بسم الله الرحمن الرحیم
الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونتوب إليه ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا من يهده الله فلا مضل له ومن يضللہ فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله أما بعد:
فقد قال الله تعالي: يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُتِبَ عَلَيكُمُ ٱلصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبلِكُم لَعَلَّكُم تَتَّقُونَ (سورۃ البقرة : ١٨٣)
ترجمہ:اے ایمان والو تم پر روزہ فرض کردیا گیا ہے جس طرح کہ ان لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں تاکہ تم تقویٰ دار بنو۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ . [متفق علیه]
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایمان کے ساتھ (یعنی شریعت کو سچ سمجھتے ہوئے اور رمضان کی فرضیت کا عقیدہ رکھتے ہوئے) اور ثواب کی طلب کی خاطر(یعنی ریا کاری کے لیے نہیں بلکہ صرف اللہ تعالی کے لیے)روزہ رکھا تو اس کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں جو اس نے پہلے کیے ہوتے ہیں۔
عن ابن عباس رضی اللّٰه تعالیٰ عنه قال: في آخر رمضان أخرجوا صدقة صومکم فرض رسول اللّٰه ﷺ هذہ الصدقة صاعاً من تمر او شعیر او نصف صاع من قمح علی کل حرٍ او مملوکٍ ذکرٍ او أنثی، صغیرٍ او کبیرٍ. [رواه ابوداؤد]
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رمضان کے آخری دنوں میں لوگوں سے کہا: تم اپنے روزوں کی زکوٰۃ ادا کرو (یعنی صدقۂ فطر ادا کرو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صدقہ ہر مسلمان آزاد، غلام، باندی، مرد، عورت اور بچے پر کھجور اور جو میں ایک صاع اور گندم میں آدھا صاع فرض(واجب) قرار دیا ہے۔
و عنه قال: فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر طُهرةً للصائم من اللغو والرفث، وطعمةً للمساكين. [رواه ابوداؤد]
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کی بیہودہ باتوں اور لغو کلام سے پاک کرنے اور غریبوں کے ایک لقمہ کے طور پر صدقہ فطر لازم قرار دیا ہے۔
و قال الله تعالی: وَاذْكُرُوا إِذْ أَنتُمْ قَلِيلٌ مُّسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَن يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُم بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (سورۃ الانفال: ۲۶)
ترجمہ: اور (اے مومنو!) تم وہ وقت یاد کرو جب تم تعداد میں تھوڑے تھے (اور) زمین پر کمزور تھے۔ (اور) تمہیں خوف تھا کہ لوگ تمہیں اچک لیں گے۔ تو اللہ تعالی نے تمہیں پناہ کی جگہ دی اور اپنی نصرت سے تمہاری مدد کی(قوت عطا کی) اور تمہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا(تمہارے لیے مال غنیمت حلال کردیا) تاکہ تم لوگ (مذکورہ نعمتوں پر) شکر ادا کرو (اور شریعت کو ماننے میں سستی نہ کرو)۔
افغانستان کے مجاہد اور مومن عوام اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے نام!
السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ!
عید سعید عید الفطر کے موقع پر آپ سب کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دیتا ہوں، اللہ تعالی سب کے روزے، تروایح، صدقۂ فطر، جہادی خدمات، عبادتیں اور دعائیں اپنی بارگاہ عالیہ میں قبول فرمائے۔
قابل احترام بھائیو! ہم سب کو اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ بہت سی تکالیف کے بعد امن اور اسلامی و شرعی نظام سے ہم بہرہ ور ہوئے ہیں اور روزے جیسے عظیم فرض کی ادائیگی کے بعد ایسے حالات میں عید منارہے ہیں کہ جب پورے ملک میں امن اور سکون کی فضا قائم ہے۔الحمد للہ والمنۃ!
