کعبۃ اللہ کا ڈھایا جانا
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَايَعُ لِرَجُلٍ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ وَلَنْ يَسْتَحِلَّ الْبَيْتَ إِلَّا أَهْلُهُ فَإِذَا اسْتَحَلُّوهُ فَلَا تَسْأَلْ عَنْ هَلَكَةِ الْعَرَبِ ثُمَّ تَجِيءُ الْحَبَشَةُ فَيُخَرِّبُونَهُ خَرَابًا لَا يَعْمُرُ بَعْدَهُ أَبَدًا هُمْ الَّذِينَ يَسْتَخْرِجُونَ كَنْزَهُ (مسند احمد)
’’حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان ایک آدمی سے بیعت لی جائے گی اور بیت اللہ کی حرمت اسی کے پاسبان پامال کریں گے اور جب لوگ بیت اللہ کی حرمت کو پامال کردیں پھر عرب کی ہلاکت کے متعلق سوال نہ کرنا، بلکہ حبشی آئیں گے اور اسے اس طرح ویران کردیں گے کہ دوبارہ وہ کبھی آباد نہ ہوسکے گا اور یہی لوگ اس کا خزانہ نکالنے والے ہوں گے۔‘‘
یعنی اسی امت کے لوگ خانہ کعبہ کو تباہ کریں گے، باہر کا کوئی دشمن بھی کعبہ کو تباہ نہیں کرسکتا، کعبہ کی حرمت محض اسی وقت پامال کی جاسکے گی جب اس امت کے اپنے لوگ اس کی تباہی کے درپے ہوجائیں گے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالخصوص بتا بھی دیا کہ کعبہ کو تباہ کرنے والا کون ہوگا، یہ بخاری کی حدیث ہے:
قَالَ يُخَرِّبُ الْکَعْبَةَ ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنْ الْحَبَشَةِ (بخاری)
’’ کعبہ کو دو چھوٹی پنڈلیوں والا حبشی تباہ کرے گا۔‘‘
یعنی وہ شخص پتلی ٹانگوں والا ہوگا جو کعبۃ اللہ کو تباہ کرے گا اور اس کی ایک ایک اینٹ اکھاڑ دے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گویا میں اسے دیکھ رہا ہوں کعبہ کی ایک ایک اینٹ اکھاڑتے ہوئے اور اس وقت کعبہ تباہ ہوجائے گا۔
امام مہدی رضی اللہ عنہ
اور یہ وہ آخری چھوٹی نشانی ہے قیامت کی جس کے بارے میں ہم بات کریں گے۔امام مہدی کا ظہور، مدینہ منورہ اور کعبۃ اللہ کی تباہی کے بعد نہیں بلکہ اس سے پہلے ہوگا۔ مگر میں اس کا ذکر آخر میں اس لیے کررہا ہوں کہ یہ نشانی پھر قیامت کی بڑی نشانیوں سے متصل ہے، مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اور دجال وغیرہ، جبکہ مدینہ منورہ کا ویران ہونا اور کعبہ کی تباہی قیامت کے آنے سے بالکل پہلے ہوگی۔امام مہدی کا ظہور قیامت کی چھوٹی نشانیوں میں سے ہے اور احادیث میں جتنی صراحت سے امام مہدی کے ظہور کو بیان کیا گیا ہے اس کے بعد اس بات میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ مہدی آئیں گے، لہٰذا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کی حیثیت سے ہم یقین رکھتے ہیں کہ آخر الزمان میں مہدی نام کے ایک شخص کا ظہور ہوگا جو اس امت پر عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کریں گے جبکہ اس سے قبل امت ظلم کی چکی میں پس رہی ہوگی۔ اور یہ کہ وہ اہل بیت میں سے ہوں گے اور ان کا نام محمد بن عبداللہ ہوگایا احمد بن عبداللہ ہوگا اور وہ حسن بن علی بن ابی طالب کی نسل سے ہوں گے اور یوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحب زادی حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی نسل سے ہوں گے اور یہ کہ وہ اس امت پر سات یا آٹھ سال تک حکومت کریں گے۔ امام مہدی کے بارے میں چند احادیث دیکھتے ہیں۔ سب سے پہلی حدیث صحیح مسلم کی ہے:
لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَی الْحَقِّ ظَاهِرِينَ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ قَالَ فَيَنْزِلُ عِيسَی ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُ أَمِيرُهُمْ تَعَالَ صَلِّ لَنَا فَيَقُولُ لَا إِنَّ بَعْضَکُمْ عَلَی بَعْضٍ أُمَرَائُ تَکْرِمَةَ اللَّهِ هَذِهِ الْأُمَّةَ (مسلم)
’’میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ رہے گا جو حق پر (قائم رہتے ہوئے ) لڑتا رہے گا ، وہ قیامت کے دن تک (جس بھی معرکے میں ہوں گے) غالب رہیں گے، فرمایا : پھر عیسیٰ ابن مریم علیہ الصلوۃوالسلام اتریں گے تو اس گروہ کا امیر کہے گا : آئیے! ہمیں نماز پڑھائیے ، اس پروہ جواب دیں گے: نہیں ! اللہ کی طرف سے اس امت کو بخشی گئی عزت و شرف کی بنا پر تم ہی ایک دوسرے پر امیر ہو۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس امت کے بدترین دور میں بھی، ایسے دور میں جب بظاہر خیر مفقود ہوگی، اس وقت بھی ایسے لوگ موجود رہیں گے جو حق پر قائم ہوں گے اور اللہ رب العز ت کے دین کی سربلندی کی خاطر لڑتے رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اس امت میں ہمیشہ خیر موجود رہے گی اور دیگر امتوں کے ساتھ جو ہوا وہ اس امت کے ساتھ نہیں ہوگا۔ دیگر امتوں کے پاس اللہ رب العزت کے بھیجے ہوئے نبی شریعت لے کر آتے، کچھ وقت تک وہ ان احکامات پر عمل کرتے مگر پھر بتدریج بگڑتے بگڑتے وہ مکمل طور پر گمراہ ہوجاتے تو اللہ رب العزت ان کے پاس ایک اور نبی بھیج دیتے۔لیکن اس امت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں، لہذا اس امت کا احیا اسی امت کے لوگ کریں گے، وہی لوگ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے وارث ہوں گے۔ کتابِ محفوظ یعنی اللہ کی کتاب جس کی حفاظت کا وعدہ اللہ رب العزت نے کیا ہے اور اس خیر کی وجہ سے جو اللہ رب العزت نے اس امت میں رکھی ہے، یہ امت آخری دور تک باقی رہے گی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کی مثال بارش کی طرح ہے، کوئی نہیں جانتا کہ اس کی خیر کہاں ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو مسلسل ایک سی رفتار اور مقدار کے ساتھ نہیں ہوتی۔ اچانک تیز ہوجاتی ہے اور پھر کچھ وقت کے بعد آہستہ ہوجاتی ہے اور پھر کچھ دیر بعد ایک تیز بوچھاڑ پڑتی ہے۔ جن علاقوں میں مسلسل چار پانچ گھنٹے بارش ہوتی ہے وہاں کے لوگوں کو اس کا صحیح اندازہ ہوگا کہ بارش گھٹتی بڑھتی رہتی ہے لہٰذا انسان نہیں جان سکتا کہ اس کی برکت اور خیر کہاں ہے، اس کے شروع میں ہے یا آخر میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کی مثال بھی اسی طرح ہے، آپ کو بہت سی خیر اس میں نظر آتی ہے اور پھر وہ جوش ٹھنڈا پڑجاتا ہے، انسان سمجھتا ہے کہ امت بس ڈوب گئی مگر پھر اچانک صالحیت کی ایک نئی لہر ابھرتی ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ امت بے جان ہوگئی اور اب اس کا احیا ممکن نہیں اور یہ تباہ ہوگئی مگر یکایک اللہ رب العزت اسے دوبارہ اٹھا کر کھڑا کردیتے ہیں اور یہی مثال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کے لیے بیان فرمائی۔ ایک اور حدیث جسے مسلم نے روایت کیا ہے:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خُلَفَائِکُمْ خَلِيفَةٌ يَحْثُو الْمَالَ حَثْيًا لَا يَعُدُّهُ عَدَدًا وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ حُجْرٍ يَحْثِي الْمَالَ (مسلم)
