برمی فوج
برمی فوج کو سرکاری طور پر ٹاٹ ما ڈاؤ Tatmadow کہتے ہیں جو کہ برمی میں فضائی، بری اور بحری افواج کا مخفف ہے۔ اس فورس کے تحت ذیلی فورسز بھی کام کرتی ہیں جن میں پولیس ، عوامی ملیشیا اور سرحدی فورسز شامل ہیں۔ ان سرحدی فورسز کو مقامی طور پہ ناساکھا کہا جاتا ہے۔ چونکہ ابھی تک برما کا کوئی عسکری قانون نہیں تشکیل دیا گیا اس لیے نظریاتی اعتبار سے تمام ملازمین رضاکار تصور ہوتے ہیں۔ عسکری قانون نہ ہونے کی وجہ سے فوج شہریوں سے زبردستی کام لیتی ہے، یہاں تک کہ انہیں مائن سویپر کے طور پہ بھی استعمال کرتی ہے۔ اور انڈیپنڈنٹ (اخبار)کے مطابق ’برما میں بچوں کو فروخت کیا جاتا ہے اور سب سے بڑی خریدار فوج ہے جو انہیں محض چالیس ڈالر اور ایک بوری چاول یا ایک گیلن پٹرول کے بدلے بھرتی کر لیتی ہے‘۔اگرچہ برما کا کوئی عسکری قانون نہیں ہے لیکن عوامی ملیشیا کے قوانین صدر کو یہ اجازت دیتے ہیں کہ برما کے دفاع کی خاطر اس میں زبردستی بھرتی کرے۔
برطانیہ سے آزادی کے بعد سے اب تک ٹاٹماڈاؤ اکثر مقامی نسلی مسلح بغاوتوں کے خلاف لڑتی رہی ہے۔ اور اگرچہ مسلم اقلیتوں کے علاوہ دیگر اقلیتوں کے ساتھ اس کی جنگیں زیادہ رہی ہیں لیکن سب سے زیادہ مظالم مسلم اقلیتوں کے خلاف جنگوں کے دوران ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ اقوامِ متحدہ نے بھی ’بنیادی آزادیوں اور حقوق انسانی کی مسلسل منتظم طریقے سے خلاف ورزی کی پر زور مذمت کی ہے‘۔لیکن ان تمام مظالم کے باوجود ایک عالمی سروے کے مطابق ٹاٹماڈاؤ برمی عوام میں نہایت مقبول ہے۔ برما کی عسکری صلاحیت چین کے بل بوتے پر قائم ہے۔ اور آج کل برما روس سے جوہری توانائی بھی حاصل کر رہا ہے۔
روہنگیا اراکان کی تاریخ
اراکانی تاریخ دانوں کے مطابق ان کی ریاست تین ہزار سال قبل از میلاد سے لے کر ۱۷۸۴ء تک ایک مستقل بادشاہت رہی ہے۔ ۱۷۸۴ء میں بامار قوم نے ان پر حملہ کر کے پہلی دفعہ اس کا استقلال چھینا۔ لیکن تاریخ دان مانتے ہیں کہ اس طویل عرصے میں اراکانی تاریخ کا سنہری دور ۱۴۳۰ء میں شروع ہوتا ہے جب اراکانی بادشاہ نارامی کھلہ مِن سا مُن Min Saw Mon Narameikhla نے مسلمانوں کی مدد سے مراک یو Mrauk U کی بادشاہت قائم کی۔
۱۴۳۰ء: اراکان پر مسلمانوں کا غلبہ
۱۴۰۴ میں برما کی آوا Ava بادشاہت نے اراکان پر حملہ کیا اور اراکانی بادشاہ نارامی کھلہ کو شکست دے دی۔ لیکن اس حملے نے ۱۴۳۰ سے لے کر ۱۵۳۰ تک پوری ایک صدی کے لیے اراکان پر مسلمانوں کے غلبے کی راہ ہموار ہوئی۔ ہوا یوں کہ نارامی کھلہ نے شکست کے بعد بنگال کے سلطان جلال الدین محمد شاہ کے ہاں پناہ لی۔ اور ۱۴۳۰ء میں نارامی کھلہ سلطان کی مدد سے ہی واپس اراکانی تخت شاہی پر جا بیٹھا ۔ سلطان نے اراکانی بادشاہ کے ہمراہ بنگالی لشکر بھیجا جس میں بہت سے افغان سپاہی بھی تھے۔ بادشاہ نے نیا دار الحکومت مراک یو تعمیر کیا جہاں اس کے ساتھ آنے والی مسلم فوج آباد ہو گئی۔ مسلمانوں نے آغاز میں ہی کوالانگ گاؤں میں ساندی خان مسجد تعمیر کی۔ اراکان پر قبضہ کرنے کی مدد کے بدلے بادشاہ نے اراکانی علاقے بھنگا کے بارہ دیہات بنگالی تسلط میں دے دیے اور یہ بھی تسلیم کر لیا کہ وہ بنگال کے تابع رہے گا۔ اس لیے اراکانی بادشاہوں کے القابات اسلامی تھے1 اور اراکان میں بنگالی دینار رائج رہا جس پر کلمہ کے گرد چاروں خلفائے راشدین کے نام نقش تھے اور اسی دینار کی تصویر روہنگیا مسلمانوں کا قومی شعار بن گیا۔ ۱۴۳۳ میں سلطان جلال الدین محمد شاہ کی وفات کے ساتھ نارامی کھلہ بھی مر گیا لیکن اراکان ۱۵۳۰ تک سلطنت بنگال کے تابع رہا۔ پھر ۱۴۵۹ میں نارامی کھلہ کے ایک جانشین نے الٹا بنگالی علاقے چٹاگانگ پر حملہ کرکے اپنے تابع کر لیا اور یہ حالت ۱۶۶۶ تک رہی جب اورنگزیب کے زمانے میں مغل سلطنت نے دوبارہ چٹاگانگ کو آزاد کرا لیا۔ مراک یو بادشاہت کے اس دور کو چٹاگانگ اراکان بادشاہت سے بھی یاد کیا جا تا ہے۔ اراکانی بادشاہ سلطان بنگال سے آزادی حاصل کرنے کے باوجود اسلامی القابات استعمال کرتا تھا اور مسلمان اعلی ٰ عہدوں پر فائز رہے اور معاشرے میں اثر و نفوذ کے حامل تھے۔ اس طرح اراکان کی مسلم آبادی ۱۷ ویں صدی تک بڑھتی گئی۔
۱۶۶۰: کمان نسل
مغل شہزادہ شاہ شجاع اپنے والد کی طرف سے بنگال صوبے کا فرمانروا تھا۔ بادشاہ کی علالت کے بعد جب اسے اپنے بھائی اورنگزیب عالمگیر کی طرف سے شکست ہوئی تو اس نے اراکان میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ ۱۶۶۰ء میں اس نے اراکان کے بادشاہ سنداتھودما Sanda Thudamma کے ہاں پناہ لی جس نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ اسے حج کےلیے کشتیاں فراہم کرے گا۔ لیکن اس نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے شاہ شجاع کا سونا اور جواہرات غصب کر لیے۔ جس کے نتیجے میں شاہ شجاع نے اپنے ۲۰۰ پیروکار اور مقامی اراکانی مسلمانوں کے ساتھ مل کر فیصلہ کیا کہ شاہ اراکان کا تختہ الٹ دیا جائے کیونکہ اس نے عہد شکنی کی۔ چنانچہ شاہ شجاع کے لشکر نے تھودما پر حملہ کیا اور قریب تھے کہ شاہی محل کو آگ لگا دیں۔ اس حملے میں بے شمار مغل مارے گئے اور بہت سوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ۱۶۶۱ میں شاہ شجاع اور اس کے کئی ساتھی اراکانی فوجیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ ۱۶۶۳ میں شاہ شجاع کی اولاد کو اراکان کے بادشاہ نے کا غلام بنایا، بیٹی کے ساتھ زیادتی کی اور بعد میں قتل کر دیا گیا۔
