نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home آخرت

أشراط الساعۃ | چھٹا درس

انور العولقی by انور العولقی
30 ستمبر 2022
in اگست و ستمبر 2022, آخرت
0

امن کا پھیلنا

حدیث میں مذکور ہے کہ قیامت کے قریب امن پھیل جائے گا اور عام ہو جائے گا، جبکہ یہ تذکرہ بھی ملتا ہے کہ قیامت کے قریب فتنہ عام ہو جائے گا۔ چونکہ ان دونوں کا ذکر ایک ہی حدیث میں ملتا ہے لہٰذا اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ دونوں واقعات مختلف زمانوں میں وقوع پذیر ہوں گے۔ جب بھی لوگ اسلام کی اتباع کریں گے، امن پھیلے گا اور مستحکم ہو گا۔ اور جب کبھی دین پر عمل و اتباع میں کمی آئے گی، فتنہ و فساد اور قتل و غارت گری میں بھی اضافہ ہو گا۔

حضرت خباب بن ارتؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپﷺ سے صحابہؓ کو درپیش مشکلات اور مصائب و تکالیف کی شکایت کی۔ یہ اوائلِ اسلام کے دن تھے۔ رسول اللہ ﷺ اس بات پر اٹھ کر بیٹھ گئے اور غصے کے آثار چہرۂ مبارک سے ظاہر ہونے لگے۔ یہ اوائلِ اسلام کےوہ مشکل ترین دن تھے جب دشمنانِ اسلام کی مخالفت اور سختیاں اپنے عروج پر تھیں۔ صحابہ کرامؓ بے پناہ مشکلات و مصائب سے گزر رہے تھے، اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے انہیں جلد بازی سے روکا اور صبر و برداشت کی تلقین کی۔

عَنْ خَبَّابِ بْنِ الْأَرَتِّ قَالَ شَکَوْنَا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَةً لَهُ فِي ظِلِّ الْکَعْبَةِ قُلْنَا لَهُ أَلَا تَسْتَنْصِرُ لَنَا أَلَا تَدْعُو اللَّهَ لَنَا قَالَ کَانَ الرَّجُلُ فِيمَنْ قَبْلَکُمْ يُحْفَرُ لَهُ فِي الْأَرْضِ فَيُجْعَلُ فِيهِ فَيُجَائُ بِالْمِنْشَارِ فَيُوضَعُ عَلَی رَأْسِهِ فَيُشَقُّ بِاثْنَتَيْنِ وَمَا يَصُدُّهُ ذَلِکَ عَنْ دِينِهِ وَيُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِيدِ مَا دُونَ لَحْمِهِ مِنْ عَظْمٍ أَوْ عَصَبٍ وَمَا يَصُدُّهُ ذَلِکَ عَنْ دِينِهِ وَاللَّهِ لَيُتِمَّنَّ هَذَا الْأَمْرَ حَتَّی يَسِيرَ الرَّاکِبُ مِنْ صَنْعَائَ إِلَی حَضْرَمَوْتَ لَا يَخَافُ إِلَّا اللَّهَ أَوْ الذِّئْبَ عَلَی غَنَمِهِ وَلَکِنَّکُمْ تَسْتَعْجِلُونَ۔

صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت خبابؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺسے اس وقت بطور شکایت کے عرض کیا جب کہ آپ ﷺاپنی چادر اوڑھے ہوئے کعبہ کے سائے میں تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ ’آپ ﷺہمارے لیے مدد کیوں نہیں مانگتے؟ ہمارے لیے آپ ﷺاللہ تعالیٰ سے دعا کیوں نہیں کرتے ؟‘ فرمایا :’’تم سے پہلے بعض لوگ ایسے ہوتے تھے کہ ان کے لیے زمین میں گڑھا کھودا جاتا ،وہ اس میں کھڑے کردیے جاتے، پھر آرا چلایا جاتا اور ان کے سر پر رکھ کردو ٹکڑے کردیے جاتے اور یہ عمل ان کو ان کے دین سے نہ روکتا تھا ۔نیز لوہے کی کنگھیاں ان کے گوشت کے نیچے اور پٹھوں پر پھیری جاتی تھیں اور یہ بات ان کو ان کے دین سے نہ روکتی تھی!‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلے ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے تم سے زیادہ آزمائشیں اور سختیاں جھیلیں اور اس کے باوجود وہ ثابت قدم رہے۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم ! یہ دین (اسلام) کامل نہ ہوگا حتیٰ کہ اگر ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک چلا جائے گا لیکن اس کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا اور نہ کوئی شخص اپنی بکریوں پر بھیڑیے کا خوف کرے گا لیکن اس معاملہ میں تم عجلت چاہتے ہو‘‘۔

صنعاء اور حضرموت قبائلی علاقے تھےجہاں بد امنی اور لوٹ مار اس قدر زیادہ تھی کہ جب کبھی کوئی قافلہ وہاں سے گزرتا، وہ اپنے ساتھ حفاظت کے لیے ایک فوج لے کر گزرتا۔ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ برحق ثابت ہوئے اور اسلام کے پھیلنے کے ساتھ ان علاقوں نے فی الواقع ایساامن دیکھا، اور باذن اللہ یہ پیشین گوئی مستقبل میں بھی دوبارہ پوری ہو گی۔

ایک دوسری حدیث میں رسول اللہﷺ فرماتے ہیں

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَعُودَ أَرْضُ الْعَرَبِ مُرُوجًا وَأَنْهَارًا وَحَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ بَيْنَ الْعِرَاقِ وَمَكَّةَ لَا يَخَافُ إِلَّا ضَلَالَ الطَّرِيقِ

مسندِ احمد میں روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک سر زمین عرب دریاؤں اور نہروں سے لبریز نہ ہوجائے اور جب تک ایک سوار عراق اور مکہ کے درمیان سفر کرے اور اس سفر میں سوائے راہ بھٹکنے کے کوئی اور اندیشہ نہ ہو‘‘۔

ایک اور حدیث میں وارد ہے کہ حضرت عدیؓ بن حاتم رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کے لیے آئے۔ عدیؓ عرب کے شمال میں بسنے والے ایک بڑےقبیلے کے سردار تھے، ان کے والد اپنی سخاوت کے لیے مشہور تھے، عقیدے کے اعتبار سے عدیؓ اور ان کا قبیلہ عیسائی تھے۔

عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي عُنُقِي صَلِيبٌ مِنْ ذَهَبٍ فَقَالَ يَا عَدِيُّ اطْرَحْ عَنْکَ هَذَا الْوَثَنَ وَسَمِعْتُهُ يَقْرَأُ فِي سُورَةِ بَرَائَةٌ اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ قَالَ أَمَا إِنَّهُمْ لَمْ يَکُونُوا يَعْبُدُونَهُمْ وَلَکِنَّهُمْ کَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَهُمْ شَيْئًا اسْتَحَلُّوهُ وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَيْهِمْ شَيْئًا حَرَّمُوهُ

