أَلَيْسَ مِنَّا رَجُلٌ رَّشِيدٌ؟!
اسلام وہ واحد دین، واحد طرزِ حیات، واحد ’لائف سٹائل‘، واحد طرزِ حکومت و معاشرت، واحد نظامِ قانون و شریعت، واحد نظامِ عسکریت و عدالت اور وہ واحد طرزِ معیشت ہے جو اللّٰہ ﷻ کے یہاں مقبول ہے۔ اسلام ’صراطِ مستقیم‘ ہے اور اس کے سوا سبھی راستے ’مغضوبین‘ و ’ضالّین‘ کے زمرے کے ہیں۔ اسلام کے یہاں ’لائف‘، پرائیویٹ ہو یا پبلک، ہر جگہ قانون ِ حیات کا محمد رسول اللّٰہ (علیہ ألف صلاۃ وسلام)کی شریعت کا پابند ہونا لازمی ہے!جو یہ عقیدہ رکھے کہ یہ میری پبلک لائف ہے، یہاں پبلک انٹرسٹ پر مبنی ’جمہوری‘ نظام ہونا چاہیے، صرف عورتیں ’میرا جسم میری مرضی‘ کہہ کر عقل و جسم کو برہنہ کر کے نہ نکلیں بلکہ دراصل ان سے پہلے مرد ’میرا جسم میری مرضی‘ کہتے ہوئے اپنے بینکوں کے ’انٹرسٹ‘ کو حلال جانیں، حدود اللّٰہ سے کھلواڑ کریں، زنا بالرضاء (آج کی اصطلاح میں consent کے ساتھ بدکاری) کو ’اسلامی دستور‘ کے تحت قائم پارلیمان میں جائز قرار دیں، اور دوسری طرف یہ میری پرائیویٹ لائف ہے، یہاں روزے، نمازیں، زکاۃ و تہجد اور حجاب ہوں(گویا یہاں بھی میرا جسم میری مرضی) تو اس شخص کا تعلق ابلیسی ’سیکولر ازم‘ سے ہو سکتا ہے، اسلام سے نہیں! کہنے کو سیکولر ازم تہذیبِ جدید کا ’نیا دین‘ ہے، لیکن قرآنِ عظیم الشان ہمیں بتاتا ہے کہ یہ سیکولر ازم بھی پچھلی قوموں میں پایا جاتا تھا، وہ پچھلی قومیں جو اللّٰہ اور اس کے رسولوں ()کی کافر تھیں اور دنیا و آخرت میں عذابِ الیم ان کا مقدر بنا۔ وہ قومیں بھی کہتی تھیں کہ ’پرائیویٹ‘ لائف میں نمازیں پڑھو، دین تو ’پرسنل‘ معاملہ ہے لیکن اس نماز کا ہماری پبلک لائف، اجتماعی زندگی اور اس کے نظام سے کیا تعلق؟ جو روایتیں، پنچایتیں، جرگے، عرف حتیٰ کہ اظہارِ عبدیت کے طریقے اور الولاء والبراء (جو برادری و قوم کی بنیاد پر ہو، لسانی ہو یا وطنی )ہمارے اجداد چھوڑ گئے ہیں، ان سب کا نمازوں سے کیا تعلق؟ نمازوں کا بینک کے سود و ربا اور لِیز و اجارے سے کیا تعلق، جہاں چاہیں، جیسے چاہیں انوسٹمنٹ کریں! ’اسلامی دستور‘ کے تحت ’اسلامی ریاست‘ کا سربراہ یعنی صدرِ مملکت جو قاریِ قرآن تھا کہتا ہے کہ ’چونکہ مجبوری ہے…… تو میں علمائے کرام سے کہوں گا کہ وہ سُود کے مسئلے میں کوئی گنجائش نکالیں‘1۔اسی ریاست کا ایک اور سربراہ جو افواج کا سالار بھی تھا حرمِ کعبہ میں نمازیں پڑھتا ہے، عمرے کرتا ہے، کعبۃ اللّٰہ کے اندر داخل ہو کر نوافل ادا کرتا ہے، پھر کعبے کی چھت پر چڑھ کر ’اللّٰہ اکبر‘ کا نعرہ لگاتا ہے اور اس نعرے لگانے کو اپنے کئی انٹرویوز میں فخریہ بیان بھی کرتا ہے، جب اس کے سامنے ’ریاست‘ کے معاملات پیش ہوتے ہیں تو یہ بھی فعل وعمل سے کہتا ہے کہ بیت اللّٰہ کے اندر پڑھی نفل نمازوں کا ریاست سے کیا تعلق؟ پھر ’اسلامی ریاست‘ کو ’اسلامی امارت‘ کے خلاف جنگ میں اتار دیتا ہے، امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی، نان نیٹو اتحادی اور ساڑھے چھ سو مہاجر مجاہدوں کو بیچ کر گوانتانامو بھجواتا ہے اور پھر ملک میں ’Enlightened Modernism‘ کی ایک نئی بِنا ڈالتا ہے، نمازوں کا ’میراتھن ریس‘ سے کیا تعلق؟
کچھ ایسا ہی فہم رکھنے والی ایک قوم ڈیڑھ ہزار سال قبل مسیح بھی گزری ہے۔ قرآنِ عظیم الشان اس ’سیکولر‘ قوم کا حال بیان کرتا ہے:
قَالُوْا يٰشُعَيْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ اٰبَاؤُنَآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِيْٓ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰؤُا اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِيْمُ الرَّشِيْدُ (سورة: ہود: ۸۷)
