نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home یومِ تفریق

یومِ تفریق [گیارہ ستمبر] کے تزویراتی فوائد

قیادت عامہ مرکزی القاعدہ by قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
30 ستمبر 2022
in اگست و ستمبر 2022, یومِ تفریق
0

آئیے آج بات کرتے ہیں غزواتِ اسلامی میں سے دو بڑے غزوات کی، جنہوں نے عالمی تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ سن ۲ ہجری کے ماہِ رمضان کے سترہویں روزے کی صبح بھی ایسا ہی ایک تاریخی موقع تھا جس نے کل عالم اور تاریخِ عالم کو ما قبل بدر اور ما بعد بدر میں تقسیم کر دیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس وقت کی بڑی عالمی طاقتیں اس غزوے کی اہمیت و حقیقی قدر کا ادراک نہ کر پائیں اور انہوں نے اس کے واقع ہونے کے اسباب کی جانب بہت کم توجہ دی حتیٰ کہ عہدِ فاروقؓ ، امیر المومنین ابو حفص عمر ؓبن الخطاب کے زمانے میں فارس و روم کے پایہ ہائے تخت عرب کے محمدی لشکروں کے قدموں تلے روندے جانے لگے۔

یوم بدر…… یا یومِ فرقان، حق و باطل کے مابین تفریق کا دن، اکثر مورخین کے نزدیک ایک فیصلہ کن دوراہے (نقطۂ تغیر)کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر کفار کی بے تحاشا عددی برتری اور ان کو دستیاب وسائل اور ان کی جنگی تیاریوں پر نظر ڈالیں تو ان کے مقابل مسلمانوں کی حیثیت ایک انتہائی قلیل اور بے سرو سامان گروہ سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔ وہ ایک تجارتی قافلے پر حملہ کرنے کی نیت سے نکلے تھے اور باقاعدہ جنگ کے لیے ان کے پاس نہ ضروری ہتھیار اور ساز و سامان تھا، اور نہ ہی عددی قوت۔ ان کے برعکس کفار بھرپور تیاری کے ساتھ، سامانِ حرب سے لیس ہو کر، سوار و پیادہ جنگجوؤں کو لے کر نکلے تھے اور مقابل آنے والی کسی بھی قوت کو روند کر رکھ دینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

مگر یہ اللہ جل شانہ کی مرضی تھی کہ مسلمانوں کا وہ قلیل گروہ، جو جنگ کی قوت رکھتا تھا نہ استطاعت، خود سے کئی گنا بڑے اور ہر قسم کے وسائل اور ہتھیاروں سے لیس اس دشمن کا مقابلہ کرے، اور پھر اس کے مقابل ایسی شاندار، فیصلہ کن اور نمایاں فتح حاصل کرے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ مادی اعتبار سے اس گروہ کے افراد اپنے کمزور ترین دور سے گزر رہے تھے، اور اپنے ان گھروں اور زمینوں کی طرف لوٹنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے تھےجہاں سے وہ دو سال قبل بزور نکالے گئے تھے۔ مادی اعتبار سے ایک کمتر مسلم قوت کی خود سے عددی و مادی اعتبار سے کئی گنا بڑی دشمن قوت پر یہ فتح ہی تھی جس نے ایمان و کفر کے مابین فرق کو واضح اور نمایاں کیا۔

اس فتح نے خدائے مہربان کے اولیا اور حلیفوں کی طاقت و قوت کو واضح کیا جبکہ اولیائے شیطان کی طاقت کی حقیقت و کمزوری بھی سب پر عیاں ہو گئی۔اگر اس روز مسلمان وہ تجارتی قافلہ لوٹنے میں کامیاب ہو جاتے تو تنقید و تجزیہ کرنے والے اس غزوے کی اہمیت کو یہ کہہ کر مسترد کر دیتے کہ کوئی بھی غیر قانونی مسلّح گروہ ایک تجارتی قافلے کو لوٹ سکتا ہے۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو قافلے کے غنائم سے محروم رکھا اور جنگ و قتال کی نیت سے پیش قدمی کرتے ایک لشکر کا سامنا کرنے کی آزمائش میں ڈالا۔ یوں ان دو فریقوں کے درمیان فرق مزید واضح ہو جاتا ہے اور اس قلیل او ر بے سرو سامان گروہ کی لشکرِ کفارِ قریش پر جیت بھی مزید حیران کن بناتا ہے۔

