیے پیغام بھیجا،حالانکہ وہ بھی مسلمان نہیں تھے ، ابن عدی نے آپﷺ کا پیغام منظور کیا اور اگلے دن اپنےسات بیٹوں سمیت مسلح ہوکر آپﷺ کے ساتھ بیت اللہ گئے، آپﷺ نے طواف کیاجبکہ ابن عدی اور اس کے بیٹےمطاف میں پہرے پرکھڑے رہے ۔ ابوطالب اور مطعم بن عدی دونوں کے ہاں یہ قبائلی غیرت اور خاندانی محبت تھی کہ جسے اللہ نے آپﷺ کی نصرت کا ذریعہ بنایا ۔ لہٰذا اہل حق کو اپنی انتہائی ضرورت میں اس قسم کے اسباب سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے،یہ تمکین ِ حق کا عملی تصور ہے ، مگر یہ طرزِ عمل بھی مشروط ہے ، اس طرح کہ اس فائدے کی خاطر شریعت کے کسی اصول پر مداہنت نہ ہو، بلکہ یہ عمل مکمل طورپر شرعی قواعد و ضوابط کے تحت ہو ، اگر ایسا نہ ہو ، تو خود کفار کے ساتھ ایسا کوئی تعامل ہی حق کی بربادی کا باعث بن سکتاہے اور اسی کے سبب حق کے خلاف باطل کو برتری حاصل ہوسکتی ہے ۔آپﷺ نے اگر ابوطالب یا کسی اور کی پناہ حاصل کی تھی ، اسی طرح مدنی زندگی میں کفار کے ساتھ آپﷺ نے اگر معاہدات وغیرہ کیے ہیں، یا اتحاد تشکیل دیے ہیں تو اس ساری سیرت سے کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملے گی کہ جس میں آپﷺ نے حق پر رتی برابر مداہنت کی ہو، اس سارے عمل میں باطل کے بطل کوکبھی بھی آپ ﷺنے صحیح نہیں کہا، بلکہ اتحاد کا کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ آپ ﷺ نے حق کے نقصان پر باطل کو فائدہ پہنچایا ہو ۔ ہمیشہ ہر تعامل اور ہر معاہدے و اتحادمیں آپ ﷺ نے دوسروں سے حق کی نصرت کاکام لیا ،یہاں تک کہ اگر کسی نےاپنی مدد وتعاون کو حق کا کچھ حصہ چھوڑنے کے ساتھ مشروط کیا تو آپ ﷺ نے علی الاعلان کہہ دیا کہ میرے ایک ہاتھ میں کوئی سورج رکھے اور دوسرے میں چاند ، یعنی دنیا کی ساری نعمتیں بھی میری جھولی میں اگر رکھی جائیں تو میں اس حق سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹوں گا، اور ایسے ہی ایک موقع پر فرمایا کہ کوئی میرا ساتھ دے یا نہ دے ، میں اکیلے اس حق کو بیان کروں گا، اس ذمہ داری کو ادا کروں گا، چلتارہوں گایہاں تک کہ غالب آجاؤں یا اسی میں قتل ہوجاؤں ۔لہٰذا باطل کے ساتھ اس قسم کے تعامل کا مقصد و ہدف بہرحال واضح ہو ، اور وہ یہ کہ مدنظر حق کافائدہ ہو،نہ کہ حق کے نقصان کی قیمت پر اہل حق کا دنیاوی فائدہ ، آپﷺ کی سیرت کا ہر قدم ہمیں سبق دیتاہے کہ اہل حق تنگی ،پریشانی اور قربانیوں پر قربانیاں دینا بےشک برداشت کریں ، یہ سب اس خاطر کہ حق قوی ہو ، نہ کہ یہ ،کہ حق تو کمزور و مغلوب ہو رہاہو، اور جو لوگ اپنے آپ کو اہل حق سمجھتے ہوں ، ان کے لیے دنیاوی وسعتیں پیدا ہورہی ہوں ۔ لہٰذا مذکور صورت میں حق کی نصرت کا مقصد تب ہی حاصل ہوسکتاہے جب باطل کے ساتھ تعامل مکمل طورپر شریعت ِ مطہرہ کے موافق ہو؛ کتب فقہ میں باطل کے ساتھ تعامل ، بالخصوص جنگ و قتال کے معاملات میں تعاون لینے نہ لینے کے اصول وضوابط فقہاء نے مفصل انداز میں بیان کیے ہیں ،ان اصولوں کی مکمل پابندی ضروری ہے ، باقی یہ خیال کہ نہیں ، کسی بھی صورت میں ، کسی بھی اصول کے تحت کفار سے تعاون نہیں لینا چاہیے،حق انتہائی ضعیف ہو اور اس کو اہل باطل کی آپس کی چپقلش کے باعث اپنے لیے فائدہ اٹھانے کا موقع بھی مل رہاہو ، مگر پھربھی اس کو یہ موقع استعمال نہیں کرنا چاہیے اور اگرشرعی ضوابط کی پابندی کے ساتھ کوئی اس راستے کو استعمال کررہاہو تو وہ بھی غلط ہے ، یہ بات صحیح نہیں ہے اور اس کا عمل کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ۔شیخ ابوقتادہ حفظہ اللہ اس متعلق فرماتے ہیں کہ مجاہدین کو اپنا قلعہ خود داخل سے ہی مضبوط کرنا چاہیے ۔وہ اس طرح کہ انہیں شرعی حدود ، نیزتحریک ِ جہاد کے مقاصد ، اس کے مصالح اور مفاسد کامکمل ادراک ہو ، اس کے بعد تمکین دین کے لیے، مذکورہ شرعی دائرے کے اندر جو بھی جائز اسباب دستیاب ہوں اور جہاں سے بھی یہ مل رہے ہوں، انہیں کام میں لانا چاہیے اور اس میں پھر کسی کے پروپیگنڈے پر کان نہیں دھرنا چاہیے۔ شیخ کہتے ہیں کہ ایسا اگر نہیں کریں گے تو یہ تمکین کا ایک خیالی تصور ہوگا اوراس تصور کے ساتھ چل کر اہل حق شاید ہی کبھی زمین پر قدم جما سکیں۔
اہم تر موضوع دوسرا ہے!!
