چند لمحوں کے لیے ماضی میں لوٹتے ہیں۔ ۱۹۴۷ء تک ہی نہیں تھوڑا اور پیچھے ۱۸۵۷ء تک چلتے ہیں، بلکہ اس سے بھی پیچھے۔ ماضی کو یاد کیے بغیر ہم حال کو نہیں سمجھ سکتے اور حال کو بدلے بغیر مستقبل میں کوئی تغیر لانا ممکن نہیں۔برِّ صغیر میں اہلِ اسلام کے تنزل کی بنیادی وجہ دینِ متین کو چھوڑنا رہی۔ دینِ متین چھوٹا تو کہاں؟ برِّ صغیر میں مغلوں کے آخری نصف زمانے میں یہی اسلام بطورِ دین (دین یعنی سلوکِ زندگی و سلوکِ حکومت)، کمزور پڑنا شروع ہو گیا۔ جس قدر اتباعِ شریعت کم ہوا، اسی قدر مسلمان حصوں بخروں میں بٹتے گئے۔ موقع کے متلاشی سات سمندر پار سے آئے، دشمن صلیبیوں نے اپنا مَکَر چلا اور برِّ صغیر میں نفاذِ اسلام کا چراغ گل ہو گیا۔برِّ صغیر میں جہادِ آزادی کی بہت سی تحریکات اٹھیں لیکن بہترین متبعِ شریعت تحریک جہاں دین کے کسی شعبے میں حتی المقدور کوئی فرق نہ برتا گیا، امیر المومنین حضرت سیّد احمد شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تحریک تھی۔ اہلِ برِّ صغیر کی آزمائش کا وقت ابھی ٹلا نہیں تھا، لہٰذا اللّٰہ کی مشیت سے یہ تحریک ۱۸۳۱ء میں بالاکوٹ میں سیّد صاحب اور مولانا شاہ اسمٰعیل صاحب کی شہادت کے ساتھ ماند پڑ گئی۔ لیکن یہ تحریک، برِّ صغیر کے اہلِ دین کو قوت و شوکتِ اسلام کی ایک واضح جھلک دکھلا گئی۔ ایمان کی بادِ بہاری چلی اور محض پچیس برس میں برِّ صغیر کے قلب میں اقامتِ دین کی ایک اور زور دار تحریک اٹھی۔ قائدینِ تحریک حضرت حاجی صاحب مولانا امداد اللّٰہ مہاجر مکی، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا مفتی رشید احمد گنگوہی اور حافظ ضامن شہید جیسی نابغہ شخصیات تھیں۔ ۱۸۵۷ء میں شاملی کا میدان سجا، ابھی اللّٰہ کو مزید امتحان منظور تھا، لہٰذا اہلِ اسلام کو شکست ہوئی۔ یہ تھا وہ زمانہ جب برِّ صغیر کی اسلامی تحریک نے ایک فیصلہ کیا۔ آج ڈیڑھ صدی سےزیادہ کا زمانہ بِیت جانے کے بعد اس فیصلے کو بہت سے رنگ دیے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ۱۸۵۷ء میں ہتھیار رکھ دینے کا فیصلہ ہوا تھا۔ لیکن مستند تاریخِ اکابر کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کبھی ایک لمحے کے لیے بھی ہتھیار رکھ دینے کا فیصلہ نہ ہوا تھا1۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ اگر ہم حضرت نانوتوی و گنگوہی اور ان اکابر کے شاگرد مگر اکابر کے پائے کے، حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمۃ اللّٰہ علیہ کورسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا سچا متبع مانتے ہیں، تو یہ کہاں ممکن ہے کہ جس نبیؐ نے احد و حنین کے بعد ہتھیار رکھے نہ ہوں، بلکہ مزید مضبوطی سے تھام لیے ہوں، اس سچے نبیؐ کے سچے امتی اس طریق سے ہٹ جائیں جس طریق کو قرآنِ عظیم الشان فتنۂ کفر و شرک کے خاتمے کا ذریعہ بتاتا ہے؟اور جس کا حکم اللّٰہ ﷻ نے ایسی صراحت کے ساتھ نازل فرمایا جس کا قادیانی و غامدی اور ان کے روایتی و غیر روایتی مشنری کچھ بھی کر لیں ، اس حکم کی قتال کے سوا کوئی توجیہہ ممکن ہی نہیں!
