نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home عالمی منظر نامہ

اخباری کالموں کا جائزہ | ستمبر ۲۰۲۳

شاہین صدیقی by شاہین صدیقی
28 ستمبر 2023
in عالمی منظر نامہ, ستمبر 2023
0

پاکستان

 مجموعی صورتحال

پاکستان اس وقت سیاسی، اقتصادی، معاشی و معاشرتی زبوں حالی کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ مہنگائی، بجلی کے بڑھتے بلوں، پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں، بیروزگاری اور سیاسی افراتفری نے عام پاکستانی طبقے کا گلا گھونٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔

صحافتی آزادی ناپید ہے، اس صورتحال میں اخبارات میں لکھنے والے صحافی اور دانشور طبقہ بھی مایوس نظر آتا ہے۔ پس پردہ چلنے والی سازشوں کے باعث اس وقت صحافتی طبقہ اپنی جانوں کے خوف سے حق بات کرنے سے گریزاں ہے۔ لے دے کر مہنگائی اور سیاسی اضطراب ہی موضوعِ قلم رہ گیا ہے، جبکہ اس سب کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف قلم اٹھانے کی کوئی ہمت نہیں کر پاتا۔


 

پاکستان

مہنگائی اور معاشی ابتری

پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں اور بجلی کے بڑھتے بلوں نے عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ بجلی کی قیمتیں اس حد تک بس سے باہر ہو چکی ہیں کہ آئے دن لوگ بجلی کا بل ادا نہ کر سکنے کے باعث خودکشی کر رہے ہیں۔ پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں نے جہاں عام آدمی کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے وہیں صنعتوں کا چلنا بھی ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔

اس سلسلے میں مختلف کالم نویس کیا کہتے ہیں، اس کی جھلک ملاحظہ ہو:

ہوشربا مہنگائی اور بلکتے عوام | عبد الحمید

’’پاکستان کی معیشت شدید زبوں حالی کا شکار ہے۔ اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ عوام سخت نالاں ہیں لیکن مؤثر احتجاج ناپید ہے۔ مؤثر اس لیے نہیں کیونکہ مایوسی کے اندھیرے بہت گہرے ہو چلے ہیں۔

…عوام کے جذبات سے کھیلنے والوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ سڑکوں پر نکلنے والے، ماریں کھانے والوں اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والوں پر کیا گزر رہی ہے۔ ان کا کیا حال ہے اور ان کے بیوی بچوں اور بوڑھے بیمار والدین پر کیا گزر رہی ہے۔ ان کو تو اپنی بڑھتی مقبولیت سے غرض ہوتی ہے۔پاکستان کے عوام ان دنوں بجلی کے ہوشربا بلوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں لیکن احتجاج رنگ نہیں لا رہا۔ احتجاج کی قیادت کرنے والا کوئی نہیں۔ تمام سیاسی پارٹیاں یہ صورتحال پیدا کرنے کی مجرم ہیں اس لیے احتجاج میں شامل نہیں۔

…قوموں پر مشکل وقت آتے رہتے ہیں لیکن مخلص اور قابل قیادت ہو تو بھنور بھی کنارہ بن جاتا ہے۔ بدقسمتی سے فی الحال ایسی قیادت میسر نہیں اور عوام مشکلات کا ادراک کرنے سے عاری ہیں اور غلط فیصلے کرنے کے عادی۔ وہ بلاوجہ ایک کے بعد دوسرے نااہل رہنماء کے سحر میں پھنس کر اپنے مستقبل کو اندھیروں میں دھکیلتے آ رہے ہیں۔‘‘

[روزنامہ ایکسپریس نیوز]

