نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

میں کابُل بستے دیکھ رہا ہُوں! | ۱

حسن ترابی by حسن ترابی
9 فروری 2023
in جنوری 2023, افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
0

پہلی بات

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد للہ وکفیٰ والصلاۃ والسلام علیٰ أشرف الأنبیاء سیّدنا محمد وعلی آله وصحبه وذريته ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين، أما بعد!

’’بابا…… راځه! اول هديرې ته ځو…… زه د شهيد نياز محمد ابا سره اختر مبارکي کومه!‘‘

’’بابا……پہلے قبرستان چلو…… میں شہید نیاز محمد ابا سے عید مل آؤں!‘‘

یہ ۱۴۴۲ھ کی چھوٹی عید پر، پانچ سالہ زبیر کے الفاظ ہیں۔

چار سال پہلے افغانستان کے صوبے غزنی کے مرکزی ضلع غزنی شہر کی تحصیل بسراق قول کے ایک گاؤں میں نیاز محمد ’غازی‘ سے ’شہید‘ قرار پا کر مدفون ہوا تھا۔ زبیر اس وقت مشکل سے رینگنے کی عمر کا تھا، ایک سال کا یا اس سے کچھ زیادہ یا کم۔ زبیر کو امسال ہی احساس ہوا تھا کہ ’باپ‘ بھی ’کچھ‘ ہوتا ہے۔ ورنہ اس کے کاروانِ زندگی میں اس کے بابا یعنی دادا، آنا یعنی دادی، کاکا یعنی چچا، عمّائیں یعنی پھوپھیاں تھیں اور اس سے تین سال بڑی بہن ناہیدہ۔ اپنے چچا قاری عظمت اللہ کے بچوں کو اپنے باپ کے ساتھ چمٹتا، گردن سے لٹکتا، کندھوں پر چڑھتا اور ’مُوچے‘ یعنی بوسےکرتا اور لیتا دیکھ کر زبیر ’باپ‘ نامی کسی رشتے کے احساس سے آشنا ہوا تھا۔ پھر باپ کا پوچھنے پر اسے بتایا گیا کہ تمہارا ابا امریکی فوج سے لڑتا شہید ہو گیا تھا۔ پھر اس سوال پر کہ شہید ہو کر باپ کی روح تو زندگانیٔ جاوداں، شاداں و فرحاں پا چکی ہے (کہ زبیر مقامِ شہید سے رشتۂ باپ سے آشنا ہونے سے پہلے ہی آشنا تھا) تو اس کے باپ کی قبر کہاں ہے؟ آنسو پونچھتے، ننھے زبیر کے دونوں گالوں پر شفقت بھرے، لرزتے، بوڑھے ہاتھ رکھتے ہوئے اس کے دادا حاجی محمد ازمرئ نے اسے بتایا کہ نیاز محمد ابا کی قبر بسراق قول کےہدیرے یعنی قبرستان میں ہے۔

ا ب عید آئی تو سب سے عید مل لیا، عیدی بھی لے لی، لیکن نیاز محمد ابا سے بھی تو ملنا تھا۔ سو بابا کا ہاتھ تھاما اور قبرستان جانے کی فرمائش کر ڈالی۔ بابا کا کلیجہ چِر گیا، دل کی دھڑکن نے ایسی تیزی اختیار کی کہ شاید رگوں کو پھاڑ ڈالتی۔ بابا نے دو جوان بیٹوں کا جنازہ اٹھایا تھا۔ پہلے جلال الدین کا جو کنڑ میں شہید ہوا تھا اور پھر نیاز محمد کا، لیکن زبیر کے الفاظ بابا پر ان جنازوں سے زیادہ بھاری تھے۔

یہ سچی کہانی ہے، سچے لوگوں کی۔ اس میں جھوٹ و تصنع کی کچھ آمیزش نہیں۔ یہ افسانہ یا درد بھری شاعری بھی نہیں۔

یہ کہانی افغانستان کے ہر صوبے کے ہر ضلع کے ہر قصبے کے ہر گھر کی کہانی ہے۔ یہ آج کا بستا کابل یونہی نہیں بس گیا۔ لاکھوں زبیروں کے خون ملے اشک اور لاکھوں زبیروں کے باپوں کے خون نے کابل و غزنی و قندھار کے گلابوں کو سرخی بخشی ہے۔ افغانستان میں لالے یونہی حنا بند نہیں ہو گئے!

میں دو سال سے اس کوشش میں تھا کہ ’میں کابل بستے دیکھ رہا ہوں‘، کے خیال کو لکھوں، لیکن یہ خیال حاشیۂ خیال سے قرطاس پر منتقل نہ ہو پا رہا تھا۔ اس کتاب کا مرکزی خیال میرے ذہن میں صوبۂ غزنی کے ضلع گیرو اور ضلع اندڑ کی سرحد پر واقع ایک مسجد میں آیا، جب میں اپنےشیخ و امیر اور ایک اور ساتھی سمیت رات گھر میں نہیں گزار سکتا تھا، امریکی ڈرون طیاروں کی پرواز نہایت نیچی تھی، چھاپے کا خطرہ تھااور کلیجہ حلق میں۔ پھر اس کتاب کے مندرجات کے بارے میں، میں کئی ماہ سوچتا رہا اور یونہی مزید پورا ایک سال گزر گیا۔ ایک سال گزرا تھا اور اب میں ایک جہادی تشکیل پر صوبۂ پکتیا کے ضلع زرمت میں تھا۔ حسنِ اتفاق سے صوبۂ پکتیا کے والی صاحب (گورنر) اسی مکان پر آگئے جہاں میں اپنے گھر سے دور ایک بار پھر ڈرون کی نہایت نیچی پرواز اور امریکی چھاپے کے خطرے کے سبب پناہ لیے ہوئے تھا۔ پھر حاجی والی صاحب کے ساتھ چند دن گزارنے کا موقع ملا۔ فراغت تھی، جیب میں قلم بھی اور کاغذ کے دو ورق ۔ حاجی والی صاحب سے امارتِ اسلامیہ کے انتظامی ڈھانچے کو سمجھنے کی کوشش کی، کمیسیون جو بعد میں وزارتیں بن گئے، کی تقسیم سمجھنے کی کوشش کی۔ ان وزارتوں کا نظام، والیوں اور ولسوالوں (ضلعی کمشنروں یا ناظموں) کا اختیار و انتظام، نظامی (فوجی) اور ملکی (سول) انتظامی تقسیم، قضاء وعدالت کا نظام، گمرکات (کسٹم و ٹیکس) کا نظام وغیرہ کے بارے میں سوالات پوچھے اور اپنے پاس موجود کاغذ کے دو ورقوں پر نقاط اور فلو چارٹس (flow charts)کی صورت لکھتا گیا۔ لیکن متاسفانہ، میرے یہ دو قیمتی ورق گم ہو گئے اور حافظے میں موجود نقاط کو اس زمانے میں ’ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ‘1 کے مصداق دشمن کی جانب سے چھاپوں کا خطرہ ، جاسوسوں کا تعاقب اور ڈرون کی مسلسل بھن بھناہٹ چاٹ گئی، قدر اللہ و ما شاء فعل! زندگی، الحمد للہ جہاد فی سبیل اللہ میں ’ وَتِلْكَ الأيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ ‘ 2کے مثل گزر رہی تھی یہاں تک کہ کابل حقیقتاً بس گیا، فتح ہو گیا۔ فتحِ کابل کے بعد بھی میں کچھ لکھ نہیں پا رہا تھا۔ فکر و تحقیق کی کمیابی تھی اور قلم کا ضعف۔ ان عوارض کے ساتھ کہاں ’کتاب‘ لکھنے کا ارادہ تکمیل پاتا ہے؟

لیکن زبیر کی شوخ طبیعت، اس کی ہنسی، اس کی مسکراہٹوں اور شرارتوں نے میرے قلم کے ضعف کو قوت بخش دی۔ فکر و تحقیق کی کمیابی اب بھی بسیار ہے۔ لیکن زبیر کی مسکراہٹوں میں پنہاں آہوں اور آنکھوں کی شرارت کے پیچھے جھلکتے غم نے مجھے مجبور کر دیا ہے۔

آج ۱۶ ستمبر ۲۰۲۱ء کو بالآخر میں اپنے خیالات کو مجتمع کرنے کے ارادے سے باقاعدہ بیٹھ گیا ہوں۔

’میں کابل بستے دیکھ رہا ہوں‘ احساسات و مشاہدات کا مجموعہ ہے۔ لیکن میں نے اپنی فکر اور قلم کو محض احساسات و جذبات کے میدان میں بے لگام نہیں ڈالا۔ میں ’اسلامی خلافت‘ کی تعمیر کے لیے چند اینٹیں، پتھر، گارا و مٹی ڈھونا چاہتا ہوں۔ اہلِ افغانستان نے جن مشکلات، مشقتوں اور محنتوں سے ’امارتِ اسلامی‘ کو قائم کیا ہے، میں اس امارت کی عمارت کی تعمیر کی چند جھلکیاں محفوظ کرنا چاہتا ہوں۔ میں اپنے بے بضاعت کیمرے سے ’محبتِ اسلام‘ کے تاج محل کی چند تصویریں اپنے لوگوں کی خاطر محفوظ کرنا چاہتا ہوں۔

میں اس کوشش کا انتساب حکیم الا مت فضیلۃ الشیخ ابو محمد ایمن الظواہری کے نام کرتا ہوں جنہوں نےاپنی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا کی خاطر امتِ مسلمہ کو عزت و مجد کے راستے اور منزل؛ جہاد اور خلافۃ علی منہاج النبوۃ کی طرف بلانے میں کھپائی۔ میں اس کاوش کو اپنی اولاد اور بھتیجوں، بھتیجیوں، بھانجوں، بھانجیوں ’ا‘، ’ش‘، ’ع‘ ، ’ح‘ ،’ع‘،’ا‘،’آ‘، ’و‘، ’ا‘، ’م‘ اور ’ع‘کے نام کرتا ہوں، اپنے شہید و حیات سگے اور نسبتی بھائی بہنوں کے نام، اپنے والدینِ ماجدین کے نام جنہوں نے اپنے بڑھاپے کے سہارے کو فی سبیل اللہ وقف کر دیا۔ اپنے شہید سسر صاحب اور خوش دامن صاحبہ کے نام۔ اپنی مسلم امت کے نوجوانوں کے نام۔ میں اس کوشش کو منتسب کرتا ہوں سگی محبتوں سے زیادہ محبوب امت کے طائفۃ المنصورۃ کے مجاہدینِ عالی قدر اور اپنے ساتھی اور نگاہ بلند، سخن دل نواز و جاں پرسوز امراء کے نام جنہوں نے گھپ اندھیری راتوں میں امت، خاص کر اہالیانِ برِّ صغیر کی راہ میں اپنے شدید ترین ضعف و غربت کے باوجود اپنے خون پسینے سے روشنی کے چراغ جلا جلا کر رکھے ۔ یہ کوشش میں اپنے غور کے مرشد کے نام کرتا ہوں، قبائل کے کسی نا معلوم ہدیرے (قبرستان) میں مدفون اپنے شیخ کے نام، موسیٰ قلعہ میں مدفون شہیدوں کے نام ۔ طاغوتی زندانوں میں بند ساتھیوں کے نام، خاص کر اس صائم الدہر کے نام جن کے سوز و اخلاص کی تپش اور محبت نے مجھے راہیٔ جہاد بنایا ۔ ان دوستوں کے نام جو دنیوی مشکلات یا کسی ڈر کے سبب راہِ حق کے سفر میں کچھ سست ہو گئے، لیکن مجھے امید ہے کہ ان کے دل اب بھی ویسے ہی گرم جوش ہیں۔ اپنے وطن کے ایک دیہات میں بسنے والے ابو عبد اللہ انصاری، وقاص انصاری اور معاذ انصاری کے نام۔ پیر پنجال کی سفید برف کو اپنے لہو سے سرخ کرنے والے مطیع الرحمٰن صدیقی کے نام۔ اور آخر میں اپنی دوست، مشکلوں کی ساتھی اور اس کوشش کوکرنے کے لیے ہر ہر روز تحریض دلانے والی شریکِ حیات کے نام۔ یہ سب انتساب ایک ہی مقصد کے لیے ہیں کہ جن جن(حیات لوگوں) کے نام و عنوان میں نے پچھلی سطروں میں ذکر کیے ہیں وہ اس ’جہاد فی سبیل اللہ‘ کو اپنا مقصدِ ہستی بنائے رکھیں جس کا دنیا میں نتیجہ آج کابل کا بسنا ہے تو کل اسلام آباد، دِلّی، ڈھاکہ، صنعاء، ریاض، قاہرہ، استنبول اور ماسکو، لندن، پیرس، واشنگٹن، سڈنی اور ٹوکیو و بیجنگ کا بسنا ہو گا اور اصل نتیجہ جنت کا مقامِ فردوس ہے، حضور علیہ ألف صلاۃ وسلام کی معیّت اور سب سے بڑھ کر اللہ کی رضا و زیارت!

