رِدّۃٌ ولا أبا بکر لھا!
(یلغارِ ارتداد، لیکن مقابلے کے لیے ابو بکر ؓنہیں!)
اس تحریر کا متن ہم نے www.abulhasanalinadwi.org پر شائع شدہ مضمون بعنوان : ” ذہنی اور اعتقادی ارتداد…… ایک اہم مسئلہ-فوری توجہ کا حامل“۔ سلسلہ ۵۰۹۔ از حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی مد ظلہ سے لیا ہے۔ لیکن اس کی اصل مصر سے شائع ہونے والے مجلے ”المسلمون“ میں عربی زبان میں لکھا جانے والا افتتاحیہ کا مقالہ ہے جس کا عنوان عربی میں ردة ولا أبا بكر لها تھا۔ ہم نے اصل مضمون کے عنوان کو اختیار کیا ہے جس کا تذکرہ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے خود مضمون میں کیا ہے۔ عربی زبان میں یہ مقالہ کتابچے کی صورت میں بھی شائع ہوا: ردة ولا أبا بكر لها، بقلم أبو الحسن علي الحسني الندوي، الناشر: المكتبة المكية، حي الهجرة، مكة المكرمة. ومكتبة السداوي للنشر والتوزيع القاهرة. الطبعة الثانية: 1413ه – 1992م.ڈھونڈنے کے باوجود یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انہوں نے یہ مقالہ کس سنہ میں تحریر کیا۔ لیکن یقیناً ۱۹۹۲ء سے قبل ہی تھا جیسا کہ عربی کتابچے سے ظاہر ہے۔(المرابط)
نیز ہمارا بھی اضافی نوٹ، تحریر کے بالکل آخر میں درج کر دیا گیا ہے۔ (مدیر)
نیا ارتداد
اسلام کی تاریخ میں ارتداد کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں۔ سب سے بڑا اور سخت سانحۂ ارتداد عرب قبائل کا ارتداد تھا جو رسول اکرمﷺ کی وفات کے معاً بعد پیش آیا۔ یعنی وہ زبردست باغی تحریک جس کو ابو بکر صدیق نے اپنے بے نظیر عزم و ایمان سے سر اٹھاتے ہی کچل دیا تھا۔ دوسرا بڑا ارتدادی واقعہ نصرانیت اختیار کر لینے کی وباتھی جو ہسپانیہ سے مسلمانوں کے اخراج کے بعد پھیلی اور بعض ان دوسرے ملکوں میں بھی رونما ہوئی جو مسیحی مغربی طاقتوں کے زیر نگیں تھےاور عیسائی پادری اور مشنری وہاں اس مقصد کے لیے سر گرم عمل تھے۔ ان معتد بہ واقعات کے علاوہ اِکا دکا واقعات بھی ہیں کہ مثلاً ہندوستان میں کسی خفیف العقل اور پست طبیعت فرد نے اسلام کو چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کر لیا۔ لیکن ایسے واقعات شاذ و نادر ہی ہوئے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہےکہ اگر بد نصیب ہسپانیہ کے فتنۂ نصرانیت کو ارتداد کہنا صحیح ہے تواس کو مستثنیٰ کر کے کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ کسی عام ارتداد سے آشنا نہیں ہوئی ہے۔ جیسا کہ مؤرخین مذاہب کا اعتراف ہے۔
یہ واقعات جب کبھی پیش آئے ان پر ہمیشہ دو اثرات مرتب ہوئے:
- مسلمانوں کی طرف سے سخت ناراضگی اور نا پسندیدگی۔
- اسلامی سوسائٹی سے قطع تعلق ۔
یعنی جو کوئی اپنے دین سے منحرف ہوتا تھا وہ مسلمانوں کے سخت غیض و غضب کا نشانہ بنتا تھااور اس اسلامی معاشرے سے خود بخود منقطع ہو جاتا تھا جس میں اس کی بود و باش ہوتی۔ مجرد ارتداد سے اس کے اور اس کے اہل قرابت کے درمیان تمام رشتے اور تعلقات کٹ جاتے تھے اور ارتداد کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ آدمی گویاایک دوسرے معاشرے اور ایک دوسری دنیا میں منتقل ہو گیا۔ مرتد کا خاندان اس کا بالکلیہ بائیکاٹ کر دیتا تھا۔ اب نہ رشتہ رہتا تھا، نہ نکاح، نہ اخوت، نہ وراثت۔ ارتداد کی اگر کوئی لہر کبھی اٹھتی تھی تو اس سے بین الادیانی کشمکش برپا ہوتی اور مسلمانوں میں مقاومت اور اسلام کے دفاع کی روح بیدار ہو جاتی تھی۔ جس اسلامی ملک میں ایسے واقعات پیش آ جاتے تھے وہاں کے علماء، داعیان اسلام اور اہل قلم پر جوش طریقے سے ان کے خلاف صف آرا ہو جاتے، ان کے اسباب کا کھوج لگاتے اور اسلام کے محاسن و فضائل کو سامنے لاتے تھے۔ اس مسلمان معاشرے کا یہ حال ہو جاتا جیسے قلق و اضطراب اور غیظ و غضب کی ایک موج آ کر سب کو تہ و بالا کر گئی ہو۔ یہ حوادث مسلمانوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیتے اور کیا خواص کیا عوام سب کے لیے ایک ہی بات اور ایک ہی فکر ہوتی تھی؛ یہ ہوتا تھا اسلامی سوسائٹی پر واقعات ارتداد کا رد عمل اور ان کی لازمی خصوصیت! حالانکہ نہ یہ کسی بڑے پیمانے پر پیش آتے تھے اور نہ زندگی پر ان کے کچھ اثرات ہی پڑتے۔
لیکن اب کچھ عرصے سے دنیائے اسلام کو ایک ایسے ارتداد سے سابقہ پیش آیا ہے جس نے اس کے اس سرے سے اُس سرے تک ایک لہر پیدا کر دی ہے۔ یہ اپنی شد ت و قوت اور وسعت و عمق میں اب تک کی تمام ارتدادی تحریکوں سے بازی لے گیا ہے۔ کوئی ملک نہیں ہے جو اس کی غارت سے بچا ہو ۔ بلکہ ملک تو ملک خاندانوں میں ایسے مشکل ہی سے تھوڑے بہت ہوں گے جو اس کی دست برد سے محفوظ ہوں۔ یہ وہ ارتداد ہے جو شرقِ اسلامی پر یورپ کی سیاسی اور تہذیبی تاخت کے پیچھے پیچھے آیا ہے۔ یہ سب سے عظیم ارتداد ہے جو عہد رسالت سے لے کر آج تک کی اسلامی تاریخ میں رونما ہوا ہے۔
شریعت اسلامی کی اصطلاح میں ”ارتداد“ کے کیا معنی ہیں؟ ایک دین کی جگہ پر دوسرا دین اور ایک عقیدے کے بجائے دوسرا عقیدہ اختیار کرنا! رسول ؐجو تعلیمات لے کر آیا، جو کچھ اس سے تواتر منقول ہے اور جو کچھ اسلام میں قطعی طور پر ثابت ہے اس سے انکار کرنا! اور ایک مرتد کیا رویہ اختیار کرتا تھا……؟ رسالت محمدی (علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) کا انکار کرتا تھا اور مسیحیت ، یہودیت، یا ہندو مذہب کی طرف منتقل ہو جاتا تھا۔ یا الحاد کی راہ اختیار کرتا اور وحی و رسالت اور آخرت سے منکر ہوتا تھا۔ یہ ارتداد کے وہ معنی ہیں جن سے پرانی دنیا یا پرانی سوسائٹی واقف تھی۔ ہر وہ شخص جو اپنا دین چھوڑتا تھا، اگر مثال کے طور پر نصرانی بن جاتا تو کلیسا میں داخل ہوتا یا ہیکل میں جاتا، یا اگر ہندو مذہب اختیار کرتا تو بت خانے کی راہ لیتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ یہ ارتداد سب پر روشن ہو جاتا تھا اور مرتد دور سے پہچان لیا جاتا تھا۔ اس کی طرف انگلیاں اٹھتی تھیں اور مسلمان اس شخص سے تمام امیدیں منقطع کر لیتے تھے۔ الحاصل عام طور پر کسی کا ارتداد کوئی راز نہیں ہوا کرتا تھا۔
یورپ کا لایا ہوا فلسفہ
یورپ نے مشرق میں وہ فلسفے پہنچائے جو دین کی بنیادوں کے انکار پر مبنی تھے۔ جن کی بنیاد اس عالم میں کار فرما (متصرف) قوت کے انکار پر تھی۔ وہ باشعور قوت جو اس دنیا کو عدم سے وجود میں لائی اور جس کے دست تصرف میں کائنات کی زمام کار ہے؛ أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ، ’’ خبردار! اسی نے تخلیق کی اور اسی کا حکم چلتا ہے‘‘۔
