آج کا دن بہت عجیب تھا ، دھوپ میں بھی عجیب سی اداسی چھائی ہوئی تھی ۔وجہ شاید یہ تھی کہ وہ جس علاقے میں مہاجر مجاہدین کے ساتھ رہ رہا تھا، اس علاقے میں پچھلے کچھ دنوں سے امریکی ڈرون انتہائی نیچی پرواز کررہا تھا۔ڈرون کے گھومتے ہوئے دائروں سے ایسا محسوس ہوتاتھا جیسے اس کاہدف ان کامرکز ہی تھا۔ اس لیے تمام ساتھی حفاظت کی غرض سے مرکز کو چھوڑ کر مرکز کے ارد گرد پھیلے ہوئے درختوں کے جھنڈ میں پھیل چکے تھے۔ وہ بھی ایک درخت تلے گم سم بیٹھا اپنی سوچوں میں مگن تھا۔ سوچوں میں گم، وہ اپنے ’جرائم‘ پر غور کر رہا تھا۔ کیا جرم تھا ان لوگوں کا؟ کیوں وہ اپنے گھروں سے نکال دیے گئے؟……حالانکہ ان میں سے ہر ایک اپنے گھر اور علاقے کے لوگوں کی آنکھوں کا تارا تھا۔ ان میں تو اکثر لوگوں کے دم سے ہی یاروں دوستوں کی محفلیں آباد تھیں، مگر آج وہ جدیدصلیبی جنگ میں کافروں کا اوّلین ہدف تھے، زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوچکی تھی اور اللہ کی وسیع زمین پر یہ مہاجرین ،اپنے بچوں کو لیے اجنبیت کی زندگی گزار رہے تھے ۔ دشمن ان کے پیچھے یوں ہاتھ دھو کر پڑا ہواتھا کہ اس کے سامنے آسمان کا سایہ ناپید اور زمین کی وسعت ناکافی نظر آتی تھی ۔ شاید ان کا جرم یہ تھا کہ وہ ’’وعجلت الیک رب لترضی ‘‘کہہ کر نکل آئے تھے ، یا یہ کہ ہر مظلوم مسلمان کا درد ان کے سینے میں بستا تھا ، ہر مظلوم کی آہ پر وہ تڑپ اٹھتے تھے ۔ تبھی تو وہ پوری دنیا میں……یمن، مالی، افغانستان ،پاکستان ، ہندوستان والجزائر، صومالیہ وکشمیر میں…… ہرجگہ کفار و مرتدین کا عالمی ہدف تھے ۔
بیٹھے بیٹھے ، یادوں کی دنیا میں وہ کہیں دور نکل گیا۔ اس کو وہ سہانے دن یاد آگئے جب انصار کی بستی میں سبھی اہلِ ہجرت اکٹھے رہتے تھے ۔ وہ اہل ایمان کی بستی تھی، جہاں عرب وعجم کے یہ مکین اللہ کی بندگی کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ کوئی عرب سے اٹھ کے آیا تھا ، تو کوئی ماوراءالنہر سے، کوئی ترکستان کا مظلوم تھا تو کوئی لیبیا کا شہزادہ، کوئی ہندوستان کو دوبارہ دارالاسلام بنانے کی چاہت لیےاپنے بیوی بچوں سمیت مارا مارا پھِر رہا تھا ،……زبان ،قوم ،قبیلے ،سبھی کے جدا جدا…… مگر غم سبھی کے سانجھے تھے۔درد کی اس لڑی نے ان سب کو ایک جسم وقالب میں ڈھال دیاتھا۔ کہنے کو کتنے تھے وہ، مٹھی بھر مجاہدین…… مگر کفر کوان مٹھی بھر مسلمانوں کا بھی گٹھ جوڑ کب گوارا تھا، ہر دور کے فرعونیوں کی یہ عادت رہی ہے کہ موسیٰ کو اس کے پنگھوڑے میں ہی مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تبھی اب کی بار بھی یہ نام نہاد ’ایمان، تقوی، جہاد فی سبیل اللہ‘ جیسے مقاصد رکھنے والی فوج الخالد وضرار نامی ٹینک لے کر مسلمانوں پر کافروں کے احکام کی پیروی میں حملہ آور ہوئی تھی ۔اس کو حملے کی رات یاد آئی، جب ننھی امامہ جیٹ جہازوں کی خطرناک اسٹرائیکنگ اور شدید بمباری کے خوف سے اپنے ماموں کی گود میں سہم جاتی تھی۔ بالآخر شدید بمباری کے نتیجے میں علاقے کے مکینوں کواپنا علاقہ خالی کرنا پڑا۔
کیا کچھ نہ دیکھاان اجنبیوں نے،سامان سے بھرے گھر چھوڑتے وقت صرف کپڑوں کاایک بیگ لینے پر اکتفا کیا۔ لٹے پٹے ہندوستان سے آئے ہوئے قافلوں کی کہانیاں اپنے بڑوں سے سنی تھیں۔سِکھوں کی کرپانوں ،اور ہندوؤں کے ترشولوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے مسلمانوں کی داستانیں بھی یادتھیں۔ محض لاالہ الا اللہ کی خاطر لٹنے والے قافلوں کے قصّے بھی معلوم تھے۔ مگر لٹا ہوا قافلہ دیکھا پہلی بار تھا، وہ بھی جو اپنوں ہی کے ہاتھوں لٹا ہو۔ علاقے سے نکلنے کے تمام راستوں کی ناکہ بندی پاکستانی فوج پہلے ہی مکمل کرچکی تھی، اب بس ایک ہی راستہ بچاتھا اور وہ بھی پیدل چلنے کا۔ بارہ گھنٹوں کی مسافت کا طویل راستہ، جس پر سب بوڑھے ، بچے ، جوان گامزن تھے۔ خواتین اور ضعیفوں کی خاطر گاڑی کا بندو بست کیا گیا، مگر اس پر بھی دشمن نے کمین لگائی، کہ بالآخر گاڑیاں اور سامان سب چھوڑ کر خواتین کو بھی پیدل ہی سفر کرنا پڑا۔