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِله (سورة الانفال:۳۹)
’’ اور (مسلمانو) ان کافروں سے لڑتے رہو، یہاں تک کہ فتنہ (کفر وشرک)باقی نہ رہے، اور دین پورے کا پورا اللّٰہ کا ہوجائے۔ ‘‘
الغرض جہاد کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، اگر کچھ اور ہوا تو یہ کہ ’مرکز‘ میں قتال کی استطاعت نہ ہونے کے سبب قتال سے پہلے کے نصرتِ قتال کے مراحل، دعوت و اعداد کی طرف پوری توجہ سے متوجہ ہوا گیا۔ ۱۸۵۷ء کے جہادِ آزادی کے بعد سنہ ۴۷ء تک بلکہ اس کے بھی بعد تک اس تحریک نے بہت سی شکلیں بدلیں، لیکن قتال یا نصرتِ قتال کا طریق کہیں نہیں چھوٹا، بھلے وہ آزاد قبائلِ یاغستان کی تحریکِ قتال ہو یا تحریکِ ریشمی رومال جیسی عالمی جہادی تنظیم سازی۔
مسلمانوں کے ضعف اور اہلِ باطل کے مضبوط غلبے نے برِّ صغیر میں بالکل نئے سیاسی حالات پیدا کر دیے ۔ نتیجے میں اہلِ دین کی کثیر تعداد نے اسلامی شعائر کی طرف داری کرتی اور نفاذِ اسلام کا وعدہ کرنے والی متحدہ برِّ صغیر کی جماعت مسلم لیگ کا ساتھ دیا اور پاکستان و ہندوستان دو نئے ممالک کی شکل میں نقشۂ عالم پر ابھرے۔
برِّ صغیر کے مسلمانوں نے سنہ ۴۷ء میں کچھ بھی بچا کر نہیں رکھا۔ عزت و ناموس لاکھوں بہنوں اور بہو بیٹیوں نے قربان کیں، دس لاکھ لوگوں نے جامِ شہادت نوش کیا، نجانے کتنے لاکھ مہاجر ہو کر پاکستان پہنچے۔ زمینیں، جائیدادیں، مکان اور نقدی و زیورات کا تو کچھ شمار ہی نہیں۔ یہ سب بس ایک ہی مقصد کی خاطر تھا۔ برِّ صغیر کے ہر بوڑھے اور نوجوان نے، ہر بچے اور خاتون نے یہ نعرہ سنا تھا:
’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللّٰہ!‘‘
عام مسلمانوں کے حوالے سے تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ جو مسلمان اس زمانے میں پاکستان ہجرت نہ کر سکے تو ان کی امیدوں کا مرکز بھی جلد یا بدیر پاکستان ہی تھا۔ اور پاکستان ان کی امیدوں کا مرکز کیوں تھا، اس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے کہ تقسیمِ برِّ صغیر سے قبل، بانیٔ پاکستان لکھنؤ میں کسی مقام پر ایک جلسے میں موجود تھے۔ وہاں ایک لکھنوی نعرے لگانے لگا ’پاکستان زندہ باد‘، یہ سن کر بانیٔ پاکستان نے اس لکھنوی نوجوان سے پوچھا کہ ’تم کیوں بڑھ چڑھ کر پاکستان کے حق میں نعرے بازی کر رہے ہو۔ تمہارا علاقہ تو پاکستان میں شامل نہیں ہونا؟‘۔ سوال سنتے ہی اس نوجوان نے فوراً جواب دیا ’اس لیے کہ پاکستان کا وجود میرے (مسلمانوں کے )تحفظ کا ضامن ہے!‘۔
پاکستان کا وجود مسلمانانِ برِّ صغیر کے تحفظ کا ضامن کیسے ہونا تھا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ریڈ کلف لکیر کو بھلانا پڑے گا۔ ذہن میں ایک بات کو حاضر رکھنا ہو گاکہ پاکستان کا مقصدِ تاسیس کیا تھا؟ ظاہر ہے کہ مقصدِ تاسیس لا الٰہ الا اللّٰہ تھا۔ لا الٰہ الا اللّٰہ کا وہ نظام جو ہر باطل نظام کو ٹھکرا دے اور نیچا کر دے، لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ! وہی لا الٰہ الا اللّٰہ، جس کی خاطر تحریکِ ریشمی رومال نے خلافتِ عثمانیہ کی تائید کی اور خلافت کی تائید حاصل بھی کی ۔ مومن تو رنگ و نسل اور قوم و وطن کے بتوں سے آزاد ہوتا ہے اور اس کے بارے میں تو فرمایا گیا کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اسے مصیبت میں تنہا چھوڑتا ہے اور نہ اس پر ظلم کرتا ہے۔پاکستان کا سچا مقصدِ تاسیس، پاکستان کو سچ میں مدینۂ ثانی بنانا تھا۔ جدید دنیا کی اصطلاح میں ایک نظریاتی اسلامی ریاست۔ ایک ایسا مرکزِ اسلام جہاں سے اندلس و اقصیٰ کی جانب قافلے نکلیں۔ لیکن ایسا نہ ہوا، جو پاکستان بنا وہاں فوجی و سویلین ڈکٹیٹر حاکم ہو گئے۔ کبھی مارشل لاء کا تماشہ لگایا گیا تو کبھی جمہوری ڈگڈگی بجی۔ پاکستان جس کو اسلام کا قلعہ بننا تھا، یہاں کی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں کھلونا بن گیا۔ نواب لیاقت علی خاں کے زمانے میں ہی یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ پاکستان امریکی بلاک کا حصہ بنے گا2۔ اگر پاکستان محض امریکی بلاک کا ایک عزت دار رکن رہتا تب بھی دنیوی پیمانے سے کوئی بات تھی۔ لیکن پاکستا ن کی اسٹیبلشمنٹ امریکہ کے آگے سجدہ ریز ہو گئی۔ پھر زیادہ دور کی بات نہیں کرتے، آج سے دو دہائی قبل چلتے ہیں، جب امریکہ کے عسکری مرکز پینٹاگان اور اقتصادی مرکز ٹوئن ٹاورز پر نائن الیون کے جہادی حملوں کے بعد دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ جارج ڈبلیو بش، وقت کا پوپ اربن ثانی بن کر سامنے آتا ہے، صلیبی جنگ کا اعلان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یا تو تم ہمارے ساتھ ہو یا دہشت گردوں کے ساتھ۔دنیا کی اکثریت وقت کے پوپ اربن ثانی کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے اور فرنٹ لائن اتحادی کا تمغہ پرویز مشرف (خذلہ اللّٰہ في الدنیا والآخرۃ) اور اس کی قیادت کے تحت پاکستان فوج کے سینے پر سجتا ہے۔ پاکستان فوج ایک mercenary army کا روپ دھار لیتی ہے اور اس کے جرنیل و کرنیل اور انٹیلی جنس اہلکار ڈالروں کے بدلے اپنا ایمان و وطن بیچ کھاتے ہیں۔ افغانستان میں جاری وار آن اسلام (المعروف وار آن ٹیرر) کے دوران اربوں ڈالر کمائے جاتے ہیں۔ بعض ذرائع کے مطابق اس زمانے میں حکومت و پاکستان فوج کو نیٹو سپلائی کے فی کنٹینر کے حساب سے معاوضہ ملتا ہی تھا، بعض چار ستارہ جرنیل بھی ہر ہر کنٹینر پر فیصدی کمیشن وصول کرتے تھے۔
پرویز مشرف کہا کرتا تھا کہ’جب طوفان چل رہا ہو تو سر نیچا کر لینا چاہیے، کہیں سر ہی نہ اڑ جائے‘۔ بیس سال امریکہ کی غلامی اور نمک کھانے کو شاید کسی کی عقلِ مادہ و مفاد پرست پھر بھی تسلیم کر لے کہ امریکہ کا اتحادی بننا ہی درست فیصلہ تھا۔ لیکن پاکستان محض افغانستان کی حد تک اتحادی نہ بنا تھا، بلکہ عالمی وار آن ٹیرر میں ایک کلیدی اتحادی کے طور پر سامنے آیا تھا۔ اسی کلیدی اتحادی نے عالمی وار آن ٹیرر کے تحت جنوبی وزیرستان میں سنہ ۲۰۰۴ء میں مجاہدینِ قبائل کے خلاف پہلا فوجی آپریشن شروع کیا۔ مجاہدینِ قبائل سے پہلے ہی معرکے میں منہ کی کھانے کے بعد پاکستان فوج نے مجاہدینِ قبائل کے اس وقت کے امیر ملا نیک محمد سے ایک معاہدہ کر لیا اور محض دو ماہ کے اندر ملا نیک محمد کی جاسوسی کر کے امریکی ڈرون طیاروں کے ہیل فائر میزائلوں سے جون ۲۰۰۴ء میں شہید کروا دیا۔