۱۔ تمام صاحب حیثیت بھائی اپنے غریب ہم وطنوں، یتیموں، بیواؤں اور شہداء کے خاندانوں سے ہر طرح کا تعاون کریں اور ان کی مدد کریں۔ اپنے فرض اور نفل صدقات اور خیرات ان مبارک دنوں میں مستحقین کو دیں تاکہ وہ اپنی ضرورتیں پوری کریں اور عید کی خوشی اچھی طرح مناسکیں اور صاحب حیثیت لوگوں کے روزوں کی کوتاہیوں کا مداوا ہوسکے۔
۲۔ امارت اسلامیہ کے ذمہ داران اور مجاہدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنے عوام کی خدمت کے لیے مزیداخلاص اور ہمت کے ساتھ کام کریں، کیوں کہ لوگوں کی خدمت عبادت ہے، یہ اچھی طرح سے ہو اور ان کے شرعی حقوق اور ان کی خوشی مد نظر رکھی جائے۔
امارت اسلامیہ افغانستان اپنے آپ کو عوام کی خوشحالی اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا ذمہ دار سمجھتی ہے اور یہ اللہ کی رضا اور اپنی شرعی ذمہ داری سمجھ کر کرتی ہے۔ اس لیے سب لوگ مطمئن رہیں کہ سب کے شرعی حقوق احسن طریقے سے ادا کیے جارہے ہیں۔ امارت اسلامیہ کی عدالتیں اسی مقصد کے لیے ولایتی مراکز، صوبوں اور اضلاع میں قائم ہیں کہ مظلوموں کی مدد کریں اور مظالم کا راستہ روکیں، تاکہ انصاف قائم ہو۔ تمام شہری عدالتوں کے ساتھ انصاف کے قیام میں تعاون کریں، سفارش اور جعلی دھوکہ بازی پر مبنی دعووں سے سختی سے احتراز کریں۔
۳۔ جس طرح ہمارے جہاد اور مزاحمت کا اہم مقصد اعلائے کلمۃ اللہ، اسلامی شریعت کا نفاذ، عوام کی خوشحالی اور معاشرے کی دینی و اخلاقی اصلاح تھی، للہ الحمد اس حوالے سے بھی قابل ذکر اقدامات کیے جاچکے ہیں۔ سب سے اہم فریضہ جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ہے عملی طورپر جاری ہے۔ حکومتی ذمہ داران ہوں یا عام شہری سب امربالمعروف و نہی عن المنکر کے شعبۂ شکایات کے اہلکاروں سے معروف کے قیام اور منکرات کی روک تھام میں بھرپور تعاون کریں۔
ثقافت، تعلیم و تربیت، معیشت، میڈیا اور دیگر شعبوں میں قابل ذکر اصلاحی اقدامات ہوچکے ہیں اور بیس سالہ جارحیت کے غلط فکری اور اخلاقی اثرات ختم ہونے لگے ہیں۔ ہمارے مومن عوام اسی اصلاح کو سب سے اہم اور بڑی کامیابی سمجھیں، کیوں کہ دینی اصول اور شریعت کی روشنی میں زندگی ہماری دنیاوی اور اخروی سعادت کی ضامن ہے اور معاشرے کی دائمی سعادت، کامیابی اور نجات کا باعث ہے۔
علمائے دین بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دیں، پورے ملک میں لوگوں کو دین سے آگاہ کرنے، انہیں دین سمجھانے اور لوگوں کے اعمال کی اصلاح کے لیے امربالمعروف و نہی عن المنکر، تعلیم، اعلی تعلیم اور اطلاعات و ثقافت کی وزارتوں کے تعاون سے کام کریں۔ کوئی بھی قوم و ملک اس وقت عزت اور حقیقی امن و خوشحالی کا ذائقہ چکھ سکتی ہے جب اس میں اللہ تعالی سے بغاوت اور سرکشی نہ ہو۔ اس لیے لوگوں کی اصلاح اور دین سے آگاہی کی ذمہ داری علمائے کرام کے حوالے کردی گئی ہے۔ انہیں چاہیے کہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داری اور بھی اچھے طریقے سے ادا کریں اور ان کے لیے نیکی کی ہدایت کا وسیلہ بنیں۔ اسی طرح آپس میں اور بھی ہم آہنگی اور اعتماد کی فضا قائم کریں۔ اپنے آپس کے اختلافات سے احتراز کریں اور عوام کی اعلیٰ مصلحتیں نظر میں رکھیں۔