بخاری کی روایت ہے کہ حضرت عدیؓ بن حاتم سے روایت ہے کہ میں نبی اکرمﷺکی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے گلے میں سونے کی صلیب تھی۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ عدی اس بت کو اپنے سے دور کردو۔ پھر میں نے آپﷺکو سورۃ التوبہ کی یہ آیات پڑھتے ہوئے سنا اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ (انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو اللہ کے سوا خدا بنالیا ہے) ۔ پھر آپ ﷺنے فرمایا کہ وہ لوگ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن اگر وہ (علماء اور درویش) ان کے لیے کوئی چیز حلال قرار دیتے تو وہ بھی اسے حلال سمجھتے اور اسی طرح ان کی طرف سے حرام کی گئی چیز کو حرام سمجھتے۔

اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے عدیؓ کو اسلام کی دعوت پیش کی، اور ابھی عدیؓ آپﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک عورت نبی کریمﷺ کے پاس آئی۔ آپﷺ نے اس کی ضرورت پوری کی۔عدیؓ مزید بیان کرتے ہیں

قَالَ بَيْنَا أَنَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ فَشَکَا إِلَيْهِ الْفَاقَةَ ثُمَّ أَتَاهُ آخَرُ فَشَکَا إِلَيْهِ قَطْعَ السَّبِيلِ فَقَالَ يَا عَدِيُّ هَلْ رَأَيْتَ الْحِيرَةَ قُلْتُ لَمْ أَرَهَا وَقَدْ أُنْبِئْتُ عَنْهَا قَالَ فَإِنْ طَالَتْ بِکَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنْ الْحِيرَةِ حَتَّی تَطُوفَ بِالْکَعْبَةِ لَا تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ قُلْتُ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَ نَفْسِي فَأَيْنَ دُعَّارُ طَيِّئٍ الَّذِينَ قَدْ سَعَّرُوا الْبِلَادَ

عدی بن حاتم ؓنے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک صاحب آئے اور آپ ﷺسے فقر و فاقہ کی شکایت کی، پھر دوسرے صاحب آئے اور راستوں کی بدامنی کی شکایت کی، اس پر نبی کریم ﷺنے فرمایا : ’عدی ! تم نے مقام حیرہ دیکھا ہے ؟ (جو کوفہ کے پاس ایک بستی ہے) ۔میں نے عرض کیا کہ میں نے دیکھا تو نہیں، البتہ اس کا نام میں نے سنا ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا : ’اگر تمہاری زندگی کچھ اور لمبی ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ہودج میں ایک عورت اکیلی حیرہ سے سفر کرے گی اور (مکہ پہنچ کر) کعبہ کا طواف کرے گی اور اللہ کے سوا اسے کسی کا بھی خوف نہ ہوگا‘۔ میں نے (حیرت سے) اپنے دل میں کہا، پھر قبیلہ طے کے ان ڈاکوؤں کا کیا ہوگا جنہوں نے شہروں کو تباہ کردیا ہے اور فساد کی آگ سلگا رکھی ہے۔

یہ وہ وقت تھا جب مسلمانوں پر ابھی خوشحالی نہیں آئی تھی، اور وہ سختی اور تنگدستی کے دن گزار رہے تھے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد غلاموں پر مشتمل تھی۔ عدی بن حاتم ایک بڑے قبیلے کے سردار اور نصرانیوں میں صاحبِ حیثیت شخص تھے۔شاید عدیؓ نے یہ تاثر لیا کہ اسلام غربا و مساکین کا دین ہے ، رسول اللہ ﷺ نے یہ بات محسوس کر لی اور اس لیے انہیں یہ بشارت دی تاکہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی مشکلات اور ان کا فقر و تنگدستی دیکھ کر اس دین کے بارے میں اپنی رائے نہ بنائیں۔

عدیؓ کا یہ کہنا کہ میں نے سوچا کہ ’’طے کے ڈاکو اور لٹیرے اس وقت کہاں ہوں گے؟‘‘، یہ اس بنا پر تھا کہ وہ خود اس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور اپنی قوم کی عادات و صفات سے واقف تھے۔ اس قبیلہ کے لوگ عراق اور حجاز کے درمیان آباد تھے ، ان کے قریب سے جو بھی گزرتا تھا وہ ان پر حملہ کر کے اس کا سارا سامان لوٹ لیا کرتے تھے ، اسی لیے عدی ؓکو تعجب ہوا کہ میرے قبیلے والوں کی موجودگی میں ایک عورت تن تنہا امن و امان کے ساتھ کیسے سفر کرے گی ؟

حضرت عدی ؓ فرماتے ہیں کہ میں اس وقت تک زندہ رہا جب میں نے رسول اللہﷺ کے ان الفاظ کو حقیقت میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔

اسلام کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ، بالخصوص اس کے شروع کے زمانے میں، اسلامی تسلط والے علاقوں نے بے مثال و بے نظیر امن کا مشاہدہ کیا۔ ایک عرصہ یہ علاقے امن و سکون کے مزے لوٹتے رہے یہاں تک کہ دین سے دوری اور مسلمانوں کی بد اعمالیوں کے سبب آہستہ آہستہ یہ امن خراب ہوتا گیا۔ مگر احادیث میں وارد پیشین گوئیوں سے ثابت ہوتا ہے کہ قیامت سے پہلے ایک بار پھر امن قائم ہو گا۔ یہ امن یقیناً امام مہدی اور حضرت عیسیٰؑ کے زمانے میں آئے گا جب یہ اپنی کامل شکل میں پھیل جائے گا۔ واللہ اعلم بالصواب۔

حجاز میں آگ کا ظہور

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی تَخْرُجَ نَارٌ مِنْ أَرْضِ الْحِجَازِ تُضِيئُ أَعْنَاقَ الْإِبِلِ بِبُصْرَی

بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت قائم نہ ہوگی، یہاں تک کہ حجاز کی زمین سے ایک آگ نکلے گی جس سے بصرہ کے اونٹوں کی گردنیں روشن ہوجائیں گی‘‘۔

سرزمینِ حجاز سے مراد مکہ و مدینہ کا علاقہ ہے۔ جبکہ بُصرہ سے مراد شام کی ایک بستی ہے، یہاں عراق میں واقع بَصرہ مراد نہیں۔ بصرہ و حجاز میں سینکڑوں میل کا فاصلہ ہے۔ اس علامت کے بارے میں اہلِ علم کا قول ہے کہ یہ ظاہر ہو چکی ہے۔یہ آگ درحقیقت ایک آتش فشاں کی آگ تھی جو مدینہ کے قریب واقع تھا۔امام نوویؒ کے زمانے میں یہ آتش فشاں پھٹ گیا اور آگ ظاہر ہوئی۔ امام نوویؒ سے منقول ہے کہ آپؒ فرماتے ہیں:’’۶۵۴ھ میں مدینہ میں ایک بہت بڑی آگ کا ظہور ہوا‘‘۔