مجاہدینِ قبائل جن کے ساتھ پاکستان کے آزاد قبائل کے تمام غیور مسلمان کھڑے تھے، پاکستان فوج کے مقابلے میں اپنے تمام مطالبات میں حق بجانب تھے۔ اہلِ قبائل نے قیامِ پاکستان کے زمانے میں ایک معاہدے کے تحت پاکستان سے الحاق کیا تھا اور بانیٔ پاکستان نے قبائل کی آزاد حیثیت کو تسلیم کیا تھا۔ اہلِ قبائل الحاقِ پاکستان سے اب تک نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرتے آئے ہیں اور جب اہلِ قبائل کا یہ بر حق مطالبہ قبول نہ کیا گیا ، بلکہ نفاذِ شریعت کے مطالبے پر اہلِ قبائل پر بمباریاں کی گئیں اور فوجی آپریشن مسلط کیے گئے تو اہلِ قبائل نے دینی حمیت و غیرت کے سبب امریکی فرنٹ لائن اتحادیوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔ یہاں یہ امر بھی بھلانا نہیں چاہیے کہ ۱۹۴۸ء میں بھارت کے خلاف کشمیر کے محاذ پر جنگ بھی انہی قبائلی مجاہدین نے لڑی تھی اور آج وہاں کا جو علاقہ ’ریاست آزاد جموں و کشمیر‘ کہلاتا ہے ، انہی مجاہدینِ قبائل نے آزاد کروا کر دیا تھا۔ بلکہ سچ تو اس قدر تلخ ہے کہ یہ مجاہدین سری نگر ائیر پورٹ کو اپنے قبضے میں لے چکے تھے اور ان مجاہدین کے ساتھ پاکستان فوج کے وہ مجاہد بھی تھے جن کا مقصدِ جنگ حقیقتاً ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللّٰہ تھا، لیکن ان مجاہدینِ قبائل اور فوج میں موجود مجاہدوں کو جنرل کیانی کی اصطلاح میں ’abandon‘ کر دیا گیا، کہ اس وقت کی فوجی و سویلین اسٹیبلشمنٹ بھی مسئلۂ کشمیر کو ’مسئلہ‘ ہی رکھنا چاہتی تھی۔ مجاہدینِ قبائل کی یہ بر حق جنگ نیک محمد شہید کے بعد امیر صاحب بیت اللّٰہ محسود شہید، مفتی ولی الرحمن محسود شہید، کماندان خالد محسود شہید اور ان کے بعد ان کے ورثا نے آج تک جاری رکھی ہوئی ہے۔ مجاہدینِ قبائل کی نصرت اور نفاذِ اسلام کی محنت کی خاطر قبائلی مجاہدین کے اسی قافلے میں مولانا فضل اللّٰہ سواتی شہید بھی اپنا قافلۂ فدائین لے کر شامل ہو گئے۔ نتیجتاً آج یہ جنگ وزیرستان تا سوات، آزاد قبائل کی سرزمین کی بازیابی اور نفاذِ شریعتِ محمدی (علیٰ صاحبہا ألف صلاۃ وسلام) کی خاطر جاری ہے۔
بیس سال افغانستان کے صحراؤں اور پہاڑوں میں رسوا کن شکست کھانے کے بعد جب امریکہ نکل جاتا ہے تو تب بھی پاکستان کی امریکہ غلام اسٹیبلشمنٹ اپنی گردن سے طوقِ غلامی اتارتی نہیں ہے۔ اس طوقِ غلامی کو نہ اتارنے کا ایک سبب تو پرائی جنگ کو اپنی جنگ بنا لینا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ خاص کر جرنیلوں اور انٹیلی جنس افسروں نے منافقت کے بجائے لا دینیت و سیکولرازم کو اپنا دین بنا لیا ہے۔ ثانیاًبنگال و مہران و بولان ثم قبائل، لال مسجد اور سوات میں کشت و خون کرنے والی فوج ، mercenary army بھی ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کی وارث، برطانوی جرنیل ایلن بی کی قیادت میں مسجدِ اقصیٰ فتح کرنے والی فوج کی وارث فوج اچھے دام پر دنیا کے کسی بھی خطے میں لڑ سکتی ہے3۔ اور دوسروں کے لیے لڑنے کے سوا ان کا ذریعۂ معاش بھی کچھ اور نہیں رہا۔
؏سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
