دوسری فصل :
نماز کے چھوڑنے پر جو وَعید اور عِتاب حدیث میں آیا ہے اُس کابیان
حدیث کی کتابوں میں نمازنہ پڑھنے پربہت سخت سخت عذاب ذکر کیے گئے ہیں، نمونے کے طور پر چندحدیثیں ذکر کی جاتی ہیں۔ سچی خبر دینے والے کاایک ارشاد بھی سمجھ دار کے لیے کافی تھا؛ مگر حضورِ اقدس ﷺکی شفقت کے قربان کہ آپ نے کئی کئی طرح سے اور بار بار اس چیز کی طرف متوجہ فرمایا کہ ان کے نام لیوا، ان کی امت کہیں اس میں کوتاہی نہ کرنے لگے، پھر افسوس ہے ہمارے حال پر کہ ہم حضورﷺ کے اس اہتمام کے باوجود نمازکااہتمام نہیں کرتے، اور بے غیرتی اوربے حیائی سے اپنے کو امتی اور متبع رسول اور اسلام کادھنی بھی سمجھتے ہیں۔
1.
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللہِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاۃِ.(رواہ أحمد ومسلم)، وقال: بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْكِ وَالْکُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاۃِ. أبوداود والنسائي ولفظہ: لَیْسَ بَیْنَ الْعَبْدِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ إِلَّاتَرْكُ الصَّلَاۃِ. والترمذي ولفظہ قال: بَیْنَ الْکُفْرِ وَالإِیْمَانِ تَرْكُ الصَّلَاۃِ. وابن ماجہ ولفظہ قال: بَیْنَ الْعَبْدِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاۃِ. کذا في الترغیب للمنذري۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ حضورِاقدس ﷺکاارشاد ہے کہ نماز چھوڑنا آدمی کوکفر سے ملا دیتا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے کہ بندے کواورکفر کو ملانے والی چیز صرف نمازچھوڑناہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے کہ ایمان اورکُفر کے درمیان نمازچھوڑنے کافرق ہے۔
فائدہ: اس قسم کا مضمون اوربھی کئی حدیثوں میں آیا ہے۔ایک حدیث میں آیا ہے کہ ابر کے دن نمازجلدی پڑھاکرو کیونکہ نماز چھوڑنے سے آدمی کافر ہوجاتا ہے؛ یعنی کہیں ایسا نہ ہو کہ ابر کی وجہ سے وقت کاپتہ نہ چلے اور نماز قضا ہوجائے۔ (ابن حبان، حدیث: ۱۴۶۳)اس کو بھی نماز کاچھوڑنا ارشاد فرمایا؛ کتنی سخت بات ہے کہ نبیٔ اکرم ﷺ نماز کے چھوڑنے والے پر کفر کا حکم لگاتے ہیں، گو علما نے اس حدیث کو انکار کے ساتھ مقید فرمایا ہے مگر حضورﷺکے ارشاد کی فکراتنی سخت چیزہے کہ جس کے دل میں ذرا بھی حضورِاقدس ﷺ کی وقعت اور حضور ﷺ کے ارشاد کی اہمیت ہوگی، اُس کے لیے یہ ارشادات نہایت سخت ہیں۔اس کے علاوہ بڑے بڑے صحابہ، جیسا کہ حضرت عمر، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم وغیرہ حضرات کامذہب یہی ہے کہ بلاعذر جان کر نماز چھوڑنے والا کافر ہے۔ ائمہ میں سے حضرت امام احمد بن حنبلؒ، اِسحاق بن راہوَیہؒ، ابنِ مبارکؒ کا بھی یہی مذہب نقل کیاجاتا ہے۔ اَللّٰہُمَّ احْفَظْنَا مِنْہُ۔(الترغیب والترہیب، ۱ : ۱۹۷)
2.
عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: أَوْصَانِيْ خَلِیْلِيْ رَسُوْلُ اللہِ بِسَبْعَ خِصَالٍ، فَقَالَ: لَاتُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ شَیْئًا وَإِنْ قُطِعْتُمْ أَوْحُرِّقْتُمْ أَوْصُلِّبْتُمْ، وَلَاتَتْرُکُوْا الصَّلَاۃَ مُتَعَمِّدِیْنَ، فَمَنْ تَرَکَهَا مُتَعَمِّداً فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْمِلَّۃِ، وَلَاتَرْکَبُوْا الْمَعْصِیَۃَ فَإِنَّهَا سَخَطُ اللہِ، وَلَا تَشْرَبُوْا الْخَمَرَ فَإِنَّھَا رَأْسُ الْخَطَایَا کُلِّھَا. (رواہ الطبراني)
حضرت عبادہؓ کہتے ہیں کہ مجھے میرے محبوب حضورِ اقدس ﷺ نے سات نصیحتیں کیں، (جن میں سے چار یہ ہیں): اول یہ کہ اللہ کاشریک کسی کونہ بناؤ، چاہے تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جاویں، یا تم جلا دیے جاؤ، یاسولی چڑھا دیے جاؤ۔ دوسری یہ کہ جان کر نماز نہ چھوڑو؛ جو جان بوجھ کر نماز چھوڑ دے وہ مذہب سے نکل جاتا ہے۔ تیسری یہ کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرو کہ اِس سے حق تعالیٰ ناراض ہوجاتے ہیں۔ چوتھی یہ کہ شراب نہ پیو کہ وہ ساری خطاؤں کی جڑ ہے۔
فائدہ: ایک دوسری حدیث میں حضرت ابوالدرداءؓ بھی اس قسم کامضمون فرماتے ہیں کہ مجھے میرے محبوب ﷺنے وصیت فرمائی کہ اللہ کاشریک کسی کو نہ کرنا خواہ تیرے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جاویں، یاآگ میں جلا دیا جائے؛ دوسری یہ کہ نمازجان کر نہ چھوڑنا، جو شخص جان بوجھ کر نماز چھوڑتا ہے اُس سے اللہ تعالیٰ شانُہٗ بری الذِّمہ ہیں؛ تیسرے، شراب نہ پینا کہ ہر برائی کی کنجی ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء، حدیث: ۴۰۳۴)
3.
