اس مارچ کے مہینے میں عافیہ صدیقی کو قید ہوئے پورے بیس سال ہو گئے۔ کتنی ہی مرجھائی بہاریں بیتیں اور کتنی خزاؤں کی پرچھائیاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں۔ عافیہ سے عزت اور غیرت کے عناوین وابستہ ہیں، بلکہ کچھ غور کیجیے، شریعتِ مطہرہ کے احكام جا نیے، سیرت النبی (علی صاحبہا ألف صلاۃ وسلام) سے گزریے، صحابہ و سلفِ صالحین اور ان کے بعد آنے والوں کی زندگیوں کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ’عافیہ‘ کے ساتھ پورا کا پورا دین بھی وابستہ ہے۔ مغرب میں ایک مسلمان عورت قید ہو جائے تو مشرق کے سبھی مسلمانوں پر جہاد فرضِ عین ہو جاتا ہے، یہ حکمِ شریعت ہی تو ہے۔ بنی قینقاع کی غداری کے نتیجے میں ملک بدری کا سارا واقعہ ایک مسلمان عورت کی بے حرمتی کرنے ہی کا بیان ہے۔ ایسے ٹھوس انداز سے، ’ولا یخافون لومۃ لائم‘ کی مجسم تصویر بن کر صحابۂ کرام (رضوان اللّٰہ علیہم أجمعین) نے شارع علیہ السلام کی سات آسمانوں کے اوپر سے اتری شریعت کو نافذ کیا کہ کسی مسلمان عورت کی بے حرمتی کی نوبت دوبارہ نہ آئی۔ سندھ میں ایک مسلمان عورت اہلِ کفر کے ہاتھوں قید ہو جاتی ہے، ہم سبھی جانتے ہیں کہ اس مسلمان خاتون کو چھڑانے سرزمینِ حجاز کے طائف کا محمد بن قاسم الثقفی (رحمہ اللّٰہ رحمۃً واسعۃ)سرزمینِ دیبل پہنچا، ابنِ قاسم کا یہی پہنچنا، دینِ اسلام کا اس سرزمین پر پہنچنا بھی ثابت ہوا۔ سواحلِ گوادر و کراچی سے ملتان تک کا علاقہ ابنِ قاسم نے بزورِ شمشیر دار الاسلام میں داخل کیا اور اس دار الاسلام کے باشندے ابنِ قاسم اور اس کی فوج کی دعوت و تبلیغ اور ان کے اخلاقِ حسنہ کو دیکھ کر دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے۔ یہاں یہ ذکر بہت ہی ضروری ہے کہ ابنِ قاسم کو لشکرِ اسلام پر سپہ سالار بنا کر بھیجنے والا، ابنِ قاسم کا سگا چچا، والیٔ عراق حجاج ابنِ یوسف تھا، وہ حجاج جس کی ظالم و سفاک تلوار سے کبار صحابۂ کرام، تابعین و تبع تابعین تک محفوظ نہ رہے، وہ حجاج جس کا نام آج چودہ قرن گزر جانے کے بعد بھی لیا جاتا ہے تو ظالم و سفاک کے سابقات و لاحقات کے ساتھ ذکر ہوتا ہے گویا حجاج کا معنیٰ ہی ظالم و جابر و سفاک ہو۔ حجاج، حجاج تھا، لیکن وہ بھی بے حمیت نہ تھا، چودہ قرن پہلے سندھ میں قید ’عافیہ‘ کے لیے اس کا خون بھی جوش مارتا تھا۔ عباسی خلیفہ معتصم باللّٰہ کے زمانے میں ایک مسلمان عورت کو عیسائی بازنطینی حاکمِ وقت ایک تھپڑ مارتا ہے، اس حاکم کے دربار میں بلند ہونے والی چیخ ’وا معتصماہ!‘ معتصم تک پہنچتی ہے تو اہلِ کفر کی سرزمینِ عموریہ بزورِ شمشیر تاراج ہو کر دار الاسلام میں داخل ہو جاتی ہے۔ 1
