نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home تزکیہ و احسان

فضائلِ نماز | چوتھی قسط

شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی by شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی
23 مئی 2023
in تزکیہ و احسان, اپریل و مئی 2023
0

باب دوم: جماعت کے بیان میں

جیسا کہ شروع رسالے میں لکھا جاچکا ہےکہ بہت سے حضرات نماز پڑھتے ہیں لیکن جماعت کا اہتمام نہیں کرتے، حالانکہ نبیٔ اکرم ﷺسے جس طرح نماز کے بارے میں بہت سخت تاکید آئی ہے، اسی طرح جماعت کے بارے میں بھی بہت سی تاکیدیں وارد ہوئی ہیں۔ اس باب میں بھی دو فصلیں ہیں:

  • پہلی فصل: جماعت کے فضائل میں

  • دوسری فصل: جماعت کے چھوڑنے پرعتاب میں

فصل اول: جماعت کے فضائل میں

  1. عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُوْلَ اللہِﷺ قَالَ: صَلَاۃُ الْجَمَاعَۃِ أَفْضَلُ مِنْ صَلَاۃِ الْفَذِّ بِسَبْعِ وَّعِشْرِیْنَ دَرَجَۃً. (رواہ مالك والبخاري ومسلم والترمذي والنسائي،کذا في الترغیب)

حضورِاقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ’’ جماعت کی نماز اکیلے کی نماز سے ستائیس درجہ زیادہ ہوتی ہے‘‘۔

فائدہ: جب آدمی نمازپڑھتا ہے اورثواب ہی کی نیت سے پڑھتا ہے، تومعمولی سی بات ہے کہ گھر میں نہ پڑھے مسجد میں جاکر جماعت سے پڑھ لے، کہ نہ اس میں کچھ مشقت ہے نہ دقت ، اور اتنا بڑا ثواب حاصل ہوتا ہے، کون شخص ایسا ہوگا جس کو ایک روپے کے ستائیس یا اٹھائیس روپے ملتے ہوں اور وہ ان کوچھوڑ دے؟ مگر دین کی چیزوں میں اتنے بڑے نفع سے بھی بےتوجہی کی جاتی ہے، اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہم لوگوں کو دین کی پرواہ نہیں! اس کا نفع ہم لوگوں کی نگاہ میں نفع نہیں، دنیا کی تجارت جس میں ایک آنہ دوآنہ فی روپیہ نفع ملتا ہے، اس کے پیچھے دن بھر خاک چھانتے ہیں، آخرت کی تجارت جس میں ستائیس گنا نفع ہے وہ ہمارے لیے مصیبت ہے، جماعت کی نماز کے لیے جانے میں دکان کا نقصان سمجھا جاتا ہے، بِکری کا بھی نقصان بتایا جاتا ہے، دکان کے بند کرنے کی بھی دقت کہی جاتی ہے، لیکن جن لوگوں کے یہاں اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی عظمت ہے، اللہ کے وعدوں پر ان کواطمینان ہے، اس کے اجروثواب کی کوئی قیمت ہے، ان کے یہاں یہ لَچَر عذر کچھ بھی وقعت نہیں رکھتے، ایسے ہی لوگوں کی اللہ جَلَّ شَانُہٗ نے کلام پاک میں تعریف فرمائی ہے:﴿رِجَالٌ لَّاتُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ﴾ الآیۃ اورصحابۂ کرامؓ کا جو معمول اذان کے بعد اپنی تجارت کے ساتھ تھا وہ ’’حکایات صحابہ‘‘ کے پانچویں باب میں مختصَر طور پرگزرچکا۔

سالم حَدَّادؒ ایک بزرگ تھے، تجارت کرتے تھے، جب اذان کی آوازسنتے تو رنگ متغیر ہوجاتا، اور زرد پڑجاتا، بے قرار ہوجاتے، دکان کھلی چھوڑ کرکھڑے ہوجاتے اور یہ اشعار پڑھتے:

إِذَا مَا دَعَا دَاعِیْکُمْ قُمْتُ مُسْرِعاً

مُجِیْباً لِّمَوْلیٰ جَلَّ لَیْسَ لَہٗ مِثْلٌ

’’جب تمہارا منادی (مؤذن) پکارنے کے واسطے کھڑاہوجاتا ہے تومیں جلدی سے کھڑا ہوجاتا ہوں، ایسے مالک کی پکار کوقبول کرتے ہوئے جس کی بڑی شان ہے، اس کاکوئی مثل نہیں‘‘

أُجِیْبُ إِذَا نَادیٰ بِسَمْعٍ وَّطَاعَۃٍ

وَبِيْ نَشْوَۃٌ لَّبَیْكَ یَا مَنْ لَّہُ الْفَضْلُ!

’’جب وہ منادی (مؤذن)پکارتاہے تومیں بہ حالت نشاط اطاعت وفرماں برداری کے ساتھ جواب میں کہتاہوں کہ: اے فضل وبزرگی والے! لبیك، یعنی حاضر ہوتاہوں‘‘

وَیَصْفِرُ لَوْنِيْ خِیْفَۃً وَّمَهَابَۃً

وَیُرْجِعُ لِيْ عَنْ کُلِّ شُغْلٍ بِہٖ شُغْلٌ

’’اورمیرارنگ خوف اورہیبت سے زرد پڑجاتا ہے، اوراس پاک ذات کی مشغولی مجھے ہر کام سے بے خبرکردیتی ہے‘‘

وَحَقِّکُمْ مَا لُذَّ لِيْ غَیْرُ ذِکْرِکُمْ

وَذِکْرُ سِوَاکُمْ فِيْ فَمِيْ قَطُّ لَایَحْلُوْ

’’تمہارے حق کی قسم! تمہارے ذکرکے سوا مجھے کوئی چیز بھی لذیذ نہیں معلوم ہوتی، اور تمہارے سوا کسی کے ذکر میں بھی مجھے مزہ نہیں آتا‘‘

مَتیٰ یَجْمَعُ الأَیَّامُ بَیْنِيْ وَبَیْنَکُمْ

وَیَفْرَحُ مُشْتَاقٌ إِذَا جَمَعَ الشَّمْلُ

’’دیکھیے زمانہ مجھ کو اور تم کو کب جمع کرے گا!اور مشتاق توجب ہی خوش ہوتا ہے جب اجتماع نصیب ہوتاہے‘‘

فَمَنْ شَاهَدَتْ عَیْنَاہُ نُوْرَ جَمَالِکُمْ

یَمُوْتُ اِشْتِیَاقاً نَحْوَکُمْ قَطُّ لَایَسْلُوْ

(نُزہَۃُ البَساتِین)

’’جس کی آنکھوں نے تمہارے جمال کا نور دیکھ لیا ہے تمہارے اشتیاق میں مرجائے گا، کبھی بھی تسلی نہیں پاسکتا‘‘

حدیث میں آیا ہے کہ ’’جو لوگ کثرت سے مسجد میں جمع رہتے ہوں وہ مسجد کے کھونٹے ہیں، فرشتے ان کے ہم نشیں ہوتے ہیں، اگروہ بیمار ہوجائیں تو فرشتے ان کی عیادت کرتے ہیں، اور وہ کسی کام کوجائیں توفرشتے ان کی اعانت کرتے ہیں‘‘۔(کنز العمال، حدیث: ۲۰۳۵۰)