حسن ترابی

غزنی شہر

۳:۳۵، بعد از ظہر

۸ صفر المظفر ۱۴۴۳ ھ؍۱۶ ستمبر ۲۰۲۱ء ، بروز جمعرات

٭٭٭

دوسری بات

ربِّ اشرح لي صدري ويسّر لي أمري واحلل عقدة من لساني يفقھوا

قولي، آمين يا ربّ العالمين!

اگر کوئی حکومت کامل رہی ہے تو بس خلافتِ راشدہ اور اگر کوئی حکومت اس خلافتِ راشدہ کے بعد کامل ہو گی تو ’ثم تکون خلافۃ علی منہاج النبوۃ‘ والی، پھر سے آنے والی خلافتِ راشدہ (جس کے بارے میں علمائے کرام کی رائے یہ ہے کہ یہ حضرتِ مہدی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے قائم ہو گی، لیکن بعض اس سے اختلاف بھی رکھتے ہیں3)۔خلافتِ راشدہ کے علاوہ عادل سلاطین کی بہت سی حکومتیں ملتِ اسلامیہ پر گزری ہیں اور سلطانِ عادل ہی کے بارے میں مختلف احادیث میں حضور علیہ ألف صلاۃ وسلام کا اس مفہوم کا فرمان وارد ہے کہ’’السُّلْطَانُ ظِلُّ اللَّهِ فِي الأَرْضِ فَمَنْ أَكْرَمَهُ أَكْرَمَ اللَّهَ وَمَنْ أَهَانَهُ أَهَانَهُ الله4‘‘ اور قیامت کے دن جب کوئی سایہ نہ ہو گا ما سوا ئےاللہ جلّ جلالہٗ کے عرشِ عظیم کے سائے کے، تو اس سائے کے نیچے پناہ پانے والوں میں ایک امامِ عادل بھی ہو گا5، گویا سلاطینِ عادلہ کا مقام بہت بلند ہے۔ حضرت تھانوی نوّر اللہ مرقدہٗ ملفوظات میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’سلطان کا اجر ایک عام آدمی کے اجر سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے، اس لیے کہ نیک سلطان جب کسی نیکی کا امر صادر کرتا ہے اور رعایا اس پر عمل کرتی ہے تو رعایا کے عمل کا ثواب سلطان کے میزانِ حسنات میں بھی جمع کیا جاتا ہے‘(اسی طرح سلطان کا گناہ بھی بہت سخت ہے)۔ خلافتِ امویہ و عباسیہ و عثمانیہ میں کئی عادل سلاطین گزرے ہیں اور من حیث المجموع یہ ساری ہی خلافتیں شرعی حکومتیں تھیں۔ لیکن کامل حکومت خلافتِ راشدہ ہی ہے اور پچھلی ایک صدی سے امتِ مسلمہ کی مجموعی کاوشیں اور مجاہدینِ اسلام کی خصوصی محنتیں اسی خلافت کے احیا کی ہیں۔

آج امارتِ اسلامیہ افغانستان، شرعی اسلامی حکومتوں میں ایک بلند مقام رکھتی ہے، خاص کر جب ہم آخر الزمان میں دنیائے کفر کی ایسی برتری و غلبہ دیکھتے ہیں جیسی برتری و غلبہ اہلِ کفر کو ماضی میں کبھی حاصل نہیں ہوا۔ کفر کے ایسے عالمی غلبے میں دشمن کے مطابق ’قدامت پسند‘ اور حقیقتاً خیر القرون اور سلفِ صالحین کے منہج کو اپنا منہج بتانے والی اور منہجِ سلفِ صالحین پر بقدرِ استطاعت عمل کے لیے کوشاں ایسی حکومت (مع امارتِ اسلامیہ افغانستان کے دورِ اول کے)مسلمانوں کو عالمی طور پر ایک صدی بعد اور ہمارے خطے کو تین سو سال بعد میسر آئی ہے۔ پوری دنیا میں فقط ایک افغانستان ہی ہے جہاں شریعتِ محمدی علی صاحبہا ألف صلاۃ وسلام نافذ ہے۔ یہاں اہلِ اسلام کا شملہ بلند اور اہلِ کفر و نفاق جہاد کے ذریعے ذلیل وخوار کر کے مار بھگائے گئے ہیں۔یہاں معیشت و اقتصاد اضطراری حالت میں ہیں لیکن ہر عمل اہلِ حق علمائے کرام کی نگرانی میں ہو رہا ہے، اکیسویں صدی میں جب دنیا کا ہر ایک ایک انسان اگر کسی براہِ راست صورت میں نہیں تو کم از کم کرنسی نوٹوں کی صورت عالمی ساہو کار سرمایہ دارانہ سودی معاشی نظام میں جکڑا ہوا ہے، تو امارتِ اسلامیہ افغانستان کے علمائے کرام اس امر سے بے خبر نہیں ہیں، بلکہ صبح و شام اسلامی اقتصادی نظام کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے مالی معاملات، قرضوں، بیعوں، کاروباروں وغیرہ کے لیے وزارتِ مالیہ پابند ہے کہ وہ جیّد مفتیانِ کرام سے اپنے معاملات پر فتاویٰ حاصل کرے اور راقم السطور یہ بات نہایت ٹھوس دلائل کے ساتھ کر رہا ہے۔ اس وقت میں جس میز پر اپنا کمپیوٹر کھولے لکھ رہا ہوں، اسی میز پر وزارتِ مالیہ کے کچھ معاملات پر امارتِ اسلامیہ افغانستان کے ’سترہ محکمہ‘( عدالتِ عالیہ ؍ سپریم کورٹ) کے تحت دار الافتاء کے فتاویٰ کا ایک دوسیہ (فولڈر) میرے سامنے کھلا رکھا ہے، جس میں جدید قرض کی شکلوں کی لین دین کے متعلق کافی تحقیق کی گئی ہے۔ راقم خود شاہد ہے کہ دار الافتاء کے مفتیانِ عظام نے ان مسائل پر کئی ہفتے مسلسل عرق ریزی کے بعد فقہ کی اصطلاح میں ’نوازل‘ میں سے اس ایک مسئلے پر فتویٰ دیا ہے۔ امنِ عامہ، عدالت، صحافت، عسکریت، مواصلات، زراعت، ثقافت، بلدیہ، شہر سازی، صنعت و حرفت اور ان کے علاوہ درجنوں دیگر معاملات سے امارتِ اسلامیہ ایسے نبرد آزما ہے جس طرح کسی جنگ میں ایک سپاہی چہار اطراف سے دشمن کی یلغار کا سامنا کر رہا ہو۔ تنقید آسان ،لیکن حکومت داری نہایت دشوار کام ہے۔ ہاں ہماری مراد یہ نہیں کہ تعمیری تنقید بھی نہ ہو، بلکہ شریعت کی روشنی میں، اسلامی آداب کی رعایت کرتے ہوئے تعمیری تنقید برائے اصلاحِ احوال اور امیر کو نصیحت تو شرعی فریضہ ہے، ایک ایسا فریضہ کہ جسے اگر استطاعت کے باوجود ادا نہ کیا گیا تو دنیا میں عامۃ المسلمین اور آخرت میں اللہﷻ کے یہاں پکڑ کا خدشہ ہے اور آدابِ تنقید و نصیحت میں سے ایک اہم ادب مسئلے یا خرابی کے بقدر سراً یا جہراً بات کا پہنچانا ہے اور اس میں بھی جید علمائے کرام سے پوچھنا چاہیے۔

بجا کہ حق گوئی رکنِ دیں ہے، مگر نہ ایسی کہ زہر گھولو
ہو گفتگو گر بِنائے فتنہ، تو اس سے بہتر ہے کچھ نہ بولو

الغرض پوری دنیا میں محض ایک شرعی اسلامی حکومت ہے جہاں اقامتِ صلاۃ و حصولِ زکاۃ کا نظام قائم ہے، جہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سرکاری سطح پر سرکاری سرپرستی میں ہوتا ہے، جہاں حدود اللہ نافذ ہیں، قصاص و دیتِ شرعی اور حجابِ شرعی نافذ ہے۔ ایسی ہی حکومت کے بارے میں اللہ ﷻ نے فرمایا (نحسبھا کذلك والله حسيبها ولا نزكي على الله أحدا):

اَلَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ؀ (سورۃ الحج: ۴۱)

’’ یہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر ہم ان کو دنیا میں حکومت دے دیں تو یہ لوگ (خود بھی) نماز کی پابندی کریں اور زکاۃ دیں اور دوسروں کو (بھی) نیک کاموں کے کرنے کو کہیں اور برے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام تو خدا ہی کے اختیار میں ہے۔ ‘‘ (ترجمہ از حضرت تھانویؒ: بیان القرآن)

اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ اس آیتِ کریمہ کے مصداق حضراتِ خلفائے راشدین (رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین)ہیں، جنہوں نے دینِ ایزدی کو یزدانِ واحد کی زمین پر نافذ فرمایا۔ ان خلفائے راشدین کی صفت ہے کہ جب انہیں زمین پر اقتدار حاصل ہوا تو انہوں نے نماز کو قائم کیا، زکاۃ ادا کی، امر بالمعروف یعنی نیکی کا حکم دیا اور نہی عن المنکر یعنی برائی سے روکا۔ مفسرینِ کرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس آیت میں ایک حکمِ عام بھی ہے کہ جنہیں اقتدار حاصل ہو تو وہ نماز کو قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا التزام کریں6۔

اور آج جس امارتِ اسلامیہ کو یہ حکومت حاصل ہوئی اور انہوں نے نماز و زکاۃ و امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا نظام قائم کیا ہے تو اس حکومت تک ان کی رسائی بھی منہجِ قرآنی کے مطابق ہوئی ہے۔ سورۃ الحج کی آیتِ مذکورہ سے پہلے کی دو آیات بھی ملاحظہ ہوں:

أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ۝ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيراً وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ۝(سورۃ الحج: ۳۹، ۴۰)

’’ لڑنے کی ان لوگوں کو اجازت دی گئی جن سے (کافروں کی طرف سے) لڑائی کی جاتی ہے اس وجہ سے کہ ان پر (بہت) ظلم کیا گیا ہے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان کو غالب کردینے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ (آگے ان کی مظلومیت کا بیان ہے) جو اپنے گھروں سے بےوجہ نکالے گئے محض اتنی بات پر کہ وہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ تعالیٰ (ہمیشہ سے) لوگوں کا ایک کا دوسرے (کے ہاتھ) سے زور نہ گھٹواتا رہتا تو (اپنے اپنے زمانے میں) نصاریٰ کے خلوت خانے اور عبادت خانے اور یہود کے عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) وہ مسجدیں جن میں اللہ کا نام بکثرت لیا جاتا ہے سب منہدم ہوگئے ہوتے۔ بے شک اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گا جو (الله کے دین) کی مدد کرے گا ۔ بے شک اللہ تعالیٰ قوت والا (اور) غلبے والا ہے، وہ جس کو چاہے غلبہ دے سکتا ہے۔ ‘‘(ترجمہ از حضرت تھانویؒ: بیان القرآن)