کسی خوش فہمی میں مت رہیے گا | سہیل احمد قیصر

’’پی ڈی ایم حکومت کی ۱۶ مہینوں کی ’’شاندار‘‘ کارکردگی میں سنہری حروف میں لکھا جانے والا ایک کارنامہ مہنگی بجلی بھی ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس نے دنوں میں پوری قوم کو سراپا احتجاج بنا دیا ہے اور آج ہر کوئی بجلی کے بل ہاتھوں میں لیے بے بسی کی تصویر بنا دکھائی دیتا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد ایک دوسرے کو مبارکبادیں دینے والوں میں سے بہت سے اس وقت لندن کی ٹھنڈی اور پُر کیف فضاؤں کا لطف اٹھا رہے ہیں۔ باقی بھی اپنے اپنے معاملات میں مصروف ہو چکے ہیں اور عوام حکومت کے فیصلوں کو رو رہے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اِس مسئلے کے بہت سے ذمہ دار حکومت کے خاتمے کے بعد اب نگران حکومت کو بجلی سستی کرنے کے لیے مختلف تجاویز دے رہے ہیں۔ ایسی ڈرامے بازی شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں دیکھنے کو ملتی ہو جو ہمارے ملک میں دیکھنے میں آتی ہے۔ ملک میں اس وقت کیا ہو رہا ہے اور یہ کس ڈگر پر چل رہا ہے، کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔ سب مل کر عوام کو نوچ رہے ہیں اور اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔ ہر روز کوئی نیا ڈرامہ عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ قانون اور آئین کو پسِ پشت ڈالنا اب کسی کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ حکومت کیا کر رہی ہے، ملک کون چلا رہا ہے۔ ایسے ملک میں اگر شہریوں کے لیے اپنا پیٹ بھرنا اور بجلی کے بل ادا کرنا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہو تو حیرانی والی کوئی بات نہیں۔‘‘

[روزنامہ دنیانیوز]

مشکلِ نیست کہ آسان نہ شود، لیکن…| ڈاکٹر مجاہد منصوری

’’ہمارے غریب عوام کے انتہائی بنیادی سہولتوں سے محروم ہونے کا حجم اور رفتار تشویشناک درجے پر پہنچ کر بھی رک نہیں رہی، نئی نئی پیچیدگیوں کے ساتھ اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ نوبت مڈل کلاس اور غرباء کی تنخواہوں، پنشنوں کی ماہانہ ادائیگی تک میں تاخیر، لمبے وقفوں اور رکاوٹیں پیدا ہونے تک آگئی ہے۔ ’’آٹا‘‘ کے ساتھ اب دس اور بیس کلو کے تھیلے کی بجائے ’’کلو‘‘ کا لفظ زیادہ استعمال ہو رہا ہے جو واضح عندیہ ہے کہ بکثرت غریب آبادی کے لیے آٹا ہی نہیں مہنگی دالوں، چینی، آلو، پیاز، مٹی کا تیل اور دوائیوں کا حصول بھی مشکل ہو گیا ہے۔

اوپر سے ہر ماہ گھر گھر بجلی گرتی ہے، اب اس کا بل بم پا کر تنہا تنہا ہراسگی نے گلی محلوں ، بستی، آبادیوں میں اجتماعی رونے دھونے، احتجاج اور آہ و بکا کی شکل اختیار کر لی ہے۔ گویا مشترکہ غربت و استحصال کے شکار ساکن غربا مسکینی سے عوامی برہمی اور اس کے اظہار میں تبدیل ہو رہی ہے۔‘‘

[روزنامہ جنگ]


 

