یہ تحریر تنظیم قاعدۃ الجہاد في جزیرۃ العرب سے وابستہ یمن کے ایک مجاہدلکھاری ابو البراء الاِبی کی تالیف ’تبصرة الساجد في أسباب انتكاسۃ المجاهد‘ کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے ایسے افراد کو دیکھا جو کل تو مجاہدین کی صفوں میں کھڑے تھے، لیکن آج ان صفوں میں نظر نہیں آتے۔ جب انہیں تلاش کیا تو دیکھا کہ وہ دنیا کے دیگر دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟یہ تحریر ان سوالوں کا جواب ہے ۔(ادارہ)
اٹھارہویں وجہ: مجاہد نوجوان کا خو داپنے آپ کی تربیت کرنے سے لا پرواہی
نہ قرآن کی تلاوت کرے۔ نہ نماز اپنے وقت پر ادا کرے۔ نہ نوافل کا اہتمام کرے۔ چاہے تہجد ہو یا نفلی روزہ۔ اپنے آپ سے لا پرواہ ہے حالانکہ وہ مجاہد جوانوں کے ساتھ منسلک ہے۔ صرف اپنے ظاہر کو ان کی طرح بنایا ہے۔ اسے ’کھوکھلی دینداری‘ کہہ سکتے ہیں۔
کھوکھلی دینداری کے معنی ہیں کہ:
کہ ظاہرا تم انسان کو دیکھو تو تمہیں دیندار نظر آئے۔ لیکن عبادتوں میں کوتاہی کرتا ہے۔ چاہے جس قسم کی بھی ہو۔
چاہے فرض عبادت چھوڑے یا سستی اور کاہلی سے ادا کرے۔ یا عبادت میں لذت محسوس نہ ہو۔ یا نوافل نہ ادا کرے۔ یا ان میں سے بہت چھوڑ دے۔
بلکہ بعض تو فرض نماز وقت گزر جانے کے بعد قضا ادا کرتے ہیں۔ میں ایسے افراد کو جانتا ہوں جن کی یہ عادت تھی۔ میں نے سنا ہے کہ قید خانہ میں داعش سے منسوب ایسا شخص بھی ہے جو ظہر، عصر اور مغرب اکٹھی پڑھتا تھا اور وہ بھی مغرب کے بعد،ولا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ اور ایک ایسا ہے جسے فجر کی نماز کے لیے اٹھایا جاتا ہے تو کہتا ہے میں تاخیر سے پڑھوں گا۔
اس بیماری کی بعض علامات:
نیند کی وجہ سے فرض نماز چھوڑ دینا۔ خصوصاً فجر اور عصر۔
نماز میں خشوع و خضوع کا فقدان۔
نماز کے لیے جلدی تیاری نہ کرنا۔
نماز کے بعد سنتوں کو ادا نہ کرنا۔ اور نفلی روزے اور نمازوں میں کوتاہی۔
قرآن کی تلاوت نہ کرنا۔ اور اسے حفظ نہ کرنا۔
صبح و شام کے اور دیگر مسنون اذکار نہ کرنا۔
برے اخلاق اور برا تعامل۔
نصیحت کو قبول نہ کرنا۔
لا پرواہی کو پسند کرنا اور کسی چیز میں منضبط نہ ہونا۔
وقت کا بے فائدہ کاموں میں ضیاع۔
زیادہ ہنسنا۔
کھیل کود اور تفریح میں مشغول رہنا۔
علم حاصل کرنے میں عدم سنجیدگی۔
اللہ سبحانہ وتعالی کے علاوہ تعلق رکھنا۔
خوشنمائی کا حد سے زیادہ خیال رکھنا۔
برائیوں سے نہ روکنا۔
وعدہ خلافی۔
جاہلیت کی اثرات سے اپنے آپ کو پاک نہ کرنا۔
فتوی میں تقوی نہ اختیار کرنا اور شبہات کو اختیار کرنا۔
صلۂ رحمی نہ کرنا۔
اہل خانہ اور اولاد کی تربیت میں کوتاہی۔
رات کو دیر تک جاگے رہنا۔
لڑائی جھگڑے میں دلچسپی اور چاپلوسی کی کثرت۔ یہ علم کے بھول جانے، دل کی سختی اور وقت کے ضیاع کا سبب ہے۔
اپنے نفس کی تربیت کی بہترین جگہ میدان جہاد ہے۔ اللہ سید قطب پر رحم فرمائے کہ انہوں نے فرمایا: ”یہ قرآن اپنے اسرار صرف ان لوگوں پر منکشف کرتا ہے جو اس کے ذریعے جنگوں میں کودتے ہیں۔ اور جو اس ماحول میں زندگی بسر کرتے ہیں جس ماحول میں یہ پہلی دفعہ نازل ہوا“۔
اس لیے علمائے سلف اور معاصرین میں سے اہل نظر وفکر نے اس مسئلہ کی طرف توجہ دی۔ دیکھیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