  1. عَنْ أَبِيْ هُرَیْرَۃَ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: صَلَاۃُ الرَّجُلِ فِيْ جَمَاعَۃٍ تَضْعَفُ عَلیٰ صَلَاتِہٖ فِيْ بَیْتِہٖ وَفِيْ سُوْقِہٖ خَمْساً وَّعِشْرِیْنَ ضِعْفاً، وَذٰلِكَ أَنَّہٗ إِذَا تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوْءَ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَی الْمَسْجِدِ، لَایُخْرِجُہٗ إِلَّاالصَّلَاۃُ لَمْ یَخْطُ خُطْوَۃً إِلَّا رُفِعَتْ لَہٗ بِهَا دَرَجَۃٌ وَحُطَّ عَنْہُ بِهَا خَطِیْئَۃٌ، فَإِذَا صَلیّٰ لَمْ تَزَلِ الْمَلٰئِکَۃُ تُصَلِّي عَلَیْہِ مَادَامَ فِيْ مُصَلَّاہُ مَا لَمْ یُحْدِثْ: ’’اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ، اَللّٰهُمَّ ارْحَمْہٗ‘‘، وَلَایَزَالُ فِيْ صَلَاۃٍ مَاانْتَظَرَ الصَّلَاۃَ. (رواہ البخاري)

’’حضورِاقدس ﷺ کاارشاد ہے کہ آدمی کی وہ نماز،جو جماعت سے پڑھی گئی ہو، اس نماز سے، جو گھر میں پڑھ لی ہو یا بازار میں پڑھ لی ہو، پچیس درجہ اَلمُضَاعَفْ ہوتی ہے، اور بات یہ ہے کہ جب آدمی وضو کرتا ہے اور وضو کو کمال درجے تک پہنچا دیتا ہے، پھرمسجد کی طرف صرف نماز کے ارادے سے چلتا ہے، کوئی اور ارادہ اس کے ساتھ شامل نہیں ہوتا، تو جو قدم بھی رکھتا ہے اس کی وجہ سے ایک نیکی بڑھ جاتی ہے اورایک خطا معاف ہوجاتی ہے، اور پھر جب نماز پڑھ کر اسی جگہ بیٹھا رہتا ہے تو جب تک وہ باوضو بیٹھا رہے گا فرشتے اس کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں، اور جب تک آدمی نماز کے انتظار میں رہتا ہے وہ نماز کا ثواب پاتا رہتا ہے۔‘‘

فائدہ: پہلی حدیث میں ستائیس درجے کی زیادتی بتلائی گئی تھی اور اس حدیث میں پچیس درجے کی، ان دونوں حدیثوں میں جو اختلاف ہوا ہے علماء نے اس کے بہت سے جوابات تحریر فرمائے ہیں جو شروح حدیث میں مذکور ہیں، من جملہ ان کے یہ ہے کہ یہ نمازیوں کے حال کے اختلاف کی وجہ سے ہے کہ بعضوں کو پچیس درجے کی زیادتی ہوتی ہے اور بعضوں کو اخلاص کی وجہ سے ستائیس کی ہوجاتی ہے۔ بعض علماء نے نماز کے اختلاف پر محمول فرمایا ہے کہ سِرِّی نمازوں میں پچیس ہے اور جہری میں ستائیس ہے۔ بعض نے ستائیس عشاء اور صبح کے لیے بتایا ہے کہ ان دونوں نمازوں میں جانا مشکل معلوم ہوتا ہے اورپچیس باقی نمازوں میں۔ بعض شراح نے لکھا ہے کہ اس امت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات کی بارش بڑھتی ہی چلی گئی، جیسا کہ اوربھی بہت سی جگہ اس کا ظہور ہے، اس لیے اول پچیس درجہ تھا، بعد میں ستائیس ہوگیا۔ بعض شراح نے ایک عجیب بات لکھی ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا ثواب پہلی حدیث سے بہت زیادہ ہے، اس لیے کہ اس حدیث میں یہ ارشاد نہیں کہ وہ پچیس درجے کی زیادتی ہے، بلکہ یہ ارشاد ہے کہ پچیس درجہ اَلمُضاعَف ہوتی ہے، جس کاترجمہ دوچند اور دوگناہوتا ہے، یعنی یہ کہ پچیس مرتبہ تک دو گنا اجر ہوتا چلا جاتا ہے، اِس صورت میں جماعت کی ایک نماز کا ثواب تین کروڑ پینتیس لاکھ چون ہزار چار سوبتّیس (۳,۳۵,۵۴,۴۳۲) درجہ ہوا، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کی رحمت سے یہ ثواب کچھ بعید نہیں، اورجب نماز چھوڑنے کا گناہ ایک حَقبہ ہے (جوپہلے باب میں گزرا) تو اس کے پڑھنے کا ثواب یہ ہونا قرین قیاس بھی ہے۔

اس کے بعد حضورﷺ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ یہ تو خود ہی غور کر لینے کی چیز ہے کہ جماعت کی نماز میں کس قدر اجروثواب اور کس کس طرح حسنات کا اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے کہ جو شخص گھر سے وضو کرکے محض نماز کی نیت سے مسجد میں جائے تو اس کے ہر ہر قدم پر ایک نیکی کا اضافہ اور ایک خطا کی معافی ہو تی چلی جاتی ہے۔

بنوسلمہ مدینہ طیبہ میں ایک قبیلہ تھا، ان کے مکانات مسجد سے دور تھے، انہوں نے ارادہ کیا کہ مسجد کے قریب ہی کہیں منتقل ہوجائیں، حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’وہیں رہو، تمہارے مسجد تک آنے کا ہر ہر قدم لکھا جاتا ہے‘‘۔(مسلم، کتاب المساجد، باب فضل الصلاۃ المکتوبۃ فی جماعۃ، حدیث:۶۶۵ )

ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ ’’جو شخص گھر سے وضو کرکے نماز کو جائے، وہ ایسا ہے جیسا کہ گھر سے احرام باندھ کرحج کو جائے‘‘۔

اس کے بعد حضورﷺ ایک اور فضیلت کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ جب نماز پڑھ چکا تو اس کے بعد جب تک مصلیٰ پر رہے فرشتے مغفرت اور رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ فرشتے اللہ کے مقبول اور معصوم بندے ہیں، ان کی دعا کی برکات خود ظاہر ہیں۔