’’وہ بولے اے شعیب (علیہ السلام) کیا یہ تمہاری نماز تمہیں تعلیم دیتی ہے کہ ہم ان چیزوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے بڑے کرتے آئے ہیں یا اس کو چھوڑ دیں کہ ہم اپنے مال کے ساتھ جو چاہیں کریں؟ واقعی تم ہی تو بڑے عقل مند بڑے دین دار ہو۔‘‘(مفسرینِ کرام نے فرمایا ہے کہ یہ جملہ ’ واقعی تم ہی تو بڑے عقل مند بڑے دین دار ہو ‘قومِ شعیبؑ نے طنزاً کہا۔)
شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللّٰہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ گویا شعيب علیہ السلام کی قوم آپ سے کہہ رہی ہو’ بس آپ اپنی نماز پڑھے جائیے، ہمارے مذہبی و دنیاوی معاملات اور ناپ تول کے قصوں میں دخل دینے کی ضرورت نہیں‘۔ امام ابو بکر جصاص رحمۃ اللّٰہ علیہ نماز و امورِ دنیا کو الگ کرنے والے کو مشرک کہتے ہیں اور اسی آیت کی تفسیر میں عنوان درج فرماتے ہیں کہ ’ حقیقی نمازی مشرک نہیں ہوسکتا ‘۔ شہیدِ اسلام سیّد قطب رحمۃ اللّٰہ علیہ اس آیت کے ذیل میں رقم طراز ہیں کہ ’ کوئی شخص اس وقت تک صحیح موحد نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے شخصی معاملات کو اور اپنے اجتماعی معاملات کو اپنے عقیدے کے ساتھ منسلک نہ کرے ، کیونکہ اگر کوئی ایسا نہ کرے تو وہ مشرک ہے اور شرک اور توحید ایک دل میں کس طرح جمع ہو سکتے ہیں؟ یاد رہے کہ شرک کی کئی قسمیں اور کئی رنگ ہیں ایک رنگ اس کا وہ ہے جو آج کل رائج ہے اور ہم اس کے اندر زندگی بسر کر رہے ہیں اور اصل اور حقیقی شرک کی طرح اس پر بھی تمام مشرکین کا اتفاق ہے ، جدید ہوں کہ قدیم۔ جس دور میں ہوں اور جس مقام پر ہوں‘۔
وہ نظامِ باطل جو آج سے ستّر اسّی برس قبل ہماری گردنوں پر مسلط کیا گیا، وہ نظام اور اس نظام کو نافذ کرنے والے وردی و بے وردی حکمران جنہوں نے شریعت کی جگہ کبھی پارلیمانی جمہوریت لائی، کبھی صدارتی جمہوریت، کبھی مارشل لاء، کبھی شوراکریسی اور کبھی آمریت، جنہوں نے اللّٰہ اور اس کے رسول (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) کے اعلانِ جنگ کو ہلکا جانا اور سودی معیشت نافذ کی، کبھی امریکہ کو سجدے کیے تو کبھی چین کے سامنے حالتِ رکوع میں نظر آئے، جنہوں نے لسانی بنیادوں پر ’لاالٰہ الا اللّٰہ‘ کی بنیاد پر بننے والے ملک کو دو لخت کیا، کشمیر کو بیچا، لال مسجد کو فاسفورس سے جلایا، لاکھوں کو جبراً گمشدہ کیا، نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرتے قبائل و مجاہدین و داعیانِ اسلام کے خلاف آپریشن میزان تا آپریشن رد الفساد کیے اور تحریکِ طالبان پاکستان کے مجاہدین کے خلاف آج آپریشن آل آؤٹ کا اعلان کیے ہوئے ہیں، حدود اللّٰہ سے کھلواڑ کرتے ہوئے ’زنا بِل‘ پاس کیے ، یہی طواغیت آج اس ضلالت تک آ پہنچے ہیں کہ LGBTQ+ کی حمایت کر رہے ہیں۔قومی ٹیلی وژنوں پر ایسے ڈرامے نشر کیے جا رہے ہیں جن میں ایک باپ اپنے ’بیٹے‘ کو ’میرا جسم میری مرضی‘کی تسلی، دلاسہ اور تحریض و جرأت دلا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے اے آر وائی ڈیجیٹل پر نشر ہونے والے ایک ڈرامے کے یہ مکالمے ملاحظہ ہوں:
’’بیٹا آپ کو پتہ ہے میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ بہت سپیشل ہو…… آپ کو پتہ ہے کہ یہ بات میں آپ سے کیوں کہتا ہوں؟…… اس لیے بیٹا! کہ جیسے جیسے آپ بڑے ہوں گے ، آپ کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوتا جائے گا…… کبھی تو آپ کا دل چاہے گا کہ آپ بابا کی طرح کپڑے پہنو، باتیں کرو، مرد بن کے رہو، اور بابا کی طرح آفس جاؤ ، بہت سارے پیسے کماؤ۔ اور شاید کبھی یہ بھی ہو گا کہ آپ کا دل چاہے گا کہ آپ امّی کی طرح کلر فُل (colourful) کپڑے پہنو، بہت سارا میک اپ لگاؤ…… یہ دونوں باتیں بالکل بری نہیں ہیں بیٹا! آپ جیسے بھی رہنا چاہو گے، آپ میرے بیٹے رہو گے اور بابا آپ سے ہمیشہ پیار کرتے رہیں گے بیٹا! یہ فیصلہ بیٹا آپ نے بڑے ہونے کے بعد کرنا ہے کہ آپ نے کیسے رہنا ہے؟! ابھی تو صرف آپ نے پڑھنا ہے……‘‘
کہیں ’میریٹل ریپ‘ کے محور پر ڈرامے بن رہے ہیں تو کہیں ’صراطِ مستقیم‘ کے عنوان سے ڈرامے میں ’مستقیم‘ نامی لڑکا، گھروں سے لڑکیاں بھگا رہا ہے۔ عورت مارچوں کے بعد مورت مارچ ہو رہے ہیں۔ کبھی ’زندگی تماشا‘ لگتا ہے تو کہیں ملالہ یوسفزئی ’جوائے لینڈ‘ کی ایگزیکٹو پروڈیوسر بنتی ہے اور یہ فلم عالمی فحاشی و بدکاری کے نصف درجن ایوارڈ جیتتی ہے!فإنّا للہ وإنّا إلیہ راجعون!!!
پھر حد تو یہ ہے کہ امریکی صدر بائیڈن ایسے پاکستانی انگریزی زبان کے ٹیچروں کے لیے پانچ لاکھ ڈالر کی امداد کی پیشکش کرتا ہے جو پاکستان میں ’ٹرانس جینڈر‘ نوجوانوں پر اپنی محنتیں مرکوز کرتے ہیں۔ فاکس نیوز کی خبر کے مطابق یہ گرانٹ حاصل کرنے کے اہل تیرہ سے پچیس سال کے نوجوانوں پر محنت کرنے والے ادارے؍افراد ہوں گے۔
اللّٰہ ﷻ کی شریعت سے یہ بغاوت، چھپ چھپا کر نہیں، روزِ روشن میں، دن دہاڑے سینہ زوری کے ساتھ ہو رہی ہے۔
کیا ہم پاکستان کے اہلِ دین کے پاس کفر و الحاد اور فحاشی و عریانی کی اس بدترین قسم کو روکنے کے لیے کوئی منصوبہ ہے؟ مظاہروں، جلسوں، جلوسوں، پارلیمان کی قراردادوں اور دھرنوں سے یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ اگر یہ مسئلہ انہی ’جمہوری‘ دائروں میں حل ہو سکتا تو اللّٰہ کی شریعت کے خلاف کیے گئے پچھلے پچھتر سالوں کے درجنوں نہیں سیکڑوں اقدامات کا راستہ روکا جا چکا ہوتا۔ اگر ان سبھی مسائل کا کوئی حل ہے تو بس وہی جو حضرتِ سیّدنا لوط علیہ وعلیٰ نبینا ألف صلاۃ وسلام نے اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا: أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ (سورۃ ہود: ۷۸) کہ ’کیا تم میں کوئی ایک بھی بھلا آدمی نہیں ہے ؟‘۔ آیتِ مبارکہ کے اس ٹکڑے ﯚأَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ ﯙ کی تفسیر میں تفسیرِ جلالین میں درج ہے کہ رجلِ رشید یا بھلے آدمی سے مراد ایسا افرد ہے جو ’يأمر بالمعروف وينهى عن المنكر‘، امر بالمعروف یعنی نیکی کا حکم کرے اور نہی عن المنکر یعنی برائی کو روکے! پس اگر یہ برائیاں روکی جا سکتی ہیں تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے کہ قومیں اگر عذابِ الٰہی سے محفوظ رہتی ہیں تو فریضۂ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ادائیگی سے، ورنہ قوموں کو دنیوی و اخروی تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا! اللّٰہ ﷻ نے فرمایا:
وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ(سورۃ الانفال:۲۵)
’’اور اس فتنے سے ڈرو جو خصوصیت کے ساتھ انہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں گناہ گار ہیں اور جان رکھو کہ اللّٰہ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘
اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوَا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْ قَالَ: الْمُنْكَرَ فَلَمْ يُغَيِّرُوهُ عَمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابِهِ.‘‘ (رواه ابنُ ماجة)