یہ تو اصولی بات ہوئی جو اپنی جگہ اہم تھی ، کہ اللہ کی تکوین کو ہم سمجھیں، عالم اسباب میں اسباب کو اپنا مقام دیں، مبادی اور محکم اصولوں پر قائم رہتے ہوئے اپنے لیے راہیں تلاش کریں اور جہاں طواغیت کے باہمی اختلافات سے فائدہ اٹھانا ممکن ہو ، وہاں فائدہ اٹھائے بغیر نہ رہیں اور حدود ِ شرع کے اندر رہتے ہوئے ایسے راستوں کو بھی اپنے اوپر یکسر بند نہ کریں …… مگر یہ اس موضوع کا ایک رُخ ہے، اس سے زیادہ اہم اور بہت خطرناک رُخ دوسرا ہے،اور ہماری پچھلی ساٹھ ستر سال کی تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ اس دوسرے رویے کے سبب جہادنے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا ہے اور متعدد میادیِنِ جہاد گواہ ہیں کہ امتِ مظلومہ کو اس طرزِ عمل کے باعث ہمیشہ ناکامی ونامرادی کا سامنا ہوا ہے،موضوع کا یہ دوسرا رُخ اہم تر اس لیے بھی ہے کہ ماضی میں مجاہدین کے پاس مصالح ِ جہاد کا مکمل خیال رکھتے ہوئے بھی کسی سے تعاون لینے کے آپشن موجود تھے اور انہوں نے یہ تعاون نہیں لیاہو، اور پھر اس کے سبب جہاد کا کوئی بڑا نقصان بھی ہوا ہو ، ہماری نظر میں اس کی کوئی مثال شاید نہیں ہے ،مگر یہ کہ تعاون کے سبب تحریک جہاد ناکام ہوئی ہو ، اس کے ثمرات طواغیت نے لوٹے ہوں ، امت مسلمہ کے پاکیزہ جذبات طواغیت نے اپنی خودغرضی کی بھینٹ چڑھائے ہوں اور اس حد تک ان قربانیوں کا استحصال کیا ہو کہ آئندہ کے لیے ان مظلومین کواٹھانا آسان نہیں رہا ہو، ایسے بدترین اور انتہائی بے رحم دھوکے کی مثالیں آج کی تاریخ میں ایک نہیں ، کئی موجود ہیں اور افسوس ہے کہ یہ دام ِ ہم رنگ زمین آج بھی بعض محاذوں پر بکھرے پڑے ہیں اور مجاہدین میں سے کئی گروہ اپنے اخلاص مگر سادگی کے سبب یا غلط حسن ظن اورقابل افسوس عجلت پسندی کے باعث خود بھی ہلاکت کے ان گڑھوں میں گررہے ہیں اور امت مظلومہ کو بھی ساتھ گرا رہے ہیں ۔ یہ موضوع اس لیے بھی اہم ہے کہ تحریکوں کی ناکامی کے بعد عام طور پر تأثر یہ لیا جاتاہے کہ جس کام کا بیڑا اٹھایا گیا تھا ، وہ آسان نہیں مشکل بلکہ ناممکن تھا ، دشمن کی طاقت بہت زیادہ تھی اور اس کے سمجھنے میں ہماری یہ غلطی ہی تھی کہ جس کے سبب نقصان بھی ہم نے اٹھایا اور مقصود بھی حاصل نہیں کیا، حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے اور وہ اس طرح کہ ناکامی کے اسباب تحریک سے باہر نہیں بلکہ خود اس کے اندر، اس کے اختیار میں ہوتے ہیں۔اگر تحریک خود اپنے اندر ایسی خامی نہ چھوڑتی کہ جو اسے ناکام کرسکتی تو دشمن کی طاقت کبھی بھی ناکامی کا سبب نہ بنتی ۔جہادی تحریک کا کسی ملک سے تعاون لینے اور اس پر انحصار کرنے کا موضوع تحریک جہاد کے ان حساس ترین موضوعات میں سے ہے کہ جو جہاد کی کامیابی یا ناکامی کا باعث ہوسکتے ہیں ۔
بے منزل اورغیر شرعی راستہ
طواغیت سے تعاون ایک مہلک طرزعمل اس لیے بنتاہےکہ اس میں شرعی ضوابط ، مقاصد ِ جہاد اور جہادی مصالح کاخیال رکھے بغیر تعاون لیاجاتاہے، ایسا تعاون کہ جس کے سبب تحریک ِ جہاد کی خودمختاری ختم ہوجاتی ہے اور تحریک یا تو طواغیت کے کھیل کا ایک مہرہ بن کر ناکام ہوجاتی ہے یا دوسری صورت میں طواغیت کی طرف سے مجاہدین سے غیر شرعی اقدامات اٹھوائے جاتے ہیں اور انہیں خودکشی کے ایسے راستے پر ڈالا جاتاہے جہاں ان کی تحریک اپنے ہی مسلمان عوام کے اندر اجنبی ، الگ تھلگ اور بالکل قابل نفرت بن جاتی ہے ۔
