اقبال کہتے ہیں کہ احکامِ الٰہی کی پابندی کر کر کے بندۂ مومن اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں اوامرِ تکوینی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ تقدیر کی پابندی،بایں معنیٰ کہ سورج نے صبح نکلنا ہے اور شام کو غروب ہو جانا ہے سے لے کر ذرّے اور اس کے اجزاء کی حرکتوں کی محدودیت، بندۂ مومن کے لیے نہیں ہے۔
بندۂ مومن تو خدا کی محبت اور اس پر یقین کی کیفیت میں غزوۂ بدر میں اللہ کے دشمنوں سے لڑنے کی خاطر شاخ اٹھاتا ہے تو درخت کی یہی کچی ٹہنی جو ابھی لکڑی بھی شاید نہ تھی، اس کے ہاتھ میں فولادی تلوار بن جاتی ہے۔ اسلام کی پچھلی ساڑھے چودہ صدیوں کی تاریخ ایسے ہی اوامر و واقعات سے بھری پڑی ہے۔ غزوۂ خندق میں رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کدال چٹان پر مار کر اس کو پارہ پارہ کرتے ہیں، تو اس پتھر پر لوہا لگنے سے جو چمک اٹھتی ہے تو اس میں قیصر و کسریٰ کے محلات نظر آتے ہیں۔ یوں تو فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ مسجدِ نبویؐ میں منبرِ رسولؐ پر تشریف فرما محوِ خطبہ ہیں، لیکن تمام قوانینِ کونیہ ان کے سامنے زیر ہیں:
اللہ اللہ! یہ اعجاز روحانیت
نظمِ حکمت میں آیا یکایک خلل
’’مردِ مومن‘‘ نے منبر پہ جب یہ کہا
ساریہ ساریہ! الجبل الجبل!
سیکڑوں میل دور ساریہ کو کہہ رہے ہیں کہ دشمن پہاڑ پر گھات لگائے بیٹھا ہے۔
فارس و روم کا تہہِ تیغ ہونا ہو یا عقبہ بن نافع کا بحرِ اوقیانوس میں گھوڑے ڈال دینا۔ پہلی صدی ہجری کے معرکوں سے پندرہویں صدی ہجری تک روس و امریکہ کا افغانستان میں ٹوٹ ہار کر شکست خوردہ ہونا۔ ان بڑے بڑے سیاسی و عسکری معرکوں سے لے کر بندۂ مومن کی ذاتی زندگی تک، تقدیر اس کے نگوں رہتی ہے ۔ جب تعلق مع اللہ اس اوج کو پہنچ جاتا ہے، جہاں بندہ مقامِ احسان پر ہوتا ہے، تو اسی کو اقبال نے اس پیرائے میں بیان کیا ہے:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے؟
بے شک بندۂ مومن کی دعا اور اعمالِ حسنہ اس کی تقدیر کو بدل سکتے ہیں(اور اس امر کو سمجھنے کے لیے علمائے کرام کی طرف ہی رجوع کرنا چاہیے، یہاں اقبال کی جو مراد ہمیں سمجھ میں آئی وہ ہم نے واضح کر دی)۔
٭٭٭٭٭