وہ فلسفے جو عالم غیب، وحی، نبوت، شرائع سماویہ اور روحانی و اخلاقی قدروں کے انکار پر مبنی تھے۔ یہ تھی مغرب کے لائے ہوئے تمام فلسفوں کی مشترک بنیاد جن میں کوئی علم النفس تھا، اور کسی کا موضوع بحث سیاست و اقتصاد ۔ یہ فلسفے اپنے موضوعات والوں میں خواہ باہم کتنے ہی مختلف تھے تاہم اس نقطے پر سب ملتے تھے کہ انسان و کائنات کو محض مادی نظر سے دیکھیں اور ان دونوں کےظاہری احوال و افعال کی مادی توجیہ کریں۔ یہ فلسفے مشرقی اسلامی معاشرے پر حملہ آور ہوئے اور اس کے باطن تک گھس گئے۔ یہ فلسفے سب سے بڑا دین تھے جو تاریخ اسلام کے بعد پیدا ہوئے۔ سب سے بڑا دین اپنی وسعت اشاعت کے لحاظ سے۔ سب سے گہرا دین اپنی جڑوں کے لحاظ سے۔ اور سب سے طاقتور دین دلوں اور دماغوں کو مسخر کرنے کے لحاظ سے۔ اسلامی ملکوں کا وہ طبقہ جو علم و فہم کے لحاظ سے ممتاز تھا اس دین پر فریفتہ ہو گیا۔ اس نے اسے نہایت خوشگواری کے ساتھ حلق سے اتارا اور اطمینان کے ساتھ ہضم کر لیا۔ وہ اس دین کا ٹھیک اسی طرح پیرو بن گیا جس طرح ایک مسلمان اسلام کا اور ایک مسیحی مسیحیت کا۔ حتی کہ وہ اس پر جان دیتا ہے۔ اس کے شعائر کی عزت کرتا ہے۔ اس کے رہنماؤں اور داعیوں کی عظمت کا کلمہ پڑھتا ہے۔ اپنے ادب اور تالیفات میں اس دین کی دعوت دیتا ہے اور جو دین، جو نظام اور جو طرز فکر اس کے معارض ہوتا ہے اس کی تحقیر کرتا ہے۔ اسی دین کے ہر پیرو سے وہ اخوت کا رشتہ استوار کرتا ہے اور اس طرح یہ تمام افراد ایک امت ایک خاندان اور ایک گروہ بن گئے ہیں۔
دین لا دینیت
یہ نیا دین (اگرچہ اس کے پيرو اس کو ”دین“ کا نام دینے سے انکار کرتے ہوں) کیا ہے؟ کائنات کو وجود میں لانے والی اس علیم و خبیر ہستی کا انکار جو مالک تقدیر بھی ہے اور رہنمائے حیات بھی (الَّذِی قَدَّرَ فَھَدَی) حیات بعد الموت، حشر، جنت و دوزخ، ثواب و عذاب کا انکار، نبوت و رسالت کا انکار، شرائع سماویہ اور حدود شرعیہ کا انکار اور اس حقیقت کا انکار کہ اللہ تعالی نے اپنی تمام مخلوق پر اپنے برگزیدہ رسول (خاتم الرسلؐ) کی اطاعت فرض کی ہے۔ اور ہدایت و سعادت کو اس کی پیروی میں منحصر کر دیا ہے۔ اور اس بات کا انکار کہ اسلام وہ آخری اور دائمی پیغام ہے جو دین و دنیا کی تمام سعادتوں کاکفیل ہے اور زندگی کا ایک نظام ہے جو سب سے اعلی اور افضل ہے اور وہی وہ دین ہے جس کے علاوہ کوئی دین اللہ کے یہاں مقبول نہیں۔ اور جس کے بغیر دنیا کی فلاح و سعادت کا کوئی امکان نہیں۔ اور اس کا انکار کہ دنیا انسان کے لیے پیدا کی گئی ہے اور انسان اللہ کے لیے۔
آج جس طبقے کے ہاتھ میں اکثر ممالک اسلامیہ کی زمام حیات ہے، اس کے افراد کی ایک بڑی تعداد اسی دین کی پیرو ہے۔ اگرچہ یہ سب پختگیٔ ایمان اور سرگرمئ عمل میں ایک درجے کے نہ ہوں۔ بحمد اللہ اس طبقے میں خاصی تعداد میں ایسے افراد بھی ہیں جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اسلام کی پیروی کرتے ہیں۔ مگر اس طبقے کا وہ وصف جو افسوس ہے کہ اس پر غالب ہو گیا ہے اور اس کے بہت مقتدر افراد کا دین یہی مادہ پرستی اور زندگی کا مغربی فلسفہ ہے جو الحاد پر مبنی ہے۔
میں پھر یہ کہتا ہوں کہ یہ وہ ارتداد ہے جس نے عالم اسلامی کو اس سرے سے اس سرے تک تاراج کیا ہے۔ گھر گھر اور خاندان خاندان پر اس کا حملہ ہوا ہے۔ یونیورسٹیوں، کالجوں اور اداروں سب پر اس کی یورش ہوئی ہے۔ مشکل ہی سے کوئی ایسا خوش قسمت خاندان ہو گا، جس میں اس دین کا کوئی پیروکار، پرستار اور عقیدت گزار نہ ہو۔ آپ جب ذرا اس سے تنہائی میں باتیں کریں گے، کچھ چھیڑیں گے اور اندر کی بات اگلوائیں گے تو دیکھیں گے کہ وہ ایمان باللہ سے محروم ہو گا یا ایمان بالآخرۃ سے خالی ہو گا۔ یا رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہ رکھتا ہو گا۔ یا قرآن کو ایک معجزہ و ابدی کتاب اور دستور حیات نہ مانتا ہو گا۔ اور ان میں سب سے غنیمت وہ ہو گا جو کہے گا کہ میں اس قسم کے مسائل پر غور نہیں کرتا اور ان کو کوئی بڑی اہمیت نہیں دیتا۔
ایک لا وارث مسئلہ
بلا شبہ یہ ارتداد ہے ۔ لیکن وہ مسلمانوں کی توجہ اپنی طرف مبذول نہیں کر سکا۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس ارتداد کا مارا ہوا کلیسا یا ہیکل میں نہیں جاتا۔ اور نہ اپنے ارتداد اور تبدیلیٔ مذہب کا اعلان کرتا ہے۔ نہ معاشرہ اس پر چونکتا ہے کہ احتساب و عتاب کی صورت پیش آئے اور فصل و انقطاع کا معاملہ در پیش ہو۔ پس وہ بدستور اسی سوسائٹی اور معاشرے میں رہتا ہے۔ اپنے تمام حقوق حاصل کرتا ہے بلکہ معاشرے پر حاوی ہونے تک کا موقع اس کو مل جاتا ہے۔ یہ عالم اسلامی کا نہایت اہم مسئلہ اور بڑا قابل فکر معاملہ ہے۔ ارتداد پھیلتا ہے، اسلامی معاشرے پر حملہ آور ہوتا ہے اور کوئی اس پر چونکتا تک نہیں۔ علمائے امت اور رجال دین اس سے کوئی پریشانی اور بے چینی محسوس نہیں کرتے۔ پہلے جب کوئی پیچیدہ مسئلہ پیش آتا تھا تو لوگ اس کو حل کرنے کے لیے حضرت علی کو یاد کیا کرتے تھے۔ ایسے موقع پر ضرب المثل تھی:
’’قضیۃ ولا أبا حسن لھا.‘‘
’’ایک پیچیدہ فقہی مسئلہ در پیش ہے لیکن کوئی نہیں جو اس کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ذہانت کے ساتھ حل کرے۔‘‘
اس ارتداد کے موقع پر بے ساختہ حضرت ابو بکر کی شان عزیمت یاد آتی ہے اور کہنا پڑتا ہے:
’’قضیۃ ولا أبا بکر لھا!‘‘
’’ ارتداد کی آگ پھیل رہی ہے لیکن کوئی نہیں جو ابو بکر صدیق کی قوت ایمانی اور شان عزیمت کے ساتھ اس پر قابو پائے!‘‘
لیکن یاد رکھیے اس مسئلے کا علاج جنگ نہیں اور نہ اس پر رائے عامہ کو بھڑکانا درست ہے۔ یہ برا فروختگی اور سختی سے حل نہیں ہو سکتا۔ بلکہ سختی الٹا نقصان پہنچائے گی اور فتنے کو اور بھڑکا دے گی۔ اسلام خفیہ تحقیقاتی عدالتوں(inquisition) سے آشنا نہیں ہے اور نہ وہ جبر و ظلم کا روادار ہے۔ یہ معاملہ عزم و حکمت اور صبر و تحمل چاہتا ہے اور اس سے نپٹنے کے لیے غور و فکر اور گہرے مطالعے کی ضرورت ہے۔
لا دینیت کی عالمگیر اشاعات کا راز
یہ نیا دین اسلامی دنیا میں کیوں کر پھیل سکا؟ کیسے اسے یہ طاقت حاصل ہوسکی کہ مسلمانوں پر عین ان کے گھر کے اندر حملہ آور ہوسکے؟ اور کیوں کر اس کے لیے ممکن ہوا کہ لوگوں کی عقلوں اور طبیعتوں پر اس قدر قوت کے ساتھ مستولی ہوجائے؟ یہ سب سوالات ہیں جو بڑی گہری اور دقیق فکر اور بڑے وسیع مطالعہ کو چاہتے ہیں۔
قصہ یوں ہوا ہے کہ انیسویں صدی عیسوی میں دنیائے اسلام پر تھکاوٹ اور بڑھاپے کے آثار طاری ہونے لگے۔ دعوت و عقیدہ اور علم و عقلیت کے لحاظ سے وہ شدید ضعف و انحطاط کی کیفیت میں مبتلا ہوگئی۔ اسلام تو بے شک بڑھاپے کی منزل سے آشنا نہیں ہے۔ اس کی مثال سورج کی سی ہے کہ قدیم ہونے کے باوجود ہر وقت جدید اور ہر دم جوان۔ لیکن وہ مسلمان تھے جو ضعف و پیری کا شکار ہوگئے۔ علم میں وسعت، فکر میں ندرت، عقلی عبقریت، دعوت کے جوش و و لولے اور اسلام کو مؤثر طریقے پر پیش کرنے کے سلیقے میں بڑا خلا محسوس ہوتا تھا۔