ابن کثیرؒفرماتے ہیں:’’ ان العراب ببصرہ شاهدوا اعناق الابل في ضؤ النار‘‘

بصرہ کے بدو آگ کی روشنی کی جھلک میں اپنے اونٹوں کی گردنیں دیکھ سکتے تھے۔

ابن حجرؒ فرماتے ہیں:’ہمارا گمان ہے کہ مدینہ کا یہ آتش فشاں ہی وہ آگ تھی جس کا تذکرہ احادیثِ رسول اللہﷺ میں ملتا ہے‘۔اسی طرح کے اقوال امام قرطبیؒ اوردیگر علما سے بھی منقول ہیں۔

ترکوں کے ساتھ جنگیں

ترکوں سے محض اناطولیہ اور ترکی میں رہنے والے لوگ مراد نہیں۔ترکی میں بسنے والی ترک قوم درحقیقت ترکمان سے ہجرت کر کے آنے والوں کی نسل ہیں، اور اس قوم کے لوگ اور قبیلے چین و منگولیا تک پھیلے ہوئے ہیں۔

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا التُّرْكَ صِغَارَ الْأَعْيُنِ حُمْرَ الْوُجُوهِ ذُلْفَ الْأُنُوفِ كَأَنَّ وُجُوهَهُمْ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا قَوْمًا نِعَالُهُمْ الشَّعَرُ.

بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ’’ قیامت قائم نہ ہوگی، یہاں تک کہ تم ترکوں سے جنگ کرو گے جن کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی، رنگ سرخ ،ناک اور چہرے ایسے چوڑے ہوں گے جیسے چوڑی ڈھالیں اور قیامت قائم نہ ہوگی، یہاں تک کہ تم ایسے لوگوں سے جنگ کرو گے، جو بالوں کی جوتیاں پہنے ہوں گے۔

حدیث میں مذکور خد و خال اور نقشہ منگول قوم اور اہلِ تاتارستان کا ہے۔ اس قوم کے لوگ اون سے بنے ہوئے کپڑے اور جوتے استعمال کرتے تھے۔ ان سے جنگیں تو ابتدائے اسلام ہی سے شروع ہو گئی تھیں اور مسلمانوں نے ایسے لوگوں سے جنگیں کیں جن کا حلیہ اور شکل و صورت بعینہ حدیث میں مذکور ناک نقشے کے مطابق تھی۔ پھر منگول قوم نے ایک طوفانی لہر کی صور ت مسلم علاقوں پر حملہ کیا اور انہیں تباہ و بربادکر دیا۔ چنگیز خان ، تیمور لنگ اور ہلاکو خان کی قیادت میں اس قوم نے ایسی خونریز جنگیں لڑیں کہ جن سے وسیع پیمانے پر تباہی و بربادی پھیلی۔ اسلامی دنیا کے علاوہ یہ مشرقی یورپ اور روس تک پھیل گئے، اور جہاں کہیں جاتے علاقے فتح کرتے، خون کے دریا بہا تے اور لاشوں کے انبار لگا دیتے۔ یہ ایک بے حد مضبوط ، جنگجواور زورآور قوم تھی۔

جب یہ بغداد میں داخل ہوئے تو انہوں نے پورے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اور ان کے اپنے دعوے کے مطابق انہوں نے ۲۰ لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا۔ یہ مسلمانوں کو قتل کرتے اور ان کی کھوپڑیاں جمع کر کے ان سے اونچے اونچے مینار بناتے۔ انہوں نے بغداد کے کتب خانوں میں موجود کتابوں کو دریائے فرات میں پل بنانے کے لیے استعمال کیا۔ یہ کتابیں ہزاروں لاکھوں مسلمان اذہان کی محنتوں کا ثمر تھیں۔ ایک ایسے وقت میں جب پرنٹرز کا کوئی وجود نہیں تھا، یہ کتابوں کے ہاتھ سے لکھے ہوئے اصلی نسخے تھے۔اس قوم نے اس زمانے کی دنیا کی سب سے بڑی لائبریری میں ایسا صفایا پھیرا کہ ایک کاغذ کا ٹکڑا بھی نہ چھوڑا اور سب کچھ دریاؤں میں بہا دیا۔ کہا جاتا ہے کہ دریا کا پانی کتابوں کی روشنائی سے کئی دنوں تک سیاہ رہا۔

لیکن سبحان اللہ!……کہ اسی حدیث میں رسول اللہ ﷺ مزید فرماتے ہیں: ’’…… لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی تُقَاتِلُوا قَوْمًا نِعَالُهُمْ الشَّعَرُ وَحَتَّی تُقَاتِلُوا التُّرْکَ صِغَارَ الْأَعْيُنِ حُمْرَ الْوُجُوهِ ذُلْفَ الْأُنُوفِ کَأَنَّ وُجُوهَهُمْ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ وَتَجِدُونَ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ أَشَدَّهُمْ کَرَاهِيَةً لِهَذَا الْأَمْرِ حَتَّی يَقَعَ فِيهِ وَالنَّاسُ مَعَادِنُ خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ…… ‘‘۔

’’……اور تم ان میں سے اچھے اشخاص کو بھی پاؤ گے کہ وہ سب سے زیادہ امارت (کا مقام اپنے لیے قبول کرنے)سے نفرت کرنے والا ہوگا یہاں تک کہ اس کو مجبور کیا جائے گا ۔لوگوں کی مثال معدن اور کان کی طرح ہے ،ان میں جو لوگ زمانہ جاہلیت میں اچھے تھے وہی اسلام میں بھی اچھے ہیں……‘‘۔

منگول قوم اگرچہ فاتح تھی اور اسلامی دنیا پر قابض و حاکم ہو گئی، اس قوم نے اسلام قبول کر لیا۔ اس واقعے کی نظیر آپ کو تاریخ میں نہیں ملے گی کہ حاکم و فاتح محکوم و مفتوح کا دین اور طریقہ قبول کر لے، اسے اپنا لے۔ ہارنے والی قوم فاتحین کی اتباع کرتی ہے، شکست کھانے والے طاقتور اور جیتنے والے کی نقل کرتے ہیں، ان کے طور طریقے اپنانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر منگولوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ اگرچہ اس تبدیلی کے رونما ہونے میں ایک طویل وقت لگا، مگر منگول قوم نے اسلام کو بحیثیت دین اپنا لیا۔

ابن تیمیہؒ کے زمانےمیں جو تاتاری مسلمانوں سے جنگیں لڑ رہے تھے، وہ اسلام قبول کر چکے تھے، اس کے باوجود وہ مسلم دنیا میں فتنہ و فساد اور خونریزی کر کے اسے تباہ کر رہے تھے۔ انہیں اسلام میں صحیح سے داخل ہونے اور اسے سمجھنے ، اور پھر سمجھ کر اپنانے میں بہت وقت لگا۔حتی کہ یہ اسلام کے سب سے بڑے پاسبان بن گئے۔