محمدبن سِماعہؒ ایک بزرگ عالم ہیں جو امام ابویوسفؒ،امام محمدؒ کے شاگرد ہیں، ایک سو تین برس کی عمر میں انتقال ہوا، اس وقت دو سو رکعات نفل روزانہ پڑھتے تھے۔ کہتے ہیں کہ مسلسل چالیس برس تک میری ایک مرتبہ کے علاوہ تکبیرِ اُولیٰ فوت نہیں ہوئی، صرف ایک مرتبہ، جس دن میری والدہ کا انتقال ہوا ہے اس کی مشغولی کی وجہ سے تکبیرِ اولیٰ فوت ہوگئی تھی۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری جماعت کی نماز فوت ہوگئی تھی تو میں نے اس وجہ سے کہ جماعت کی نماز کا ثواب پچیس درجہ زیادہ ہے اس نماز کو پچیس دفعہ پڑھا، تاکہ وہ عدد پورا ہوجائے، توخواب میں دیکھا کہ ایک شخص کہتا ہے کہ محمد! پچیس دفعہ نماز تو پڑھ لی، مگر ملائکہ کی آمین کا کیا ہوگا؟(فوائدبہیہ) ملائکہ کی آمین کامطلب یہ ہے کہ بہت سی احادیث میں یہ ارشاد نبوی آیا ہے کہ جب امام سورۂ فاتحہ کے بعد آمین کہتا ہے تو ملائکہ بھی آمین کہتے ہیں، جس شخص کی آمین ملائکہ کی آمین کے ساتھ ہوجاتی ہے اس کے پچھلے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں، (تو خواب میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے)۔ مولاناعبدالحئی صاحبؒ فرماتے ہیں کہ اس قصے میں اس طرف اشارہ ہے کہ جماعت کا ثواب مجموعی طور سے جو حاصل ہوتا ہے وہ اکیلے میں حاصل ہو ہی نہیں سکتا، چاہے ایک ہزار مرتبہ اس نماز کو پڑھ لے، اور یہ ظاہر بات ہے، ایک آمین کی موافقت ہی صرف نہیں، بلکہ مجمع کی شرکت، نماز سے فراغت کے بعد ملائکہ کی دعا، جس کا اس حدیث میں ذکر ہے، ان کے علاوہ اور بہت سی خصوصیات ہیں جو جماعت ہی میں پائی جاتی ہیں۔ ایک ضروری امر یہ بھی قابل لحاظ ہے، علماء نے لکھا ہے کہ فرشتوں کی اس دعا کا مستحق جب ہی ہوگا جب نماز، نماز بھی ہو، اور اگر ایسے ہی پڑھی کہ پرانے کپڑے کی طرح لپیٹ کر منہ پر ماردی گئی، تو پھر فرشتوں کی دعا کا مستحق نہیں ہوتا۔ (بہجۃ)

  1. عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: مَنْ سَرَّہٗ أَنْ یَّلْقیٰ اللہَ غَداً مُّسْلِماً فَلْیُحَافِظْ عَلیٰ هٰؤُلَاءِ الصَّلَوَاتِ حَیْثُ یُنَادیٰ بِهِنَّ، فَإِنَّ اللہَ تَعَالیٰ شَرَعَ لِنَبِیِّکُمْﷺ سُنَنَ الْهُدیٰ وَإِنَّهُنَّ مِنْ سُنَنِ الْهُدیٰ، وَلَوْ أَنَّکُمْ صَلَّیْتُمْ فِيْ بُیُوْتِکُمْ کَمَا یُصَلِّيْ هٰذَا الْمُتَخَلِّفُ فِيْ بَیْتِہٖ لَتَرَکْتُمْ سُنَّۃَ نَبِیِّکُمْ، وَلَوْ تَرَکْتُمْ سُنَّۃَ نَبِیِّکُمْ لَضَلَلْتُمْ، وَمَا مِنْ رَجُلٍ یَتَطَهَّرُ فَیُحْسِنُ الطَّهُوْرَ ثُمَّ یَعْمِدُ إِلَی مَسْجِدٍ مِّنْ هٰذِہِ الْمَسَاجِدِ إِلَّاکَتَبَ اللہُ لَہٗ بِکُلِّ خُطْوَۃٍ یَخْطُوْهَا حَسَنَۃً، وَیَرْفَعُہٗ بِهَا دَرَجَۃً، وَیَحُطُّ عَنْہُ بِهَاسَیِّئَۃً، وَلَقَدْرَأَیْتُنَا وَمَایَتَخَلَّفُ عَنْهَا إِلَّا مُنَافِقٌ مَّعْلُوْمُ النِّفَاقِ، وَلَقَدْ کَانَ الرَّجُلُ یُؤْتِيْ بِهَا یُهَادیٰ بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ حَتیّٰ یُقَامَ فِيْ الصَّفِّ. وَفِيْ رِوَایَۃٍ: لَقَدْ رَأَیْتُنَا وَمَا یَتَخَلَّفُ عَنِ الصَّلَاۃِ إِلَّا مُنَافِقٌ قَدْعُلِمَ نِفَاقُہٗ أَوْ مَرِیْضٌ، إِنْ کَانَ الرَّجُلُ لَیَمْشِيْ بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ حَتیّٰ یَأْتِيْ الصَّلَاۃَ، وَقَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اللہِﷺ عَلَّمَنَا سُنَنَ الْهُدیٰ، وَإِنَّ مِنْ سُنَنِ الْهُدیٰ اَلصَّلَاۃُ فِيْ الْمَسْجِدِ الَّذِيْ یُؤَذَّنُ فِیْہِ. (رواہ مسلم)

’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ چاہے کہ کل قیامت کے دن اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی بارگاہ میں مسلمان بن کر حاضر ہو، وہ ان نمازوں کو ایسی جگہ ادا کرنے کا اہتمام کرے جہاں اذان ہوتی ہے (یعنی مسجد میں)، اس لیے کہ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے تمہارے نبی عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ کے لیے ایسی سنتیں جاری فرمائی ہیں جو سراسر ہدایت ہیں، انہی میں سے یہ جماعت کی نمازیں بھی ہیں، اگر تم لوگ اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگو گے جیسا کہ فلاں شخص پڑھتا ہے، تو تم نبی ﷺ کی سنت کے چھوڑنے والے ہو گے اور یہ سمجھ لو کہ اگر نبیٔ اکرم ﷺ کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔ اور جوشخص اچھی طرح وضو کرے، اس کے بعد مسجد کی طرف جائے تو ہر ہر قدم پر ایک ایک نیکی لکھی جائے گی، اور ایک ایک خطا معاف ہوگی، اور ہم تو اپنا یہ حال دیکھتے تھے کہ جوشخص کھلم کھلا منافق ہو وہ تو جماعت سے رہ جاتا تھا، ورنہ حضورﷺ کے زمانے میں عام منافقوں کی بھی جماعت چھوڑنے کی ہمت نہ ہوتی تھی، یا کوئی سخت بیمار، ورنہ جو شخص دو آدمیوں کے سہارے سے گھسٹتا ہوا جاسکتا تھا وہ بھی صف میں کھڑا کر دیا جاتا تھا‘‘۔