وہ نسبتاً کم خطرے والے علاقے میں مقیم تھا۔ وہ پیدل طویل مسافت طے کر کے آنے والے ان تھکے ماندے مجاہدین کی خدمت میں جتا رہتا۔ جب قافلہ اپنی تھکن اتار لیتا تو اگلی منزل کی جانب چل پڑتا…… قافلے کہاں رکتے ہیں، اور جو قافلے اپنا سفر جاری رکھتے ہیں وہ منزلِ مقصود پر پہنچ ہی جاتے ہیں ،بشرطیکہ سمت کا تعین ٹھیک ہو ۔ وہ ہر صبح ناشتے کے بعد مرکز کے سامنے والے بلند وبالاپہاڑ پر چڑھ جاتا اور جنگی علاقے میں پھنسے دل کے ٹکڑوں سے رابطہ بحال رکھتا ۔ ان کی خیریت دریافت کرتا، سلامتی کی خبر سن کر اس کا خون سیروں بڑھ جاتا ، اردگرد دور دور تک پھیلے ہوئے چلغوزے کے درخت یوں لگتا، جیسےاس کے ساتھ مل کے ترنم سے یہ اشعار پڑھ رہے ہوں:
تیرے دیدار کی آس دل میں لیے، اپنی آنکھوں کو پہروں تھکاتے رہے
تیری راہوں میں جو بھی نکلتا رہا، اس کی راہوں میں پلکیں بچھاتے رہے
سوچتے سوچتے وہ حال کی دنیا میں لوٹاتو اسے محسوس ہوا کہ مرکز پر گھومتے ڈرون کی گردش تھوڑی کم ہوگئی ہے یا چکر کا رخ دوسری سمت ہوگیا ہے۔ تمام ساتھی مرکز سے دور، منتشر درختوں کی اوٹ میں بیٹھے تھے، منتظر تھے کہ کب یہ نگاہوں سے اوجھل ہو اور ہم مرکز کے اندر جاکر کھانا بناسکیں۔ اس کو لگا شاید یہی مناسب وقت ہے، وہ تیزی سے اٹھا اور مرکز کی جانب بھاگا۔ جلدی جلدی آٹا گوندھا، جب آٹا گوندھ لیا تو درخت کے دوسرے جھنڈکی طرف ایک بھائی کو اشارہ کیا تاکہ وہ ا س کے ساتھ مل کر روٹی بنانے میں مدد کرائے۔ ساتھی اشارہ پاکر فوراً اس کے پاس آگیا۔ دونوں نے مل کر روٹی بنائی اور فارغ ہو کر دوبارہ درختوں کے نیچے آ بیٹھے۔ درخت کے نیچےپہنچ کر سکھ کا سانس لیا تو ایک دوسرے کو دیکھ کر یوں مسکرانے لگے جیسے کھیل کا پہلا مرحلہ سرہوگیا ہو۔
اس کو یاد آیا جیسے ابھی کل ہی کی بات ہو ،انگور اڈا میں ساتھیوں کے ساتھ مل کر عید الاضحی منائی تھی۔آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے میں شہادتوں اور غموں کے بیچ منائی گئی عید…… وہ کیسے بھول جاتا،کچھ دن پہلے ہی والدکی طرح شفقت کرنے والے شفیق بزرگ، رکنِ شوری القاعدہ بر صغیر عمران صدیقی المعروف حاجی ولی اللہ ،پیارے طیب بھائی اور سلیمان بنگالی بھائی کی شہادت کی خبر سن کے یقین ہی نہیں آتا تھا کہ ہنستے مسکراتےیہ چہرے چلے گئے۔ عید کے کچھ دن بعد ہجرت وجہادکے یار ہارون بھائی کی بھی شہادت کی اطلاع آگئی کہ وہ بھی ایک امریکی ہیل فائر میں اپنی مراد پاگئے۔پھر چند ہی دن بعد، امت مسلمہ کے طبیبوں کے لیے مثال ڈاکٹر ابو خالد رحمہ اللہ اور ہجرت وجہاد کا ایک اور راہی، قربانی وفداکاری کامجسم نمونہ، میجر عبدالقدوس بھی ان کے ساتھ جام شہادت نوش کرگئے ۔
کیسے کیسے لوگ نجانے کدھر گئے
اس دل کی انجمن کے ستارے بکھر گئے