مزید برآں یہ ہوا کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں سے ربط نہیں رکھا گیا اور نہ ان کے ذہن کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی حالانکہ آنے والا دور انہی کا تھا۔ اس نوخیز نسل کو اس بات کا قائل کرنے کی بہت کم کوشش کی گئی کہ اسلام ایک سدا بہار پیغام اور دینِ انسانیت ہے۔ قرآن ہی تنہا وہ معجزہ اور ابدی کتاب ہے جس کے عجائبات کی انتہا نہیں ۔ جس کے ذخائر فکریہ کا اختتام نہیں اور جس میں جدت اور کہنگی کا گزر نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات سے ایک زبردست معجزہ ،تمام نسلوں کے رسول اور تمام زمانوں کے امام ہیں۔ اسلامی شریعت، قانون سازی کا ایک معیاری نمونہ ہے۔ اس میں زندگی کے ساتھ چلنے اور اس کے صحیح مطالبات کا جواب دینے کی صلاحیت ہے۔ ایمان و عقیدہ اور اخلاق و روحانی اقدار ہی وہ بنیادیں ہیں جن پر ایک شریف سوسائٹی اور پاکیزہ تمدن کی عمارت کھڑی کی جاسکتی ہے۔ نئی تہذیب کے پاس صرف ذرائع و وسائل ہیں۔ اخلاق و عقائد اور غایات و مقاصد کا سرچشمہ صرف انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات ہیں اور ایک متوازن اور صالح تمدن کا قیام صرف اسی طرح ہوسکتا ہے کہ مقاصد و وسائل صحیح تناسب کے ساتھ جمع ہوں۔
یہ صورت حال اور یہ وقت تھا جب یورپ اپنے فلسفوں کا لشکر لے کر اسلامی دنیا پر حملہ آور ہوا۔ وہ فلسفے جن کی تدوین اور تراش خراش بڑے بڑے فلاسفہ اور یگانہ روزگار شخصیتوں کی ذہنی کاوشوں کا ثمرہ تھی جنہوں نے ان پر ایسا علمی اور فلسفیانہ رنگ چڑھایا تھا کہ معلوم ہو یہ فکرِ انسانی کی معراج ہے، مطالعہ و تحقیق اور عقل انسانی کی پرواز اس پر ختم ہے اور غور و فکر کا یہ وہ نچوڑ ہے جس کے بعد کچھ اور سوچا نہیں جاسکتا۔ حالانکہ ان فلسفوں میں کچھ چیزیں وہ تھیں جو محض ظن و تخمین اور مفروضات و تخیلات پر مبنی تھیں۔ گویا ان میں حق بھی تھا اور باطل بھی، علم بھی تھا اور جہل بھی، محکم حقائق بھی تھے اور شاعرانہ تخیلات بھی…… شاعری، یہ نہ سمجھیے کہ نظم و قافیہ بندی ہی میں منحصر ہے، یہ فلسفہ و علم کے میدان میں بھی ہوتی ہے۔
یہ فلسفے مغربی فاتحین کے جلو میں آئے اور مشرقی عقل و طبیعت نے فاتحین کے ساتھ ساتھ ان کی اطاعت بھی قبول کرلی۔ مشرق کے تعلیم یافتہ طبقے نے بڑھ کر ان کو قبول کرلیا۔ ان لوگوں میں وہ بھی تھے جنہوں نے سمجھ کر قبول کرلیا تھا۔ مگر وہ کم تھے۔زیادہ تر وہ تھے جو ذرا بھی نہیں سمجھتے لیکن اس پر ایمان بالغیب رکھتے تھے۔ یہ سب ایک سرے سے مسحور تھے۔ ان فلسفوں پر ایمان لانا ہی عقل و خرد کا معیار بن گیا اور اس کو روشن خیالوں کا شعار سمجھا جانے لگا۔
اس طرح یہ الحاد و ارتداد اسلامی ماحول اور اسلامی دائروں میں بغیر کسی شورش اور کشمکش کے پھیل گیا۔ نہ باپ اس انقلاب پر چونکے، نہ اساتذہ اور مربیوں کو خبر ہوئی اور نہ غیرت ایمانی رکھنے والوں کو کوئی جنبش ہوئی۔ اس لیے کہ یہ ایک خاموش انقلاب ہے، اس الحاد و ارتداد کو اختیار کرنے والے کسی کلیسا میں جا کر کھڑے نہیں ہوئے، نہ کسی معبد میں داخل ہوئے، نہ کسی بت کے آگے انہوں نے ڈنڈوٹ کی اور نہ کسی استھان پر جاکر قربانی پیش کی، اگلے دور میں یہی سب علامات تھیں جن سے کفر و ارتداد اور زندقہ کا علم ہوتا تھا۔
نفاق و الحاد
اگلے مرتدین اس سوسائٹی سے منسلک ہوجایا کرتے تھے جس کا دین وہ قبول کرتے تھے اور اپنے عقیدے کی تبدیلی کا صراحت اور جرأت کے ساتھ اعلان کردیتے تھے۔ پھر جو کچھ نئے مذہب کی راہ میں انہیں برداشت کرنا پڑتا تھا برداشت کرتے تھے۔ انہیں اس پر اصرار نہیں ہوتا تھا کہ پرانی سوسائٹی میں جو حقوق اور منافع انہیں حاصل تھے ان کو محفوظ رکھنے کے لیے اس سوسائٹی سے چپکے رہیں۔ لیکن آج جو لوگ دین اسلام سے اپنا تعلق منقطع کرتے ہیں وہ اس پر تیار نہیں ہوتے کہ اسلامی سوسائٹی سے بھی اپنا رشتہ کاٹ لیں۔ حالانکہ دنیا بھر میں اسلامی معاشرہ ہی تنہا وہ معاشرہ ہے جس کی تاسیس و ترکیب عقیدے کی بنیاد پر ہے۔ اور مخصوص عقائد کے بغیر اسلامی معاشرہ وجود ہی میں نہیں آتا۔ لیکن یہ نئے مرتدین اصرار کرتے ہیں کہ اس معاشرے کے نام پر فوائد حاصل کرتے ہوئے اپنی جگہوں پر جمے رہیں اور اسلام کے بخشے ہوئے تمام حقوق سے متمتع ہوتے رہیں۔ یہ ایک نرالی صورت حال ہے جس سے اسلام کی تاریخ کو کبھی سابقہ نہیں پڑا تھا۔
جاہلی عصبیت اور ’’مذہبِ قوم پرستی‘‘
ان فلسفوں نے جہاں ایک طرف عقائد اور اخلاقی قدروں کو مجروح کیا ہے وہاں ان جاہلی جذبات و احساسات کی تخم ریزی بھی دنیائے اسلام میں کی ہے جن سے اسلام نے کھل کر جنگ کی تھی اور جن پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری قوت سے چوٹ لگائی تھی۔ مثال کے طور پر عصبیت جاہلیہ کو لیجیے جو نسل وطن یا قومیت کی بنیاد پر پیدا ہوتی ہے۔ پھر اس کی اس قدر تقدیس کی جاتی ہے، اس طرح اس پر جان دی جاتی ہے اور انسانی برادری کو اس کی بنیادوں پر تقسیم کرنے میں اتنا غلو پیدا ہوجاتا ہے کہ یہ (عصبیت) ایک مستقل عقیدہ اور ایک مستقل دین بن جاتی ہے۔ دل و دماغ پر اس طرح اس کا قبضہ ہوجاتا ہے کہ ساری زندگی کی باگ ڈور اسی کے ہاتھ میں آجاتی ہے۔ یہ اپنی ہمہ گیری، اپنی طاقت اور اپنے اثرات کی گہرائی اور مضبوطی کے لحاظ سے بلاشبہ دین و مذہب کی حریف ہے اور اس کی گرفت انسان کی پوری زندگی پر ہوتی ہے۔ یہ جب کسی معاشرے پر چھا جاتی ہے تو انبیاء علیہم السلام کی کوششوں اور کارناموں پر پانی پھر جاتا ہے اور دین عبادات اور چند رسوم ورواج کے دائرے میں محدود ہوکر رہ جاتا ہے جو پوری زندگی پر فرمانروائی کے لیے آیا تھا۔ پھر اس کے نتیجے میں عالم انسانیت چند متحارب کیمپوں میں تقسیم ہوجاتا ہے اور وہ ’’امت واحدہ‘‘ جس کے متعلق پروردگار عالم کا ارشاد ہوا تھا: وَإِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ(سورۃالمومنون: ۵۲)، ’’اور یہ ہے تمہارا طریقہ کہ وہ ایک ہی طریقہ ہے اور میں تمہارا رب ہوں سو تم مجھ سے ڈرتے رہو‘‘،پارہ پارہ ہوکر بے شمار امتوں میں بٹ جاتی ہے۔
اسلام اس عصبیت سے کیوں برسر جنگ ہے؟