لیکن ایک زمانہ وہ تھا اور ایک آج ہے کہ عافیہ بیس سال سے صلیبیوں کے پنجروں میں بند ہے۔ یوں تو ہم عافیہ کی کہانی بہت اچھی طرح جانتے ہیں لیکن ایک بار پھر اس سے گزرتے ہیں تا کہ مجرمین کی نشاندہی ہو سکے اور ہمیں اپنے جرم کا احساس بھی (وہ جرم جو عافیہ کو نہ چھڑا کر ہم جس کے مرتکب ہو رہے ہیں)۔ عافیہ آج سے بیس برس قبل باب الاسلام کراچی میں اپنے تین کم سن بچوں کے ساتھ ایک ٹیکسی میں سفر کر رہی تھی۔ جب اس کی ٹیکسی کو نقاب پوش وردی والے جو اس وقت بے وردی آئے تھے روکتے ہیں، ذرائع کے مطابق عافیہ کو گرفتار کرنے کا آپریشن ’سیّد احتشام ضمیر جعفری‘ (جو بعد میں میجر جنرل کے رینک تک ’پروموٹ‘ ہوا اور آئی ایس آئی کے سیاسی ونگ کا سربراہ رہا) کی سرکردگی میں انجام دیا گیا۔ عافیہ اس کے بعد پاکستان میں کام کرنے والے سی آئی اے کے یونٹس کے حوالے کر دی گئی۔ پاکستان میں نجانے کتنی بلیک سائٹس میں پسِ ظلماتِ زنداں رہنے کے بعد عافیہ کو افغانستان منتقل کر دیا گیا۔ وہاں وہ بدنامِ زمانہ جیل باگرام میں رہی جس جیل کو اول اول سوویت یونین نے استعمال کیا ، اسی زندان میں عافیہ ’Prisoner 650‘ کے طور پر مشہور ہوئی۔ افغانستان کے غزنی میں عافیہ منظرِ عام پر آتی ہے (ایک ویڈیو بھی موجود ہے اور انتہائی لاغر حالت میں ایک مشہور تصویر بھی)، پھر اس کو کسی خاص محکمۂ عدالت میں پیش کیا جاتا ہے، وہاں لاغر و نڈھال عافیہ ایف بی آئی کےکارندوں کے بقول ان سے جدید رائفل چھینتی ہے اور ان پر گولی چلا دیتی ہے، حالانکہ وہ خود چلنے کے قابل بھی نہیں ہوتی، گولی کسی کو نہیں لگتی۔ پھر اس پر مقدمہ چلتا ہے اور اسے امریکہ پہنچا دیا جاتا ہے۔ کچھ مہ و سال بعد طواغیتِ زمانہ کا سرغنہ امریکہ، عافیہ کو چھیاسی (۸۶) سال کی قید سنا دیتا ہے۔ عافیہ کا سب سے چھوٹا بچہ غائب ہو جاتا ہے اور دو بڑے بچوں کے گلے میں گتّے کے کتبوں پر ان کا نام و پتہ لکھ کر کراچی کی گلیوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے، جہاں عام لوگ ان بچوں کے گلے میں جھولتے نام و پتے کے مطابق ان بچوں کو عافیہ کی والدہ کے گھر پہنچا دیتے ہیں۔ عافیہ آج بھی قید ہے۔ اس کے ساتھ بالجبرِ شدیدہ، فقط اذیت دینے کی خاطر زیادتی کی جاتی ہے۔ مکمل برہنہ کر کے تلاشی لی جاتی ہے۔ قرآنِ عظیم الشان کا نسخہ اس کے سامنے پٹخ کر کہا جاتا ہے کہ اس پر پاؤں رکھ کر آگے آؤ تو کپڑے ملیں گے۔
کیا کسی کے دل کو کچھ ہوا؟ کوئی رونگٹا کھڑا ہوا؟ کاش کے ہمیں کچھ ہو، کاش!