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: أَوْصَانِيْ رَسُوْلُ اللِّٰہﷺ بِعَشَرِ کَلِمَاتٍ، قَالَ: لَاتُشْرِكْ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَإِنْ قُتِلْتَ وَحُرِقْتَ، وَلَاتَعُقَنَّ وَالِدَیْكَ وَإِنْ أَمَرَاكَ أَنْ تَخْرُجَ مِنْ أَهْلِكَ وَمَالِكَ، وَلَاتَتْرُکَنَّ صَلَاۃً مَّکْتُوْبَۃً مُّتَعَمِّداً؛ فَإِنَّ مَنْ تَرَكَ صَلَاۃً مَّکْتُوْبَۃً مُّتَعَمِّداً فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْہُ ذِمَّۃُ اللہِ، وَلَاتَشْرَبَنَّ خَمَراً؛ فَإِنَّہُ رَأْسُ کُلِّ فَاحِشَۃٍ، وَإِیَّاكَ وَالْمَعْصِیَۃَ؛ فَإِنَّ بِالْمَعْصِیَۃِ حَلَّ سَخَطُ اللہِ، وَإِیَّاكَ وَالْفِرَارَ مِنَ الزَّحْفِ وَإِنْ هَلَكَ النَّاسُ، وَإِنْ أَصَابَ النَّاسَ مَوْتٌ فَاثْبُتْ، وَأَنْفِقْ عَلیٰ أَهْلِكَ مِنْ طَوْلِكَ، وَلَاتَرْفَعْ عَنْهُمْ عَصَاكَ أَدَباً، وَأَخِفْهُمْ فِيْ اللہِ.(رواہ أحمد والطبراني في الکبیر)
حضرت مُعاذؓ فرماتے ہیں کہ مجھے حضورِاقدس ﷺنے دس باتوں کی وصیت فرمائی:
أ۔
ب۔
ج۔
د۔
ہ۔
و۔
ز۔
ح۔
ط۔
ی۔
یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہ کرنا، گو قتل کردیا جائے یا جلا دیا جائے،
والدین کی نافرمانی نہ کرنا، گو وہ تجھے اس کا حکم کریں کہ بیوی کو چھوڑ دے یا سارا مال خرچ کر دے،
فرض نماز جان کر نہ چھوڑنا، جو شخص فرض نماز جان کر چھوڑدیتا ہے اللہ کاذِمَّہ اُس سے بَری ہے،
شراب نہ پیناکہ ہر بُرائی اور فحش کی جڑ ہے،
اللہ کی نافرمانی نہ کرنا کہ اِس سے اللہ تعالیٰ کا غضب اور قہر نازل ہوتا ہے،
لڑائی میں نہ بھاگنا، چاہے سب ساتھی مرجائیں،
اگرکسی جگہ وباپھیل جائے (مثلاً طاعون وغیرہ) تو وہاں سے نہ بھاگنا،
اپنے گھر والوں پر خرچ کرنا،
تنبیہ کے واسطے اُن پر سے لکڑی نہ ہٹانا،
اللہ تعالیٰ سے اُن کو ڈراتے رہنا۔
فائدہ: لکڑی نہ ہٹانے کامطلب یہ ہے کہ اس سے بے فکرنہ ہوں کہ باپ تنبیہ نہیں کرتا اور مارتا نہیں لہٰذا جو چاہے کرتے رہو؛ بلکہ اُن کو حُدودِ شرعیہ کے تحت رہتے ہوئے کبھی کبھی مارتے رہنا چاہیے کہ بغیرمار کے اکثر تنبیہ نہیں ہوتی؛ آج کل اولاد کوشروع میں تومحبت کے جوش میں تنبیہ نہیں کی جاتی، جب وہ بری عادتوں میں پختہ ہوجاتے ہیں تو پھر روتے پھرتے ہیں؛ حالانکہ یہ اولاد کے ساتھ محبت نہیں، سخت دشمنی ہےکہ اُس کوبری باتوں سے روکانہ جائے اور مار پیٹ کومحبت کے خلاف سمجھا جائے۔ کون سمجھ دار اس کو گوارا کرسکتا ہے کہ اولاد کے پھوڑے پھنسی کو بڑھایا جائے اور اس وجہ سے کہ نشتر لگانے سے زخم اورتکلیف ہوگی عملِ جَرَّاحی نہ کرایا جائے؛ بلکہ لاکھ بچہ روئے، منہ بنائے، بھاگے؛ بہرحال نشتر لگانا ہی پڑتا ہے۔
بہت سی حدیثوں میں حضور ﷺ کا ارشاد نقل کیاگیاہے کہ بچے کو سات برس کی عمر میں نمازکاحکم کرو اور دس برس کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر مارو (ابوداؤد، حدیث: ۴۹۵)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ بچوں کی نماز کی نگرانی کیا کرو اور اچھی باتوں کی اُن کوعادت ڈالو۔(در منثور، ۱:۵۳۴)
حضرت لقمان حکیم کاارشاد ہے کہ باپ کی مار اولاد کے لیے ایسی ہے جیسا کھیتی کے لیے پانی۔
حضورﷺ کاارشاد ہے کہ کوئی شخص اپنی اولاد کو تنبیہ کرے، یہ ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے(ایک صاع تقریباً ساڑھے تین سیر غلے کا ہوتا ہے)۔(جامع صغیر)
ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس شخص پر رحمت کرے جو گھر والوں کی تنبیہ کے واسطے گھر میں کوڑا لٹکائے رکھے۔ (جامع صغیر)
ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ کوئی باپ اپنی اولاد کو اِس سے افضل عطیہ نہیں دے سکتا کہ اُس کو اچھا طریقہ تعلیم کرے۔(جامع صغیر)
4.
عَنْ نَوْفَلِ بنِ مُعَاوِیَۃَ أَنَّ النَّبِيَّﷺ قَالَ: مَنْ فَاتَتْہُ صَلَاۃٌ فَکَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلُہٗ وَمَالُہٗ. (رواہ ابن حبان في صحیحہ)
نوفل بن معاویہ سے روایت ہے کہ حضورِاقدس ﷺکاارشاد ہے کہ جس شخص کی ایک نمازبھی فوت ہوگئی وہ ایسا ہے کہ گویا اس کے گھر کے لوگ اور مال و دولت سب چھین لیا گیا ہو۔
فائدہ: نمازکاضائع کرنا اکثر یا بال بچوں کی وجہ سے ہوتا ہے کہ اُن کی خیرخبر میں مشغول رہے، یا مال و دولت کمانے کے لالچ میں ضائع کی جاتی ہے؛ حضورِاقدس ﷺ کاارشاد ہے کہ نماز کا ضائع کرنا انجام کے اعتبار سے ایسا ہی ہے گویا بال بچے اور مال ودولت سب ہی چھین لیا گیا اور اکیلا کھڑا رہ گیا۔ یعنی جتناخسارہ اور نقصان اِس حالت میں ہے اُتنا ہی نماز کے چھوڑنے میں ہے، یاجس قدر رنج وصدمہ اِس حالت میں ہو اُتنا ہی نمازکے چھوٹنے میں ہونا چاہیے۔ اگرکسی شخص سے کوئی معتبر آدمی یہ کہہ دے اور اُسے یقین آجائے کہ فلاں راستہ لُٹتا ہے اور جو رات کو اُس راستے سے جاتا ہے توڈاکو اُس کو قتل کردیتے ہیں اورمال چھین لیتے ہیں، تو کون بہادر ہے کہ اُس راستے سے رات کوچلے؟ رات تودرکنار، دن کو بھی مشکل سے اُس راستے کو چلے گا؛ مگراللہ کے سچے رسول ﷺکا یہ پاک ارشاد ایک دو نہیں، کئی کئی حدیثوں میں وارد ہوا ہے اور ہم مسلمان حضورﷺ کے سچے ہونے کا دعویٰ بھی جھوٹی زبانوں سے کرتے ہیں؛ مگراِس پاک ارشاد کاہم پر اثر کیا ہے؟ ہرشخص کومعلوم ہے۔
5.
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: مَنْ جَمَعَ بَیْنَ صَلَاتَیْنِ مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ فَقَدْ أَتیٰ بَابًا مِّنْ أَبْوَابِ الْکَبَائِرِ.(رواہ الحاکم)
نبیٔ کریم ﷺ کاارشاد ہے کہ جوشخص دونمازوں کو بِلاکسی عذر کے ایک وقت میں پڑھے وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچ گیا۔
فائدہ: حضرت علی کَرَّم اللہُ وَجْہَہٗ فرماتے ہیں کہ حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ تین چیزوں میں تاخیرنہ کرو: ایک نماز،جب اُس کاوقت ہوجائے، دوسری جنازہ، جب تیارہوجائے، تیسری، بے نکاحی عورت، جب اُس کے جوڑ کا خاوند مل جائے (یعنی فوراًنکاح کردینا)۔
بہت سے لوگ جو اپنے کو دین دار بھی سمجھتے ہیں، اور گویا نماز کے پابند بھی سمجھے جاتے ہیں، وہ کئی کئی نمازیں معمولی بہانے سے -سفر کاہو، دکان کا ہو، ملازمت کاہو- گھر آکر اکٹھی ہی پڑھ لیتے ہیں، یہ گناہِ کبیرہ ہے کہ بِلاکسی عذربیماری وغیرہ کے نماز کو اپنے وقت پر نہ پڑھا جاوے، گوبالکل نماز نہ پڑھنے کے برابر گناہ نہ ہو؛ لیکن بے وقت پڑھنے کابھی سخت گناہ ہے، اِس سے خلاصی نہ ہوگی۔
6.
عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ عَمْروٍ عَنِ النَّبِيِّﷺ أَنَّہٗ ذَکَرَالصَّلَاۃَ یَوْماً فَقَالَ: مَنْ حَافَظَ عَلَیْهَا کَانَتْ لَہٗ نُوْراً وَّبُرْهَاناً وَّنَجَاۃً یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَمَنْ لَّمْ یُحَافِظْ عَلَیْهَا لَمْ یَکُنْ لَّہٗ نُوْرٌ وَّلَابُرْهَانٌ وَّلَا نَجَاۃٌ، وَّکَانَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَعَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَأُبَيِّ بْنِ خَلْفٍ. (أخرجہ أحمد وابن حبان والطبراني)
ایک مرتبہ حضورِاقدس ﷺنے نماز کاذکرفرمایا اور یہ ارشاد فرمایا کہ جوشخص نماز کا اہتمام کرے تونمازاُس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگی، اور (حساب پیش ہونے کے وقت) حجت ہوگی، اور نجات کا سبب ہوگی؛ اور جو شخص نماز کا اہتمام نہ کرے اُس کے لیے قیامت کے دن نہ نور ہوگا، اور نہ اُس کے پاس کوئی حجت ہوگی اورنہ نجات کاکوئی ذریعہ؛ اُس کاحشر فرعون، ہامان اور اُبَی بن خَلف کے ساتھ ہوگا۔
فائدہ: فرعون کو تو ہرشخص جانتا ہے کہ کس درجے کا کافر تھا، حتی کہ خُدائی کادعویٰ دار تھا، اور ہامان اُس کے وزیر کا نام ہے، اوراُبَی بن خَلف مکہ کے مشرکین میں سے بڑا سخت دشمنِ اسلام تھا، ہجرت سے پہلے نبیٔ اکرم ﷺ سے کہا کرتا تھا کہ میں نے ایک گھوڑا پالا ہے، اُس کوبہت کچھ کھلاتا ہوں، اُس پرسوار ہوکر (نعوذ باللہ) تم کوقتل کروں گا، حضورﷺنے ایک مرتبہ اُس سے فرمایاتھا کہ ’’إن شاء اللہ میں ہی تجھ کوقتل کروں گا‘‘۔ احد کی لڑائی میں وہ حضورِاقدس ﷺ کوتلاش کرتا پھرتا تھا اور کہتا تھا کہ اگر وہ آج بچ گئے تومیری خیر نہیں؛ چنانچہ حملے کے ارادے سے وہ حضورﷺکے قریب پہنچ گیا، صحابہؓ نے ارادہ بھی فرمایا کہ دُور ہی سے اُس کونمٹا دیں، مگر حضورﷺ نے ارشادفرمایا کہ ’آنے دو‘، جب وہ قریب ہوا تو حضورﷺنے ایک صحابی کے ہاتھ سے بَرچھا لے کر اُس کے مارا، جو اُس کی گردن پر لگا، اورہلکی سی خراش اُس کی گردن پرآگئی؛ مگراِس کی وجہ سے گھوڑے سے لُڑھکتا ہوا گرا اور کئی مرتبہ گرا، اور بھاگتا ہوا اپنے لشکرمیں پہنچ گیا، اور چلاتاتھا کہ: خداکی قسم! مجھے محمدنے قتل کردیا، کفار نے اُس کو اطمینان دلایا کہ معمولی خراش ہے، کوئی فکر کی بات نہیں؛ مگروہ کہتاتھا کہ محمد نے مکہ میں کہا تھا کہ ’میں تجھ کوقتل کروں گا‘، خداکی قسم! اگر وہ مجھ پر تھوک بھی دیتے تو میں مرجاتا۔ لکھتے ہیں کہ اُس کے چلانے کی آواز ایسی ہوگئی تھی جیسا کہ بَیل کے ڈکرانے کی آواز ہوتی ہے، ابوسفیان نے -جو اِس لڑائی میں بڑے زوروں پر تھا- اُس کوشرم دِلائی کہ اِس ذرا سی خراش سے اتنا چلاتا ہے! اُس نے کہا: تجھے خبر بھی ہے کہ یہ کس نے ماری ہے؟ یہ محمد کی مار ہے، مجھے اِس سے اِس قدر تکلیف ہو رہی ہے، لات اور عُزّیٰ (دو مشہور بُتوں کے نام ہیں) کی قسم! اگر یہ تکلیف سارے حِجاز والوں پر تقسیم کر دی جائے تو سب ہلاک ہوجائیں، محمد نے مجھ سے مکہ میں کہاتھا کہ میں تجھ کوقتل کروں گا، میں نے اُسی وقت سمجھ لیاتھا کہ میں اُن کے ہاتھ سے ضرور مارا جاؤں گا، میں اُن سے چھوٹ نہیں سکتا، اگر وہ اِس کہنے کے بعد مجھ پر تھوک بھی دیتے تو میں اُس سے بھی مرجاتا۔ چنانچہ مکہ مکرمہ پہنچنے سے ایک دن پہلے وہ راستے ہی میں مرگیا (تاریخ الخمیس، ۱:۴۳۶)۔ ہم مسلمانوں کے لیے نہایت غیرت اور عبرت کامقام ہے کہ ایک کافر،پکے کافر اور سخت دشمن کو تو حضورﷺکے اِرشادات کے سچاہونے کا اِس قدریقین ہو کہ اُس کواپنے مارے جانے میں ذرا بھی تردُّد یاشک نہ تھا؛ لیکن ہم لوگ حضورﷺ کونبی ماننے کے باوجود، حضور ﷺ کوسچا ماننے کے باوجود، حضورﷺکے ارشادات کو یقینی کہنے کے باوجود، حضور ﷺ کے ساتھ محبت کے دعوے کے باوجود، حضورﷺکی اُمَّت میں ہونے پر فخر کے باوجود کتنے اِرشادات پر عمل کرتے ہیں؟ اورجن چیزوں میں حضورﷺ نے عذاب بتائے ہیں اُن سے کتناڈرتے ہیں؟ کتنا کانپتے ہیں؟ یہ ہرشخص کے اپنے ہی گریبان میں منہ ڈال کر دیکھنے کی بات ہے، کوئی دوسرا کسی کے متعلق کیا کہہ سکتا ہے!
ابنِ حجرؒ نے کتاب ’الزواجر‘ میں قارون کا بھی فرعون وغیرہ کے ساتھ ذکر کیاہے، اور لکھا ہے کہ اِن کے ساتھ حشر ہونے کی یہ وجہ ہے کہ اکثراُن ہی وُجوہ سے نماز میں سستی ہوتی ہے جو اِن لوگوں میں پائی جاتی تھیں؛ پس اگر اِس کی وجہ مال ودولت کی کثرت ہے توقارون کے ساتھ حشر ہوگا، اور اگر حکومت وسلطنت ہے توفرعون کے ساتھ، اور وزارت (یعنی ملازمت یا مصاحبت) ہے تو ہامان کے ساتھ، اور تجارت ہے تو اُبَی بن خَلف کے ساتھ۔ (الزواجر، ۱:۱۳۹) اور جب اِن لوگوں کے ساتھ اُس کا حشر ہوگیا تو پھر جس قسم کے بھی عذاب احادیث میں وارد ہوئے -خواہ وہ حدیثیں متکلم فیہ ہوں- اُن میں کوئی اشکال نہیں رہا کہ جہنم کے عذاب سخت سے سخت ہیں؛ البتہ یہ ضرور ہے کہ اُس کواپنے ایمان کی وجہ سے ایک نہ ایک دن اِن سے خلاصی ہوجائے گی، اوروہ لوگ ہمیشہ کے لیے اُس میں رہیں گے؛ لیکن خَلاصی ہونے تک کازمانہ کیاکچھ ہنسی کھیل ہے! نہ معلوم کتنے ہزاربرس ہوں گے!
7.
