دہائیوں پہلے غزوۂ ہند کی احادیث مطالعے میں آئی تھیں۔اس وقت یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایسا کیا ہو جائے گا کہ مسلمانوں کا ایک متحدہ لشکر وطن عزیز پر حملہ آور ہوگا۔فسادات کہاں نہیں ہوتے ،کم وبیش ہر ملک میں ہوتے ہیں ۔اکثریت ،اقلیت پر کہاں ظلم نہیں کرتی ۔کہیں رنگ،کہیں نسل، کہیں مذہب کے نام پر یہاں تک کہ صنف یا جنس کی بنیاد پر بھی دنیا میں ظلم ہوتا آیا ہے۔مگر اب وہ لوگ دنیا سے چلے گئے جو اس طرح کا ظلم دیکھ کر بھی قوموں کو نہیں گروہوں کو بھی نہیں قافلوں کو بچانے ملکوں پر حملہ آور ہو جاتے تھے۔اس لیے ہم یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتے رہے کہ ایسا کیا کریں گے یہ اکثریت کے لوگ کہ منتشر مسلمان متحد ہو جائیں گے۔ایسا لگتا ہے کہ یہ بات سچ ہی ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد جہاد میں ہے۔علامہ اقبال نے کہا تھا ؏مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے۔اب صدیوں سے مسلماں دین سے دور ہو رہے تھے مقامی طوفان نے انھیں تھپیڑے دے دے کر پھر دین کے ساحل پر لا پٹکا ہے۔پہلے ہمار ا خیال تھا کہ دور فتن کی احادیث پوری ہوتے شاید نصف صدی گزر جائے مگر اب ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کو نہیں خود ابلیس کی ذریت کو اپنے انجام کی جلدی پڑی ہے۔ہندتوا کے متوالوں کے طفیل ۲۰۱۴ء سے حالات میں جو تبدیلی یا شدت آنا شروع ہوئی ہے اس نے ہماری بہت سی آرا کو تبدیل کر دیا ہے۔کبھی کسی زمانے میں ہمارا بھی ’’چالو چالو‘‘ خیال یہی تھا کہ قوموں کے ہر مسئلے کا حل تعلیم میں ہے مگر اب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم کی اہمیت انسان کی ذاتی زندگی میں بہت زیادہ ہے ۔مگر دنیا پر غلبہ قوموں کے اتحاد اور اپنے مقصد سے خلوص کی بنیادپر ہوتا ہے۔اگر غلبہ تعلیم کی بنیاد پر ہوتا تو نہ ہلاکو بغداد کو تباہ کرپاتا نہ مسلمانوں کو ہسپانیہ سے بھاگنا پڑتانہ امریکہ طالبان سے محفوظ راستے کی بھیک مانگتا۔
بڑا افسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ وطن عزیز کے ارباب اقتدارنے پورے ملک کو ابلیس کے پالے میں ڈال دیا ہے ۔یہ بھی یہودیوں کی صحبت میں رہ کر یہودیوں کی طرح ہو گئے ہیں۔وہ یہودی جو جانتے تھے کہ حضور ﷺاللہ کے سچے اور آخری نبی ہیں اور پھر بھی ان کے مخالف رہے۔یہودی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ الملحمۃالکبریٰ پیش آئے گا اور پوری یہودی قوم فنا ہو جائے گی ۔بالکل اسی طرح ہندتوا کے متوالے بھی جانتے ہیں کہ غزوۂ ہند پیش آئے گا اور ان کا انجام بخیر نہ ہوگاپھر بھی وہ اپنے انجام کی طرف دھیرے دھیرے نہیں سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ ایسا لگتاہے کہ یہ جلد یا بدیر ملک کو خانہ جنگی میں دھکیلیں گے۔ان کی ساری حرکتیں اسی جانب اشارہ کر تی ہیں ۔شاید اسی طرح حضور ﷺ کی وہ پیش گوئی پوری ہو کہ اگر کسی کے سو بیٹے ہوں گے تو نناوے کام آجائیں گے ۔یعنی زبردست جانی نقصان ہوگا ۔مسلمانوں کے لیے اس طرح کا جانی نقصان کوئی حیثیت نہیں رکھتا،مگر جنگ کے دوسرے فریق کا کیا؟اس اکھاڑ پچھاڑ کا دوسری قوموں کو بہت فائدہ ہوگا، وہ ہندتوا کے سائے سے دور بھاگیں گے۔وہ جلد سمجھ جائیں گے کہ ہندتوا کے سائے میں ان کا نام و نشان مٹ جائے گا اور بچ بھی گئے تو برہمنوں کی غلامی کرنی پڑے گی ۔
اسی دوران ممبئی اردو نیوز کے ایڈیٹر جناب شکیل رشید کا ۱۲ جون کا اتواریہ نظر سے گزرا۔مدیر محترم، اتواریے میں مسلمانوں کے احتجاج پر انٹلیکچوئل مسلمانوں کی تنقید سے دلبرداشتہ نظر آئے۔اتواریہ ختم کرتے کرتے ہمارے ذہن میں جو شعر گونجا وہ یہ تھا
قبل آغاز ہی انجام کا ڈر ہوتا ہے
دور اندیش بڑا تنگ نظر ہوتا ہے