ان آیات پر ذرا غور فرمائیے۔ امریکہ غاصب اہلِ افغانستان پر حملہ آور ہوا اور مجاہدین نے طاغوتِ اکبر کے خلاف جہاد کیا۔ اہلِ افغانستان کو ان کے گھروں سے اس لیے نکالا گیا، ان کی امارتِ اسلامیہ کی اینٹ سے اینٹ اس لیے بجا دی گئی کہ انہوں نے اپنے قائد امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد کے ساتھ یک زبان ہو کر کہا ’ رَبُّنَا اللَّهُ‘، اللہ ہمارا رب ہے، اسی کی شریعت، اس اللہ کی زمین پر قائم ہو گی۔ یہ اپنے گھروں اور حکومتی ایوانوں سے نکالے تو گئے لیکن ان کو تو جہاد و قتال کی اجازت و حکم دیا گیا تھا، فلہٰذا یہ حکم جہاد پر ڈٹ گئے۔ انہوں نے ’من انصاری الی اللہ‘ کا جواب دیا کہ ’نحن انصار اللہ‘ اور پھر اللہ کے دین کی نصرت میں جہاد فی سبیل اللہ میں جُت گئے۔ پھر یہ منظر ہویدا ہوا ’ وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ‘، نصرِ رب ساتھ لیے فتح کا دن آتا ہے! اب فتح ملی تو’ اَلَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ‘ کا منظر سج گیا۔

امارتِ اسلامیہ افغانستان (أیدہا اللہ وأعزہا)ایک شرعی حکومت ہےجو ان شاء اللہ خلافۃ علی منہاج النبوۃ کی تمہید ہے، خلافۃ علی منہاج النبوۃ کا سنگِ افتتاح، سنگِ بنیاد!حکیم الامت، فضیلۃ الشیخ ابو محمد ایمن الظواہری کے بیان کردہ منہجِ شرعی کے مطابق ’عمومی ہدایات برائے جہاد‘7 کے تناظر و تعبیر میں دیکھیے تو یہ امتِ مسلمہ کی پہلی فتح ہے۔ ثم امارتِ اسلامیہ افغانستا ن ہی کی طرز پر، منہجِ شرعی پر عمل پیرا ہو کر ایسی ہی بہت سی امارتیں قائم ہو جائیں۔ پاکستان، صومالیہ، یمن، مالی، شام وغیرہ اور پھر یہ امارتیں ایک اتحاد کی صورت میں سامنے آئیں اور یہ اتحاد خلافت علی منہاج النبوۃ کی بلند و رفیع عمارت ہو۔

اس ساری تمہید کا مقصد یہ تھا کہ امارت میں بھی کمیاں اور کوتاہیاں ہو سکتی ہیں، لیکن حدیث شریف کے حکم کے مطابق شریعت پر عامل بڑوں کی چھوٹی موٹی غلطیوں سے صرفِ نظر کرنا چاہیے، امّاں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’أَقِيلُوا ذَوِى الْهَيْئَاتِ عَثَرَاتِهِمْ إِلاَّ الْحُدُودَ‘‘، یعنی ’’ صاحبِ حیثیت اور محترم وبا وقار لوگوں کی لغزشوں کو معاف کردیا کرو سوائے حدود کے ‘‘8۔نصیحت کے متعلق وضاحت ہم پچھلی سطور میں لکھ آئے ہیں، تکرار کی ضرورت نہیں۔ لہٰذا امارتِ اسلامیہ کے نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حکومت داری کے مسائل میں امارتِ اسلامیہ کے امرائے کرام شرعی اولوالامر ہیں اور جدید مسائل کے معاملے میں وہ علمِ شرعی کی روشنی میں مجتہد بھی ہیں۔ ان کا ہر معروف حکم ماننا امارتِ اسلامیہ کی رعایا اور امارت کے مامورین پر واجب ہے۔

فلہٰذا اس سلسلۂ تحریر میں ہم امارتِ اسلامیہ کے نظام کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے، دشمن کے پروپیگنڈوں کے رد کی کوشش کریں گے اور امارتِ اسلامیہ کے شرعی مواقف کے دفاع کی کوشش بھی، ظاہر ہے کہ یہ بیان ہمارے مشاہدے اور نہایت اول درجے کے طالبِ علم کے طور پر ہوگا۔

یہ تحریر دراصل ایک خواب تھا جسے تعبیر کا جامہ ملتے ملتے کئی سال لگ گئے(کچھ حال آپ ’پہلی بات‘ میں پڑھ چکے ہوں گے)۔ گوناگوں انتظامی و جہادی مصروفیات اور مستقل علالت کے سبب یہ تحریر قرطاس پر منتقل نہ ہو سکی۔یہ تحریر شاید اب بھی قرطاس پر جلدی منتقل نہ ہوتی لیکن دنیا کے حالات اور امارتِ اسلامیہ کی نصرت اور دفاع کے فریضے نے راقم کو اس تحریر کو لکھنے پر مجبور کر دیا۔ کوشش ہے کہ ماہانہ نہیں تو کم از کم دو ماہی بنیاد پر بتوفیق اللہ و منتہٖ کچھ نہ کچھ لکھا جاتا رہے، قارئینِ کرام سے خصوصی دعاؤں کی گزارش ہے!

راقم نے ابتدائے جوانی میں مولانا مقصود احمد صاحب شہید رحمۃ اللہ علیہ9 کی کتاب ’میں نے کابل بستے دیکھا‘ پڑھی تھی۔ اس کے علاوہ نوجوانی میں مجلّہ ’نوائے افغان جہاد‘ میں مولانا ابو بکر صاحب کا ’امارتِ اسلامیہ کے فیصلے‘ نامی سلسلہ بھی دیکھا تھا۔ یہ تحریرات دیکھ کر راقم کو یونہی محسوس ہوتا رہا گویا راقم امارت کے اسی زمانے میں پہنچ گیا ہے اور امارت کے اقدامات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ثم حركة الشباب المجاهدين صومالیہ کے نشریاتی ادارے ’الکتائب‘ کی ۲۰۱۱ء میں نشر کردہ دستاویزی فلم ’Under the Shade of Shariah‘ اور اولاً مذکورتحریرات سے بتوفیق اللہ یہ جذبہ پیدا ہوا، جس کی پہلی شکل آپ کے سامنے ہے۔ پچھلی سطور میں اس تحریر کو لکھنے کا مرکزی خیال اور داعیہ کچھ نہ کچھ بیان ہوا ہے، پس اسی سلسلے میں اس نئی تحریر کا نام مولانا مقصود شہید کی کتاب سے اخذ کر کے ’میں کابل بستے دیکھ رہا ہوں‘ آج سے تین برس قبل رکھا گیا ۔

و من اللہ التوفیق!

حسن ترابی

ہندو کُش

۲۶ جمادی الاول ۱۴۴۴ھ ق ؍ ۲۹ قوس ۱۴۰۱ ھ ش؍ ۲۰ دسمبر ۲۰۲۲ء

٭٭٭

پہلا باب

حقوق و تعلیمِ نسواں

چونکہ یہ تحریر ایک منظم کتاب نہیں رہی اور جیسا کہ راقم پچھلی سطور میں لکھ آیا ہے’ دنیا کے حالات اور امارتِ اسلامیہ کی نصرت اور دفاع کے فریضے نے راقم کو اس تحریر کو لکھنے پر مجبور کر دیا ‘ تو آج دسمبر ۲۰۲۲ء میں بظاہر سب سے گرم موضوع ’حقوق و تعلیمِ نسواں‘ کے موضوع سے آغاز کرنے کا ارادہ کیا ہے۔

اللّٰھم وفقني کما تحب وترضی والطف بنا في تیسیر کل عسیر فإن تیسیر کل عسیر علیك یسیر، آمین!

قدیم جاہلیت میں عورت کا مقام

زمانۂ قدیم کی جاہلیت (جس میں ہم عرب کے بت پرست معاشرے، ایران کی تہذیب، ہندوستان کے ہندومت و بدھ مت، چینی روایات، یونان کے فلسفوں اور شرکیات کے تصورات، عیسائی یورپ اور یہودیت وغیرہ کو شامل کر رہے ہیں) میں عورت کی حیثیت پالتو جانور کی سی تھی۔ اس کو کوئی کیسا ہی چاہے استعمال کرے، سب قانوناً، تہذیباً و اخلاقاً روا تھا۔ عورت چاہے ماں ہی کیوں نہ ہو وہ بھی مرد کے مرنے پر وراثت کی صورت بیٹوں میں تقسیم ہو جاتی تھی۔ ایران میں جب مزدکی افکار نافذ تھے تو انسانوں کو اس قدر ’آزادی‘ حاصل تھی کہ جب کسی مرد کا جی چاہتا وہ کسی بھی گھر میں گھس جاتا اور اس گھر میں جس بھی عورت کے ساتھ جو بھی چاہتا کرتا، بلکہ چاہتا تو عورت کو اپنے ساتھ ہی لے جاتا، گھر کے مرد اعتراض نہ کرتے کہ یہ ان کی آزادی کے خلاف تھا اور یہ مرد بھی تو دوسروں کے گھروں میں گھس کر یہی سب کیا کرتے، معاشرے کی حالت اس قدر تباہ کن تھی کہ یہ معلوم نہ تھا کہ کس عورت کے یہاں کس مرد کا بچہ پیدا ہورہا ہے، بدکاری اس قدر عام تھی اور عورت اس قدر ارزان۔ مزدکی افکار جو دراصل جدید اشتراکیت کی اصل ہیں کہ مطابق تین ’ز‘ کو انسانوں میں برابری سے تقسیم کردینا چاہیے، یعنی زر، زمین اور زن؛ یعنی زن انسان نہیں تھی۔ ہندوستان میں عورت (ماضی قریب تک)ستی کی جاتی تھی، بدھ مت و ہندو مت کی مذہبی کتابوں میں عورت سے ہر قسم کی برائی منسوب کی جاتی تھی اور یہ سب آج بھی کتابوں میں موجود ہے۔ حتیٰ کہ انگلستان میں حالت یہ تھی کہ عورت’ بنیادی انسانی حقوق‘ سے محروم تھی، اس کو مطلقاً پڑھنے لکھنے کی اجازت نہ تھی، حقیر سمجھی جاتی تھی اور اس کو صرف ادنیٰ درجے کی مزدوری کرنے کی اجازت تھی 10 ۔ یہودیوں کے یہاں حیض و نفاس کے ایام میں عورتوں کو گھروں سے الگ جانوروں کے کمروں یا اس طرح کے مساوی کمروں وغیرہ میں رکھا جاتا۔ یونان میں عورتیں آبادیوں سے دور کم کھڑکیوں والے مکانوں میں کڑے پہرے میں ٹھہرائی جاتیں۔ چین میں انہیں عمداً نازک جسم رکھا جاتا اور ان کے پاؤوں کو خاص گول شکل دی جاتی جس کے سبب وہ چلنے پھرنے سے ہی عاری ہو جاتیں۔ عرب میں نومولود سے لے کر جوان لڑکیوں تک کو زندہ درگور کرنے کا رواج عام تھا۔11

جدید جاہلیت میں عورت کا مقام

قدیم جاہلیت تو ایسی تھی، آج کی جدید جاہلیت کو کسی مذہبی نظر سے نہ دیکھیے، عقلی نظر ہی سے دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ آج بھی عورت ماضی کے تعصب اور حقارت کا شکار ہے۔ عورت کی معاشرے میں حیثیت انسان کی نہیں بلکہ ایک قابلِ تصرف شئے کی ہے، جس کا استعمال کیا جاتا ہے بلکہ استحصال کیا جاتا ہے۔ جدید جاہلیت قدیم جاہلیت سے بدتر ہے! عقلی طور پر سوچیے کہ کیا ایک خوبصورت مرد جب باہر معاشرے میں نکلتا ہے تو وہ مردوں یا عورتوں کی نظروں کا مرکز بنتا ہے؟ عموماً نہیں! لیکن ایک عورت مستور ہو کر بھی باہر نکلے تو اس پر نظریں پڑتی ہیں۔ تو جو عورت غیر مستور ہو کرباہر نکلے اس کو کس کس زاویے اور کس کس نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا؟ سیّد قطب شہیدؒ نے اپنے مضمون ’The America I Have Seen؍أمريكا التى رأيت‘ میں امریکی عورت کا نقشہ قدرے بے باکانہ انداز میں بیان کیا ہے اور سیّد قطب کی یہ تحریر امریکی معاشرے میں عورت کے مقام اور اس کی حیثیت اور اس کے ’استعمال‘ کو ظاہر کرتی ہے،امریکی معاشرہ یعنی نئی دنیا ’نیو ورلڈ‘ کی معراج!