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عصبیت جاہلیہ کے خلاف پوری شدت سے جنگ کی تھی ۔ اس کے بارے میں اپنی امت کو صاف الفاظ میں آگاہی دی تھی اور ہر اس بنیاد پر تیشہ چلایا تھا جس سے یہ ابھر سکتی ہے اور اس باب میں یہ رویہ ضروری بھی تھا۔ اس لیے کہ ان عصبیتوں کے ساتھ ایک عالمی دین کے قیام کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اور امت واحدہ کی وحدت چار دن بھی سلامت نہیں رہ سکتی تھی۔ اس عصبیت کی مذمت اور اس کی تردید شریعت اسلامیہ میں ایک مسلم حقیقت ہے۔ بے شمار نصوص ہیں جو اس بات کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ اسلام کا اس عصبیت سے بُعد ایک بدیہی چیز ہے۔ جو شخص اسلام کے مزاج ہی سے بلکہ مطلق دینی مزاج ہی سے واقف ہوگا اس پر یہ بات مخفی نہیں رہ سکتی کہ یہ مزاج ان عصبیتوں کے ساتھ جوڑ نہیں کھاتا۔ سیاسی رجحانات و خیالات سے خالی الذہن ہو کر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ بین الانسانی تفریق اور عالم انسانیت کی تباہی و تخریب میں جو عوامل کارفرما رہے ہیں ان میں ان جاہلی عصبیتوں کا درجہ بہت اونچا ہے، پس قدرتی بات ہے کہ:
- جو انسان اس لیے آیا ہو کہ پوری دنیا کو ایک اکائی بنائے۔
- جو اس لیے آیا ہو کہ تمام نوع انسانی کو ایک جھنڈے کے نیچے اور ایک عقیدے پر جمع کرے۔
- جو اس لیے آیا ہو کہ ایک نیا معاشرہ وجود میں لائے، جو دین ایمان برب العالمین کی بنیادوں پر استوار ہو۔
- جو اس لیے آیا ہو کہ خارزار عالم میں امن و سلام کے پھولوں کی سیج بچھائے۔
- جو اس لیے آیا ہو کہ انسانیت کے پورے خاندان کو محبت و الفت کی ایک لڑی میں پروئے۔
- جو اس لیے آیا ہو کہ انہیں باہم شیر و شکر کرکے اس طرح یکجان بنادے کہ ایک کو دکھ ہو تو دوسرا بھی تڑپے۔
اس مشن کے حامل انسان کے لیے تو بالکل قدرتی اور عقلی بات ہے کہ وہ ان نسلی، قومی عصبیتوں کے خلاف کھلا اعلان جنگ کرے اور اس انتہائی حد تک ان کے خلاف لڑے کہ یہ قصہ ماضی بن کر رہ جائیں۔
ممالک اسلامیہ میں ’’قوم پرستی‘‘ کی مقبولیت
لیکن یورپ کے سیاسی اور ثقافتی غلبہ کے بعد سے دنیائے اسلام کا، جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے وجود میں آئی، حال یہ ہے کہ وہ انہی عصبیتوں کو اپنے دل و دماغ میں جگہ دے رہی ہے اور اس طرح انہیں مانے جارہی ہے جیسے کوئی علمی نظریہ اور کوئی حقیقتِ ثابتہ ہو جس سے مفر نہ ہو ۔ آج اس دنیائے اسلام کا حال یہ ہے کہ اس میں بسنے والی تمام قومیں حیرت انگیز حد تک ان عصبیتوں کو زندہ کرنے اور ان کے گن گانے کی طرف راغب ہیں جن کو اسلام ہی نے موت کی آغوش میں سلا دیا تھا۔ حتی کہ ان قومی و جاہلی شعائر کے احیا کا جذبہ بھی آج موجزن ہے جو کھلی ہوئی بت پرستی کا مظہر ہیں۔ان ملکوں میں اس عہد قبل اسلام کو سرمایۂ افتخار گردانا جارہا ہے جسے اسلام ’’جاہلیت‘‘ اور صرف جاہلیت کا نام دیتا ہے اور یہ وہ لفظ ہے جس سے زیادہ وحشت اور تنفر انگیز کوئی دوسرا لفظ اسلام کی لغت میں موجود نہیں ہے ، جس سے نجات پانے کو، قرآن مسلمانوں پر احسان ٹھہراتا ہے اور تلقین کرتا ہے کہ مسلمان اس نعمت کا شکریہ ادا کریں۔
وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَاۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (سورۃ آل عمران: ۱۰۳)
’’اور یاد کرو احسان اللہ کا اپنے اوپر جب کہ تم تھے آپس میں دشمن پس الفت ڈالی اس نے تمہارے دلوں میں سو اب ہوگئے تم اس کے فضل سے بھائی بھائی اور تم تھے کنارے پر ایک آگ کے گڑھے کے تو اس سے تم کو نجات دی۔‘ ‘
بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِيمَانِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ (سورۃ الحجرات: ۱۷)
’’بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے راہ دی تم کو ایمان کی اگر سچ کہو۔‘‘
هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لِّيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَإِنَّ اللَّهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ(سورۃ الحدید: ۹)
’’وہی ہے جو اتارتا ہے اپنے بندے پر صاف آیتیں تاکہ نکال لائے تم کو اندھیروں سے اجالے میں اور اللہ تم پر نرمی کرنے والا مہربان ہے۔‘‘
ممالک اسلامیہ میں دور ’’جاہلیت‘‘ کا اعزاز
لیکن بہت سے اسلامی ملکوں اور مسلمان قوموں کا حال اس وقت یہ ہے کہ وہ صرف مغربی فلسفوں اور اہل مغرب کی طرزِ فکر سے مرعوبیت کے ماتحت اپنے قبل اسلام کے عہد اور اس عہد کی تہذیب و رسوم کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں ۔ ان میں اس عہد سے دلی لگاؤ سا پیدا ہوتا جارہا ہے۔ ان میں خواہش پیدا ہورہی ہے کہ اس عہد کے شعائر کو زندہ کریں اور اس کے مشاہیر، بادشاہوں اور ناموروں کو تاریخ کی زندۂ جاوید ہستیوں میں جگہ دلادیں گویا یہ ان کا زریں دور تھا اور کوئی نعمت تھی جو اسلام نے ان سے چھین لی۔ العیاذ باللہ! یہ کیسی کھلی ناشکری اور اسلام اور پیغمبر اسلام کی کیسی ناقدری ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کفر و بت پرستی کی شناخت دلوں سے نکل گئی ہے اور جاہلی خرافات سے کوئی نفرت باقی نہیں رہی۔ اور یہ وہ باتیں ہیں کہ ایک باشعور مسلمان کے متعلق ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ان پر تو ایمان اگر سلب ہوجائے، اسلام کی دولت سے محروم کردیا جائے اور اللہ کی رحمت کے بجائے اس کا عتاب سامنے آجائے تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ قرآن نے آگاہ کیا ہے:
﴿ وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ﴾ (سورۃ : ہود ۱۱۳)
’’اور مت میلان رکھو ان لوگوں کی طرف جنہوں نے ظلم (شرک) کیا ورنہ کہیں تم کو بھی آگ نہ پکڑ لے اور نہ نکلے اللہ کے علاوہ تمہارا کوئی مددگار، پھر نہ ہوسکے تمہاری کوئی مدد ۔‘‘
دینی و اخلاقی انتشار
ان قوم پرستانہ رجحانات کے علاوہ ایک اور فتنہ بھی ہے جس سے آج کا عالم ِاسلام دوچار ہے اور وہ ہے اونچے طبقوں میں آنکھیں بند کرکے مادیات کے پیچھے دوڑنے کا رجحان کہ ہر عقیدہ اور ہر قدر اس پر قربان، دوسرے الفاظ میں دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے کا رجحان، دنیاوی زندگی پر فریفتگی اور نفس پرستی کا رجحان اور پھر اس کے نتیجے میں جو کچھ ہوا کرتا ہے، یعنی اخلاقی بے راہ روی، محرمات الٰہیہ کا استخفاف، فسق و شراب کا شیوہ و علوم اور اسلامی فرائض و قیود سے اس طرح کلی آزادی جیسے اس طبقہ کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں یا اسلامی شریعت منسوخ ہوچکی ہے اور وہ کوئی داستان پارینہ اور قصہ و افسانہ ہے۔ دنیائے اسلام کے تمام ملکوں کے اونچے طبقے کے افراد میں بہت بڑی تعداد آپ کو اسی رنگ اور اسی مسلک کی ملے گی۔ گویا ایک ہی تصویر ہے جس کی مختلف کاپیاں کردی گئی ہیں۔فاعتبروا یا اولی الابصار!
