تمام تعریف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے ہے جس نے ہمیں مسلمان بنایا اور اپنے محبوبؐ کا امتی بنایا، صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم! اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے صغیرہ و کبیرہ گناہوں کو اپنے فضلِ محض سے معاف کر دے، اپنے دین کی خدمت کی مبارک محنت کا کام لے لے اور جنت الفردوس میں اپنے حبیب کے قدموں میں جگہ عطا فر ما دے۔ بے شک مانگنے والے کو نہ مانگنا آتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی اہلیت ہم میں پائی جاتی ہے!
اینڈریو ٹیٹ (Andrew Tate) اور الولاء والبراء
سوشل میڈیا فالو کرنے والے حضرات و خواتین (خصوصاً نوجوانوں و جوانوں) کی اکثریت اینڈریو ٹیٹ سے واقف ہو گی۔ یہ ایک عیاش سوشل میڈیا انفلوئنسر (social media influencer) ہے جو عورتوں کے متعلق اپنے نازیبا، حقارت آمیز اور نفرت انگیز (misogynistic) بیانات و تبصروں کے سبب مشہور ہے۔ اس وقت اینڈریو ٹیٹ رومانیا میں بعض نہایت سنگین الزامات کے سبب قید ہے۔
چند ماہ قبل اینڈریو ٹیٹ کی ایک اور سوشل میڈیا انفلوئنسر (غالباً ٹام خان؍Tam Khan) کے ساتھ ایک ویڈیو عام ہوئی جس میں وہ دبئی کی ایک مسجد میں نماز پڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے بعد ٹیٹ کے اسلام لانے کی خبر عام ہو گئی، گو کہ ٹیٹ نے خود اس کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا، سوائے اس بات کے کہ اس نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر امام ابنِ قیم رحمہ اللہ کا ایک قول شیئر کیا۔ کچھ ہی عرصے بعد عرب امارات میں رہنے والے ایک صاحب فارس الحمادی جو علماء کی طرف اپنی نسبت کرتے ہیں، نے ٹیٹ سے ملاقات بھی کی اور اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر لکھا کہ’اب جب کہ ہمارے بھائی اینڈریو بن ٹیٹ نے اسلام قبول کر لیا ہے تو ہمارے الولاء والبراء کو ٹیٹ کے ساتھ وابستہ ہونا چاہیے‘۔ اینڈریو ٹیٹ نے اپنے اس طرح اسلام کے اعلان کے بعد بھی اپنی ایک ایسی پرانی ویڈیو شیئر کی جس میں وہ اپنے پرائیویٹ جیٹ میں بیٹھا سگار کے کش لگا رہا ہے اور شراب پی رہا ہے، ٹیٹ کے بارے میں اتنی بات کرنے کے باوجود ٹیٹ ہمارا موضوع نہیں، بلکہ فارس الحمادی اور اس قبیل کے وہ لوگ ہیں جو علماء سے اپنی نسبت کرتے ہیں۔
الولاء و البراء، اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدہ ہے جس کا مطلب مسلمانوں سے ولاء یعنی دوستی و حمایت کا تعلق اور کفار سے براء یعنی دشمنی و بغض کا تعلق ہے۔ عجیب بات ہے کہ سلاطین و طواغیتِ زمانہ کے درباروں میں جانے والے اور آج کے طواغیت بلکہ طواغیت کے بھی غلام، اماراتی ابنِ زاید، سعودی ابنِ سلمان، قطری تمیم، مصری سیسی، اردنی عبداللہ وغیرہ جو آج اسلام و کفر کی عالمی جنگ میں کفر کے اتحادی، اسرائیل کے حامی، مسلمانانِ فلسطین کے دشمن و قاتل ہیں کو حمادی اور سدیس جیسے لوگ شرعی ولی الامر کہتے ہیں اور ان کی درازیٔ عمر کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔ یہاں الولاء والبراء نجانے کہاں جاتا ہے؟
ان کا مسلک تو وہ ہے جو ایک عرب عالمِ سوء نے سعودی ولی عہد کے بارے میں بیان کیا کہ ’اگر سعودی ولی عہد ہر روز ٹی وی پر آکر آدھ گھنٹہ زنا کرے تب بھی اس کی اطاعت واجب ہے‘، بلکہ اس نے مزید کہا کہ ’اگر وہ لواطت کرے تب بھی اطاعت کرنا واجب ہے‘۔ ایسے درباری علماء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث تو ہیں لیکن اسی طرح جس طرح آج کے یہودِ بنی اسرائیل، بنی اسرائیل کے انبیاء کے وارث ہیں۔ ان کو انبیاء اللہ سے کوئی نسبت نہیں!