سلطنتِ عثمانیہ کی بنا ڈالنے والے کون لوگ تھے؟ یہ وسطی ایشیائی علاقوں سے آنے والے ترک قوم کے لوگ تھے جنہوں نے ترکی فتح کیا، جو اس وقت مشرقی رومی (بازنطینی) سلطنت کا حصّہ تھا۔ ترکوں کے اس چھوٹے سے قبیلے نے اناطولیہ کو اپنا مسکن بنایا۔ یہ قبیلہ اگرچہ چھوٹا تھا، اس کے باوجود یہ اپنے ارد گرد بسنے والے رومیوں سے جنگ چھیڑے رکھتے۔ آہستہ آہستہ انہوں نے اپنے علاقے میں توسیع کی، یہاں تک کہ پوری بازنطینی سلطنت کو ختم کر ڈالا۔ یہ ایک قبیلے سے شروع ہوئے، جس نے بازنطینی سلطنت کو ختم کر ڈالا اور پوری مسلم دنیا پر اپنی حکمرانی و خلافت قائم کی۔

یہ دین کے سب سے بڑے دشمن تھے، لیکن ایک وقت ایساآیا کہ یہ اسلام کے سب سے بڑے محافظ اور نگہبان بن گئے۔ یہ رسول اللہﷺ کی اس حدیث کے مصداق تھے کہ جو شخص جاہلیت میں سب سے اچھا ہوتا ہے، وہی اسلام میں بھی اچھا ہوتا ہے۔ اسی کی ایک اور مثال عمر بن الخطابؓ کی ہے۔آپؓ زمانۂ جہالت میں اسلام کے کٹر ترین دشمن تھے، مگر اسلام قبول کرنے کے بعد بعد از رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر الصدیقؓ، افضل الصحابہؓ ہیں۔

امانت و دیانت کا زائل ہونا

قیامت کی ایک علامت لوگوں میں جھوٹ کا عام ہو جانا ہے۔ عوام میں جھوٹ اور بد دیانتی اس قدر پھیل جائے گی کہ اعتبار ختم ہو جائے گا۔مگر اس علامت سے مراد محض جھوٹ اور خیانت نہیں، بلکہ یہاں ایک مخصوص قسم کی امانت داری مراد ہے۔ بخاری کی ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ضُيِّعَتْ الْأَمَانَةُ فَانْتَظِرْ السَّاعَةَ۔ قَالَ کَيْفَ إِضَاعَتُهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ إِذَا أُسْنِدَ الْأَمْرُ إِلَی غَيْرِ أَهْلِهِ، فَانْتَظِرْ السَّاعَةَ ‘‘۔

’’رسول اللہﷺنے فرمایا کہ جب امانت ضائع ہوجائے تو قیامت کا انتظار کرو۔ پوچھا گیااس کا ضائع ہونا کس طرح ہے یا رسول اللہﷺ؟ آپ ﷺنے فرمایا کہ جب کام نااہل کے سپرد کیا جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔‘‘

یعنی جب قیادت سفہا (بیوقوفوں)کے ہاتھوں میں چلی جائے، جو دین و دنیا کی کوئی سمجھ اور فہم نہیں رکھتے، جو اس ذمہ داری کے اہل نہیں ہیں، تو سمجھ جاؤ کہ یہ قیامت کی علامت ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم کسی کو کوئی ذمہ داری سونپو، یہ جانتے ہوئے کہ اس شخص کی نسبت (اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے) زیادہ اہل شخص موجود ہے، تو پھر تم نے مسلمانوں سے خیانت کی۔ قیادت اور اقتدار و اختیار کے عہدے امانت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب بھی آپ دیکھیں کہ اس امانت کا حق ادا نہیں کیا جا رہا اور ایسے لوگ عہدوں پر قابض ہیں جو نہ فہم رکھتے ہیں، نہ دین و ایمان کے حامل ہیں اور نہ ہی رحم کا کوئی جذبہ رکھتے ہیں، تو جان لیجیے کہ یہ امانت کا ضیاع ہے اور قرب قیامت کی علامت ہے۔

علم کا اٹھ جانا اور جہالت کا عام ہونا

صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان مبارک ہے:

’’ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ وَيَثْبُتَ الْجَهْلُ وَيُشْرَبَ الْخَمْرُ وَيَظْهَرَ الزِّنَا ‘‘۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا ’’قیامت کی علامتوں میں ایک یہ علامت بھی ہے کہ علم اٹھ جائے گا اور جہل قائم ہوجائے گا اور شراب نوشی ہونے لگے گی اور زنا اعلانیہ ہونے لگے گا‘‘۔

جہالت لوگوں کے دلوں اور ذہنوں پر قبضہ کر لے گی جبکہ علم سمٹ جائے گا۔ آخر یہ کیسے ہو گا؟کیا صاحبِ علم رات کو سوئے گا اور صبح اٹھے گا تو اپنا تمام تر علم و دانش بھلا چکا ہو گا؟نہیں، بلکہ احادیث کے مطابق اس کی صورت یہ ہو گی دین کا صحیح علم و فہم رکھنے والے افراد کی موت واقع ہو جائے گی، اور جاہل و گمراہ لوگ ان کی جگہ لے لیں گے۔ فرمانِ رسول ﷺ ہے کہ’اللہ علم کو لوگوں کے دلوں سے نہیں اٹھاتا، بلکہ اصحابِ علم کو اٹھا لیتا ہے، یہاں تک کہ علما و متقین میں سے کوئی بھی نہیں بچے گا۔ پھر لوگ جاہل و گمراہ لوگوں کو اپنا امیر بنا لیں گے، ان سے رہنمائی حاصل کریں گے، جو علم کے بغیر فتوے دیں گے۔ وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے‘۔

آج یہی صورتحال ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں کہ امت میں بہت سی بدعات اور غلط طور طریقوں کے رائج ہونے کی وجہ وہ غلط فتاویٰ ہیں جو علم کے دعویدار لوگوں کی جانب سے دیے گئے ہیں۔بد قسمتی سے آج کل فتوی دینے کے معاملے کو بہت ہلکا لیا جانے لگا ہے۔ جبکہ صحابہ کے زمانے میں وہ لوگ اپنے تمام تر علم و فضل کے باجود فتویٰ دینے سے بچا کرتے تھے، بلکہ اس سے اپنی جان بچاتے تھے۔ تابعین میں سے ایک کا قول ہے کہ ’میں نے مسجدِ نبویﷺ میں تیس سے زائد صحابہ کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ ایک شخص آتا اور ان سے کوئی سوال کرتا اور ہر صحابی اسے اپنے سے اگلے صحابی کے پاس بھیج دیتے کہ میں نہیں جانتا، تم فلاں سے پوچھو‘۔ آج ہم سے جواب مانگا بھی نہیں جاتا اور ہم مسائل کا جواب دینے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں۔جبکہ صحابہ کرامؓ کا معاملہ یہ تھا کہ وہ جواب دینے سے بھاگا کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ ایک نہایت بڑی ذمہ داری اور مسئولیت ہے۔