پاکستان

سیاسی افراتفری

ان حالات میں پاکستان کی سیاسی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ عمران خان کا تختہ الٹنے کے بعد ڈیڑھ سال کے لیے پی ڈی ایم (چودہ جماعتی اتحاد) نےحکومت بنائی جس میں وزیر اعظم شہباز شریف کو بنایا گیا۔ اس عرصے میں مقتدر بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی نے نہ صرف لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا بلکہ اپنے رہنماؤں بالخصوص نواز شریف، زرداری اور دیگر اہم رہنماؤں پر کرپشن کے جتنے مقدمات تھے، آئین میں ترمیم کے ذریعے سے وہ سب ختم کروا لیے تاکہ آئندہ انتخابات میں انہیں دوبارہ ملک کا بچا کچھا مال لوٹنے اور رہی سہی ساکھ ڈبونے کا موقع مل سکے۔ اب جبکہ نگران حکومت قائم ہے تو عوام میں اس نظام کے حوالے سے اتنی مایوسی پائی جاتی ہے کہ تمام جماعتیں انتخابات سے گھبرا رہی ہیں۔ آئینی طور پر تو نگران حکوم ۹۰ دن میں انتخابات کرانے کی مجاز ہوتی ہے لیکن موجودہ نگران حکومت کی طرف سے ، نہ ہی الیکشن کمیشن کی طرف سے اور نہ ہی بڑی جماعتوں کی طرف سے وقت پر الیکشن کروائے جانے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ لندن فرار ہونے والے نواز شریف نے ۲۱ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو آنے کا اعلان کیا اور اس کے بعد سابق چیف جسٹس عطاء بندیال نے شہباز حکومت میں کی گئی ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا جس کے نتیجے میں سابقہ حکومتی رہنما کرپشن کیسز سے بری ہو گئے تھے۔ اور ساتھ ہی نیب کو ان تمام کیسز کو دوبارہ کھولنے کا حکم دے دیا۔

اس حوالے سے مختلف کالم نویسوں کی آراء کے اقتباسات ملاحظہ ہوں:

سیاسی مہم جوئی | سلمان عابد

’’ہماری سیاسی اور انتخابی تاریخ یا روایت یہ ہی بتاتی ہے کہ ہمیں انتخابات سے پہلے انتخابات سے جڑے نتائج کے معاملات طے کرنے ہوتے ہیں۔ ان معاملات کو طے کرنے کے بعد ہی انتخابی سیاسی دربار سجایا جاتا ہے تاکہ اپنی پسند اور منشا کے مطابق قیادت کا انتخاب کیا جا سکے۔ اسی لیے جب فیصلہ سازوں میں کچھ اتفاق رائے ہو جائے گا تو انتخابات کا منظر نامہ بھی حتمی طور پر سجا دیا جائے گا۔

…مسئلہ محض الیکشن کمیشن ہی نہیں بلکہ اس ادارے کو انتخابی تاخیر میں جو سہولت کاری سابقہ شہباز شریف حکومت نے دی ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کیونکہ شہباز حکومت یا ان کی اتحادی جماعتوں کو انتخابات اپنے حق میں نظر نہیں آتے اور اسی بنیاد پر انتخابی تاخیر کا کھیل بڑی سوچ سمجھ کر سجایا گیا ہے۔ اسی بنیاد پر مجموعی سیاسی جماعتوں سمیت الیکشن کمیشن اور فیصلہ کن قوتیں انتخابی تاخیر کے کھیل کے ساتھ کھڑی ہیں۔ یہ جو ہمیں الیکشن کمیشن اپنی ڈھٹائی دکھا رہا ہے، اس کی اصل طاقت کہاں ہے، یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ کون ان کا ریموٹ کنٹرول چلا رہا ہے۔‘‘

[ایکسپریس نیوز]

انتخابات، بازیچۂ اطفال! | اجمل خٹک کثر

’’امور مملکت چلانے کے لیے خود کو سب سے زیادہ اہل ظاہر کرنے والے نااہل اراکینِ پارلیمان اب لطیفہ گوئی میں ایک دوسرے کو مات دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ پی پی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہماری کوئی ’ضد‘ نہیں، حلقہ بندیاں کروانی ہیں تو ’ضرور‘ کروائیں’’مگر‘‘ الیکشن کا انعقاد بروقت یقینی بنایا جائے، واہ کیا منطق ہے!