ان کی الولاء ولبراء، عافیہ صدیقی کے لیے سوئی رہتی ہے، خیری علقم کے لیے الولاء ولبراء کا کوئی معنیٰ نہیں کہ یہود پر فدائی حملہ کرنے والے اس فلسطینی فدائی جانباز کی ’شہادت‘ کی مذمت تو امارات کے بن زاید نے کی ہے، عراق پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ان کے اس عقیدے کو نہیں جگاتا، شام کی اینٹ سے اینٹ بج جائے، فلسطین میں سال ۲۰۲۲ء میں رسمی اعداد و شمار کے مطابق تین سو مسلمان فلسطینی قتل ہو جائیں، مکہ و مدینہ میں فحاشی و عریانی کا طوفان ہو، قطر میں قومِ لوط کا عمل کرنے والے اپنے اڈے بنائیں، قطر و سعودی و بحرین و امارات اپنی زمینیں امریکہ و برطانیہ کی فوجوں کو فوجی اڈے بنانے کے لیے دے دیں…… اس سب پر ان کا عقیدۂ ولاء و براء نہیں جاگتا۔
ولاء و براء کے متعلق تو آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی ایپ ’چیٹ جی پی ٹی‘ بھی جانتی ہے، لیکن اس کے جاننے کا اس ایپ یا اس کے بنانے والوں کو کوئی فائدہ نہیں۔ ولاء و براء پر کتابیں لکھنا اور تقریریں کرنا کمال نہیں، عمل درکار ہے۔ آپ نے اسامہ بن لادن کے لیے تو کبھی الولاء والبراء کو معیار نہیں بتایا، آپ کا معیارِ الولاء والبراء جاگا تو اینڈریو ٹیٹ کے لیے؟! (اللہ پاک اینڈریو ٹیٹ کو کامل ہدایت سے نوازیں، آمین)۔
’زباں‘ نے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل؟
دِل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں!
نقیب اللہ محسود، راؤ انوار اور پشتون تحفظ
جنوری ۲۰۲۳ء میں راؤ انوار کو نقیب اللہ محسود کے قتل کیس سے بری کر دیا گیا۔ نقیب اللہ محسود کی راؤ انوار کے ہاتھوں مظلومانہ شہادت کے بعد منظور پشتین کی سرکردگی میں پشتون تحفظ موومنٹ نے جنم لیا۔ یہاں ہم تین نقاط پر بات کرنا چاہیں گے:
نقیب اللہ محسود
نقیب اللہ کو راؤ انوار نے اپنے غنڈوں کے جتھے کے ساتھ اس لیے قتل کیا کہ نقیب اللہ کا تعلق محسود قبیلے سے تھا اور محسود قبیلہ پچھلے بیس سال سے اپنے جہاد کے سبب معروف ہے، جہاد ہی کی پاداش میں پوری محسود قوم آج تک در بدر ہے اور مہاجر کیمپوں میں خوست تا کراچی رہنے پر مجبور ہے۔ راؤ انوار عام پاکستانیوں کے ظالمانہ قتل میں تو مشہور ہے، لیکن اس کی اصل شہرت مجاہدین کو سہراب گوٹھ اور گڈاپ میں جعلی پولیس مقابلوں میں شہید کرنے کی ہے۔ نقیب اللہ محسودکے قتل کی نسبت پاکستانی نظام سے دو طرح سے کی جا سکتی ہے:
اول: ڈاکٹر شازیہ خالد ریپ اور سرفراز شاہ قتل جیسے سیکڑوں عام پاکستانیوں کے ساتھ اس نظام کے ٹھیکے داروں کے رویے سے۔
ثانیاً: نظامِ پاکستان اور اس نظام کے ٹھیکے داروں کی اسلام و جہاد دشمنی کے ساتھ۔
راؤ انوار
راؤ انوار پاکستان کی مقتدر قوتوں (خاص کر اسٹیبلشمنٹ) کا لاڈلا ہے۔ اس طرح کے لاڈلے، پولیس، بیوروکریسی، کسٹمز، عدلیہ، صحافت اور کنسٹرکشن ، الغرض ہر ادارے میں پائے جاتے ہیں۔ یہ لاڈلے چھوٹے عہدوں پر رہ کر بڑوں کے لیے بڑے بڑے کام کرتے ہیں اور ہر قسم کی پوچھ گچھ اور احتساب سے ماورا ہوتے ہیں۔ یوں یہ بڑوں کی خوشنودی بھی حاصل کرتے ہیں اور چھوٹے درجے کے پولیس یا کسی اور محکمے کے افسر ہوتے ہوئے اربوں کی جائیدادیں بھی بناتے ہیں۔ دراصل اس طرح کے کرداروں کے پیچھے ملک کی مقتدر قوتیں پناہ لیتی ہیں یعنی اپنی face saving کرتی ہیں۔ سیکڑوں مجاہدینِ اسلام اور نقیب اللہ محسود جیسے عام شہریوں کے قتل کی ذمہ دار دراصل ریاست ہے اور ریاست میں جاری پتلی تماشے کے پیچھے اصل ہاتھ ملٹری اسٹیبلشمنٹ۔
