مجاہد کے لیے آداب
۱۸۔ مجاہد کو چاہیے کہ وہ علما ءاور متقی لوگوں کے ساتھ اٹھا بیٹھا کرے۔ ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
الْمَرْءُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ (احمد)
’’انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لیے تمہیں غور کرلینا چاہیے کہ تم کسے اپنا دوست بنا رہے ہو ؟‘‘
۱۹۔ مجاہد کو چاہیے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرے اور لوگوں کی اصلاح جیسے اہم امور کو اپنا ہدف بنائے۔ حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے روز فرمایا:
لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلًا يُفْتَحُ عَلَی يَدَيْهِ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ فَبَاتَ النَّاسُ لَيْلَتَهُمْ أَيُّهُمْ يُعْطَی فَغَدَوْا کُلُّهُمْ يَرْجُوهُ فَقَالَ أَيْنَ عَلِيٌّ فَقِيلَ يَشْتَکِي عَيْنَيْهِ فَبَصَقَ فِي عَيْنَيْهِ وَدَعَا لَهُ فَبَرَأَ کَأَنْ لَمْ يَکُنْ بِهِ وَجَعٌ فَأَعْطَاهُ فَقَالَ أُقَاتِلُهُمْ حَتَّی يَکُونُوا مِثْلَنَا فَقَالَ انْفُذْ عَلَی رِسْلِکَ حَتَّی تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَی الْإِسْلَامِ وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ فَوَاللَّهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِکَ رَجُلًا خَيْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ يَکُونَ لَکَ حُمْرُ النَّعَمِ (بخاری)
’’میں یہ جھنڈا کل اس کے ہاتھ میں دوں گا جس کے ہاتھ اللہ تعالیٰ نے فتح لکھی ہے۔ اللہ اور اللہ کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں اور وہ بھی اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے۔ ساری رات لوگ سوچتے رہے کہ یہ خوش نصیب کون ہوگا۔ جب صبح ہوئی تو سب کے سب رسول اللہ ﷺ کے گرد جمع ہوئے اور ہر ایک یہ چاہ رہا تھا کہ جھنڈا اس کو ملے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ وہ بیمار ہیں، ان کی آنکھ دکھتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جاؤ انہیں میرے پاس لاؤ۔ جب تشریف لائے تو آپ ﷺ نے ان کی آنکھ پر اپنا مبارک لعاب لگایا اور دعا دی۔ فوراً ان کی آنکھ اس طرح ٹھیک ہوگئی گویا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ آپﷺ نے انہیں جھنڈا دیا تو علی ؓ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا اس وقت تک ان سے لڑوں کہ جب تک وہ مسلمان نہ ہوجائیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ سیدھا جاؤ، یہاں تک کہ ان تک پہنچ جاؤ، پھر انہیں اسلام کی دعوت دو اور پھر ان فرائض کا انہیں حکم دو جو اللہ کی طرف سے ان پر عائد ہیں، میرے اللہ کی قسم! کہ اگر اللہ تیرے ہاتھ ایک آدمی کو بھی ہدایت دے تو یہ تیرے لیے سرخ اونٹوں سے زیادہ اچھی بات ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ (سورۃ آل عمران: ۱۱۰)
’’ تم وہ بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے ، تم حکم کرتے ہو نیکی کا اور تم روکتے ہو بدی سے اور تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر ۔‘‘
تفسیر طبری نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ قتادہؓ سے روایت ہے کہ عمرؓ نے جب حج ادا کیا تو لوگوں کے اندر انہوں نے بے ادبی دیکھی، تو آپؓ نے یہ آیت تلاوت کی اور پھر فرمایا : اے لوگو! اگر تم میں سے کوئی چاہتا ہے کہ اس امت میں سے ہوجائے تو اللہ کی وہ شروط پوری کرو جن کا اللہ نے اس امت سے مطالبہ کیا ہے یعنی امر بالمعروف و نہی عن المنکر، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو ان صفات کی وجہ سے بہترین امت قرار دیا ہے۔
۲۰۔ مجاہد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کے حقوق اپنے اور اپنے گھر کے معاملے میں پورے کرے۔ خصوصاً اپنے وقت پر جماعت کے ساتھ نماز پڑھے، اگر کسی مجبوری کی وجہ سے مسجد نہ جاسکتا ہو تو اپنے گھر میں نماز پڑھے۔ صلابی نے خلفا کی تاریخ میں لکھا ہے کہ عمرؓ نے اپنے والیوں کو لکھا : ’’تمہارے سارے کاموں میں سے سب سے اہم کام نماز ہے، جس نے نماز کا پورا اہتمام کیا اس نے اپنے دین کی حفاظت کی اور جس نے نماز کو ضائع کیا تو وہ دوسرے کاموں کو زیادہ ضائع کرے گا۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلٰۗىِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَآ اَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ (سورۃ التحریم: ۶)
’’ اے اہل ایمان ! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر ، اس پر بڑے تند خو ، بہت سخت دل فرشتے مامور ہیں ، اللہ ان کو جو حکم دے گا وہ فرشتے اس کی نافرمانی نہیں کریں گے ، اور وہ وہی کریں گے جس کا انہیں حکم دیا جائے گا۔ “
(وما علینا إلّا البلاغ المبین!)