چراغِ خانہ فانوسِ خانہ میں سو رنگوں اور روشنیوں میں جلوہ افروز ہو، اچھا لگتا ہے اور حفاظت سے رہتا ہے۔ لیکن جب شمعِ انجمن بن جائے تو سر کے بالوں کے رنگ سے پاؤں میں پڑی پازیب تک سبھی ’پبلک پراپرٹی‘ ہوتی ہے۔ آج مغربی دنیا میں عورتوں کے لیے ضابطے کا لباس کھلے گلے اور برہنہ ٹانگیں ہیں جبکہ مرد کا چہرہ اور ہاتھوں کے علاوہ سب مستور ہوتا ہے، گلے کی انتہا تک نک ٹائی اور پاؤں بوٹوں میں بند، کف کلائی تک۔ اولڈ ورلڈ آرڈر میں ظلم بے ضابطگی کے ساتھ کیا جاتا تھا، نیو ورلڈ آرڈر نے اسی چنگیزیت کو جمہوریت کہہ دیا ہے۔ پہلے ہوسِ ملک گیری میں بادشاہت کار فرما ہوتی تھی اب آئزن ہوور سے جارج بش تک اپنی اقدارِ آزادی، ترقی اور مساوات اور اپنے لائف سٹائل میں وہی جنگیں مسلط کرتے ہیں۔کبھی سوچیے کہ ہر دفتر میں ہر صاحب کی سیکرٹری عورت کیوں ہوتی ہے؟مردوں کے لیے گاڑیوں کے جی پی ایس سسٹم کیوں عورت کی آواز میں ہدایات کے ساتھ مُشکّل (configured) ہوتے ہیں۔ اشتہار داڑھی مونڈنے والے بلیڈ کا ہے لیکن ساتھ میں عورت، ہیوی بائیک مرد نے چلانی ہے لیکن واہیات لباس میں پیچھے عجیب سی سِیٹ پر (جس پر مرد بھی بیٹھ کر عذاب کا شکار ہو وہاں)عورت، پر تعیش اور بڑے انجنوں والی گاڑیاں مرد ہی چلاتے ہیں لیکن ان کے بونٹ کے ساتھ یا بونٹ پر لیٹی عورت ہے۔ سیکڑوں ایسی صنعتیں آج دنیا میں موجود ہیں جن کا تصور دو سو سال قبل نہیں کیا جاسکتا تھا، ان سب کا محور عورت ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ عورت کے جسم کے ہر ہر عضو کو بازار میں نیلام کیا جا رہا ہےاور اسے اچھے اچھے عنوانات سے سجا کر بیچ رہے ہیں۔ آج یوکرین کی جنگ میں جنگ سے بھاگے پناہ گزینوں (refugees)کے لیے یورپی لوگ اپنے گھر پیش کر رہے ہیں، لیکن یورپی ذرائع ابلاغ ہی بیان کر رہے ہیں کہ یورپی مرد (خاص کر انگلستانی مرد) صرف عورتوں سے ہمدردی کے اشتہارات اور ان کی کفالت کا اعلان کرتے ہیں، پھر ان کو گھروں میں لا کر جنسی غلام بنا لیتے ہیں (پناہ دینے کے اشتہارات میں عورتوں کی عمر کی بھی حد بندی ہے)۔ #MeToo تحریک میں کتنے مرد سامنے آئے ہیں جن کا جنسی استحصال کیا گیا، یہ عورتیں ہی ہیں جو use بھی ہو رہی ہیں اور abuse بھی ۔ قحبہ گری عام ہے، مکانوں اور اڈوں پر نہیں ہر سمارٹ فون، ہر کمپیوٹر قحبہ گری کا اڈا ہے اور جسم فروش بے چاری عورت ہی ہے۔ مخلوط اور جدید تعلیمی نظام نے معاشرے کو بنیادوں سے اکھاڑ دیا ہے، ماضی میں لڑکیوں کے گھروں سے بھاگنے کے واقعات نہایت قلیل تھے، اب تو عورت کو بے راہ کر کے بھگانے کی بھی ضرورت نہیں، عورت اپنے تمام ’رائٹس‘ کے ساتھ باپ کے گھر میں رہ سکتی ہے اور آشنائی بھی کر سکتی ہے۔ آپ نے کہنے کو اس ہندوستانی ’مسلمان‘ لڑکی کی ویڈیو شاید کہیں سوشل میڈیا پر دیکھی ہو جو کہتی ہے کہ ’لڑکی کو حق ہے کہ جس کے ساتھ چاہے ، جیسے چاہے جی سکتی ہے، وہ چاہے تو شادی کر کے شوہر کے ساتھ گھر میں بوائے فرینڈ بھی رکھ سکتی ہے، It’s her life, it’s her choice!‘۔

ا س سب بے باکی پر ہمیں عذر دیجیے، میرا جسم میری مرضی تو ابتدا ہے، دنیا بھر میں یہ منڈی اب چوپٹ کھلتی ہے،جس میں دیوث بڈھے جو شاید وہیل چیئروں پر گھسیٹ کر لائے جاتے ہیں عورتوں کا ہر رنگ و زاویے سے تجزیہ کرتے ہیں۔ اس تحریکِ نسوانیت ؍ فیمن ازم کی مادر پدر آزاد لغویات کا تو ذکر بے کار ہے، ’اپنا کھانا خود گرم کر لو‘ اور ’چائے خود بنا لو‘ میں بظاہر کوئی مضائقہ نہیں۔ دسیوں وجوہات کے سبب کوئی بھی عورت وہ ماں ہو، بہن ہو یا بیٹی ہو یا انہی تین رشتوں میں جڑے ہونے کے ساتھ کسی کی بیوی ہو، وہ اپنے گھر میں یہ سبھی کام اپنے شوہر کو کہہ سکتی ہے، حتیٰ کہ سخت بات کہہ سکتی ہے بلکہ غصے کا اظہار اور شکوہ بھی کر سکتی ہے12۔ لیکن اسی کو نعرہ بنا دینا، عورت ہر وہ کام کرے جو مرد کرتا ہے اور مرد ہر وہ کام کرے جو عورت کرتی ہے، کھانا گرم کرنے سے بچوں کے ڈائپر بدلنے تک، معاشرے کے کتنے ہی مرد یہ کام کرتے ہیں، اس سب کو تحریک بنا دینے سے صرف ایک نتیجہ نکلتا ہے اور وہ ہے بنیادی انسانی اکائی (unit) یعنی ’گھر‘ کا ٹوٹنا۔ خود مغربی مفکرین نے آج سے دہائیوں قبل ’ویمن ایمپاورمنٹ‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا اور بولا ہے کہ ’صنفی مساوات اور عورتوں کو فلموں، ڈراموں، کہانیوں میں کلیدی یا مرکزی کردار دکھانے کا مقصد معاشرے میں بنیادی انسانی اکائی (basic human unit of society) توڑنا ہے‘ اور یہ نتیجہ ہم صبح و شام ملاحظہ کر رہے ہیں۔

گو کہ یہ تمہیدی کلمات کافی طویل ہو گئے ہیں، لیکن عورت کی آزادی کے نام پر غلامی اور انسانی معاشرے کو توڑنے والی تہذیب چاہے وہ جاہلیتِ قدیمہ ہو یا جدیدہ کا بیان پچھلی سطور میں نہایت عامیانہ انداز میں مختصر ہی کیا گیا ہے۔

امارتِ اسلامیہ کے ۲۰۲۱ء میں قیام سے قبل افغانستان کی صورتِ حال

عورت کی گود وہ جگہ ہے جہاں انسانیت نے ہمارے والدآدم علیہ السلام اور والدہ حضرتِ حوا علیہا السلام کے علاوہ جنم لیا۔ انبیاء، صدیقین، شہداء و صالحین سبھی عورت سے پیدا ہوئے۔ دنیا کی چار معزز ترین عورتوں کو دیکھیے۔ آسیہ علیہا السلام کی گود میں فرعون کو تباہ کرنے والے موسیٰ علیہ السلام پلے۔ حضرتِ مریم علیہا السلام کی کوکھ سے مسیحِ عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔ حضرتِ خدیجہ رضی اللہ عنہا، بعد از خدا بزرگ و برتر (صلی اللہ علیہ وسلم)کی شریکِ حیات ہیں اور ایک اور بہترین عورت کی ماں بھی۔ سیّدۃ نساء اہل الجنۃ حضرتِ فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرتِ علی کرم اللہ وجہہ کی زوجہ ہیں اور سیّدا شباب اہل الجنۃ حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی ماں ہیں اور حضرتِ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل تا قیامت جاری و ساری ہے۔

انہی عورتوں کی گود میں ابنِ قاسم جنم لیتے ہیں، طارق بن زیاد و صلاح الدین تا ملا عمر ، اسامہ بن لادن و ایمن الظواہری انہی ماؤں کی گودوں میں پلتے ہیں اور بڑے ہو کر دنیا کی تاریخ بدل دیا کرتے ہیں۔

امارتِ اسلامیہ افغانستان، اسلام کی پابند ایک حکومت ہے۔ اسلام میں عورت کے مقام کو قرآن و سنت نے واضح کیا ہے۔ عورت کے حقوق بھی بتائے ہیں اور واجبات بھی۔ سلف و خلف کے سیکڑوں علمائے کرام کی سیکڑوں تصنیفات و تالیفات اس موضوع پر موجود ہیں اور ان تصنیفات و تالیفات سے بڑھ کر مردوں کا عورتوں کے ساتھ تعامل اور عورتوں کا مسلمان معاشرے میں صرف رسولِ محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے آج تک نہیں، بلکہ آدم علیہ السلام کی پیدائش سے ان کے ساتھ حضرتِ حوا علیہا السلام کی موجودگی سے آج تک مسلمان خواتین کا کردار زندۂ جاوید ہے۔

عورت معاشرے کا ایک کلیدی کردار ہے۔ کہیں اس کردار کی اہمیت مرد سے کم ہے، کہیں برابر تو کہیں مرد سے بڑھ کر۔ ایک محترم داعیٔ دین سے سوال پوچھا گیا کہ ’کیا اسلام میں عورت کا مقام مرد کے مساوی (equal)ہے؟ ‘ تو ان محترم داعیٔ دین نے بڑا ہی خوبصورت جواب دیا کہ ’عورت اور مرد کے مقام کو اسلام نے ’’متوازن‘‘(balance) کر دیا ہے‘۔ اس کائنات میں ہر شئے ایک توازن کے ساتھ موجود اور قائم ہے، بقولِ اقبالؒ:

ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا، کوئی چھوٹا، یہ اس کی حکمت ہے

نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں

پانی ہوا کے برابر نہیں اور ہوا پانی کے برابر نہیں، دشت اپنی جگہ اچھے اور بن اپنی جگہ بھلے۔پھر عقل کے مارے کہیں گے کہ عورت کی مثال میں بے جان چیزیں پیش کر دیں۔ کیا امریکی صدر اور امریکی سی آئی اے کا سربراہ برابر ہیں؟ یہ دونوں مرد ہیں لیکن ان کے حقوق بھی اور ہیں اور واجبات بھی اور۔ یہ نظامِ کائنات ایسے ہی چلتا ہے، متوازن، بیلنس کے ساتھ۔