صدر مملکت نے چیف الیکشن کمیشنر کے نام خط میں لکھا ہے کہ آرٹیکل ۴۸(۵) کے تحت انتخابات اسمبلی تحلیل ہونے کے ۸۹ویں دن ہونا چاہییں۔ نگران وزیر اعظم کا فرمان ہے کہ انتخابات کی تاریخ الیکشن کمیشن دے گا، صدر نے تاریخ تجویز کر دی ہے مگر حلقہ بندیاں بھی انتخابی عمل کا حصہ ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن فرماتے ہیں کہ اگر صدر کا اختیار ہے بھی تو اس کا استعمال بدنیتی پر مبنی ہے۔ رانا ثناء اللہ کا ارشاد ہے کہ صدر کے خط کی کوئی اہمیت نہیں۔ اب آئینی اور قانونی ماہرین کہے جانے والے بھی منقسم ہیں۔ گویا استاد غالب نے پاکستانی جمہوریت کے رکھوالوں کے حوالے سے ہی کہا ہو گا:

بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے

[روزنامہ جنگ]

Nawaz Sharif’s return | Editorial & Opinion

ترجمہ: ’’ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) اگلی حکومت بناتی ہے تو کیا ہو گا؟ نواز ایک ایسے ملک میں واپس آ رہا ہے جہاں پرویز مشرف دور کے بعد پہلی بار اسٹیبلشمنٹ سیاسی فیصلہ سازی میں مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے کھل کر سامنے آگئی ہے۔ کیا نواز بھی شہباز کی طرح فرمانبردار اور مؤدب ہوگا، یا وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکر لے گا، ماضی میں جو رویہ کم از کم دو بار اس کی وزارت عظمیٰ کے قبل از وقت خاتمے کا باعث بنا؟‘‘

[Express Tribune]


 

پاکستان

مجموعی تبصرہ

پاکستان اس وقت ایسے سنگین حالات کا شکار ہے کہ غریب عوام کا چولہا جلنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ سیاسی، معاشی و معاشرتی انحطاط کا سبب وہ غلط راستہ ہے جس پر پاکستان بحثیت مجموعی چل رہا ہے۔ غلط قیادت، غلط راستہ، غلط منزل ہے جو آہستہ آہستہ پاکستان کو ایک ایسی دلدل میں دھنسا رہی ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔اس دلدل سے باہر نکلنے کے لیے واحد راستہ اللہ کی رسی کو تھامنا ہے۔ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا (سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو)۔ پاکستانی عوام پچھلے ۷۶ سالوں سے اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ جمہوریت ہی ان کو برے حالات سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرے گی۔ ’’حقیقی جمہوریت‘‘، جس کا کوئی وجود ہی نہیں ، یہ محض ایک دھوکا ہے، ایک سراب ہے، جو مزید تنزلی کی طرف لے کر جانے والا ہے۔

اگر آج پاکستان کے عوام جاگ جائیں، مغرب کے غلاموں، لٹیروں کی حمایت کو مسترد کر دیں اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں، اُسی کے راستے کی طرف بڑھیں اور اسی کے حکم کے نفاذ کے لیے اٹھیں تو پستی کی اس دلدل سے نکل کر آج بھی عروج حاصل کر سکتے ہیں۔ ہماری روشن تاریخ اس کی گواہ ہے…!

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی ﷺ


 

انڈیا

تعلیمی اداروں میں مسلمانوں سے نفرت کی تربیت

ہندوستان کے مسلمانوں پر وحشی ہندو بلوائیوں کی یلغار جاری ہے۔ کبھی زبان سے، کبھی ہجوم زنی کی شکل میں تشدد کر کے کہیں مسلمان خواتین کی عزت پر ہاتھ ڈال کر، ببانگ دہل ہر طرح کے وار جاری ہیں۔ ہندوستانی میڈیا بھلے ہی حقیقت کو چھپائے، لیکن سوشل میڈیا پر خود یہ ہندو بڑے فخر سے اپنے کارنامے شیئر کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اجتماعی طور پر مسلمانوں کی غیرت جاگتی اور یہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے لیے متحد ہوکر اس پر کوئی ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دیتے، مگر یہ ہو نا سکا…