غزوۂ بدر اسلام کی قابلِ رشک عسکری تاریخ میں پیش آنے والی فیصلہ کن اور تاریخی جنگوں کے طویل سلسلے میں پہلی منزل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور اسلام کی عسکری تاریخ اس قسم کی شاندار اور حیران کن جنگوں سےبھری پڑی ہے۔ مگر ہمارا موضوع آج ہمارے اپنے زمانے کا ایک یوم فرقان ہے:نائن الیون۔ اپنی جزئیات میں غزوۂ بدر سے بہت زیادہ مماثلت و مشابہت رکھتا ہے۔ جیسے کفارِ مکّہ نے میدانِ بدر میں اٹھائی جانے والی ہزیمت پر پردے ڈالنے اور لوگوں کی توجہ دوسری جانب مبذول کرانے کی کوشش کی، بعینہ اسی طرح امریکہ نے دنیا کی توجہ محض ٹوئن ٹاوروں پر مرکوز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی، جس کا مقصد اس طمانچے کی رسوائی کو کم کرنا تھا جو اس کے عسکری قلعے کے ایک بڑے حصّے کی تباہی اور وزارتِ دفاع کے ہزار کے قریب اہلکاروں کے قتل کی صورت میں امریکہ کے چہرے پر جڑا گیا تھا۔ لیکن اس تاریخی واقعے کی اہمیت کو کم کرنے ، اسے چھوٹا ثابت کرنے ، اس سے متعلقہ حقائق کو مسخ کرنے اور چھپانے کی تمامتر کوششوں کے باوجود، ۱۱؍۹ کو تاریخ میں اسلام کے ناقابلِ فراموش حملوں میں سے ایک اور پہلے یوم الفرقان، یعنی غزوۂ بدر کے تسلسل کے طور پر ہی یاد رکھا جائے گا، کہ جس طرح میدانِ بدر میں صنمِ دوراں کے ستون ڈھے گئے، اسی طرح آج کے میدانِ بدر میں ٹوئن ٹاور ریزہ ریزہ ہوئے۔ ان حملوں کی تاریخی اہمیت کو امریکی مؤرخ پال کینیڈی نے بہترین طور پر بیان کیا جب اس نے کہا کہ اکیسویں صدی کی حقیقی شروعات تو ستمبر ۱۱، ۲۰۰۱ء کو ہوئیں، کیونکہ اس نے عصری تاریخ کو ما قبل ۱۱؍۹ اور ما بعد ۱۱؍۹ کے ادوار میں تقسیم کر دیا۔ اسی لیے گیارہ ستمبر کے واقعات انسانی تاریخ کے ایک بڑے نقطۂ تغیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

طاقت کا وہ توازن جو اس روز الٹا دیا گیا، اس کو دوبارہ قائم کرنے اور دنیا پر اپنی چودھراہٹ و حکمرانی کی دھاک بٹھانے کی تمام تر امریکی کوششوں کے باوجود، امریکہ دوبارہ کبھی اپنی پہلی حیثیت حاصل نہیں کر سکا، نہ کر سکے گا۔ اپنی طاقت کی سب سے بڑی علامتوں…… پینٹاگان، جو کہ دنیا کی واحد سپر پاور کی وزارتِ دفاع کا مرکز تھا اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے آسمان کو چھوتے ٹوئن ٹاور، جو بے رحم امریکی سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی تسلط کی علامت تھے…… کی تباہی سے پہلے کے امریکہ اور ان کی تباہی کے بعد کے امریکہ، میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ۱۱؍۹ کی قوت محض اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر پھیلنے والی تباہی و بربادی میں نہیں، بلکہ مساوی طور پر اپنے ناگہانی پن میں ہے، کیونکہ یہ حملہ ایسے طریقے سے ہوا جو بے حداچانک اور غیر متوقع تھا۔