کس کے منتظر ہیں سب؟ معجزہ کہ زلزلہ
تا وہ دخترانِ دِیں بازیاب ہو رہیں
ابھی ہفتہ دس دن پہلے ’ہولی‘ کا تہوار منایا گیا۔ لیکن ہندوستان میں اس ہولی کے موقع پر عورتوں کی عصمت سے ہولی کھیلی گئی، مغربی خواتین جو بھلے خود ہی عصمت و عفت کو اتار چکی ہیں کو ہراس کیا گیا، لیکن وہ ہراسگی بہر کیف ان عورتوں ہی کے ایما پر ان کے ساتھ ہوئی کہ وہ سات سمندر پار سے ہولی منانے بھارت پہنچی تھیں، وہ بھارت جس کے دہلی کی پہچان آج ’ریپ کیپٹل(rape capital)‘ ہے۔ لیکن جن مناظر نے چیخ چیخ کر ابنِ قاسم کو پکارا اور وامعتصماہ کی صدائیں بلند کیں وہ اہلِ ایمان خواتین پر بھارت کے مختلف شہروں میں رنگ اور رنگ ملا پانی بھرے غبارے پھینکنے کے مناظر تھے۔ باحجاب، برقع پوش خواتین کو ہراساں کیا گیا، با حجاب عورتوں کے حجاب نوچ کر ان کے چہرے پر رنگ ملے گئے۔ پہلے ہمیں ایسی خبریں کشمیر سے ملا کرتی تھیں، افشاں اور نیلوفر کی لاشیں جہلم و نیلم میں زیادتی کے بعد پھینک دی جاتی تھیں۔ سنگینوں کے وار سرینگر اور جموں میں بہنوں کے آنچلوں پر ہوتے تھے۔ آج یہ سب پورے ہندوستان میں ہو رہا ہے۔
پاکستان کی عافیہ ہو، کشمیر کی نیلوفر یا بمبئی کی عائشہ خاتون، ان سب کا دفاع محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق ہم پر ’فرضِ عین‘ ہے۔ یہ فرضِ عین تب تک ادا نہ ہوگا جب تک ہم اپنے گھروں سے جہاد فی سبیل اللّٰہ کا ارادہ کر کے نہ نکلیں۔ جب تک ہماری جملہ مساعی جہاد فی سبیل اللّٰہ کے دھارے میں شامل نہ ہوں تو قلم و زبان سے فقط مذمت اور جذباتی باتیں لکھنے اور کہنے سے کچھ نہ ہو گا۔ ہماری ریاست اسلامی ہے یا غیر اسلامی، اس کو سمجھانے کے لیے تو ’ریاست‘ کی ’پریمیر انٹیلی جنس ایجنسی‘ آئی ایس آئی کا عافیہ صدیقی کے اغوا اور امریکیوں کو بیچ دینے کا ’سانحہ‘ ہی کافی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ عافیہ اگر راقم و قاری کی ’اپنی‘ بہن، بہو، بیٹی ہوتی تو ہم ایسی بحثوں میں نہ الجھے ہوتے، پھر ہم کسی دار الافتاء میں جا کر مسئلہ نہ پوچھتے کہ میں اپنی بہن عافیہ، اپنی بہو عافیہ، اپنی بیٹی عافیہ، بلکہ رکیے…… اپنی ماں کی عمر کی، اپنی ماں عافیہ کو چھڑوانے کے لیے کیا کروں؟ ابھی وحی آسمان سے اترتی تھی، شارع (علیہ ألف صلاۃ وسلام) موجود تھے لیکن جب مدینے کے بازار میں ’معاہد‘ یہودیوں نے ایک مسلمان عورت کی عصمت دری نہیں، صرف اس کو بے حجاب کرنے کی کوشش کی اور جب اس کے سَتَر کا کچھ حصہ کھلنے پر قہقہے لگائے تو ایک صحابیٔ رسول نے آگے بڑھ کر اس فتنہ گر یہودی کو قتل کر دیا اور یہودیوں نے مل کر ان صحابی کو شہید کر دیا۔ یہی واقعہ یہودِ بنی قینقاع سے نقضِ عہدِ ’میثاقِ مدینہ‘ قرار پایا اور غزوۂ بنی قینقاع ظہور پذیر ہوا۔ علمائے کرام نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اس پیش قدمی اور یہودِ بنی قینقاع سے جنگ کے ارادے کے متعلق لکھا ہے کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللّٰہ عنہم مسلمان عورت کے حجاب کی نصرت اور ایک مسلمان مرد کے خون کا انتقام لینے کے لیے پوری فوج کے ساتھ نکلے۔ ایمان و غیرت تو یہ ہوتی ہے جو ان صحابی، جن کا نام بھی اکثر سیرت نگاروں نے ذکر نہیں کیا، کے عمل کا روپ اختیار کرتی ہے۔