وَرَدَ فِيْ الْحَدِیْثِ: أَنَّ مَنْ حَافَظَ عَلَی الصَّلَاۃِ أَکْرَمَہُ اللہُ تَعَالیٰ بِخَمْسِ خِصَالٍ: یَرْفَعُ عَنْہُ ضِیْقَ الْعَیْشِ، وَعَذَابَ الْقَبْرِ، وَیُعْطِیْہِ اللہُ کِتَابَہٗ بِیَمِیْنِہٖ، وَیَمُرُّ عَلَی الصِّرَاطِ کَالْبَرْقِ، وَیَدْخُلُ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِحِسَابٍ. وَمَنْ تَهَاوَنَ عَنِ الصَّلَاۃِ عَاقَبَہُ اللہُ بِخَمْسَ عَشَرَۃَ عُقُوْبَۃً: خَمْسَۃٌ فِيْ الدُّنْیَا، وَثَلَاثَۃٌ عِنْدَ الْمَوْتِ، وَثَلَاثٌ فِيْ قَبْرِہٖ، وَثَلَاثٌ عِنْدَ خُرُوْجِہٖ مِنَ الْقَبْرِ؛ فَأَمَّا اللَّوَاتِيْ فِيْ الدُّنْیَا: فَالْأُوْلیٰ: تُنْزَعُ الْبَرَکَۃُ مِنْ عُمْرِہٖ، وَالثَّانِیَۃُ: تُمْحیٰ سِیْمَاءُ الصَّالِحِیْنَ مِنْ وَجْهِہٖ، وَالثَّالِثَۃُ: کُلُّ عَمَلٍ یَّعْمَلُہُ لَایَأْجُرُہُ اللہُ عَلَیْہِ، وَالرَّابِعَۃُ: لَایُرْفَعُ لَہٗ دُعَاءٌ إِلَی السَّمَاءِ، وَالْخَامِسَۃُ: لَیْسَ لَہٗ حَقًّا فِيْ دُعَاءِ الصَّالِحِیْنَ. وَأَمَّا الَّتِيْ تُصِیْبُہٗ عِنْدَالْمَوْتِ: فَإِنَّہٗ یَمُوْتُ ذَلِیْلًا، وَالثَّانِیَۃُ: یَمُوْتُ جُوْعاً، وَالثَّالِثَۃُ:یَمُوْتُ عَطْشَاناً، وَلَوْ سُقِيَ بِحَارُ الدُّنْیَا مَا رُوِيَ مِنْ عَطْشِہٖ. وَأَمَّا الَّتِيْ تُصِیْبُہٗ فِيْ قَبْرِہٖ: فَالْأُوْلیٰ: یَضِیْقُ عَلَیْہِ الْقَبْرُ حَتّٰی تَخْتَلِفَ أَضْلَاعُہٗ، وَالثَّانِیَۃُ: یُوْقَدُ عَلَیْہِ الْقَبْرُ نَاراً فَیَتَقَلَّبُ عَلَيْ الْجَمَرِ لَیْلًا وَّنَهَاراً، وَالثَّالِثَۃُ: یُسَلَّطُ عَلَیْہِ فِيْ قَبْرِہٖ ثُعْبَانٌ اِسْمُہٗ الشُّجَاعُ الْأَقْرَعُ، عَیْنَاہُ مِنْ نَّارٍ، وَّأَظْفَارُہٗ مِنْ حَدِیْدٍ، طُوْلُ کُلِّ ظُفْرٍ مَسِیْرَۃُ یَوْمٍ، یُکَلِّمُ الْمَیِّتَ، فَیَقُوْلُ: أَنَاالشُّجَاعُ الْأَقْرَعُ، وَصَوْتُہٗ مِثْلَ الرَّعْدِ الْقَاصِفِ، یَقُوْلُ: أَمَرَنِيْ رَبِّيْ أَنْ أَضْرِبَكَ عَلیٰ تَضْیِیْعِ صَلَاۃِ الصُّبْحِ إِلیٰ بَعْدِ طُلُوْعِ الشَّمْسِ، وَأَضْرِبَكَ عَلیٰ تَضْیِیْعِ صَلَاۃِ الظُّهْرِ إِلَی الْعَصْرِ، وَأَضْرِبَكَ عَلیٰ تَضْیِیْعِ صَلَاۃِ الْعَصْرِ إِلَی الْمَغْرِبِ، وَأَضْرِبَكَ عَلیٰ تَضْیِیْعِ صَلَاۃِ الْمَغْرِبِ إِلَی الْعِشَاءِ، وَأَضْرِبَكَ عَلیٰ تَضْیِیْعِ صَلَاۃِ الْعِشَاءِ إِلَی الْفَجْرِ، فَکُلَّمَا ضَرَبَہٗ ضَرْبَۃً یَغُوْصُ فِيْ الْأَرْضِ سَبْعِیْنَ ذِرَاعاً، فَلَایَزَالُ فِيْ الْقَبْرِ مُعَذَّباً إِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ. وَأَمَّا الَّتِيْ تُصِیْبُہٗ عِنْدَ خُرُوْجِہٖ مِنَ الْقَبْرِ فِيْ مَوْقَفِ الْقِیَامَۃِ: فَشِدَّۃُ الْحِسَابِ، وَسَخَطُ الرَّبِّ، وَدُخُوْلُ النَّارِ؛ وَفِيْ رِوَایَۃٍ: فَإِنَّہٗ یَأْتِيْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَعَلیٰ وَجْهِہٖ ثَلَاثَۃُ أَسْطُرٍ مَّکْتُوْبَاتٍ: اَلسَّطْرُ الْأَوَّلُ: یَا مُضَیِّعَ حَقِّ اللہِ!، اَلسَّطْرُ الثَّانِيْ: یَامَخْصُوْصاً بِغَضَبِ اللہِ!، اَلثَّالِثُ کَمَا ضَیَّعْتَ فِيْ الدُّنْیَا حَقَّ اللہِ فَاٰیِسٌ اَلْیَوْمَ أَنْتَ مِنْ رَّحْمَۃِ اللہِ.(الزواجر لابن حجر المکي)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ جوشخص نماز کااہتمام کرتا ہے، حق تعالیٰ شَانُہٗ پانچ طرح سے اُس کااعزاز واکرام فرماتے ہیں: ایک یہ کہ اُس پرسے رِزق کی تنگی ہٹادی جاتی ہے، دوسرے یہ کہ اُس سے عذابِ قبر ہٹا دیاجاتا ہے، تیسرے یہ کہ قیامت کے دن اُس کے اعمال نامے دائیں ہاتھ میں دیے جائیں گے (جن کا حال سورۂ الحاقۃ میں مفصل مذکور ہے کہ جن لوگوں کے نامۂ اعمال داہنے ہاتھ میں دیے جائیں گے وہ نہایت خوش وخرم ہر شخص کو دکھاتے پھریں گے)، اور چوتھے یہ کہ پل صراط پرسے بجلی کی طرح گزر جائیں گے، پانچویں یہ کہ حساب سے محفوظ رہیں گے۔ اور جو شخص نمازمیں سُستی کرتا ہے اُس کوپندرہ طریقے سے عذاب ہوتا ہے: پانچ طرح دنیا میں، اورتین طرح سے موت کے وقت، اور تین طرح قبر میں، اور تین طرح قبر سے نکلنے کے بعد؛ دنیاکے پانچ تویہ ہیں: اوَّل یہ کہ اُس کی زندگی میں برکت نہیں رہتی، دوسرے یہ کہ صلحا کا نور اُس کے چہرے سے ہٹا دیا جاتا ہے، تیسرے یہ کہ اُس کے نیک کاموں کا اجر ہٹا دیا جاتا ہے، چوتھے، اُس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں، پانچویں یہ کہ نیک بندوں کی دعاؤں میں اُس کا اِستحقاق نہیں رہتا؛ اور موت کے وقت کے تین عذاب یہ ہیں کہ: اوَّل ذلت سے مرتا ہے، دوسرے بھوکامرتا ہے، تیسرے پیاس کی شدت میں موت آتی ہے، اگرسمندر بھی پی لے تو پیاس نہیں بجھتی؛ قبرکے تین عذاب یہ ہیں: اول اُس پرقبر اتنی تنگ ہوجاتی ہے کہ پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں، دوسرے قبر میں آگ جلا دی جاتی ہے، تیسرے قبر میں ایک سانپ اُس پرایسی شکل کا مسلط ہوتا ہے جس کی آنکھیں آگ کی ہوتی ہیں، اور ناخن لوہے کے، اتنے لانبے کہ ایک دن پورا چل کر اُن کے ختم تک پہنچا جائے، اُس کی آواز بجلی کی کڑک کی طرح ہوتی ہے، وہ یہ کہتا ہے کہ مجھے میرے رب نے تجھ پر مسلط کیا ہے کہ تجھے صبح کی نماز ضائع کرنے کی وجہ سے آفتاب کے نکلنے تک مارے جاؤں، اور ظہر کی نماز ضائع کرنے کی وجہ سے عصر تک مارے جاؤں، اور پھر عصر کی نماز ضائع کرنے کی وجہ سے غروب تک، اور مغرب کی نماز ضائع کرنے کی وجہ سے عشاء تک، اور عشاء کی نمازکی وجہ سے صبح تک مارے جاؤں، جب وہ ایک دفعہ اُس کومارتا ہے تواِس کی وجہ سے وہ مردہ ستر ہاتھ زمین میں دھنس جاتا ہے، اِسی طرح قیامت تک اُس کوعذاب ہوتارہے گا؛ اور قبر سے نکلنے کے بعد کے تین عذاب یہ ہیں: ایک حساب سختی سے کیاجائے گا، دوسرے حق تعالیٰ شَانُہٗ کا اُس پرغصہ ہوگا، تیسرے جہنم میں داخل کر دیاجائے گا۔(یہ کُل میزان چودہ ہوئی، ممکن ہے کہ پندرہواں بھول سے رہ گیاہو)۔ اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اُس کے چہرے پرتین سَطریں لکھی ہوئی ہوتی ہیں: پہلی سطر، او اللہ کے حق کو ضائع کرنے والے!، دوسری سطر، اواللہ کے غصے کے ساتھ مخصوص!، تیسری سطر، جیسا کہ تُونے دنیا میں اللہ کے حق کوضائع کیاآج تُواللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔
فائدہ: یہ حدیث پوری اگرچہ عام کتبِ حدیث میں مجھے نہیں ملی لیکن اِس میں جتنی قسم کے ثواب اورعذاب ذکر کیے گئے ہیں اُن میں سے اکثر کی تائید بہت سی روایات سے ہوتی ہے، جن میں سے بعض کا ذکر پہلے گزرچکا اوربعض آگے آرہے ہیں، اورپہلی روایات میں بے نمازی کا اسلام سے نکل جانابھی مذکور ہے، تو پھر جس قدر عذاب ہو تھوڑا ہے؛ البتہ یہ ضرور ہے کہ جو کچھ مذکور ہے اور آئندہ آرہا ہے، وہ سب اس فعل کی سزا ہے، اُس کے مستحق سزاہونے کے بعد اور اس دفعہ کی فرد جرم کے ساتھ ہی اِرشادِ خداوندی ﴿اِنَّ اللہَ لَایَغْفِرُ أَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ﴾ کہ اللہ تعالیٰ شرک کی تو معافی نہیں فرمائیں گے، اِس کے علاوہ جس کی چاہے معافی فرما دیں گے، اِس آیتِ شریفہ اور اِس جیسی آیات اور احادیث کی بِنا پر اگر معاف فرما دیں توزہے قسمت۔
احادیث میں آیا ہے کہ قیامت میں تین عدالتیں ہیں: ایک کفرو اسلام کی، اِس میں بالکل بخشش نہیں۔ دوسری حقوق العباد کی، اِس میں حق والے کاحق ضرور دِلایا جائے گا، چاہے اُس سے لیا جائے جس کے ذمہ ہے، یا اُس کو مُعاف فرمانے کی مرضی ہو تو اپنے پاس سے دیاجائے گا۔ تیسری عدالت اللہ تعالیٰ کے اپنے حقوق کی ہے، اِس میں بخشش کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔(مسند احمد، ۲۶۰۳۱)
اِس بنا پر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اپنے افعال کی سزائیں تویہی ہیں جو احادیث میں وارد ہوئیں؛ لیکن مَراحمِ خُسرَوَانَہ اِس سے بالاتر ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بعض قسم کے عذاب اور ثواب احادیث میں آئے ہیں؛ بخاری شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ حضورِاقدس ﷺ کامعمول تھا کہ صبح کی نماز کے بعدصحابہؓ سے دریافت فرماتے کہ کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے؟ اگر کوئی دیکھتا تو بیان کردیتا، حضورﷺ اُس کی تعبیر ارشاد فرمادیتے، ایک مرتبہ حضورﷺنے حسبِ معمول دریافت فرمایا، اِس کے بعد ارشاد فرمایا کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ دوشخص آئے اورمجھے اپنے ساتھ لے گئے، اِس کے بعدبہت لمبا خواب ذکر فرمایا، جس میں جنت اور دوزخ اور اُس میں مختلف قسم کے عذاب لوگوں کو ہوتے ہوئے دیکھے، من جملہ اُن کے ایک شخص کو دیکھا کہ اُس کا سر پتھر سے کچلا جا رہا ہے، اوراِس زور سے پتھر مارا جاتا ہے کہ وہ پتھر لُڑھکتا ہوا دُور جا پڑتا ہے،اِتنے اُس کو اُٹھایا جاتا ہے وہ سر پھر ویسا ہی ہوجاتا ہے، تو دوبارہ اُس کو زور سے مارا جاتا ہے، اِسی طرح اُس کے ساتھ برتاؤ کیا جارہا ہے، حضور ﷺنے اپنے دونوں ساتھیوں سے جب دریافت فرمایا کہ یہ کون شخص ہے؟ تو اُنہوں نے بتایا کہ اِس شخص نے قرآن شریف پڑھا تھا اور اُس کو چھوڑ دیا تھا، اور فرض نماز چھوڑ کرسوجاتاتھا۔(بخاری، کتاب التعبیر، باب تعبیر الرؤیا بعد الصبح، حدیث: ۷۰۴۷)
ایک دوسری حدیث میں اسی قسم کا ایک اور قصہ ہے، جس میں ہے کہ حضورﷺنے ایک جماعت کے ساتھ یہ برتاؤ دیکھا توحضرت جبرئیلؑ سے دریافت کیا، انہوں نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز میں سُستی کرتے تھے۔(البزار، حدیث:۵۵۔ الترغیب، ۱:۱۹۹)
مجاہدؒ کہتے ہیں کہ جو لوگ نماز کے اوقات معلوم رکھنے کااہتمام رکھتے ہیں اُن میں ایسی برکت ہوتی ہے جیسی حضرت ابراہیمؑ اور اُن کی اولاد میں ہوئی۔ (دُرِّمنثور)
حضرت انسؓ حضورﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ جوشخص دنیاسے ایسے حال میں رخصت ہو کہ اخلاص کے ساتھ اللہ پر ایمان رکھتا ہو، اُس کی عبادت کرتاہو، نماز پڑھتا ہو، زکوۃ اداکرتا ہو، تو وہ ایسی حالت میں دنیاسے رخصت ہوگا کہ حق تعالیٰ شانہ اُس سے راضی ہوں گے۔(ابن ماجہ،حدیث: ۷۰)
حضرت انسؓ حضورﷺ سے حق تعالیٰ کایہ ارشادنقل کرتے ہیں کہ میں کسی جگہ عذاب بھیجنے کا ارادہ کرتا ہوں؛ مگر وہاں ایسے لوگوں کو دیکھتا ہوں جو مسجدوں کو آباد کرتے ہیں، اللہ کے واسطے آپس میں محبت رکھتے ہیں، اخیر راتوں میں استغفار کرتے ہیں توعذاب کو موقوف کر دیتا ہوں۔ (در منثور)
حضرت ابودَرداءؓ نے حضرت سلمانؓ کو ایک خط لکھا، جس میں یہ لکھا کہ مسجد میں اکثر اوقات گزارا کرو، میں نے حضورﷺسے سنا ہے کہ ’’مسجد متقی کاگھر ہے، اورا للہ جل شَانُہٗ نے اس بات کاعہد فرما لیاہے کہ جو شخص مسجدوں میں اکثر رہتا ہے اُس پر رحمت کروں گا، اُس کو راحت دُوں گا، اور قیامت میں پل صراط کا راستہ آسان کر دوں گا، اور اپنی رضا نصیب کروں گا‘‘۔ (در منثور)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ حضورﷺسے نقل کرتے ہیں کہ مسجدیں اللہ کے گھرہیں، اور گھر آنے والے کا اِکرام ہوتا ہی ہے؛ اِس لیے اللہ پر اُن کا اِکرام ضروری ہے جو مسجدوں میں حاضر ہونے والے ہیں۔(در منثور)
ابوسعیدخُدریؓ حضورﷺسے نقل کرتے ہیں کہ جوشخص مسجد سے اُلفت رکھے حق تعالیٰ شَانُہٗ اُس سے اُلفت رکھتے ہیں۔(در منثور)
حضرت ابوہریرہ ؓحضورﷺسے نقل کرتے ہیں کہ جب مُردہ قبر میں رکھ دیاجاتا ہے، تو جو لوگ قبر تک ساتھ گئے تھے وہ ابھی تک واپس بھی نہیں ہوئے ہوتے کہ فرشتے اُس کے امتحان کے لیے آتے ہیں، اُس وقت اگر وہ مومن ہے تونماز اُس کے سرکے قریب ہوتی ہے، اور زکوۃ دائیں جانب، اور روزہ بائیں جانب، اور باقی جتنے بھلائی کے کام کیے تھے وہ پاؤں کی جانب ہوجاتے ہیں اور ہر طرف سے اُس کااحاطہ کرلیتے ہیں کہ اُس کے قریب تک کوئی نہیں پہنچ سکتا، فرشتے دور ہی سے کھڑے ہوکر سوال کرتے ہیں۔ (در منثور)
ایک صحابی ارشادفرماتے ہیں کہ جب حضورﷺ کے گھروالوں پر خرچ کی کچھ تنگی ہوتی تو آپ ﷺ اُن کو نماز کا حکم فرماتے، اور یہ آیت تلاوت فرماتے:﴿وَأْمُرْ أَہْلَکَ بِالصَّلوٰۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْہَا، لَانَسْئَلُکَ رِزْقاً، نَحْنُ نَرْزُقُکَ، وَالْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْویٰ﴾، اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کیجیے، اور خود بھی اس کا اہتمام کرتے رہیے، ہم آپ سے روزی (کموانا) نہیں چاہتے، روزی تو ہم دیں گے، اور بہترین انجام توپرہیزگاری ہی کا ہے۔