یہاں مکرر عرض ہے کہ امارتِ اسلامیہ افغانستان کے نظام و کردار کے بیان کے دوران اس تحریر میں ہمارا معیار حسبِ استطاعت اسلامی احکام و آداب و اخلاق و تعامل ہے اور عقل و معاشرے کی اقدار اور عرف و طریقے بھی۔

امارتِ اسلامیہ افغانستان، جب ۱۵ اگست ۲۰۲۱ء کو پورے افغانستان میں قائم ہوئی تو افغانستان میں بھی عورتوں کے استعمال و استحصال کے طریقوں میں باقی دنیا کی نسبت کوئی ممتاز فرق نہ تھا۔ بلکہ افغانستان میں اب تک قدیم جاہلیت کے بھی براہِ راست بعض اثرات موجود تھے ۔ کسی زمانے میں شہرِ کابل کو ایشیا کا پیرس کہا جاتا تھا۔ جو لوگ پیرس کی ’صفات‘ سے واقف ہیں وہ خوب سمجھ سکتے ہیں کہ کابل کو پیرس کیوں کہتے تھے۔ افغانستان ہپیوں کا مرکز رہا ہے اور Hippie Trail کی ایک اہم گزرگاہ۔ یہاں کا بادشاہ امان اللہ خان وہ پہلا بے دین و لادین شخص تھا جس نے عورتوں کو (جدید معنوں میں)’آزاد‘ کیا۔ ساتھ میں اس کی بیوی ملکہ ثریا بھی لادین و آزاد خیال و غیر مستور عورت تھی، جس نے ’عورتوں کے حقوق‘ کے لیے افغانستان میں بہت سا کام کیا۔ امان اللہ خان نے افغانستان کی سیاست و ثقافت اور معاشرت کو مغربی ڈگر پر ڈالنے کی کوشش کی۔ عورتوں کو گھروں سے نکالا اور ہر اس جگہ پر عورتوں کو لایا گیاجہاں آج مغربی تہذیب حیوان نما مردوں کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے عورتوں کو لائی ہے۔ پردہ دار افغان معاشرے کی عورتیں تنگ پتلون شرٹوں، شارٹ سکرٹ ، حتیٰ کہ منی سکرٹوں میں بازاروں، اداروں اور یونیورسٹیوں میں لائی گئیں۔ بعد ازاں افغانستان میں روس کے حملے اور پسپائی تک ایسے ہی حالات رہے۔امارتِ اسلامیہ افغانستان کو اپنے پہلے دور (۱۹۹۶تا ۲۰۰۱ء) میں بھی ان برائیوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن جلد ہی ان برائیوں کے مظاہر پر قابو پا لیا گیا ۔ برائی کے زیادہ نہ پنپنے کا ایک اہم سبب جدید میڈیا اور مواصلاتی ٹیکنالوجی کا نہ ہونا تھا۔ ۲۰۰۱ء میں شریعتِ اسلامیہ کو معطل کرنے اور اپنے لائف سٹائل اور آزادی، مساوات و ترقی کے فاسد سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کو نافذ کرنے کے لیے افغانستان پر امریکہ نے حملہ کردیا۔ پھر ۲۰۰۱ تا ۲۰۲۱ء ، بیس سال تک جدید مغربی جاہلی ثقافت کو افغان ثقافت کے ملاپ (blend) کے ساتھ قائم کیا اور رکھا گیا۔ کابل و قندھار اور مزار و ہرات میں عورتوں کو پھر زینتِ محفل و بازار بنایا گیا اور شہروں کے بعض مقامات پر چلتے ہوئے ایسا گمان ہوتا تھا گویا افغانستان نہ ہو یورپ ہو۔ میرے ایک دوست نے کہا ’شریعت کا حکم تو عورتوں کے مقابل غضِ بصر کا ہے لیکن عورتوں کی بے حجابی بلکہ فحاشی اس درجے کو پہنچی ہوئی تھی کہ بعض علاقوں میں اگر کوئی عورت بالکل سامنے آ جائے تو نیچے اس کے پاؤوں اور ٹانگوں کی طرف دیکھنا شکل دیکھنے سے زیادہ بڑا فتنہ تھا‘۔ مخلوط یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کا ماحول اور اگر کمرۂ درس مخلوط نہ بھی تھا تو بھی ان تعلیمی اداروں کا عمومی ماحول ایسا بنا دیا گیا کہ بڑی یونیورسٹیوں میں لڑکے لڑکیاں جوڑا جوڑا (couple)بن کر گھومتے۔ ایک دری زبان پنج شیری افغان ٹوئٹر صارف کے مطابق یونیورسٹیوں میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ علومِ شرعیہ پڑھنے والے طلبہ و طالبات دن میں قرآن و حدیث و فقہ و قضاء پڑھتے اور رات کو بدکاری کیا کرتے تھے13۔

حتیٰ کہ افغانستان کے مسلم معاشرے میں عورتوں کی ذہنیت اس قدر بدل دی گئی اور فطرت اس قدر مسخ کر دی گئی کہ کابل کی سڑکوں پر بعض لا دین عورتوں نے امارتِ اسلامیہ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے حجاب کو آگ لگائی ، حالانکہ اس وقت امارتِ اسلامیہ کی وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر نے حجاب کو امراً نافذ نہیں کیا تھا۔

طالبان اور طالبان کی خواتین کی عائلی زندگی

افغانستان کے معاشرے میں امریکہ نے جدیدیت کا تڑکا تو لگایا لیکن یہاں کی معاشرت میں عموماً عورتوں پر بہت سختی کی جاتی ہے۔ افغانستان کے قصبوں اور دیہاتوں میں دورانِ جہاد راقم کو کئی ایسے مواقع کا علم ہوا جہاں افغان عورتیں کسی عام افغان کی نسبت طالب یا مجاہد سے شادی کرنے کی خواہش کا اظہار کرتیں۔ اور اس کا سبب مجاہدین یا طالبان کا خوش اخلاق ہونا تھا۔ افغانستان کے دیہاتوں کی زندگی بہت سخت ہوتی ہے۔ کنوؤں، چشموں، چھوٹی نہروں یا ٹیوب ویلوں سے پانی بھر بھر کر ڈھونا، گائے بکریاں وغیرہ سنبھالنا، لکڑی یا گوبر کے اوپلوں پر کھانا اور روٹی پکانا، کھیتوں میں کام کرنا، مستقل مہمانداری، گھر کا انتظام، حتیٰ کہ زیرِ رہائش مکان کی مرمت، چھتوں کی لپائی، سردیوں میں چھتوں اور گھروں میں موجود چبوتروں سے برف ہٹانا اور پھر گھروں کو گرم رکھنے کے لیے تاؤ خانہ 14جلانا یعنی ثم گرمی و سردی کے موسموں کی تلخی وغیرہ بھی۔ اتنے مستقل کاموں کے ساتھ اگر شوہر اچھے اخلاق کا مظاہرہ بھی نہ کرے تو زندگی واقعی عذاب بن جائے۔

پھر راقم نے اپنی محرم خواتین کے ذریعے کئی ایک طالبان کے گھر کی عورتوں سے پوچھاتو انہوں نے گھر اور خاندان کے دیگر مردوں کے مقابلے میں گھر کے ان مردوں جو مجاہد یا طالب بھی تھے کے عالی اخلاق ہونے کی گواہی دی۔ خود راقم نے بھی جن مجاہدین کے ساتھ براہِ راست تعامل کیا تو ان کو ان کی بیویوں اور گھر کی عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والا پایا۔

افغان معاشرے میں کئی جگہوں پر ’بیٹیوں‘ کی پیدائش کو اب بھی عار سمجھا جاتا ہے، بیٹیاں ہی پیدا کرنے والی عورتوں کو بھی حقیر جانا جاتا ہے کہ افغانستان بنیادی طور پر ایک قبائلی معاشرہ ہے اور قبائلی معاشرے میں قوت کا نشان بھائی، بیتے، بھتیجے ہوتے ہیں۔ یوں عام افغانوں کے مقابلے میں طالبان اپنی بیٹیوں سے محبت کرنے والے اور ان کی پیدائش پر خوش ہونے والے ہوتے ہیں۔ بلکہ صوبۂ زابل کے علاقے خاکِ افغان میں راقم نے مشاہدہ کیا کہ وہاں ایک طالب مجاہد جن کا نام حاجی داود تھا کی جواں سال بیٹیاں بھی صبح دیر تک سوتی رہتیں۔ افغان معاشرے میں عموماً صبح کے وقت بعد از فجر سویا نہیں جاتا اور عورتوں کے لیے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ انہوں نے بہت سے گھر داری کے کام کرنا ہوتے ہیں۔ لیکن حاجی داود صاحب کی بیٹیاں دیر گئے تک سوتیں، پوچھنے پر حاجی داود کی اہلیہ نے بتایا کہ یہ اپنے باپ کی بہت چہیتی اور لاڈلی ہیں، باپ ان کو کہتا ہے کہ صبح آرام سے اٹھا کرو۔ اسی طرح جیسے کئی دیگر معاشروں میں جس عورت کے یہاں اولاد نہ ہوتی ہو تو اس کی عزت نہیں ہوتی، افغان معاشرے میں بھی یہ چیز پائی جاتی ہے۔ البتہ راقم نے مشاہدہ کیا کہ طالبان اپنی ایسی بیویوں کے ساتھ عزت سے پیش آتے ہیں(جو ان کا حق ہے کہ ان کا نقص ان کا اپنا پیدا کیا ہوا نہیں ہے، اللہ ہی کی حکمتِ بالغہ کے مطابق تخلیق ہے)۔

شہروں میں جاہلی تہذیب کے اثرات کے سبب افغانستان میں بھی عورتوں کو گھورنے، تاڑنے یعنی بد نظری کا مرض پایا جاتا ہے۔ لیکن افغان عرف و روایات اور دین داری کے سبب افغانستان کے دیہی علاقوں (جو شاید افغانستان کا رقبے کے لحاظ سے نوّے فیصد اور آبادی کے لحاظ سے دو تہائی ہوں) میں دوسرے کی عورت کو نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ سِرے سے دیکھا ہی نہیں جاتا۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی مناسب ہو گا کہ افغانستان کی اکثر خواتین گھر سے باہر نکلتے وقت چادرے؍ چادور (ٹوپی برقعہ) یا بڑی چادر سے اپنے آپ کو ڈھانپتی ہیں، یا عرب انداز کا وہ برقعہ اوڑھتی ہیں جو برِّ صغیر میں بھی عام رائج ہے، سوائے ان ’ایک‘ فیصد عورتوں کے جن کو مغربی افکار و ثقافت نے اتنا بے حیا بنا دیا کہ وہ بے حجاب ہو کر بلکہ بعض فحش لباس میں باہر نکلنے کی جرأت کرتی ہیں۔

طالبان کا اپنی عائلی زندگی میں اچھا ہونا، دین داری کے سبب ہے۔ جس کا دین جتنا اچھا ہو گا وہ اتنا ہی با اخلاق ہو گا۔ عورتوں کے ساتھ حسنِ اخلاق کے موضوع پر علماء و صوفیہ کی سیکڑوں کتب موجود ہیں جن میں قرآن و حدیث کے احکام بیان کیے گئے ہیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مبارک زندگی کے ہر اہم موقع پر عورتوں سے اچھے اخلاق اور بھائی سے پیش آنے کا حکم و تلقین و نصیحت فرمائی ہے۔

امارتِ اسلامیہ کا عورتوں کو ان کے حقوق دینا

فتحِ افغانستان کے بعد جب امارتِ اسلامیہ کو افغانستان میں حکومت و تمکین حاصل ہو گئی تو امير المومنین شیخ ہبۃ اللہ اخوندزادہ (نصرہ اللہ) نے اپنے ایک فرمان’حقوقِ خواتین کے حوالے سے فرمانِ خاص (مؤرخہ ۲۸ ربیع الثانی ۱۴۴۳ ھ)‘ 15 کے ذریعے عورتوں کو ان کے شرعی اسلامی حقوق فراہم کیے جانے کا حکم صادر فرمایا۔ اسی طرح بعض دیگر حکم ناموں اور فرامین کے ذریعے بھی امیر المومنین نے عورتیں کے کئی ایک حقوق ان کو فراہم کروائے جانے کی یقین دہانی کروائی۔