پشتون تحفظ موومنٹ
پشتون تحفظ تحریک یہ نعرہ لے کر اٹھی ہے کہ ریاستِ پاکستان پشتونوں کے قتل اور ان کو دیگر پاکستانیوں کی طرح مساوی مواقع دینے میں حائل ہے، مثال ہے منظور پشتین کی کچھ ہی عرصہ پہلے کی مختصر ٹویٹ: #PashtunLivesMatter۔ یہ بات درست ہے کہ ماضی و حال میں ریاست کی اسٹیبلشمنٹ بعض قوموں کے خلاف رہی ہے کہ قوموں کے خلاف اس طرح کے خاص رویے کی ٹریننگ ان کو اپنے برِّ صغیر میں اپنے مورثِ اعلیٰ انگریز سے ملی ہے۔ ریاست نے پہلے بنگالیوں کے ساتھ ایک خاص رویہ رکھا اور پھر یہی رویہ بلوچستان میں بھی روا رکھا گیا۔ لیکن راقم کی رائے میں پشتونوں کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں۔ پشتونوں میں سے بعض لوگوں کا نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد یہ رونا کہ ریاست پشتونوں کی مخالف ہے اور پشتونوں کو حقوق نہیں ملتے بالکل اسی طرح ہے جیسے بشریٰ زیدی کے قتل کے بعد ایم کیو ایم کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس بات میں شک نہیں کہ ریاست بہت سوں کو میرٹ کی بنیاد پر حقوق اور مواقع دینے میں مانع ہے، لیکن اردو سپیکنگ کمیونٹی کا یہ معاملہ نہیں۔ راقم کا ننھیالی تعلق ایک مہاجر اردو سپیکنگ خاندان سے ہے اور میں نے ساری زندگی اپنے اردو سپیکنگ رشتہ داروں کے ساتھ گزاری ہے۔ میرے مشاہدے میں اردو سپیکنگ لوگ بعض مخصوص ملازمتوں میں خود سے زیادہ آگے نہیں آتے، مثلاً فوج اور یوں وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں جگہ نہیں پاتے، حالانکہ پاکستان کے بہت سے فور سٹار، تھری سٹار، ٹو سٹار اور ون سٹار جرنیل اردو سپیکنگ رہے ہیں یا ہیں، کئی آرمی چیف اور چیف آف جوائنٹ سٹاف رہ چکے ہیں۔ البتہ پاکستانی سولین بیوروکریسی تو اردو سپیکنگ لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ کراچی جس کی آبادی دنیا کے بیسیوں ملکوں سے زیادہ ہے میں سیاسی لحاظ سے بھی اردو سپیکنگ کمیونٹی سب سے آگے ہے۔ بلکہ میں نے تو اردو سپیکنگ لوگوں (اہلِ دین کی بات نہیں ہو رہی) کو سندھیوں، پٹھانوں اور پنجابیوں کا مخالف اور دشمن پایا ہے۔ یقیناً ریاستِ پاکستان کی پالیسیوں نے اردو سپیکنگ لوگوں کے ان جذبات و تعصبات کو بھی بڑھاوا دیا ہے، لیکن اردو سپیکنگ کمیونٹی کی سب سے بڑی اکائی، مہاجر قومی موومنٹ ثم متحدہ قومی موومنٹ ثم ایم کیو ایم ’پاکستان‘، خود کراچی میں پنجابی، سندھی اور پٹھان لسانی تحریکوں یا تنظیموں کا سبب ہے۔ اردو سپیکنگ کمیونٹی کے بارے میں جملۂ معترضہ لمبا ہو گیا، پشتون تحفظ موومنٹ کی طرف لوٹتے ہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ کا یہ کہنا کہ ریاست بطورِ ریاست (خاص کر پنجابی) پشتونوں کے خلاف ہے، میرے مشاہدے کے مطابق یہ بالکل غلط بات ہے۔ پاکستان کی بیوروکریسی میں پشتون حضرات اپنی آبادی کے تناسب کے مطابق یا شاید تھوڑے کم موجود ہیں۔ یہ بڑے بڑے سرمایہ دار بھی ہیں، کئی بڑی سیاسی پارٹیوں کے سربراہ رہے ہیں یا ابھی بھی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ فوجی اسٹیبلشمنٹ میں نمایاں عہدوں پر رہے ہیں۔ چونکہ ریاست کا اصل انتظام فوجی اسٹیبلشمنٹ ہی کے پاس ہے اس لیے اسی کا کچھ ذکر کرتے ہیں(دیگر اقوام ابھی موضوع نہیں ہیں)۔