آئیے ذرا دیر کو اپنی شاندار تاریخ کے ایک صفحے کا بغور مطالعہ کرنے کے لیے ماضی کے اوراق پلٹتے ہیں۔ گیارہ ستمبر ، ۲۰۰۱ء کی صبح امریکی سرزمین پر اس کے عسکری اور اقتصادی قوت کی علامتوں پر حملوں کی خبر پوری دنیا کے اخباروں کی شہ سرخی بن گئی۔ جلد ہی یہ بات معروف ہو گئی کہ اسلام کے شہسواروں میں سے انیس ابطال نے امریکہ کو اس کی اپنی سرزمین، بلکہ اس کے دار الحکومت کے عین وسط میں جا جھنجھوڑا ہے۔ایک نام پوری دنیا میں ہر ایک کی زبان پر تھا۔ ایک دور دراز اسلامی سرزمین قندھار پر بسنے والے ایک مردِ مسلماں ، اسامہ بن لادن نے نشانہ باندھ کر چار نیزے مارے، جو واشنگٹن و نیویارک کے قلب میں جاپیوست ہو ئے۔ ان نیزوں میں سے تین نے امریکہ کی عسکری اور اقتصادی قوت کو مجروح کیا۔ جبکہ ان چاروں کے وار سے مجموعی طور پر چھ ہزار سے زائد امریکی جانیں لقمۂ اجل بنیں، جو کہ پرل ہاربر میں اٹھائے جانے والے امریکی نقصان سے دوگنا تھیں۔

ایک ایسے بے مثال حملے میں جو پوری دنیا میں ٹیلی وژن کی سکرین پر لائیو دکھایا گیا، اانیس شجاع مسلمانوں کے چھوٹے سے گروہ نے امریکہ کے عسکری قلعہ کے ایک بڑے حصّے کو خاک میں ملا دیا تھا جبکہ امریکہ کی عالمی اقتصادی اجارہ داری کی بزرگ ترین علامت، ورلڈ ٹریڈ سنٹر (عالمی تجارتی مرکز)کے ٹوئن ٹاوروں کو نیویارک کے خطِ افق (skyline)سے ہی مٹا کر رکھ دیا تھا1۔ دنیا نے پوری انسانی تاریخ میں کبھی عسکری و تزویراتی اعتبار سے ایسا بے مثال حملہ دیکھا تھا نہ سنا تھا۔ بلا شبہ عسکری تاریخ میں اس حملے کو اسلام کے ایک اور زندۂ جاوید غزوے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

ان حملوں کو انجام تک پہنچانے والے بیس یا سو صابر مومنین نہیں تھے، کہ قرآن کے مطابق جو دشمن کے دو سو یا دو ہزار کے عدد پر غالب آتے……بلکہ وہ تو محض انیس بے خوف شہسوار تھے، جو کفار کے چھ ہزار سے زائد افراد پر غالب آ گئے۔۱۱ ستمبر، ۲۰۰۱ء کی صبح پوری دنیا نے سرمایہ دارانہ نظام کے قلب میں اس کی سب سے بڑی اور عظیم الشان اقتصادی علامت کی تباہی کا نظارہ کیا۔ آن کی آن میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے جڑواں ٹاور شیشے اور لوہے کے ایک بڑے ڈھیر اور دم گھونٹنے والے غبار کے بادل میں تبدیل ہو گئے۔ اس حملے کے فوراً بعد اگلا حملہ امریکہ کی عسکری طاقت پینٹاگان پر ہوا۔ پینٹاگان کا ایک بڑا حصّہ……جس میں حرب و ضرب کے ماہرین اور امریکہ کی عسکری قیادت موجود تھی، مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ طیارہ ائیر فورس وَن کتنی ہی دیرایک دہشت زدہ امریکی صدر کو اٹھائے فضاؤں میں منڈلاتا رہا ، کہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے وہ زمین پر اترنے پر تیار نہیں تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ بُش ……عرب بہار کے بعد جس طرح تیونس کا صدر زین العابدین طیارے پر فرار ہوا تھا……اسی قسم کے ایک منظر نامے میں اپنی جان بچانے کی خاطر ائیر فورس وَن پر فرار ہو جائے گا۔۱۱؍ ۹ کی صبح، انسانی تاریخ کی سب سے بڑی عسکری طاقت کا صدر، آسمانوں اور فضاؤں میں امن اور پناہ تلاش رہا تھا، اور نہیں جانتا تھا کہ کس زمین پر قدم رکھے!گویا اس کا گمان ہو کہ ۱۹ مسلمان حملہ آوروں نے اس کے ملک پر قبضہ کر لیا ہے!