شاہ شجاع کے ساتھ آنے والے باقی ماندہ افراد کو تابعدار کرنے کے بعد شاہی کمان بردار یونٹ میں شامل کر دیا گیا جہاں سے ان کا نام کمان پڑ گیا۔ یہی افراد موجودہ مسلمان کمان نسل کے آباء و اجداد ہیں۔ دوسری طرف اورنگزیب کی طرف سے بنگال کے نئے گورنر شائستہ خان نے حملہ کیا اور اراکان سے چٹاگانگ، رامو، مشرقی بنگال، سنڈوپ، ڈیانگا اپنے قبضہ میں لیے لیا اور دریائے ناف تک کے علاقے کو بنگال میں شامل کر لیا۔ سنداتھودما کی ۱۶۸۴ میں وفات کے بعد (کمان) مسلمان شمالی ہند سے آنے والے افغان تاجروں کے ساتھ مل کر بہت طاقتور ہو گئے اور تخت اراکان کے (بادشاہ گر ) بن گئے۔ ہند سے آنے والے مزید سپاہیوں نے بھی ان کی مدد کی۔ اس طرح کمان اراکان پر ۱۶۸۴ سے ۱۷۱۰ تک غالب رہے یہاں تک کہ بادشاہ سندا ویزایا نے انہیں دبایا اور اکثر کمان کو اراکان کے ایک جزیرے (رام ری) اور شہر (اکیاب )کے نزدیک ایک گاؤں میں جلا وطن کر دیا۔ آج کل کمان نسل سرکاری طورپہ برما کیایک سو پینتیس (۱۳۵)اقلیتی نسلوں میں سے ایک مسلم اقلیت شمار ہوتی ہے۔ اور ان کی آبادی تقریبا ۵۰ ہزار ہے۔ سندا تھودما مراک یو بادشاہت کا آخری طاقتور بادشاہ تھا۔ اس کے بعد ۱۰۰ سال تک مراک یو بادشاہت رہی لیکن انتہائی کمزور حالت میں یہا ں تک کہ بامار قوم نے اراکان پر حملہ کر کے ان کا اقتدار ختم کر ڈالا۔
۱۷۸۵: بامار کا اراکان پر حملہ
۱۷۸۵ میں برمی راجہ بودھوپیہ نے اراکان پر حملہ کرکے مراک یو بادشاہت ختم کر دی۔ اس سے پہلے تک اراکان ایک آزاد خود مختار بادشاہت رہا تھا۔ ۱۷۹۹ میں ۳۵ ہزار اراکانی بامار قوم کے ظلم سے بچنے کے لیے اس وقت برطانوی بنگال کے تابع چٹاگانگ میں پناہ گزین ہوئے۔ بامار نے ہزاروں اراکانیوں کو قتل کیا اور بڑی تعداد کو وسطی برما منتقل کر دیا۔ یہاں تک کہ جب برطانیہ نے اراکان پر قبضہ کیا تو وہاں کی آبادی انتہائی کم تھی۔ اس راجے نے اراکان کے بعد منی پور اور آسام پر بھی قبضہ کیا جو کہ آج کل انڈیا میں واقع ہیں۔
۱۸۲۶: برطانوی راج کے تحت
۱۸۲۶ میں پہلی انگلو برمی جنگ کے بعد برطانیہ نے اراکان اور تناسرم کو برطانوی بنگال میں شامل کر دیا۔ اور بنگالیوں کو تحریض دلائی کو وہ اراکان کی زرخیز زمین میں زراعت کریں کیونکہ اراکان میں آبادی بہت کم تھی۔ اس طرح بہت سے مسلمان چٹاگانگ کے علاقے سے آئے اور اراکان کے مغربی دیہات آباد کیے۔ اس کے بعد ۱۸۵۲ء میں دوسری اینگلو برمن وار میں وسطی برما اور تیسری اینگلو برمن وار ۱۸۸۵ء میں بالائی برما اور۱۸۹۰ء میں شان اسٹیٹ پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا۔
لیکن برما کی طرف ہندیوں کی ہجرت صرف اراکان تک محدود نہ تھی بلکہ پورے برما میں ہوئی۔ ہند سے یہ ہجرتیں ۱۹۲۷ میں اپنےعروج کو پہنچیں یہاں تک کہ اس وقت رنگون شہر مہاجرین کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا شہر بن گیا۔ اور برما کے بڑے شہروں میں ہندی مہاجرین آبادی کی اکثریت بن گئے۔
۱۹۳۷ : برطانیہ سے آزادی کا آغاز