سی آئی اے ورلڈ فیکٹ بک کے مطابق پنجابی پاکستان کی کل آبادی کا 44.7 فیصد ہیں، جبکہ پشتون 15.4 فیصد اور پاکستان فوج میں پنجابی 70-75 فیصد اور پشتون15-21 فیصد ہیں1۔ اور پنجابی فوجیوں کی تعداد کو ۲۰۰۷ء میں 57فیصد تک محدود کر دیا گیا ہے2۔
پاکستان فوج میں خدمات پیش کرنے والے پشتون تھری سٹار (لیفٹیننٹ جنرل، کور کمانڈرز یا ڈی جی آئی ایس آئی وغیرہ) اور فور سٹار (چیف آف آرمی سٹاف یا چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی) بے شمار ہیں، نہایت قلیل تحقیق سے جن اعلیٰ پشتون جرنیلوں کے نام معلوم ہو سکے ان میں جنرل رحیم الدین خان، جنرل اختر عبد الرحمن، جنرل فاروق فیروز خان، جنرل جہانگیر کرامت، جنرل احسان الحق خان، جنرل اسد درانی، جنرل محمد اکبر خان، جنرل یوسف خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل گل حسن خان، جنرل فاروق شوکت خان لودھی، جنرل علی قلی خان خٹک، جنرل عبد الوحید کاکڑ، جنرل طارق خان شامل ہیں۔ ان مذکورہ جرنیلوں میں جنرل محمد اکبر خان نے انگریز فوج کی طرف سے ۱۹۳۷ء میں وزیرستان جنگ کی کمان کی ۔ لیفٹیننٹ جنرل طارق خان، آئی جی ایف سی بھی رہا، اس نے ۲۰۰۴ تا ۲۰۰۵ء امریکی سینٹ کام میں پاکستان کی نمائندگی کی جہاں اس کی خدمات کے اعزاز میں اسے Legion of Merit امریکی فوجی اعزاز دیا گیا، ۲۰۰۶ء میں جنوبی وزیرستان میں آپریشن کی کمان کی اور اس کے سر آئی جی ایف ہونے کے زمانے میں ایف سی کو دہشت گردوں کے خلاف وزیرستان اور خیبر پختون خوا میں پیشہ ور فورس بنا نے کا اعزاز بھی ہے، سب سے بڑھ کر طارق خان کا تعلق وزیرستان کی سرحد سے جڑے نیم قبائلی علاقے ٹانک سے ہے۔ علاوہ ازیں وزیرستان، سوات اور باقی خیبر پختون خوا میں ہونے والے قریباً تمام ہی آپریشنز میں ایف سی صفِ اول میں لڑی اور یہ بتانے کی شاید ضرورت نہیں کہ ایف سی میں اکثریت پشتونوں کی ہوتی ہے اور اس کے اکثر (پچانوے فیصد) سربراہان پشتون رہے ہیں۔
اس ساری بات کا بنیادی طور پر ایک مقصد ہے اور وہ یہ کہ ریاستِ پاکستان پشتون قوم کے خلاف نہیں۔ اگر پشتون قوم کے علاقوں میں فوج اور ریاستی ادارے فوجی آپریشن کرتے رہے ہیں اور پشتونوں کا قتلِ عام کرتے رہے ہیں تو اس کا سبب پشتونوں کا دین و جہاد سے لگاؤ ہے۔ ورنہ پشتونوں کو پشتونوں نے ہی وزیرستان و دیگر قبائل و پشتون علاقوں میں قتل کیا ہے۔ پاکستان فوج میں پنجابی اور پشتون فوجی مل کر پشتونوں کے علاقوں میں پشتونوں کو مارتے رہے ہیں اور پنجابیوں کے علاقوں میں پشتون فوج پنجابی فوجیوں کے ساتھ مل کر پنجابیوں کو مارتے رہے ہیں۔ قومی تعصب تو خیر القرون کے زمانے میں بھی اٹھا، لیکن اخوتِ اسلام کے سبب اول اول ہی اس کی بیخ کنی ہو گئی، یہ تعصب تو مختلف جگہوں پر پیدا ہو سکتا ہے، لیکن آج پاکستان میں جاری جس جنگ کے سبب پشتون قتل ہوئے ہیں وہ عقیدے اور نظریے کے سبب قتل ہوئے ہیں، پشتون ہونے کے سبب نہیں۔
٭٭٭٭٭
1 Pakistan Military-Ethnic balance in the Armed Forces and problems of Federalism by Ayesha Siddiqa, p. 14
2 “Punjab’s dominance in army being reduced”, Dawn, 14 September 2007, https://www.dawn.com/news/266159/punjab-dominance-in-army-being-reduced-ispr