تاریخ سے ادنیٰ سی واقفیت رکھنے والے بھی اگر تاتاریوں کا نام سن لیں تو ان کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ تاتاریوں کے ہولناک اور وحشتناک مظالم کی داستانیں آج بھی کمزور دل انسان کو لرزہ براندام کر سکتی ہیں۔ تاتاریوں کا حملہ ایک ایسے طوفان کی طرح ہوتا تھا کہ جو اپنے سامنے آنے والی ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے کر غارت کر دیتا تھا۔ مسلمان ان کے غیظ و غضب کا بطور خاص نشانہ بنے۔ بستیوں کی بستیاں اجاڑ دی گئیں یہاں تک کہ عباسی خلافت کے دارالحکومت، عروس البلاد، بغداد کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہا دی گئیں۔ اس صورتحال میں امت کے دو قسم کے طبقے سامنے آئے۔ ایک وہ جو تاتاریوں کو نہ ٹلنے والا عذاب سمجھ کر ان کے لیے تختہ مشق بنے رہے اور تاتاری بلاخوف و خطر ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھاتے رہے۔ جبکہ دوسرا طبقہ وہ تھا جو قدرت نہ رکھنے کے باوجود اپنے دفاع کو فرض سمجھتا تھا۔ اور الہٰی حکم،’’کتب علیکم القتال‘‘ کو اپنے لیے راہ عمل سمجھتا تھا۔ یہ مسلمان دیگر مسلمانوں کی طرح تاتاریوں کے لیے تر نوالہ نہیں بننا چاہتے تھے۔ بلکہ یہ ان کے حلق میں اٹکنے والی ہڈی بننا چاہتے تھے۔ یہ مسلمان کمزوری کا بہانہ بنا کر کفار کی تلواروں کے سامنے اپنے سر نہیں رکھتے تھے۔ نہتے ہونے کے باوجود مقابلہ کے لیے میدان میں اترے اور پھر وہ وقت بھی آن پہنچا جب ان کے دیگر بھائی بھی میدان میں آ کودے اور ان تاتاروں کو، جو اب تک صرف شکست دینے اور قتل کرنے کے عادی تھے، عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔ اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگنے میں ہی اپنی عافیت سمجھنے لگے۔ عینِ جالوت کی سرزمین گواہ ہے کیسے مٹھی بھر مسلمانوں نے غیرت و حمیت کی مثال قائم کی۔ اور ایک وحشی درندے کو لگام ڈالی۔
آج پھر امت مسلمہ کو ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔ کفار پھر سے تاتاریوں کے نقش قدم پرچل پڑے ہیں۔ خاص کر سرزمین ہند میں تو ہندو دہشتگردوں نے مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی ہے۔ ہندو بلوائی جمع ہو کر مسلمانوں کو بے تحاشا نقصان پہنچا دیتے ہیں۔ مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے اب ہندو کا ایک گولی کے برابر بھی خرچہ نہیں ہوتا، قتل کرنےکے لیے پیشہ ور قاتل (فوجی) بھی نہیں آتے بلکہ کچھ غنڈے ہی یہ کام کر جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ ہندو تو تاتاریوں جیسے بہادر بھی نہیں ہیں۔ ان کا حال تو یہ ہے کہ جب تک یہ دسیوں کی تعداد میں نہ ہوں تو یہ ایک نہتے مسلمان پہ حملہ بھی نہیں کرتے۔
آج پھر اس امر کے اعادے کی ضرورت ہے کہ عین جالوت کا میدان سجایا جائے۔ ان بزدلوں کو پانی پت کی یاد دلوائی جائے۔ان دہشتگرد ہندوؤں کے لیے لقمہ تر بننے کے بجائے ان کی آنکھ میں چبھنے والا کانٹا بنا جائے۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم اللہ کے حکم فریضۂ جہاد کو مانیں۔ مداہنت کا درس دینے والے نام نہاد ’’ مصلحت پسندوں‘‘ کو خدا حافظ کہہ کے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر اپنے اور اپنے مسلمان بھائیوں کے دفاع کے لیے جہاد شروع کریں تب ہی اللہ کی نصرت آئے گی۔ اور یہ تو ہماری آنکھوں دیکھا حال ہے کہ کیسے مٹھی بھر مجاہدین نے وقت کی سپر طاقت امریکہ کو اللہ کی مدد سے جہاد کے ذریعے شکست دی۔ کم من فئة قلیلة غلبت فئة کثیرة باذن الله.
پھر اگر یہ کفار قتل کرنے کے لیے بھی آگے بڑھیں گے تو نڈر ہو کر حملہ آور نہیں ہوں گے جیسے کہ اب ہوتے ہیں بلکہ لرزتے کانپتے لڑیں گے۔ اور یہ دنیا و آخرت کی رسوائی سے دوچار ہوں گے جبکہ ہمارے لئےلیے تو دو وعدے ہیں یا فتح یاب ہوکے غازی ٹھہریں گے یا پھر شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہونگے اور اپنے رب سے جنتوں کا سودا کرکے دنیا و آخرت میں سرخرو ہوں گے،ان شاء اللہ۔
٭٭٭٭٭