اخلاقی، معاشی، فکری، سیاسی اور علمی کرپشن کے سبب آج جب پاکستان کی معیشت کا بھٹہ بیٹھ چکا ہے تو یہاں کی اسٹیبلشمنٹ نے ایک بار پھر مجاہدین کی جاسوسی اور ان کو بیچ کر پیسے کمانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔وقت کے ساتھ ماہر ہونے والے شطرنج کے کھلاڑیوں نے امریکہ کو ایک بار پھر یہ باور کروایا ہے کہ افغانستان و قبائل عالمی دنیا کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔ افغانستان میں جاسوسی کی ایک بڑی واردات کرنے کے بعد (پاکستانی) روپے کی قدر میں تھوڑی سی بہتری آئی اور عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے ایک اعشاریہ ایک سات ارب ڈالر کی امداد کی منظوری بھی دی گئی۔ اس کے معاً بعد امریکی وزارتِ دفاع نے پاکستان ائیر فورس کو ایف سولہ طیاروں کی دیکھ بھال کے لیے پینتالیس (۴۵)کروڑ ڈالر کے ہارڈ وئیر و سافٹ وئیر آلات دینے کی منظوری دی۔
بعد ازاں نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں وزیرِ اعظم شہباز شریف نے دنیا کو افغانستان کے تناظر میں ’عالمی دہشت گردی‘ کے ایک بے حقیقت امر سے ڈرا کر اپنی حیثیت بڑھانے، امداد مانگنے اور اپنی خدمات پیش کرنے کی کوشش کی۔ شہباز شریف کے امریکہ میں پیش کردہ فن کا مکمل سکرپٹ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی کاوش تھا، جس کو مستقبل کے حالات نے مزید ثابت کیا۔ جس وقت اداریۂ ہٰذا کی یہ سطور لکھی جا رہی ہیں4 تو پاکستان فوج کا سربراہ (اور پاکستان کا در حقیقت حاکم) جنرل قمر جاوید باجوہ واشنگٹن کے پانچ روزہ دورے سے واپس لوٹا ہے۔ مختلف دفاعی و اخباری ذرائع کے مطابق جنرل باجوہ کے دورے کے کلیدی نقاط میں
امارتِ اسلامیہ افغانستان کی سرزمین اور سرزمینِ قبائل میں (counter terrorism) دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ تعاون پر بات ،
پاک افغان بارڈر پر سکیورٹی صورتِ حال،
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی خدمات کے تناظر میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے پاکستان کو نکالے جانے کی درخواست،
نیز افواجِ پاکستان کو امریکہ کی جانب سے سالانہ بنیادوں پر دی جانے والی عسکری امداد (جو ٹرمپ نے بند کر دی تھی) کی بحالی کی گزارش وغیرہ شامل تھے۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے نائن الیون کے فوراً بعد امارتِ اسلامیہ افغانستان کے خلاف جو روش اپنائی تھی، بظاہر وہ چند برس قبل کافی مختلف سی نظر آنا شروع ہوئی اور تقریباً سوا سال قبل فتحِ کابل کے بعد اس میں مزید ظاہری تبدیلی نظر آئی۔ لیکن پاکستان فوج کے مجاہدینِ قبائل کے ساتھ مذاکرات میں خاص پیش رفت نہ ہونے کے سبب اور امارتِ اسلامیہ افغانستان کی خودمختار سیاسی دفاعی خارجہ پالیسی کے تناظر میں، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ تقریباً اسی روش پر واپس پلٹ رہی ہے جس کا پہلے ذکر ہوا۔ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں سے یہ بات مزید واضح ہوتی ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکی اتحاد کا حصہ بننے کا فیصلہ محض کسی ایک شخص (پرویز مشرف) کا نہیں تھا، بلکہ پوری عسکری قیادت آن بورڈ تھی اور آج تک اس فیصلے پر قائم و دائم ہے۔