جہاں سب کو جانا ہے، حساب اپنا چکانا ہے ،لیکن ان اجنبیوں کو بس اپنا زخم دکھانا ہے ،ساتھیوں کی جدائی کاغم ، والدین سے دوری، اور ہجرت وجہاد کی دربدریوں کے زخم ……جو ایک مہاجر فی سبیل اللہ اپنی زندگی میں سہتا ہے۔ وہ شہدا اس کو ٹوٹ کر یاد آئے ،جو اس صدی کی وحشی صلیبی یلغار کو اپنے جسموں پر سہتے رہے، اور ہنستے مسکراتے رب کی جنتوں کی طرف پیش قدمی کرتے رہے۔ عید کے چند دن بعدشیخ مصطفی عبدالکریم رحمہ اللہ اپنے ساتھ مہاجرمجاہدین کا ایک گروہ لے کر چلے گئے۔ اگلی منزلوں کی جانب …… الوداعی ملاقات میں وہ سب سے محبت سے ملے ،معلوم نہیں کب ملاقات ہو…… بعد میں ان میں سے اکثر اپنی مراد کو پاگئے ،کسی کو قندھار شراوک کی خاک پسند آگئی…… تو کسی کے حصے میں برامچہ کا قبرستان آیا…… کسی کو گرم سیر کے دشت میں سونا نصیب ہوا……کیا کچھ نہیں دیکھا، امت مسلمہ کے ان اجنبی لوگوں نے ! وہ آخری دفعہ ان ہی کی حالت زار پر رویا تھا ،جب کئی گھنٹوں کی مسافت طے کرکے آنے والے ایک بچے نے کہا، ’’چاچو میں تو پورا راستہ پیدل چل کے آیا ہوں‘‘، اوردس سالہ چھوٹے بھائی کی جانب اشارہ کیا،’ یہ تو کبھی پیدل چلتا تھا ،تو کبھی بابا کے کندھوں پر سوار ہوجاتا تھا‘۔
قافلے آتے اور جاتے رہے، اس کو لگا جیسے ابھی کل ہی کی بات ہو، انہی قافلوں میں ایک عراقی مہاجر شیخ ابوزیادالعراقی اپنے تینوں بیٹوں سمیت مرکز میں آئے۔بچے کیا تھے …باپ کی خدمت کے لیے ہردم مستعداور تیار رہتے۔ جیسے چاند کے گرد نور کا ہالہ رہتا ہے۔مگر اس علاقے سے جانے کے کچھ دن بعد دورانِ سفر گومل ولسوالی میں وہ صلیبی ڈرون کا نشانہ بن کر اپنے بابا کے ساتھ رب کی جنتوں کو سدھار گئے ۔اس کو یوں لگا جیسے چمن میں چند ابابیلیں آئی ہوں، اپنے حصے کے کنکر مار کر اڑ گئی ہوں ذھبی قندیلوں کی طرف ……جواہرات سے بنے محلوں کی طرف، جہاں ہم سب نے جاکر بس اپنا زخم دکھانا ہے……
وہ انہی سوچوں میں گم بیٹھا تھا کہ اتنے میں چھوٹا ساکنکر کہیں قریب آکر گرا۔اس نے دیکھا ایک بھائی مرکز کی طرف جانا چاہ رہا تھا،اس نے بھی وکٹری کا نشان بنا کر اثبات میں سرہلادیا۔منصور بھاگتا ہوا گیا ،اس نے جلدی سے کچن میں جاکر گندے برتن دھوئے،اور واپس دوڑتا ہوا اپنے جھنڈ میں ایک درخت کے نیچے آکر بیٹھ گیا۔ واپسی پر وہ اس کو دیکھ کے زیرلب مسکرایا ۔ جواب صرف ایمان بھری مسکراہٹ کا تبادلہ تھا، اتنے میں ڈرون کی گردش دوبارہ تیز ہوگئی ۔چشم تصور میں اس کو یوں محسوس ہوا جیسے صلیبی کافروں کو غصہ آگیا ہو، ہم ڈائپر پہن کے اتنی دیر سے یہ دجالی پرندہ گھمارہے ہیں اور یہ موت کے سائے کے نیچے بھی اپنی دنیا میں خوش ہیں ۔جس کا اظہار ان کافروں نے کچھ قیدی بھائیوں کے سامنے بھی کیا ۔
اس کو لگا جیسے ابھی کل ہی کی بات ہو……ماہِ صیام شروع ہوچکا تھا۔چھوٹے ٹیلوں اور بلندو بالا پہاڑوں کے درمیان ایک چھوٹا سا مرکز آباد تھا۔ مرکز کیا تھا، جنت کا ٹکڑا معلوم ہوتا تھا ۔علامہ ابن قیم کے بقول دنیا میں بھی ایک جنت ہے ،اور وہ مجاہدین کی محفلیں ہیں۔ ہرمجاہد اپنا اپنا جیبی سائز کا مصحف سنبھالے کسی سایہ دارجگہ پر بیٹھا تلاوت میں مصروف ہوتا، ایک پتھر کے نیچے کماندان قاسم بھائی تلاوت کررہے ہوتے……ذرا سا دور مولوی حکیم خالد صاحب بیٹھے اپنی منزل یاد کررہے ہوتے، قاری حنیف صاحب ڈیرے وال مرکز کے مسؤول تھے، مرکز میں فدائیوں کا علیحدہ جھرمٹ تھا، مدارس والے بھائی بھی چھٹیوں پرآئے ہوئے تھے اور جب تراویح کا وقت آتا تو ہر حافظ بھائی کی یہ خواہش ہوتی کہ تراویح میں وہ اپنا کلام پاک مکمل کر لے۔ نماز عشاء کے بعد وہ دوسرے کو لے کر چلاجاتا، کلام پاک کو تراو یح میں سناتا…… کیا خوب لمحات تھے، جب رات کی تاریکی میں ہر طرف قران مجید کا سماں بندھ جاتا۔اس کو یاد آیا کماندان قاسم بھائی، مولانا سلیمان، مولوی خالد حمزہ اور تمام فدائی ساتھی، صبر وشکر کا پیکر لالہ صابر، اور نجانے کتنے دل کے مکین جو یاد ہی نہیں…… اس مرکز کے مکین تھے ۔اب وہ یہاں نہیں بلکہ اپنا سفر پورا کرکے رب کی جنتوں کے مکین بن گئے ہیں، جہاں غم کا گزر نہیں…… جہاں کی محفلوں میں جانے کی خاطر اس کا بھی دل تڑپتا تھا ،وہ جہاں اس کے اپنے قبیلے کے چودہ شہید تھے …… جہاں کی محفلوں کی یاد آتش شوق کو مزید بھڑکا دیتی ۔