۴۔ ہمارا ملک حال ہی میں جنگوں اور مصائب سے نکلا ہے۔ یہاں تعمیر و ترقی کی اشد ضرورت ہے۔ اس لیے وہ حکمران ہوں یا عوام تمام افغانوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ملک کو خوشحال بناکر اپنے پاؤں پر کھڑا کریں۔ افغانستان کی تعمیر افغان عوام کی اپنی ذمہ داری ہے۔ اس لیے دوسروں سے توقعات نہ رکھیں بلکہ اپنی ہمت اور اپنی کوشش سے اس ملک کو آباد کریں اور عوام کو زندگی کی ممکنہ سہولیات فراہم کریں۔
اس حوالے سے قومی تاجروں اور صاحب حیثیت لوگوں کی ذمہ داری دوسروں سے بڑھ کر ہے۔ امارت اسلامیہ ان سے پوری طرح تعاون کرے گی، انہیں سہولیات فراہم کرے گی، ان کی مدد کرے گی اورانہیں بہتر و معیاری خدمت کے لیے سازگار ماحول فراہم کرے گی، ان شاءالله تعالی۔
۵۔ امن و امان اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے۔ آئیے اپنے ملک کے استحکام اور تحفظ کے لیے اور بھی مضبوطی سے اپنے نظام کے ساتھ کھڑے ہوں۔ تاکہ مزید ہماری قوم اور ہمارے عام شہری نقصان نہ اٹھائیں اور بدامنی کا شکار نہ ہوں۔ اگرچہ اس حوالے سے کچھ دشمن حلقے اپنی مکروہ کوشش کررہے ہیں کہ ہمارے ملک کو غیر محفوظ اور امارت اسلامیہ کے سکیورٹی اداروں کو کمزور ظاہر کریں، لیکن ہمیں یقین ہے کہ اگر اللہ تعالی جل جلالہ کی نصرت اور اپنی قوم کی حمایت ہمیں حاصل رہی تو امن و امان اور مضبوط ہوگا اورہمارے عوام اور بھی سکھ کا سانس لیں گے، ان شاء اللہ۔
۶۔ افغانستان تمام ہمسایہ ممالک، اسلامی ممالک اور پوری دنیا سے اسلامی اصولوں کے دائرے میں اچھے اور دوطرفہ تعامل پر مبنی تعلقات چاہتا ہے۔ جس طرح افغانستان کسی بھی بیرونی ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا، اسی طرح یہ اصرار کرتا ہے کہ دیگر ممالک بھی ہمارے داخلی امور میں مداخلت نہ کریں۔ کہ یہ سب پوری دنیا کے بھی مفاد میں ہے اور افغانستان کے بھی مفاد میں ہے۔
۷۔ امارت اسلامیہ کی جانب سے اپنی اسلامی اور شرعی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ملک میں منشیات کی کاشت پر پابندی اور اپنے ہم وطنوں کی جانب سے اس حوالے سے امارت اسلامیہ کے فرمان پر بہتر طریقے سے عمل درآمد بہت بڑی کامیابی ہے۔ امارت اسلامیہ کے عزم اور اعلان کے ساتھ اتنے بڑے کام کا ہوجانا عوام کی جانب سے امارت اسلامیہ کی مضبوط حمایت اور تعاون کا مظہر ہے، اور یہ واضح کرتا ہے کہ افغانستان اب منشیات سے پاک ہوجائے گا۔اس کے ساتھ ساتھ کابل اور دیگر صوبوں میں منشیات کے عادی افراد کو جمع کرنا اور انہیں علاج کے بعد صحیح صحت مند حالت میں اہل خانہ کے حوالے کرنا دوسری وہ شرعی ذمہ داری ہے جو امارت اسلامیہ پوری کر رہی ہے۔ یہ اپنے عوام کے ایک بڑے حصے کے مسائل اور پریشانیوں کے حل کی جانب بڑا قدم ہے جس کی مثال گزشتہ بیس سالوں میں نہیں ملتی۔
۸۔ ملک کے مرکز اور صوبوں میں گداگروں کو جمع کرنا ، ان سے تعاون اور ان کے مسائل کا حل امارت اسلامیہ کا ایک اور رحم و شفقت پر مبنی اقدام ہے۔ اس منصوبے پر بھی مکمل عمل درآمد کیا جارہا ہے۔ اس طرح پیشہ ور گداگر اور حقیقی محتاج افراد الگ ہوگئے اور محتاج اور ضرورت مند لوگوں سے تعاون کی راہ ہموار ہوگئی۔ سرکاری بجٹ سے ان کے لیے متعین مقدار میں خرچہ مقرر ہوچکا ہے۔ پیشہ ور گداگروں کو سمجھاکر نصیحت کی گئی ۔ یہ افغانستان کی تاریخ میں بہت بڑا کام اور اپنے عوام سے امارت اسلامیہ کی بے انتہا محبت و ہمدردی کا اظہار ہے۔