فائدہ: صحابۂ کرامؓ کے یہاں جماعت کا اس قدر اہتمام تھا کہ اگر بیمار بھی کسی طرح جماعت میں جاسکتا تھا تو وہ بھی جاکر شریک ہوجاتا تھا، چاہے دو آدمیوں کو کھینچ کر لے جانے کی نوبت آتی، اور یہ اہتِمام کیوں نہ ہوتا! جب کہ ان کے اور ہمارے آقا نبیٔ اکرمﷺ کو اسی طرح کا اہتمام تھا، چنانچہ حضورِ اقدسﷺ کے مرض الوفات میں یہی صورت پیش آئی کہ مرض کی شدت کی وجہ سے بار بار غشی ہوتی تھی اور کئی کئی دفعہ وضو کا پانی طلب فرماتے تھے، آخر ایک مرتبہ وضو فرمایا اور حضرت عباسؓ اور ایک دوسرے صحابی کے سہارے سے مسجد میں تشریف لے گئے کہ زمین پر پاؤں مبارک اچھی طرح جمتا بھی نہ تھا، حضرت ابوبکر نے تعمیل ارشاد میں نماز پڑھانا شروع کردی تھی، حضورﷺ جاکر نماز میں شریک ہوئے۔ (صحیحین)

حضرت ابودرداءؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ کو یہ ارشاد فرماتے سنا کہ اللہ کی عبادت اس طرح کر گویا وہ بالکل سامنے ہے اور تو اس کو دیکھ رہا ہے، اور اپنے آپ کو مُردوں کی فہرست میں شمار کیا کر (زندوں میں اپنے کوسمجھ ہی نہیں کہ پھر نہ کسی بات کی خوشی اور نہ کسی بات سے رنج)، اور مظلوم کی بددعا سے اپنے کو بچا، اور جو تو اتنی بھی طاقت رکھتا ہو کہ زمین پر گھسٹ کر عشاء اور صبح کی جماعت میں شریک ہوسکے تو دریغ نہ کر۔(أخرجہ ابن عساکر فی تاریخ دمشق، ج۷۲، ص ۹۱)

ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ منافقوں پر عشاء اور صبح کی نماز بہت بھاری ہے، اگر ان کو یہ معلوم ہوجاتا کہ جماعت میں کتنا ثواب ہے تو زمین پر گھسٹ کر جاتے اور جماعت سے ان کو پڑھتے۔(بخاری، کتاب الاذان، باب فضل جماعۃ العشاء فی جماعۃ، حدیث، ۶۵۷ )

  1. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: مَنْ صَلّٰی لِلّٰہِ أَرْبَعِیْنَ یَوْماً فِيْ جَمَاعَۃٍ یُدْرِكُ التَّکْبِیْرَۃَ الْأُوْلیٰ کُتِبَ لَہٗ بَرَاءَ تَانِ: بَرَاءَ ۃٌ مِّنَ النَّارِ، وَبَرَاءَ ۃٌ مِّنَ النِّفَاقِ.(رواہ الترمذي)

’’نبیٔ اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص چالیس دن اخلاص کے ساتھ ایسی نماز پڑھے کہ تکبیرِ اُولیٰ فوت نہ ہو، تواس کو دو پروانے ملتے ہیں: ایک پروانہ جہنم سے چھٹکارے کا، دوسرا نفاق سے بَری ہونے کا‘‘۔

فائدہ: یعنی جو اس طرح چالیس دن اخلاص سے نماز پڑھے کہ شروع ہی سے امام کے ساتھ شریک ہو اور نماز شروع کرنے کی تکبیر جب امام کہے تو اسی وقت یہ بھی نماز میں شریک ہوجائے، تو وہ شخص نہ جہنم میں داخل ہوگا نہ منافقوں میں داخل ہوگا۔ منافق وہ لوگ کہلاتے ہیں جو اپنے کو مسلمان ظاہر کریں لیکن دل میں کفر رکھتے ہوں۔ اور چالیس دن کی خصوصیت بظاہر اس وجہ سے ہے کہ حالات کے تغیر میں چالیس دن کوخاص دخل ہے، چنانچہ آدمی کی پیدائش کی ترتیب جس حدیث میں آئی ہے اس میں بھی چالیس دن تک نطفہ رہنا، پھر گوشت کا ٹکڑا چالیس دن، اسی طرح چالیس چالیس دن میں اس کا تغیر ذکر فرمایا ہے، اسی وجہ سے صوفیا کے یہاں چلہ بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کی برسوں بھی تکبیرِ اُولیٰ فوت نہیں ہوتی!!۔

  1. عَنْ أَبِيْ هُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ وُضُوءَہٗ، ثُمَّ رَاحَ، فَوَجَدَ النَّاسَ قَدْ صَلُّوْا، أَعْطَاہُ اللہُ مِثْلَ أَجْرِ مَنْ صَلَّاهَا وَحَضَرَهَا، لَایَنْقُضُ ذٰلِكَ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْئٌ.(رواہ أبوداود والنسائي والحاکم)

’’نبیٔ اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص اچھی طرح وضو کرے پھر مسجد میں نماز کے لیے جائے اور وہاں پہنچ کر معلوم ہو کہ جماعت ہوچکی تو بھی اس کو جماعت کی نماز کا ثواب ہوگا، اور اس ثواب کی وجہ سے ان لوگوں کے ثواب میں کچھ کمی نہیں ہوگی جنہوں نے جماعت سے نماز پڑھی ہے‘‘۔

فائدہ: یہ اللہ کا کس قدر انعام واحسان ہے کہ محض کوشش اور سعی پر جماعت کا ثواب مل جائے، گو جماعت نہ مل سکے، اللہ کی اس دین پر بھی ہم لوگ خود ہی نہ لیں تو کسی کا کیا نقصان ہے!۔ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ محض اس کھٹکے سے کہ جماعت ہوچکی ہوگی مسجدمیں جانا ملتوی نہ کرنا چاہیے، اگر جاکر معلوم ہو کہ ہوچکی ہے تب بھی ثواب تو مل ہی جائے گا، البتہ اگر پہلے سے یقیناً معلوم ہوجائے کہ جماعت ہوچکی ہے تومضائقہ نہیں۔

  1. عَنْ قُبَاثِ بْنِ أَشْیَمَ اللَّیْثِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: صَلَاۃُ الرَّجُلَیْنِ یَؤُمُّ أَحَدُهُمَا صَاحِبَہٗ أَزْکیٰ عِنْدَاللہِ مِنْ صَلَاۃِ أَرْبَعَۃِ تَتْریٰ، وَصَلَاۃُ أَرْبَعَۃٍ أَزْکیٰ عِنْدَ اللہِ مِنْ صَلَاۃِ ثَمَانِیَۃٍ تَتْریٰ، وَصَلَاۃُ ثَمَانِیَۃٍ یَؤُمُّهُمْ أَحَدُهُمْ أَزْکیٰ عِنْدَ اللہِ مِنْ صَلَاۃِ مِائَۃٍ تَتْریٰ.(رواہ البزار والطبراني)

’’نبیٔ اکرم ﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ دو آدمیوں کی جماعت کی نماز، کہ ایک امام ہو ایک مقتدی، اللہ کے نزدیک چار آدمیوں کی علیحدہ علیحدہ نماز سے زیادہ پسندیدہ ہے، اسی طرح چار آدمیوں کی جماعت کی نماز آٹھ آدمیوں کی متفرق نماز سے زیادہ محبوب ہے، اور آٹھ آدمیوں کی جماعت کی نماز سو آدمیوں کی متفرق نمازوں سے بڑھی ہوئی ہے‘‘۔