حضرت اسماءؓ کہتی ہیں: میں نے حضورﷺسے سنا کہ قیامت کے دن سارے آدمی ایک جگہ جمع ہوں گے اور فرشتہ جو بھی آواز دے گا سب کو سنائی دے گی، اُس وقت اِعلان ہوگا: کہاں ہیں وہ لوگ جو راحت اورتکلیف، ہرحال میں اللہ کی حمد کرتے تھے؟ یہ سن کر ایک جماعت اُٹھے گی اور بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوجائے گی، پھراِعلان ہوگا: کہاں ہیں وہ لوگ جو راتوں کوعبادت میں مشغول رہتے تھے، اور اُن کے پہلو بستروں سے دُور رہتے تھے؟ پھرایک جماعت اُٹھے گی اور بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوجائے گی، پھر اِعلان ہوگا: کہاں ہیں وہ لوگ جن کو تجارت اور خریدوفروخت اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتی تھی؟ پھر ایک جماعت اُٹھے گی اور بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوجائے گی۔ (در منثور)
ایک اور حدیث میں بھی یہی قصہ آیا ہے، اس میں یہ بھی ہے کہ اعلان ہوگا: آج محشر والے دیکھیں گے کہ کریم لوگ کون ہیں، اور اعلان ہوگا: کہاں ہیں وہ لوگ جن کو تجارتی مشاغل اللہ کے ذکر اور نماز سے نہیں روکتے تھے؟ (در منثور)
شیخ نصر سمرقندیؒ نےتنبیہ الغافلین میں بھی یہ حدیث لکھی ہے، اِس کے بعدلکھا ہے کہ جب یہ حضرات بغیرحساب کتاب چھوٹ چکیں گے، تو جہنم سے ایک عُنُق (لمبی گردن) ظاہرہوگی، جو لوگوں کو پھاندتی ہوئی چلی آئے گی، اُس میں دو چمک دار آنکھیں ہوں گی، اور نہایت فصیح زبان ہوگی، وہ کہے گی کہ میں ہر اُس شخص پر مسلط ہوں جو متکبر، بدمزاج ہو، اور مجمع میں سے ایسے لوگوں کو اس طرح چن لے گی جیسے کہ جانور دانہ چگتا ہے، اُن سب کو چن کرجہنم میں پھینک دے گی؛ اُس کے بعدپھر اِسی طرح دوبارہ نکلے گی اور کہے گی کہ اب میں ہر اُس شخص پر مسلط ہوں جس نے اللہ کو اور اُس کے رسول ﷺ کو ایذا دی، ان لوگوں کوبھی جماعت سے چن کر لے جائے گی؛ اِس کے بعد سَہ بارہ پھر نکلے گی، اوراس مرتبہ تصویر والوں کو چن کرلے جائے گی؛ اِس کے بعد جب یہ تینوں قسم کے آدمی مجمع سے چھٹ جائیں گے توحساب کتاب شروع ہوگا۔(تنبیہ الغافلین، ۱:۲۹۸)
کہتے ہیں کہ پہلے زمانے میں شیطان آدمیوں کو نظر آجاتا تھا، ایک صاحب نے اُس سے کہا کہ کوئی ترکیب ایسی بتا کہ میں بھی تجھ جیسا ہوجاؤں، شیطان نے کہا کہ ایسی فرمائش تو آج تک مجھ سے کسی نے بھی نہیں کی، تجھے اس کی کیا ضرورت پیش آئی؟ اُس نے کہا: میرا دل چاہتا ہے، شیطان نے کہا: اس کی ترکیب یہ ہے کہ نمازمیں سُستی کر، اورقَسم کھانے میں ذرا پرواہ نہ کر، جھوٹی سچی ہر طرح کی قسمیں کھایاکر، اُن صاحب نے کہا کہ میں اللہ سے عہدکرتا ہوں کہ کبھی نماز نہ چھوڑوں گا، اور کبھی قَسم نہ کھاؤں گا، شیطان نے کہا کہ تیرے سوا مجھ سے چال کے ساتھ کسی نے کچھ نہیں لیا، میں نے بھی عہد کرلیا کہ آدمی کوکبھی نصیحت نہیں کروں گا۔ (تنبیہ الغافلین، ۱:۲۹۹)
حضرت اُبَیؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺنے ارشاد فرمایا: اِس اُمت کو رفعت وعزت اور دِین کے فروغ کی بشارت دو؛ لیکن دین کے کسی کام کوجو شخص دنیاکے واسطے کرے آخرت میں اُس کاکوئی حصہ نہیں۔ (الترغیب)
ایک حدیث میں آیا ہے، حضورِ اقدس ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے حق تعالیٰ شَانُہٗ کی بہترین صورت میں زیارت کی،مجھ سے ارشاد ہوا کہ محمد!ملأ أعلیٰ والے یعنی فرشتے کس چیز میں جھگڑ رہے ہیں؟میں نے عرض کیا: مجھے توعلم نہیں، تو حق تعالیٰ شانُہٗ نے اپنا دستِ مبارک میرے سینے پررکھ دیا،جس کی ٹھنڈک سینے کے اندر تک محسوس ہوئی، اور اس کی برکت سے تمام عالم مجھ پر منکشف ہوگیا، پھر مجھ سے ارشاد فرمایا: اب بتاؤ! فرشتے کس چیز میں جھگڑ رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ درجہ بلند کرنے والی چیزوں میں، اور اُن چیزوں میں جو گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہیں، اور جماعت کی نماز کی طرف جو قدم اُٹھتے ہیں اُن کے ثواب میں، اور سردی کے وقت وُضو کو اچھی طرح سے کرنے کے فضائل میں، اور ایک نماز کے بعدسے دوسری نمازتک انتظار میں بیٹھے رہنے کی فضیلت میں، جوشخص ان کااہتمام کرے گا بہترین حالت میں زندگی گزارے گا، اور بہترین حالت میں مرے گا۔ (ترمذی، ابواب التفسیر، حدیث: ۳۲۳۴)
متعدد احادیث میں آیا ہے کہ حق تعالیٰ شانہٗ ارشاد فرماتے ہیں: اے ابنِ آدم! تو دن کے شروع میں میرے لیے چار رکعت پڑھ لیا کر، میں تمام دن کے تیرے کام بنا دیا کروں گا۔ تنبیہ الغافلین میں ایک حدیث لکھی ہے کہ نماز اللہ کی رضا کا سبب ہے، فرشتوں کی محبوب چیزہے، انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے، اِس سے معرفت کا نور پیدا ہوتا ہے، دعا قبول ہوتی ہے، رزق میں برکت ہوتی ہے، یہ ایمان کی جڑ ہے، بدن کی راحت ہے، دشمن کے لیے ہتھیار ہے، نمازی کے لیے سفارشی ہے، قبر میں چراغ ہے اور اُس کی وحشت میں دل بہلانے والی ہے، منکرنکیر کے سوال کاجواب ہے، اور قیامت کی دھوپ میں سایہ ہے، اور اندھیرے میں روشنی ہے، جہنم کی آگ کے لیے آڑ ہے، اعمال کے ترازو کا بوجھ ہے، پل صراط پر جلدی سے گزارنے والی ہے، جنت کی کنجی ہے۔(تنبیہ الغافلین، ۱:۲۹۸)
حافظ ابنِ حجرؒ نے مُنَبِّہات میں حضرت عثمان غنیؓ سے نقل کیاہے کہ جو شخص نماز کی محافظت کرے، اوقات کی پابندی کے ساتھ اِس کا اہتمام کرے، حق تعالیٰ شانہ نوچیزوں کے ساتھ اس کااکرام فرماتے ہیں: اوَّل یہ کہ اُس کوخود محبوب رکھتے ہیں۔ دوسرے، تندرستی عطا فرماتے ہیں۔ تیسرے، فرشتے اُس کی حفاظت فرماتے ہیں۔ چوتھے، اُس کے گھر میں برکت عطا فرماتے ہیں۔ پانچویں، اُس کے چہرے پرصُلَحا کے اَنوار ظاہرہوتے ہیں۔ چھٹے، اُس کا دل نرم فرماتے ہیں۔ ساتویں، وہ پل صراط پر بجلی کی طرح سے گزرجائے گا۔ آٹھویں، جہنم سے نجات فرمادیتے ہیں۔ نویں، جنت میں ایسے لوگوں کاپڑوس نصیب ہوگا جن کے بارے میں ﴿لَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاہُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ وارد ہے، یعنی قیامت میں نہ اُن کو کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (منبہات، ص: ۷۳)
حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ نماز دِین کاستون ہے اور اِس میں دس خوبیاں ہیں: چہرے کی رونق ہے، دل کا نور ہے، بدن کی راحت اور تندرستی کا سبب ہے، قبر کا اُنس ہے، اللہ کی رحمت اُترنے کا ذریعہ ہے، آسمان کی کنجی ہے، اعمال ناموں کے ترازو کا وَزن ہے (کہ اِس سے نیک اعمال کا پَلڑا بھاری ہوجاتا ہے)، اللہ کی رَضا کا سبب ہے، جنت کی قیمت ہے، اور دوزخ کی آڑ ہے؛ جس شخص نے اِس کوقائم کیا اُس نے دِین کوقائم رکھا، اور جس نے اِس کو چھوڑا اُس نے دِین کو گِرا دیا۔ (منبہات)
ایک حدیث میں وارد ہواہے کہ گھر میں نماز پڑھنا نور ہے، نماز سے اپنے گھروں کو منور کیاکرو۔ (جامع الصغیر)
اور یہ تومشہور حدیث ہے کہ، میری امت قیامت کے دن وُضو اور سجدے کی وجہ سے روشن ہاتھ پاؤں والی، روشن چہرے والی ہوگی، اِسی علامت سے دوسری امتوں سے پہچانی جائے گی۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب آسمان سے کوئی بَلا، آفت نازل ہوتی ہے تو مسجد کے آباد کرنے والوں سے ہٹالی جاتی ہے۔ (جامع الصغیر)
متعدد احادیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہنم پر حرام کردیا ہے کہ سجدے کے نشان کو جَلائے، (یعنی اگراپنے اعمالِ بد کی وجہ سے وہ جہنم میں داخل بھی ہوگا تو سجدے کا نشان جس جگہ ہوگا اُس پر آگ کا اثر نہ ہوسکے گا)۔ ایک حدیث میں ہے کہ نماز شیطان کامنہ کالاکرتی ہے، اور صدقہ اُس کی کمرتوڑ دیتا ہے۔(الجامع الصغیر)
ایک جگہ ارشاد ہے کہ، نمازشفا ہے (جامع الصغیر)۔ دوسری جگہ اِس کے متعلق ایک قصہ نقل کیا کہ حضرت ابوہریرہؓ ایک مرتبہ پیٹ کے بَل لیٹے ہوئے تھے، حضورﷺنے دریافت فرمایا: پیٹ میں درد ہے؟ عرض کیا: جی ہاں! فرمایا: ’’اُٹھ! نمازپڑھ، نمازمیں شفا ہے‘‘۔(ابن کثیر)
حضورِ اقدس ﷺنے ایک مرتبہ جنت کو خواب میں دیکھا، تو حضرت بلالؓ کے جوتوں کے گھسیٹنے کی آواز بھی سنائی دی، صبح کو حضورﷺنے پوچھا کہ تیرا وہ خصوصی عمل کیاہے جس کی وجہ سے جنت میں بھی تُو (دُنیاکی طرح سے) میرے ساتھ ساتھ چلتارہا؟ عرض کیا کہ رات دن میں جس وقت بھی میرا وُضو ٹوٹ جاتا ہے تو وُضو کرتا ہوں، اِس کے بعد (تحیۃالوضوکی)نماز جتنی مقدورہو، پڑھتا ہوں۔(بخاری)
سفیریؒ نے کہاہے کہ صبح کی نمازچھوڑنے والے کوملائکہ ’’اَو فاجر!‘‘ سے پکارتے ہیں، اورظہر کی نماز چھوڑنے والے کو ’’اَو خاسِر!‘‘ (خَسارہ والے) سے، اور عصرکی نماز چھوڑنے والے کو ’’عاصی!‘‘ سے، اور مغرب کی نمازچھوڑنے والے کو ’’کافر!‘‘ سے اورعشاء کی نماز چھوڑنے والے کو ’’مُضَیِّع!‘‘ (اللہ کاحق ضائع کرنے والے) سے پکارتے ہیں۔(غالیۃ المواعظ)
عَلاَّمہ شَعرانیؒ فرماتے ہیں کہ یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ مصیبت ہر اُس آبادی سے ہٹا دی جاتی ہے جہاں کے لوگ نمازی ہوں، جیساکہ ہر اُس آبادی پر نازل ہوتی ہے جہاں کے لوگ نمازی نہ ہوں، ایسی جگہوں میں زلزلوں کا آنا، بجلیوں کا گرنا، مکانوں کا دھنس جانا کچھ بھی مُستَبعَد نہیں، اور کوئی یہ خیال نہ کرے کہ میں تونمازی ہوں مجھے دوسروں سے کیاغرض؟ اِس لیے کہ جب بَلانازل ہوتی ہے توعام ہواکرتی ہے۔ (خود حدیث شریف میں مذکور ہے، کسی نے سوال کیا کہ ہم لوگ ایسی صورت میں ہلاک ہوسکتے ہیں کہ ہم میں صُلَحا موجود ہوں؟ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ہاں! جب خَباثت کاغلبہ ہوجائے)؛ اِس لیے کہ اُن کے ذمے یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی وسعت کے مُوافق دوسروں کو بُری باتوں سے روکیں اور اچھی باتوں کاحکم کریں۔ (لواقح الانوار)
8.
رُوِيَ أَنَّہٗ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ قَالَ: مَنْ تَرَكَ الصَّلَاۃَ حَتیٰ مَضیٰ وَقْتُهَا ثُمَّ قَضیٰ عُذِّبَ فِيْ النَّارِحُقْباً، وَالْحُقْبُ ثَمَانُوْنَ سَنَۃً وَالسَّنَۃُ ثَلَاثُ مِائَۃٍ وَّسِتُّوْنَ یَوْماً، کُلُّ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ أَلْفَ سَنَۃٍ.(کذا في مجالس الأبرار)
حضورﷺ سے نقل کیاگیا ہے کہ جو شخص نماز کوقضا کردے ــگو وہ بعد میں پڑھ بھی لے، پھر بھی اپنے وقت پر نہ پڑھنے کی وجہ سےــ ایک حُقَب جہنم میں جَلے گا، اور حُقَب کی مقدار اَسِّی برس کی ہوتی ہے، اور ایک برس تین سوساٹھ دن کا، اور قیامت کاایک دن ایک ہزار برس کے برابر ہوگا، (اِس حساب سے ایک حُقَب کی مقدار دوکروڑ اَٹھاسی لاکھ (۸۸۰۰۰۰۰,۲) برس ہوئی)۔
فائدہ: حُقَب کے معنی لغت میں بہت زیادہ زمانے کے ہیں؛ اکثرحدیثوں میں اِس کی مقدار یہی آئی ہے جو اوپر گزری، یعنی اَسِّی سال۔ دُرِّمنثور میں متعدد روایات سے یہی مقدار منقول ہے۔حضرت علیؓ نے ہلال ہجریؒ سے دریافت فرمایا کہ حُقَب کی کیا مقدار ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ حُقَب اَسِّی برس کاہوتا ہے، اور ہر برس بارہ مہینے کا، اور ہر مہینہ تیس دن کا، اور ہر دن ایک ہزار برس کا۔ (دُر منثور) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے بھی صحیح روایت سے اَسِّی برس منقول ہے۔ (دُر منثور) حضرت ابوہریرہؓ نے خود حضورِاقدس ﷺ سے یہی نقل کیا ہے کہ ایک حُقَب اَسِّی سال کاہوتا ہے، اورایک سال تین سو ساٹھ دن کا، اور ایک دن تمہارے دِنوں کے اعتبارسے (یعنی دنیا کے موافق)ایک ہزار دن کا۔(دُر منثور) یہی مضمون حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بھی حضورﷺسے نقل فرمایا ہے، اِس کے بعدحضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ اِس بھروسے پر نہیں رہنا چاہیے کہ ایمان کی بدولت جہنم سے آخر نکل ہی جائیں گے، اِتنے سال یعنی دو کروڑ اٹھاسی لاکھ برس جلنے کے بعدنکلنا ہوگا، وہ بھی جب ہی کہ کوئی اَور وجہ زیادہ پڑے رہنے کی نہ ہو۔(دُر منثور) اِس کے عِلاوہ اَور بھی کچھ مقدار اِس سے کم وزیادہ حدیث میں آئی ہے؛ مگر اوّل تواُوپر والی مقدار کئی حدیثوں میں آئی ہے اِس لیے یہ مقدم ہے، دوسرے یہ بھی ممکن ہے کہ آدمیوں کی حالت کے اعتبار سے کم وبیش ہو۔