وَلْوَرْ پر پابندی

افغان معاشرے میں اور پاکستان کے بعض قبائلی علاقوں میں بھی وَلْوَرْ نامی ایک رسم پائی جاتی ہے جس میں باپ یا بھائی اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کے موقع پر بیٹی کے عوض پیسے لیا کرتا ہے۔ اس رسم کی ہزار اچھی تاویلات کر لی جائیں اور بھلے نسبتاً متدین و مہذب لوگ حاصل شدہ پیسے کو بیٹی ہی پر دوبارہ خرچ کر دیں، لیکن یہ ایک قبیح رسم ہے اور عورت سے اس کے درجۂ انسانیت و شرف کے مطابق معاملہ نہ کرنے کا ایک مظہر ہے۔ پیسہ وصول کرنے کی مختلف علاقوں میں، مختلف قوموں، قبیلوں وغیرہ کے اعتبار سے الگ الگ شرح ہوتی ہے، دو چار ہزار امریکی ڈالر سے لے کر پچاس ہزار ڈالر تک یہ رقم وصول کی جاتی ہے16۔ ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ بعض خاندانوں میں باپ اپنی دو تین سالہ بیٹی کی بھی نسبت کسی سے طے کر دیتا ہے اور اس کے بعد جب تک بیٹی بالغ نہیں ہوتی اس سارے عرصے میں کپڑے اور خوراک کے پیسے بھی بچی کے ہونے والے شوہر سے وصول کرتا ہے، اس طرح کا ایک واقعہ راقم السطور نے خود صوبہ پکتیکا کے علاقے گومل میں دیکھا۔

امیر المومنین شیخ ہبۃ اللہ اخوندزادہ نے اپنے ایک فرمان کے ذریعے ولور کی اس غیر اسلامی و غیر انسانی رسم پر پابندی عائد کر دی ہے۔ راقم کی معلومات کے مطابق افغانوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ کسی افغان حکمران نے ولور کو ناجائز کہہ کر اس پر پابندی عائد کی ہو۔ولور کی رقم افغان معاشرے میں اس درجہ اہمیت حاصل کیے ہوئے ہے کہ بڑے بڑے علماء بھی اس رسم کے خلاف بات کرتے ہوئے ہچکچاتے تھے۔ ولور کی رسم اب بھی موجود ہے، لیکن جس طرح امیر المومنین اور ان کے تحت امارتِ اسلامیہ کے دیگر احکام تدریجاً معاشرے میں نافذ ہو کر حدِ کمال کو پہنچ چکے ہیں یا اس طرف سفر جاری ہے تو ان شاء اللہ یہ حکم بھی کلیتاً افغانستان میں نافذ ہو جائے گا!

عورتوں کی نکاح کے لیے رضا مندی

اسلام نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ نکاح کے لیے اپنی رضا مندی کا اظہار کرے یا مرد ناپسند ہونے کی صورت میں یا کسی اور وجہ سے اس سے شادی سے انکار کر دے۔ لیکن یہ حق برِّ صغیر و افغانستان کے معاشرے میں مفقود رہا۔ برِّ صغیر میں اولاً تو علمائے کرام اور داعیانِ دین کی محنت اور عادل و مسلمان حکمرانوں کے سبب عورتوں کو ان کا یہ جائز حق ملا اور پھر بعد میں جاہلی تہذیب کے زور نے تعلقِ نکاح پر ہی تیشے چلانا شروع کر دیے ہیں کہ آج عورتوں کو حقِ طلاق دینے کی تحریکیں چل رہی ہیں جن کا مقصد عورتوں کو کوئی حق دلانا نہیں بلکہ گھروں کو توڑنا ہے۔ البتہ نکاح کے وقت عورت کی رضامندی کا حق افغانستان کے معاشرے میں وہ شہری ہو یا دیہاتی اکثر عورتوں کو حاصل نہیں۔

امیر المومنین نے اولاً مذکور اپنے فرمانِ خاص کے ذریعے حکم جاری کیا:

’’نکاح (شادی) کے لیے بالغ عورت کی رضامندی حاصل کرنا ضروری ہے۔(نکاح میں فریقین کا ہم کفو ہونا بھی ضروری ہے اور فتنہ و فساد رفع کرنے کا اصول مدِّ نظر رکھا جائے ) کوئی شخص زور زبردستی سے کسی خاتون کو نکاح پر مجبور نہیں کر سکتا۔ ‘ ‘

عورت: جائیداد یا ملکیت نہیں محترم انسان

اسی طرح عورتوں کو دشمنی یا جنگ ختم کرنے کے لیے یا صلح کا معاہدہ کرنے کے لیے افغانستان و قبائلی علاقہ جات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ امیر المومنین نے اس پر بھی مطلقاً پابندی عائد کی اور فرمانِ خاص میں فرمایا:

’’ عورت کسی کی ملکیت یا جائیداد نہیں بلکہ ایک آزاد و محترم انسان ہے، کوئی شخص کسی دوسرے کے ساتھ جنگ و دشمنی ختم کرنے یا صلح کا معاہدہ کرنے کے لیے عورت کا سودا نہیں کر سکتا۔ ‘‘

بیوہ کو حقوق کی فراہمی

افغانستان، پاکستان کی پنجابی ، کشمیری و سندھی قوموں اور بلوچ و پشتون قبائل میں یہ روایت عام رہی ہے اور اب بھی موجود ہے کہ اگر کسی عورت کا شوہر مر جائے تو شوہر کا بھائی اس عورت سے نکاح کرنے کو اپنا حق سمجھتاہے، یا عورت کے وفات شدہ شوہر کے رشتے دار اس عورت کو اپنے گھر کا فرد سمجھتے ہوئے اس کی آئندہ زندگی (شادی وغیرہ) کے متعلق فیصلہ کرنے کو اپنا حق و اختیار سمجھتے ہیں۔ اگر یہ نہیں ہوتا اور بیوہ اپنے میکے میں آ جاتی ہے تو بعض دفعہ باپ بھائی عورت کی رضا مندی کے بغیر اس کی شادی بزور کروانا چاہتے ہیں۔ ایسے واقعات کی ہمارے معاشروں میں بہت سی مثالیں موجود ہیں۔

راقم السطور کو افغانستان کے صوبۂ پکتیکا کے ضلع اومنہ میں سنہ ۲۰۱۵ء میں ہونے والے ایک واقعے کا علم ہوا جب ایک بیوہ عورت کا باپ اور بھائی ولور کے لالچ میں اپنی بیٹی کا زبردستی دوسرا نکاح کروانا چاہتے تھے، جب کہ خاتون اس پر راضی نہ تھی۔ المختصر یہ بات طالبان تک پہنچی۔ مجاہدین نے یہ معاملہ شریعت کے مطابق حل کروانے کی کوشش کی لیکن خاتون کا باپ زور آور آدمی تھا، وہ بدمعاشی کرنے لگا۔ لہٰذا مجاہدین نے طالبان حکام کے امر پر اس شخص اور اس کے بیٹے کو جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا کے بازار سے ملحق اپنے ایک مرکز میں کھانے کی دعوت پر بلایا جہاں راقم خود موجود تھا۔ اس دعوت میں بلا کر مجاہدینِ طالبان نے اس شخص کو اس کے بیٹے کے ہمراہ گرفتار کیا اور شرعی فیصلے کے لیے متعلقہ قاضی وغیرہ کے سامنے پیش کر کے خاتون کو اس کا حق دلوایا۔

اسی حق کی ادائیگی کی خاطر امیر المومنین نے اپنے فرمانِ خاص میں حکم فرمایا:

’’ شوہر کے انتقال کی صورت میں ، شرعی عّدت (چار ماہ دس دن یا مدّتِ حمل) گزرنے کے بعد، بشمول بیوہ کے خاندان و رشتہ داروں کے ، کسی کےلیے روا نہیں کہ وہ بیوہ سے زبردستی ، اس کی مرضی کے خلاف نکاح کرے ۔ بیوہ شادی کرنے یا اپنے مستقبل سے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار خود رکھتی ہے۔ (گو کہ اس میں بیوہ کے لیے دوسری شادی کی صورت میں فریقین کے مابین برابری ؍ ہم کفو ہونا اور فتنہ و فساد رفع کرنے کا اصول مدِّ نظر رکھا جائے گا)۔ ‘‘

اسی طرح بیوہ عورتوں کو اکثر حق مہر ادا نہیں کیا جاتا، بلکہ کئی جگہوں پر بیوہ کے لیے حق مہر کا تصور ہی نہیں، اس حوالے سے امیر المومنین نے فرمایا:

’’اپنے نئے خاوند سے ’مہر ‘ حاصل کرنا بیوہ کا شرعی حق ہے۔‘ ‘

عورتوں کا حقِ وراثت

یہ روایت تو بالکل عام ہے کہ عورتوں کو باپ یا شوہر کی وراثت میں سے اس کا حق نہیں دیا جاتا۔ راقم السطور کا تعلق ایک پنجابی– کشمیری خاندان سے ہے ،ہمارے خاندان میں پہلی بارعورتوں کو باپ اور شوہر کی وراثت میں سے شرعی تقسیم کے اعتبار سے حق، راقم السطور کے والد صاحب (مد ظلہ)نے دیا جب ہمارےدادا کا انتقال ہوا، حالانکہ ہمارا خاندان بڑا پڑھا لکھا اور مہذب و مادڑن کہلاتا تھا اور بنیادی طور پر برطانیہ میں مقیم ہے۔ عورتوں کو حقِ وراثت نہ دینا ہمارے خاندان و علاقے میں اس قدر عام تھا کہ یہی ’نا حق‘، ’حق‘ کے طور پر معروف تھا۔ جب ہمارے والد نے اپنی بہنوں کو حقِ وراثت تقسیم کیا تو ہماری پھپھیوں نے خود اس کو لینا روایات کے خلاف ہونے کے سبب عار جانا اور ہمارے آبائی علاقوں میں ہمارے والد کے بارے میں چھپ چھپا کر باتیں کی گئیں۔ یہی حال افغانستان وغیرہ میں بھی ہے۔ عورتوں کو ان کے والد، شوہر اور بیٹوں وغیرہ کی وراثت میں سے حق دینے کو امیر المومنین نے اپنے فرمان کے ذریعے یقینی بنایا:

’’ عورت اپنے شوہر، بچوں، والد اور رشتہ داروں کے مال میں وراثت کا حق رکھتی ہے اور کوئی شخص اسے اس حق سے محروم نہیں کر سکتا۔ ‘‘

ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان عدل و مساوات

ایک سے زیادہ عورتوں کے درمیان عدل و مساوات قائم کرنا تو ہمارے معاشروں میں عموماً مفقود ہے اور قبائلی معاشروں میں تو بے عدلی نہیں ظلم رائج ہے۔ بیویوں کے درمیان عدل و مساوات قائم نہ کرنا بڑا ہی گناہ ہے اور اللہ ﷻ کے واضح احکام کی خلاف ورزی ہے۔ عدل و مساوات کو قائم رکھنے کے لیے امیر المومنین نے مذکورہ فرمانِ خاص میں حکم صادر کیا:

’’ایک سے زیادہ نکاح کرنے والے حضرات کے لیے ضروری ہے کہ وہ شریعتِ مطہرہ کے مطابق تمام خواتین کے حقوق ادا کریں اور ازواج کے مابین عدل و مساوات قائم کریں۔ ‘‘