ایک دوسری حدیث میں ہے: اسی طرح جتنی بڑی جماعت میں نماز پڑھی جائے گی وہ اللہ کو زیادہ محبوب ہے مختصر جماعت سے۔

فائدہ: جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دو چار آدمی مل کر گھر، دکان وغیرہ پر جماعت کرلیں وہ کافی ہے، اول تو اس میں مسجد کا ثواب شروع ہی سے نہیں ہوتا۔ دوسرے،کثرت جماعت کے ثواب سے بھی محرومی ہوتی ہے، مجمع جتنازیادہ ہوگا اتنا ہی اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے، اور جب اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے واسطے ایک کام کرنا ہے تو پھر جس طریقے میں اس کی خوشنودی زیادہ ہو اسی طریقے سے کرنا چاہیے۔

ایک حدیث میں آیاہے کہ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ تین چیزوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں: ایک، جماعت کی صف کو، دوسرے اس شخص کو جو آدھی رات (تہجد) کی نماز پڑھ رہا ہو، تیسرے، اس شخص کو جو کسی لشکر کے ساتھ لڑ رہا ہو۔ (جامع الصغیر)

  1. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدِ السَّاعِدِيْ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: بَشِّرِ الْمَشَّائِیْنَ فِيْ الظُّلَمِ إِلیَ الْمَسَاجِدِبِالنُّوْرِالتَّامِّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ.(رواہ ابن ماجہ)

’’حضرت سَہلؓ فرماتے ہیں: حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ اندھیرے میں مسجدوں میں بکثرت جاتے رہتے ہیں، ان کو قیامت کے دن کے پورے پورے نور کی خوش خبری سنا دے‘‘۔

فائدہ: یعنی آج دنیا میں اندھیری رات میں مسجد میں جانے کی قدر اس وقت معلوم ہوگی جب قیامت کا ہولناک منظر سامنے ہوگا اور ہر شخص مصیبت میں گرفتار ہوگا۔ آج کے اندھیروں کی مشقت کا بدلہ اور اس کی قدر اس وقت ہوگی جب ایک چمکتا ہوا نور اور آفتاب سے کہیں زیادہ روشنی ان کے ساتھ ساتھ ہوگی۔ایک حدیث میں ہے کہ وہ قیامت کے دن نور کے منبروں پر ہوں گے اور بے فکر ہوں گے، جبکہ دیگر لوگ گھبراہٹ میں ہوں گے۔ (جامع الصغیر)

ایک حدیث میں ہے کہ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ قیامت کے دن ارشاد فرمائیں گے کہ ’’میرے پڑوسی کہاں ہیں‘‘؟ فرشتے عرض کریں گے کہ آپ کے پڑوسی کون ہیں؟ ارشاد ہوگا کہ ’’مسجدوں کو آباد کرنے والے‘‘۔ (جامع الصغیر)

ایک حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سب جگہوں سے زیادہ محبوب مسجدیں ہیں اور سب سے زیادہ ناپسند بازار ہیں۔

ایک حدیث میں ہے کہ مسجدیں جنت کے باغ ہیں۔ (جامع الصغیر)

ایک صحیح حدیث میں وارد ہے، حضرت ابوسعیدؓ حضورﷺ سے نقل کرتے ہیں: جس شخص کو دیکھو کہ مسجد کا عادی ہے تواس کے ایمان دار ہونے کی گواہی دو۔(جامع الصغیر) اس کے بعد﴿إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللہِ﴾ یہ آیت تلاوت فرمائی، یعنی مسجدوں کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں۔ (دُرِّمنثور)

ایک حدیث میں وارد ہے کہ مشقت کے وقت وضوکرنا، اورمسجد کی طرف قدم اٹھانا، اور نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں بیٹھے رہنا گناہوں کو دھو دیتا ہے۔ (جامع الصغیر)

ایک حدیث میں وارد ہے کہ جو شخص جتنا مسجد سے دور(رہتا) ہوگا اتنا ہی (باجماعت نماز کے لیے مسجد آنے پر اسے) زیادہ ثواب ہوگا۔ (جامع الصغیر) اس کی وجہ یہی ہے کہ ہر ہر قدم پر اجروثواب ہے، اور جتنی دور مسجد ہوگی اتنے ہی قدم زیادہ ہوں گے، اسی وجہ سے بعض صحابہ چھوٹے چھوٹے قدم رکھتے تھے۔

ایک حدیث میں آیا ہے کہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ اگر لوگوں کو ان کا ثواب معلوم ہوجائے تو لڑائیوں سے ان کوحاصل کیاجائے: ایک، اذان کہنا، دوسری، جماعت کی نمازوں کے لیے دوپہر کے وقت جانا، تیسری، پہلی صف میں نمازپڑھنا۔ (جامع الصغیر)

ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ قیامت کے دن جب ہر شخص پریشان حال ہوگا، اور آفتاب نہایت تیزی پر ہوگا، سات آدمی ایسے ہوں گے جو اللہ کی رحمت کے سائے میں ہوں گے، ان میں ایک وہ شخص بھی ہوگا جس کا دل مسجد میں اٹکا رہے کہ جب کسی ضرورت سے باہر آئے تو پھر مسجد ہی میں واپس جانے کی خواہش ہو۔ (جامع الصغیر)

ایک حدیث میں وارد ہے: جوشخص مسجد سے الفت رکھتا ہے اللہ جَلَّ شَانُہٗ اس سے الفت فرماتے ہیں۔(جامع الصغیر)