برطانیہ کے قبضے سے برمی اقوام میں برطانیہ سے نفرت کے ساتھ ساتھ بنگالیوں سے بھی نفرت ہونے لگی جن کے ذریعے برطانیہ برما کو کنٹرول کر رہا تھا۔ اس لیے ۱۹۳۷ میں میں برطانیہ نے برما کو برطانوی انڈیا سے علیحدہ کر کے ایک بدھ مت کے پیروکار بامار کو وزیر اعظم مقرر کر کے مستقل برطانوی کالونی بنا دیا ۔ لیکن برمیوں کی آزادی کی جد و جہد جاری رہی۔ اور ۱۹۴۰ میں جاپان کا دوسری جنگ عظیم میں باقاعدہ داخل ہونے سے پہلے ہی برما کے مشہور جنرل آنگ سان Aung San نے جاپان میں (برما نیشنل آرمی) تشکیل دی۔
دوسری طرف ۱۹۳۹ میں برطانوی حکومت کو ارکان میں بسنے والے راکھین بدھ متوں اور مسلمانوں کے درمیان دشمنی کا احساس ہوا جس کے تدارک کے لیے برطانیہ نے اراکان میں مسلمانوں کی ہجرت کے بارے میں ایک کمیشن بنایا ۔ اس کمیشن نے سفارش کی کہ مزید ہجرت کو روکنے کے لیے اراکان اور بنگال کے درمیان سرحد کو بند کر دیا جائے۔ جو کہ ۱۹۴۱ میں انڈو برمی معاہدہ کے بعد فعلاً رک گئی۔
تیسری طرف (برمی برطانوی )اور (بدھ مسلم) کشمکش کو دیکھتے ہوئے ۱۹۴۰ا کی دہائی میں روہنگیا مسلمانوں نے اپنے تحفظ کے لیے علیحدگی کی تحریک چلائی تاکہ اس علاقے کو مستقبل کے مغربی پاکستان سے ملحق کیا جائے۔ لیکن اسی وقت عالمی جنگ دوم شروع ہوئی اور ۱۹۴۲ میں جاپانی فوج نے برما پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں برطانوی فوج نے برما سمیت اراکان سے بھی پسپائی اختیار کر لی۔ لیکن نکلتے ہوئے برطانیوں نے اپنی مفادات کی خاطر شمالی اراکان میں مسلمانوں کو ہتھیار دیے تاکہ وہ ان کے اور چاپانی فوج اور ان کے حمایت یافتہ راکھین بدھوں کے درمیان بفر زون بن جائیں۔
پھر آہستہ آہستہ اتحادی ممالک نے دوبارہ سے اپنے آپ کو برما میں منظم کیا اور ۱۹۴۵ میں جاپانی فوج کو شکست دے دی۔ اگرچہ شروع میں بہت سے برمیوں نے برما کی آزادی کی خاطر جاپانی فوج کی حمایت کی تھی لیکن بہت سے برمی خصوصا برما کی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ایسے بھی تھے جو برطانیہ کی برمی فوج میں لڑ رہے تھے۔ شروع میں برمانیشنل آرمی اور اراکان نیشنل آرمی جاپان کے ساتھ مل کر لڑ رہے تھے لیکن ۱۹۴۵ میں جاپان کی شکست کو دیکھتے ہوئے جاپان کو چھوڑ کر اتحادیوں کے ساتھ مل گئی۔
۱۹۴۷ میں بامار قوم سے تعلق رکھنے والے آنگ سان نے دیگر نسلی اقلیتوں کے قائدین کے ساتھ پانگلانگ مذاکرات کیے جس کے نتیجے میں عارضی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوا لیکن اس کے حریفوں نے جلد ہی اسے قتل کر دیا۔
۱۹۴۲: مسلم بدھ فسادات اور قتل عام