کتبِ فقہہ میں کفار سے تعاون کے متعلق جو اصول فقہاء نے مرتب کیے ہیں ، ان کے مطابق جہاد میں کفار سے تعاون لینا نہ تو مطلقاً جائز ہے اور نہ ہی مطلقاً ناجائز ہے، لینے کے بھی حدودو شروط ہیں اور نہ لینے کے بھی اسباب و علل ہیں، ان میں متعدد ایسی صورتیں بھی بیان ہوئی ہیں کہ جن میں یہ تعاون لینا ناجائز ہوجاتاہے اور یہ بھی واضح امر ہوتا ہے کہ اگر اُن صورتوں میں بھی مدد لی گئی تو تحریک خود ہی اپنے راستے سے ہٹ جاتی ہے اور بالآخر کسی بین الاقوامی ’ایگریمنٹ ‘ کی بھینٹ چڑھ کر تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے1 ،مگر افسوس ہے کہ بعینہ انہی صورتوں میں تعاون لیا جاتاہے اور جب اس طرز ِ عمل پر نقد کی جاتی ہے ، اصلاح کی درخواست کی جاتی ہے تو جواب دیا جاتاہے کہ ایک کافر کے خلاف دوسرے سے تعاون لینا کس نے حرام کیا ہے؟ اس کی تو سیرت میں بھی مثال موجود ہے اور پھر ’طاغوت سے تعاون لینے کی شرعی حیثیت ‘ بیان کرکے ، بلکہ اس موضوع کا مکمل طور پر ایک رُخ پیش کرکے زہرِ ہلاہل کو تریاق پیش کیاجاتاہے ،مگر محض دکھادینے سےزہر کب دوا بنتاہے، زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہوتاہے کہ تحریک ِ جہاد اسی ایک سوراخ سے ایک دفعہ پھر ڈسی جاتی ہےاور یوں پھر جذبات ، قربانیاں اور امیدیں سب ناکامی کا سامنا کر جاتی ہیں، یہ قصۂ متکررہ ہے، کشمیر میں ہماری نظروں کے سامنے یہی ہوا ہے، اُس وقت بھی طاغوت کے ساتھ تعامل کا صرف ایک رخ دکھایاجاتاتھا کہ یہی اکسیر ہے، اس میں کوئی نقصان نہیں! نتیجتاً اس کا دردناک اور عبرت آموز انجام آج ہر ذی عقل کے سامنے ہے،یہی کہانی جہادِ شام میں بھی دہرائی گئی جہاں ترکی نے جہادِ شام کے ’محسن‘ کا کردار ادا کیا اور اس نے امریکی ، نیٹو اور سعودی واماراتی امداد کے ذریعہ متعدد جہادی گروہوں کواپنے قبضہ ٔ اختیار میں لیا2 ، یہاں تک کہ بعض ذرائع ابلاغ کے مطابق حال ہی میں ترکی کی طرف سے شامی حکومت کو مذاکرات کی دعوت دیدی گئی ہے اور چند تجاویز بھی پیش ہوئی ہیں کہ ان خطوط پر چل کر’شامی قضیے ‘ کو حل، یعنی گول کردیتے ہیں ، ان خطو ط میں مسلمانان شام کے غموں کا مداوا اور اور جہاد ِ شام کا مقصد و ہدف یعنی شریعت ِ اسلامی کی حاکمیت اور مکمل خودمختاری کا کہیں نشان نہیں ، اس کے برعکس ان میں امریکہ ، یورپ اور اسرائیل کے منظورِ نظر ایک ’ جمہوری نظام‘ کے قیام کی تجویزسرفہرست ہے اور ساتھ باقی دوسری ایسی شروط زیادہ ہیں جو ترکی کے مفادات کو تحفظ فراہم کرتی ہیں ، الحمد للہ کہ شام کے بعض جہادی گروہوں نے اس کی مذمت کی ہے اور واضح کیا ہے کہ ان کا جہاد اپنے اسلامی اہداف کے لیے ہے اور ان اہداف کے حصول تک وہ جہاد جاری رکھیں گے ۔ اسلامی اہداف اور غیر اسلامی اہداف کے بیچ تمیز بہت بڑی ہے اور اس تمیز کو تب ہی برقرار رکھا جاسکتاہے، آخر تک ان کی خاطر لڑاجا سکتاہے اور منزل مقصود تک پہنچا جاسکتاہے جب دوران ِ جہاد طواغیت کے ساتھ تعامل مکمل طور پر شرعی ضوابط کے اندر ہوا ہو ، اور کوئی بھی عمل و موقف مقاصد ِ جہاد کے منافی اختیار نہیں کیا گیا ہو، اور ایسا اگر نہ ہوتو پھر بڑے اچھے حضرات بھی اس جال ِ دجل سے بچ نہیں سکتے ہیں اور خود انہیں بھی یہ اندازہ کرنا مشکل ہوجاتاہے کہ کس وقت ان کا جہاد ان کے اپنے اختیار سے نکل کر جہاد دشمن طاقتوں کے اختیار میں چلا گیا۔
