۲۰۰۷: جمہوری اقتدار
۲۰۰۷ میں مہنگائی کے نتیجے میں بدھ راہبوں نے احتجاجات شروع کیے جو کہ زعفرانی انقلاب سے مشہور ہوئے۔ انہیں بھی زبردستی کچل دیا گیا۔ اگست ۲۰۰۹ میں نسلی فسادات شروع ہوئے جس کے نتیجے میں فوج چینی نسلی اقلیتوں کے ساتھ لڑتی رہی اور ۱۰ ہزار برمی شہری چین ہجرت کر گئے۔ ۲۰۱۰ میں عام انتخابات ہوئے جس میں فوجی حمایت یافتہ پارٹی نے اکثریت حاصل کی۔ ۲۰۱۱ میں فوجی اقتدار کا خاتمہ ہوا۔
۲۰۱۲: فسادات اور اندرون ملک پناہ گزین
برما کی فوجی حکومت نصف صدی سے برمی قومیت کو بدھ مت سے جوڑتی آئی ہے تاکہ اپنے اقتدار کو مستحکم کر سکے۔ اس لیے روہنگیا اور دیگر اقلیتی نسلوں کے خلاف امتیازات برتتی رہی ہے۔ برما کی حکومت بدھ راہبوں کو بھی تحریض دلاتی رہے کہ وہ ان نسلی اقلیتوں کے خلاف فسادات کریں خصوصاً جب ۲۰۱۱ میں فوجی اقتدار ختم ہوا اور فوج کو محسوس ہوا کہ اسے عوام میں اپنی اہمیت اجاگر کرنی چاہیے۔ چنانچہ ۲۰۱۲ میں شمالی اراکان کے روہنگیا اکثریت اور جنوبی اراکان کے راکھینی بدھ اکثریت کےدرمیان فسادات برپا ہوئے۔ ان فسادات سے پہلے بدھوں میں افواہیں پھیلائی گئیں کہ وہ اپنی ہی سرزمین میں اقلیت بن جائیں گے۔ غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق آغاز راکھینی خاتون کے ساتھ روہنگیا کی طرف سے اجتماعی زیادتی اور اس کے بعد بدھوں کی طرف سے دس مسلمانوں کے قتل سے ہوا۔ فسادات کے دوران بہت سے راکھینی عوام کے بقول انہیں حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنی نسل اور دین کے دفاع کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور انہیں سائٹوے میں چاقو، خوراک اور سواری فراہم کی گئی تاکہ وہ شمالی اراکان جا کر روہنگیا پر حملے کریں۔ اتنے بڑے فسادات اور حقائق منظر عام پر آنے کے باوجود آج تک برمی حکومت نے اس غارت گری میں کسی کا تعاقب نہیں کیا۔ کافی بدھ راہب تنظیموں نے کوشش کی کہ روہنگیا نسل کو کسی قسم کی انسانی مدد نہ پہنچے۔
فسادات کے دوران گاؤں کے گاؤں میں اعشاری قتل عام ہوا۔ یعنی کہ ہر دس میں سے صرف ایک شخص کو زندہ رہنے دیا۔ حکومت کے مطابق ۷۸ افرادہلاک ہوئے، ۸۷ زخمی ہوئے اور ایک لاکھ ۴۰ ہزار بے گھر ہوئے جنہیں حکومت نے بعد میں پناہ گزین کیمپوں میں محصور کر دیا۔ جبکہ روہنگیا ذرائع کے مطابق ۶۵۰ کو قتل کیا اور ۱۲۰۰ لا پتہ ہو گئے۔
فسادات کو کنٹرول کرنے کےلیے حکومت نے محض کرفیو لگایا اور فوج تعینات کر دی لیکن تحفظ کے بجائے مغربی ذرائع کے مطابق فوج خود تشدد میں ملوث رہی۔ جون ۲۰۱۲ میں اراکان میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ فسادات کے بعد کئی بدھ راہب تنظیموں نے ان این جی اوز کا بائیکات کیا جنہوں نے اس دوران روہنگیا کی مدد کی۔ ۱۹۸۲ کے قانون کے مطابق ۲۰۱۲ کی مردم شماری میں روہنگیا کو نہیں شامل کیا گیا ۔
۲۰۱۵: اجتماعی ہجرت
