وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ…… سچوں کا ساتھ دو!
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی حبیبنا وحبیب ربنا محمد وآلہ وصحبہ ومن والاہ، أما بعد
برصغیر اور پوری دنیا کے میرے اہل ایمان بھائیو!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
رمضان المبارک کامہینہ ختم ہورہا ہے اور عیدالفطر کی آمد آمد ہے،اللہ سے دعا ہے کہ اس عید کوآپ کے لیے ، ہم سب اور پوری امت مسلمہ کے لیے مبارک ثابت فرمائیں اور اسے ہماری ہدایت اور نصرت کا دروازہ بنائیں ۔
محترم اہل ایمان بھائیو!
بحیثیت مجموعی پوری امت مسلمہ کی صورت ِ حال آج انتہائی قابل رحم ہے، بیت المقدس میں رمضان المبارک کے دوران اسرائیلی فوجیوں نے جس طرح مسجد اقصی کی بے حرمتی کی اور نمازیوں، بشمول خواتین پر تشدد کیا ، پھر آئے دن فلسطینی مسلمانوں پر جس طرح زمین تنگ ہو رہی ہے ،اور یہ سب جرائم ایسے وقت میں ہورہے ہیں جب عرب حکمران اسرائیل کی تائید اور اس کے ساتھ قربت کا علی الاعلان اظہار کررہے ہیں ، جبکہ ساتھ ہی امریکہ و اسرائیل کی اس جنگ کو ان سے بڑھ کربراہ راست لڑ رہے ہیں ، یہ سب بتارہا ہے کہ اسلام کے خلاف یہ جنگ کس انتہا تک پہنچ چکی ہے ، اس کی شدت و سنگینی آج کیسے ہر حد کو پار کررہی ہے اور یہ امت مسلمہ پر کیسے آزمائشوں کے دروازے ایک کے بعد دوسرا کھول رہی ہے ۔ برصغیر میں بھی یہ جنگ جاری ہے ،محاذ اور کردار ضرور مختلف ہیں ، مگر مقاصد ایک ہیں اور طریق کار بھی ایک ہے ، ہدف ونشانہ اسلا م و اہل اسلام ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج برصغیر میں اہل ایمان کی حالت انتہائی خطرناک صورت اختیار کررہی ہے …… اسی تناظر میں آج میں اپنی اس گفتگو میں مسلمانان برصغیر کی اس حالت کا جو قابل توجہ پہلو ہے، اسے ان شاء اللہ آپ کے سامنے بطورِ تذکیر رکھ رہاہوں ، اللہ سے دعا ہے کہ وہ بس خیر کی بات کرنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔
محترم بھائیو!
یہ حقیقت آج کسی سے بھی مخفی نہیں ہے کہ برصغیر میں ہم مسلمانوں کی حالت بد سے بد تر، بلکہ انتہائی خطرناک صورت اختیار کررہی ہے۔ پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش ہر جگہ صورتِ حال آخری حدتک خرابی کی طرف جارہی ہے ، یہا ں پہلے بھی ہمیں آزادی و تحفظ اور چین و سکون نصیب نہیں تھا، مگر اس تنزل ، عدم تحفظ اور دشمن کی طرف سے گھیرا تنگ ہونے کے عمل میں آج جو تیزی آئی ہے،یہ پہلے کی نسبت غیر معمولی ہے ۔ حالات کچھ ایسی کروٹ لینے لگے ہیں کہ اب واضح طورپر نظر آرہاہے اور اپنے پرائے سب کہہ بھی رہے ہیں کہ جلد یا بدیر بہت برا ہونے والا ہے ، مسلمانان برصغیر ایسے حادثے کی طرف بڑھ رہے ہیں کہ جو اپنی نوعیت میں انتہائی خطرناک ہوگا، اور قابل غور بات اس میں یہ ہے کہ اس انجام تک لےجانے کی محض کفریہ طاقتیں ذمہ دار نہیں، ذمہ دار کفریہ طاقتیں اور مسلمانوں کے سروں پر مسلط ان کے زرخرید غلام بھی ہیں، مگر خود ہم مسلمانوں پر بھی اس کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ، اس لیے کہ ہماری ہی غفلت وکوتاہی کو ہمارے دشمنوں نے استعمال کیا ہے، اسی تمہیدکی ذرا وضاحت کی کوشش کرتاہوں۔
صورتِ حال یہ ہے کہ ہندوستان میں ہمارا وجود مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے ہمارا دشمن اپنی تاریخی صف بندی کررہاہے ، یہ دشمن ہمیں مارنے اور ہمارے دیس سے ہمیں نکالنے کے لیے علی الاعلان تلواریں تیزکررہاہے، جبکہ مقابل میں ہم کروڑوں کی تعداد میں بے بس ، منتشر اور دفاع کے کسی پروگرام کے بغیربس آسمانی معجزے کا انتظار کر رہے ہیں ،بنگلہ دیش بھی اس زعفرانی آندھی سے محفوظ نہیں ہے، یہاں سیاسی طورپر مشرکین ہند کا تسلط پہلے سے کہیں زیادہ قوی ہوگیا ہے اور اب معاشرتی سطح پر ہم سے ہمارا دین وایمان چھیننےکی باقاعدہ جنگ لڑی جارہی ہے۔ پاکستان کی حالت ان دونوں سے بدتر اس لیے ہے کہ یہاں اللہ نے ہمیں بہت کچھ دیا تھا ،مگر آج ان میں سے کچھ بھی ہمارا نہیں رہا ، ترقی کے نام پر دین وناموس اور آزادی واختیار کی قربانی بہت پہلےدی جاچکی ہے ، جبکہ تر قی کی آج یہ حالت ہے کہ ملک دیوالیہ ہے، افتراق و انتشار ہے اور عوام کے لیے زندگی کی سانسیں تک لینا بھی مشکل ہوگیاہے۔
صورت حال کی خرابی کایہ احساس ہونے کو تو سب کو ہے، مگر ان حالات کا اہم اور قابل افسوس پہلویہ ہے کہ اس بدحالی اور تنزلی کے جو اصل اسباب ہیں ، ان سے مکمل طورپر صرفِ نظرکیا جارہاہے اور اُس طرز عمل پراصرار ہورہاہے جو ہمیں تباہی سے بچائے گا نہیں ، بلکہ تباہی کی طرف ہمارا یہ مہلک سفر مزید مختصر کرے گا۔ایسے میں یہ موقع ہے کہ دردِ دل رکھنے والے اہل ایمان ان حالات کو خود بھی، اللہ کو مطلوب اصل اور حقیقی زاویے سے دیکھیں اورقوم کو بھی اس کے اصل اسباب بتائیں ، ان کا علاج سمجھائیں ،اور عوام کے دلوں پرپھر دستک دےکر انہیں جھنجوڑیں اور اُس طوفا ن کے آگے بند باندھنے کے لیے ساتھ کھڑا کریں جس کے لیے اٹھ کھڑا ہوناآج ہمارے اوپر فرض عین ہوگیاہے۔
محترم بھائیو!
اللہ کی کتاب کہتی ہے کہ ہماری عسرت و تنزلی اور ذلت و رسوائی کا بڑا سبب اپنے رب کی ناقدری اورکتاب اللہ سے منہ موڑنا ہے ۔اللہ رب العزت کا فرمان ہے :
﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى﴾(سورۃ طہ:۱۲۴)
’’ اور جو میری نصیحت سے منہ موڑے گا تو اس کو بڑی تنگ زندگی ملے گی، اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔‘‘
اللہ کی کتاب کا تقاضہ ہے کہ ہم خود بھی اپنے رب کے سامنے جھک جائیں، اس کے دین پر خود عمل کرنے والے بنیں مگر ساتھ ہی اللہ کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ اس دین کو غالب کرنے کے لیےمیدانِ عمل میں ہم اتریں اورشیطان کے مقابل رحمان ، باطل کے خلاف حق اور ظلم کے سامنے عدل کے علم بردار بن کراللہ کے سپاہی بن جائیں۔اللہ پر ایمان کا اقرار مگر اس کی اطاعت کے لیے تیار نہ ہونا، دین پر عمل کا دعوی مگر اس دین کی خاطر نہ اٹھنا اور اللہ کی پکار پرکان بند کرلینا یہ وہ بڑا سبب ہے کہ جس کی وجہ سے ہم برصغیر میں ذلت و رسوائی کا سامنا کررہے ہیں۔ ہم نے اپنی شخصی اور قومی حفاظت و ترقی کو اپنا مقصدِحیات بنالیاہے جبکہ اللہ کے دین کی حفاظت و سربلندی کے مقصد کو پیٹھ پیچھےپھینک دیاہے ، نتیجے میں اللہ کا دین بھی مغلوب ہے اور ہم بھی مغلوب،محکوم اورمقہور ۔ قوم مسلم کی حفاظت ،عزت اور غلبے کا راز اللہ رب العزت نے دین اسلام ہی کی حفاظت ، عزت اور غلبے میں رکھاہے۔اگر اہل ایمان نصرت ِ دین کے لیے اٹھیں گے ، اسے غالب کرنے کے لیے حیّ علی الجہاد پکاریں گے تو اللہ انہیں بھی ذلت و رسوائی سے بچائے گا، قوت و اختیار کی نعمت سے انہیں نوازے گا لیکن اگر دین وشریعت کی پاسداری کی جگہ شخصی اور قومی مفادات کا تحفظ ہی نصب العین بن جائے تو نہ مسلمان کی جان اور عزت محفوظ ہوگی اور نہ ہی اس کے قومی مفاد ۔ شرعی احکامات کوچھوڑ کر ، ان پر مداہنت دکھاکر کسی اور چیز سے اگر ہم دنیا میں عزت و وقار حاصل کرنا چاہیں گے تو جواب میں غلامی ، رسوائی اور بے چینی کے سوا کچھ نہیں ملے گا ۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کیاہی اچھی بات فرمائی کہ نحن قوم أعزنا الله بالإسلام ’’ہم ایسی قوم ہیں کہ اسلام کے ذریعے اللہ نے ہمیں عزت دی ‘‘، فإذا ابتغينا العزة بغير ما أعزنا الله أذلنا الله ’’اگر ہم نے اس اسلام سے ہٹ کرکسی اور چیز میں عزت ڈھونڈی تو اللہ ہمیں ذلیل کردے گا ‘‘۔پس برصغیر میں جس تنزل کا ہم سامنا کررہے ہیں ، اس کا بڑا اور اہم سبب قومی مصلحت و مفاد نامی بت کے سامنے دین اسلام کے تقاضوں کی قربانی ہے ، نتیجے میں آج نہ ہم محفوظ ہیں اور نہ ہی ہمارا قومی وقار اور مفاد محفوظ ہیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ علیمٌ بذات الصدور ہے ، وہ انسانوں کا ظاہر بھی جانتاہے اور باطن بھی ، اوراس ظاہروباطن میں مطابقت دیکھ کرہی وہ اقوام کی ذلت و عظمت کا فیصلہ کرتاہے۔اُس رب کریم کو آئین ودستور نامی کتابچے میں چند اسلامی سطور لکھواکر دھوکہ نہیں دیا جاسکتا، وہ دیکھتاہے کہ کون اللہ کے ساتھ اپنے وعدوں کو بالفعل پورا کرتاہے اورکون ان وعدوں اور دعووں کو شریعت اسلامی ہی سے فرار کا ذریعہ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کے دین متین کے خلاف بغاوت و فسادکا وسیلہ بناتاہے۔وہ ربِّ عظیم ہم جیسوں کو ہی خبردار کرتاہے کہ اگر اُس ذات عظیم اور اس کی کتاب پر ایمان کا دعویٰ ہے تو پھر کتاب اللہ کے سارے احکامات اور اللہ کے پورے کے پورے دین پر عمل کا ارادہ کرکے دکھاؤ ، دکھاؤ کہ تم اللہ کے ہر ہر امر کو اپنے عمل میں لانے کے لیے پرعزم ہو ، اللہ کی محبت اور اس کی اطاعت کو ہر دوسری محبت واطاعت پر ترجیح دیتے ہو اور اپنے کردار سے ثابت کرو کہ تم نہ اپنی خواہش کے بندے ہو اور نہ ہی اپنے جیسے بندوں کے بندے ، بلکہ تم اللہ کے بندے اور صرف اللہ ہی کے غلام ہو، لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اہل دین اور علمائے عظام کو دبانے کے لیے تو تم ’پیغام پاکستان ‘ کاسہارا لے لوگے، اللہ کے ہاں اس قسم کا کوئی حربہ کام نہیں آتا، اللہ کے ہاں ایمان ،کردار ، بے لوثی اور اخلاص چلتا ہے ، اور یہ وہ پیمانہ ہے کہ جس کے مطابق ہمارے حکمران طبقے کی پچھتّر سالہ تاریخ گواہ ہے کہ اس دین سے محبت اور اس کی قدردانی میں یہ کس قدر جھوٹے، کھوٹے اور خائن ہیں! یہ ’’ قرآن و حدیث کے خلاف کسی قسم کی قانون سازی نہیں ہوگی‘‘ کا وعدہ اور اعلان بھی کرتے ہیں مگر ساتھ ہی اس آئین میں اللہ ورسول ﷺ کے خلاف جنگ(سود) کو عین حلال ثابت کرتے ہیں ، حدود آرڈیننس نامی بے اثر دستاویزکو دستور کا حصہ بھی بناتے ہیں ، مگرساتھ ہی ایسی قانون سازی بھی کرواتے ہیں کہ پچھتّر سال میں کبھی ایک دفعہ بھی ان احکامات پر صحیح طرح عمل نہیں ہوسکا ،بلکہ یہی قوانین اللہ کی شریعت کے مذاق بننے کاذریعہ بن گئے،پھر یہی’ اسلامی دستور‘ ہے کہ جس کے تحت ’حقوق ِ نسواں ‘ بل بھی پاس کیا گیااور ’ٹرانس جینڈر ایکٹ ‘بھی ایوان میں پاس کیا گیا، وہ بل کہ جن سے متعلق ان علمائے کرام کے بیانات بھی ریکارڈ پر ہیں جن سے’پیغام پاکستان ‘ پر دستخط لیےگئےہیں کہ ان بلوں کے بعد ریاست پاکستان میں زنا بالرضا اور لواطت قانوناً جائز قرار دے دیے گئے ہیں، قانون ان کے مرتکبین کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا۔پھر اس ’ اسلامی دستور‘ کی مزید حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اس میں ایک طرف اللہ کی حاکمیت کا اعلا ن کرکے کلمہ طیبہ پڑھ لیا، مگر ساتھ ہی پھر دوسری طرف اس میں قرآن وسنت کے نفاذ کی طرف ہر عملی قدم عوامی نمائندگان کی اکثریت (اغلبیت ) کی رضامندی کے ساتھ جوڑ دیا۔گویا اللہ کے احکامات قابل اطاعت ہیں مگر بس تب جب وہ عوامی نمائندوں کی خواہش کے مطابق ہوں اور وہ اجازت دیں کہ ہاں اللہ کے ان احکامات پر عمل بھی ہو!، ظاہرہے اللہ کی حاکمیت کے مقابل ا س سے بڑی جرأت کیا ہوسکتی ہے؟ اور یہ ہمارے اس آئین کے اسلامی ہونے کی حقیقت ہے جس کی آڑ لےکر ہم پر مسلط مغرب نواز اورنفس پرست طبقہ حکومت بھی کر رہا ہے اور پاکستان سے اسلام کا جنازہ بھی نکال رہا ہے۔ اس دو رخے پن ، دو رنگیت اور منافقت کے ذریعے بعض اہل دین کو تو دھوکہ دیا جاسکتاہےمگر کیا اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کو بھی کوئی فریب دے سکتاہے؟ اللہ اس ریاست کے بارے میں کیا فیصلہ کرتاہے؟کیااس رب کریم کی نگاہ میں بھی ’یہ ریاست اسلامی ہے یا غیر اسلامی‘ جیسی بحثوں کا کسی ایک طرف لگنا پہلے ضروری ہے ؟…… اللہ رب العزت عزیز و قدیر ، منتقم اور ذوالجلال ہے ، اس کے شرعی احکامات کی جب تحقیر و ناقدری ہوتی ہے تو اس کے تکوینی احکامات کو عمل میں لانے سے پھر کوئی نہیں روک سکتا ، اور یہی وہ احکامات ہیں کہ جو ہماری قوم پر پچھلے ستّر اسّی سالوں سے عامل نظر آرہے ہیں اور جن کے باعث باوجود اس کے کہ ہم نے امریکہ کی بھی غلامی کی اور چین کے در پر بھی سجدہ کیا، مگر ہماری غربت اور رسوائی ختم نہیں ہوئی ،بلکہ آئے دن اس میں اضافہ ہوتاگیا اور اس کا سبب اس کے علاوہ کیا ہے کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ سے ہماری یہ گندم نمائی وجو فروشی چھپائے نہیں چھپتی۔
اللہ رب کریم نے اعلان کیا ہے، اس کا فیصلہ ہے کہ اس ذات عظیم کے ساتھ جو بھی دھوکہ و فریب کرے گا، اس کے بعض احکامات پر عمل کرے گا اور بعض کا عملاًانکار کرے گا تو اس کی سزا اس دنیا میں ذلت و رسوائی ہوگی ، وہ لاکھ اپنی دنیا بنائے یہ اس سے بن نہیں پائے گی ، جبکہ آخرت میں اس کے لیے بدترین عذاب ہوگا ۔اللہ رب العزت کا فرمان ہے: أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ’’تو کیا تم کتاب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک کو نہیں مانتے ؟ ‘‘ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلاَّ خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ’’پھر جو تم میں سے ایسا کرے اس کی یہی سزا ہے کہ دنیا میں ذلیل ہو ‘‘ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ ’’اور قیامت کے دن بھی سخت عذاب میں دھکیلے جاؤ‘‘ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ’’ اور اللہ تعالیٰ غافل نہیں ہے اس سے جو تم کر رہے ہو‘‘۔ (سورۃ البقرۃ: ۸۵)
سبحان اللہ! آیت کا اختتام دیکھیے؛ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ، یہ نہیں سمجھنا کہ قوم کو دھوکہ دیا، علما و اہل دین کو دھوکہ دو گے تو (نعوذ باللہ) اللہ کو بھی دھوکہ دے دوگے،نہیں! فرمایا : ’’جو تم کرتے ہو ، اللہ اس سے غافل نہیں !!‘‘پھر اگلی آیت میں اللہ فرماتے ہیں: ﴿أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالآخِرَةِ فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلا هُمْ يُنْصَرُونَ﴾ ’’ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی زندگی اختیار کرلی ہے آخرت کو چھوڑ کر سو اب نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ ہی ان کی کوئی مدد کی جائے گی ‘‘۔
ابن ماجہ کی ایک حدیث میں آپﷺ مختلف گناہوں کے وبال بیان کرتے ہیں ،فحاشی ، ناپ تول میں کمی ، زکوٰۃ نہ دینے جیسے گناہوں کے رائج ہونے اوردنیا میں ان کے وبال کے بعد فرماتے ہیں: “وَلَمْ يَنْقُضُوا عَهْدَ اللَّهِ وَعَهْدَ رَسُولِهِ إِلَّا سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ، فَأَخَذُوا بَعْضَ مَا فِي أَيْدِيهِمْ. وَمَا لَمْ تَحْكُمْ أَئِمَّتُهُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ وَيَتَخَيَّرُوا مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ، إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ”، ’’ اور جو قوم اللہ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ غیروں کو ان پر مسلط فرما دیتا ہے جو اس قوم سے عداوت رکھتے ہیں، پھر وہ ان کے اموال چھین لیتے ہیں اور جب مسلمان حکمران کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ نظام میں (مرضی کے کچھ احکام) اختیار کرلیتے ہیں (اور باقی چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو خانہ جنگی اور) باہمی اختلافات میں مبتلا فرما دیتے ہیں‘‘۔
یہ حدیث مبارک ہمیں بتاتی ہے کہ آج ہم کیوں آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کے غلام بن گئے اور کیوں ہمارے وسائل یہ یہودی ادارے لوٹتے ہیں ، یہ ہمیں بتاتی ہے کہ آج بطورِ قوم بے مقصدیت و نااتفاقی کاناسور ہمیں کیوں کھارہاہے اور کیوں ہم دشمنوں کے سامنے اس قدر بے بس اور لاچار ہیں؟ یہ ہمیں یہ بھی سمجھاتی ہے کہ نااتفاقی ، انتشار اور کمزور ی وضعف ہی ہماری اس رسوائی کے اسباب نہیں ہیں ، بلکہ یہ وبائیں اور امراض تو بذات ِ خود نتائج ہیں ،جبکہ ان کے حقیقی اسباب اللہ اور رسول ﷺ کے ساتھ غداری اور اس کوعملاً اپنا حاکم تسلیم نہ کرناہے۔ غرض آج کی آپس کی عداوت و اختلاف ہو یا ماضی میں مسلمانان بنگال کو اپنے سے ناراض کرنے اور انہیں بنگلہ دیش بنانے کی طرف دھکیلناہو ، اس سب کا باعث خود اپنے یہ جرائم تھے کہ ہم نے اللہ کو اپنا حاکم و مالک تسلیم نہیں کیا ، اس کے ساتھ اپنے وعدے وفا نہیں کیے اور اس کی شریعت کو اپنے اوپر نافذ نہیں ہونے دیا۔
برصغیر کے میرے عزیز بھائیو!
یاد رکھیے کہ برصغیر میں اہل ایمان کو اللہ رب العزت ایک عظیم مقصد اور خصوصی مہم کے لیے تیار کررہاہے ،اس مقصد کے لیے جس قدر جلدی ہم کھڑے ہوئے ، تباہی اور رسوائی کی طرف گرنے سے اتنا ہی جلدی بچ جائیں گے ، ورنہ دشمن کی طرف سے جو تھپڑ بطورِ قوم رسیدکیا جارہا ہے ، اس آزمائش کا شاید مقصد ہی یہ ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری پہچانیں، فرض نبھائیں اور ’حزب اللہ ‘ اور ’جنداللہ ‘ بن کر اللہ کی نصرت کے لیے کھڑے ہوجائیں۔ہمیں جاننا چاہیے کہ اس خطے میں مسلمانوں کی عزت و عظمت اور ترقی وبقا کا انحصار فقط اور فقط ایک حقیقت پر ہے ، وہ حقیقت یہ کہ ہم اللہ کا محبوب بننے والے راستے پر قدم رکھیں ۔یہ اللہ کا محبوب بننے والا راستہ کیاہے اور اس کی کیاصفات ہیں ؟ اللہ رب العزت نے اس آیت کریمہ میں ان اوصاف حمیدہ کاذکر کیاہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴾ (سورۃ المائدۃ: ۵۴)
’’ اے ایمان والو ! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے سو عنقریب اللہ ایسی قوم کو پیدا فرما دے گا جن سے اللہ کو محبت ہوگی اور وہ اللہ سے محبت کرنے والے ہوں گے ، وہ مسلمانوں پر نرم دل ہوں گے اور کافروں پر زبردست ہوں گے ، وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے یہ اللہ کا فضل ہے وہ دیتا ہے جسے چاہے اور اللہ بڑی وسعت والا بڑے علم والا ہے۔‘‘
گویا برصغیر میں اسلام و اہل اسلام کی بقا ، دفاع اور عزت وعظمت کا انحصار کسی خاص پاک یانا پاک فوج پر نہیں ہے ، بلکہ یہ ایسی اسلامی تحریک کے مرہون منت ہے جس کے افراد (۱)اللہ کے ساتھ محبت کرتے ہوں اور اللہ ان کے ساتھ محبت کرتاہو ،(۲) جو مومنین پر نرم ہوں ،(۳)کفار کے لیے سخت و زبردست ہوں ،(۴) اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہوں اور (۵)جو (ا ن فرائض کی بجا آوری میں )ملامت کرنے والوں کی ملامت سے نہیں ڈرتے ہوں۔ یہ وہ صفات ہیں کہ اگر یہ ہم مسلمانوں نے اپنا لیں تو اللہ ہمیں اسلام اور اہل اسلام کی حفاظت میں شاید استعمال کرلیں ، لیکن ان صفات سے اگر خدانخواستہ ہم محروم رہے تو اللہ ہمیں ہٹاکر دوسروں کولائے گا،اس لیے کہ اُس رب کریم کو اپنے دین کا غلبہ مقصود ہے اور اس کے لیے صرف وہی افراد اور وہی جماعتیں قابل قبول ہیں جن میں ذکرکردہ صفات موجود ہوں۔پھر یاد رکھیے کہ اللہ کے دین کا غلبہ کسی ایسی تحریک کے ذریعے نہیں ہوسکتا ، نہ ہوا ہے اور نہ کبھی ہوگا جو نظام باطل ہی کے اندر اس کی کھینچی گئی لکیروں پر چلنے کی اسیر ہو اور طواغیت کی اطاعت و وفاداری کو جو اپنا ’آئینی ‘ و’دستوری ‘ فریضہ سمجھتی ہو، اسلام غالب کرنے کی حقیقی تحریک کفر وظلم کے مقابل ہمیشہ ’پرامن ‘بھی کبھی نہیں ہوسکتی،بلکہ ایسی تحریک جو پرامن جدوجہد کے نام پر جہادو قتال کو تقویت دینے کی جگہ کمزور کرتی ہو ،غلبۂ اسلام کی جگہ غلبہ ٔ کفر ہی میں معاون ثابت ہوتی ہے ۔پس برصغیر میں اہل ایمان کے دفاع ، انہیں ذلت و پستی سے نکالنے اور اسلام غالب کرنے کی سعادت اللہ سبحانہٗ و تعالی ایسے خوش نصیبوں کو ہی دےگا،جو اللہ کے ساتھ محبت کرتے ہوں ، اپنے اخلاص و اصلاح کے سبب وہ اللہ کو بھی محبوب ہوں ، اور جن کی محبت و نفرت کا پیمانہ نہ ذات ہو اور نہ جماعت ، قبیلہ، قوم ا ور ملک ، بلکہ وہ اللہ ہی کے لیے محبت کرتے ہوں اور اللہ ہی کی خاطر نفرت کرتے ہوں، جو اللہ ہی کی خاطر کسی کی تائید کرتے ہوں اور اللہ ہی کے لیے کسی سے اختلاف کرتے ہوں، اورجو اللہ ہی کے کلمے کی سربلندی کے لیے میدان جہاد و قتال میں بھی کھڑے ہوں ، اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم ضعفاء کو بھی ان خوش نصیبوں میں شامل فرمائے اور ہمارا خون پسینہ اپنے دین کی نصرت میں قبول فرمائے ،آمین۔
اللہ کاشکر ہے کہ برصغیر اللہ کی نصرت کرنے والے ایسے علمائے حق اور مجاہدین سے خالی نہیں ہے ، اندھیری رات کے ان چراغوں اور مشعلوں کو بجھانے اور امت مسلمہ سے ان کا نور دور کرنے کے لیے پاکستان سے بنگلہ دیش اورہندو کشمیر تک بندگان شیطان اپنا زور لگا رہےہیں،اور ایسے میں اہل ایمان کاامتحان ہے کہ کون ان علمائے حق و مجاہدین کا ساتھ دیتے ہیں اور کون ان کے خلاف کھڑے ائمۂ کفر کی جنگ لڑرہاہے۔اللہ رب العزت کا فرمان ہے﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ﴾،اللہ کا یہ فرمان آج ہمیں مخاطب ہے ، اس میں اول حکم تقوی کا ہے، کہ اپنے ہر ارادے اور ہر عمل میں اللہ کو اپنا مقصود بناؤ، اس کی ناراضگی سے بچو! اور اسی میں اللہ کے دین کے انصار بننے کا امر بھی شامل ہے ،مگر ساتھ ہی اس عمل کا طریق بھی بتادیا ہے کہ ’’ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ‘‘، سچوں کا ساتھ دو!مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ نے اس کی پیاری تفسیر کی ہے ،فرماتے ہیں: ’’ یہاں علماء وصلحاء کے بجائے صادقین کالفظ اختیار فرماکر عالم وصالح کی پہچان بھی بتلا دی ہےکہ عالم وصالح صرف وہی شخص ہوسکتاہےجس کا ظاہر و باطن یکساں ہو، نیت وارادے کا بھی سچا ہو ، قول کا بھی سچاہو اور عمل کا بھی سچا ہو‘‘…… پاکستان میں، جبکہ آج ایک دفعہ پھر مجاہدین کے خلاف آپریشن کااعلان ہوا ہے، مسلمانان پاکستان کا ایک دفعہ پھر امتحان ہے کہ وہ اس پیمانے پر تولیں اور پرکھیں کہ مجاہدین اور ان کے خلاف لڑنے والوں میں کون صادق ہیں اور کون کاذب ؟ مسلمانان پاکستان کے خیر خواہ، اسلام کے سپاہی اور اللہ کی بندگی کے دعویٰ میں سچے اور کھرے یہ جرنیل ہیں جو کفارِ عالم کے پٹھو ، اہل ایمان کے قاتل اور پاکستان پر مسلط نظام باطل کے محافظ ہیں یا وہ مجاہدین سچے ہیں جنہوں نے امت مسلمہ پر غیرت اوراللہ کے دین کی سربلندی کے لیے اپنے گھربار اور علاقے بمبار کروائے، ہجرت و جہا د کی راہوں کا انتخاب کیا اورقربانیوں کی ایک لازوال تاریخ ثبت کی ۔ آج بھی ان مجاہدین کا بس یہی جرم ہے کہ یہ اللہ کے ساتھ اپنا کیا ہوا وعدہ نبھاتے ہیں اور مسلمانان پاکستان کو ظلم و ذلت کی اس سیاہ رات سے نجات کا راستہ دکھاتے ہیں،لہٰذا یہ مجاہدین مستحق ہیں کہ ان کے دست وبازوبنا جائے، ان کے ساتھ تعاون کیا جائے،ان کے مواقف کی تائید کی جائے اور ان کے خلاف نظا م باطل اور مجرمین کا دفاع کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے ، یہ کرنا مسلمانان پاکستان کے لیے واجب ہے اور اگر وہ ایسا کریں گے تو یہ ان شاء اللہ جھوٹوں کے مقابل سچوں اور امریکی غلاموں کے مقابل اسلام کے شیداؤں کا ساتھ ہوگا۔
آخر میں اللہ سے دعا کرتاہوں کہ اللہ ہمیں اُن کی محبت دے جو اللہ کے ساتھ محبت کرتے ہوں اور اس کے دین کی نصرت کرتےہوں اور اُن کی نفرت ہمارے دلوں میں بٹھادے جو اللہ کے دین و شریعت کے ساتھ عداوت کرتے ہوں ۔ اللہ مجاہدین امت کی مدد ونصرت فرمائے ،انہیں ہرظاہری و باطنی شر سے محفوظ فرمائے، مسلمان عوام کی ہدایت و نصرت کا انہیں ذریعہ ثابت کرے اور اللہ ان کے واسطے امت مظلومہ کو امن ، عزت اور سکون سے نوازے، آمین یا رب العالمین !
وصلی اللہ تعالی ٰعلی خیر خلقہ محمد وآلہ وصحبہ أجمعین
(۲۷رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ بمطابق ۱۸ اپریل ۲۰۲۳ء)
٭٭٭٭٭