عالم اسلام کے لیے سب سے بڑا خطرہ
یہ ہے اجمال کے پیرائے میں آج کے عالم اسلام کی دینی اور اعتقادی تصویر! اس تصویر میں جو کچھ نظر آتا ہے میرے نزدیک یہ جاہلیت کی ایک موج ہے جو اسلام کا سارا سرمایہ بہائے لیے جارہی ہے۔ دنیائے اسلام کو اپنی پوری تاریخ میں اس سے زیادہ سرکش موج سے سابقہ نہیں ہے نہ اس جیسی طاقت ور مخالف موج کا سامنا عالم اسلامی کو کبھی ہوا ہے اور نہ اس جیسی ہمہ گیر موج کا، اور پھر اس کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس کی ہلاکت خیزیوں پر چونکنے والے کم اور وہ تو کم سے بھی کم تر ہیں جو سب کچھ چھوڑ چھاڑ اور اپنی ساری قوتوں کا سرمایہ لے کر اس کے مقابلے پر ڈٹ گئے ہوں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی میں یونانی فلسفے کے اثر سے جونہی الحاد و زندقہ پھیلنا شروع ہوا، فوراً ایسی ہستیاں سامنے آکھڑی ہوئیں جنہوں نے اپنے علمی تبحّر، عظیم عقلیت، نادرہ روزگار ذکاوت اور قومی شخصیت کے سارے ہتھیاروں سے اس کے خلاف جنگ کی۔ ایسے ہی باطنیت اور ملاحدہ کی جماعت کا ظہور ہوا تو اس کے مقابلے میں بھی علم و حکمت اور دلیل و برہان کی تلواریں لے کر اسلام کے سرفروش میدان میں آکودے، چنانچہ اسلام ان بروقت نصرتوں کی بنا پر علمی و عقلی اعتبار سے ایسی مضبوط پوزیشن میں رہا کہ مخالفت کی موجیں اٹھتیں اور سرٹکرا کر واپس چلی جاتیں، سیلاب کے ریلے آتے اور بے اثر ہوکر گزر جاتے۔
اولین مسئلہ
عالم اسلام کا وہ مسئلہ جو طوفان بن کر کھڑا ہوا ہے اور جس کا رخ براہ راست دین کی طرف ہے کفر و ایمان کا یہی مسئلہ ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی دنیا اسلام پر قائم رہے گی یا اس کا قلادہ اپنی گردن سے اتار دے گی؟ اسلامی دنیا میں آج ایک معرکہ برپا ہے جس میں ایک طرف مغرب کا فلسفۂ لادینیت ہے، دوسری طرف اسلام…… خدا کا آخری پیغام!ایک طرف مادیت ہے اور دوسری طرف آسمانی شریعت! میں سمجھتا ہوں کہ یہ دین اور لادینیت کا آخری معرکہ ہے اور اس کے بعد دنیا دونوں میں سے کسی ایک رخ کو اختیار کرلے گی۔
مقدس ترین جہاد
آج کا جہاد، وقت کا فریضہ اور عصر حاضر کی سب سے بڑی دینی ضرورت یہ ہے کہ لادینیت کی اس طوفانی موج کا مقابلہ کیا جائے جو عالم اسلام کے سر سے گزر رہی ہے۔ نہیں! بلکہ آگے بڑھ کر اس کے قلب و مرکز پر حملہ کیا جائے۔ وقت کا تجدیدی کام یہ ہے کہ امت کے نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقے میں اسلام کے اساسات و عقائد، اس کے نظام و حقائق اور رسالت محمدیؐ پر وہ اعتماد واپس لایا جائے جس کا رشتہ اس طبقے کے ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے۔
آج کی سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ اس فکری اضطراب اور ان نفسیاتی الجھنوں کا علاج بہم پہنچایا جائے جن میں آج کا تعلیم یافتہ نوجوان بری طرح گرفتار ہے اور اس کی عقلیت اور علمی ذہن کو اسلام پر پوری طرح مطمئن کردیا جائے۔
آج کا سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ جاہلیت کے وہ بنیادی افکار جو دل و دماغ میں گھر کر گئے ہیں ان سے علم اور عقل کے میدانوں میں نبرد آزمائی کی جائے یہاں تک کہ اسلام کے اصول و مبادی پورے ایمانی جذبات کے ساتھ ان کی جگہ لے لیں۔
کامل ایک صدی گزرتی ہے کہ یورپ ہمارے نوجوان اور ذہین طبقے پر چھاپے مار رہا ہے، شک و الحاد، نفاق و ارتیاب کا ایک طوفان ہے جو اس نے ہمارے دل و دماغ میں برپا کررکھا ہے، غیبی اور ایمانی حقائق پر اعتماد متزلزل ہورہا ہے اور سیاست اور اقتصاد کے مادہ پرستانہ نظریات اس جگہ پر قابض ہورہے ہیں۔ کامل ایک صدی سے اس شکست و ریخت کا سلسلہ جاری ہے لیکن ہمیں اس کے مقابلے کی کوئی فکر نہیں ہوئی، ہم نے اس کی کوئی پروا نہیں کی کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق قدیم علمی ترکے پر اضافے کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔ ہمیں اس سے کوئی دل چسپی نہیں ہوتی کہ یورپ کے ان فلسفوں کو سمجھیں اور پھر ان کا علمی محاسبہ بلکہ سرجنوں کی طرح ان کا پوسٹ مارٹم کریں۔ ہمارا سارا وقت سطحی بحثوں کی نذر ہوتا رہا یہاں تک کہ اس صدی کے آخر میں ہمارے سامنے گویا یکایک یہ منظر آیا کہ ایمان و عقیدہ کی دنیا متزلزل ہے اور ایک ایسی نسل تیار ہوکر برسر اقتدار آچکی ہے جو نہ اسلام کے عقائد و مبادی پر ایمان رکھتی ہے، نہ اسلامی جذبات اور اسلامی حمیت سے معمور ہے اور نہ اس کا کوئی علاقہ اپنی مومن و مسلم قوم سے اس کے سوا ہے کہ قومیت کے خانے میں اس کا شمار بھی مسلمانوں میں ہوتا ہے یا اگر کچھ تعلق ہے تو وہ محض سیاسی مصالح کی حد تک! بس اس کے سوا کوئی تعلق نہیں! اور اب اس سے بھی آگے بڑھ کر صورتِ حال یہ ہے کہ یہ لادینی مزاج اور لادینی انداز فکر ادب و ثقافت اور صحافت و سیاست کے راستے سے جمہور تک پہنچ چکا ہے اور مسلمان قوموں کے سر پر عمومی پیمانے کی لادینیت کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔خاکم بدہن! وقت کی رفتار، وہ وقت قریب لارہی ہے کہ اسلام کو زندگی کے میدان سے کہیں بےدخل کرکے نہ رکھ دیا جائے۔
دعوتِ ایمان
یہ وقت عالم اسلامی میں ایک نئی اسلامی دعوت کا متقاضی ہے۔ اس دعوت و جدوجہد کا نعرہ اور نشانہ ہو ’’آؤ پھر سے اسلام پر ایمان پیدا کریں!‘‘، لیکن تنہا نعرہ کافی نہیں ہے۔اس میں پہلے وہ نفسیاتی راستہ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے جس سے عالم اسلام کے موجودہ برسر اقتدار طبقہ کے دل و دماغ تک پہنچا جاسکے اور اسے اسلام کی طرف لوٹایا جاسکے۔
بے غرض داعیوں کی ضرورت
آج عالم اسلام کو ایسے مردان کار کی ضرورت ہے جو صرف اسی دعوت کے پیچھے ہورہیں۔ اپنا علم، اپنی صلاحیتیں اور اپنا مال و متاع اس کے لیے وقف کردیں، کسی جاہ و منصب یا عہدہ و حکومت کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھیں، کسی کے لیے ان کے دل میں کینہ و عداوت نہ ہو؛ فائدہ پہنچائیں، مگر خود فائدہ نہ اٹھائیں۔ دینے والے ہوں، لینے والے نہ ہوں، ان کا طرز عمل سیاسی رہنماؤں کے طرز عمل سے ممتاز اور ا ن کی دعوت و جدوجہد سیاسی تحریکات (جس کا مطمح نظر محض حصول اقتدار ہوتا ہے) سے مختلف اور جداگانہ ہو، اخلاص ان کا شعار ہو اور نفس پرستی، خود پسندی اور ہر قسم کی عصبیت سے بالاتری ان کا امتیاز!