مطلوب کیا ہے؟
ضروری ہے کہ جہادکے قائدین ، علمائے کرام اور دعاۃ ِ جہاد مجاہدین اور عوا م کے ذہنوں میں جہاد کے شرعی مقاصد تازہ رکھیں اور ان کی ایسی تربیت کریں کہ ان مقاصد سے اگر کسی بھی وقت گاڑی ہٹتی نظر آئے تو تحریک میں شامل سب ہی اس پر چونکیں اور تحریک کو راہ ِ راست پر رکھنے کے لیے اپنا بھر پور زور بھی لگائیں ۔مجاہدین کے اندر طواغیت کے ساتھ تعامل اور ان سے تعاون لینے کے متعلق جو شرعی قیود وضوابط فقہائے امت نے بیان کیے ہیں اور علمائے جہاد نے اب جنہیں مرتب کیا ہے، یہ سیاست ِ شرعیہ کا حصہ ہیں ، یعنی یہ عمل کوئی بے لگام ، آزاد اور عقل وخواہش کی تابع سیاست نہیں بلکہ وہ سیاست ہے جو شریعتِ مطہرہ سے ماخوذ ہے اور جس کو شریعت ِ مطہرہ محدود بھی کرتی ہے اور ایسا رخ بھی دیتی ہے جوبالآخر دین اسلام کے غلبے ، عدل وانصاف کے قیام اور مظلومین کی نصرت پر منتج ہو ، یہ اصولی مباحث ضرور پڑھنے چاہیے اور مجاہدین میں اس فہم کا عام کرنا بہرحال ضروری ہے ۔یاد رہے کہ جنگ وقتال میں کفار وطواغیت سے تعاون لینے اور نہ لینے کے متعلق یہ بحث ایک خصوصی موضوع ہے جو کفار سے عام تعاون لینے کے موضوع سے منفرد ہے ، اس پرشیخ ابویحییٰ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’المورد العذب لبيان حكم الاستعانة بالكفار في الحرب‘‘ میں موضوع کے متعلق احادیث اور فقہاء کے اقوال کو جمع بھی کیا ہے اور پھر ان کا نچوڑبھی اصولوں کی صورت میں تحریر کیا ہے ۔ ذیل میں ہم ان میں سے بعض اہم اصولوں کو اپنے الفاظ میں عرض کرتے ہیں:
- اہم نکتہ جو مؤلفِ ِ کتاب رحمہ اللہ نے متعدد دلائل اور فقہاء کے اقوال پر طویل بحث کرنے بعد نکالا ہےیہ ہے کہ کفار سے کفار کے خلاف قتال کے لیے تعاون لینے کا حکم اصلاً نہی ، یعنی منع کا ہے اور اس منع کرنے کے دلائل صحیح ، صریح اور فیصلہ کن ہیں ، پھراس حکم سے تعاون لینے کے حق میں بعض استثناءات مخصوص ہیں اورجواز کی یہ صورتیں صرف اُس وقت کی ہیں جب مجاہدین کو شدید حاجت ہو ۔ پھرمزید اہم بات یہ ہے کہ اس انتہائی ناگزیر حاجت میں بھی یہ تعاون صرف ایسی کڑی شروط و ضوابط کے ساتھ لیا جائے گا جو فقہاء کرام نے بیان کیے ہیں۔ان شروط میں سے بعض درج ذیل ہیں۔
- کوئی ایسی امداد نہیں لی جائے گی کہ جس کے سبب جہاد اپنے مقصد ِ شرعی ، یعنی اعلائے کلمۃ اللہ سے ہٹ جائےاور نتیجتاً اللہ کا دین مغلوب جبکہ کفار وطواغیت کا حکم غالب ہوجائے ۔
- ایسا تعاون منع ہے کہ جس کے سبب اہل جہاد خود عملاً بے اختیارہوجائیں اور جہاد کے حال و مستقبل کا فیصلہ کفار و طواغیت کے ہاتھوں میں جانے کا امکان ہو ۔
- ایسی امداد بھی قبول نہیں ہوگی جس کا مقصد مجاہدین کی فکر ، نظریات اور پالیسی کو متاثر کرناہو ۔
- اگر کسی کافر کا کردار سازش ومنافقت کے طور پر مشہور ہوتو اس سے امداد نہیں لی جائےگی ۔
