انسانی جان کی قدروقیمت جاننے، پہچاننے اور اس کی قدر کرنے کی توقع انسانوں ہی سے کی جاسکتی ہے اور کی جانی چاہیے۔ زندہ معاشرے اور زندہ قومیں اپنے اندر بسنے والے انسانوں کی جان کی حفاظت کرتے ہیں، اسے محترم ٹھہراتے ہیں اور اسے اس کے جائز حقوق سے محروم نہیں کرتے۔ مگر صرف جان کی حفاظت کسی معاشرے اور کسی قوم کو زندہ رکھنے کے لیے کافی نہیں ہے؛ زندگی صرف سانسوں کی آمدورفت کا نام نہیں ہے بلکہ زندگی عبادات، اخلاق و اطوار ، معاشرت و معیشت، تہذیب و شائستگی کے اس مجموعے کا نام ہے جسے اللہ رب العزت نے دین قرار دیا ہے۔ اگر ایک قوم یا معاشرہ بحیثیتِ مجموعی اپنے دین پر عمل پیرا ہے ، خواہ افرادِ معاشرہ میں چند کمزوریاں بھی پائی جاتی ہوں تو وہ ایک زندہ معاشرہ ہے لیکن اگر صورت حال بالعکس ہے تو قوم کے افراد انفرادی طور پر کتنے ہی فلاحی کاموں میں حصہ کیوں نہ لیں اور اصلاحِ معاشرہ کی جتنی چاہیں کوششیں کرلیں، اس قوم کو فلاح یافتہ اور اس معاشرے کو ایک معیاری معاشرہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
امریکی معاشرہ اخلاقی انحطاط کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ عوام کی غالب اکثریت اپنے آپ کو ہر لحاظ سے ہی آزاد سمجھتی ہے اور قریباً ہر قسم کی اخلاقی، مذہبی، معاشرتی، تمدنی پابندیوں یا حدود و قیود سے خود کو مبرا سمجھتی ہے۔ اسی اخلاقی انحطاط کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ شادیوں کے بندھن میں بندھنے کا رواج کم سے کم اور بغیر شادی اس کے فوائد سے مستفید ہونا زیادہ ہلکا اور آسان سمجھا جاتا ہے جس میں کسی قسم کی کوئی ذمہ داری نہ مرد کو اٹھانی پڑتی ہے اور نہ ہی عورت کسی عہد و وفا کی پابند ہوتی ہے، ایسے تعلقات کا تنیجہ ’بریک اپ‘ کے عنوان سے ساری دنیا کے سامنے عیاں ہو جاتا ہے۔ یوں ان تعلقات کے نتیجے میں ٹھہرنے والے حمل نہ قانونی و شرعی باپ کو مطلوب ہوتے ہیں اور نہ ہی ہونے والی ماں ان کی ذمہ دار ی کا طوق اپنے گلے میں لٹکانا چاہتی ہے۔ لہٰذا اس کا آسان طریقہ یہ ڈھونڈ رکھا ہے کہ پہلے رنگ رلیاں منا لی جائیں اور پھر اگر ان کا کوئی نتیجہ برآمد ہوجائے تو اسے اسقاط کروا کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک کر نئے سرے سے خم ٹھونک کر میدانِ شہوت کا رخ کیا جائے۔
پچاس برس تک امریکہ میں اسقاط حمل قانونی طور پر جائز رہا ہے مگر اس کے نتیجےمیں امریکی نسل ختم ہوتی جارہی ہے۔ امریکی نوجوان خاندان کی ذمہ داری اٹھانے کو قطعاً تیار نہیں۔ مرد نوجوان ہر روز ایک نئی عورت سے لذت حاصل کرنا چاہتا ہے اور تقریباً یہی رجحان نوجوان عورتوں کا بھی ہےاور بس۔ کمایا، کھایا، عیاشی کی اور بوڑھا ہوا تو خدمت کروانے کے لیے اولڈ ہوم چلا گیا اور وہیں مر کھپ گیا۔ عورتوں نے ذمہ داری سے بچنے کا ذریعہ اسقاط حمل کو سمجھ رکھا ہے۔ کیونکہ اگر بدقسمتی سے کوئی حمل ضائع نہ ہوسکے تو دنیا میں آنے والے بچے کی ذمہ داری تنہا ماں ہی پر عائد ہوگی اور اس اولاد کو پالنے کے لیے اس عورت کے پاس کیا ہے؟ وہ بھی اپنی عیاشیاں قربان نہیں کرنا چاہتی، وہ نہیں چاہتی کہ اب جو وہ اپنی مرضی سے اپنا جسم ہر روز ایک نئے مرد کے حوالے کرتی ہے کل کو اسے یہ کام بچے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کرنا پڑے جسے جسم فروشی کا نام دیا جاتا ہے۔ بظاہر ان تمام حالات پر قابو پانے کے لیے اور مٹتی ہوئی امریکی نسل کی حفاظت کی خاطر امریکی سپریم کورٹ نے اسقاط حمل کو ناجائز قرار دیا۔ اس کے ساتھ ایک اور نکتہ قابلِ غور یہ بھی ہے کہ امریکی سپریم کورٹ کے ججوں کی اکثریت اس وقت ایونجلسٹ (evangelist)عیسائیوں پر مبنی ہے اور ایونجسلٹ عیسائی اسقاطِ حمل کو اپنے مذہب کے مطابق بھی ناجائز سمجھتے ہیں۔ نیز ان جج صاحبان کا تقررامریکی روایت پسند جماعت ریپبلکن پارٹی کے سابق صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے کیا تھا جو خود بھی ایک شدت پسند ایونجلسٹ عیسائی ہے۔