ایک دفعہ عمر ابن الخطابؓ سے ایک مسئلہ دریافت کیا گیا۔ آپؓ نے پوچھا:’کیا ایسا (معاملہ)ہوا ہے؟‘۔ سوال کرنے والے نے جواب دیا کہ نہیں، ایسا نہیں ہوا۔تو حضرت عمرؓ نے فرمایا:’تو پھر واپس جاؤ! جب یہ معاملہ پیش آ جائے تب آنا اور اس کے بارے میں سوال کرنا، میں بدری صحابہؓ کو اکٹھا کروں گا اور ہم اس پر مشاورت کریں گے‘۔

یعنی وہ جواب دینے سے اس قدر بچا کرتے تھے اور اس معاملے میں اس قدر محتاط تھے کہ فرمایا کہ صحابہؓ کی شوریٰ اس معاملے پر غور و فکر اور تبادلۂ خیال کرے گی، میں خود کوئی فتوی نہیں دوں گا۔نیز وہ ایسی خالص علمی و نظری باتوں پر بھی وقت ضائع نہیں کرتے تھے جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہ ہوتا، وہ کہتے کہ اگر یہ معاملہ پیش نہیں آیا تو مجھ سے اس کے بارے میں سوال نہ کرو۔ جبکہ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے سوال پیدا کرتے ہیں جن کی حیثیت علمی موشگافیوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں، اور جن کا کوئی عملی مقصد یا فائدہ نہیں ہوتا۔ پہلے ہم ایسا سوال گھڑتے ہیں اور پھر خود ہی ان کا جواب بھی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

امام مالکؒ کے پاس ایک شخص آیا جو المغرب، (یعنی مراکش) یا اندلس سے ایک طویل مسافت طے کر کے مدینۃ المنورۃ پہنچا۔ وہ آپؒ کے لیے چالیس سوال لے کر آیا۔ چالیس میں سے ۳۶ سوالوں کے جواب میں امام مالکؒ نے فرمایا:’’لا اعلم‘‘(میں نہیں جانتا)، اور صرف چار یا چھ سوالوں کے جواب دیے۔اس شخص نے کہا: ’کیا میں اتنی دور سے یہ سننے کے لیے آیا ہوں کہ ’آپ نہیں جانتے‘؟!، میں واپس جا کر اپنی قوم کو کیا بتاؤں گا؟‘۔ امام مالکؒ نے جواباً فرمایا:’تم ان سے کہنا کہ مالکؒ کہتا ہے: میں نہیں جانتا‘۔

آج ہم لوگوں کے ایسے قصّے سنتے ہیں کہ محض ایک غلط فتوے کی بنا پر پورے کا پورا خاندان تباہ ہو گیا۔ لوگوں کی زندگیاں تباہ ہو گئیں اور آخر میں معلوم ہوا کہ جس فتویٰ کی روشنی میں انہوں نے بڑے بڑے فیصلے کر لیے، وہ کام ان سے مطلوب ہی نہ تھے۔ آپ دیکھیے کہ اس شخص کی گردن پر کتنی بھاری ذمہ داری کا بوجھ ہے، جس نے یہ فتوے جاری کیے۔

ایسا ایک معاملہ دورِ نبویﷺ میں پیش آیا۔ صحابہ کرامؓ ایک جنگ میں شریک ہوئے جس میں ایک صحابیؓ زخمی ہو گئے اور ان کے سر پر چوٹ آئی۔ رات کو انہیں غسل کی حاجت پیش آ گئی، تو انہوں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا مجھے اپنا سر(یعنی زخم ) بھی دھونا چاہیے؟۔ دیگر صحابہؓ نے جواب دیا کہ ہاں، پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے سر بھی دھونا ہو گا۔ جب انہوں نے اپنے زخم کو دھویا تو پانی پڑنے کی وجہ سے ان کا زخم خراب ہو گیا ، جس سے ان کی موت واقع ہو گئی۔ جب صحابہؓ کا یہ گروہ واپس نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں پورے واقعے کی اطلاع دی تو آپﷺ نے فرمایا:’ قَتَلُوهُ قَتَلَهُمْ اللَّهُ! أَلَا سَأَلُوا إِذْ لَمْ يَعْلَمُوا…… فَإِنَّمَا شِفَائُ الْعِيِّ السُّؤَالُ ۔إِنَّمَا کَانَ يَکْفِيهِ أَنْ يَتَيَمَّمَ وَيَعْصِرَ عَلَی جُرْحِهِ خِرْقَةً ثُمَّ يَمْسَحَ عَلَيْهَا وَيَغْسِلَ سَائِرَ جَسَدِهِ ‘‘ (سنن ابي داود)

ان لوگوں نے اسے مار ڈالا، اللہ ان کو مارے، جب ان کو مسئلہ معلوم نہیں تھا تو انہوں نے کیوں نہیں پوچھ لیا ؟ نہ جاننے کا علاج پوچھنا ہی ہے۔ اسے بس اتنا کافی تھا کہ تیمم کرلیتا اور اپنے زخم پر پٹی باندھ لیتا، پھر اس پر مسح کرلیتا اور اپنے باقی جسم کو دھو ڈالتا۔

ان احادیث میں جس علم کے اٹھ جانے کا ذکر ہے وہ علمِ دین ہے۔ علمِ شریعت و آخرت ہے، نہ کہ علمِ دنیا، کیونکہ علمِ دنیا تو ہر دور میں بڑھ ہی رہا ہوتا ہے۔ یہ علم بتدریج مٹتا جائے گا یہاں تک حالات اس قدر خراب ہو جائیں گے کہ اس کا نہایت قلیل ، بلکہ نہ ہونے کے برابر حصّہ باقی بچے گا۔