شریعتِ مطہرہ کے ہر حکم میں خیر وبرکت، اجر وثواب تو بےپایاں ہے ہی، اس کے ساتھ ہی بہت سی مصلحتیں بھی ان احکام میں جو ملحوظ ہوتی ہیں، ان کی حقیقت تک پہنچنا تو مشکل ہے کہ اللہ جَلَّ شَانُہٗ کے علوم اوران کے مصالح تک کس کی رسائی ہے، مگر اپنی اپنی استعداد اور حوصلے کے موافق جہاں تک اپنی سمجھ کام دیتی ہے، ان کے مصالح بھی سمجھ میں آتے ہیں، اور جتنی استعداد ہوتی ہے اتنی ہی خوبیاں ان احکام کی معلوم ہوتی رہتی ہیں۔ علماء نے جماعت کے مصالح بھی اپنی اپنی سمجھ کے موافق تحریر فرمائے ہیں، ہمارے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نَوَّرَ اللہُ مَرْقَدَہٗ نے ’’حُجَّۃُ اللہِ الْبَالِغَۃ‘‘میں ایک تقریر اس کے متعلق ارشاد فرمائی ہے، جس کا ترجمہ اور مطلب یہ ہے کہ: ’’رسم ورواج کے مُہلِکات سے بچنے کے لیے اس سے زیادہ نافع کوئی چیز نہیں کہ عبادات میں سے کسی عبادت کو ایسی عام رسم اور عام رواج بنا لیا جائے جو علی الاعلان ادا کی جائے اور ہر شخص کے سامنے ‑خواہ سمجھ دار ہو یا ناسمجھ– وہ ادا کی جاسکے، اس کے ادا کرنے میں شہری اور غیر شہری برابر ہوں، مسابقت اور تفاخر اسی پر کیا جائے، اور ایسی عام ہوجائے کہ ضروریات زندگی میں اس طرح داخل ہوجائے کہ اُس سے علیحدگی ناممکن اور دشوار بن جائے، تاکہ وہ اللہ کی عبادت کے لیے مؤید ہوجائے، اور وہ رسم ورواج جو موجب مضرت ونقصان تھا وہی حق کی طرف کھینچنے والابن جائے، اور چونکہ عبادات میں کوئی عبادت بھی نماز سے زیادہ مُہتَم بِالشَّان اور دلیل وحجت کے اعتبار سے بڑھی ہوئی نہیں، اس لیے ضروری ہوا کہ آپس میں اس کے رواج کو خوب شائع کیا جائے، اور اس کے لیے خاص طور سے اجتماع کیے جائیں، اور آپس میں اتفاق سے اس کو ادا کیا جائے۔ نیز ہر مذہب اور دین میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مُقتَدا ہوتے ہیں کہ ان کا اتباع کیا جاتا ہے، اور کچھ لوگ دوسرے درجے میں ایسے ہوتے ہیں جو کسی معمولی سی ترغیب وتنبیہ کے محتاج ہوتے ہیں، اور کچھ لوگ تیسرے درجے میں بہت ناکارہ اورضعیف الاعتقاد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو اگر مجمع میں عبادت کا تکلف نہ کیا جائے تو وہ سستی اور کاہلی کی وجہ سے عبادت بھی چھوڑ دیتے ہیں، اس وجہ سے مصلحت کا مُقتَضا یہی ہے کہ سب لوگ اجتماعی طور پر عبادت کو ادا کریں، تاکہ جو لوگ عبادت کو چھوڑنے والے ہیں وہ عبادت کرنے والوں سے ممتاز ہوجائیں، اور رغبت کرنے والوں اور بے رغبتی کرنے والوں میں کھلا تفاوت ہوجائے، اور ناواقف لوگ علماء کے اتباع سے واقف بن جائیں، اور جاہل لوگوں کو عبادت کا طریقہ معلوم ہوجائے، اور اللہ کی عبادت ان لوگوں میں اس پگھلی ہوئی چاندی کی طرح سے ہوجائے جو کسی ماہر کے سامنے رکھی جائے، جس سے جائز، ناجائز اور کھرے کھوٹے میں کھلا فرق ہوجائے، جائز کی تقویت کی جائے اور ناجائز کو روکاجائے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے ایسے اجتماع میں جس میں اللہ کی طرف رغبت کرنے والے، اس کی رحمت کے طلب کرنے والے، اس سے ڈرنے والے موجود ہوں، اور سب کے سب اللہ ہی کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوں، برکتوں کے نازل ہونے اوررحمت کے متوجہ ہونے کی عجیب خاصیت رکھی ہے۔ نیز امت محمدیہ کے قیام کا مقصد ہی یہ ہے کہ اللہ کا بول بالا ہو اور دین اسلام کو تمام دینوں پر غلبہ ہو، اور یہ ممکن نہیں جب تک یہ طریقہ رائج نہ ہو، سب کے سب، عوام خواص، شہر کے رہنے والے اور گاؤں کے رہنے والے، چھوٹے بڑے، ایک جگہ جمع ہوکر اس چیز کو جو اسلام کا سب سے بڑا شعار ہے اور سب سے بالاتر عبادت ہے، ادا نہ کریں۔ ان وجوہ سے شریعت جمعہ اور جماعت کے اہتمام کی طرف متوجہ ہوئی، ان کے اظہار واعلان کی ترغیبیں اور چھوڑنے پر وعیدیں نازل ہوئیں، اور چونکہ اظہار واجتماع ایک صرف محلے اور قبیلے کا ہے اور ایک تمام شہر کا، اور محلے کا اجتماع ہر وقت سہل ہے، اور تمام شہر کا ہر وقت مشکل ہے کہ اس میں تنگی ہے، اس لیے محلے کا اجتماع ہر نماز کے وقت قرار دیا، اور جماعت کی نماز اس کے لیے مشروع ہوئی، اور تمام شہر کااجتماع آٹھویں دن قرار دیا، اور جمعہ کی نماز اس کے لیے تجویزہوئی‘‘۔ (حجۃ اللہ البالغۃ، ۲: ۶۲)

دوسری فصل: جماعت کے چھوڑنے پر عتاب کے بیان میں

حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے اپنے احکام کی پابندی پر جیسے کہ انعامات کا وعدہ فرمایا ہے، ایسے ہی تعمیل نہ کرنے پر ناراضی اور عتاب بھی فرمایا ہے، یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ تعمیل میں بے کراں انعامات کا وعدہ ہے، ورنہ بندگی کا مُقتَضا صرف عتاب ہی ہونا چاہیے تھا، کہ بندگی کا فرض ہے تعمیل ارشاد، پھر اس پر انعام کے کیا معنی! اور نافرمانی کی صورت میں جتنا بھی عتاب وعذاب ہو وہ برمحل، کہ آقا کی نافرمانی سے بڑھ کر اور کیاجرم ہوسکتا ہے؟ پس کسی خاص عتاب یا تنبیہ کے فرمانے کی ضرورت نہ تھی، مگر پھر بھی اللہ جَلَّ شَانُہٗ اور اس کے پاک رسول ﷺ نے ہم پر شفقت فرمائی کہ طرح طرح سے متنبہ فرمایا، اس کے نقصانات بتائے، مختلف طور سے سمجھایا، پھر بھی ہم نہ سمجھیں تو اپناہی نقصان ہے۔

  1. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ یَمْنَعْہُ مِنْ اِتِّبَاعِہٖ عُذْرٌ –قَالُوْا: وَمَاالْعُذْرُ؟ قَالَ: خَوْفٌ أَوْمَرْضٌ– لَمْ تُقْبَلْ مِنْہُ الصَّلَاۃُ الَّتِيْ صَلّٰی. (رواہ أبوداود)
    ’’نبیٔ اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص اذان کی آواز سنے اور بلا کسی عذر کے نماز کو نہ جائے (وہیں پڑھ لے)، تو وہ نماز قبول نہیں ہوتی، صحابہؓ نے عرض کیا: عذر سے کیا مراد ہے؟ ارشاد ہوا کہ مرض ہو یا کوئی خوف ہو‘‘۔