’’حضرت ابوسعید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے خلفاء میں سے ایک خلیفہ ہوگا جو کہ بغیر شمار کیے لب بھر بھر کر لوگوں میں مال تقسیم کرے گا۔‘‘
اور یہ خلیفہ مہدی ہوں گے۔ وہ مال شمار نہیں کریں گے کہ گن گن کر ایک نپی تلی مقدار دیں، وہ بس عطا کریں گے۔ اس دو رمیں اس قدر خیر وبرکت ہوگی کہ وہ بس عطا کرتے چلے جائیں گے۔ اگلی حدیث مسند احمد کی ہے:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُبَشِّرُكُمْ بِالْمَهْدِيِّ يُبْعَثُ فِي أُمَّتِي عَلَى اخْتِلَافٍ مِنْ النَّاسِ وَزَلَازِلَ فَيَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَظُلْمًايَرْضَى عَنْهُ سَاكِنُ السَّمَاءِ وَسَاكِنُ الْأَرْضِ يَقْسِمُ الْمَالَ صِحَاحًا فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مَا صِحَاحًا قَالَ بِالسَّوِيَّةِ بَيْنَ النَّاسِ قَالَ وَيَمْلَأُ اللَّهُ قُلُوبَ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غِنًى وَيَسَعُهُمْ عَدْلُهُ حَتَّى يَأْمُرَ مُنَادِيًا فَيُنَادِي فَيَقُولُ مَنْ لَهُ فِي مَالٍ حَاجَةٌ فَمَا يَقُومُ مِنْ النَّاسِ إِلَّا رَجُلٌ فَيَقُولُ ائْتِ السَّدَّانَ يَعْنِي الْخَازِنَ فَقُلْ لَهُ إِنَّ الْمَهْدِيَّ يَأْمُرُكَ أَنْ تُعْطِيَنِي مَالًا فَيَقُولُ لَهُ احْثِ حَتَّى إِذَا جَعَلَهُ فِي حِجْرِهِ وَأَبْرَزَهُ نَدِمَ فَيَقُولُ كُنْتُ أَجْشَعَ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ نَفْسًا أَوَعَجَزَ عَنِّي مَا وَسِعَهُمْ قَالَ فَيَرُدُّهُ فَلَا يَقْبَلُ مِنْهُ فَيُقَالُ لَهُ إِنَّا لَا نَأْخُذُ شَيْئًا أَعْطَيْنَاهُ فَيَكُونُ كَذَلِكَ سَبْعَ سِنِينَ أَوْ ثَمَانِ سِنِينَ أَوْ تِسْعَ سِنِينَ ثُمَّ لَا خَيْرَ فِي الْعَيْشِ بَعْدَهُ أَوْ قَالَ ثُمَّ لَا خَيْرَ فِي الْحَيَاةِ بَعْدَه (مسند احمد)
’’حضرت ابوسعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں مہدی کی خوش خبری سناتا ہوں، جو میری امت میں اس وقت ظاہر ہوگا جب اختلافات اور زلزلے بکثرت ہوں گے اور وہ زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسے قبل ازیں وہ ظلم وستم سے بھری ہوئی ہوگی۔ اس سے آسمان والے بھی خوش ہوں گے اور زمین والے بھی۔ وہ مال کو صحیح صحیح تقسیم کرے گا۔ کسی نے پوچھا: صحیح صحیح تقسیم کرنے سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا: لوگوں کے درمیان برابر برابر تقسیم کرے گا اور اس کے زمانے میں اللہ امت محمدیہ کے دلوں کو غنا سے بھر دے گا اور اس کے عدل سے انہیں کشادگی عطا فرمائے گا، حتیٰ کہ وہ ایک منادی کو حکم دے گا اور وہ ندا لگاتا پھرے گا کہ جسے مال کی ضرورت ہو وہ ہمارے پاس آجائے، تو صرف ایک آدمی اس کے پاس آئے گا اور کہے گا کہ مجھے ضرورت ہے، وہ اس سے کہے گا کہ تم خازن کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ مہدی تمہیں حکم دیتے ہیں کہ مجھے مال عطا کرو، خزانچی حسب حکم اس سے کہے گا کہ اپنے ہاتھوں سے بھر بھر کر اٹھالو، جب وہ اسے ایک کپڑے میں لپیٹ کر باندھ لے گا تو اسے شرم آئے گی اور وہ اپنے دل میں کہے گا کہ میں تو امت محمدیہ میں سب سے زیادہ بھوکا نکلا، کیا میرے پاس اتنا نہیں تھا جو لوگوں کے پاس تھا؟ یہ سوچ کر وہ سارا مال واپس لوٹا دے گا، لیکن وہ اس سے واپس نہیں لیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ ہم لوگ دے کر واپس نہیں لیتے۔ سات،آٹھ یا نو سال تک یہی صورت حال رہے گی، اس کے بعد زندگی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘‘
زلازل، زلزلے کے معنی میں بھی آتا ہے اور بڑی مصیبت کے معنی میں بھی، لہٰذا اس کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ وقت امت پر بڑی مصیبت اور مشکل کا ہوگا جس دور میں مہدی کا ظہور ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں مہدی کے ظہور کی بشارت دیتا ہوں۔ ناصرف زمین پر بسنے والے انسان مہدی سے خوش ہوں گے بلکہ فرشتے تک ان سے خوش ہوں گے۔ اس دنیا کی سب سے بڑی نا انصافی مال کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ اگر آپ کے تعلقات ہیں تو آپ کو وہ سب کچھ ملے گا جو آپ چاہیں، لیکن اگر آپ صالح، ایمان دار اور راست باز ہیں تو کوئی آپ کو پوچھے گا بھی نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امت کے اموال کو لوٹا جارہا ہے اور ان بے جا مصارف میں صرف کیا جارہا ہے جو اللہ رب العزت کی منشا کے خلاف ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالخصوص بتلایا کہ مہدی کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ مال کو لوگوں کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کریں گے اور حکومت کی ایک بہت بڑی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ مال کو درست طریقے سے حق داروں کے سپرد کرے۔سبحان اللہ! آپ دیکھتے ہیں کہ بعض مسلمان ممالک یا بعض علاقوں کے لوگ جو اپنی حکومتوں کے کردار سے مطمئن اور خوش ہیں اور آپ جب ان کی توجہ اس حکومت کی بعض ناانصافیوں کی طرف دلانا چاہتے ہیں تو یہ بات ہی ان کو سمجھ میں نہیں آتی۔ جب ہم مالی بے انصافی کی بات کرتے ہیں تو یہ کوئی سادہ معاملہ نہیں ہے، جب مال بے جا صرف ہورہا ہوتا ہے اور بلند مراتب پر فائز لوگ امت کا پیسہ لوٹ رہے ہوتے ہیں اور اسے اپنی مرضی و منشا کے مطابق استعمال کررہے ہوتے ہیں، جو کہ طاقت کا بدترین استعمال اور بدترین ناانصافی ہے تو یہ عام بات نہیں ہے اور نہ ہی یہ وہ چیز ہے کہ جس سے ہم صرف نظر کرسکیں، یہ ایک بڑا گناہ ہے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت اللہ رب العزت امت مسلمہ کے دلوں کو غنا سے بھر دے گا؛ یعنی لوگ صرف جسمانی طور پر خوش اور مطمئن نہیں ہوں گے۔ بعض مرتبہ آپ دیکھتے ہیں کہ لوگ بِک جاتے ہیں، وہ خاموش رہنے کی قیمت وصول کرلیتے ہیں اور لوگ اپنے پیسے کے ذریعے انہیں خرید لیتے ہیں، پیسہ تو مل جاتا ہے، خوش حالی بھی آجاتی ہے مگر دل کا اطمینان انہیں حاصل نہیں ہوتا۔ مگر امام مہدی کے دور میں ایسا نہیں ہوگا۔ لوگ نا صرف اس لیے خوش ہوں گے کہ ان کے پاس مال ہے بلکہ ان کادل غنی ہوجائے گا، یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دلوں میں غنا اتر جائے گا، اور غنا کا دل میں اتر جانا ہی اصل ہے۔امتیوں کے دل استغنا اور سکون سے بھر جائیں گے اور امام مہدی کا انصاف ان کے تمام امور پر غالب ہوگا۔ ان کا دور سات، آٹھ یا نو سال تک رہے گا۔