۹۔ معیشت کی ترقی اور مضبوطی کے لیے امارت اسلامیہ کے متعلقہ ادارے اپنی تمام تر کوششیں کررہے ہیں، اب تک اللہ تعالی کے عظیم فضل سے بے انتہا مشکلات اور عالمی رکاوٹوں کے باوجود ملکی معیشت اچھی طرح سنبھال رکھی ہے۔ گزشتہ سال کا بجٹ اپنی قومی آمدنی سے مرتب ہوا اور پھر صحیح طریقے سے اسے صرف کرنا اللہ تعالی کا بڑا انعام ہے۔ اسی طرح رواں مالی سال میں بجٹ کے حوالے سے بہتر اقدامات کے لیے اللہ تعالی سے دعا اور مدد کا طلب گار ہوں۔
۱۰۔ تعلیمی شعبے میں تعلیم و تربیت کا سلسلہ پورے ملک میں پھیلانا اور تمام بچوں کی صحیح طریقے سے تربیت امارت اسلامیہ کی ذمہ داری ہے جس کی مزید ترقی اور بہتری کے لیے مؤثر منصوبوں پر کام جاری ہے۔
۱۱۔ صوبائی حکام کے کام اور حالات کی نگرانی، دینی اور مذہبی امور میں صوبائی انتظامیہ کو تحریری اور زبانی رائے اور مشورہ دینا، امارت اسلامیہ کے ذمہ داران کے رویے پر توجہ اور ان کی کوتاہیاں احسن طریقے سے انہیں سمجھانا، امارت اسلامیہ کے حکام اور عوام کے درمیان اعتماد اور اچھے تعلق کی فضا قائم کرنا اور اس حوالے سے پورے ملک میں علمائے کرام اور عمائدین کے مشترکہ صوبائی کمیٹیوں کا قیام اور ان کمیٹیوں کے لیے بہترین لائحہ اور کام کا فریم ورک بناکر دینا یہ اہم اقدامات تھے جو مکمل ہوچکے ہیں۔ ہمیں امید ہے ہمارے حکام کے بہت سے مسائل اس طریقے سے بہت اچھے طریقے سے امانت داری اور باریک بینی سے حل ہوں گے۔ اس سے امن اور اعتماد کی فضا اور مضبوط ہوگی اور حکام کو ان کی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں تعاون ملے گا۔ ان شاء اللہ۔
۱۲۔ امارت اسلامیہ کی عدالتیں تمام اداروں میں خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ اسلامی نظام کے دائرۂ کار میں یہ وہ شعبہ ہے جس کی اہمیت تمام شعبوں سے بڑھ کر ہے۔ کیوں کہ اسلامی نظام کے اہم اہداف اور مقاصد اللہ تعالی کے بندوں کے جان، مال، عقل، حیثیت اور اللہ تعالی کے عطا کردہ تمام حقوق کا تحفظ ہے۔ اسی لیے عدالتوں کے تمام قاضیوں اور ذمہ داران کو ہدایت دی جاتی ہے کہ اپنی بھاری ذمہ داری کو مدنظر رکھتے ہوئے لوگوں کے حقیقی حقوق کے حصول اور تنازعات کے حل کے حوالے سے پہلے سے بڑھ کر مستعد رہیں اور فیصلوں میں طاقت ور اور کمزور کے درمیان کوئی فرق نہ کریں۔ سب کے ساتھ انصاف اور برابری کا سلوک رکھیں۔ اللہ تعالی کی حدود کے نفاذ میں مجرم کی شخصیت کو نہ دیکھیں۔ مجرم کی جگہ جرم کو دیکھیں۔ مظلوم کا دفاع کریں، ظالم کا راستہ روکیں اور لوگوں کے مسائل کے حل میں تاخیر اور رکاوٹیں ڈالے بغیر خدمت کریں۔
۱۳۔ وزارت صحت کے ذمہ داران کو ہدایت کی جاتی ہے کہ صحت کے شعبے میں اپنے عوام کی خدمت کے لیے دن رات ایک کردیں۔ صحت کے مراکز مضبوط اور مؤثر بنائیں۔ بیماریوں اور حادثات کے حوالے سے اپنی قوم کے مسائل حل کریں اور صحت کے حوالے سے اپنے ملک کو خود کفیل بنانے کی جانب قدم اٹھائیں۔
۱۴۔ امارت اسلامیہ کی تمام سکیورٹی اور دفاعی فورسز بڑی آزمائشوں میں کامیاب ہو جانے کے لیے ذیل کے نکات پر مضبوطی سے عمل کریں:
أ۔ نیتیں صرف اللہ تعالی کے لیے خاص کردیں!
ب۔ بڑے اور چھوٹے سب خود کو تقویٰ کی زینت سے مزین کریں!
ج۔ اللہ تعالی کا حمد اور شکر ادا کریں کہ مقدس جہاد کی برکت سے اللہ تعالی کی نصرت کے نتیجے میں یہ فتح ملی۔
د۔ انصاف، احسان، تواضع اور عاجزی سے کام لیں، تکبر، غرور، خود پسندی، ظلم، خیانت اور بے جا مصارف سے خود کو بچائیں!