ابن ماجہ کی ایک حدیث میں حضرت حذیفہ بن یمانؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْرُسُ الْإِسْلَامُ کَمَا يَدْرُسُ وَشْيُ الثَّوْبِ حَتَّی لَا يُدْرَی مَا صِيَامٌ وَلَا صَلَاةٌ وَلَا نُسُکٌ وَلَا صَدَقَةٌ وَلَيُسْرَی عَلَی کِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي لَيْلَةٍ فَلَا يَبْقَی فِي الْأَرْضِ مِنْهُ آيَةٌ وَتَبْقَی طَوَائِفُ مِنْ النَّاسِ الشَّيْخُ الْکَبِيرُ وَالْعَجُوزُ يَقُولُونَ أَدْرَکْنَا آبَائَنَا عَلَی هَذِهِ الْکَلِمَةِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَنَحْنُ نَقُولُهَا فَقَالَ لَهُ صِلَةُ مَا تُغْنِي عَنْهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَهُمْ لَا يَدْرُونَ مَا صَلَاةٌ وَلَا صِيَامٌ وَلَا نُسُکٌ وَلَا صَدَقَةٌ فَأَعْرَضَ عَنْهُ حُذَيْفَةُ ثُمَّ رَدَّهَا عَلَيْهِ ثَلَاثًا کُلَّ ذَلِکَ يُعْرِضُ عَنْهُ حُذَيْفَةُ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْهِ فِي الثَّالِثَةِ فَقَالَ يَا صِلَةُ تُنْجِيهِمْ مِنْ النَّارِ ثَلَاثًا ‘‘۔

’’رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اسلام ایسا ہی پرانا ہوجائے گا جیسے کپڑے کے نقش و نگار پرانے ہوجاتے ہیں، حتیٰ کہ یہ جاننے والے بھی باقی نہ رہیں گے کہ نماز، روزہ، قربانی اور صدقہ و زکوۃ کیا چیز ہے ؟ اور کتاب اللہ ایک رات میں ایسی غائب ہوجائے گی کہ اس کی ایک آیت بھی باقی نہ رہ جائے گی، اور انسانوں کے کچھ قبائل (یا گروہ) ایسے رہ جائیں گے کہ ان میں بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں کہیں گی’ ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو یہ کلمہ پڑھتے سنالا الہ الا اللہ اس لیے ہم بھی یہ کلمہ کہتے ہیں‘۔ حضرت حذیفہؓ کے شاگرد صلہ نے عرض کیا :’لا الہ الا اللہ سے انہیں کیا فائدہ ہوگا جب انہیں نماز کا علم ہے نہ روزہ کا نہ قربانی اور صدقہ (ان سب کا مطلقاً ) کوئی علم نہیں؟‘۔ اس پر حذیفہؓ نے ان کی طرف سے منہ پھیرلیا، انھوں نے دوبارہ سہ بارہ عرض کیا، حذیفہؓ منہ پھیرتے رہے۔ تیسری مرتبہ میں ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:’ اے صلہ ! لا الہ الا اللہ انھیں دوزخ سے نجات دلائے گا‘، تین بار یہی فرمایا‘‘۔

لباس سے نشان کا ایسے مٹ جانا گویا وہ کبھی تھا ہی نہیں۔ اس زمانے میں لباس کی زیبائش کے لیے جو رنگ استعمال کیے جاتے تھے وہ پکّے رنگ نہیں ہوتے تھے۔ جب کپڑوں کو کثرت سے دھویا جاتا تو یہ رنگ نکل جاتا تھا یہاں تک کہ بالکل مٹ جاتا۔ حدیث کے مطابق یہی معاملہ اسلام کے ساتھ ہو گا۔ آہستہ آہستہ اسلام مٹتا چلا جائے گا حتی کہ لوگ بنیادی صوم و صلوٰۃ اور عبادات کے احکام بھی بھول جائیں گے۔رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ قرآن کریم کو دنیا سے اٹھا لیں گے یہاں تک کہ ایک بھی آیت باقی نہ بچے گی۔ اور دنیا میں ایسے لوگ رہ جائیں گے، بوڑھے مرد و زن……جو کہیں گے کہ ہم نے اپنے آبا کو لا الہ الا اللہ کہتے سنا اور اسی لیے ہم بھی آج یہ کلمہ کہتے ہیں‘‘۔

یعنی اسلام کے کل علم میں سے جو کچھ ان کے پاس باقی بچے گا وہ صرف لا الہ الا اللہ ہو گا۔ انہیں اسلام کی تعلیمات اور احکام کے حوالے سے کچھ بھی معلوم نہ ہو گا۔حضرت حذیفہؓ کے ایک شاگرد صلہ تابعیؒ نے جب یہ حدیث سنی تو حیران ہو کر سوال کیا کہ لا الہ الا اللہ ان کو کیا فائدہ پہنچائے گا جب انہیں نماز، روزے، حج اور زکوۃ کے احکام کا کچھ علم نہ ہو گا؟! حضرت حذیفہؓ نے اس سوال پر اپنا رخ موڑ لیا۔ ان کے شاگرد نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا اور حضرت حذیفہؓ نے ایک بار پھر اپنا رخ ان سے موڑ لیا۔ جب تیسری دفعہ سوال دہرایا گیا تو آپؓ نے فرمایا:’’اے صلہ! لا الہ الا اللہ انہیں نارِ جہنم سے بچا لے گا!لا الہ الا اللہ انہیں نارِ جہنم سے بچا لے گا! لا الہ الا اللہ انہیں نارِ جہنم سے بچا لے گا!‘‘۔

اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے ان کی جہالت کا عذر قبول فرمائیں گے اور محض لا الہ الا اللہ کے واسطے ان کی بخشش فرمائیں گے، گو کہ یہ محض ایک کلمہ ہو گا جو وہ اپنی زبانوں سے ادا کرتے ہوں گے۔

پھر حالات اس سے بھی بد تر ہو جائیں گے۔مسلم کی ایک روایت میں حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’لا تقوم الساعة حتى لا يقال في الارض الله! الله!‘‘ ۔

یعنی دنیا پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ روئے زمین پر اللہ کا نام لینا بھی چھوڑ دیا جائے گا۔

ابن کثیرؒ اس حدیث کی دو تشریحات پیش کرتے ہیں۔ایک یہ کہ برائی اور منکر کی روک تھام اور اس سے منع کرنا بالکل چھوڑ دیا جائے گا، کیونکہ جب لوگوں کو منکر سے روکا جاتا ہے تو درحقیقت انہیں اللہ کی یاد دلائی جاتی ہے، سو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام چھوڑ دیا جائے گا۔ جبکہ دوسری تشریح میں حدیث کے الفاظ کو ان کے لغوی معنی کے مطابق سمجھا جائے گا ، جس کی رو سے حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ فی الواقع زمین پر اللہ کا نام لینا اور اس کا ذکر کرنا چھوڑ دیا جائے گا۔ اس وقت زمین پر جو لوگ موجود ہوں گے وہ اللہ کا نام نہیں سنیں گے۔ یہ بالکل آخری زمانے میں پیش آئے گا اور یہ وہ بد ترین لوگ ہوں گے جن پر قیامت قائم ہو گی۔

اسی مفہوم کی ایک حدیث مسند احمد میں منقول ہے کہ فرمایا رسول پاک ﷺ نے:

’’قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَأْخُذَ اللَّهُ شَرِيطَتَهُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ فَيَبْقَى فِيهَا عَجَاجَةٌ لَا يَعْرِفُونَ مَعْرُوفًا وَلَا يُنْكِرُونَ مُنْكَرًا‘‘۔