- اور آخر میں یہ بھی کہ اگرمجاہدین کے پاس اتنی قوت و اہتمام موجود ہو کہ اگر امداد دینے والا خیانت و غداری کرے تو وہ اس کے شر سے اپنی حفاظت کر سکیں گے تو یہ امداد لینا جائز ہے ،ورنہ دوسری صورت میں لینا صحیح نہیں ہوگا۔
راستہ کب چُھوٹتا ہے؟
ذکر کردہ اصول اور یہ پوری بحث مذکورہ کتاب میں پڑھی جائے تو ان شاء اللہ فائدہ ہوگا، ذیل کی سطور میں ہم نکات کی صورت میں چندمزید اشارات عرض کیے دیتے ہیں کہ آج کے دور میں طواغیت ِ عصر کیسے جہادی تحریکوں میں نقب لگاتے ہیں اور وہ کیا اہداف ہیں کہ جن کے لیے وہ امداد کو استعمال کرکے جہادی جماعتوں کو شرعی مقاصد سے ہٹاتے ہیں اور اس کے بعد جہاد الٹا ان طواغیت ہی کے کھودے ہوئے گڑھے میں گر کر ختم ہو جاتا ہے ۔ان اشارات سے طواغیت کا طرزِ عمل اور جہادی جماعتوں کو گمراہ کرنے کے اسلوب کا بھی کچھ تعارف ہو گا ، ان کی چالوں سے بچنے کے لیے بھی تھوڑی رہنمائی ملے گی اور اس کے علاوہ اہم تر یہ کہ یہ ہمیں یہ بھی بتائیں گے کہ کیسے ہمیں معلوم ہوگا کہ کوئی جہادی تحریک صحیح راستے پر گامزن ہے یا اس سے صحیح راستہ چھوٹ گیا ہے اور اب ایسے راستے پر وہ چل پڑی ہے کہ جس کا انجام بالآخر طواغیت ہی کے منشا اور خواہش کے مطابق ہوگا۔اشارات ملاحظہ کیجیے :
- جہاد کا مقصدِ اساسی ، کلمۃ اللہ کی سربلندی ، یعنی اللہ کے احکامات ؍شریعتِ مطہرہ کی حاکمیت ہے ،آزادی ٔ وطن بھی اس کا ہدف ہےمگر یہ مقصود بالذات ہدف نہیں ہے ، بلکہ مقصودِ اصلی(یعنی شریعت ِ مطہرہ کی حاکمیت ) کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔ طواغیت کی کوشش رہتی ہے کہ جہاد کا مقصد شریعتِ مطہرہ کی حاکمیت نہ رہے اور اس کی جگہ جہاد کا مقصدصرف آزادی ٔ وطن تک محدودہوجائے۔ جہاد کو اس مقصدِ اصلی سے ہٹانے سے بندگان شیطان کو اپنے کفر و فسادمسلط کرنے کے لیے میدان کھلا ملتاہےاور یوں طویل قربانیوں کے بعد بھی ظلم وکفر پر قائم نظام کی صرف صورت بدل جاتی ہے جبکہ اس کی اصل حقیقت اُسی طرح اللہ کی بغاوت پر کھڑی رہتی ہے۔پس جہاد کا مقصد ِ اول اللہ کی زمین پر اس کی شریعت کو حاکم کرنا ہے، اسی کے لیے ایک مسلمان کو آزادی چاہیے ، اسی سے ہی مظلوموں کی نصرت ہوگی اور اسی سے عدل وانصاف قائم ہوگا ، لہٰذا اس پر سمجھوتہ کبھی بھی قبول نہ ہو۔
- مقصدِ جہاد میں تبدیلی اگر مشکل ہو تو دین دشمن طاقتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ شریعت کی حاکمیت ونفاذ کو کسی طرح اکثریت کی رضامندی کے ساتھ مشروط کرلیں اور یہ ایک ایسا طریق و راستہ ہے کہ جس سے اسلام کبھی بھی حاکم نہیں ہوا، یہ اس لیے کہ جمہوریت اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں ، دونوں اضداد جب ملتے ہیں تو (نام نہاد )’جمہوریت ‘تو باقی رہتی ہے مگر اصل اسلام رخصت ہوجاتاہے، اور یہی وجہ ہے کہ طواغیت کے ہاں تحریکات ِ جہاد کو بے برگ وبار کرنے کا ایک بہترین ہتھکنڈہ انہیں مجبور کرنا ہے کہ وہ اپنے جہاد کا مقصد ایک خالص شرعی نظام کا قیام نہ بنائیں ، بلکہ اس کی جگہ، یا اس کے ساتھ ساتھ ایک جمہوری نظام قائم کرنا بھی بتائیں ۔