فرمانِ مذکور میں درج دیگر ہدایات

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جس فرمانِ خاص کے اقتباسات پچھلے عنوانات کے تحت ذکر کیے گئے ہیں، اس فرمانِ خاص میں درج دیگر ہدایات کو بھی یہاں نقل کر دیا جائے۔ یہ ہدایات امارتِ اسلامیہ افغانستان کی عورتوں کے حقوق کے حوالے سے خشیتِ الٰہی اور عورتوں کو ان کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ایک مثال ہیں۔ جس وقت حضرت امیر المومنین (نصرہ اللہ) نے یہ فرمان جاری کیا تو دنیا بھر کے میڈیا نے اس بیان کو یہ رنگ دیا کہ امارتِ اسلامیہ نے ’عورتوں کے حقوق‘ سے متعلق بین الاقوامی دباؤ کے سبب یہ بیان جاری کیا ہے۔ اس پر امیر المومنین اور آپ کے تحت امراء نے بعض نجی و عوامی محافل میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے یہ احکام اللہ ﷻ کو راضی کرنے کے لیے جاری کیے ہیں مخلوق میں سے کسی کو خوش کرنے کے لیے نہیں، عورتوں کو ان کا حق دینا شریعت کا حکم ہے اور یہی ہمارا ان فرامین سے مطمح ہے!‘۔اس فرمان میں مزید کہا گیا:

’’اس فرمان کے درست طور پر نفاذ کے لیے تمام متعلقہ اداروں کو درجِ ذیل اقدامات کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے:

• وزارتِ حج و اوقاف کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ علمائے کرام کو عوام کے درمیان خواتین کے حقوق سے متعلق آگاہی پھیلانے کی تحریض دلائے ، تاکہ وہ اپنے خطوط و دروس اور تبلیغ کے ذریعے عوام میں یہ شعور پیدا کریں کہ خواتین پر ظلم اور ان کے حقوق کی پامالی، اللہ تعالی کے غیض و غضب اور ناراضگی کا سبب ہے۔

• وزارتِ اطلاعات و ثقافت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنے وسائل استعمال کرتے ہوئے حقوقِ خواتین کے حوالے سےتحریری و صوتی مضامین اور مقالے شائع اور نشر کرے اور دیگر لکھاری وادیب حضرات اور داعیان و مبلغین کی بھی حوصلہ افزائی کرے کہ وہ اس موضوع پر مفید مقالے لکھیں اور نشر کریں تاکہ خواتین کے شرعی حقوق کے موضوع پر علمائے کرام اور عوام الناس کی توجہ حاصل ہو اور عورتوں پر جاری ظلم کا خاتمہ کیا جا سکے۔

• عدالتِ عظمیٰ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنی تمام ذیلی عدالتوں کو حکم نامے جاری کرے کہ خواتین کے حقوق سے متعلق بالعموم اور بیواؤں کے حقوق سے متعلق بالخصوص، تمام درخواستوں کو درست، مناسب اور بااصول طریقے سے سنا جائےاور ان پر غور کیا جائے تاکہ خواتین کو ان کے شرعی حقوق حاصل کرنے اور ظلم و جبر سے چھٹکارا حاصل کرنے کے معاملے میں مایوسی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

• تمام والی(صوبائی گورنر) اور ولسوال(ضلعی کمشنر) حضرات کے لیے ضروری ہے کہ اس فرمان پر عمل درآمد کے لیے مذکورہ وزارتوں اور عدالتِ عظمیٰ کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔‘‘

خواتین کی عائلی زندگی میں گھریلو تشدد کے حوالے سے حقوق کی فراہمی کی ایک مثال

حکومت حاصل ہونے سے قبل ایک خاتون کو اس کا حق دلوانے کا واقعہ پچھلی سطور میں ہم دیکھ چکے ہیں۔ تقریباً ایک سال قبل شہرِ کابل میں ایک پولیس سٹیشن (حوزے) کے باہر موجود ایک دری زبان خاتون17 کا انٹرویو ایک پینٹ کوٹ میں ملبوس، کلین شیو صحافی نے کیا18۔ گفتگو نقل کی جاتی ہے:

صحافی: ’’السلام علیکم! بہن! آپ کو کیا مشکل پیش آئی کہ آپ کو حوزے (پولیس سٹیشن) آنا پڑا؟‘‘

خاتون: ’’وعلیکم السلام ! بھائی آپ کی خدمت میں بھی سلام عرض ہے! میرے بھائی! میں ایک گھریلو تشدد کا کیس لے کر آئی ہوں۔ میری بہن کا شوہر، میری بہن پر آئے روز تشدد کرتا ہے اور اس کو مارتا پیٹتا ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ میں تھانے آئی ہوں اور یہاں ہمارے ساتھ اتنا اچھا سلوک اور اتنے احترام سے معاملہ کیا جا رہا ہے…… ایسا معاملہ پہلے جمہوریت والی حکومت میں ہم نے نہیں دیکھا۔امارت کی حکومت میں یہ سب بھائی (مرد) ہمارے لیے راستہ چھوڑتے ہیں اور ہمارے سامنے اپنی نظریں جھکا کر رکھتے ہیں۔ پچھلے دورِ حکومت میں عورتوں کو ہراساں کیا جاتا تھا اور عورتیں بد نظری کا نشانہ بنتی تھیں۔اب یہاں ہر کوئی ہمارا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ ہمیں درپیش مشکل کی تحقیق کر رہے ہیں اور ہمارے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔جیسے لوگ کہا کرتے تھے (کہ طالبان عدل و انصاف لائیں گے) بالکل ایسا ہی ہے، عدل و انصاف موجود ہے۔ واقعتاً عدل و انصاف موجود ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے عدل و انصاف کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

ہم نے ان (طالبان) سے مطالبہ کیا کہ (میری بہن کے شوہر) مجرم کو یہاں لایا جائے۔ انہوں نے مجرم کو پکڑ لیا ہے اور یہاں تفتیش کے لیے لے آئے ہیں۔ ‘‘

صحافی: ’’کتنا عرصہ ہو گیا کہ آپ کو یہ مشکل درپیش ہے؟‘‘

خاتون: ’’تین ماہ۔ ان کی شادی کو تین ماہ ہو چکے ہیں اور یہ آدمی ہر قسم کا ناروا سلوک بھی رکھتا ہے اور مارتا پیٹتا بھی ہے۔ یہ دھمکیاں بھی دیتا تھا کہ اپنے خاندان والوں کو نہیں بتانا۔ یہ بھی کہتا تھا کہ اب امارتِ اسلامیہ کی حکومت ہے ، مردوں کی حکومت ہے اور عورتوں کا اب کوئی پرسانِ حال نہیں۔

لیکن ایسا نہیں ہے! میں خود یہاں آئی تو امارتِ اسلامیہ کے (پولیس) افسران نے فوراً اس مجرم کو گرفتار کیا اور یہاں (تھانے میں) لے آئے ۔ یہ آدمی افغان نژاد برطانوی شہری ہے اور کہتا تھا کہ میں امارتِ اسلامیہ کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اس کا ایک اور بھائی ہے جس نے ایک قتل کیا ہے اور ترکی بھاگ گیا ہے، اس کا اپنا ارادہ بھی فرار ہونے کا تھا۔ خوش قسمتی سے (ہم یہاں آ گئے اور) یہ گرفتار ہو گیا۔‘‘

صحافی: ’’آپ کا مسئلہ کتنا فیصد حل ہو گیا ہے؟‘‘

خاتون: ’’میرا خیال ہے کہ عملی طور پر پچاس فیصد یا …… تیس فیصد ہمارا مسئلہ حل ہو گیا ہے!‘‘

صحافی: ’’کیا آپ امارتِ اسلامیہ سے خوش ہیں؟‘‘

خاتون: ’’میں بہت زیادہ خوش ہوں۔ اس لیے کہ اولاً ہم یہاں آئے تو ہمیں کسی قسم کی ہراسانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ثانیاً ہمارے ساتھ بہت احترام اور ادب کے ساتھ پیش آیا گیا، داخلی گیٹ سے لے کر دفتروں کے اندرونی دروازوں تک بہت احترام سے پیش آیا گیا۔ ‘‘

صحافی: ’’امید ہے کہ آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ بہت شکریہ!‘‘

خاتون: ’’آپ کا بھی بہت بہت شکریہ۔‘‘

صحافی: ’’امید ہے کہ ہماری بہنوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ ہماری بہنیں امارت کے رویے سے بہت خوش ہیں۔ پچھلی حکومت میں ایسا نہیں تھا، عورتوں کو ہراساں کیا جاتا تھا اور (ان کے مسائل حل کرنے کے لیے)جنسی تعلقات کا مطالبہ کیا جاتا تھا۔‘‘19

امارتِ اسلامیہ کا عورتوں کو ان کے جائز حقوقِ شرعی دینا، ان پر ظلم و جبر چاہے وہ معاشرے کا ہو، خاندان کا یا اپنے ہی شوہر کا، کا خاتمہ کرنا، کے متعلق یہ صرف ایک جھلک ہے۔ کاش کہ عالمِ اسلام کے اہلِ قلم، دستاویزی فلم ساز، صحافی و خبر نگار امارتِ اسلامیہ کے سائے تلے افغانستان کا رخ کریں۔ گراؤنڈ لیول پر حالات و واقعات کا جائزہ لیں اور ان شہادتوں کو قلم بند و فلم بند کریں تاکہ اسلامی نظام کے نفاذ کی ایک تصویر امتِ مسلمہ کے سامنے جا سکے۔ اور صرف امتِ مسلمہ ہی نہیں اس انسانیت کے سامنے بھی یہ تصویرپیش کی جا سکے جو اپنے ہی جیسے انسانوں کے ظلم و جور میں کہیں سوشیو– کیپٹل ازم میں پِس رہے ہیں اور کہیں کیپٹلسٹ–ڈیموکریسی میں……اور اسلامی نظام کے نفاذ کی محنت کو قطبِ شمالی سے قطبِ جنوبی تک تقویت مل سکے۔ ایک ایسے نظام کی جھلک دنیا دیکھ سکے جس کی انتہا ربّ ﷻ کی رضا کی خاطر شریعت کے تحت خلافت علی منہاج النبوۃ ہے، دنیا کی تنگیوں سے دنیا و آخرت کی وسعتوں تک لے جانے والا نظام!

ہماری عدالتوں میں عدل و انصاف کہاں؟ خاص کر دنیا بھر میں عورت ذات کے ساتھ تو ایسے ہتک آمیز رویے اور ایسے مطالبات عدالتوں میں بیٹھے قاضی رکھتے ہیں جو عورت کو ایک ظلم سے نکال کر زیادہ بڑے ظلم میں دھکیل دیتے ہیں۔ پاکستان میں لاپتہ افراد کے حقوق کے لیے دھکے کھاتی عورتوں کو دیکھیے، آمنہ مسعود جنجوعہ سے سمی دین بلوچ تک۔ معروف صحافی حامد میر کے ٹی وی پروگرام ’کیپٹل ٹاک‘ میں آمنہ مسعود جنجوعہ کی وہ بات شاید آپ نے سنی ہو کہ مِسنگ پرسنز کے حوالے سے قائم خصوصی کمیشن کے سربراہ ، علوم ِ شرعیہ اور فلسفہ میں تخصص رکھنے والےپاکستان کے سابق چیف جسٹس جاوید اقبال نے لاپتہ افراد کے معاملے میں سماعت کے دوران ایک لاپتہ شخص کی نو عمر بیوی کو کیا کہا تھا۔ جاوید اقبال نے کہا ’تم تو اتنی خوبصورت ہو تمہیں شوہر کی کیا ضرورت ہے؟‘۔ یہ ہیں عدالتیں، یہ ہیں قاضی القضاۃ اور یہ ہے عدل و انصاف کا جنازہ! یہ ادارے عدل نہیں دے سکتے، ستر سال کا قاضی القضاۃ اپنی بہو بیٹی کی عمر کی خاتون کو ایسے گھٹیا انداز سے جواب دیتا ہے۔ یہ ہیں عورتوں کے حقوق جو دنیا میں رائج ظالم کفری نظام عورتوں کو عطا کر رہا ہے!