’’ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک اللہ اہل زمین میں اپنا حصہ وصول نہ کرلے اس کے بعد زمین میں گھٹیا لوگ رہ جائیں گے جو نیکی کو نیکی اور گناہ کو گناہ نہیں سمجھیں گے‘‘۔

ابنِ مسعودؓ فرماتے ہیں:’’اس زمانے میں قرآنِ کریم کو دنیا سے اٹھا لیا جائے گا اور یہ لوگوں کے دلوں میں بھی باقی نہ بچے گا‘‘۔ ابنِ تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ قرآن کریم کو اٹھا لیں گے یہاں تک کہ لوگوں کے دلوں میں ایک آیت بھی باقی نہ بچے گی۔ اور مصحف کے صفحوں میں اس کا ایک حرف بھی باقی نہ رہے گا۔ لوگ اس قدر بدی و فساد کی طرف مائل ہوں گے کہ وہ رحمتِ قرآن کے لائق ہی نہ ہوں گے ‘‘۔

لشکروں اور جنگی قوت میں اضافہ

طبرانی کی ایک حدیث میں رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ:’’ایک وقت ایسا آئے گا جب لشکر صبح کے وقت نکلیں گے تو اللہ کا غضب ان کے اوپر ہو گا، اور شام کو لوٹیں گے تو اللہ کے غضب کے ساتھ۔ تم اگر ان کو پاؤ تو ان میں سے مت ہو جانا‘‘۔ اس حدیث میں جن لشکروں کا ذکر ہے یہ وہ ہوں گے جو لوگوں کی جاسوسی کریں گے اور انہیں اللہ کی عبادت کرنے سے روکیں گے۔ اگر کسی کو مسجد جاتا دیکھیں گے، یا اسلام اور نیکی کی دعوت دیتا دیکھیں گے، تو ان کا پیچھا کریں گے اور انہیں تعذیب دیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسے لشکروں کے سائے سے بھی بچنے کی تلقین فرمائی، آپ ﷺ نے مسلمانوں کو تاکید فرمائی کہ تم ان کی مدد نہ کرنا، تم ان کا ساتھ نہ دینا اور ان میں شامل نہ ہونا۔

بعض خلفا کے زمانوں میں ایسے لشکر رہے ہیں، جو اپنی مسلمان عوام ہی کی جاسوسی کرتے اور انہیں تشدد و تعذیب کا نشانہ بناتے۔ ائمۂ اربعہ (یعنی امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ) چاروں اس آزمائش سے گزرے ہیں۔ امام مالکؒ پر تشدد کر کےان کے شانے اکھاڑ دیے گئے، امام ابو حنیفہؒ نے قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں یہاں تک کہ ان کا جنازہ بھی جیل سے نکلا، امام احمد ؒ نے شدید تشدد کا سامنا کیا، امام شافعیؒ نے بھی گرفتاری اور قید کی تکلیف جھیلی۔ امام ابنِ تیمیہؒ کو قید خانے میں ڈالا گیا اور انہوں نے وہیں وفات پائی۔ اسی طرح آج ہمارے زمانے میں بھی علما کی ایک کثیر تعداد ہے جو ان آزمائشوں کا سامنا کر رہی ہے۔

زنا کا عام ہو جانا

بخاری میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

’’ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ وَيَثْبُتَ الْجَهْلُ وَيُشْرَبَ الْخَمْرُ وَيَظْهَرَ الزِّنَا ‘‘۔

ایک دوسری حدیث میں……جو ایک سائنسی معجزے کی حیثیت رکھتی ہے……رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:’’اگر زنا اس قدر عام ہو گیا کہ لوگ کھلے عام اس کی تشہیر کرنے لگے، تو اللہ انہیں ایسی بیماریوں میں مبتلا کر دے گا جو پہلے کسی قوم پر نہ آئی ہوں گی‘‘۔

محض ارتکابِ زنا نہیں……بلکہ زنا کا کھلے عام ارتکاب اور اس کی تشہیر۔ یہ وہ گناہ ہے جس کے سبب اللہ نے لوگوں کو ایسی بیماریوں میں مبتلا فرمایا جن کا پہلے کوئی وجود ہی نہ ہوتا تھا۔ مثلاً ایڈز کا مرض پہلے دنیا میں نہیں پایا جاتا تھا۔اللہ نے لوگوں کو اس میں اس لیے مبتلا کیا کہ لوگ نہ صرف زنا کا ارتکاب کرتے ہیں بلکہ بِل بورڈز، اخبارات و رسائل اور فلموں وغیرہ کے ذریعے زنا کی جانب دعوت بھی دیتے ہیں۔ حتی کہ سگریٹ اور گاڑیوں کے اشتہار بھی عریانی و فحاشی سے پاک نہیں ہوتے۔یہ سب زنا کی تشہیر اور اس کی جانب دعوت نہیں تو اور کیا ہے، اور اسی کی سزا ایڈز اور اس قبیل کے دیگر امراض ہیں۔ لوگوں کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ ایڈز کا علاج تلاش کر لیں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا، بلکہ اللہ تعالیٰ ان پر کوئی نئی بیماری بھیج دیں گے جس کا پہلے کوئی وجود اور کوئی علاج موجود نہ ہو گا۔ یہ ان علامات میں سے ہے جو سب کو اپنی لپیٹ میں نہیں لیں گی بلکہ کسی کسی پر سزا بن کر آئیں گی اور بالآخر پورے پورے معاشروں میں اور قوموں میں عام ہو جائیں گی۔

مسلم کی ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:’’عیسیٰؑ ابن مریم کے زمانے میں اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کی روحیں قبض کر لیں گے یہاں تک کہ صرف برےاور فاسد لوگ بچ جائیں گے۔ وہ لوگ گدھوں کی طرح جنسی تعلقات قائم کریں گے‘‘۔ یعنی ہر چیز ان کے لیے حلال اور جائز ہو گی۔جنسی تعلقات ہر قسم کی اخلاقی و شرعی حدود و قیود کی تمیز و پاسداری سے آزاد ہوں گے۔ سب کچھ کھلے عام ہو گا۔

’’یہ امّت اس وقت تک ختم نہ ہو گی جب تک ایسا وقت نہ آ جائے کہ آدمی ایک عورت کے پاس آئے گا اور اس کے ساتھ راستے کے بیچوں بیچ ہمبستری کرے گا۔ اس وقت کے بہترین لوگوں میں سے ایک شخص ان کے پاس جائے گا اور کہے گا کہ’ کتنا اچھا ہو اگر تم اس دیوار کے پیچھے چلے جاؤ ‘‘‘۔ یعنی یہ شخص انہیں حکم نہیں دے گا، انہیں ان کے فعل پر ملامت نہیں کرے گا، بلکہ صرف ان سے گزارش کرے گا کہ تم دیوار کے پیچھے چلے جاؤ۔ اور یہ شخص ان کے بہترین لوگوں میں سے ہو گا۔