امارتِ اسلامیہ افغانستان میں کاؤنٹر ٹیررازم کے سلسلے میں پاکستان کا اعلانیہ یا غیر اعلانیہ معاہدے کے تحت امریکی ڈرون طیاروں کو افغانستان میں جاسوسی (surveillance) کرنے اور افغانستان میں امریکی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے اپنی فضائی راہداری دینا ایک اہم قدم ہے۔ امارتِ اسلامیہ افغانستان کے وزیرِ دفاع مولوی محمد یعقوب مجاہد نے اگست ۲۰۲۲ء کے وسط میں ایک اخباری کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ امریکی ڈرون طیارے پاکستان کی فضا استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں داخل ہوتے ہیں، جس کی پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے تردید کی تھی۔ البتہ ڈرون طیاروں کے لیے راہداری کے طور پاکستان کی فضا کے استعمال کے حوالے سے امریکی سیاست دان اور امریکی نیشنل سکیورٹی کونسل کی سابقہ رکن لیزا کرٹس نے بھی تائید کی ہے۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور فوج کا کردار بہت واضح ہے۔ اگر آج پاکستان میں کسی کو واضح موقف اپنانے اور عمل کی ضرورت ہے تو وہ پاکستان کا اہلِ دین طبقہ ہے، جسے وضاحت سے اس نظام اور اس نظام کی رکھوالی فوج کی حقیقت کو سمجھنا ہے۔پاکستان میں تقریباً دو دہائیوں سے دعوت و جہاد میں بر سرِ پیکار مجاہدین کی دعوت اظہر من الشمس ہے۔ یہ دعوت کوئی ایسی انوکھی دعوت نہیں جسے مجاہدین ہی لے کر اٹھے ہیں، بلکہ یہ تو وہی دعوت ہے جس کی خاطر پون صدی قبل لاکھوں مسلمانوں نے اپنے گھر بار چھوڑے تھے اور دس لاکھ مسلمانوں نے پاکستان ہجرت کرتے ہوئے شہادتیں پیش کی تھیں۔ پاکستان کا مقصد و مطلب تو لا الٰہ الا اللّٰہ ہے! حیاتِ دنیوی یا چند امدادی پیسوں کی خاطر مسلمانوں کا قتل یا دنیا کی واحد اسلامی حکومت کی جاسوسی کے لیے اپنی فضا کرائے پر دینا حصولِ پاکستان کا مقصد نہیں۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی الہامی پیشین گوئی، غزوۂ ہند کے معرکوں کے لڑے جانے کے لیے ارضِ نصرت، ’لا الٰہ الا اللّٰہ‘ والا پاکستان ہے۔ لیکن پاکستان غزوۂ ہند کے لیے تب تک ارضِ نصرت کا کردار ادا نہیں کر سکتا جب تک خود پاکستان میں شریعتِ محمدی (علیٰ صاحبہا ألف صلاۃ وسلام) نافذ نہ ہو۔ گجرات فسادات میں بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے والے گیارہ مجرموں کی رہائی کا بدلہ لینے والے ابنِ قاسم کا راستہ پاکستان سے ہو کر گزرتا ہے۔ بابری مسجد کی دوبارہ سے تعمیر، رام مندر کے انہدام اور گیان وپی کی جامع مسجد کا دفاع کسی سلطان محمود نے کرنا ہے، لیکن اس کی رہ گزر وہی ہو گی جس نقشے پرشیر شاہ سوریؒ نے سڑک بنوائی تھی۔ آج کا پاکستان ان خوابوں کی تعبیر اور ان کوششوں کا ثمر آور نتیجہ نہیں ہے جس کی خاطر حصولِ پاکستان کی جد و جہد کی گئی تھی۔
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہو گا شب سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غمِ دل