جنگ عظیم دوم کی اس کشمکش کے دوران ہی ۱۹۴۲ میں اراکان میں مشہور قتل عام ہوا۔ جس میں روہنگیا کے ۵ ہزار اور بدھوں کے ۲۰ ہزار قتل ہوئے۔ جہاں برطانیہ اپنے مقاصد کے لیے مسلمانوں کی پشت پناہی کر رہا تھا وہیں جاپان بدھوں کا ساتھ دے رہا تھا۔ چنانچہ جاپانی فوج برما کے بقیہ علاقوں کی طرح اراکان میں بھی مسلمانوں کے ساتھ جنسی زیادتی، قتل اور تشدد کی مرتکب ہوئی۔ جس کے نتیجے میں تقریبا ۲۲ ہزار مسلمان اراکان سے برطانوی بنگال منتقل ہوئے۔ اس وقت پورے برما سے مسلمانوں کے علاوہ بہت سے برمی انڈین، اینگلو برمی اور برطانوی بھی منتقل ہوئے۔ برطانوی فوج نے روہنگیا مسلمانوں کو دوبارہ اراکان میں آباد کرنے کےلیے روہنگیا کی ایک رضاکار فورس بنائی اور انہیں اسلحہ فراہم کیا۔ اس طرح جاپان اور اتحادیوں کے درمیان تین سالہ جنگ کے دوران اراکان میں بھی فسادات جاری رہے۔ اور اس وقت سے یہ علاقہ نسلی طور پہ تقسیم ہو گیا۔ اس قسم کے فسادات صرف اراکان میں نہیں ہوئے بلکہ پورے برما ہوئے۔
۱۹۴۸: پاکستان سے الحا ق کا مطالبہ مسترد
۴ جنوری ۱۹۴۸ کو برما برطانیہ سے آزاد ہوا۔ برطانیہ سے برما کی آزادی سے پہلے ہی اراکان کے مسلم قائدین نے محمد علی جناح سے ملاقات کی اور اس سے مایو Mayu یعنی مغربی اراکان کے علاقے کو مذہبی اور جغرافیائی روابط کی بنا پر پاکستان میں شامل کرنے کی اپیل کی ۔ نیز اراکان کے دار الحکومت آکیاب (حالیہ سایٹوے) میں مسلم لیگ قائم کر کے پاکستان میں شمولیت کامطالبہ کیا۔ لیکن یہ درخواست کبھی بھی قبول نہیں ہوئی کیونکہ محمد علی جناح نے علانیہ اس کی مخالفت یہ کہتے ہوئے کی کہ ”وہ برمی امور میں مداخلت کی پوزیشن میں نہیں ہے“۔محمد علی جناح کے انکار کے نتیجے میں روہنگیا کے بڑوں نے شمالی اراکان میں (مجاہد) پارٹی بنائی جس کا مقصد اراکان میں مسلم خود مختار ریاست قائم کرنا تھا۔
۱۹۴۸: مجاہدین تحریک
۱۹۴۸ میں جہاں برما برطانیہ سے آزاد ہوا وہیں برمی حکومت نے روہنگیا کو شہری تسلیم کرنے سے بھی انکار کیا ۔ جس کے نتیجے میں تحریکِ مجاہدین کو مزید تقویت ملی۔ ذہن میں رہے کہ اس دوران اراکان میں راکھینی بدھوں کی علیحدگی پسند تحریک بھی ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ ان دو تحریکوں کی وجہ سے مسلمان اور بدھوں میں مستقل عدم اعتماد اور دشمنی کی فضا قائم رہی۔ اس طرح روہنگیا مسلمانوں کے سامنے دو دشمن تھے۔ مرکزی سطح پر بامار بدھ اور مقامی سطح پر راکھینی بدھ۔ ۱۹۵۰ کی دہائی میں اراکانی مسلمانوں نے اپنے لیے روہنگیا کا لفظ استعما ل کرنا شروع کیا تاکہ اپنے آپ کو اراکان کا اصلی باشندہ ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی الگ شناخت کو بھی برقرار رکھیں۔
اس عرصے میں جنگ عظیم دوم کے دوران چٹاگانگ میں پناہ لینے والے روہنگیا مسلسل واپس آتے رہے لیکن برما کی حکومت انہیں غیر قانونی مہاجرین کہتی رہی اور بہت کو واپس آنے سے زبردستی روکا بھی۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
1 – مثلا نارامی کھلہ کا لقب (سلیمان شاہ ) تھا۔