الحمد للہ وکفیٰ وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ اما بعد،
فأعوذبااللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰي شَرِيْعَةٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ 1
صدق الله العظيم
قندھار کے شریف اور قدرمند مسلمانوں، اور اس اجتماع کے تمام شرکاء کی خدمت میں ……
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ اجتماع بھی اس سلسلے میں منعقد ہوا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو نصیحت کریں کہ ہم کیسے ربﷻ کے دیے گئے اس انعام کا شکر بجا لائیں۔ اللہ ﷻ ہمارے عوام کی قربانیوں کو قبول فرمائے، جنہوں نے اس راستے میں بہت قربانیاں دی ہیں،اپنی اولاد، اپنے گھروں، اپنی جائیداد اور اموال کی ، ہر قسم کی قربانی چاہے وہ جسمانی ہو یا روحی تکالیف، اس راستے میں برداشت کیں اور ربﷻ نے اس کے نتیجے میں فتح، آزادی اور استقلال اس مقدس سرزمین کو عطا فرمائی۔ عجیب آزادی ہے جو بلند ہمتی سے واقع ہوئی ہے۔ یہ آزادی خون کی قیمت پر آئی ہے، یہ آزادی سروں کو قربان کرنے کی قیمت پر آئی ہے۔ ایسی عجیب آزادی جس کی خاطر معصوم خون بہا ہےاور معصوم جانیں قربان ہوئی ہیں ۔ گزرے بیس سالہ جہاد میں سارے مجاہدین فدائین تھے، سارے استشہادیین تھے۔ کیونکہ دشمن کے مقابل ان کے اسباب نہ ہونے کے برابر تھے۔ بس للہ فی اللہ لڑرہے تھے۔ یہ پیسوں کی فوج نہیں، یہ کرایے کی فوج نہیں، یہ مادیت کی فوج نہیں ، یہ عقیدے کی فوج ہے، یہ نظریے کی فوج ہے۔ ان لوگوں نے شریعت کے لیے قربانی دی ہے۔ ان لوگوں نے اس نعرے کے لیے قربانی دی ہے کہ افغانستان میں ایک اسلامی اور خالص شرعی نظام نافذ ہوگا۔ اس نعرے کے تحت ربﷻ نے کامیابی دی ، ہم کامیاب ہوگئے۔ اگر ہمارے گھروں کے اندر خواتین ہیں یا باہر مرداور جوان سبھی مسلمان ہیں، اسلامی احکام کے تابع ہیں۔
میرے بھائیو! یہ جو امارت اسلامیہ ہے…… یقیناً یہ ہم سب کا عقیدہ ہے کہ یہ اس عوام کی امارت ہے۔ یہ دنیا کی کسی بھی طاقت ، قوت اور تنظیم سےتعلق نہیں رکھتی ہے۔ میں بحیثیتِ امیر آپ کے سامنے یہ بات واضح کردوں کہ میں آپ میں سے ایک فرد ہوں۔ آپ جیسا ایک آدمی ہوں۔ آپ سب دنیا کی کسی طاقت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں کہ نہیں؟ اس سوال کا جواب اپنے اوپر لے لیں اور مجھے اپنے جیسا سمجھ لیں، میں آپ ہی کی طرح کا ایک فرد ہوں۔ دنیا کی کسی بھی قسم کی طاقت وقدرت کے ساتھ میرا تعلق نہیں ہے۔ افغانستان میں نظام صرف اللہ کے ساتھ مضبوط تعلق بنانے سے قائم ہوگا ۔ بس اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ وہ رب جس کے ساتھ ہمارا تعلق و رابطہ ہے، ہم اس کے زیرِ اثر ہیں، وہ صرف اللہ ہے۔ میں آپ سے عہد کرتا ہوں اور کل اللہ کے حضور بھی آپ سب نے گواہی دینی ہے……کہ وہ چیزیں جس پر ہم دنیا والوں کے ساتھ گزارہ کرسکتے ہیں، شریعت کے دائرے میں ، جس میں شریعت کا تحفظ بھی ہوگا ، اس ملت کا فائدہ بھی ہوگا ، مصلحت کا خیال بھی رکھا جائےگا، اس میں ہمیں کسی بھی قسم کی مشکل نہیں ہے۔ ہم اس کے تحت ہر کسی کے ساتھ تعامل کرسکتے ہیں اور کریں گے۔ لیکن جس وقت ہمارے دینِ اسلام کے خلاف، ہماری شریعت کے خلاف، ہمارے قومی مفادات کے خلاف کوئی چیز آئے گی ، اس میں ہمیں شریعت نے اجازت نہیں دی ہے …… کوشش کیجیے اس نظام کو اپنا نظام سمجھیے اور یہ نظام آپ ہی کا نظام ہے۔ اپنے گورنروں کو اپنا سمجھیں، یہ آپ ہی کے گورنر اور اولادیں ہیں۔ وزراء کو اپنا سمجھیے ، یہ آپ کے وزراء ہیں، آپ ہی عوام کے نمائندے ہیں۔ ان کی مدد کیجیے، ان کو نصیحت کیجیے، ان کو نیک مشورے دیں، ان کے سامنے بیٹھ کر مشورے دیں، اگر ان کی ملاقات میسر نہ ہو تو ان کے نام خط لکھیں۔اگر کسی کے ذریعے خط بھجواسکتے ہیں توان کے ذریعے بھجوائیں۔ کسی گورنر کے ذریعے یا میرے ساتھ جو اٹھتا بیٹھتا ہے اس کے ذریعے ہمیں خطوط بھجوائیں۔ نیک مشورہ، نیک نظریہ اس امت کے لیے، اسلام ،شریعت اور عوام کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔ ہمیں مشورہ دینا اپنی ذمہ داری سمجھیں۔اگر آپ کی حمایت، مومنین اور مسلمانوں کی حمایت امارت کے ساتھ نہ ہوگی تو امارت اسلامی کانظام نہیں چل سکتا۔ میں اکیلے یا تنہا وزیر کچھ نہیں کرسکتا۔ یہ جو میں اسلامی نظام کی بات کرتا ہوں تو یہ آپ کی مددسے کررہا ہوں ، کیونکہ آپ میرے ساتھی ہیں۔ آپ اسلامی نظام کے پشت پناہ ہیں اور اسلامی نظام ہی کی پشت پناہی کریں گے۔
ہمارے عوام افغانستان میں عدل کے محتاج ہیں تاکہ لوگوں کے حقوق محفوظ ہوجائیں۔مظالم کا راستہ روکا جائے۔ جو مظالم ہوئے ہیں اور جو ہورہے ہیں ان کو اسلامی اور شرعی عدالت کے ذریعے روکا جائے۔ ہم نے مستقل عدلیہ بنائی ہے۔ جیسا کہ حضرت معاویہؓ کے دورِ خلافت میں عدلیہ مستقل تھی۔ گونروں اورامراء کی یہ ذمہ داری ہے کہ عدالت کے حکم کا اجرا کرے۔ عدالتیں فیصلہ کریں گی میں اور گورنر اس کا اجرا کریں گے۔ عدالتوں سے میری گزارش ہے کہ کوشش کیجیے لوگوں کے مسائل کی تحقیقات سے تھکاوٹ کا شکار نہ ہوجائیں۔ مسائل میں ہر ممکن تحقیق کیجیے اور اصل نتیجے تک اپنے آپ کو پہنچائیے۔ کسی کی ملامت کی پروا نہ کریں۔ آج ہمارے عوام پُر امید ہیں کہ عدل قائم ہوگا۔ لوگوں کے حقوق محفوظ ہوں گے۔ اور اسی عدل کےنتیجے میں ربﷻ اس نظام کی مدد کریں گے۔