ایک ہی ضرب سے، مسلمانوں کے ان انیس شہسواروں نے اس تصور کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زمین میں دفن کر دیا کہ امریکہ ایک ایسا محفوظ اور مضبوط قلعہ ہے، جس کی حفاظت کے لیے جوہری ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ ہر آن تیار وموجود ہے، جس کی سرحدیں اتنی محفوظ ہیں کہ ان پر حملہ کرنا ممکن ہی نہیں، اور جسے بحرِ اوقیانوس اور بحر الکاہل کے پانیوں نے بہت مؤثر اور اچھے طریقے سے دیگر تمام دنیا سے محفوظ کر رکھا ہے۔ حملے کے بعد کے گھنٹوں میں امریکی صدرروپوش تھا جبکہ امریکی عظمت و جبروت وہاں پہنچ چکی تھی جہاں اس کو پہنچنے کا حق تھا……تاریخ کے کچرادان میں! اپنی تمام تر طاقت، عظمت و شوکت اور تکبر کے باوجود، امریکہ اچانک ہی بنا کسی قیادت کے تنہا کھڑا تھا۔ ان حملوں کے بعد صورتحال ایسی بن گئی تھی جو آج ہمیں سری لنکا کی صورتحال کی یاد دلاتی ہے، کہ جس میں ایک ملک یکایک بے قیادت و بے سمت، بوکھلایا ہوا اور اپنی جڑ سے اکھڑا ہوا رہ گیا۔ واشنگٹن و نیو یارک ایسا محسوس ہوتاگویا بھوتوں کے شہر ہوں……

اور یوں امریکہ واحد عالمی سُپر پاور اور ایک ایسی ناقابلِ تسخیر ریاست جسے چیلنج کرنا ہی ممکن نہ تھا، سے ایک عام اور معمولی ریاست بن گئی……دنیا کی کسی بھی دوسری ریاست کی مانند! حقیقت یہ ہے کہ ۱۱؍۹ کے واقعات نے امریکی نفسیات کو جس طرح متاثر و مجروح کیا ، اس کو مد نظر رکھے بغیر پچھلی دو دہائیوں میں عالمی منظر نامے پر امریکی رویّے اور طرزِ عمل کوسمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ حملے امریکی نفسیات پر ایک بہت گہرا تاثر چھوڑ گئے جنہوں نے ہر طرح سے عالمی منظر نامے پر اس کے طرزِ عمل کو متاثر کیا۔ یہ ایک مستقل زخم کی مانند ہیں……ایک ایسا زخم، جو شاید کبھی بھر نہ سکے گا۔ یہ امریکہ کی عزت و عظمت پر ایسا دھبّہ ہیں جسے وہ کبھی دھو نہیں پائے گا، بلکہ یہ پوری قسط ہی امریکہ کیے لیے انتہائی رسوا کن اور باعثِ ہزیمت تھی۔ اور یہی وہ سبب تھا، کہ جس نے امریکہ کو ایسا طرزِ عمل اپنانے پر مجبور کیا جو ابتداءً جنونی و ہذیانی تھا اور بتدریج مزید نا عاقبت اندیش ہوتا چلا گیا۔