سفینۂ غمِ دل ابھی رکا نہیں ہے۔ جشنِ آزادی کا وقت ابھی نہیں آیا۔ سری نگر میں نیلوفر و آسیہ آج بھی بے ناموس ہو رہی ہیں۔ چٹاگانگ و ڈھاکہ کی بیٹیاں آج بھی ہندوؤں کے ہاتھوں نیلام ہو رہی ہیں۔ہندوستان کے شہروں میں محض ’مسلمان‘ ہونےکے ’جرم‘ کے سبب مسلمانوں کو سرِ عام ہندتوائی بھگوا دہشت گرد عوام اور پولیس بجلی کے کھمبوں سے باندھ کوڑے اور ڈنڈے لگا رہے ہیں۔پہلے تو ۷۳ء کے آئین میں زنا بالرضا کے لیے سہولتیں تھیں، اب اسی قراردادِ مقاصد والے آئین میں بآسانی LGBTQ کو ترویج و تحفظ دینے کے لیے ٹرانس جینڈر قوانین بھی شامل ہیں۔ اسلام آباد میں آج بھی آزادی و خودمختاری کا نہیں، انگریز اور انگریز کے چھوڑے نظام کی غلامی کا پرچم لہرا رہا ہے، جسے ملکۂ برطانیہ کے مرنے پر پورے چوبیس گھنٹے تک سر نگوں رکھا گیا۔ مجاہدینِ برِّ صغیر کے داعی و عزیم قائد، شہید عالمِ ربّانی، استاد احمد فاروق رحمۃ اللّٰہ علیہ نے کہا تھا:
’’پس انگریز تو یہاں سے چلا گیا، لیکن فوجی جرنیل، بیوروکریٹ افسر اور جاگیردار و سرمایہ دار سیاسی خاندان…… جو انگریز اپنے عہدِ حکومت میں تیار کرچکا تھا، وہ پھر بھی باقی رہے۔ مسلمانانِ ہند نے آزادی کا جو خواب دیکھا تھا وہ بس خواب ہی رہا۔ نہ تو فرنگی جمہوری نظام کی جگہ شرعی نظام واپس لوٹا، نہ ہی اقتدار معاشرے کے فرنگی نواز غدار طبقوں کے ہاتھ سے نکل کر علمائے کرام اور حقیقی معززینِ معاشرہ کے ہاتھ میں واپس آیا اور نہ ہی ہند کی وہ عظیم تر اسلامی سلطنت بحال ہوئی، جس کا دارالخلافہ کبھی کابل اور کبھی دہلی تھا اور جس کی حدود پورے برِّ صغیر کے شرق و غرب تک پھیلی ہوئی تھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ برِّ صغیر کے بے چارے عوام تو انگریز کی غلامی سے نکل کر انگریز کے غلاموں کے غلام بن گئے۔ آزاد تو بس انگریز کا آلۂ کار یہ حکمران طبقہ ہوا، کہ انہیں ۱۹۴۷ء کے بعد ہمارے وسائل لوٹنے اور زمین میں فساد مچانے کی مکمل آزادی مل گئی۔ ہر سال منایا جانے والا جشنِ آزادی ہماری نہیں، انہی کی آزادی کا جشن ہوتا ہے۔
ہمیں تو ایک اور تحریکِ آزادی سے گزرنا ہو گا۔ خون کا ایک اور دریا پار کرنا ہو گا!‘‘
ابھی چراغِ سرِ رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
اللھم وفقنا كما تحب و ترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وأرضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!
٭٭٭٭٭
1 گاہے ہم مولانا مناظر احسن گیلانی کا یہ قول نقل کرتے رہتے ہیں کہ حضرت شیخ الہند نے بذاتِ خود مولانا گیلانی کو بتایا کہ میں دار العلوم کا اولین طالبِ علم تھا، حضرت الاستاذ نے دارالعلوم ۱۸۵۷ء کی شکست کا عسکری انداز سے بدلہ لینے کے لیے قائم فرمایا تھا۔ اسی طرح مولانا سیّد ابو الحسن علی ندوی نے کئی مقامات پر ذکر کیا ہے کہ دارالعلوم دیوبند دراصل ایک فوجی چھاؤنی تھی!
2 ان تفصیلات کے لیے دیکھیے ادارہ السحاب برِّ صغیر کی چار حصوں پر مبنی دستاویزی فلم ’پیغامِ اسلام‘
3 اردن میں سنہ ۷۰–۷۱ء میں فلسطینی مسلمانوں کا قتل اور صومالیہ میں سنہ ۹۳ء میں امریکیوں کی دفاع کی جنگ اس کی ایک مثال ہیں۔
4 بعض ادارتی و تکنیکی مشکلات کے سبب ماہِ اگست و ستمبر ۲۰۲۲ء کا یکجا شمارہ شائع کیا جا رہا ہے اور سطورِ ہٰذا اوائلِ اکتوبر ۲۰۲۲ء میں لکھی گئی ہیں۔