وہ علاقہ مہاجرین کی آمد کے ساتھ نیا نیا ہی آباد ہوا تھا ،لوگ مانوس ہونا شروع ہوگئے، ضرورت کی چیزیں ملنا شروع ہوگئیں۔ رونقیں بڑھ سی گئیں…… لیکن کچھ دن بعد اس علاقے کے قبرستان میں شہدا کی تعداد بھی بڑھنے لگی ۔ نجانے یہ لوگ جہاں بھی جاتے ہیں، اپنی گدڑی کے چند لعل کیوں سپرد خاک کرکے اگلی منزل کی جانب اپنے ترکش کے بچے ہوئے تیر لے کے نکل جاتے ہیں۔ علاقہ چھوڑنے سے کچھ دن قبل ڈرون حملےمیں ہونے والے تمام شہید بھی اسی قبرستان میں دفنائے گئے۔ اس کی نظر میں وہ شہداء گھوم گئے ،مولانا حمزہ ،آریانا استاد ، بلال بٹ ،جمال بھائی ،لالہ صابر اور صغیر بلوچ سمیت کتنے شہداء اب قبرستان کے مکین بن چکے تھے۔
؏دل کے ٹکڑے بھی کچھ پارہ ہائے جگر، چھوڑ آیا ہوں کیا بھول جاؤں انہیں
وہ درخت کے نیچے بیٹھا اپنے بھائیوں کے اشارے کا منتظر تھا کہ کاشن ملتے ہی بھاگ کر جائے،اور بقیہ کام نمٹاسکے۔ جیسے ہی اس کو معلوم ہوا کہ اب فضا میں شاید دوبارہ سکون ہے ،وہ بھاگتا ہوا کچن میں گیا جلدی جلدی پیاز کاٹے اور جلدی میں کھانا بنایا۔جب کھانا بن گیا اور کھانا تیار ہونے کا اشارہ کردیا تو پھرجلدی میں دستر خوان لگایا گیا ، اور سب بھائیوں نے کھانا کھایا۔ ایک بھائی کی فرمائش پر چائے بنائی گئی، سب نے دودھ والی چائے پی ، اور اپنی اپنی بائیکیں اٹھائیں، کفر کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے کسی جگہ رات بسر کرنے کے لیے کسی انجانی منزل کی جانب یہ مسافر منتشر ہوگئے ۔
یہ بھی کیا عجیب لوگ ہیں، کیا خوشیاں ان کو اچھی نہیں لگتیں، کیا دنیا میں اس طرح زندگی گزاری جاتی ہے……؟ اگر یوں لڑتے رہے تو دنیاوی اسٹیٹس کہاں ملے گا، کیرئر پلاننگ کی دنیا کون سجائے گا۔ یہ وہ طعنے یا وہ بھاشن تھے جو اس راہ پر قدم رکھنے سے قبل نام نہاد ناصحین سے سننے کو ملتے ، اس کو یاد آیا وہ اس دن کتنا خوش تھا جب اس کو پہلی دفعہ تشکیل پر بھیجا گیا۔ اس کی تشکیل خط اول پر بنائے گئے مرکز میں ہوئی جہاں سارا دن مجاہدین اسلام کفر سے لڑنے، اس پر جھپٹنے کے منصوبے بناتے رہتے تھے ، کبھی فلاں ٹاپ پر چڑھ رہے ہیں مورچوں کا پوائنٹ لینے کے لیے، تو کبھی کسی ٹاپ پر ، بڑے اسلحے کی کلاسز بھی ساتھ ساتھ چلتیں ،تو کبھی مائن کے لیے تختے بنانے کا مقابلہ ہوتا ، ہر دوسرے دن کارروائی ہوتی جس میں کبھی اگر اس کو پیچھےبٹھا دیا جاتا، تو اس کا بس نہیں چلتا تھا طوفان ہی مچادے ۔ہر ممکن طریقے سے کبھی مصنوعی ناراضگی سے تو کبھی مستقل منانے سے امیر کو راضی کرکے جانے کی کوشش کرتا۔ کبھی اس کا گر کام آجاتا تو کبھی پیچھے رہنا پڑجاتا ، کسی دن رہنا پڑجائے تو وہ تب محاذوں پر گئے امت کے ان ابطال کے لیے دعا مانگنے لگ جاتا،یا اللہ تیری امت کی یہ نوجواں لاج ہیں، انکی حفاظت فرما۔
ایک دن یوں ہوا کہ جس دن کارروائی کے لیے نکلنا تھا صبح ہی صبح جمال بھائی گاڑی پیچھے موڑ رہے تھے۔ ان کو معلوم نہیں ہوا پیچھے چٹان ختم ہوگئی اور گاڑی الٹنے لگی ۔ جمال بھائی کو جب یہ یقین ہوگیا کہ گاڑی الٹنے والی ہے توانہوں نے گاڑی سےچھلانگ لگادی ۔ ان کے ہاتھ سے بیت المال کا نقصان کیا ہوا ،انہوں نے جاکر وضو کیا اور نوافل کی نیت باندھ کر کھڑے ہوگئے اور نماز میں ہچکیوں سے رونا شروع کردیا ؛ بار بار اللہ سے توبہ و استغفار کرتے رہے ، جب کارروائی پر جانے کا وقت آیا تو اس کو معلوم ہوا کہ ا س کا نام ان خوش نصیبوں میں شامل نہیں تھا،تھوڑی دیر بعدساتھی کارروائی پر چلے گئے ،وہ رنجیدہ ہوگیا۔ امیر صا حب نےقریبی بازار جانا تھا ، انہوں نے اس کودلاسہ دیاکہ میں ظہر تک آؤں گا تب دونوں اکٹھے مل کر چلیں گے ۔ آج وہ کتنا غمگین تھا بس دعاؤں کا سہارا تھا اور دعائیں ہی رنگ لاتی ہیں۔ سیدناعمر فاروقؓ کا قول ہے کہ ’تم اپنے نیک اعمال کی بنیاد پر ہی جنگ کرتے ہو‘۔تھوڑی دیر بعد امیر صاحب آئے اور کھانا کھانے کے بعد محاذ کی جانب سفر شروع ہوگیا ۔ جب وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچے تو مجاہدین مارٹر گولہ سیٹ کرکے دشمن پر پھینکنے ہی والے تھے ۔ایک مجاہدنےپوچھا کون پہلا گولہ فائر کرے گا؟وہ آگے آگیا،’ میں پہلا گولہ ڈالتا ہوں‘۔ اس کو اپنے بھائیوں کا بدلہ لینا تھا، جنہوں نے امت کے ان ابطال کو شہید کیا،سردی سے کڑکڑاتی راتوں میں ہماری عفت ماب بہنوں کو برف پرچلایا ، اوران کے پیچھے ان کے دودھ پیتےبلکتے ہوئے بچے چھوڑے۔ پہلا گولہ ڈالنا بھی اسے ہی چاہیے تھا ،وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمیپڑھ کر اس نے گولہ ڈال دیا ،تکبیر کے نعرے کی گونج میں اس نے اوپی سے سنا گولہ کیمپ کے اندر جاکر لگا ، مخابرے تکبیر کے نعروں سے گونج رہے تھے ، کل ذخیرہ پانچ مارٹر گولےتھے جو تمام کے تمام کیمپ کے اندرجاکر لگے ، اس کو آج ایسے لگا جیسے پہاڑ بھی تکبیر کے نعرے لگارہے ہوں اور بدلہ لینے پر خراجِ تحسین پیش کر رہے ہوں ،اتنی شاندار کارروائی کے بعدتمام مجاہدین خیریت سے لوٹ آئے ،بس یہی خوشی سب سے بڑی تھی۔ مرکز پہنچ کے دیکھا جمال بھائی غائب ہیں، بالاخر نو دفعہ بائیک گرانے کے بعدوہ بھی پہنچ ہی گئے۔
آج کا دن بہت عجیب تھا ،پورا دن ڈرون گھومتا رہا تھامگر عصرکے وقت فضا میں مکمل سناٹا چھا چکا تھا۔ دل پر عجیب اداسی سی چھائی ہوئی تھی ، دو دن قبل قاری عثمان المعروف عبدالحسیب مرکز میں بھائیوں سے ملنے آئے تھے ،انکے چہرے پر چمکتا نور واضح شہادت کی گواہی دے رہا تھا۔ شام کا کھانا کھانے کے بعد اچانک فضا میں ڈرون کی پرواز غیر معمولی طور پر بڑھ گئی، ساتھیوں کے مشورے کے بعد یہی طے پایا کہ قریبی گاؤں میں ہی سہی لیکن منتشر ہونابہتر رہے گا۔ ساتھی دو دو کی ٹولیوں میں تقسیم ہوگئے ،آج کافروں کے تیور کچھ مختلف سے لگ رہے تھے ،اگر ان کا بس چلے تو ان نہتے اہل ایمان اور ان کے گھروں کے چراغ بس ایک بار بجھا ہی دیں ،مگر یہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ وہ اپنا نور پورا کرکےرہے گا چاہے کافروں کو کتنا ہی برا کیوں نہ لگے۔
رات کی سیاہی اپنی چادر پھیلا چکی تھی ،اتنے میں دروازےپر دستک ہوئی ، حمزہ فدائی شہید نے اٹھ کے دروازہ کھولا تو دو بھائیوں کو سامنےکھڑے پایا ۔ ان بھائیوں کی زبانی معلوم ہوا کہ فضا میں ڈرون ، ہیلی کاپٹر اور چینوک کا کان پھاڑ دینے والا شور ہے ۔ قریبی گاؤں میں امریکی چھاپہ ہے ،آج پھر امت کے کسی گھر میں امریکی صلیبی فوجی اتر آئے تھے ، شاید آج پھر کسی بہن کا گھر اجاڑا جارہا تھا۔صبح کی نماز کے لیے انصار پانی لے کے آیا اور ہم ساتھیوں نے فجر کی نماز ادا کی ،ہم نے نماز کے بعد سبز قہوے کے ساتھ ناشتہ کیا،تھوڑی دیر بعد مخابروں کے ذریعے معلوم ہوگیا کہ عبدالحسیب بھائی کے گھرچھاپہ آیا تھا۔کافی دیر تک لڑائی ہوتی رہی ،اس کے بعد مروان بھائی شہید ہوگئے ،اور امریکی عبدالحسیب بھائی کو زخمی حالت میں اپنے ساتھ لے گئے مگر وہ راستے میں زخموں کی تاب نہ لاکر شہید ہوگئے ۔ انکی اہلیہ کو بھی یہ صلیبی کافر زخمی حالت میں اپنے ساتھ لے گئے ، اور پیچھے ان کے بلکتے بچے چھوڑ گئے ۔ آج ایک مزید قرض کا اضافہ ہوگیا تھا، آج تمام مجاہدین کے کندھے کتنے بوجھل تھے، کافروں کی جانب سے امت مسلمہ کو دیے گئے ایک اور زخم کا ضافہ ہوگیا تھا ۔ آج امت کا ایک اور سپاہی اس امت کو عزت دلانے کی خاطر اپنے بچوں کو یتیمی کے داغ دے کر رخصت ہوگیا ،آج اسلام کی آبیاری کے لیے ایک اور گھر اجڑ گیا، مگرباقی رہ جانے والوں پر قرض باقی رہ گیا تھا۔ رات کے چھاپے کے بعد فضا میں گھومتا یہ دجالی پرندہ مزید غصہ دلا رہا تھا ۔