نیز یہ حملے ایک عالمی طاقت کے طور پر امریکہ کے زوال کا بھی ایک چیختا چلاتاثبوت تھے۔ ان حملوں نے بنیادی طور پر امریکی عظمت و شوکت کی شام ہونے کا اعلان کر دیا۔ قوموں کے عروج و زوال کو بغور پڑھا اور سمجھا جائے تو ایک اہم حقیقت کا ادراک ہوتا ہے: جب بھی کوئی عظیم طاقت اپنی قوت و شوکت کے عروج پر پہنچتی ہے، ایک سست مگر مستقل بڑھتے ہوئے انحطاط کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ عمل مگر عموماً انتہائی لطیف اور غیرمحسوس کن ہوتا ہے جس کو پہچاننا بعد میں تو ممکن ہوتا ہے، لیکن جس وقت زوال کی جانب یہ سفر طے ہو رہا ہوتا ہے، تب یہ آثار اپنے آپ کو ظاہر کرنے میں کئی عشروں کی مدت لے لیتے ہیں۔ مگر امریکہ کے معاملے میں انحطاط و زوال کی یہ علامات ، اپنی عظمت و قوت کے عروج کے دور میں بھی بے حد نمایاں رہی ہیں۔ گویا اللہ جل جلالہ اس دنیا کے باسیوں کو یاد دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ سنۃ اللہ سب پر غالب آنے والی ہے، اس کے امر کے آگے سب بے بس ہیں، اور اس کی قوت و طاقت کا مقابلہ ممکن نہیں۔اس کا امر محض ایک کلمۂ کُن کا منتظر ہوتا ہے، اور جب وہ کسی کام کا ارادہ کر لیتا ہے تو وہ کہتا ہے ’کُن‘ اور ’فیکون‘پس وہ ہو جاتا ہے!

ستمبر ۲۰۰۱ء میں واقع ہونے والا یومِ بدر امریکہ کا لمحۂ اذیت و رسوائی تھا۔یہ حملے آسمانی بجلی کی طرح امریکہ پر گرے اور اس کی عظمت و عروج، اس کے مکمل عالمی تسلط، اور اس کی شوکت و ہیبت کے بت کو پاش پاش کر گئے۔ امریکہ اس صدی کے طلوع ہونے پر مغربی دنیا کی اکثریت کی نظر میں ایک ایسا روشن و چمکدار ستارہ تھا جس کی چمک دمک لازوال، خیرہ کن اور کبھی ماند نہ پڑنے والی تھی۔ حتیٰ کہ ان حملوں سے محض ایک مہینہ قبل، برطانوی وزارتِ خارجہ کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں بڑے وثوق سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ کم از کم سن ۲۰۳۰ء تک، امریکہ کی عسکری و اقتصادی طاقت کل عالم میں فائق تر اور غالب رہے گی۔ یہاں تک کہ امریکہ کو یہ لا زوال اسلامی ضرب لگی جس نے ایک ہی جھٹکے میں اس کا توازن درہم برہم کر دیا اور اسے اندر تک ہلا کر رکھ دیا۔

جی ہاں، جیسے زمانۂ اول کے کافر بدرِ اولیٰ کے حقیقی اثرات و نتائج سے بے خبر رہے تھے ، اسی طرح آج کے کافر بھی بدرِ ثانی، ۱۱ ستمبر کی حقیقت کا ادراک نہ کر پائے۔تجزیہ کاروں میں بہت قلیل تعداد تھی جو اس وقت عالمی طاقت کے توازن پر ان حملوں کے حقیقی دور رس نتائج و اثرات کا اندازہ کر پائی ۔ واقعے کے فوراً بعد تو اس کے اثرات کے بارے میں آرا میں بے تحاشا تنوع و اختلاف پایا جاتا تھا، اور کسی نے بھی اتنے بڑے پیمانے پر اتنے گہرے اثرات کا تصور بھی نہ کیا تھا۔ اکیسویں صدی کی شروعات شاید ہی اس سے زیادہ ڈرامائی ہو سکتی تھیں۔

مگر وقت گزرنے کے ساتھ بعض تجزیہ کاروں نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا کہ ان حملوں کا امریکہ کے عالمی تسلط پر اثر واضح اور محسوس کن ہو گا اور عالمی منظر نامے میں طاقت کے توازن میں آنے والی تبدیلی ا ن تمام اندازوں سے بڑھ کر ہو گی جن کی ابتداءً کسی نے بھی توقع کی تھی۔

