اللہ رب العزت کی حمد و ثنا جس نے رمضان مبارک کی آمد سے مسلمانوں کا خوب اکرام کیا۔ اور اس ماہ میں صیام وقیام کے اتمام پر ان پر مکمل انعام کیا۔ تمام اجر و وثواب کا حصول محض اس کے فضل و احسان سے ہوا۔ ایمان و یقین کے ساتھ شبِ قدر سے نوازا۔اور آخر میں عید الفطر کی خوشیاں بھی نصیب فرمائیں۔ اور درود و سلام دو جہانوں کے لیے مبعوث ہدایت و رحمت پر۔ ان کے آل و اصحاب پر اور پیروان سنت ِ آنجناب پر۔ اور ان پر جو تا قیامت عَلم جہاد نبویؐ اٹھائے رکھے ہوئے ہیں۔
اپنی امت مسلمہ کے نام! جسے اللہ تعالی نے لوگوں کے لیے مبعوث کردہ بہترین امت قرار دیا، دنیا بھر میں بسترے برادرانِ اسلام کے نام ، اور تمام خطوں میں اسلام اور مسلمانوں کے محافظ اہل جہاد کے نام!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
عید فطر سعید بہت بہت مبارک ہو ۔ اللہ تعالیٰ اسے خوشیوں، فتوحات اور عزت و فلاح کا باعث بنائے۔ اور اللہ تعالی ہم سب سے صیام و قیام اور تمام اعمال صالحہ قبول فرمائے۔ اور ہم سب کو ہدایت یافتہ ہادی و راہنما بنائے۔ اور اپنے نیک بندوں میں شمار کرے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی تمام عیدوں کو فرحت و مسرت سے معمور کرے۔ اور رحمتوں و برکتوں سے ڈھانپ لے۔ ہم سب پر لازم ہے کہ اللہ رب العزت کا ارشاد گرامی تلاوت کریں:
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا ھُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ (سورة يونس: ۵۸)
’’کہو یہ سب کچھ اللہ کے فضل اور رحمت سے ہوا ہے، لہذا اسی پر تو انہیں خوش ہونا چاہیے، یہ اس تمام دولت سے کہیں بہتر ہے جسے یہ جمع کر کر کے رکھتے ہیں۔‘‘
اے امتِ رشد و ہدایت!
عید کا موقع ہماری امت پر بار بار دہرایا جاتا ہے تاکہ ہم خوشیوں کے ساتھ ساتھ اعلی نصیحتوں اور تعلیمات سے بھی فیض یاب ہوں۔ ان فیوض میں سے ایک عظیم ترین فیض یہ ہے کہ عید اقوام ملت اسلامیہ کے درمیان وحدت و اتحاد کی روح پھونکتی ہے۔ خوشیوں کے ان لمحات میں پوری امت باہمی بھائی چارے کے معاشرتی نظام کو مضبوط کرنے میں لگ جاتی ہے۔ فلاح و بہبود کے منصوبوں کے ذریعے امت کے غرباء اور امراء کے درمیان شفقت و مودت کے رشتے مضبوط ہوتےہیں۔ امت کے ہر ہر فرد کو باہمی خبر گیری کا احساس ہوتا ہے۔ جس سے مسلم معاشرہ آپس میں مضبوطی سے جڑ جاتا ہے۔ اور اسے وہ قوت حاصل ہوتی ہے کہ دنیا بھر میں اپنی بنیادی ذمہ داریاں انجام دے سکے۔ جس میں اسلامی دعوت و تہذیب کا پرچار بھی شامل ہے۔ اس میں فطرت مخالف اور فاسد عالمی رجحانات سے عقل انسانی کو آزاد کرنا بھی ہے۔ اس میں زمین کو توحید و ایمان سے معمور کرنا بھی ہے۔ اس میں آسمانی شریعت اور نبوی اخلاق کے مطابق خلق خدا کی سیاست بھی ہے۔ اور دنیا بھر میں اسلامی وجود کی حفاظت بھی شامل ہے۔