- جہادی تحریکات کو اپنے اسلامی حقوق وفرائض سے دور کرنے کا ایک بڑا ذریعہ اقوام متحدہ کو بطورِ ثالث منوانا یا اس کے فیصلوں کی حاکمیت تسلیم کرانابھی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی اسلام دشمن کفریہ طاقت بطورِ واحد جہادی تحریکات کا خیرخواہ نہیں ہوسکتا ، اور اس کو ثالث بنانے پر کوئی مجاہدتیار نہیں ہوگاتو اقوام متحدہ تو بدرجہ اولیٰ ہی اسلام کی حاکمیت کا دشمن ہے، اس لیے کہ یہ ادارہ بدترین طواغیت کے تسلط کا ایک ذریعہ ہے اور اس کاکام ہی دنیا میں ان شیاطین کے مفادات کا تحفظ ہے، لہٰذا جہادی تحریک کو اقوام متحدہ کے پابندکرنا کسی بھی طاغوت کی طرف سے مجاہدین کو امداد دینے کا ایک اہم مقصد ہو سکتاہے اور جب کوئی جہادی تحریک یہ پابندی قبول کرتی ہے تو وہ خود ہی اپنی ناکامی کے دستاویز پر جیسے دستخط کرتی ہے،کیوں کہ ایسے میں وہ پھر ان دشمنان دین کے ہاتھ کا کھلونا بن کر رہتی ہے۔
- کسی بھی جہادی تحریک کی دوستی اور دشمنی کا معیار بہرحال شریعت ِ مطہرہ ہونا ضروری ہے ، ایسا اگر ہوگا تو وہ صحیح معنوں میں اسلامی اور جہادی تحریک ہے ، اور صرف اسی صورت میں اللہ کی نصرت کی امید کی جاسکتی ہے اور وہ کامیاب ہوگی ، ورنہ دوسری صورت میں تحریک یقینی طورپر تباہی کے گڑھے میں گر جاتی ہے، طواغیت کی کوشش ہوتی ہے کہ جہادی تحریک کو اس اہم اصول سے ہٹاکر اس کی دوستی و دشمنی ، حمایت و براءت اور محبت ونفرت کے پیمانےکسی طرح جاہلی تعصبات بنالے۔ وطنی ، گروہی ،لسانی یا نسلی تعصبات میں جب کوئی تحریک مبتلا ہوجاتی ہے تو خود بخود عدل کی جگہ ظلم لے لیتا ہے اور اس کا انجام تحریک کی گمراہی اور پھر تباہی برآمد ہوتی ہے ۔
- دشمنان دین چاہتے ہیں کہ کسی طرح جہادی تحریک کے اندر مبنی بر غلوافکار و اعمال کو ترویج ملے ، اس کے لیے تحریک ِ جہاد کے اندر غیر شرعی نظریات کے حامل افراد کو امداد دی جاتی ہےاور ان سے پھر ایسے کام لیے جاتے ہیں کہ جس سے تحریک تباہ ہو۔ داعش کےخوارج اس کی حالیہ مثال ہیں کہ کیسے مختلف استخباراتی ایجنسیاں براہ راست یا بالواسطہ اس کی مدد کرکے اس کے نظریے وفساد کو تقویت دیتی ہیں۔
- غلو اور (ناجائز )تکفیر کا زہر جہاں کارگرنہ ہو، وہاں پھر ارجاء پر مبنی ایسی سوچ پھیلائی جاتی ہے کہ جس کی رو سے شریعتِ اسلامی کے خلاف حکمرانی کرنے والے طواغیت ، طواغیت نہیں بلکہ اسلام کے خادم نظر آئیں ،اس طرح ایسے کسی تعاون کرنے والے ملک کو پھر مدینہ ثانی جیسے القابات سے بھی نوازا جاتاہے، حالانکہ اس ملک میں کفر وظلم کا ہی نظام رائج ہوتاہے۔ یہ کوشش بھی عموماً ایسے ’’خدام ‘‘ کی امداد پر سفر کرتی میدان میں داخل ہوتی ہے، پھر ان حکمرانوں کو دین و ملت کے عظیم محسن تصور کرایاجاتاہے ، ان کے قبیح افعال کی تحسین ہوتی ہے اور ان کے ہرہر فیصلے کو حسن ظن کے ساتھ دیکھنے کی تلقین کی جاتی ہے ، یہاں تک کہ کل وہی محسن پھرجہادی تحریک میں آخری کیل ٹھونکنے کا سبب بھی بن جاتے ہیں ۔لہٰذا کسی طاغوت سے کسی معاملے میں مجبوراً ( شرعی شروط پر مشروط )تعاون لینا ایک بات ہے اور یہ تعاون لیتے وقت اس کے خلاف بولنا ضروری یقیناً نہیں ہے مگر اس کو محسن ِ دین وملت تصورکرانا دوسری بات ہے اور اس کا ہمیشہ نقصان ہوا ہے!