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَهْدِيُّ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ يُصْلِحُهُ اللَّهُ فِي لَيْلَةٍ (مسند احمد)
’’حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مہدی کا تعلق ہم اہل بیت سے ہوگا، اللہ اسے ایک ہی رات میں سنوار دے گا۔‘‘
کسی ٹوٹی ہوئی چیز کو جوڑنے کو اصلاح کہتے ہیں نیز کسی چیز کو اس کے عروج پر پہنچانا بھی اصلاح ہے اور کسی چیز کو سنوارنا بھی اصلاح ہے۔ اللہ جانتے ہیں کہ یہاں اصلاح کا کیا معنی ہے۔ اس کا معنی یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ رب العزت ایک رات میں انہیں قوت اور طاقت عطا فرمائیں گے، یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ رب العزت ایک رات میں انہیں ہدایت اور فہم دین سے سرفراز فرمائیں گے، البتہ جو بھی ہوگا ایک رات میں ہوگا۔ اگلی حدیث ہے:
عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنْ الدُّنْيَا إِلَّا يَوْمٌ قَالَ زَائِدَةُ فِي حَدِيثِهِ لَطَوَّلَ اللَّهُ ذَلِکَ الْيَوْمَ ثُمَّ اتَّفَقُوا حَتَّی يَبْعَثَ فِيهِ رَجُلًا مِنِّي أَوْ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي وَاسْمُ أَبِيهِ اسْمُ أَبِي يَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلًا کَمَا مُلِئَتْ ظُلْمًا وَجَوْرًا (سنن ابوداؤد)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر دنیا ( کے فنا ہونے ) میں ایک دن بھی باقی ہوا تو اللہ اس دن کو لمبا کر دے گا ۔ حتیٰ کہ اللہ اس میں ایک آدمی کو اٹھائے گا جو مجھ سے ہوگا یا میرے اہل بیت میں سے ہوگا ، اس کا نام میرے نام اور اس کے باپ کا نام میرے باپ کے نام جیسا ہوگا ۔وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسا کہ وہ ظلم و زیادتی سے بھری ہوئی ہوگی۔‘‘
لہٰذا امام مہدی کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام مبارک کی طرح محمد یا احمد ہوگااور ان کے والد کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کے نام کی طرح عبد اللہ ہوگا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل سے ہوں گے۔ یہ تفصیلات تھیں امام مہدی کی۔ اس کے ساتھ ہی قیامت کی چھوٹی نشانیوں کا بیان مکمل ہوگیا۔
[یہ سلسلۂ مضامین نابغۂ روزگار مجاہد و داعی شیخ انور العولقی شہید رحمۃ اللہ علیہ کے انگریزی میں ارشاد کیے گئے سلسلۂ دروس ’Al-Aakhirah – The Hereafter‘ کا اردو ترجمہ ہیں، جو بِتوفیق اللہ، قسط وار مجلّہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ میں شائع کیے جا رہے ہیں ۔ شیخ انور کو دعوت الی اللہ کے جرم میں امریکہ نے ایک ڈرون حملے کا نشانہ بنایا جس میں آپ اپنی ایک اہلیہ سمیت سنہ ۲۰۱۱ء کے نصفِ ثانی میں جامِ شہادت نوش کر گئے! ]