ہ۔ قوم پرستی، علاقائی تعصب، لسانیت اور اقرباء پروری سے پرہیز کریں!
و۔ امارت اسلامیہ میں عزت اور اہمیت کا معیار صرف تقویٰ اور امانت داری ہو۔
ز۔ ذاتی تعلقات، رشتہ داری اور تعلقات کی بنیاد پر کسی کا تقرر نہ کریں! مناصب اور ملازمتوں پر تقرر صرف اہلیت(تقویٰ، امانت داری اور صلاحیت) کی بنیاد پر ہو۔
ح۔ آپس میں اعتماد اور بھائی چارے کی فضا قائم کریں۔ حسد، شکایات اور ایک دوسرے کی غیبت اور اسی طرح ایسی حرکتوں سے خود کو بچائیں جس سے آپس میں بداعتمادی پیدا ہو۔
ط۔ تمام مجاہدین آپس میں امربالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ نہ چھوڑیں، اپنے دفاتر، اداروں اور کیمپوں میں تعلیم و تعلم خصوصا نمازوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھیں، نمازوں کا بہت اہتمام کریں اور نمازیں جماعت سے ادا کریں!
ی۔ شہداء کے خاندانوں کی بہترین کفالت کریں! وہ مجاہدین جنہوں نے بیس سالہ جہاد کے دور میں جہاد کیا، تکالیف اٹھائیں، ان کی قدر کریں اور ان کے جہاد کی قدر کریں۔ انہیں امارت اسلامیہ کی عسکری تشکیل میں صفوں سے باہر نہ چھوڑیں۔
ک۔ عسکری صفوں کے لیے قائم کیے گئے تفتیشی کمیشن کے ساتھ تعاون کریں۔ تاکہ یہ صف نا اہل اور مفسد حکام سے پاک ہو۔
ل۔ اپنے امراء کی اطاعت کریں اور امارت اسلامیہ کے فرامین پر مضبوطی سے عمل کریں اور ان کا دفاع کریں۔
م۔ اگر کوئی اپنے کسی بڑے کو نصیحت کرنا چاہے تو مخفی طورپر کرے کیوں کہ مخفی طریقے سے نصیحت مؤثر ہوتی ہے۔ اعلانیہ نصیحت نہ کریں کیوں کہ یہ مثبت کی بجائے منفی تاثیر پیدا کرتی ہے۔
ن۔ اپنے مصارف کی حساب دہی کی ہمت پیدا کریں!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مالی امور کے ذمہ داران جن کے ہاتھوں بیت المال جمع ہوتا تھا، ان کا باریکی سے حساب کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے مالی ذمہ داران کا محاسبہ کرتے تھے۔ اس لیے مالی محاسبہ ضروری ہے۔ آپ کوشش کریں کہ اپنے بالائی حکام اور محاسبے کے لیے متعین ذمہ داران کو صحیح حساب دیں۔
س۔ اپنے دین اور وطن دشمنوں، امن دشمن عناصر، چوروں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف مستعد رہیں مگر عام لوگوں کے ساتھ نرم، محتاط اور ترحم پر مبنی رویہ رکھیں۔ بے جا الزامات اور غلط معلومات کی وجہ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ کسی کی حیثیت اور عزت پامال نہ ہو۔ کسی کی جان و مال کو ناحق نقصان نہ پہنچے۔ اس قوم کو ترحم اور شفقت کی ضرورت ہے۔ ہم ان کے خادم ہیں۔ ان کا تحفظ ہماری دینی اور ملکی ذمہ داری ہے۔ مگر خیال رہے کہ امن اور دفاع کے نام پر اپنے لوگوں کی بے قدری ہم سے نہ ہواور کوئی ہمارے اعمال کی شکایت اللہ تعالی سے نہ کرے۔
آخر میں ایک بار پھر ذکر کردوں کہ عید کے مبارک ایام میں شہداء کے خاندانوں، یتیموں، بیواؤں اور رشتہ داروں کا خاص خیال رکھیں۔ بے سہارا لوگوں سے اپنی ہمدردی اور تعاون کم نہ ہونے دیں۔
والسلام
امیرالمؤمنین شیخ القرآن والحدیث مولوی ہبۃ الله اخندزاده
۲۷ رمضان المبارک ۱۴۴۴ ھ ق – ۲۸؍۱؍۱۴۰۲ ھ ش | ۱۸؍ ۴؍ ۲۰۲۳ء
٭٭٭٭٭