- استخبارات کی کوشش ہوسکتی ہے کہ تحریک کا پورا اسٹرکچر ، اس کے مراکز، معسکرات ، افراد و قائدین سب ان کی نظر و نگرانی میں آجائیں ، مجاہدین کی طرف سے اس کی اجازت دینا ، اپنی تحریک مکمل طور پر اس ملک کے حوالے کرنا ہے،اس کے برعکس اپنے نظام کو اس سے مخفی اور محفوظ کرنے کی بھرپور کوشش ہو ۔
- اپنے وسائل پیدا کرنا اور بنیادی انحصار انہیں پر کرتے رہنا ضروری ہے، نیز آخری حد تک کوشش کرنی چاہیے کہ نقدی کی صورت میں تعاون کبھی نہ ہو، بلکہ ہتھیار وغیرہ جیسی انتہائی ضرورت تک ہی محدود ہو ، اس طرح اہم ہے کہ تعاون کبھی اتنی مقدار میں نہ لیا جائے کہ اگر وہ بند ہو جائے تو پوری تحریک جام ہوجائے۔ تعاون شرعی ضوابط کے اندر ،دینے والے کی طرف سے بلاشروط بھی اگر دیا جارہاہوں ،تو اس کا حجم ایک خاص نسبت سے کبھی زیادہ نہ ہو ،یہ ہوگا تو تحریک خودمختار ہوگی ورنہ دوسری صورت میں اچھے نظریات وارادوں کے باوجود تحریکیں طواغیت کے تابع ہوکر رہ جاتی ہیں ۔
- مجاہدین کی دعوت، اعلام اور تربیت کا نظام جہاد کے شرعی مقاصدکے بالکل تابع ہو نا ضروری ہے،طواغیت کی کوشش ہوتی ہے کہ اس میں ان کی خواہشات کے مطابق ردو بدل ہو، حالانکہ اس معاملے میں تھوڑی سی کمزوری دکھانا بھی تحریک کو اس کی جڑ سے اکھاڑنے کے مترادف ہے ،لہٰذا اس معاملے میں مجاہدین کو بہت چوکنا رہنا چاہیے ،ضروری ہے کہ یہ نظام بنیادی دعوت و منہج کو مکمل طورپر آگے بڑھا رہاہو اورساتھ ساتھ تحریک جہادکو جن فتنوں اور چیلنجوں کا سامنا ہو ،ان کی بھی حقیقت واضح کررہاہو۔
- آخری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ طواغیت اور ان کے تمام ایجنسیوں کے متعلق بدگمانی رکھنا واجب ہے ، ان سے کسی بھی وقت مطمئن نہیں رہنا چاہیے ، ہر وقت یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ ان کا مقصد اپنے مفادات ہیں اور اگر یہ مفاد مجاہدین کو نقصان دینے سے پورے ہو سکتے ہوں تو یہ اپنے کسی قول و عہد کالحاظ نہیں رکھیں گے ،لہٰذا ان کے حوالے سے مستقل طور پر بیدار رہنا ضروری ہے۔
یہ وہ نقاط ہیں کہ جن کی پاسداری اگر تحریک جہاد کرے اور اس کے بعد جہاں سے بھی گنجائش ملے ، رعایت ملے ، اس کو بقدرِ ضرورت قبول کرے تو اللہ کے اذن سے جہادی تحریک آگے بڑھے گی اور پوری امت کے لیے خیر و برکت کا باعث بنے گی ۔ مگر اس کے بعد ایک سوال باقی رہتاہے ، ذیل میں اس کو زیربحث لائیں گے ۔
ایک سوال اور خاتمۂ بحث
سوال یہ ہے کہ ان اصولوں کا اہتمام اگر کیا گیا تو کون مجاہدین کے ساتھ تعاون کرے گا ؟ ہمارے خیال میں سوال یہ نہیں ہے، سوال یہ ہے کہ اگر ان اصولوں پر عمل نہیں کیا گیا تو کیا تحریک ِ جہاد تباہی سے بچ سکتی ہے ؟ کیا ان اصولوں پر عمل کیے بغیر بھی تحریک اپنی منزل پہنچ سکتی ہے؟ کیا پہلے کبھی پہنچی ہے؟ ظاہرہے نہیں ،نہ اس طرح کبھی پہلے پہنچی ہے اور نہ آئندہ پہنچے گی ۔اور ایسا جب ہے تو پھر سوال تعاون لینے یا نہ لینے کانہیں بلکہ خودکشی کرنے اور نہ کرنے کا ہے، اگر تو کوئی ان اصولوں پر سمجھوتہ کرواکر ہمیں راستہ دینا چاہتاہے، یا کسی بھی طرح کا کوئی تعاون دینا چاہتاہے تو ہمیں نہیں لینا چاہیے اس لیے کہ وہ امداد نہیں ، زہر ہوگا ، تحریک جہاد کی تباہی اور خود کشی ہوگی ____ مگر اللہ سے قوی امید ہے کہ ان اصولوں کی پاسداری کے باوجود بھی مجاہدین کے لیے راستے کبھی بند نہیں ہوں گے ،اس لیے کہ اللہ نے اس دنیا میں آپس کی دشمنیاں