طالب کے مخالف ایسے پروپیگنڈے ہوئے ہیں جیسا کہ طالب، طالب نہیں ہے ۔ طالب ایک آدم خور ہے۔ طالب ایک دہشت گرد ہے۔ طالب اجتماعیت کا دشمن ہے۔ ایسا پروپیگنڈہ کیا ہے انہوں نے۔ میں مجاہدین کو کہتا ہوں کہ پنج شیر میں عوام کے ساتھ باقی صوبوں کی نسبت زیادہ اچھا برتاؤ کرو۔ وہاں کے لوگوں کے ساتھ زیادہ نرمی اور احتیاط کرو۔ کیونکہ اگر یہاں جنگ اور پروپیگنڈے کے بیس سال گزر گئے تو پنج شیر میں چالیس سال طالب کے خلاف پروپیگنڈاہ کرتے گزر گئے۔ مجھے مجاہدین نے بتایا کہ جب ہم پنج شیر میں داخل ہوگئے تو خواتین اور مرد پہاڑوں کی طرف بھاگ رہے تھے۔ جب ہم نے ایک سفید ریش سے پوچھا آپ سب کیوں بھاگ رہے ہیں؟ تو اس نے کہا ہمیں تو یہی کہا گیا تھا کہ طالبان آئیں گے تو تمہاری عزت و ناموس پر ہاتھ ڈالیں گے۔ یہ پرائے لوگ ہیں، یہ پاکستانی لوگ ہیں، یہ فلاں ہیں، یہ فلاں ہیں۔ اسی طرح کا ذہن بناتے ہیں۔ پھر ہم نے بچوں میں چاکلیٹیں تقسیم کیں، ان کو کھانے پینے کی چیزیں دیں اور ان کو بتایا کہ ہم وہ نہیں ہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ ہم آپ کی عزت و ناموس کے محافط ہیں۔ ہم آپ کے امن کے محافظ ہیں۔ ہم بد امنی پھیلانے والے نہیں ہیں۔ یہ اسی طرح کی ذہنیت بناتے ہیں۔ کیونکہ ان کفار اور ان کے معاونین نے (نظامِ باطل کے زیرِ سایہ)شہروں میں زندگی گزاری ہے اور وہاں لوگوں کے اسی طرح کی ذہنیت بنائی ہے۔
میں راستے میں آرہا تھا۔ راستے میں ایک محافظ نے میرے ساتھ نامناسب برتاؤ کیا۔ مجھے اس نے روکا اور نامناسب رویہ دکھایا، یہ طریقہ مجھے پسند نہیں آیا ، جو طریقہ آپ چیک پوائنٹ پر لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ تو میں آگیا اور مسئولین کو کہا کہ محافظ نے میرے ساتھ ایسا برتاؤ کیا۔ لیکن لائق ِملامت میں خود ہوں کیونکہ آپ نے چیک پوائنٹ والے کو اصول و ضوابط نہیں سکھائے، آپ نے اس کو اس کی تعلیم نہیں دی ہے، تو وہ ایسا ہی کرے گا کیونکہ اس کو اصول کا پتا ہی نہیں ۔ لہٰذا لائقِ ملامت آپ ہیں۔ علما کی مسئولیت ہے کہ وہ لوگوں کی ذہن سازی کریں۔علما کے پیچھے امارت کھڑی ہے۔ بےشک علما کےفتوے، علما کے حکم اور علما کے مشورے کی امارت میں کوئی مخالفت نہیں کرسکتا۔ جو علما ذمہ داریوں پر ہیں ان پر فرض ہے کہ وہ کسی کے زیرِ اثر نہیں آئیں گے اور اللہ تعالیٰ کا حکم انتہائی مضبوطی کے ساتھ چھوٹوں اور بڑوں پرنافذ کریں گے۔ دیکھیے میں ایک بار کہتا ہوں کہ میں اس قاضی سے بے زار ہوں جو بڑوں کے ساتھ گزارہ کرتا ہے اور چھوٹوں پر فیصلے نافذ کرتا ہے۔ میں ان سے بے زار ہوں ۔ آپ بھی ان سے بے زار ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ بھی بے زار ہے۔ اس میں اللہ کی خاطر فرق نہیں کریں گے، مسئلہ چھوٹے کا ہو یا بڑے کا شریعت کا حکم نافذ کریں گے۔میں افغانستان میں ایسی شریعت چاہتا ہوں جس میں چھوٹا بڑا دونوں برابر عدالت میں کھڑے ہوں۔ اگر کوئی کہے کہ یہ میں نہیں کرسکتا تو پھر میں بھی سر پر کفن باندھوں گا اور آپ بھی باندھیں گے لیکن اس کو نافذ کریں گے۔ یہ علما کی ذمہ داری ہے کہ دنیا والوں کو طالب کی پہچان کروائیں کہ طالب کون ہے؟ طالب کی ہمت و غیرت کا آپ سب نے مشاہدہ کیا ، طالب کون ہے؟ افغانستان کے اندر طالب نے بیس سال مقابلہ کیا۔ اس نے قصداً کسی افغان کو نہیں مارا ہے۔ اگر کسی افغان کو مارا بھی ہوگا تو وہ افغان ہوگا جو کفار کی حمایت کرتا ہے۔ کفار نے افغانیوں پر ملین ہا ڈالر اس لیے خرچ کیے کہ وہ طالب کا راستہ روکے اور افغانستان میں اپنے اہداف تک پہنچ جائے۔ جب طالب کے ہاتھ میں طاقت آتی ہے، تو وہ قاتل جس کامقصد ہی افغانوں کا قتلِ عام تھا وہ جب اس زمین سے بھاگ رہا ہوتا ہے اس وقت اس کو عام معافی کا اعلان کردیتے ہیں۔ میں نے ان مسئولین کو ذمہ داریوں سے ہٹایا ہے جن کے بارے میں مجھے علم ہوا ہے کہ انہوں نےعام معافی کے امر سے تجاوز کیا ہے۔ ان کو میں عدالت کے سامنے پیش کروں گا ، ان کو ہرگز معاف نہیں کروں گا ،جنہوں نے بے اطاعتی کی ہو۔آپ مجھے دنیا بھر میں کوئی ایسی فوج دکھائیں جس نے اپنے امیر کے حکم پر دشمن پر تسلط ہونے کے باوجود اپنی بندوقوں کا رُخ زمین کی طرف کیا ہو۔ آفرین اس طالب پر، جس نے اپنے امیر کی اطاعت کی۔ طالب کو پہچانیے یہی طالب ہے۔ جس نے اپنی ملت کے لیے، افغانستان کے لیے اور امن کے لیے عہد کیا ہے اور اس عہد پر قائم ہے۔
دوسرے نمبر پر ذمہ داری تاجروں پر عائد ہوتی ہے۔ افغانستان کی آزادی اور استقلال کی حفاظت دوسرے قدم پر تاجروں کے ذمے ہے۔ تاجر افغانستان کے اندر ایسی منصوبہ سازی کریں ، ایسی کمپنیاں بنائیں جس کے سبب سے افغانستان دنیا سے مستغنی ہوجائے۔ تاجروں کو کہنا چاہتا ہوں کہ ہمت کرو۔ اپنے ملک کے اندر سرمایہ کاری کو فروغ دو۔ یہ تمہارا ہی بچہ ہے تمہاری اولاد ہے ان کو اپنے مال میں سے اجر و ثواب کی نیت سے دیا کرو۔ جب تمہارامنافع دوسرے ملک میں ہوتا ہے تو وہ منافع اپنے ملک کے بچوں کو کیوں نہیں پہنچاتے۔ کیوں اپنے ملک کے کسی غریب کونہیں دیتے۔ دوسرے ملک میں اس لیے سرمایہ کاری کرتے ہو کہ پانچ روپے زیادہ کماؤ۔ آ جاؤ اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرو، ان پانچ روپے کو کم کرکےاس کا نفع اپنی اولاد، اپنے افغانستان اور ہم وطنوں کو پہنچا ؤ۔ سرمایہ دار اور تاجر آجائیں،ا للہ تعالیٰ نے ان کو اچھا موقع فراہم کیا ہے۔ میں نے دس دن قبل اقتصادی کمیشن کے ایک ساتھی کو بلایا اور ان کو کہا کہ پورے افغانستان میں صنعت کاروں کو صنعتی پارک دے دیں، میں نے ان کو کہا کہ جگہ اور زمین کا انتخاب آپ کرکے میرے پاس اس کی درخواست دائر کریں اور جن صوبوں میں میوہ جات کی پیدوار زیادہ ہے وہاں میوہ جات کی منڈیاں بنائیں۔ اور معدنیات کے لیے ایسی منصوبہ سازی کریں کہ یہ بہتر طریقے سے افغانستان کے فائدے کے لیے استعمال ہو۔ اپنے معدنیات سے استفادہ کریں۔ تاجر حضرات امارت اسلامیہ کے اقتصادی کمیشن کے ذریعے اقتصادی منصوبہ سازی اور سرمایہ کاری کریں ۔ ان شاء اللہ اقتصاد ہمارا اتنا مضبوط ہوجائے گا کہ ہم اس ملک کے ہر آدمی کے لیے تنخواہ مقرر کردیں گے۔ ہم اس کو تنخواہ دیں گے۔ دیکھیے یہ ایک سال سے نظام چل رہا ہے روز بروز یہ بڑھتا جارہا ہے۔ تمہاری سرمایہ داری کا فائدہ افغانستان کے بچے کو ہوگا۔ میں قندھار میں اپنے گھر سے نکلا، راستے میں آرہا تھا میں نے بچوں کو دیکھا کہ انہوں نے کمر پہ بوری اٹھائی ہوئی ہے ، پلاسٹک جمع کرکے اس بوری میں ڈال رہے ہیں ۔ میں نے گاڑی کے ڈرائیور کو کہا، اپنے بیٹے کو کہا، دیکھو، ہم امارت کے بڑے یہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کو عصری اور دینی علوم حاصل کرنے کے لیے اچھے مدرسے میں داخل کروائیں۔ اپنے بچے کو مدرسہ لے جانے کے لیے ہم نے ایک گاڑی بھی کھڑی کی ہوتی ہے۔ یہ بچہ کس کا ہے؟ کیا یہ میرا بچہ نہیں ہے۔ کیا ان بچوں کے بارے میں اللہ پاک مجھ سے نہیں پوچھے گا؟ میں نے گورنر صاحب کو بلایا،ان سے پوچھا یہ بچے کس کے ہیں؟ ان بچوں کو میری اولاد ہی سمجھو۔ ان کو جمع کرکے ان کو ان کے والد کے پاس لے جاؤ اور اسے کہنا کہ اگر ان بچوں پر کو تعلیم دلوانی ہے تو ہم نے ان کے لیے ادھر کلی مورچک میں مدرسہ بنایا ہے ۔ ابھی ہمارے پاس کافی بچے ہیں۔ اور اگر ان کو کوئی ہنر سکھانا ہے تو اس کے لیے اپنا ادارہ موجود ہے وہاں ان کو لے جاؤ۔ انہوں نے کہا کہ یہ غریب لوگ پیسے مانگ رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ قندھار میں بیس گھرانے میری طرف سے منظور ہوئے ہیں ، ان کو میں تنخواہ دوں گا۔اے تاجر تمہارے صنعت کاری اور سرمایہ کاری کا فائدہ تو اس غریب بچے کو ملے گا۔ اس کو تعلیم ملے گی۔ اس کو پیشہ ملے گا۔ یہ تو تمہاری خوش قسمتی ہے۔
جو جنگ کررہے ہیں ان کو میں کہتا ہوں تم جنگ کس لیے کررہے ہو؟ ہم تو جنگ اس لیے کررہے تھے کہ ان کافروں نے ہمارے ملک پر قبضہ کیا تھا۔ ابھی ہمارے ملک پر کس نے قبضہ کیا ہے؟آج تو تم یہ گولی شریعت اور اسلام پر چلا رہے ہو۔ کیا تم نے نہیں سنا ہم ہمیشہ کہتے آرہے ہیں کہ ہم اسلامی نظام لائیں گے ، اسلامی نظام لائیں گے۔ میں تمام افغان مسلمانوں کو اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ آجائیں اگر ہم میں کوئی شرعی غلطی دیکھ رہے ہیں تو ہمیں متوجہ کریں ہم اس کی اصلاح کریں گے۔ تم جنگ کیوں کررہے ہو؟ پہاڑوں میں کیوں جارہے ہو؟ کیوں دوسروں کی باتوں میں آرہے ہو؟کیوں دوسروں کی خواہشات کے لیے اس ملک کو قربان کررہے ہو؟ ’’الفتنة نائمة لعن الله من أيقظها.‘‘ ……’’فتنہ سورہا ہے اس پر لعنت ہو جو اس کو جگائے‘‘۔تم کیوں اپنے آپ کو اللہ کے نزدیک ملعون بنا رہے ہو؟ لہٰذا آپ سب کو چاہیے کہ خیر کی طرف دعوت دیں۔ مثبت باتیں کریں۔ سیاسی لوگوں اور جنگ کرنے والے لوگوں کو بھی کہتے ہیں کہ پہاڑوں میں رہنا چھوڑ دو، ہم نے سب کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے۔ آجاؤ یہ آپ سب کااپنا گھر ہے۔ اس افغانستان میں بیٹھ جاؤ۔ ہم شریعت کے مطابق سب کو ان کے حقوق دیں گے۔ مزید لوگوں کو تکلیف سے دوچار نہ کرو۔ اختلافات پیدا نہ کرو۔ اگر عالم کے لباس میں کھڑے ہوکر اختلاف پھیلا رہے ہو تو اس اختلاف سے اپنے آپ کو نکال دو۔ سیاسی لباس میں ہو یا پیر کے لباس میں ، جس لباس میں بھی ہو مزید اختلافات سے اپنے آپ کو نکال دو۔ ایسا نہ ہو کہ قتال کا ہدف اور مقصد تو اسلام رکھا ہو…… یہ جو گروہ ہے جو کہتا ہے ہم تو (نام نہاد)اسلامی خلافت لائیں گے۔ اے بدبخت اسلامی خلافت ، (جہاں اسلام نافذ ہےاس)اسلامی ملک پر لارہے ہو۔ تم ہمارے پیچھے پڑے ہو۔ہم تو اللہ اللہ کہہ رہے ہیں۔ تم آجاؤ ہمیں دیکھ لو ہمارا مقصد کیا ہے؟ تم آکر مسجد میں خود کو مار دیتے ہو وہاں حملہ کرکے مسلمانوں کوختم کردیتے ہو۔عجیب بات ہے، میں تو اس پر حیران ہوں ، کہ تمہارے پاس ان مسلمانوں کے قتل کی کون سی دلیل ہے۔ مشائخ کرام حدیث پڑھانے کے لیے بیٹھے ہوتے ہیں تم ان پر خودکش حملہ کرتے ہو، ان کو مارتے ہو۔ وہ عالم کیا کررہا ہوتا ؟ وہ قرآن اور احادیث کا درس دیتا ہے۔ تم اس پر حملہ کرتے ہو اپنے آپ کو ماردیتے ہو۔ مدرسے میں اپنے آپ کو پھاڑتے ہو۔ مسجد میں اپنے آپ کو پھاڑتےہو۔ یہ تمہاری خلافت ہے؟! خلافت کس پر قائم کروگے؟یہ تو تمہاری بہت غلط فکر ہے۔ یہ جائز جنگ نہیں یہ تو حرام جنگ ہے، یہ بہت بری جنگ ہے۔ یہ ظلم و وحشت ہے، اس وحشت سے اللہ کی خاطر اپنے آپ کو دور کردو۔
سکیورٹی سنبھالنے والے مجاہدین سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ نے قندھار میں امن قائم کرنے کی اچھی کوشش کی ہے۔ تمام صوبوں میں اس مسلمان عوام کی حفاظت کیجیے۔ ان کی خدمت کیجیے، ان کی تکالیف کو رفع کردیں۔ ان کے لیے اپنے دروازوں کو بند نہ کریں۔ مجھے یہ شکایتیں پہنچی ہیں کہ یہ مسئولین علما اور لوگوں کے ساتھ ملاقات نہیں کرتے ہیں ۔ کوشش کیجیے، ان سے ملاقات کا ایک منظم طریقہ بنائیں، تاکہ لوگ مایوس نہ ہوجائیں۔ ان سے ملاقات کیجیے، ان کے مسائل سنیے۔ سکیورٹی سنبھالنے والے افراد دن اور رات اپنے نمبروں کو فعال رکھیں۔ گشت کیا کرے۔
وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین!
٭٭٭٭٭
1 ’’پھر (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں دین کی ایک خاص شریعت پر رکھا ہے، لہٰذا تم اسی کی پیروی کرو، اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلنا جو حقیقت کا علم نہیں رکھتے۔ ‘‘(سورۃ الجاثیہ:۱۸)