آج زمین کچھ زیادہ ہی تنگ نظر آ رہی تھی اس لیے کچھ بھائی مرکز خالی کرکے قریبی بازار کی چھوٹی سی مسجد میں جاکر بیٹھ گئے۔ سروں کے اوپر مستقل ڈرون کی نقل وحرکت جاری تھی ۔
ماضی میں اس نے جھانکا، کل ہی کی بات لگتی تھی،ا س کو یاد آیا شمالی وزیرستان لِواڑا میں مجاہدین کے اپنےہاتھوں سے کھدی ہوئی خندق میں مربی ومزکی عالم باعمل استاد احمد فاروق رحمہ اللہ اپنے ساتھ بیٹھے چند دیوانوں کو انہی گزرنے والے حالات کے بارے میں سمجھا رہے تھے۔خندق میں ان کی آوازگونج رہی تھی ،والذین جاھدو فینا لنھدینھم سبلنا، یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ جو اس کے راستے میں نکلتا ہے ، اس کے لیے اللہ کی طرف سے راستے کھلنے کا اللہ کی طرف سے وعدہ ہے ۔آج ہم سے زمین چھن چکی ہے، مگر اس سے زیادہ وسعت کی زمینیں، پہلے سے زیادہ محبت کرنے والے لوگ ،اللہ تعالی عطافرمائے گا۔ مجلس سے رخصت ہوتے ہوئے وہی محبت بھرا انداز ،’پیارو! میں نے اپنا بیگ چھوٹا کر لیا ، آپ بھی اپنا بیگ چھوٹا کرلیں ‘۔زادِ راہ کم کرنے کا فیصلہ ہوا تھا ، بغیر ہاتھ بڑھائے عہدوپیمان باندھے گئے تھے ۔ جدائی کے دن قریب تھے ،اپنے استاد و مربی سے جدا ہونا تھا۔
محمد ﷺتو بس اک رسول ہیں ،ان سے پہلے بھی کئی رسول گزرچکے ہیں۔ پس اگر وہ فو ت ہوجائیں یا قتل کردیے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل الٹے پھر جاؤگے، اور جو کوئی الٹا پھِر جائے اپنی ایڑیوں پر تو وہ ہرگزاللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکے گا اور عنقریب اللہ بدلہ دے گا شکر گزاروں کو ۔
چند دن بعد آنے والی خبر سے معلوم ہوا کہ عزیز ترین استاد سے جدائی اب دائمی ہے۔ یہاں تک کہ ہم بھی ، اپنے حصّے کے چند کنکر پتھر، کفر کے لشکر پر پھینک کر ان کے پاس جا پہنچیں۔
سوچوں کے بھنور سے وہ تب نکلا ،جب میزائل داغے جانےکی آواز آئی ۔ فضا میں بجلی کا کوندا سا لپکا اورہم سب مخابرے سے کان لگا کر سننےلگے کہ کہاں حملہ ہوا ہے ۔ تھوڑی دیر بعد معلوم ہوا کہ مہاجر مجاہدین کی خدمت پر مامور انصار کے آٹھ سالہ بکریاں چراتے بچے کو شہید کردیا ۔ آج فرعون اپنی فرعونیت دکھانے پر تلا ہوا تھا ،آج یوں لگتا تھا زمین پر موجود سبھی اہل ایمان ان کافروں کا ہدف تھے ،تبھی وہ فضا میں چھ سے سات سٹرائیکنگ ڈرون لے کر آگیا تھا ، آج کفر کے تیور دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ ان مٹھی بھر لوگوں سے بے حد خائف ہے ۔ ایک رات قبل احسان اللہ خواب میں نبیﷺ کی زیارت کرچکا تھا ، دیدار تو وہ خوش نصیب پہلے بھی کرچکا تھا، جانثاری کا پروانہ بھی مل چکا تھا، بس سر کے کٹنے کی دیر تھی سو وہ بھی کٹ گیا ،اوراحسان اللہ خوش نصیبوں میں شامل ہوگیا۔
نماز عصر سے تھوڑی دیر قبل فضائی محاصرے میں گھرے مہاجر مجاہدین مختلف ٹولیوں کی صورت میں بازار سے اس حالت میں نکلے کہ سروں پر ڈرون کا نہ ختم ہونے والا شور تھا ، آج ڈرون کا شور کچھ زیادہ ہی محسو س ہورہا تھا ، جب آسمان کی جانب نظر اٹھا کر دیکھا تو کلیجہ حلق میں آگیا۔ اس وقت اس کو غار میں بیٹھے سیدنا ابوبکرؓ یاد آگئے، دشمن کو قریب دیکھ کے سیدیؓ نے فرمایا ،’’ یا رسول اللہ !وہ پہنچ گئے‘‘ ۔ تو نبیﷺ نے فرمایا ،’’ابوبکر غم نہ کر،ان اللہ معنا بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔
کیا خبر تھی کب ڈرون میزائل کا وار کردے ،نماز کا وقت بھی ہوچکا تھا ،اس لیے نماز عصر ادھر ہی ڈرونوں کے سائے میں اداکرلی ۔وہ خوش ہوگیا کہ چلو پہلی دفعہ ہی سہی ،ٹوٹی پھوٹی ہی سہی،بہرحال نماز عشق ادا تو کرلی تھی ۔نماز ادا کرنے کے بعد یہ مسئلہ سر پر آکھڑا ہوا کہ اب رات کہاں بسر کریں ۔سمجھ نہیں آرہا تھا آج کون اپنی جان کے عوض ان نہتے اہل ایمان کی پہریداری کرے گا۔ راستے میں مدرسے سے سبق پڑھ کر آنے والا ایک چھوٹا سا بچہ ملا، جس کی غیرت ایمانی یہ گوارا نہ کرسکی کہ دو مہاجر بھائی اس کے گھر کے باہر رات گزاریں۔ شاید اس نے سوچا ہوگا فضا میں اڑتے ڈرون طیارے اور یہ کفر آج ہماری نصرت ایمانی کا امتحان لینا چاہتے ہیں۔
؏تو سارے ہنر آزما صیاد، میرا حوصلہ بھی کمال کا ہے
رات کے کھانے کے بعد نماز عشاء پڑھ کے فارغ ہی ہوئے تھے، فضا میں ایک دفعہ دوبارہ ڈرون سٹرائیک ہوا ،زبان سے انا للہ وانا الیہ راجعون نکلا ، ہم سب نے اسی اللہ کے پاس ہی جانا ہے ، اور اس کا دربار ہی ہے ، جہاں ایک وقت مقرر ہے ہم سب کے جمع ہونے کا ، جہاں قاتل بھی جمع ہوں گے، مقتول بھی ،وہ بھی آئیں گے جو رب کی ان دیکھی جنتوں کی خاطر نمرود کی جلائی ا ٓگ میں کود گئے،قید خانوں میں جن کے جسم کابال بال نوچ دیا گیا اور جسموں کو ڈرل مشینوں سے سوراخ سوراخ کردیا گیا ،روشن جبینیں اور چمکتے ہوئے چہروں کے ساتھ وہ جوان بھی آئیں گے جن کو رات کے اندھیروں میں ہتھکڑیاں لگا کرریاستی اداروں نے شہید کیا ۔آج وہ اپنا نامہۂ اعمال ہاتھوں میں لیے شاداں و فرحاں گھومتے ہوں گے ،آج ان کے لیے شہد کی نہریں ہوں گی، صاف شفاف شراب، اپنے اہل وعیال کے سنگ بیٹھ کے اس تجارت پر خوشیاں مناتے ہوں گے،جو انہوں نے اپنے رب سے کی،آج سب سے بڑا انعام ان کے لیے مغفرت اور روزی ہوگا۔ جب کہ کچھ بدبخت افراد یا گروہ ایسے آئیں گے جو ساری زندگی اللہ اور اس کے رسولﷺکی دشمنی پر ہی کمر بستہ رہے ،آ ج ان بدبختوں کے لیے ابلتا اور کھولتا ہوا پانی ہوگا، زقوم تھوہر کھانا ہوگااور دردناک عذاب ہوگا، اور وہی ان کا بدلہ ہوگا جو ان کے رب کی طرف سے ان کو دیا گیا۔ جب یہ مجرمین جہنم کی سختیوں کو دیکھ کر فرشتوں سے تھوڑا ہاتھ ہولا رکھنے کی درخواست کریں گے توفرشتے صاف کہہ دیں گے ہمیں اوپر سے آرڈر ہے ۔
ہم مخابروں سے کان جوڑ کر بیٹھ گئے ، تھوڑی دیر بعد معلوم ہوگیا ، قریبی گاؤں کے امام مسجد کو شہیدکردیا ، نماز ادا کرکے جانے والے ایک امام مسجد کو نشانہ بنایا گیا ۔ کتنی عجیب بات ہے کہیں مساجد نشانہ ہیں، تو کہیں امام مسجد ،کہیں حجاب آنکھوں میں کھٹکتا ہے تو کہیں مسلم قوم کا وجود، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے شرق سے لے کر غرب تک لڑی جانے والی یہ جنگ صلیبی جنگ ہی ہے چاہے اس کو کسی بھی نام کا پہناوا پہنادیں ۔ نیند کہاں آنی تھی ،جب سروں پر اڑتے ڈرون کی یلغار، اور سٹرائیکنگ ہماری سوچ سے بھی زیادہ ہو تو بھلا نیندکس کو آتی ہے ،امت مسلمہ کی صورتحال پر اپنے گھروں کو چھوڑ کر آنے والے یہ چند دیوانے بھی سوجائیں تو صلیبی یلغار کا عفریت پوری امت مسلمہ کو ہی نگل جائے ۔کفر بھی غیض وغضب میں تھا، تبھی وہ کبھی یمن کے شہر مکلہ میں مسلم آبادیوں پر دھاوا بول کے معصوم بچوں اور عورتوں کو نشانہ بناتا، تو کبھی صومالیہ کے نہتے اہل ایمان اس کا ہدف ہوتے ، کہیں برما کی پوری آبادیاں ملیا میٹ کردی جاتیں، تو کہیں بھگوا دہشت گردوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ مسلم آبادیوں کو تہہ وتیغ کرنے کی تیاریوں کے آخری مراحل میں دکھائی دیتے ۔ سو پوری رات ڈرون بھی پوری شدت سے چکر لگاتا رہا اور ہم نے بھی وہ رات آنکھوں میں کاٹی،دعا ئیں کر کرکے خیریت سے وہ رات بھی گزرگئی۔