زنا آج خاص و عام میں پھیل چکا ہے۔مسلمانوں میں بھی زنا اس قدر عام ہے کہ اسے گناہ تصور ہی نہیں کیا جاتا۔ ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ ہالی ووڈ کی تہذیب و کلچر آج دنیا کی غالب تہذیب بن چکی ہے۔ مقدس ترین مقامات پر رہنے والے لوگ بھی اسی تہذیب و کلچر کے رسیا و شیدائی ہیں۔ سیٹلائٹ ڈش نے فلمیں اور عریانی و فحاشی دنیا کے بعض ایسے کونوں میں گھروں اور جھونپڑوں تک پہنچا دی ہے جہاں دہائیوں سے دعوت نہیں پہنچی۔ اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم بھی اسی فحاشی و عریانی کو پھیلانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ہم نے حلال کو مشکل بنا دیا ہے اور حرام کو آسان کر دیا ہے۔آپ دیکھیے کہ آج شادی کرنا کس قدر مشکل ہو چکا ہے۔ شادی سے پہلے مرد و عورت کو اتنا مشکل ہدف دیا جاتا ہے کہ اس کی تکمیل ہو گی تو پھر ہی شادی ممکن ہو گی۔ مرد کے لیے ڈاکٹر بننا، عورت کے لیے کیرئیر بنانا……وغیرہ۔

جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اگر ایک شخص تمہارے پاس آئے جس کے دین اور کردار سے تم راضی ہو، اور وہ تم سے تمہاری بیٹی کا رشتہ مانگے اور تم اسے انکار کر دو، تو زمین پر فتنہ و فساد برپا ہو جائے گا‘‘۔یہ معاشرتی فساد ہے۔ آج ہم سب اپنی بیٹیوں کی پرورش ایسے ہی مفسد ماحول میں کر رہے ہیں۔ اگر ہم اس ماحول کو درست نہیں کریں گے، تو اس کے مفسدات کا خمیازہ ہم سب مل کر بھگتیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے دین اور کردار کی اصطلاحات استعمال کیں۔ یعنی دینداری کے ساتھ ساتھ اچھے کردار کا متحمل ہونا نہایت ضروری ہے۔ اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک دیندار شخص برے اخلاق و کردار کا حامل ہو سکتا ہے، اوراسی طرح ایک بے دین شخص اچھے اخلاق و کردار کا مالک بھی ہو سکتا ہے۔ ان دونوں صفات کا بیک وقت ایک شخص میں پایا جانا ضروری ہے۔

ایک عالم کا قول ہے کہ مالدار لوگوں کے لیے مسجدوں کے دروازوں پر کھڑے بھکاریوں کو صدقہ دینے سے افضل یہ بات ہے کہ وہ غریب و مسکین جوڑوں کی شادیاں کرانے پر خرچ کریں اور ان کی مدد کریں۔ کیونکہ بھکاریوں کو صدقہ و خیرات دینے والوں کی کمی نہیں ہوتی، جبکہ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو صدقہ و خیرات کے مستحق ہوتے ہیں مگر ان تک کسی قسم کی مالی مدد نہیں پہنچتی۔

امام القرطبیؒ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی بیان کردہ یہ علامت (یعنی زنا کا عام ہونا)ہم نے اپنے زمانے میں ظاہر ہوتے دیکھی۔ امام القرطبیؒ اپنے زمانے کے اندلس کا نقشہ کھینچتے ہیں جو اس قدر مالدار و خوشحال تھا کہ اس کے امرا نے اسے بذاتِ خود بمنزلۂ خلافت قرار دے رکھا تھا۔

ایک طویل عرصے تک مسلمانوں میں ایک سے زیادہ خلافت کا تصور قبولِ عام حاصل نہ کر سکا۔گو کہ بہت سی مسلم ریاستیں خلافتِ عباسیہ پر انحصار نہیں کرتی تھیں اور اپنا خود مختار وجود رکھتی تھیں،لیکن وہ اپنے آپ کو خلافت نہیں کہلاتی تھیں۔مگر اندلس کی مسلمان سلطنت اس قدر مضبوط، خود مختار ، طاقتور اور خوشحال تھی کہ اندلس کے امیر نے خود کو خلیفہ اور اپنی سلطنت کو خلافت عباسیہ کے برابر ومتوازی خلافت قرار دے دیا۔ اسلامی تاریخ میں یہ پہلی مثال تھی کہ مسلمانوں کے بیک وقت دو خلیفہ تھے……ایک بغداد میں اور دوسرا قرطبہ میں۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ مسلمانوں کا قبضہ اندلس پر کمزور ہوتا گیا یہاں تک کہ ان کا اندلس سے وجود ہی بالکل مٹ کر رہ گیا؟!

ممکن ہے کہ اس کی ایک وجہ ان کی بے تحاشا امارت اور خوشحالی تھی۔ مال و دولت اور آسائشاتِ دنیا کی اس کثرت کے باعث رفتہ رفتہ اندلس و قرطبہ کی دولتمند و خوشحال سلطنت اس قدر معاشرتی تنزل و بے راہ روی کا شکار ہو گئی اور زنا و فساد اس قدر عام ہو گیا کہ اس کا ارتکاب کھلے عام ہونے لگا۔ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنی پیشانی پر ایک مصرع لکھوایا جس میں دوسروں کو زنا کی ترغیب و دعوت دی۔ یہ عورت اسی طرح اپنے گھر سے نکلتی اور عام راستوں سے گزرتی اور لوگوں کو گناہ کی جانب مائل کرتی۔ یوں رسول اللہﷺ کی بیان کردہ یہ علامت ہم نے پورا ہوتے دیکھی۔

(جاری ہے، ان شاءاللہ)

[یہ سلسلۂ مضامین نابغۂ روزگار مجاہد و داعی شیخ انور العولقی شہید رحمۃ اللہ علیہ کے انگریزی میں ارشاد کیے گئے سلسلۂ دروس ’Al-Aakhirah – The Hereafter‘ کا اردو ترجمہ ہیں، جو بِتوفیق اللہ، قسط وار مجلّہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ میں شائع کیے جا رہے ہیں ۔]

٭٭٭٭٭

Previous Post

امیر المومنین شیخ ہبۃ اللہ اخوند زادہ نصرہ اللہ کی ہدایات…… مجاہدین کے نام | اگست و ستمبر ۲۰۲۲

Next Post

استغفار کے ثمرات | پہلا حصہ

Related Posts

موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | چھبیسواں درس

26 ستمبر 2025
موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | پچیسواں درس

14 اگست 2025
موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس

14 جولائی 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | تئیسواں درس

9 جون 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | بائیسواں درس

25 مئی 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | اکیسواں درس

14 مارچ 2025
Next Post

استغفار کے ثمرات | پہلا حصہ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version