ہندوستان میں ہمارا مستقبل، ہم اہلِ ایمان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ جس شئے نے ایک بار سانس لیا، اس کا سانس ایک بار منقطع ہونا ہے۔ موت تو ہمیں آنی ہے، بس فیصلہ یہ کرنا ہے کہ ہم معذرت خواہانہ رویوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہندو بلوائیوں کے ہاتھوں مرنا پسند کریں گے، ہندوستان میں ایک نیا ’اندلس‘، ’بوسنیا‘، ’مشرقی تیمور‘ اور ’برما‘ بنوائیں گے یا اپنے دفاع میں کچھ کو مار کر مریں گے؟ ہم گھر واپسی کے قائل ہیں کہ گھر تو جنت ہے، اور گھر کا دین تو اسلام ہے، سبھی انسانیت کو ہم اسی سچی گھر واپسی کی دعوت دیتے ہیں۔ حجازی چاہے تو رائے بریلی میں رہے اور لکھنوی چاہے تو مدینے میں بس کر مدنی کہلائے۔ ہمیں مسلمانانِ ہند کا غم ہے، لیکن سچ مانیے ’ولا یخافون لومۃ لائم‘ کی تصویر بن کر جینے والے بنیے۔ ’منو‘، حضرتِ آدم (علیہ الصلاۃ والسلام) کا نام پرانی ویدوں میں تھا یا نہیں اور ’اوم‘ سے مراد، اللّٰہ سبحانہٗ و وحدہٗ لا شریک ہے یا نہیں ہمیں کچھ فائدہ نہ دیں گے۔ فرقہ پرستی، ہندو اور مسلم کی تقسیم نہیں، فرقہ پرستی تو جہادی و غیر جہادی کی تقسیم ہے۔ ہندو مسلم کو تو قرآن پہلے ہی مشرک و موحد کی تقسیم میں بانٹ چکا ہے۔ اب مشرک ہندو برقع پوش مسلمان عورتوں کا حجاب پھاڑ کر ان کے عورات، چہروں اور کپڑوں پر رنگ مل رہے اور جہاں موقع ملتا ہے تو عصمت دری کرتے ہیں، کیا اب بھی ہندو مسلم بھائی بھائی کا نعرہ و عمل روا ہے؟ کیا ایسے میں بھی ہم آر ایس ایس کے ساتھ مل کر ہندوستان میں کام کر سکتے ہیں؟
ہم اللّٰہ سے دعا مانگتے ہیں کہ ’’کرم ’عافیہ‘ پر کرم یا الٰہی!‘‘، ہر عافیہ جو پاکستانی نظام کے ہاتھوں بکنے کے بعد بھلے ٹیکساس میں قید ہو یا ہندوستان کے لاکھوں مربع کلومیٹر کے قید خانے میں، یہ سبھی کرمِ الٰہی کی محتاج ہیں، لیکن ان عافیاؤں سے زیادہ کرم کی محتاج یہ امت اور اس امت کے مرد ہیں جنہوں نے محمود غزنوی، سلطان ٹیپو اور معتصم باللّٰہ و ابنِ قاسم بننا تھا۔ کرم عافیہ کے ’بھائیوں‘ پر، کرم یا الٰہی!
اللھم وفقنا كما تحب و ترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وأرضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی
اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!
٭٭٭٭٭
1 شاید کچھ حضرات کو ’بزورِ شمشیر‘ دار الاسلام کے آباد ہونے پر تعجب ہو، لیکن تاریخِ اسلام تو یہی بتاتی ہے، ہسپانیہ کے جبل الطارق (جبرالٹر) سے مشرقی ترکستان کے کاشغر تک طارق بن زیاد اور قتیبہ بن مسلم جیسوں نے جغرافیۂ اسلام کو تلوار سے وسعت دی ہے اور تاریخِ عالم کے صفحات نوکِ تلوار سے پلٹے ہیں۔ دنیا میں ہر نظام زورِ تلوار سے نافذ ہوا ہے، کیا آج کی سرمایہ دارانہ جمہوریت جہان کے کونے کونے تک تلوار و تفنگ کے زور سے نہیں پھیلی؟ روس اگر یوکرین میں اپنا نظام لانا چاہتا ہے تو وہ بھی مسلح ہے اور پورا مغرب اگر یوکرین کے دفاع میں جتا ہوا ہے تو وہ بھی یوکرین کی مدد آلاتِ حرب سے کر رہا ہے۔ کوئی بھی نظام معذرت خواہانہ رویوں سے نہ نافذ ہوتا ہے اور نہ ہی پھیلتا ہے۔ حضرتِ اکبر الٰہ آبادی نے کیا خوب فرمایا:
یہ ہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام
یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے