بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ أکبر، اللہ أکبر، لا إلہ إلا اللہ واللہ أکبر، اللہ أکبر، وللہ الحمد، اللہ أکبر کبیرا والحمد للہ کثیرا وسبحان اللہ بکرۃ وأصیلا، وبعد!
ہم تمام اہلِ ایمان بالخصوص مسلمانانِ برِّصغیر کو ۱۴۴۴ ھ کی چھوٹی عید کی مبارک باد پیش کرتے ہیں، تقبل اللہ منّا ومنکم صالح الأعمال! کل عام وأنتم بخیر!
ہم اللہ ﷻکے حضور دعا گو ہیں کہ وہ تمام اہلِ ایمان کے صیام وقیام اور اعمالِ صالحہ کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائیں اور جنت کے استحقاق، جہنم سے نجات ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں ان کے طریق پر چلنے کی صورت اور آخرت میں آپ کی ہمسائیگی کی صورت معیت عطا فرمائیں اور اپنی رضا ورضوان کا پروانہ عطا فرمائیں، آمین یا ربّ العالمین!
عید اہلِ ایمان کے لیے خوشی کا تہوار ہے۔ اللہ پر ایمان رکھنے والی،نیکی کا حکم کرنے والی اور برائیوں سے روکنے والی ، لوگوں کی طرف بھیجی گئی بہترین امت کا عالمی تہوار، جس دن سبھی اہلِ ایمان رنگ و نسل اور قوم و وطن کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے، فقط اللہ وحدہٗ لا شریک کی شریعت کی عطا کردہ خوشی، عالمی سطح پر مناتے ہیں۔ ہم بھی اپنی امت کی خوشیوں میں پوری طرح سے شریک ہیں بلکہ امت کی خوشی ہماری خوشی اور امت کا غم ہمارا غم ہے۔ الحمد للہ یہ دوسری چھوٹی عید ہے جو ایک ایسے زمانے میں ہم اہلِ ایمان پر آئی ہے، جب ایک صدی کے بعد امتِ مسلمہ کے ایک ملک میں شریعتِ محمدی علی صاحبہا ألف صلاۃ وسلام نافذ ہے، حدود اللہ جاری ہیں، اقامتِ صلاۃ و زکاۃ کا نظام ہے اور حجابِ شرعی اصلاً و اصولاً نافذ ہے، والحمد للہ ربّ العالمین!
مگر، عید تو آئی ہے لیکن…… امتِ مسلمہ کے لاکھوں گھروں میں چراغاں نہیں اندھیرا ہے، ستاون (۵۷) میں سے چھپن (۵۶) ’اسلامی‘ ممالک میں شریعتِ مطہرہ و منورہ کے بجائے انسانی ساختہ جمہوری قوانین یا قوم پرست بادشاہتوں کی تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ اس عید سے پہلے کا رمضان ہم پر یوں گزرا کہ قبلۂ اول، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقامِ اسریٰ و معراج، مسجدِ اقصیٰ پر یہودِ نا مسعود نے حملہ کیا، نمازی زخمی کیے گئے اور باحجاب بہنوں کے سفید حجاب لہو سے سرخ ہوئے۔ کشمیر میں آنچلوں پر سنگینوں کے وار ویسے ہی ہوتے رہے اور کتنی کشمیری خواتین اپنے شوہروں، بیٹوں، بھائیوں اور باپوں کی گمشدگی اور قتل پر نوحہ کناں رہیں۔ اسی گزرے رمضان میں مشرقی ترکستان (سنکیانگ) میں ایغور مسلمان زبردستی خنزیر و شراب کھلائے پلائے جاتے رہے، مسلمان بیٹیوں کو ملحد چینیوں کی محافلِ رقص و سرود میں نچوایا جاتا رہا، مسلمانوں کی بیٹیاں چینی لادینوں کے نکاح میں بزور داخل کی جاتی رہیں اور ایغور مسلمان بہنوں کے سروں پر چینی ملحد پیشاب کرتے رہے، فإنّا للہ وإنّا إلیہ راجعون! ہندوستان کی حالت بھی کچھ جدا نہ تھی، ’جے شری رام‘ کے نعروں میں بہار میں کتاب اللہ کے نسخے اور مدارس جلائے گئے ، اتر پردیش میں مسلمان لائیو ٹی وی کیمروں کے سامنے سر پر بندوق رکھ کر شہید کیے گئے، راجستھان کی مساجد پر زعفرانی جھنڈے لہرائے گئے۔ صومالیہ میں اللہ کی شریعت کو نافذ کرنے والے شبابِ اسلام پر منظم صلیبی حملہ شروع کیا گیا اور یمن تا وزیرستان و قبائل امریکی و امریکی اتحادیوں کے ڈرون طیارے بمباریاں کرتے رہے۔