دعوت کے لیے نئے علمی اداروں کی ضرورت
اس پر اضافہ یہ ہے کہ آج ایسے علمی ادارے (academies) عالم اسلامی کی بڑی اہم ضرورت ہیں جو ایسا طاقت ور نیا اسلامی ادب پیدا کریں جو ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو دوبارہ کھینچ کر اسلام (وسیع معنی میں اسلام) کی طرف لاسکے جو انہیں مغرب کے ان فلسفوں کی ذہنی غلامی سے نجات دلاسکے جنہیں ان میں سے کچھ نے سوچ سمجھ کر اور زیادہ تر نے محض وقت کی ہوا سے متاثر ہوکر حرز جان بنا لیا ہے۔ وہ ادب جو ان کے دماغوں میں از سر نو اسلام کی بنیادیں اٹھائے اور قلب و روح کی غذا بنے۔ اس کام کے لیے عالم اسلام کے ہر گوشے میں آج ایسے اربابِ عزیمت درکار ہیں جو معرکے کے اختتام تک اس علمی محاذ پر جمے رہیں۔
میں اپنے بارے میں صراحت کے ساتھ بتا دینا چاہتا ہوں کہ زندگی کے کسی لمحے اور کسی وقفے میں بھی ان لوگوں میں نہیں رہا ہوں جو دین و سیاست کی تفریق کے قائل ہیں، نہ میں ان لوگوں میں ہوں جو دین کی ایسی تعبیر کرتے ہیں جس سے وہ زندگی کے ہر نظام اور حالات کے ہر سانچے میں (خواہ وہ اسلام سے کتنا ہی ہٹا ہوا ہو) فٹ ہوجائے اور ہر رنگ کی سوسائٹی میں جڑ جائے اور نہ میرا تعلق کبھی اس گروہ سے رہا ہے جو سیاست کو قرآن کے شجرۂ ملعونہ(الشجرۃ الملعونۃ فی القرآن ) کا مصداق سمجھتا ہے ، میں ان لوگوں کی اگلی صف میں ہوں جو مسلمان قوموں میں صحیح سیاسی شعور کے داعی ہیں اور ہر اسلامی ملک میں صالح قیادت کو بروئے کار دیکھنا چاہتے ہیں، میں ان لوگوں میں ہوں جن کا اعتقاد ہے کہ دینی معاشرہ اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک دین کو اقتدار حاصل نہ ہو اور حکومت کا نظام اسلامی بنیادوں پر استوار نہ ہو، میں اس کا داعی ہوں اور زندگی کی آخری سانس تک رہوں گا۔
ماضی کے تجربے
لیکن بات ترتیب اور تقدیم اور تاخیر کی ہے۔ دینی حکمت اور دینی تفقہ کی ہے اور سوال حالات کے تقاضے کا ہے۔ اب تک ہماری کوششیں اور ہماری صلاحیتیں ہمارے وسائل اور ہمارے اوقات سیاسی اور تنظیمی تحریکات کی نذر ہورہے ہیں اور یہ ساری جد و حرکت اس مفروضے پر رہی کہ قوم میں پورا پورا ایمان ہے اور قوم کی قیادت جو لامحالہ تعلیم یافتہ طبقے ہی سے ہوتی ہے وہ بھی پوری طرح مسلمان ہے۔ اسلام کے عقائد و مبادی پر اس کا ایمان ہے، اسلام کی سربلندی کے لیے اس کے دل میں جوش و جذبہ ہے اور حدود احکام کے نفاذ کے لیے بھی وہ تیار ہے۔ حالانکہ بات برعکس ہے۔ قوم کا حال یہ ہے کہ ایمان میں ضعف اور اخلاق میں انحطاط آچکا ہے لیکن اس کا نہ ہمیں پتہ چلا نہ خود قوم کو شعور ہوا۔ تعلیم یافتہ اور اونچے طبقے کا حال یہ ہے کہ مغربی فلسفوں اور سیاست و اقتدار کے اثر سے بیشتر افراد میں عقیدہ گویا پگھل چکا ہے، بلکہ بہتوں کا حال تو یہ ہوچکا ہے کہ اسلامی عقیدے سے کھلے باغی اور مغربی فلسفوں کے لائے ہوئے افکار و عقائد پر دل کی گہرائیوں سے ایمان، ان کے لیے دنیا سے لڑجانے کا جوش و ولولہ اور ان کی نشر و اشاعت کا جنون، یہ فکر کہ زندگی کا نظام ان فلسفوں کی روشنی اور ان کی دی ہوئی بنیادوں پر استوار کیا جائے اور یہ کوشش کہ پوری قوم کو اس لادینیت سے مانوس کیا جائے۔ یہ ہے اس طبقے کے بہت سے افراد کا ذہنی حال پھر عمل کے میدان میں بعض جلد باز ہیں، بعض تدریج کے قائل ، بعض اس لادینی رجحان کو طاقت کے زور سے قوم پر ٹھونس دینا چاہتے ہیں اور بعض قوم کو اس شیشے میں خوبصورتی کے ساتھ اتارنے کی راہ پر گامزن ہیں ،مگر منزل سب کی ایک اور مقصد و ہدف سب کا واحد۔
دینی طبقے کے دو متضاد گروہ
اس طبقے کے بارے میں ہمارا دینی طبقہ…… بہ شرطیکہ یہ تعبیر درست بھی ہو کیونکہ اسلام میں کوئی مخصوص دینی طبقہ اور پاپائیت جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور اپنے رویہ کے اعتبار سے دوگروہوں میں تقسیم ہے۔ ایک گروہ وہ ہے جو اس سے برسر جنگ ہے، اس کی تکفیر کرتا ہے اور اس کے سائے سے بھی دور رہنا پسند کرتا ہے، لیکن ان اسباب و علل کی جستجو سے بالکل مستغنی ہے جنہوں نے اس طبقے میں لادینیت کا رجحان پیدا کیا۔ یہ گروہ اس کا قائل نہیں کہ اس طبقے سے اختلاط پیدا کیا جائے، دین اور رجال دین سے اس کی وحشت دور کی جائے۔ اگر کوئی ایمان و خیر کا ذرہ اس میں موجود ہے تو اسے بڑھاوا دیا جائے، مؤثر اسلامی لٹریچر کے ذریعے اس کے اندر دینی افکار اتارے جائیں، اس کے جاہ و مال اور قوت و اقتدار سے استغنا دکھا کر اسلامی کردار کی عظمت کا نقش قائم کیا جائے ، مخلصانہ اور حکیمانہ نصیحت کی جائے اور اس طرح اس کے احوال اور دماغ کو بدلا جائے۔
دوسرا گروہ اس کی بالکل ضد ہے، وہ اس طبقے سے تعاون کرتا ہے، مال و جاہ میں اس کا شریک بنتا ہے، اس کے ذریعے اپنی دنیا بناتا ہے، اس کا دین سنوارنے کی فکر نہیں کرتا۔ پس اس گروہ میں نہ کوئی دعوتی روح ہے نہ دینی غیرت کا مظاہرہ۔ نہ یہاں اس بگڑے ہوئے طبقے کی اصلاح کی کوئی حرص و فکر پائی جاتی ہے اور نہ اسے اس قرب و تعاون میں کوئی پیغام ملتا ہے۔
اصلاح اور دینی انقلاب کے لیے جس گروہ کی ضرورت ہے
ایسا کوئی گروہ نہیں جو اس صورت حال پر دردمند ہو، جو یہ سمجھے کہ یہ اونچا تعلیم یافتہ طبقہ مریض ہے مگر علاج کے لائق اور شفایابی کے قابل اور پھر اس کے علاج کی فکر کرے، حکمت و نرمی کے ساتھ دین کی دعوت لے کر اس میں گھسے اور بے لوث نصیحت کا حق ادا کرے، ایسا کوئی تیسرا گروہ نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے اس مغرب زدہ عنصر کو دین اور دینی ماحول سے قریب ہونے کا موقع نہیں ملتا۔ اس کی ساری زندگی اس ماحول سے وحشت اور دوری میں کٹتی ہے اور پھر اس کے بعد وحشت کو اہل دین کا گروہ اور بڑھا دیتا ہے، ایسے ہی وہ ایک گروہ بھی اس بُعد و وحشت میں اضافے کا سبب بنتا ہے جو دین کے نام پر اس طبقے سے جاہ و منصب اور حکومت و سلطنت کے لیے جنگ کرتا ہے۔ یہ دونوں گروہ سوائے اس کے کچھ نہیں کرتے کہ اس طبقے کو دین سے خائف کریں اور ایک بغض و عناد کی کیفیت پیدا کریں، انسان کی فطرت ہے کہ اگر وہ دنیا کا حریص ہے تو اس معاملے میں اپنے کسی رقیب کو برداشت نہیں کرسکتا، اگر حکومت و سلطنت ہی اس کا مقصد زندگی ہے تو اس میدان کے حریف کو ایک آنکھ نہیں دیکھ سکتا اور اگر بندۂ نفس اور خوگر عیش و عشرت ہے تو یہ ممکن ہے کہ وہ اس دنیا میں کسی کو سہیم و شریک بننے کی اجازت دے دے۔