۲۰۱۲ سے ہی روہنگیا مسلمانوں کو حکومت کی طرف سے مزید ظلم کا خطرہ تھا۔ اور ۲۰۱۴ کی مردم شماری نے اس خطرے کو مزید یقینی بنا دیا جب برمی حکومت نے روہنگیا لفظ پر ہی پابندی لگا دی اور ا س کے بجائے فقط بنگالی کا لفظ استعمال ہونے لگا۔ ۲۰۱۵ کی رپورٹ کے مطابق دو سالوں کے دوران ظلم اور تشدد کے ڈر سے اور روزگار کمانے کی خاطر ایک لاکھ سے زائد روہنگیا چھوٹی کشتیوں میں برما سے ہجرت کر گئے۔ لیکن بڑی ہجرت ۲۰۱۵ میں ہوئی۔ چونکہ اس ہجرت میں بہت لوگ کشتیوں پر سوار ہوئے اس لیے عالمی ذرائع ابلاغ میں انہیں (کشتیوں والے) کہا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق جنوری تا مارچ ۲۰۱۵ میں ۲۵ ہزار لوگ کشتیوں پر سوار ہوئے جن میں سے ۱۰۰ انڈونیشا میں ہلاک ہوئے، ۲۰۰ ملیشیا میں اور ۱۰ تھائی لینڈ میں۔ ۳۰۰۰ افراد کو کشتیوں سے نکالا گیا یا وہ خود تیر کر کسی زمین پر پہنچ گئے جبکہ بہت سے کشتیوں میں ہی تا دم مرگ پھنسے رہے۔ بچنے والوں میں ۷ ہزار سے زائد نظر بند مراکز میں رہ ہے ہیں۔ تھائی لینڈ پہنچنے والوں کو وہاں کی حکومت نے دوبارہ کشتیوں میں باندھ کر سمندر میں دکھیل دیا۔ بنگلہ دیشی حکومت نے مہاجرین کے ساتھ تعاون کم کیا تاکہ مزید نہ آتے جائیں۔ اور ہزاروں پناہ گزینوں کو زبردستی ایک جزیرہ پر آباد کرنے کا منصوبہ شروع کیا جہاں زندگی کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اگرچہ ۲۰۱۵ کے انتخابات میں آنگ سان سو چی کے حزب مخالف نے اکثریت حاصل کی اور آنگ سان سوچی کو وزیر اعظم کے برابر کا عہدہ ملا کیونکہ بر بنائے قانون وہ صدر نہیں بن سکتی لیکن نہ فوجی حکومت کے تحت مسلمانوں کو انصاف ملا اور نہ جمہوری حکومت کے تحت۔
۲۰۱۶: کریک ڈاؤن اور تیسری جلا وطنی
۲۰۱۶ میں میانمار کی فوجی فورسز اور انتہا پسند بدھوں نے روہنگیا مسلمانوں پر بڑے پیمانے پر حملے کیے۔ یہ کریک ڈاؤن بارڈر پولیس کیمپ پر نا معلوم مسلح گروہ کے حملے کے بعد ہوا۔ اس فوجی آپریشن میں بڑے پیمانے پر حقوق ِانسانی کی خلاف ورزیاں ہوئیں جن میں ما ورائے عدالت قتل، اجتماعی زیادتی، نذر آتش کرنے اور تشدد کے واقعات شامل ہیں۔ اس وقت کی فعلاً حکمران (آنگ سان سو چی) پر بہت تنقید ہوئی کہ وہ کیوں خاموش رہی اور کچھ نہیں کیا۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے نمائندے نے برما پر روہنگیا نسل کشی کا الزام لگایا۔ اقوام متحدہ کی تحقیقات کے مطابق قوم پرست بدھوں کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نفرت اور مذہبی عدم رواداری پائی جاتی ہے۔ جب کہ برمی سیکورٹی فورسز ما وارئے عدالت قتل، زبردستی لاپتہ، ظالمانہ قید ، نظر بندی، تشدد ، ہتک آمیز رویہ اور زبردستی مزدوری میں ملوث ہے۔
مظالم کی فہرست
ایک لاکھ ۴۰ ہزار سے زائد برما کے اندر پناہ گزین کیمپوں میں محصور ہیں جس کی مثال ایک بڑے جیل کی ہے۔ جہاں نہ کوئی روزگار ہے اور نہ انہیں نکلنے کی اجازت ہے۔
روہنگیا کی تقریبا آدھی آبادی زبردستی جلا وطن کر دی گئی ہے۔
روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کے کسی ملک کی بھی شہریت نہیں حاصل اس لیے انہیں بنیادی انسانی حقوق ہی حاصل نہیں۔ حق شہریت، حق ملکیت، حق روزگار، حق تعلیم، حق خود ارادیت…… سب سے محروم ہیں۔
انہیں سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
انہیں زمین کی ملکیت کی اجازت نہیں ہے۔
ان کی زرخیز زمینوں کو زبردستی لے کر برما کے دیگر علاقوں سے آئے ہوئے بدھ آباد کاروں کو دیا گیا ہے۔
ہر روہنگی پر لازم ہے کہ وہ عہدنامہ پر دستخط کرے کہ ان کے دو سے زیادہ بچے نہیں ہوں گے۔
روہنگیا سے حکومت اور فوج زبردستی مزدوری کراتی ہے۔ ہفتہ میں ایک دن فوجی اور حکومتی منصوبوں میں کام کرنا ہوتا ہے اور ایک رات چوکیداری کرنی ہوتی ہے۔
برمی سیکورٹی فورسز اور دہشت گرد بدھوں کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں کو ماورائے عدالت قتل، زبردستی لاپتہ، قید ، نظر بندی، گھروں کو نذر آتش، جسمانی تشدد ، جنسی زیادتی، ہتک آمیز رویہ اور زبردستی مزدوری کا سامنا ہے۔
روہنگیا قوم کو ’’دنیا میں سب سے غیر مطلوب قوم ‘‘ اور ’’دنیا کی سب سے مظلوم اقلیت‘‘ قرار دیا گیا ہے۔
جائزہ
اس مختصر سی تاریخ پر نظر دوڑانے کے بعد ذہن میں کئی سوالات ابھرتے ہیں:
آیا خود برمار قوم تبت سے ہجرت کر کے اور اپنے ساتھ اپنا بدھ مذہب اس علاقے میں لانے والی نہیں ہے؟ تو آیا یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس سرزمین کی شہریت اسے ملنی چاہیے جو برمار کی ہجرت سے پہلے یہاں آباد تھا؟
آیا موجودہ عالمی نظام اور اقوام متحدہ آج امریکہ کے اصلی باشندوں کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو امریکہ کا اصلی باشندہ اور انگریز حملہ آور اور آباد کاروں کو (غیر قانونی عیسائی مہاجر) قرار دے کر ان کے حقوق واپس لے اور نئے آباد کاروں کو پناہ گزین کیمپوں میں محصور کر دے؟
آیا برمار بدھ مت قوم نے اپنے ہی ہم مذہب اراکانی بادشاہت کو ختم کر کے زبردستی اراکان پر قبضہ نہ کیا تھا؟ اور یہ برمار حکومتوں کی طرف سے اراکانیوں کے خلاف کوئی پہلی مہم جوئی نہ تھی؟
آیا مسلمان سلطان بنگال نے اراکانی بدھ بادشاہ اور بے شمار اراکانی بدھوں کو پناہ دے کر اور بعد میں دوبارہ اسے مسند اقتدار پر بٹھا کر اراکانی بدھوں کے ساتھ زیادتی کی تھی یا احسان؟
آیا سلطنتِ بنگال کے زیرِ سایہ اور مسلمان مشیروں، کمانڈروں اور اہل علم و حرفت کی مدد سے اراکانی بادشاہت اور قوم اپنی تاریخ کے سنہری دور سے نہیں گزری؟
آیا اراکانی بدھوں نے مغل شہزادے کے ساتھ غدر نہ کیا اور ان کے بادشاہ نے مسلمان عزت کو پامال نہ کیا؟
آیا اراکانی بدھوں نے سو سال بعد اپنے دشمن برمار کے بجائے اپنے محسن بنگال پر ہی چڑھائی کر کے بنگالی علاقوں پر قبضہ نہیں کیا؟
آیا اراکانی بدھ بادشاہت کی جانب سے مغل مسلمانوں سے غدر اور بنگال کی زمین پر دست درازی کے بعد اگر مغل سلطنت نے اراکان سے بنگالی سرزمین چھڑائی اور کچھ پیش قدمی کی تو کیا وہ حق بجانب نہ تھی؟
آیا اراکان میں مسلمانوں کی ہجرتیں زور و زبردستی سے ہوئیں یا کہ پہلے اراکانی بادشاہوں کی اجازت سے ، اراکانی بدھ بادشاہ کا مغل کمان فوج کی زبردستی بھرتی اور بعد میں انگریز حکمرانوں کی اجازت اور خواہش سے اراکان کی تعمیر و ترقی کے لیے ہوئیں؟
آیا روہنگیا مسلمانوں کے معتدل مذہب میں شادی بیاہ اور نسل کو بڑھانے کے فطری اصول پر عمل کرنے اور اس کے مقابل میں راکھینی بدھوں کے غیر معتدل مذہب میں فطری ازدواجی زندگی سے کنارہ کشی اور نسل نہ بڑھانے میں روہنگیا مسلمانوں کا قصور ہے کہ ان کی آبادی کا تناسب راکھینی بدھوں سے بڑھ گیا اوراب ان پر زبردستی کم اولاد پر مجبور کیا جا رہا ہے؟ آیا برما میں کسی اور نسل پر کم اولاد پیدا کرنے کا قانون نافذ ہے؟ آیا یہ نسلی امتیاز اور نسل کشی نہیں؟
آیا پانگلانگ معاہدہ میں صرف برمار، شان، کھاچین اور چھین نسلوں کے درمیان اتحاد قائم نہ ہوا تھا؟ تو اس میں اراکان سمیت دیگر اقلیتوں کو زبردستی کیوں شامل کیا گیا؟
آیا اراکان اپنے جغرافیے او رتعلقات کی بنا پر بنگلہ دیش سے زیادہ قریب نہ تھا کہ اس کا الحاق برما کے بجائے بنگلہ دیش سے ہو جاتا؟
آیا پورا ارکان نہ سہی لیکن اس کے شمالی مسلم اکثریتی اضلاع کا یہ حق نہ تھا کہ ان کا ان کے اپنے ہم مذہب اور ہم زبان چٹاگانگ کے ساتھ الحاق کر دیا جاتا؟ اگر جدید دنیا مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کو مذہبی بنیاد پر مسلم اکثریت سے تقسیم کر سکتی ہے تو روہنگیا قوم سمیت دیگر علیحدگی اور آزادی پسند مسلم اقوام کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں برتا جاتا ہے؟
آیا آج بھی برمار قوم زور و زبردستی سے دیگر نسلی اقلیتوں پر مسلط نہیں۔ اور اسے بخوبی علم ہے کہ اگر وہ فوجی قوت نہ استعمال کرے تو اس کی ریاست کے حصے بخرے ہو جائیں گے کیونکہ برمار ایک قومی یا مذہبی اکائی نہیں ہے تو اسے زبردستی (نیشن سٹیٹ) کیوں قرار دیا جا رہا ہے؟
برما میں صرف روہنگیا مسلمان مہاجر بن کر نہیں آئے۔ بلکہ پانتھی مسلمان چین سے اور کمان مسلمان انڈیا سے مہاجر ہو کر آئے۔ تو صرف روہنگیا کی شہریت ہی کیوں چھینی گئی ہے؟ یا کہ یہ پہلا قدم ہے اگر کامیاب ہو جائے تو پانتھی اور کمان کے ساتھ بھی ایسا اقدام کیا جائے گا؟ اور یا پانتھی اور کمان ایسی مسلم اقلیتیں ہیں جو بدھ مذہب کو اعلی ہونے کے طور پر قبول کر چکی ہیں؟
آیا اگر برطانیہ نے اپنے مفاد میں روہنگیا مسلمانوں کو مسلح کیا اور جاپان نے اپنے مفاد میں راکھین بدھوں کا ساتھ دیا تو اس میں صرف روہنگیا کا کیا قصور ہے؟ جبکہ جنگ آزادی میں خود برمی نیشنل آرمی پہلے جاپان کی وفادار تھی لیکن جب عالمی جنگ کی کایہ پلٹی تو برطانوی اتحادیوں کے ساتھ اتحاد کر لیا جس کو پہلے وہ غاصب قرار دیتے رہے؟ آیا برمی قوم پر یہ الزام نہیں لگنا چاہیے کہ اس نے خود برما پر غاصب استعماری قوت کے ساتھ اتحاد کیا؟
آیا روہنگیا کی سیاسی جمہوری تحریک کے بعد برمی حکومت نے ان کے ساتھ کوئی مذاکرات شروع کیے کہ اب کوئی دعوی کرے کہ مسلح تحریک نے کام خراب کیا؟
اگر دنیا کی نظر میں (مسلح) تحریکیں اتنی ہی بری ہیں تو آیا اقوام متحدہ کو یہ نہیں چاہیے کہ وہ تمام ممالک کی (مسلح) افواج کو ختم کر دے؟
برمی حکومت کو برما کی آزادی کے ۳۵ سال بعد کیوں خیال آیا کہ روہنگیا برما کے شہری نہیں ہیں؟ آیا اس لیے کہ حکومت کے لیے روہنگیا کے حق آزادی اور خود ارادیت کے سامنے اور کوئی چارہ نہیں تھا؟ اور اس لیے کہ روہنگیا نے اپنے حقوق کے لیے مسلح جد و جہد کا راستہ اپنایا؟
اگر دنیا کا ہر ملک وہاں رہنے والے اصلی اقلیتی باشندوں کو شہریت دینے سے انکار کرے تو دنیا کی کثیر آبادی شہریت سے محروم ہو جائے گی۔ سوچیے اگر بھارت بھارتی مسلمانوں کو شہریت دینے سے انکار کر دے جیسے کہ وہ لگے ہوئے ہیں تو کیا بنے گا؟
دنیا میں اکثر تنازعوں کو دیکھا جائے تو اس کے پیچھے قومی یا مذہبی عوامل ہوتے ہیں۔ تو دنیا قومی (نیشنل) عنصر کو اگر تسلیم کرتی ہے تو پھر مذہبی (ریلجین) عنصر کو سٹیٹ قائم کرنے کے لیے تسلیم کیوں نہیں کرتی؟
مسلم روہنگیا کا مسلم ممالک سے الحاق کی خواہش اور اب آزاد خود مختار مستقل ریاست کے مطالبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہب کا رشتہ وطن اور قوم کے رشتے سے زیادہ مضبوط ہے۔ تو مذہبی بنیاد پر ریاست کی بنیاد بنانے پر دنیا کو اعتراض کیوں ہے؟
اگر دنیا خود شہری (غیر مسلح) اور فوجی (عسکری یا جنگجو) کے درمیان تفریق کی قائل ہے اور نہتے غیر مسلح شہریوں پر جنگ مسلط کرنے کو نا جائز قرار دیتی ہے تو پھر برما کی حکومت نے فقط روہنگیا مسلح مجاہدین کے بجائے پوری قوم کے خلاف کیوں جنگ مسلط کی؟
اگر دنیا امارت اسلامیہ کو (محدود حکومت) اور (حقوق کی پامالی) کی وجہ سے پوری کی پوری ریاستِ افغانستان کو ہی تسلیم نہیں کر رہی تو برما کی (مخصوص برمار نسل) اور (حقوق کی پامالی) کرنے کی وجہ سے رکنیت منسوخ کیوں نہیں کرتی؟
آیا برما کی حکومت کا روہنگیا کو شہریت دینے سے انکار کرنا افغانستان کو اقوامِ عالم کی رکنیت دینے سے انکار کرنا (جدید کفری عالمی نظام) کے ایک ہی موقف کی دو علیحدہ تصویریں نہیں؟
آیا برما کی حکومت کا روہنگیا کو شہریت دینے سے انکار کرنا افغانستان کو اقوامِ عالم کی رکنیت دینے سے انکار کرنا (جدید کفری عالمی نظام) کے ایک ہی موقف کی دو علیحدہ تصویریں نہیں؟
ان سوالات کا جواب دیتے دیتے بہت وقت لگ جانا ہے۔ اور پھر انصاف حاصل کرنے کے لیے (ظالم اور امتیازی رویہ ) برتنے والے (اقوام متحدہ) کے ادارے کی طرف کیسے رجوع کیا جائے جو خود یہ مسائل پیدا کرنے والا ہے۔ قارئین کے سامنے آخر میں ان بیسیوں سوالوں کے بجائے صرف ایک ہی سوال رکھتا ہوں:
آیا امارت اسلامیہ کی طرح اپنی قوت اور زور کے بل بوتے پر اپنے حقوق کے لیے انتہائی حکمت کے ساتھ لڑنا مختصر اور درست راستہ نہیں؟
٭٭٭٭٭