اور اب ان کی مسلمانوں سے نفرت اس قدر بڑھ گئی کہ تعلیمی اداروں میں بچے بچے کے دماغ میں مسلمانوں کے خلاف زہر بھرا جا رہا ہے۔ جس کی تازہ مثال اترپردیش کے ضلع مظفر نگر کے ایک چھوٹے سے سکول میں مسلمان بچے کے ساتھ وہ ناروا سلوک ہے جس کی ویڈیو وائرل ہوئی۔

جس میں ایک ہندو سکول ٹیچرمسلمان طالب علم کے مذہب پر توہین آمیز تبصرہ کررہی ہے اور باری باری بچوں کو بلا کر اس مسلمان بچے کو تھپڑ مارنے کا کہہ رہی ہے اور سارے بچے باری باری آ کر اس کے گال پر تھپڑ مار رہے ہیں۔ یہ واقعہ اس قدر دل دہلا دینے والا تھا کہ مسلمان تو مسلمان مغربی میڈیا بھی اس کے خلاف بول اٹھا۔ لیکن بھگوا حکومت کے کارندوں نے دکھاوے کے لیے معمولی سا مقدمہ بنا دیا لیکن اس ابلیس نما ٹیچر کو گرفتار نہیں کیا۔

انہیں دنوں ہندوستان کے مشن ’چندریان ۳‘ کی چاند پر کامیاب لینڈنگ پر پورے ہندوستان میں جشن منایا جا رہا تھا اور دوسری طرف مسلمانوں کے بچوں تک کو بھگوا متعصب ذہنیت کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔

اس حوالے سے مختلف کالم نویسوں کی آراء کے اقتباسات ملاحظہ ہوں:

India’s Hindu children are being radicalized – will the country speak up? | Apoorvanand

ترجمہ: ’’مسلمانوں اور عیسائیوں کے تئیں اس نفرت کا ایک بڑا ذریعہ آر ایس ایس سے وابستہ تنظیموں کے زیر انتظام تعلیمی اداروں کی چین ہے۔ان اداروں کے نصاب اور سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیےتحقیق کی گئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نوجوان ذہنوں میں قوم پرستی کو ابھارتے ہیں ، جو کہ مسلم مخالف اور عیسائی مخالف نفرت کے مترادف ہے۔

بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ ہندوستان ہندوؤں کی سرزمین رہا ہے، جس میں مسلمان اور عیسائیوں نے دراندازی کی ہے۔ اور یہ کہ ہندو تمام پہلوؤں سے ہمیشہ بہترین رہے ہیں، اور یہ کہ یہ مسلمان حکمران تھے جنہوں نے انہیں ذلیل کیا اور انہیں اپنا غلام بنا لیا، اور یہ کہ ملک کے ماضی کی شان کو دوبارہ حاصل کرنے کا واحد طریقہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو سبق سکھانا ہے۔

ایک بار جب نفرت معمول کی بات بن جاتی ہے، تو تشدد کا آنا فطری عمل ہے۔

باوجود اس کے کہ بی جے پی اس سب سے سیاسی فوائد حاصل کرے گی، اس منصوبے کے طویل مدتی نتائج ہندوستان کے ہندوؤں کو بھی بھگتے پڑیں گے۔ گھروں اور تعلیمی اداروں کو بنیاد پرستی کا گہوارہ بنا کر ہندو بچوں کی ایک نسل کو نادانستہ طور پر مجرموں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔‘‘

[Al-Jazeera English]