عالم اسلامی کے درد کی دوا آج وہ گروہ ہے جو خواہشات سے بلند اور داعیانہ بے غرضی کا پیکر ہو، ہر اس بات سے دامن بچائے جس سے وہم بھی ہوسکتا ہے کہ اسے دنیا کی طلب ہے یا اس کا مطمح نظر اپنے لیے اپنی پارٹی کے لیے یا اپنے خاندان کے لیے حکومت و اقتدار کا حصول ہے، وہ گروہ جو اس طبقے سے میل ملاقات کے ذریعے، مراسلات اور گفتگو کے ذریعے، دعوتی اسفار کے ذریعے، پر اثر اسلامی ادب کے ذریعے، شخصی روابط کے ذریعے، پاکیزگی کردار اور علو اخلاق کے ذریعے، زہد و استغنا اور پیغمبرانہ اخلاق کی پر اثر نمائندگی کے ذریعے ان نفسیاتی اور عقلی گرہوں کو کھول دے جو مغربی علوم نے پیدا کی ہوں یا دینی طبقے کی بے تدبیری سے پڑی ہوں یا کم فہمی کم نظری اور اسلام اور اس کے صحیح ماحول سے بُعد ان کا سبب ہوا ہو۔
اس طرز پر کام کرنے والوں کی کامیابی
یہی وہ گروہ ہے جس سے ہر دور میں اسلام کی خدمت بن آئی ہے، اموی سلطنت کا رخ پھیر دینے اور تخت خلافت پر عمر بن عبدالعزیز کو لابٹھانے کا سہرا اسی گروہ کے سر ہے جس کی نمائندگی رجا بن حیوۃ نے کی اور پھر ہندوستان میں مغل سلطنت میں اسی نوعیت کا انقلاب بھی اسی گروہ کا رہین منت ہے۔ اکبر جیسے طاقت ور بادشاہ نے اسلام سے انحراف کرکے اور کھلی اسلام دشمنی پر کمر باندھ کے گویا یہ تہیہ کرلیا تھا کہ اس اسلامی براعظم کو جو چار صدیاں اسلامی حکومت کے سائے میں گزار چکا تھا، پھر پرانی جاہلیت کے سانچے میں ڈھال دے، لیکن اس حکیمانہ دعوت اور ایک ایسے حکیم اور داعی اسلام کے ظہور میں آنے کے طفیل جس نے اسلام کے لیے خلوص اور اس کے تفقہ کا حق ادا کیا1 اور اس کے جانشینوں کی کوششوں کے طفیل یہ ملک ایک بار اسلام کے ہاتھ سے نکل کر ہاتھ میں آیا اور پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ آیا۔ اکبر کے تخت پر پے در پے ایسے بادشاہ آئے جن میں سے ہر ایک اپنے پیش رو سے بہتر تھا، حتی کہ نوبت اورنگ زیب عالمگیر تک پہنچی۔ وہ اورنگ زیب جس کا ذکر تاریخ اسلام اور تاریخ اصلاح کا ایک زریں باب ہے۔ اور معلوم ہے کہ تاریخ ہمیشہ دہرائے جانے اور بار بار دہرائے جانے کے لیے تیار ہے۔ اسے کبھی اس عمل سے انکار نہیں ہوا۔ بس بات صرف اس وقت کی رہی ہے جو اس کا رخ پھیر سکے اور اسلام کے تابندہ ادوار کو دہرا کر لانے والی قوت صرف دعوت اور یہی حکمت و اخلاص ہے۔
سنگین صورت حال
اس صورت حال کا ہمیں ہمت و استقلال اور حکمت و دانائی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے۔ دنیائے اسلام پر آج ایک دینی فکری اور تہذیبی ارتداد کی سخت مصیبت آئی ہوئی ہے۔ یہ مصیبت ان تمام لوگوں کے غور و فکر کا موضوع بن جانی چاہیے جو اسلام کا درد رکھتے ہیں، آج ہر اسلامی ملک کے جدید تعلیم یافتہ طبقے کے بہت سے افراد کا حال یہ ہے کہ اعتقاد و ایمان کا سرشتہ ان کے ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے ، اخلاقی بندشیں وہ توڑ کر پھینک چکے ہیں، انداز فکر ان کا سر تا سر مادی ہوچکا ہے اور سیاست میں انہوں نے لادینیت کا نظریہ اپنا لیا ہے۔ اگر ’’اکثر‘‘ کا لفظ بولتے ہوئے مجھے خوف بھی ہو تو میں یہ ضرور کہوں گا کہ ان میں بہت سے ایسے ہیں جو اسلام پر ایک عقیدے اور ایک نظام کی طرح ایمان نہیں رکھتے، اور مسلمان عوام باوجودیکہ ان میں خیر و صلاح کے تمام جوہر موجود ہیں اور وہ اپنی طبیعت سے انسانیت کا صالح ترین گروہ ہیں اس طبقے کی علمی بالاتری، ذہنی تفوق اور اثر ونفوذ کی بنا پر اس کے ماتحت اور مطیع ہیں۔
اگر یہ صورت حال یونہی چلتی رہی تو یہ الحاد و فساد ان عوام میں بھی گھس کر رہے گا۔ دیہاتوں کے سادہ دل مسلمان بھی اس کی لہروں سے نہ بچ سکیں گے اور کھیت اور کارخانوں کے مزدوروں کا بھی دین و ایمان یہ پلٹ کر چھوڑے گا۔ یہ سب کچھ اسی رفتار اور انداز سے یورپ میں ہوچکا ہے اور اگر حالات کا رخ اور رفتار یہی رہی اور اللہ کا ارادۂ قاہرہ بیچ میں حائل نہ ہوگیا تو مشرق میں بھی یہ سب کچھ ہونے جارہا ہے۔
کام کی فوری ضرورت
اس فریضے کی ادائیگی میں ایک دن کی بھی تاخیر کا موقع نہیں ہے، دنیائے اسلام کو ارتداد کی بڑی زبردست لہر کا سامنا ہے۔ ایسی لہر جو اس کے عزیز ترین طبقوں اور بہترین حصوں میں پھیل چکی ہے۔ یہ اس عقیدے اس نظام اخلاق اور ان اقدار کے خلاف بغاوت ہے جو دنیائے اسلام کی سب سے برتر متاع ہے۔ اگر یہ دولت ضائع ہوگئی جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ ہے جسے نسلوں پر نسلیں منتقل کرتی ہوئی لائی ہیں اور جس کی راہ میں اسلام کے جانبازوں نے مصائب کے کتنے ہی پہاڑ اٹھائے ہیں تو سمجھ لیجیے کہ عالم اسلام بھی گیا۔
کیا ہم اس حقیقت اور وقت کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش کریں گے؟
وما علینا الا البلاغ المبین
[تبصرہ(از مولانا ڈاکٹر عبید الرحمٰن المرابط)]
[امارت اسلامی افغانستان کے عالم مولانا عبد الہادی مجاہد حفظہ اللہ نے اپنی مشہور پشتو کتاب ’فكري پوهنه‘ میں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کے مقالے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
”علامہ ندوی اس فقرے میں مغربی فلسفوں کے ماننے والوں (مرتدین) کے علاج کے لیے ایک پر امن، علمی، دعوتی، عاطفی اور صوفیانہ مقابلے کا طرز پیش کرتے ہیں۔ یہ طرز نظریاتی اعتبار سے اپنی جگہ اور اپنے زمانے میں بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن یہ مقالہ علامہ نے کئی دہائیاں قبل اُس وقت کے فکری، سیاسی، اجتماعی اور جنگی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے لکھا تھا۔ کیونکہ اس وقت ایک جانب مرتدین نے اسلام سے نکلنے کے لیے ’علمی‘ طریقہ اپنایا تھا۔ اور دوسری جانب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کفر کے جھنڈے اور قیادت تلے عسکری جنگ2 شروع نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ الٹا منافقت، حقائق کی تبدیلی، ریاکاری اور جھوٹ سے کام لیتے ہوئے عام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کے دعوے بھی کرتے تھے۔ اس لیے ندوی صاحب اس قسم کے فکری انحراف کے علاج کے لیے فکری ذرائع استعمال کرنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ جبکہ آج یہ مرتد حکمران کھلے عام کفر کے جھنڈے تلے اور کفر کی صف میں کھڑے ہو کر کافروں کے اہداف مکمل کرنے کے لیے پوری اسلامی دنیا میں اسلام کے خلاف ایک بے رحمانہ فوجی جنگ میں مصروف ہیں۔ اور اسلام کے ساتھ ہر قسم کے مذاکرات کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ یہ واضح طور پہ اعلان کرتے ہیں کہ انہیں کہیں بھی اور کسی طرح بھی اسلام کی حاکمیت اور نفاذ شریعت قابل قبول نہیں۔ اور جو بھی اسلام کے نفاذ کی کوشش کرے اسے یا ملک بدر کر دیا جائے یا بے رحمانہ طریقے سے قتل کر دیا جائے ۔ چنانچہ اس صورت اور ان حالات میں ممکن ہے کہ ان ’مرتدین‘ کا علاج جنہیں ندوی صاحب بھی ’مرتدین‘ ہی کہتے ہیں وہ ہو جو حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے دور میں ارتداد کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ مغربی افکار کے تمام ماننے والوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جائے۔ ممکن ہے کہ بعض چھوٹے اور نا سمجھ افراد اب بھی شکوک، شبہات اور غلط فہمیوں کا شکار ہوں۔ یا کفری ممالک اور حکومتوں کی زہریلی تبلیغات کے زیر اثر ہوں۔ اور ایسے افراد کو فکری گمراہیوں سے نکالنے کے لیے مدد کا ہاتھ بڑھانا اسلامی فکر کے حامیان اور مخلص داعیان کا فرض ہے۔“3
یاد رہے کہ ارتداد کے حوالے سے مولانا ابو الحسن ندوی کا یہ واحد مضمون نہیں ہے بلکہ انہوں نے جون ۱۹۹۰ء میں مدرسہ ہدایت العلوم ، صحبتیا باغ، لکھنؤ کے جلسے میں تقریر کی جو ”ارتداد کا خطرہ اور اس کا مقابلہ“ کے عنوان سے استاذ مدرسہ مولانا عبد النور ندوی نے نشر کی۔ اسی طرح ۱۹۹۲ء میں مدرسہ ضیاء العلوم، رائے بریلی کے سالانہ اجلاس میں بھی ایسی ہی تقریر کی جسے طلبائے بھٹکل، دار العلوم ندوۃ العلماء نے بعنوان ”خطرۂ ارتداد اور اس کا حل“ کے نام سے شائع کیا۔ اور وہاں بھی انہوں نے اس ارتداد کے مقابلے کے لیے اس وقت کے حالات کے مطابق عملی، تبلیغی کاوشوں اور معاشرتی بیدار ی پر زور دیا جو کہ یقیناً آج بھی اتنی ہی ضروری ہیں لیکن ہر علاقے اور ہر صورت حال کے مطابق حضرت ابو بکر کا مرتدین کے خلاف طرز عمل یعنی کہ جہاد و قتال سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ]
ایک قابلِ توجہ حقیقت (از مدیرِ مجلّہ’نوائے غزوۂ ہند‘)
[ہمارا مفکرِ اسلام حضرت مولانا سیّد ابو الحسن علی ندوی، شیخ عبد الہادی مجاہد اور مولانا عبید الرحمٰن المرابط کی علمی و فکری تحریرات و تبصروں کے بعد مزید کچھ لکھنا یقیناً مخمل پر ٹاٹ کا پیوند لگانے کے مترادف ہے، لیکن ایک حقیقت اہلِ ایمان کے سامنے مزید پیش کرنا بھی لازمی ہے۔ اور وہ یہ کہ جس فکری اتداد کا مولانا علی میاں نے جس زمانے میں ذکر کیا، اسی زمانے میں اس فکری ارتداد کو کچھ ’اہل اصلاح و سلاح‘ نے سمجھا۔ ان اہلِ اصلاح و سلاح نے اپنی اصلاحی و دعوتی کوششوں کا رخ اہلِ اسلام کی طرف اپنی مقدور قوت کے مطابق رکھا اور اپنے سلاح کا رخ پوری قوت سے اس فکری ارتداد کو پھیلانے والی عالمی کفری طاقتوں کی طرف پھیرا۔ آج اس عالمی کفری طاقت کا سرغنہ امریکہ ہے، جو ہمہ قسم کے فکری و جنگی اسلحے اور وسائل سے لیس ہے اور اپنے افکار کو End of History قرار دے کر پوری دنیا پر اپنی سافٹ (soft) اور ہارڈ (hard) طاقت (power) کے ساتھ مسلط کیے ہوئے ہے، اہلِ فکر و دانش کے لیے مثالوں کی ضرورت نہیں۔آج کی دنیا کے سبھی ممالک اپنے سیاسی اختلافات کے باوجود اس فکری معرکے میں امریکہ کے ساتھ کھڑے ہیں اور عالمی اتحاد کا حصہ ہیں بشمول ستّاون (۵۷) اسلامی ممالک کے۔
جس حقیقت کو ہم نے اولاً قابلِ توجہ کہا ہے وہ ابھی بیان نہیں ہوئی۔ یہ قابلِ توجہ حقیقت یہ ہے کہ عالمی کفری طاقت کے سرغنہ امریکہ کی برپا اس جنگ کو اصلاح و سلاح یعنی دعوت و جہاد کی قوت سے افغانستان میں شکست سے دوچار کیا جا چکا ہے۔ عسکری طور پر شکست کھانے کے بعد امریکہ مذاکرات کی میز پر آیا اور انہی طالبان کو اقتدار منتقل کر دینے پر راضی ہو گیا، جن کا نام سننا بھی اسےآج سے ڈھائی دہائیاں قبل گوارا نہ تھا۔
پس افغانستان میں اہلِ اسلام کے اس عالمی فکری ارتداد کے خلاف تجربے (حالانکہ حکمِ شریعت بھی یہی ہے) نے عملاً ثابت کر دیا کہ بیک وقت عالمی فکری ارتداد کے روحِ رواں (امریکہ) اور اس کے وہ اتحادی، جنہوں نے فکری و عملی ارتداد اہلِ اسلام کی گردنوں پر مسلط کر رکھا ہے، جو چاہے بظاہر کلمہ گو ہی کیوں نہ ہوں کے خلاف فکر و عمل، اصلاح و سلاح یعنی دعوت و جہاد نہایت ضروری ہے، بلکہ اس کے علاوہ اور کوئی حل ہے ہی نہیں! اور جہاد کو انہی معنوں میں لیا جائے جن معنوں میں امت کے فقہاء، محدثین، مفسرین، اصولیین وغیرہ نے بیان کیا ہے، یعنی قتال فی سبیل اللہ۔
یہاں شیخ عبد الہادی مجاہد اور مولانا مرابط کی مقالے کے آخر میں درج اور ہمارے بیان کیے گئے نقطے سے منسلک ایک مزید اس بات کا اضافہ کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ رجا بن حیوۃؒ اور حضرتِ مجددؒ کے زمانے اور آج کے زمانے میں بہت فرق ہے ۔ آج پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی منظور کردہ حکومتیں (عمران خان تا پی ڈی ایم یا جو بھی آئندہ آئے)، بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ، بھارت کے مودی 4، سعودی عرب کے ابنِ سلمان وغیرہ کی حکومتیں خود طاغوت ہیں اور غیر شرعی نظام کو (جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا) بزورِ قوت نافذ کیے ہوئے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اگر ان حکومتوں میں رہتے ہوئے یا ان سے تعلق استوار کرتے ہوئے کوئی رجا بن حیوۃ اور مجدد الف ثانی بن کر کام کرنے کی کوشش کرے تو اس کا انجام ابدی اندھی جیل ہے یا پھانسی گھاٹ اور اس کی ایک بڑی مثال سعودی عرب میں شیخ سفر الحوالی ہیں جنہوں نے آلِ سعود کے حکمرانوں کو نصیحت کی اور نتیجتاً اپنے بیٹوں سمیت سالوں سے پسِ زندان ہیں!]
٭٭٭٭٭
1 حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ
2 شیخ عبد الہادی مجاہد حفظہ اللہ کی مراد 2010 میں _جب یہ کتاب شائع ہوئی_ عالم اسلام کی صورت حال تھی جہاں امریکہ ، عالم کفر اور مسلم ممالک میں سے اس کے اتحادیوں نے افغانستان، عراق ، یمن اور دیگر علاقوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نمایاں فوجی جنگ شروع کر رکھی تھی۔ جو آج تک مختلف علاقوں میں مختلف سطحوں پر جاری ہے۔
3 پشتو میں کتاب ’فکری پوہنہ‘ سے اردو ترجمہ ، باب :معاصر فکری ارتداد، حاشیہ صفحہ نمبر 266، 267
4 ایک کافر کی حکومت کا ذکر اصلاً مطلوب نہیں ہے، لیکن بدقسمتی سے مودی کی حکومت کو بھی آج ہندوستان میں موجود بعض حضرات اپنے ’قول و عمل‘ سے قریب قریب شرعی اولوالامر ہی قرار دے رہے ہیں۔