فائدہ: قبول نہ ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس نماز پر جو ثواب اور انعام حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کی طرف سے ہوتا وہ نہ ہوگا، گو فرض ذمے سے اتر جائے گا، اور یہی مراد ہے ان حدیثوں سے جن میں آیا ہے کہ اس کی نماز نہیں ہوتی، اس لیے کہ ایسا ہونا بھی کچھ ہونا ہوا جس پر انعام واکرام نہ ہوا! یہ ہمارے امام کے نزدیک ہے، ورنہ صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کے نزدیک ان احادیث کی بنا پر بلا عذر جماعت کا چھوڑنا حرام ہے، اور جماعت سے پڑھنا فرض ہے، حتی کہ بہت سے علماء ء کے نزدیک نماز ہوتی ہی نہیں، حنفیہ کے نزدیک اگرچہ نماز ہوجاتی ہے، مگر جماعت کے چھوڑنے کا مجرم تو ہوہی جائے گا۔
حضرت ابن عباسؓ سے ایک حدیث میں یہ بھی نقل کیاگیا کہ اس شخص نے اللہ کی نافرمانی کی اور رسول ﷺ کی نافرمانی کی۔
حضرت ابن عباسؓ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ جو شخص اذان کی آواز سنے اور جماعت سے نماز نہ پڑھے، نہ اس نے بھلائی کا ارادہ کیا، نہ اس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کیا گیا۔
ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ جو شخص اذان کی آواز سنے اور جماعت میں حاضر نہ ہو اس کے کان پگھلے ہوئے سیسے سے بھر دیے جاویں، یہ بہتر ہے۔

  1. عَنْ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ رَسُوْلِ اللہِﷺ أَنَّہٗ قَالَ: اَلْجَفَاءُ کُلُّ الْجَفَاءِ وَالْکُفْرُ وَالنِّفَاقُ مَنْ سَمِعَ مُنَادِيَ اللہِ یُنَادِيْ إِلَی الصَّلَاۃِ فَلَایُجِیْبُہٗ. (رواہ أحمد)
    ’’نبیٔ اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ سراسر ظلم ہے اور کفر ہے اور نفاق ہے (اس شخص کا فعل) جو اللہ کے منادی(یعنی مؤذن)کی آواز سنے اور نماز کونہ جائے‘‘۔

فائدہ: کتنی سخت وعید اور ڈانٹ ہے اس حدیث پاک میں کہ اس حرکت کو کافروں کا فعل اور منافقوں کی حرکت بتایا ہے، کہ گویا مسلمان سے یہ بات ہوہی نہیں سکتی۔
ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے کہ آدمی کی بدبختی اور بدنصیبی کے لیے یہ کافی ہے کہ مؤذن کی آواز سنے اور نماز کو نہ جائے۔ (المعجم الکبیر، ۲۰: ۱۸۰، حدیث: ۳۹۶)
سلیمان بن اَبی حَثمہ جلیل القدر لوگوں میں تھے، حضورﷺ کے زمانے میں پیدا ہوئے، مگر حضورﷺ سے روایت سننے کی نوبت کم عمری کی وجہ سے نہیں آئی، حضرت عمرؓ نے ان کو بازار کا نگراں بنا رکھا تھا، ایک دن اتفاق سے صبح کی نماز میں موجود نہ تھے، حضرت عمرؓ اس طرف تشریف لے گئے تو ان کی والدہ سے پوچھا کہ سلیمان آج صبح کی نماز میں نہیں تھے؟ والدہ نے کہا کہ رات بھر نفلوں میں مشغول رہا، نیند کے غلبے سے آنکھ لگ گئی، آپ نے فرمایا: میں صبح کی جماعت میں شریک ہوں یہ مجھے اس سے پسندیدہ ہے کہ رات بھر نفل پڑھوں۔ (موطا مالک، حدیث:۱۴۳)

  1. عَنْ أَبِيْ هُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ اٰمُرَ فِتْیَتِيْ فَیَجْمَعُوْا لِيْ حَزْماً مِّنْ حَطَبٍ، ثُمَّ اٰتِيْ قَوْماً یُّصَلُّوْنَ فِيْ بُیُوْتِهِمْ لَیْسَتْ بِهِمْ عِلَّۃٌ فَأُحَرِّقُهَا عَلَیْهِمْ. (رواہ مسلم)
    ’’حضور اقدس ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ چند جوانوں سے کہوں کہ بہت سا ایندھن اکٹھا کرکے لائیں، پھر میں ان لوگوں کے پاس جاؤں جو بلا عذر گھروں میں نماز پڑھ لیتے ہیں، اور جاکر ان کے گھروں کو جلا دوں۔

فائدہ: نبیٔ اکرم ﷺ کو، باوجود اس شفقت اور رحمت کے جو امت کے حال پر تھی، اور کسی شخص کی ادنیٰ سی تکلیف بھی گوارا نہ تھی، ان لوگوں پر جو گھروں میں نماز پڑھ لیتے ہیں اس قدر غصہ ہے کہ ان کے گھروں میں آگ لگا دینے کو بھی آمادہ ہیں۔

  1. عَنْ أَبِيْ الدَّرْدَاءِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِﷺ: یَقُوْلُ مَا مِنْ ثَلَاثَۃٍ فِيْ قَرْیَۃٍ وَلَابَدْوٍ لَاتُقَامُ فِیْهِمُ الصَّلَاۃُ إِلَّا اسْتَحْوَذَ عَلَیْهِمُ الشَّیْطَانُ، فَعَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ، فَإِنَّمَا یَأْکُلُ الذِّئْبُ مِنَ الْغَنَمِ الْقَاصِیَۃَ.(رواہ أحمد)
    ’’حضورِ اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس گاؤں یا جنگل میں تین آدمی ہوں اور وہاں باجماعت نماز نہ ہوتی ہو تو ان پر شیطان مسلط ہوجاتا ہے، اس لیے جماعت کو ضروری سمجھو، بھیڑیا اکیلی بکری کو کھا جاتا ہے، اور آدمیوں کا بھیڑیا شیطان ہے‘‘۔

فائدہ: اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ کھیتی باڑی میں مشغول رہتے ہیں، اگر تین آدمی ہوں تو ان کوجماعت سے نماز پڑھنا چاہیے، بلکہ دو کو بھی جماعت سے پڑھنا اَولیٰ ہے، کسان عام طور سے اول تو نماز پڑھتے ہی نہیں، کہ ان کے لیے کھیتی کی مشغولی اپنے نزدیک کافی عذر ہے، اور جو بہت دین دار سمجھے جاتے ہیں وہ بھی اکیلے ہی پڑھ لیتے ہیں، حالانکہ اگر چند کھیت والے بھی ایک جگہ جمع ہوکر پڑھیں تو کتنی بڑی جماعت ہوجائے اور کتنا بڑا ثواب حاصل کریں! چار پیسے کے واسطے گرمی، سردی، دھوپ، بارش، سب سے بے نیازہوکر دن بھر مشغول رہتے ہیں، لیکن اتنا بڑا ثواب ضائع کرتے ہیں اور اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے، حالانکہ یہ لوگ جنگل میں جماعت سے نماز پڑھیں تو اور بھی زیادہ ثواب کاسبب ہوتا ہے، حتیٰ کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ پچاس نمازوں کا ثواب ہوجاتا ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب کوئی بکریاں چرانے والا کسی پہاڑ کی جڑ میں، (یاجنگل میں)اذان کہتا ہے اور نماز پڑھنے لگتا ہے تو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اس سے بےحد خوش ہوتے ہیں، اور تعجب و تفاخر سے فرشتوں سے فرماتے ہیں: دیکھو جی! میرا بندہ اذان کہہ کر نماز پڑھنے لگا، یہ سب میرے ڈر کی وجہ سے کر رہا ہے، میں نے اس کی مغفرت کردی اور جنت کاداخلہ طے کردیا۔(ابوداود، باب الاذان فی السفر، حدیث: ۱۲۳۰)