تزویراتی (strategic) فوائد کے اعتبار سے ان حملوں نے امریکہ کو شدید عسکری و اقتصادی نقصان پہنچایا۔محض اس ایک حملے میں ہونے والا عسکری نقصان ان بیشتر جنگوں میں اٹھائے جانے والے نقصان سے زیادہ تھا، جن میں امریکہ جنگِ عظیم دوم کے بعد سے شریک ہوا ہے۔ بالخصوص پینٹاگان پر ہونے والے حملے میں جو جانی نقصان ہوا، وہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ حملے میں قتل ہونے والے بہت سے افسر ایسے تھے جو سالوں کاتجربہ و مہارت رکھتے تھے، اور جدید ترین عسکری اوزار و اسلحے اور مشینوں سے کئی گنا زیادہ قیمتی اور اہم تھے۔ امریکہ پینٹاگان میں ہلاک ہونے والے ان افسروں کی عسکری مہارت کے بغیر عراق و افغانستان کی جنگوں میں داخل ہوا، اور ان جنگوں میں شکست و ہزیمت سے دوچار ہونے میں اس سبب کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔

اقتصادی اعتبار سے دیکھا جائے تو بھی ان فوری نقصانات کے جو حملوں کے سبب ہونے والی تباہی و بربادی کے سبب اٹھانا پڑے، ان کے علاوہ بھی امریکی اقتصاد پر ان حملوں کے اہم اور دور رس اثرا ت مرتب ہوئے۔ جڑواں ٹاوروں کی تباہی امریکی کمپنیوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے شدید نقصانات کا باعث بنی۔ اول تو اتنی بڑی تعداد میں کاروباری افراد اور معاشی سمجھ بوجھ رکھنے والے اذہان کی موت ہی نے ان کے ہاتھوں چلنے والی کمپنیوں اور کاروباروں کو مفلوج کر دیا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ پوری امریکی معیشت پر پڑنے والا بوجھ مزید واضح ہوتا چلا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ گیارہ ستمبر نے امریکہ کو ایک ایسی تاریک سرنگ میں دھکیل دیا جس کا کوئی سرا نظر نہ آ رہا تھا۔ آنے والے سالوں میں امریکہ کا قومی قرضہ اس رفتار سے بڑھا جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔نوّے کی دہائی میں امریکہ جس قسم کی معاشی خوشحالی کا عادی ہو گیا تھا، وہ یکایک ختم ہو گئی۔۱۱ ستمبر، ۲۰۰۱ء کو کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ محض ۲۰ سال بعد امریکی حکومت اپنے آپ کو امریکہ کے بچوں کے لیے دودھ کا پاؤڈرفراہم کرنے کے بھی قابل نہ پائے گی، اور ملک کے طول و عرض میں ایک ایک لیٹر پٹرول پر مرنے مارنے پر آمادہ لوگوں کے جھگڑے ایک عام منظر بن جائے گا؟

پھر امریکہ کا یکے بعد دیگرے اور انتہائی جلد بازی سے دو جنگوں میں داخل ہونے نے نہ صرف امریکہ کی عسکری کمزوری کو ظاہر کر دیا بلکہ واشنگٹن میں سیاسی عزم و ارادے اور ہمت و استقلال کے فقدان کو بھی عیاں کر دیا۔ عراق و افغانستان کی جنگوں نے امریکہ کی تاریخ سے ناواقفیت اور مسلم دنیا کی پیچیدگیوں سے اس کی لا علمی کو بھی واضح کر دیا۔ امریکہ انتہائی عجلت میں اکٹھے کیے ہوئے اتحادیوں کے ساتھ پہلے افغانستان اور پھر عراق میں داخل ہوا، وقت گزرنے کے ساتھ امریکہ کے یہ اتحاد کمزور اور ناپائیدار ثابت ہوئے۔ امریکہ منصوبہ بندی کے جس فقدان کے ساتھ ا ن جڑواں جنگوں میں سر دے بیٹھا، وہ مستقبل میں آنے والی امریکی انتظامیاؤں کے لیے بھی مسلسل بوجھ اور ایک مستقل دردِ سر بنی رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ امریکہ کے وسائل اور صلاحیتوں سے بالاتر تھا کہ وہ اپنی سرحدوں سے دور عسکری مہمات میں الجھے، بالخصوص ایک ایسے وقت میں جبکہ اپنی تاریخ میں پہلی دفعہ وہ اندرونی طور پر غیر محفوظ تھا۔