اس علاقے میں رہنا مشکل ہوچکا تھا ، کفر اپنی درندگی پر اتر آیا تھا ،وہ مجاہدین کی نصرت کی سزا مسلم عوام کو دے رہا تھا ۔ کاش صبح شام مجاہدین ہی کو قاتل کے القابات سے نوازنے والے ذرا وزیرستان میں ہوتے ڈرون حملے،اوران کے نتیجے میں اجڑتی آبادیاں ،یمن و شام میں بم باریاں اور بھارت میں ہندو بھگوا دہشت گردیاں بھی دیکھ لیتے۔اگر امت کی حفاظت سے یہ لوگ پیچھے ہٹ جائیں تو کفر ان کو ایک ہی ہلے میں تباہ کر دے۔
بپھرتے طوفاں کے بالمقابل ہم ہی تو سینہ سپر تھے لوگو
نہ ڈوبنے دی تھی ہم نے کشتی اگرچہ راہ میں بھنور تھے لوگو
گھروں سے نکلے تھے ہم بھلا کر حسین اپنے دلوں کے ارماں
کسی کے نور نظر تھے ہم بھی کسی کے لخت جگر تھے لوگو
جلا کے ہم کشتیاں چلے تھے نہ مڑ کے دیکھا تھا ہم نے پیچھے
نگاہیں منزل پر ٹک گئی تھیں جو باندھے ہم نے کمر تھے لوگو
ا گلی صبح ہوتے ہی طے یہ پایا کہ کچھ ساتھی اپنے ساتھ مہاجر فیملیوں کو لے کر دوسرے علاقوں میں چلے جائیں ،ڈرون کی موجودگی میں سفر شروع ہوگیا ۔ بار بار ننھی حفصہ اپنے شہید بابا کو یاد کرتی رہی ،جو مالدیپ سے ہجرت کرکے آئے تھے اور چند دن قبل ہی ایک امریکی چھاپے میں جام شہادت نوش کرگئےتھے ۔ بھائیوں کو جس ڈاٹسن میں جگہ ملی وہ پیچھے سے کھلا تھا، جب سفر شروع کیا تو بارش برسنا شروع ہوگئی، مارچ کے دن تھے اور سردی کے آخری ایام ، پھر سردی بھی خراسان کی ، بارش نے برسنا تھا سو وہ بھی کھل کے برسی، اور دوران سفر برستی ہی رہی ۔ شروع میں سردی لگنا شروع ہوئی،ہم نے اپنے اوپر پلاسٹک لپیٹ لیا مگر وہ بیچارہ کہاں تک بارش کے سامنے مزاحمت کرتا ،سب ساتھیوں کے کپڑے بھیگ چکے تھے۔ منزل مقصود پر جب یہ مختصر قافلہ پہنچا ،تو تقریباً ٹانگیں کام کرنا چھوڑ چکی تھیں ۔ڈرون کے فضائی محاصرے میں جب یہ لٹا پٹا قافلہ انصار کے گھر پہنچا ،تو انصار نے جلد ی میں بخاری گرم کی جس سے جسموں کوبہت راحت ملی ۔
کچھ دنوں بعد اس کی تشکیل کسی اور علاقے میں ہوگئی ، اس گھر میں چند دن رہنے کے بعدمہاجرین کی یہ فیملی بھی وہاں سے قربانیوں کی نئی داستانیں رقم کرتے ہوئے ہجرت ورباط کی نئی زمینوں کی طرف چلی گئی، مگر خراسان کی سرزمین اپنے اندر غازیوں اور شہدا کی داستانیں رقم کیے آج بھی نصرت واعداد کی نئی منازل طے کررہی ہے ۔
شہداکا خون ظالموں کےتخت کو تاراج کرچکا ہے،مظلوموں کی آہیں اور سسکیاں رنگ لاچکی ہیں ،رب کی نصرت یوں اتری کہ راتوں رات دشمن کا سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہاکے لے گئی،ان کی ہانڈیاں الٹ گئیں اور خیمے الٹ گئے، دشمن شکست کی کالک چہرے پرملے یہاں سے رخصت ہوگیا۔
آج صلیبی ڈرون کے وار بند ہوچکے ہیں ، بگرام اور ابو غریب کے بدنام زمانہ جیل شوراب ایئر بیس اور ڈوئر بیس اللہ والوں کے قدموں کے نیچے ہے، موسیقی کے بجائے ان کیمپوں میں تکبیر وتلاوت کی آوازیں گونج رہی ہیں۔ مگر دین کے لیے اپنے گھر بار چھوڑنے والے یہ مہاجرین، رب کے بے سروسامان بندے ابھی بھی اپنے گھروں کو نہیں پلٹے ، کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ یہ دنیا اک ظلمت کدہ ہے، اور ہمارا کام اس کو گلزار بنانا ہے۔
آج یہ نہتے بندگانِ خدا ، یہ مہاجرین آج برصغیر میں اسلامی نظام اور اپنے آباء کی کھوئی ہوئی میراث کو پانے کے لیے افق کے اس پار پیر پنجال کی چوٹیوں پر جاپہنچے ہیں ، نبیﷺ کی آواز ان کو کرب کے ایام کے بعد فرحتوں کے ایام کی خبر سنارہی ہے ،جہنم سے آزادی کا پروانہ مل چکا ہے، وہ شہداچلے گئے مگر قرض ان کا اب بھی باقی ہے، اب پیر پنجال کی چوٹیوں پر دوبارہ سے اللہ کے ان دیوانوں کا رَن ہے، دہلی کی جامع مسجد دوبارہ سے ان دیوانوں کی راہ تک رہی ہے ۔
٭٭٭٭٭