  1. عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّہٗ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ یَصُوْمُ النَّهَارَ وَیَقُوْمُ اللَّیْلَ وَلَایَشْهَدُ الْجَمَاعَۃَ وَلَاالْجُمُعَۃَ، فَقَالَ: هٰذَا فِيْ النَّارِ.(رواہ الترمذي)
    ’’حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے کسی نے پوچھا کہ ایک شخص دن بھر روزہ رکھتا ہے اور رات بھر نفل پڑھتا ہے، مگر جمعہ اور جماعت میں شریک نہیں ہوتا (اس کے متعلق کیاحکم ہے؟) آپ نے فرمایا کہ یہ شخص جہنمی ہے‘‘۔

فائدہ: گو ایک خاص زمانے تک سزا بھگتنے کے بعد جہنم سے نکل آئے، کہ بہرحال مسلمان ہے، مگر نہ معلوم کتنے عرصے تک پڑا رہنا پڑے گا۔ جاہل صوفیوں میں وظیفوں اور نفلوں کا تو زور ہوتا ہے مگر جماعت کی پرواہ نہیں ہوتی، اس کو وہ بزرگی سمجھتے ہیں، حالانکہ کمال بزرگی اللہ کے محبوب کا اتباع ہے۔
ایک حدیث میں وارد ہے کہ تین شخصوں پر حق تَعَالیٰ شَانُہٗ لعنت بھیجتے ہیں: ایک اس شخص پر جس سے نمازی کسی معقول وجہ سے ناراض ہوں اور وہ امامت کرے۔ دوسرے، اس عورت پر جس کا خاوند اس سے ناراض ہو۔ تیسرے، اس شخص پر جو اذان کی آواز سنے اور جماعت میں شریک نہ ہو۔

  1. أَخْرَجَ ابْنُ مَرْدَوَیْہِ عَنْ کَعْبِ الْحِبْرِ قَالَ: وَالَّذِيْ أَنْزَلَ التَّوْرَاۃَ عَلیٰ مُوْسیٰ، وَالإِنْجِیْلَ عَلیٰ عِیْسیٰ، وَالزَّبُوْرَ عَلیٰ دَاؤُدَ، وَالْفُرْقَانَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ أُنْزِلَتْ هٰذِہِ الاٰیَاتُ فِيْ الصَّلَاۃِ الْمَکْتُوْبَاتِ حَیْثُ یُنَادیٰ بِهِنَّ، ﴿یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ –إِلیٰ قَوْلِهٖ– وَھُمْ سٰلِمُوْنَ﴾ اَلصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ إِذَا نُوْدِيَ بِهَا.
    ’’حضرت کعب احبارؓ فرماتے ہیں کہ قسم ہے اس پاک ذات کی جس نے تورات حضرت موسیٰ پر، اور انجیل حضرت عیسیٰ پر، اور زبور حضرت داؤد پر (عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیْهِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ)نازل فرمائی، اور قرآن شریف سیدنا محمد ﷺ پر نازل فرمایا، کہ یہ آیتیں فرض نمازوں کو جماعت سے ایسی جگہ پڑھنے کے بارے میں جہاں اذان ہوتی ہو، نازل ہوئی ہیں۔(ترجمہ) جس دن حق تَعَالیٰ شَانُہٗ ساق کی تجلی فرمائیں گے (جو ایک خاص قسم کی تجلی ہوگی)،اور لوگ اس دن سجدے کے لیے بلائے جاویں گے تو یہ لوگ سجدہ نہیں کر سکیں گے، ان کی آنکھیں شرم کے مارے جھکی ہوئی ہوں گی اور ان پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی، اس لیے کہ یہ لوگ دنیا میں سجدے کی طرف بلائے جاتے تھے، اور صحیح سالم تندرست تھے (پھر بھی سجدہ نہیں کرتے تھے)‘‘۔

فائدہ: ’’ساق کی تجلی‘‘ ایک خاص قسم کی تجلِّی ہے جو میدان حشر میں ہوگی، اس تجلی کو دیکھ کر سارے مسلمان سجدے میں گر جائیں گے، مگر بعض لوگ ایسے ہوں گے جن کی کمر تختہ ہوجائے گی اور سجدے پر قدرت نہ ہوگی۔ یہ کون لوگ ہوں گے؟ اس کے بارے میں تفسیریں مختلف وارد ہوئی ہیں:
ایک تفسیر یہ ہے جو کعب احبارؓ سے منقول ہے، اور اسی کے موافق حضرت ابن عباسؓ وغیرہ سے بھی منقول ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں جماعت کی نماز کے واسطے بلائے جاتے تھے اور جماعت کی نماز نہیں پڑھتے تھے۔
دوسری تفسیر بخاری شریف میں حضرت ابوسعید خدریؓ سے منقول ہے کہ میں نے حضور ﷺ سے سنا کہ یہ لوگ وہ ہوں گے جو دنیا میں ریا اور دکھلاوے کے واسطے نمازپڑھتے تھے۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب یوم یکشف عن ساق، حدیث:۴۹۱۹)
تیسری تفسیر یہ ہے کہ یہ کافر لوگ ہیں جو دنیا میں سرے سے نماز ہی نہیں پڑھتے تھے۔
چوتھی تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد منافق ہے۔ وَاللہ أَعلَمُ وَعِلْمُہٗ أَتَمُّ.
بہرحال! اس تفسیر کے موافق، جس کو حضرت کعب احبارؓ قسم کھا کر ارشاد فرما رہے ہیں اور حضرت ابن عباسؓ جیسے جلیل القدر صحابی اور امام تفسیر سے اس کی تائید ہوتی ہے، کتنا سخت معاملہ ہے کہ میدان حشر میں ذلت، نکبَت ہو، اور جہاں سارے مسلمان سجدے میں مشغول ہوں اس سے سجدہ ادا نہ ہوسکے۔
ان کے علاوہ اور بھی بہت سی وعیدیں جماعت کے چھوڑنے پرآئی ہیں، مسلمان کے لیے تو ایک بھی وعید کی ضرورت نہیں، کہ اللہ اور اس کے رسول کاحکم و ارشاد ہی سب کچھ ہے، اور جس کو اس کی قدر نہیں اس کے لیے ہزار طرح کی وعیدیں بھی بے کار ہیں، جب سزا کا وقت آئے گا تو پشیمانی ہوگی جو بےکار ہوگی۔

(جاری ہے ان شاءاللہ)

Previous Post

علاماتِ کبریٰ: [پہلی نشانی] خروجِ دجّال | دسواں درس

Next Post

اُس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا!

Related Posts

اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | آٹھویں قسط

14 اگست 2025
اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | ساتویں قسط

14 جولائی 2025
اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط

9 جون 2025
اصلاحِ معاشرہ | پہلی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | پانچویں قسط

25 مئی 2025
اصلاحِ معاشرہ | پہلی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | چوتھی قسط

31 مارچ 2025
اصلاحِ معاشرہ | پہلی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | تیسری قسط

14 مارچ 2025
Next Post
اُس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا!

اُس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا!

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version