نفرت کی سیاست کے تباہ کن نتائج | معصوم مراد آبادی

’’جس وقت یہ واقعہ منظرِ عام پر آیا تھا تو اسی وقت چاروں طرف سے یہ مطالبات کیے جانے لگے کہ خاطی ٹیچر کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جانی چاہیے، لیکن اس خاتون ٹیچر کے عمل کی مذمت کرنے کے باوجود حکمران طبقے کے لوگ اس کے دفاع میں آگئے کیونکہ معاملہ ایک مسلمان بچے کا تھا۔ ہو سکتا ہے مستقبل میں یہ خاتون ٹیچر حکمران جماعت کی کوئی اہم لیڈر بن جائے اور اسے الیکشن کے میدان میں بھی اتار دیا جائے۔ دراصل اس ملک میں نفرت کا کاروبار اس لیے پھل پھول رہا ہے کہ اس قسم کی زہریلی ذہنیت والے عناصر کو ایک فاسد سیاسی سوچ تحفظ فراہم کر رہی ہے، جبکہ اس کے برعکس اگر کہیں کسی مسلمان سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اسے سخت ترین سزا دی جاتی ہے۔‘‘

[روزنامہ اعتماد]

کیا ملک کی اسکولیں ہندو تنظیموں کی شاکھائیں بن گئی ہیں؟ | ندیم عبد القدیر

’’جہاں شاکھاؤں کے بارے میں عام لوگوں کو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان شاکھاؤں میں مسلم نفرت کی ہی تعلیم ملے گی وہیں اسکولوں کے بارے میں ایسا گمان نہیں ہوتا۔ اسکولوں کے بارے میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہاں اخلاق و تہذیب کی تعلیم دی جاتی ہے اور بچوں کو بااخلاق انسان بنایا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے اسکولوں میں ہوتا بھی یہی ہے لیکن ہندوستان کے اسکولوں کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں انسانیت کی تعلیم کی بجائے مسلم نفرت کے درس دیے جا رہے ہیں اور کچے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف زہر کی کاشتکاری کی جا رہی ہے۔ یہ پوری نسل جب اپنے دماغ میں مسلمانوں سے نفرت کا انبار لے کر اسکولوں سے نکلے گی تو صورتحال کس قدر دھماکہ خیز ہوجائے گی اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتاہے۔ یہ رجحان ملک کو جانوروں کے باڑے میں بدل دے گا جہاں ہر کوئی مسلمان کے خون کا پیاسا ہو گا۔‘‘

[روزنامہ اردو ٹائمز]


 

انڈیا

مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں میڈیا کا کردار

ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور مسلمانوں کی منفی انداز مین تصویر کشی کرنے میں ہندوستانی میڈیا کا جو کردار رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ’لوْ جہاد‘ (love jihad) ، ’تھوک جہاد‘ اور اس طرح کی دیگر کئی عجیب و غریب اصطلاحات اور مسلم منافرت پر مبنی نعرے ہندوستانی میڈیا ہی کی ایجاد ہیں، جن کے استعمال سے پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ کو مزید بھڑکایا جاتا ہے۔

اس موضوع پر روزنامہ منصف حیدرآباد سے ایک مضمون شائع ہوا جس میں راقم نے روانڈا میں اقلیت کے قتلِ عام میں میڈیا کے کردار کو ہندوستانی میڈیا کے کردار سے مشابہت دی ہے۔ ملاحظہ ہو:

فرقہ وارانہ تصادم میں میڈیا کا کردار | محمد علم اللہ

’’ہندوستان میں فرقہ واریت ایک اہم مسئلہ ہے، جو آنے والی نسلوں کے لیے ایک ناسور ہے۔ لوگ اس کے خلاف لڑائی لڑ رہے ہیں اور اپنے اپنے انداز میں اس کو ختم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہندستان کا میڈیا اس سماجی بیماری کو پھیلنے سے روکنے کی بجائے سماج میں مزید نفرت پھیلانے اور لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف زہر گھولنے اور منفی رجحانات کو ہوا دینے میں اپنی کوششیں صرف کر رہا ہے۔