’’لوگ جب ظالم كو ظلم کرتا ہوا دیکھیں اور اسے نہ روکیں‘‘ یا فرمایا کہ ’’منکر کو دیکھیں اور اسے نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللّٰہ کی طرف سے ان سب پر عذاب نازل ہوجائے۔‘‘
اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِيمَانِ.‘‘ (رواہ مسلم)
’’تم میں سے جو شخص کسی خلافِ شرع امر کو دیکھے تو اس کو چاہیے کہ اسے اپنے ہاتھوں سے روکے اور اگر وہ اتنی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان کے ذریعے سے روک دے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کو دل سے برا جانے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔‘‘
حضرتِ عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ شارعِ برحق صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مَا مِنْ نَبِيٍّ بَعَثَهُ اللهُ فِي أُمَّةٍ قَبْلِي إِلَّا كَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِيُّونَ، وَأَصْحَابٌ يَأْخُذُونَ بِسُنَّتِهِ، وَيَقْتَدُونَ بِأَمْرِهِ، ثُمَّ إِنَّهَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوفٌ، يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ، وَيَفْعَلُونَ مَا لَا يُؤْمَرُونَ، فَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِيَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَيْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ الْإِيمَانِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ.‘‘ (رواه مسلم)
’’مجھ سے پہلے اللّٰہ نے جتنے نبی بھیجے، ان کی امت میں سے ان کے حواری اور ساتھی ہوتے تھے، جو ان کی سنت پر عمل اور ان کے حکم کی اقتدا کرتے تھے۔ پھر ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ پیدا ہوئے، جو ایسی باتیں کہتے، جن پر عمل نہیں کرتے تھے اور وہ کام کرتے تھے جن کا انہیں حکم نہیں دیا جاتا تھا۔ پس جو شخص ان سے ہاتھ سے جہاد کرے گا، وہ مومن ہے، جو ان سے اپنی زبان سے جہاد کرے گا، وہ مومن ہے اور جو ان سے دل سے جہاد کرے گا، وہ مومن ہے، اس کے علاوہ رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں۔‘‘
پس اس سیکولر نظام اور سیکولر حکمرانوں کے خلاف، چاہے یہ نظام اپنے آپ کو کتنا ہی اسلامی اور اس کے حکمران اپنے آپ کو کتنا ہی دین دار کہیں لیکن اپنے عمل سے سیکولرازم اور فحاشی و عریانی (بشمول LGBTQ+)کے محافظ، پرچارک اور نفاذ کرنے والے ہیں کے خلاف ہاتھ و زبان و دل سے جہاد فرضِ عین ہے اور اس نظام کو گرا کر محمد رسول اللّٰہ علیہ ألف صلاۃ وسلام کی شریعت کا قیام ’علیٰ منہاج النبوۃ‘فرضِ عین ہے! ایسے نظام کے خلاف دعوت دینا، اعداد یعنی اس نظام کو منہدم کرنے اور اس کو منہدم کرنے کے نبوی طریق ’جہاد فی سبیل اللّٰہ‘کی تیاری کرنا اور براہِ راست ہاتھ و زبان و دل سے جہاد کرنا واجب ہے۔ دین و شریعت کا تو یہ تقاضا ہے ہی، اگر ہم اپنی آئندہ نسلوں کو ’خاندانی‘ رکھنا اور بنانا چاہتے ہیں اور ’انسانیت‘ کی فلاح کے متقاضی ہیں تو عقلاً بھی اس نظام کے خلاف دعوت و قوت کے ساتھ اٹھ کھڑا ہونا لازمی ہے!
اللھم وفقنا كما تحب و ترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وأرضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی
اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!
٭٭٭٭٭
1 سابق صدر ممنون حسین کے الفاظ، جو اس نے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن (HBFC)کی ایک تقریب میں ادا کیے۔