”جس کے گناہ بہت زیادہ ہوں تو اس کے لیے سب سے بہترین دوا جہاد ہے۔“
شیخ محمد امین مصری فرماتے ہیں: ”جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جہاد کیسے ممکن ہے جبکہ مسلمان تتر بتر ہیں۔ جاہل ہیں۔ اپنے دین کے روح سے دور ہیں۔ تو ان کا جواب یہ ہے کہ: اس سب کا علاج یہ ہے کہ جہاد کے میدان میں داخل ہوا جائے “۔ یہاں تک کہ انہوں نے فرمایا : ”تربیت کا بہترین میدان جہاد کا میدان ہے “۔ اور فرماتے ہیں: ”تزکیۂ نفس اور عمل میں اخلاص کی تربیت اسلامی جماعت اور جہاد کے میدانوں میں ہونی چاہیے۔ اولین مسلمانوں کی تربیت اسی طرح ہوئی تھی “۔ اور فرماتے ہیں: ”اہم نقطہ جو ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کسی بھی جماعت کی اور اس کے افراد کے نفوس کی تربیت پر عملی جہاد کا کیا اثر ہوتا ہے……جو امت مشکلات کا سامان کرتی ہے اور تکالیف جھیلتی ہے اور اس کے فرزند مسلسل جد و جہد اور لگاتار جہاد میں رہتے ہیں۔ وہ ایسی امت ہے جسے زندہ رہنے کاحق ہے اور وہ ہے جس کےلیے بقا اور کامیابی لکھی جاتی ہے“۔ اور فرماتے ہیں: ”اولین مسلمانوں کے وقت میں عملی جہاد کے ساتھ ساتھ روحانی جہاد بھی ہوتا تھا۔ ایک لمحے کے لیے بھی یہ دونوں آپس میں جدا نہیں ہوئے۔ عملی جہاد مسلمانوں کی تربیت ، ان کے دلوں میں اونچی سوچ اور بہترین اخلاق راسخ کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ تھا“1۔
شیخ ابو مصعب سوری ، اللہ انہیں رہائی عطا کرے اگر وہ قید میں ہوں اور شہداء میں قبول فرمائے اگر قتل کر دیے گئے ہوں، فرماتے ہیں:
”ایسے سخت جان افراد کی تربیت نا گزیر ہے جن کو کوئی بھی لالچ نہ پھسلا سکے۔ جو نہ اپنوں اور نہ غیروں کے ہاتھوں خریدے اور فروخت کیے جا سکیں۔ ایسے ہیروں کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے جو جاہلی معاشرے کے تیزاب میں حل نہ ہو سکیں۔ ان معاشروں کے خراب حالات میں خود بھی پگھل نہ جائیں۔ ایسے سخت جان جو معاشرے اور دعوت کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا سکیں۔ ہمیں ایسی مضبوط شاخیں درکار ہیں جو معاشرے کی ہواؤں کے ساتھ نہ مڑ جاتی ہوں۔ اور معاشرے کی خواہشات کے ساتھ نہ بہہ جاتی ہوں۔
اسلامی لشکر کا فتح عراق اور فتح فارس کے دور میں دریائے دجلہ پر سے اس وقت گزرنا جب کہ اس میں طغیانی آئی ہوئی تھی ہمیشہ مؤرخین کے لیے حیران کن رہا اور انہیں اس کی توجیہ سمجھ نہ آئی۔ پورے لشکر کا دجلہ کو ایسے پار کر جانا کہ اس میں سے کوئی شخص نہ کم ہو۔ لیکن اس سے زیادہ شاندار اور حیران کن بات یہ ہے کہ اس لشکر نے دریائے دجلہ سے کجا بڑے سمندر ،روم اور فارس کی تہذیبوں کے سمندروں کو بھی پار کیا لیکن نہ اس کے اخلاق میں کمی آئی اور نہ دین میں کوئی کمی آئی۔
جب اللہ تعالیٰ نے کسریٰ کو ذلیل کیا اور اس کا تخت اس سے چھین لیاتو اس کی جگہ حضرت سلمان فارسی کو اقتدار ملا۔ کسریٰ تو رویا کرتا تھا کہ میرے پاس تو صرف ہزار باورچی رہ گئے ہیں۔ اتنے کم کے ساتھ میں کیسے جی سکتا ہوں؟ جبکہ حضرت سلمان، فارس کے مسلمان امیر ایک دن میں ایک ہی درہم خرچ کر پاتے تھے۔“
٭٭٭٭٭
1 ادارۃ التوحش۔