پھر اس اقدام کو نام بھی اتنا خوبصورت دیا گیا؛ پرو لائف؛ زندگی کو پروان چڑھانے والے، زندگی سے پیار کرنے والے ، حتی کہ اس انسان تک سے ہمدردی رکھنے والے جو ابھی دنیا میں نہیں آیا……!!! طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہی لوگ جو زندگی سے اتنا پیار جتا رہے ہیں وہ عراق میں لاکھوں زندہ انسانوں اور دس لاکھ ان بچوں کےقاتل ہیں جو اس دنیا میں آچکے تھے، علاوہ ان بچوں کے جو اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی اپنی ماؤں کے پیٹوں میں اپنی ماؤں کے ساتھ ہی قتل ہوگئے۔ انہیں زندگی سے اتنا ہی پیار تھا تو بیس برس تک افغانستان کی سرزمین پر مساجد ، مدارس اور عوام کے گھروں، شادیوں کی تقاریب، جنازوں کے ہجوم اور تقسیم اسناد کے جلسوں پر بم کیوں برساتے رہے، میزائیل کیوں داغتے رہے؟ آج شام میں ملبے تلے دبنے والے، بمباریوں سے چھلنی ہونے والے، تباہ کن کیمیکل ہتھیاروں سے دم گھٹ کے مرنے والے کیا بچے نہیں ہیں؟ جن ممالک پر آپ نے اقتصادی پابندیاں لگا رکھی ہیں ان میں انسان نہیں بستے کیا ،یا ان انسانوں کے بچے نہیں ہوتے؟ مگر بات وہی ہے جو کسی صحافی نے روس یوکرائن کی جنگ کی کوریج کرنے والے صحافیوں کی زبان بارے تجزیہ کرتے ہوئے کہی ، کہ جب بمباری افغانستان اور عراق میں تھی تو کہا جاتا کہ مرنے والوں کو ہی قصوروار تھے اور جب یوکرائنی مارے جارہے ہیں تو ان کی نیلی آنکھوں اور سفید جلد کی وجہ سے ان کے لیے civilized یعنی مہذب کی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے، صرف ان کے رنگ و روپ کی وجہ سے۔
اہل مغرب اپنے معاشروں میں تو اسقاط حمل پر پابندی عائد کررہے ہیں، دوسری جانب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ اس قسم کا پہلا قدم ہے اور پھر ہم جنس افراد کی شادیوں کی قانونی حیثیت جیسے بہت سے متنازع موضوعات پر بھی اسی قسم کے فیصلے سامنے آسکتے ہیں………… اپنے یہاں تو وہ مادر پدر آزادی کے ثمرات اچھی طرح سے سمیٹنے کے بعد اب اپنے پھیلائے ہوئے گند کو صاف کرنے کی تدابیر کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو تب تک کامیاب نہیں ہوسکتیں جب تک گند پھیلانے کے تمام راستے بند نہ کردیے جائیں ــ جبکہ دوسری جانب افغانستان کی باپردہ، باحیا، غیرت مند خواتین کو بے حیا، بے پردہ اور مادر پدر آزاد بنانے کے لیے پوری دنیا کا میڈیا اپنا پورا زور لگا رہا ہے۔
خواہ مسلمان ہوں، یہودی یا عیسائی، ان کے لیے رہنمائی کا منبع ایک ہی ہے، اللہ رب العزت کی ذاتِ واحد اور اللہ رب العزت کسی کو بھی کسی بھی حال میں بے حیائی کا حکم نہیں دیتا، فحاشی کی اجازت نہیں دیتا، مادر پدر آزادی کی اجازت نہیں دیتا، ظلم کی حمایت نہیں کرتا، ظالم کا ساتھ دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ اللہ رحم فرماتا ہے اور رحم کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے، مگر جسے آج کی دنیا میں رحم اور ہمدردی دکھایا جارہا ہے وہ رحم اور ہمدری نہیں ۔اور جو ظلم ہے، جسے آنکھوں سے اندھا بھی ظلم ہی کہے گا (بشرطیکہ دل کا اندھا نہ ہو) اسے عین عدل انصاف اور انسداد ظلم کہا جارہا ہے۔ اللہ رب العزت کے فرمان کے عین مطابق کہ جب ان سے کہاجاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں، خبردار رہو! یہی مفسدین ہیں مگر وہ اس کا شعور نہیں رکھتے۔
٭٭٭٭٭