یہ عید کا پُر مسرت موقع ہے، لیکن یہ خوشیوں کا موسم غموں کی آندھیوں میں آیا ہے۔ ہم اس عید پر خوش ہیں، لیکن پُر نم آنکھوں کے ساتھ کہ کعبۃ اللہ فحاشی و برہنگی کے گھیرے میں ہے اور صلیبی ہمارے قبلے سے چند کلومیٹر دور عسکری اڈے جمائے ہوئے ہیں۔مدینۃ النبی (علی صاحبہا ألف صلاۃ وسلام) میں ہی نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں یہودی دندناتے پھر رہے ہیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی بیٹیاں جزیرۃ العرب میں نیلام ہو رہی ہیں اور آلِ ہاشم کے نوجوان دینُ اللہ پر عمل کی پاداش میں سعودی طاغوت کی جیلوں میں ہیں۔ طاغوت ابنِ سلمان وقت کا ابرہہ بنتے ہوئے ریاض میں تہذیبِ جدید کا کعبہ ’مکعب‘ تعمیر کر رہا ہے۔ پاکستانی وردی و بے وردی حکمران امریکہ کے سامنے سربسجود ہیں اور اللہ کی حاکمیت میں امریکہ کو شریک کیے ہوئے بلکہ امریکہ ہی کو اپنے عمل و فعل سے ’الٰہ‘ مانتے ہیں، اسی امریکہ اور اس کے دم چھلے اداروں سے قرض لیتے ہیں، پھر سود دیتے ہیں، قرض نہیں چکتے تو پوری معیشت رہن رکھوا دیتے ہیں اور اللہ کی پھٹکار کے مستحق بن کر پورے ملک کے اقتصاد کو زیر و زبر کرتے ہیں اور سودی نظام کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلانِ جنگ کیے ہوئے ہیں۔نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرتے مجاہدین و داعیان کے خلاف آپریشن آل آؤٹ کا اعلان ہے۔ کل تک ’آپریشن آل آؤٹ‘ انڈین فوج کشمیر میں کرتی تھی، آج مجاہدین کے خلاف ملک بھر میں سبھی مسلح ادارے اور خفیہ ایجنسیاں ایک اکائی کی مانند آپریشن کریں گے۔ بنگلہ دیش کے لادین حکمران ہندو بنیے کی غلامی کرتے ہوئے حاجی شریعت اللہؒ اور سیّد تیتو میرؒ کی سرزمینِ بنگال کو عملاً ایک غلام بھارتی ریاست بنائے ہوئے ہیں اور بنگلہ دیش میں مودی کے وائس رائے کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ ڈھاکہ و چٹاگانگ کے مجاہدین، غازیانِ ناموسِ رسالت، حفاظتِ ناموسِ رسالت پناہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ’جرم‘ میں زندانوں میں قید و اذیت کی صعوبتیں کاٹ رہے ہیں۔
بے شک عید مسرتوں کا تہوار ہے جو غموں کی خزاں میں آئی ہے، لیکن انہی مسرتوں کو ہم خوشیوں کی بہار میں بدل سکتے ہیں اگر ہم آج یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم امت کے ہر گھر میں شریعتِ مطہرہ و منورہ کے چراغ روشن کریں گے۔ اپنی ذاتی زندگی میں سونے اور کھانے پینے میں شریعت کے اوامر کی پابندی کریں گے۔ نکاح و طلاق، تجارت و زراعت شریعت کے بتائے احکام کے مطابق کریں گے۔ ایوانِ حکومت و عدالت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو نافذ کریں گے۔ مظلوم چاہے سری نگر و کاشغر میں ہو یا ادلب و گوانتانامو میں، اس کی مدد کریں گے اور ہر ظالم کا ہاتھ روکیں گے وہ وائٹ ہاؤس میں ہو، نئی دِلی کے وزیرِ اعظم ہاؤس میں یا راولپنڈی کے جی ایچ کیو میں ۔ ٹیکساس تا تہاڑ و اڈیالہ ہر مسلمان قیدی بہن بھائی کو رہائی دلائیں گے۔ اقامتِ دین و اقامتِ خلافۃ علی منہاج النبوۃ کی مبارک محنت کریں گے۔ پھر ان محنتوں اور کوششوں کے لیے جو قربانی دینا پڑی، دیں گے۔ اولادوں کے سینوں پر بم باندھ کر ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کریں گے کہ ہمیں اپنی اولاد سے زیادہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات محبوب ہے! ہم دامے، درمے، قدمے، سخنے دعوت و جہاد کے محاذ برپا کریں گے، محراب و منبر بھی آباد کریں گے اور میدان و سنگر بھی۔ محافلِ ذکر بھی سجائیں گے اور بدر و یرموک کے قصے بھی تازہ کریں گے۔
یقین جانیے کہ اگر ہم نے یہ سب کر لیا اور اگر ہمارے پاس کچھ نہ ہوا اور ہم نے فقط عزم و ارادہ ہی کر لیا اور راہِ خدا کے راہیوں کے لیے سچے دل سے دعا ہی مانگ لی تو ہماری عیدیں اس کے بعد غم ناک نہ ہوں گی، اندھیرے چھٹ جائیں گے، مسرتیں دلوں کی اتھاہ گہرائیوں تک اتریں گی اور بہاروں کی وہی چودہ صدیوں پرانی مسکراہٹیں لوٹ آئیں گی۔ تب ہم سچے دل کے ساتھ، سچی زبان سے عید پر کبریائی خدائے واحد بیان کر سکیں گے:
اللہ أکبر، اللہ أکبر، لا إلہ إلا اللہ واللہ أکبر، اللہ أکبر، وللہ الحمد!
اللهم أبرم لهذه الأمة أمر رشد يعز فيه أهل طاعتك ويذل فيه أهل معصيتك، ويؤمر فيه بالمعروف
وينهى فيه عن المنكر. اللهم أعز الإسلام والمسلمين وانصر المجاهدين، آمین یا ربّ العالمین.
وصلی اللہ تعالیٰ علی نبینا وحبیبنا محمد وعلی آلہ وصحبہ وأمتہ أجمعین.
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین.
٭٭٭٭٭