اسی سے متعلق ایک دوسرا سٹریٹیجک فائدہ جس سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں، یہ حاصل ہوا کہ ان حملوں سے نصرانی صلیبی مغربی دنیا میں اختلافات پیدا ہو گئے۔ایک زیادہ تر کیتھولک مغربی یورپ اور ایک آرتھوڈوکس مشرقی یورپ کو ۱۱ ستمبر کے بعد کی دنیا میں ایک موقع ہاتھ آیا تھا کہ وہ امریکہ کو دنیا کے واحد چودھری کے اس کےمقام و منصب سے گرا دیں۔ آج افغانستان میں امریکی شکست اور یوکرین میں جنگ چھِڑنے کے بعد، طاقت کے توازن میں یہ تبدیلی اس قدر واضح ہو گئی ہے کہ اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔

سکیورٹی نقطۂ نظر سےدیکھا جائے تو ۱۱ ستمبر تاریخ کی بدترین استخباراتی ناکامیوں میں سے ایک تھا۔ بے حد قلیل وسائل کے حامل، انیس افراد امریکہ کے شہری و عسکری دفاعی حصاروں سے گزرنے میں کامیاب ہو گئے اور کسی کو خبر بھی نہ ہوئی۔ اس سے امریکی قوم کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوئے:’اگر کسی ریاست یا عسکری قوت نے امریکہ پر حملے کا ارادہ کر لیا تو کیا ہو گا؟اگر ان’دہشت گردوں‘ کے اختیار میں جوہری ہتھیار آ گئے تو کیا ہو گا؟ اور اگر انہوں نے امریکی سر زمین پر کیمیائی یا بایولوجیکل ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا تو……؟! ‘۔

۱۱؍۹ کے حملوں کے اثرات اور فروعی نتائج تو آج تک ظاہر اور محسوس ہو رہے ہیں۔ بلکہ آنے والے زمانے میں بھی جس قدر پیش بینی کی جا سکتی ہے، اس میں بھی ان زلزلہ خیز حملوں کے اثرات ما بعد غائب ہوتے نظر نہیں آتے۔ یہ اسی سبب ہے کہ ۱۱ ستمبر کے واقعات کو بدرِ اولیٰ ، یوم الفرقان کا ایک تسلسل قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ان حملوں کا ایک درست اور قرینِ حقیقت تجزیہ کرنے کے لیے انہی شرائط کا پورا ہونا درکار ہے جو اجماعِ فقہی کے لیے ہیں، یعنی ہم عصریت کا ختم ہونا۔ اسی صورت میں تجزیہ غیر متعصب اور مبنی بر عدل ہو سکتا ہے کیونکہ ایک ہی دور اور زمانے سے تعلق رکھنا اکثر ایک حقیقی اور صائب رائے قائم کرنے کی راہ میں حائل ہو جاتا ہے۔ تاریخ میں بہت سی شخصیات اور فیصلہ کن جنگوں کی عظمت کو تب تک تسلیم نہ کیا گیا اور ان کی کما حقہ قدر نہ کی گئی یہاں تک کہ وہ زمانہ ختم ہو گیا جس سے وہ تعلق رکھتے تھے……اور اس زمانے کے ساتھ ہی ان کے ساتھ وابستہ تعصب و حسد بھی۔

اس حقیقت کو جھٹلانا مشکل ہے کہ دنیا ان حملوں کے ایک دن بعد ویسی نہیں رہی جیسی ان سے ایک دن قبل تھی۔ اس اعتبار سے بھی ۱۱ ستمبر یومِ فرقان تھا، اور اسلامی تاریخ کے دھارے کو موڑنے والا ایک تاریخ ساز دن تھا۔اس دن کے حملے اسی بدری روح کے حامل تھے جو تاریخِ اسلام کی پہلی عظیم جنگ میں نظر آتی ہے، اور یہ اس کے ساتھ بہت زیادہ مشابہت و مماثلت رکھتے ہیں۔ اللہ رب العزت ان پاکیزہ اور جرّی نفوس پر اپنی رحمت کا سایہ فرمائے جنہوں نے اس دن امریکی فضاؤں میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اور سلامتی ہو ان پر ان کی دائمی و ابدی حیات میں!