[تحریرِ ہٰذا کا پہلا باب یعنی ’حقوق و تعلیمِ نسواں‘ ابھی کافی باقی ہے، لیکن حد سے زیادہ طوالت سے بچنے کے لیے تحریرِ ہٰذا کو یہیں روکا جا رہا ہے۔ اللہ ﷻ اس سلسلے کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں، اور اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائیں،آمین! قارئینِ کرام اپنے مشورے، تبصرے اور آراء مجلۂ ہٰذا سے وابستہ برقی پتوں (emails)پر ارسال فرما سکتے ، جزاکم اللہ خیراً کثیراً]

وما توفیقي إلّا بالله. وآخر دعوانا أن الحمد للہ ربّ العالمین.وصلی اللہ علی نبینا وقرۃ أعیننا محمد وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین.

٭٭٭٭٭


1 ’’جب ان پر یہ زمین اپنی ساری وسعتوں کے باوجود تنگ ہوگئی۔‘‘ (سورة التوبۃ: ۱۱۸)

2 ’’اور ہم ان ایام کو ان لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہا کرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ آلِ عمران: ۱۴۰)

3 بعض لوگ حضرتِ مہدی علیہ الرضوان کا ذکر سن کر یہ سوچ لیتے ہیں کہ خلافت تو ان کے ہاتھ پر قائم ہو گی تو وہ جب آئیں گے تو ہم ان کے ساتھی بن جائیں گے، ابھی ہم اپنا روزی دھندہ کرتے ہیں۔ (باقی حاشیہ اگلے صفحے پر) (بقیہ حاشیہ)لیکن صحیح بات یہ ہے کہ امام مہدیؓ کے آنے کا وقت فقط اللہ ﷻ کے علم میں ہے، ہمیں امام مہدیؓ کے آنے کا وقت معلوم نہیں، لیکن اپنے فرائض و واجبات معلوم ہیں، جن میں سے ایک شریعتِ اسلامی کے نفاذ کی کوشش اور خلافت کے قیام کی کوشش ہے، اب اس کوشش کی انتہا مہدی علیہ الرضوان کے ظہور پر ہو یا کسی اور صورت میں، ہم اس کے نتیجے کے مکلف نہیں، محنت کے مکلف ہیں اور اس بات کے بھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر اقامتِ صلاۃ تا اقامتِ خلافت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہج ہی کے ذریعے محنت کریں!

4 مسند احمد و ترمذی (وقال الترمذي: هذا حديثٌ حسنٌ غريبٌ)

5 بخاری و مسلم (من حدیث: سبعۃٌ یظلھم اللہ في ظلّہ)

6 بحوالہ تفسیرِ مظہری از مولانا قاضی ثناء اللّٰہ پانی پتیؒ و تفسیر معارف القرآن از مولانا مفتی محمد شفیع ؒ

7 ’توجیھات العامۃ للعمل الجھادي‘

8 سنن أبي داود، صححہ الألباني

9 مولانا مقصود احمد صاحب لال مسجد آپریشن میں مولانا عبد الرشید غازی شہید کے ہمراہ امریکی اتحادی فوج کی جانب سے شہید کر دیے گئے تھے۔

10 چونکہ بہت سے جدید افکار کی جائے پیدائش انگلستان ہے تو یہاں یہ ذکر مفید رہے گا کہ انگلستان میں عورتوں کے ساتھ اس قدر تعصب برتا جاتا تھا اور ان کو اس قدر حقیر جانتے تھے کہ آج سے سو دو سو سال قبل جب کچھ انگریز عورتوں نے کہانیاں اور کتابیں لکھنی شروع کیں تو وہ (مردوں سے اپنے عفت و پردے کی حفاظت کے لیے نہیں بلکہ)مردانہ حقارت آمیز رویے اور تعصب سے بچنے کے لیے مردانہ نام استعمال کرتی تھیں۔ مشہور لکھاری لوئزا مے الکوٹ(Louisa May Alcott)، اے ایم برنارڈ (A. M. Barnard) کے نام سے، میری این ایونز (Mary Ann Evans) ، جارج ایلیٹ (George Eliot) کے نام سے، اینِڈ میری بلائٹن (Enid Mary Blyton) نے اپنے نام سے اپنی جنس چھپانے کی خاطر ’میری ‘کو ہٹا کر صرف اینڈ بلائٹن کا نام استعمال کیا اور زیادہ دور نہ جائیے ابھی زندہ لوگوں میں جوآن کیتھلین راؤلنگ (Joanne Kathleen Rowling) نے ’مرد مخاطبین ‘کے تعصب سے بچنے کے لیے اپنا قلمی نام ’جے کے راؤلنگ ‘اختیار کیا اور جے کے راؤلنگ نے اپنا ایک اور مردانہ قلمی نام ’رابرٹ گلبریتھ ‘(Robert Galbraith) بھی رکھا!!!

11 ملاحظہ ہوں مولانا سیّد ابو الحسن علی ندویؒ کی کتاب ’اسلام میں عورت کا درجہ اور اس کے حقوق و فرائض‘ اور آزاد دائرۃ المعارف وکی پیڈیا: انگریزی و فارسی۔

12 حضرتِ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا واقعہ یاد کیجیے کہ جب ایک شخص اپنی بیوی کی شکایت لے کر حضرت فاروقِ اعظمؓ کے گھر کی طرف آیا، جب قریب پہنچا تو گھر کے اندر سے حضرتِ عمرؓ کی زوجہ امِ کلثوم کی آواز آئی جو حضرتِ عمر ؓ پر برہم ہو رہی تھیں۔ یہ سن کر وہ شخص واپس مڑ گیا اور اپنے آپ سے کہنے لگا کہ ’’حضرت عمرؓ تو خود اپنے گھر میں اسی مشکل سے گزر رہے ہیں جس کی شکایت میں لے کر آیا تھا (تو یہ میری کیا مدد کریں گے؟)‘‘۔ ایسے میں حضرت عمرؓ اپنے گھر سے باہر آگئے اور اس جانے والے کو جاتا دیکھا۔ آپؓ نے اس جانے والے کو بلایا اور مسئلہ دریافت کیا تو اس نے کہا کہ ’’میں اپنی بیوی کی شکایت لے کر آپ کے پاس آیا تھا، لیکن جب میں نے آپ کی بیوی کے الفاظ سنے تو میں واپس پلٹ گیا!‘‘۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’میں اس لیے اپنی بیوی کی یہ (تلخ)باتیں برداشت کرتا ہوں کہ اس کے مجھ پر حقوق ہیں۔ پہلی بات یہ کہ وہ جہنم سے میری حفاظت کا ذریعہ ہے کہ وہ میرے دل کی حرام کاموں سے حفاظت کرتی ہے(یعنی حافظِ عصمت ہے)۔ دوسرا یہ کہ وہ میرے گھر کی حفاظت کرتی ہے، خاص کر کہ جب میں گھر سے باہر ہوتا ہوں اور وہ میرے مال و اسباب کی بھی محافظ ہے۔ تیسرا یہ کہ وہ میرے لیے دھوبی کا کام بھی کرتی ہے کہ میرے کپڑے دھوتی ہے۔ چوتھا وہ میرے بچوں کی پرورش کرتی ہے۔ پانچواں وہ میرے لیے کھانا پکاتی ہے اور روٹی پکاتی ہے‘‘۔ یہ سن کر وہ شخص کہنے لگا کہ ’’(میری بیوی کا بھی) میرے ساتھ آپ کی بیوی جیسا ہی معاملہ ہے، لیکن میں اس (کی تلخ کلامی)کو برداشت نہیں کرتا۔ اب میں اس کے ساتھ صبر کیا کروں گا‘‘۔ (تنبیہ الغافلین از امام ابو اللیث سمرقندیؒ)

13 بحوالہ ٹوئٹر: @thesurepath1

14 تاؤ خانہ افغانستان وغیرہ میں زیر زمین گرمائش کا ایک نظام ہوتا ہے، جس میں فرش پر پتھر کی سِلیں ہوتی ہیں اور ایک طرف کو تنور یا بڑی سی انگیٹھی نما جگہ جہاں آگ جلائی جلاتی ہے، آگ کی تپش اور دھواں فرش کے نیچے سے ہو کر دیوار میں چمنی نما پائپ سے ہو کر چھت سے نکل جاتا ہے، جب آگ بجھ جاتی ہے اور انگارے رہ جاتے ہیں تو تاؤ خانے کے دونوں سِرے بند کر دیے جاتے ہیں تا کہ حدت اندر مقید ہو جائے۔ راقم کا خیال ہے کہ شاید تاؤ خانہ اصل میں تاب خانہ ہو گاکہ تاب گرمائش کو کہتے ہیں، اس لیے کہ افغانستان کی دری زبان جو فارسی ہی کی ایک قسم ہے، میں کئی الفاظ میں لفظِ ’ب‘ کو ’و‘ بولا جاتا ہے، مثلاً آفتاب کو ’آفتاؤ‘، مہتاب کو ’مہتاؤ‘ وغیرہ۔

15 امیر المومنین کا یہ فرمان مجلہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ کے نومبر و دسمبر ۲۰۲۱ء کے شمارے میں صفحہ نمبر ۸۷ پر ديكها جا سكتا ہے۔

16 یہاں ڈالر اس لیے درج کیا گیا ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر اس وقت حکمرانوں کی دین و وطن دشمن پالیسیوں کے سبب سخت بری حالت میں ہے اور افغانی کرنسی درج کریں گے تو قاری کو اس کا ریٹ خاص کر دیکھنا پڑے گا ثم ، الحمد للہ مجلۂ ہٰذا کے قارئین کثیر تعداد میں ہندوستان و بنگلہ دیش میں بھی موجود ہیں جہاں کی اپنی کرنسی اور کرنسی کے اپنے اپنے ریٹ ہیں۔

17 مذکورہ خاتون بھی اپنے حلیے اور اندازِ گفتگو سے جدید اور پڑھی لکھی معلوم ہوتی ہیں، کوئی یہ نہ سمجھے کہ طالبان نے سب عورتوں کو ایک ہی قسم کے جبری ڈریس کوڈ میں قید کر رکھا ہے اور شٹل کاک برقعے والیاں ہی طالبان کے رویے سے مطمئن ہیں۔ برقعے کی تفصیل وغیرہ کے حوالے سے آئندہ عناوین میں ان شاء اللہ بات آئے گی۔

18 پینٹ کوٹ اور کلین شیو کی صراحت اس لیے کی ہے کہ، اولاً کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ فقط مولویوں یا طالبان کا پروپیگنڈہ ہے، ثانیاً پینٹ کوٹ پہننے اور داڑھی مونڈنے والے مسلمان بھی مجاہدین کے لیے نہایت محترم و معزز ہیں، لباس و حلیہ (جو چاہے مسنون یا مسنون ہدایات کے مطابق نہیں) عزت و احترام اور رویوں کے تفاوت کا سبب نہیں(ہاں اس کا یہ مطلب بھی نہ سمجھا جائے کہ غیر متشرع لوگوں کو حکومتی ایوانوں میں پالیسی ساز عہدوں پر لا بٹھایا جائے کہ جو آج امریکہ اور اس کے ٹوڈیوں کا مطالبہ ہے، اور یہ مطالبہ شریعتِ مطہرہ سے متضاد ہے)!

19 بحوالہ ٹِک ٹاک:@ahmed.khalozi

Previous Post

……وقت کرتا ہے پرورش برسوں

Next Post

خیري علقم المقدسي شھید -رحمۃ اللہ علیہ –

Related Posts

عمر ِثالث | ساتویں قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | نویں قسط

12 اگست 2025
عمر ِثالث | ساتویں قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | آٹھویں قسط

14 جولائی 2025
عمر ِثالث | ساتویں قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | ساتویں قسط

9 جون 2025
عمر ِثالث | پہلی قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | چھٹی قسط

26 مئی 2025
عمر ِثالث | پہلی قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | پانچویں قسط

14 مارچ 2025
عمر ِثالث | پہلی قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | چوتھی قسط

15 نومبر 2024
Next Post

خیري علقم المقدسي شھید -رحمۃ اللہ علیہ -

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version