ہم اپنی محبوب امت کو (جس کا ہم حصہ بھی ہیں اور اسی کے لیے ہمارا وجود ہے) باہمی وحدت اور پشت بانی کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ ہم اسے بھرپورنصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنے مخلص بیٹوں اور مردان کار کے ساتھ کھڑی ہو جائے۔ جنہوں نے اقامت دین کا غم اٹھائے رکھا ہے۔ پورے کے پورے دین کا۔ امت کو جابروں اور ظالموں سے نجات دلانے کا غم اٹھائے رکھا ہے۔ معاشرتی انصاف کی بنیادیں استوار کرنے کا غم۔ اقتصادی ترقی اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت کرنے کا غم۔ صلیبی صہیونی بالادستی سے حقیقی آزادی کے حصول کا غم۔ تمام ممالک کے امتیوں کو عزت و افتخار دلانے کا غم۔ انسایت بھر کو شرعی آزادی دلانے کا غم۔ حزب شیطان کے شذوذ و انحراف کی بندھنیں توڑ کر رحمان و رحیم کی پناہ میں لے جا کر ۔ ایسی پناہ جو لینے والوں کو حقیقی آزادی دلاتی ہے۔ ایسی آزادی جو محبت و رحمت میں لپٹی ہوئی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہے۔
عید صرف ہمارے لیے نہیں بلکہ بنی نوع انسان کی تمام اقوام عالم کو کے لیے ایک بہترین اور قیمتی موقع ہے کہ ہم دلی نصیحت کے ذریعے انہیں اپنے قریب کریں۔ ہم انہیں دعوت دیں کہ وہ دینِ اسلام اور کلامِ رب الناس کو جاننے کے لیے اپنا کچھ وقت نکالیں اور اپنے آپ کو صہیونیت نواز سیاست دانوں کی چالوں سے آزاد کریں۔ تاکہ ان کی آنکھوں سے تاریک پردے ہٹیں اور وہ اسلام کی پیش کردہ روشن اور سچی حقیقت کو دیکھ سکیں۔
قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَاۗءٍۢ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهٖ شَيْـــًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ (سورۃ آلِ عمران: ۶۴)
’’(مسلمانو ! )کہہ دو کہ : اے اہل کتاب ! ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہم تم میں مشترک ہو، ( اور وہ یہ) کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور اللہ کو چھوڑ کر ہم ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں۔ پھر بھی اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دو : گواہ رہنا کہ ہم مسلمان ہیں۔ ‘‘
ہم تمام انسانوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنے سربراہان ممالک اور زعمائے عالم پر بھروسہ نہ کریں جو انہیں مسلسل دھوکے دیتے آ رہے ہیں۔ اور اپنی اقوام کو ہلاکتوں میں ڈال رہے ہیں۔ اگر ان کے سیاست دانوں میں عقلِ سلیم کا کچھ حصہ ہوتا تو وہ اس امت کے بارے میں ہوش مند ہوتے جس کی تعداد اب دو ارب سے بڑھ گئی ہے۔ وہ امتِ اسلام کی بیداری سے خبردار رہتے جس کے بعد وہ کبھی شکست نہیں دیکھے گی۔ وہ امت جو دنیا کی قیادت کے لیے پوری قوت سے آنے ہی والی ہے۔ اپنے دین و اقدار، اصول و مبادی، اور تہذیب وعدالت کو ساتھ لے کر۔ اگر ان سیاستدانوں کو سمجھ داری اور سیاسی پختگی کا ادنی حصہ حاصل ہوتا تو دین اسلام سے مخلص مسلمانوں کو اپنا مشیر مقرر کرتے۔ تاکہ وہ انہیں اسلام کے بارے میں حقیقی اور غیر جانبدار فہم وشعور دیں۔ اور انہیں سمجھائیں کہ اسلام کا کردار کیا ہے اور اس کے کیا کیا تاریخی استحقاق ہیں۔ تاکہ یہ حکمران دنیا پر چھانے کے لیے تیزی سے آنے والے اسلام کی حقیقت سے روشناس ہوں۔ ہم دنیا بھر کے عوام کو نصیحت کرتے ہیں کہ یہ انتہائی بے وقوفی اور سراسر نادانی ہو گی کہ وہ اپنے لیے ایسے حکام کا منتخب کریں جو مسلمانوں کے بدترین دشمن اور نسل پرست مجرم ہیں۔ یا اپنے ممالک کی باگ دوڑ اور سیاست انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں تھما دیں۔ ’مودی‘ ، ’ابن کفیر‘اور ان جیسے اسلام کے کٹر دشمن اپنی حکومتوں اور اقوام کو تباہی کے سوا کچھ نہیں دیں گے۔ او رعنقریب وہ فصل کاٹیں گے جو انہوں نے سرزمین اسلام میں بوئی۔ خون کی ہولی میں خون کے علاوہ کیا بہے گا۔ اور قریب ہے کہ حسرتیں اور ندامتیں ان کے دامن گیر ہوں گی۔ قسم ہے! ان کے بغض وعناد نے انہیں اتنا اندھا کر دیا ہے کہ وہ فہم واقع سے قاصر ہو چکے ہیں۔ اور دنیا کے بدلتے نقشوں کی پیشین گوئیوں کو نہیں سن پا رہے جس سے انہیں معلوم ہو کہ مستقبل نے ان کے لیے کیا چھپا رکھا ہے۔ کیا انہیں ادراک نہیں کہ ان کے گرد چہار سو مسلمانوں کا بحر بے کراں ہے۔ قریب ہے کہ ان میں ایسی طغیانی برپا ہو جو صہیونی صلیبی مغرب کی آلۂ کار حکومتوں کو غرق کر دے۔ اُس دن امت اپنے جابروں کے ساتھ ابدی غضب کے ساتھ پیش آئے گی جس میں ذرہ برابر رحم نہ ہو گا۔ اور عن قریب اس قسم کے خائن حکمران، جابر مجرم، اور شکست خوردہ مفکرین صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ بے شک ان سب پر ایک انتقام والا طاقتور خدا ہے۔ جس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ جس کا معمول ہے ظالموں کو ہلاک کرنا، انہیں قصۂ پارینہ بنانا، ان کی سلطنتوں کو تباہ کر ڈالنا۔ اللہ تعالیٰ اپنے فرمان میں سچا ہے کہ:
وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ڛ اِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيْهِ الْاَبْصَارُ (سورۃ ابراہیم: ۴۲)
’’اور یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ جو کچھ یہ ظالم کر رہے ہیں، اللہ اس سے غافل ہے۔ وہ تو ان لوگوں کو اس دن تک کے لیے مہلت دے رہا ہے جس میں آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔‘‘
وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ اِنَّ اَخْذَهٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ(سورۃ ہود: ۱۰۲)
’’اور جو بستیاں ظالم ہوتی ہیں، تمہارا رب جب ان کو گرفت میں لیتا ہے تو اس کی پکڑ ایسی ہی ہوتی ہے۔ واقعی اس کی پکڑ بڑی دردناک، بڑی سخت ہے۔ ‘‘
سلسلۂ کلام وہیں سے جوڑتے ہیں جہاں سے شروع کیا تھا ۔ اور اپنی امت مسلمہ کو عید الفطر کے موقع پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ امت کو اپنے رب کی منشا کی تکمیل کے لیے اتحاد و عمل کی دعوت دیتے ہیں کہ امت کی اولین ترجیح اسلام کی سر بلندی ہو۔ کیونکہ اسلام کی روشنی کے بغیر نہ کوئی زندگی ہے ، نہ آزادی ، نہ عدالت۔ ہماری عزت دار امت یہ جان لے کہ جس ’اصلاح ‘ کے عمل کی طرف بعض لوگ دعوت دے رہے ہیں وہ صہیونیت اور اس کے آلۂ کار حکومتوں کی محض ایک سازش ہے تاکہ داعیان حق کو رہٹ کے ایسے چکر میں پھنسا دیں جو نہ ختم ہونے والے ہیں۔ امتِ اسلام کے سامنے رب کی منشا کے مطابق آزادی اور عزت حاصل کرنے کا ایک ہی راستہ ہےاور وہ جابر حکومتوں اور نظاموں کی حقیقی اور مکمل بیخ کنی ہے۔
ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ اس امت کو آنے والی عیدوں میں اپنے دشمنوں کے خلاف زبردست فتح و نصرت سے ہم کنار کرے۔ سب کو رشد و ہدایت عطا کرے۔ اور ہم سب کو صراط مستقیم کی طرف لے جائے۔ اور ہر اس عمل کی توفیق دے جس میں اسلام اور مسلمانوں کی صلاح و کامیابی ہو ۔
ہم اللہ سے ہی مدد مانگتے ہیں، اسی پر توکل کرتے ہیں، اسی کی پناہ میں آتے ہیں۔ ولا حول ولا قوۃ إلا باللہ العلی العظیم۔
شوال۱۴۴۴ھ
اپریل ۲۰۲۳ء
٭٭٭٭٭