۱۱ ستمبر کی شام بہت کم لوگ یہ بات سمجھ پائے تھےکہ آج کا دن وقت کی عظیم طاقت کے لیے پیامِ اجل لے کر آیا تھا۔ مشرکینِ قریش اور روم و فارس کی سلطنتوں کے زوال کی ساعتوں کا شمار ۱۷ رمضان المبارک، ۲ ہجری بروز جمعہ، میدانِ بدر میں شروع ہو گیا تھا۔ اسی طرح بروز منگل، ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو اس حقیقت کا ادراک بہت کم تھا کہ سقوطِ امریکہ کی الٹی گنتی بھی شروع ہو گئی ہے۔ آنے والے ماہ و سال میں جو کچھ ہوا اور پیش آیا وہ مظلومین کے سفر بہ سمت عروج کی شروعات ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَي الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ اَىِٕمَّةً وَّنَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِيْنَ۝ وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْاَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَجُنُوْدَهُمَا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَحْذَرُوْنَ۝ (سورۃ القصص: ۵،۶)

’’ اور ہم یہ چاہتے تھے کہ جن لوگوں کو زمین میں دبا کر رکھا گیا ہے ان پر احسان کریں ان کو پیشوا بنائیں، انہی کو (ملک و مال کا) وارث بنادیں۔ اور انہیں زمین میں اقتدار عطاکریں، اور فرعون، ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دکھا دیں جس سے بچاؤ کی وہ تدبیریں کر رہے تھے۔ ‘‘

کوئی بھی شخص…… قطع نظر اس بات سے کہ وہ کتنی ہی عمدہ تجزیہ و تحلیل کی صلاحیت رکھتا ہو اور کیسا ہی کائیاں پیش بین کیوں نہ ہو……کوئی بھی اس واقعے کی پیشین گوئی نہیں کر سکتا تھا کہ بیس سے بھی کم مسلمان شہسوار، جو چھوٹی چھوٹی کاغذ اور ڈبّے کاٹنے والی چھریوں کے علاوہ کسی چیز سے مسلّح نہیں تھے، وہ تاریخ کے سب سے عظیم اور طاقتور عسکری جگن ناتھ……جو جاسوس سیٹلائٹوں، انتہائی مضبوط عالمی استخباراتی و جاسوسی نظام و نیٹ ورک اور ایک عظیم الشان عسکری صنعتی مرکز کا مالک تھا……کو ایسی مہلک ضرب لگائیں گے۔ یہ ما سوائے اللہ رب العزت کے فضل کےممکن نہ تھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے امت ِ مسلمہ کے ہراول دستے، القاعدہ کو اس تاریخی دن ایسی کامیابی عطا فرمائی کہ جسے تاریخ میں ہمیشہ روحِ جہاد اور حمیتِ اسلامی کی بے نظیر مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

٭٭٭٭٭


1 خطِ افق کے ساتھ skyline کے انگریزی لفظ کا ذکر یہاں اس لیے کیا گیا ہے کہ جدید دنیا میں یہ بات مشہور ہے کہ نیویارک کی skyline قابلِ دید ہے، گویا’جس نے نیو یارک کی سکائی لائن نہیں دیکھی، اس نے کچھ نہیں دیکھا!‘۔(مترجم)

Previous Post

بیت المال کی گاڑی ذاتی کاموں میں استعمال کرنے کا حکم

Next Post

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | ساتویں قسط

Related Posts

ظالم کو مار گرانے والے!
یومِ تفریق

ظالم کو مار گرانے والے!

15 نومبر 2024
یومِ تفریق

جہاد کے لیے نکلو!

15 نومبر 2024
یومِ تفریق

یومِ تفریق سے طوفانُ الاقصیٰ تک

15 نومبر 2024
یومِ تفریق
یومِ تفریق

یومِ تفریق

15 نومبر 2024
یومِ تفریق

شیخ اسامہ بن لادن کیوں ’محسنِ امت ‘ہیں؟

15 نومبر 2024
یومِ تفریق

ہم گیارہ ستمبر کی یاد کیوں ’مناتے‘ ہیں؟

15 نومبر 2024
Next Post

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | ساتویں قسط

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version