اگر یہ فلسفہ کمیونسٹوں کے کام آسکتا ہے تو اسلامیوں کے کیوں نہیں۔شکیل بھائی!ایک فلم کا ڈائیلاگ بھی سن لیجیے، ’جو کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں‘۔آپ بھی ابن صفی کے عاشق ہیں۔ غالباً جہنم کا شعلہ میں وہ کہتا ہے ’’فلسفہ ذہین آدمی کے احساس کمتری کا نام ہے‘‘۔ محترم ! کیا خود حضور ﷺکے سامنے ایسے اصحاب یا منافقین (جو بھی کہہ لیں)موجود نہ تھے جو جہاد پر جانے سے بچنے کے لیے بہانے بناتے تھے ایسے لوگ ہر جگہ ہر وقت ہر قوم میں موجود ہوتے ہیں۔جب امریکہ نے طالبان پر حملہ کیا توکیا اس وقت طالبان کو امریکہ کے سامنے سرینڈر کرکے اسامہ کو اس کے حوالے کرنے کا مشورہ دینے والے موجود نہ تھے ۔ہمیں یقین ہے کہ آج وہی سب سے زیادہ بغلیں بجاتے ہوں گے۔
اب کہاں غازی علم الدین جیسے لوگ جو جان بچانے تک کے لیے غیروں کی عدالتوں میں جھوٹ بول دینا اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے ۔ کیونکہ اس سے ان کے عشقِ رسولؐ پر حرف آتا تھا ۔جس طرح ہم جی رہے ہیں ہمیں ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر مرنے کا مزہ چھو بھی نہیں سکتا ۔ بدر الدین طیب جی تو ان انٹلیکچولوں کے باپ تھے مگر انگریز کی عدالت میں انھوں نے عاشقِ رسول کا مقدمہ لڑتے ہوئے کہا تھا کہ میں بھی ہوتا تو یہی کرتا ۔توجناب، جب حالت یہ ہو تو ہمارے دانشور ایسے ہی بات کریں گے جیسے آپ کے ساتھ سوشل میڈیا پر ہوا۔ بمبئی میں ۲۰ سال میں نے ڈاکٹروں کے درمیان گھومتے گزارے ہیں ۔جب بھی کوئی بم دھماکہ ہوتا تو سب سے پہلے اپنے ہی لال بھجکڑ مسلمانوں کو گالیاں دینا شروع کر دیتے۔وہ تو شکر ادا کرنا چاہیے آنجہانی کرکرے کاکہ اس نے جان پر کھیل کر ’’کھیل ‘‘بدل دیا تھا ۔تب جا کر کہیں ہمارے دانشوروں کے سُر بدلے تھے اور وہ ہندو دہشت گردوں کو گالیاں دینے لگے تھے۔
اب ایسے جان پر کھیلنے والے کم سے کم مسلمان پڑھے لکھوں میں تو نہیں ہیں۔اس موقعے پر راحت مرحوم کا یہ شعر یاد آتا ہے۔تھوڑے تصرف کے ساتھ
یہ لوگ پاؤں نہیں ذہن سے اپاہج ہیں
ادھر چلیں گے جدھر ’’میڈیا‘‘ چلاتا ہے
اور مسلمانوں کا میڈیا تو ہے نہیں اس لیے ہر لال بھجکڑ مبصر؍ تجزیہ کار بنا بیٹھا ہے ۔ایک بات اور ہے سوشل میڈیا کے دگجوں کی اوقات ہی کیا ہے ۔کیا کوئی مائی کا لعل یہ گارنٹی دے سکتا ہے کہ اگر مسلمان چوڑیاں پہن کر گھروں میں بیٹھ گئے تو کوئی انہیں کچھ نہ کہے گا۔ ارے،آج کی حالت تو یہ ہے کہ جس چیز کی گارنٹی دستور نے دی ہے اس کی بھی دھجیاں اڑ رہی ہیں۔ سوشل میڈیا کے دانشوروں سے پوچھا جانا چاہیے کہ تحفظ عبادت گاہ قانون کا کیا ہوا؟پرسنل لاء میں عدم مداخلت کے قانون کا کیا ہوا؟لوگوں کے گھروں پر بلڈوزر کس قانون کے تحت چل رہے ہیں؟شکیل بھائی ! ایسا لگتا ہے کہ معترض حضرات کی اب تک کی زندگی والدین کی گود میں گزری ہے ۔ خیر!
توہین رسالت پر تھوڑی گفتگو اور کرلیں۔بخاری شریف پڑھیے تو پتہ چلے گا کہ خود حضور ﷺ نے اپنی زندگی میں ہی دو شاتمینِ رسول کو خفیہ طریقے سے مروایا تھا(اسی لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام دہشت گردی کا مذہب بھی ہے،یعنی سانپ بھی مر گیا تھا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی تھی)حضور ﷺ کا قریب قریب ہر فعل ہمارے لیےمشعل راہ ہے خود حضور نے ان شاتمین کو سمجھانے بجھانے یا ’’تڑی پار‘‘ کا نوٹس کیوں نہ دیا ؟خیر،عربوں کی بیداری سے اور مسلم بچوں کی سر فروشی سے ہندتوا کے شیطانوں کو یہ احساس تو ہو گیا کہ انہوں نے سرخ لکیر عبور کرلی ہے۔ اب لیپا پوتی کی کوششیں ہو رہی ہیں مگر ہمیں یقین ہے کہ یہ سب عارضی ہے ۔ جلد ہی یہ کسی اور طریقے سے مسلمانوں اور اسلام کو تنگ کریں گے ۔ کیونکہ ہمارے نزدیک غزوۂ ہند بھی طے ہے اور ان کا انجام بھی۔
٭٭٭٭٭