بھی رکھی ہیں ، اپنے دشمن سے بچاؤ اور اُسے اپنے سے دور مصروف کرنا ہرفریق کی خواہش ہوتی ہے ، نیز یہ بھی اٹل اصول ہے کہ اگر کہیں مشترک دشمن موجود ہو، تو چاہے آپس میں کوئی اور بہت بڑا مقصد شریک نہ ہو ، یہ مشترک دشمن اور وہ بھی مضبوط وسنجیدہ دشمن ، جو طاقت بھی زیادہ رکھتاہو اور ارادے بھی اس کے اتنے خطرناک ہوں کہ اس کے ساتھ نہ لڑ کر بھی اپنی حفاظت ممکن نہ ہو، ایسے مشترک حریف کا وجود ہی دو مختلف فریقوں کو کسی ایک طرز العمل پر متفق کرسکتاہے،ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر ایک چاہتاہے کہ اس کے ہاں امن ہو اور اس کے سامنے محاذ زیادہ نہ ہوں ۔ لہٰذا اللہ کےاذن سے مجاہدین کے لیے راستے مکمل بند نہیں ہوتے ہیں یا یہ راستے ہمیشہ بندنہیں رہتے ہیں، اگر ایسا راستہ کہیں بھی نکل آتاہے تو مجاہدین کو اسے استعمال کرنا چاہیے اور کھلی آنکھوں کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے، مگر نہ تو ایسے کسی موقع کا انتظار کرنا چاہیے اور نہ ہی اگر ایسا موقع مہیا ہوجائے تو اس پر تکیہ کرنا چاہیے ، دونوں ہی صورتوں میں اللہ پر توکل کر کے اپنے لیے خود راہیں نکالنی چاہیں اور یہ یقین ہو کہ اللہ کی مدد اُن کے ساتھ ہوتی ہے جو مدد و نصرت کے لیے صرف اللہ کی طرف دیکھتے ہیں، وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ 3اس موضوع کے ضمن میں امارت اسلامیہ کی صورت میں ایک کامیاب مثال ہمارے سامنے موجود ہے، امارت نے اولاً اللہ پر توکل کیا،اسی سے نصرت مانگی ، اپنے وسائل پیدا کیے ، صرف انہیں استعمال کیا ،پھر اہم یہ کہ اپنے عوام کو ساتھ لے کر شرعی مقاصد کے ساتھ دائرۂ شریعت میں رہ کر جہاد کیا، ثانیاً :کافی عرصہ بعد ،آخر میں جب امریکہ واپسی کی راہ ڈھونڈنے پر مجبور ہوا رتو اُس وقت بعض جہات بھی اپنی مجبوریوں کے سبب امارت کی طرف متوجہ ہوئیں اور امارت نے ان کی بعض سہولیات کو ایک دائرے میں استعمال بھی کیا مگر الحمدللہ نہ دوران ِ جہاد امارت نے کسی کی غیر شرعی شرط قبول کی اور نہ ہی فتح کے بعد کسی کی ایسی کوئی بات ابھی تک مانی ہے اور شاید یہی وہ صفت ہے کہ جس کے باعث اللہ کی نصرت بھی اس کے ساتھ شاملِ حال رہی ہے …… اللہ امارت ِ اسلامی کو اپنی اچھی صفات پر ثابت قدمی دے، ان میں اضافہ کرے، اس کی مزید مدد و نصرت فرمائے اور اس کو ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رکھے ، اللہ دیگر مجاہدین کو بھی تو فیق و مواقع دے کہ وہ شرعی اور رُخ بہ منزل جہاد کریں،ایسا جہاد کہ جس میں امت مظلومہ کے غموں کا مداوا بھی ہو اور جو اللہ کے دین کی سربلندی کا بھی باعث ہو ،آمین ثم آمین !
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
1 یہاں امارتِ اسلامیہ افغانستان کی سیاست کو بھی کسی بین الاقوامی ’ایگریمنٹ‘ کا حصہ سمجھنا غلط ہو گا، یہاں شیخِ مکرم استاد اسامہ محمود کفار سے تعاون لینے کے مسئلے پر بحث کر رہے ہیں کسی اور معاہدے کی بات نہیں ہو رہی۔ نیز ہماری اس بات کی تائید استادِ محترم کی زیرِ نظر تحریر کے آخری نثر پارے میں بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ (مدیر)
2 حمد بن جاسم آل ثانی، سابقہ وزیر اعظم قطر کی الجزیرہ کے ساتھ گفتگو میں اعترافات
3 ’’ فتح تو کسی اور کی طرف سے نہیں، صرف اللہ کے پاس سے آتی ہے جو مکمل اقتدار کا بھی مالک ہے، تمام تر حکمت کا بھی مالک۔ ‘‘(سورۃ آلِ عمران: ۱۲۶)