اَبواللَّیث سَمرقندیؒ نے قرۃ العیون میں حضورﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے: جوشخص ایک فرض نماز بھی جان بوجھ کر چھوڑ دے، اُس کا نام جہنم کے دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے، اور اُس کو اُس میں جانا ضروری ہے۔ اور حضرت ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضورﷺنے ارشاد فرمایا: ’’یہ کہو کہ اے اللہ! ہم میں کسی کو شَقی محروم نہ کر‘‘، پھر فرمایا: ’’جانتے ہو شقی محروم کون ہے‘‘؟ صحابہ کے استفسار پر ارشادفرمایا کہ ’’شقی محروم نمازکاچھوڑنے والا ہے، اُس کا کوئی حصہ اسلام میں نہیں‘‘۔ ایک حدیث میں ہے کہ دِیدہ ودانستہ بِلاعذر نمازچھوڑنے والے کی طرف حق تعالیٰ شانہ قیامت میں التفات ہی نہ فرمائیں گے، اورعذاب الیم (دُکھ دینے والاعذاب) اُس کو دِیا جائے گا۔
ایک حدیث سے نقل کیا ہے کہ دس آدمیوں کوخاص طور سے عذاب ہوگا، من جملہ اُن کے نماز چھوڑنے والا بھی ہے کہ اُس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں گے، اور فرشتے منہ اور پُشت پر ضَرب لگا رہے ہوں گے، جنت کہے گی کہ میرا تیرا کوئی تعلق نہیں، نہ میں تیرے لیے نہ تو میرے لیے، دوزخ کہے گی کہ آجا، میرے پاس آجا! تومیرے لیے ہے میں تیرے لیے۔ یہ بھی نقل کیاہے کہ جہنم میں ایک وادی (جنگل)ہے، جس کانام ہے ’’لَم لَم‘‘، اُس میں سانپ ہیں جو اُونٹ کی گردن کے برابر موٹے ہیں، اور اُن کی لمبائی ایک مہینے کی مسافت کے برابر ہے، اُس میں نماز چھوڑنے والوں کو عذاب دیا جائے گا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک میدان ہے، جس کانام ’’جُبُّ الْحُزنَ‘‘ ہے، وہ بچھوؤں کاگھر ہے، اور ہر بچھو خچر کے برابر بڑا ہے، وہ بھی نماز چھوڑنے والوں کو ڈسنے کے لیے ہیں۔ ہاں! مولائے کریم معاف کردے تو کون پوچھنے والا ہے! مگر کوئی معافی چاہے بھی تو!۔(قرۃ العیون)
ابنِ حجرؒ نے الزَواجِر میں لکھا ہے کہ ایک عورت کا انتقال ہوگیا تھا، اُس کا بھائی دفن میں شریک تھا، اتفاق سے دفن کرتے ہوئے ایک تھیلی قبرمیں گرگئی، اُس وقت خیال نہیں آیا، بعد میں یاد آئی توبہت رنج ہوا، چپکے سے قبر کھول کر نکالنے کاارادہ کیا، قبر کو کھولا تو وہ آگ کے شعلوں سے بھر رہی تھی، روتا ہوا ماں کے پاس آیا اور حال بیان کیا، اور پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ ماں نے بتایا کہ وہ نماز میں سستی کرتی تھی اور قضا کر دیتی تھی۔ اعاذنا اللہ منھا۔(الزواجر)
9.
عَنْ أَبِيْ هُرَیْرَۃَ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: لَاسَهْمَ فِيْ الإِسْلَامِ لِمَنْ لَا صَلَاۃَ لَہٗ، وَلَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَا وُضُوْءَ لَہٗ.(أخرجہ البزار۔ وأخرج الطبراني في الأوسط عن ابن عمر مرفوعاً: ’’لَادِیْنَ لِمَنْ لَاصَلَاۃَ لَہُ، إِنَّمَا مَوْضِعُ الصَّلَاۃِ مِنْ الدِّیْنِ کَمَوْضِعِ الرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ‘‘،کذا في الدر المنثور)
حضورِاقدس ﷺکاارشاد ہے کہ اسلام میں کوئی بھی حصہ نہیں اُس شخص کا جو نماز نہ پڑھتا ہو اوربے وُضو کی نمازنہیں ہوتی۔ دوسری حدیث میں ہے کہ دِین بغیرنماز کے نہیں ہے۔ نماز دِین کے لیے ایسی ہے جیسا آدمی کے بدن کے لیے سرہوتاہے۔
فائدہ: جو لوگ نمازنہ پڑھ کراپنے کومسلمان کہتے ہیں، یاحمیت اسلامی کے لمبے چوڑے دعوے کرتے ہیں، وہ حضورِ اقدس ﷺ کے اِن ارشادات پر ذرا غور کرلیں، اورجن اَسلاف کی کامیابیوں تک پہنچنے کے خواب دیکھتے ہیں اُن کے حالات کی بھی تحقیق کریں کہ وہ دین کو کس مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھے! پھردنیا اُن کے قدم کیوں نہ چومتی!
حضرت عبداللہ بن عباس کی آنکھ میں پانی اُترآیا، لوگوں نے عرض کیا کہ اِس کا علاج تو ہوسکتا ہے مگر چند روز آپ نماز نہ پڑھ سکیں گے، اُنہوں نے فرمایا: یہ نہیں ہوسکتا! میں نے حضور ﷺ سے سنا ہے کہ ’’جوشخص نمازنہ پڑھے وہ اللہ جَلَّ شَانُہٗ کے یہاں ایسی حالت میں حاضر ہوگا کہ حق تعالیٰ شَانُہٗ اُس پرناراض ہوں گے‘‘۔(در منثور،۱:۵۳۰) ایک حدیث میں آیا ہے کہ لوگوں نے کہا کہ پانچ دن لکڑی پر سجدہ کرناپڑے گا، اُنہوں نے فرمایا کہ ایک رکعت بھی اِس طرح نہیں پڑھوں گا۔ عمر بھر بینائی کو صبرکرلینا اِن حضرات کے یہاں اِس سے سہل تھا کہ نماز چھوڑیں؛ حالانکہ اِس عذر کی وجہ سے نمازکا چھوڑنا جائز بھی تھا۔
حضرت عمرؓ کو اخیر زمانے میں جب برچھا مارا گیا تو ہر وقت خون جاری رہتا تھا، اور اکثراَوقات غفلت ہوتی تھی، حتی کہ اِسی حالت میں وِصال بھی ہوگیا؛ مگر بیماری کے اِن دنوں میں جب نماز کا وقت ہوتا تو اُن کو ہوشیار کیا جاتا اور نماز کی درخواست کی جاتی، وہ اِسی حالت میں نماز ادا کرتے اور یہ فرماتے کہ ’’ہاں ہاں! ضرور، جوشخص نمازنہ پڑھے اسلام میں اُس کا کوئی حصہ نہیں‘‘۔
ہمارے یہاں بیمارکی خیرخواہی، راحت رَسانی اِس میں سمجھی جاتی ہے کہ اُس کونماز کی تکلیف نہ دی جائے، بعد میں فِدیہ دے دیا جائے گا، اِن حضرات کے یہاں خیرخواہی یہ تھی، جوعبادت بھی چلتے چلاتے کرسکے دریغ نہ کیا جائے۔بِبِیں تفاوُتِ راہ از کُجاست تابہ کُجا(دیکھ! راستے کا فرق کہ کہاں سے کہاں تک ہے)۔
حضرت علیؓ نے ایک مرتبہ حضورﷺسے ایک خادم مانگا کہ کاروبار میں مدد کرے، حضور ﷺنے فرمایا: یہ تین غلام ہیں، جوپسند ہولے لو، اُنہوں نے عرض کیا: آپ ہی پسند فرما دیں، حضور ﷺ نے ایک شخص کے متعلق فرمایا کہ اِس کولے لو، یہ نمازی ہے؛ مگر اِس کومارنا نہیں، ہمیں نمازیوں کو مارنے کی ممانعت ہے۔(دُر منثور، ۱:۵۳۱) اِس قسم کاواقعہ ایک اَورصحابی ابوالہَیثَمؓ کے ساتھ بھی ہوا، اُنہوں نے بھی حضورﷺسے غلام مانگا تھا۔(دُر منثور، ۱:۵۳۱) اِس کے بالمقابل ہمارا ملازم نمازی بن جائے توہم اُس کوطعن کرتے ہیں، اور حماقت سے اُس کی نماز میں اپناحرج سمجھتے ہیں۔
حضرت سفیان ثوریؒ پرایک مرتبہ غلبۂ حال ہوا توسات روز تک گھر میں رہے، نہ کھاتے تھے، نہ پیتے تھے، نہ سوتے تھے؛ شیخ کواِس کی اطلاع کی گئی، دریافت کیا کہ نماز کے اوقات تومحفوظ رہتے ہیں؟ (یعنی نماز کے اوقات کا تو اہتمام رہتا ہے؟) لوگوں نے عرض کیا کہ نماز کے اوقات تو بے شک محفوظ ہیں، فرمایا: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ لَمْ یَجْعَلْ لِلشَّیْطَانِ عَلَیْہِ سَبِیْلًا، تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے شیطان کواُس پرمسلط نہ ہونے دیا۔ (بہجۃ النُّفوس)
(جاری ہے، ان شاءاللہ)
٭٭٭٭٭