…اس سلسلے میں روانڈا میں ہونے والی نسل کشی کی مثال پیش کی جا سکتی ہے، جس میں ۶ اپریل ۱۹۹۴ء کو بے نظیر افریقیوں کو ختم کرنے میں میڈیا کی کارستانی کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ … میڈیا کے جھوٹے پروپگنڈوں کی وجہ سے صرف سو دنوں میں آٹھ لاکھ افراد کو ہلاک کیا گیا۔ روانڈا میں دو قبائل آباد تھے، ایک ’ہوتو‘ جو اکثریت میں تھے اور دوسرے ’ٹوٹسی‘ جو اقلیت میں تھے۔ روانڈا کے صدر کے طیارے کو اینٹی ائیر کرافٹ میزائل سے اڑا دیا گیا۔ صدر کا تعلق اکثریتی قبیلے سے تھا اور فوجی کمان بھی۔ اس قتل کا الزام ٹوٹسی قبیلے پر لگا۔

…تعصب کیا کچھ کر سکتا ہے یہ کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا۔ ہمارے میڈیا کی طرح ریڈیو روانڈا کے ذریعے اس اقلیتی کمیونٹی کے خلاف مسلسل زہر افشانی کی گئی اور ’ٹوٹسیوں‘ کو’ کاکروچ‘ کہہ کر مار ڈالنے کے پیغامات نشر ہوئے۔

…روانڈا میں اُس وسیع قتلِ عام کے پیچھے میڈیا کا نفرت انگیز رویہ کارفرما تھا۔ جس نے ایک خاص کمیونٹی کے خلاف اتنا پروپگنڈہ کیا کہ لوگ متنفر ہو کر سڑکوں پر نکل آئے اور وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔

…اس تناظر میں اپنے ملک کے میڈیا کا جائزہ لیجیے، پورے ملک میں گزشتہ چند سالوں میں ہونے والے ہجومی تشدد کی تفصیلات دیکھیے۔ جامعہ اور شاہین باغ میں گولی چلائے جانے کے واقعے کو یاد کیجیے۔ بنگلور، بھوپال، یوپی، بنگال اور چنئی میں سی اے اے اور این آر سی کے تعلق سے ہو رہے پر امن احتجاجات، اس پر میڈیا اور پولیس کے رویے کو دیکھیے، منی پور میں میڈیا کے رویے کا جائزہ لیجیے۔ ابھی حال ہی میں میوات کے فسادات اور ٹرین میں ایک متعصب ہندو سی آر پی ایف کے جوان کے ذریعے نہتے مسافروں پر حملہ اور اس کے بعد میڈیا کے رویے کو دیکھیے تو آپ کو روانڈا کے واقعے سے مشابہت نظر آئے گی۔ سی اے اے کی آمد، اس پر احتجاج اور اس احتجاج کے بعد جامعہ، جے این یو اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہنگامہ اور اس پورے معاملے پر میڈیا کا جو رویہ رہا،اس پر غور کیجیے۔

…میڈیا کے اس عمل کی وجہ سے افراد اور گروہوں کے خلاف نفرت انگیز پیغامات وبائی امراض کی طرح پھیلتے جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہم ملک میں نت نئے واردات ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ جمہوری طور پر احتجاج کرنے والے لوگوں پر گولیاں چلائی جا رہی ہیں۔ ’گاؤ ہتیا‘ کے نام پر لوگوں کی ’لنچنگ‘ کی جا رہی ہے۔ نہتے احتجاجیوں پر غنڈے حملہ کر رہے ہیں، پولیس جب جس کو چاہتی ہے، اٹھا کر لے جاتی ہے، گولی مار دیتی ہے مگر بجائے اس کے کہ میڈیا اس کی گرفت کرے، سوالات کھڑے کرے، ایسا لگتا ہے وہ ظالموں کی حمایت کر رہا ہے، انہیں بچانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ہمارے یہاں یہ رجحان اس قدر غالب ہو گیا ہے کہ اب لوگ اس کو معیوب بھی نہیں سمجھ رہے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف شہریوں اور اداروں کی ساکھ تباہ ہو رہی ہے بلکہ بہت سی جانیں بھی داؤ پر لگ رہی ہیں۔ جو صورتحال اس وقت ہے، اگر اسے بدلنے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو تباہی و بربادی کو گلے لگانے کے لیے ہمیں تیار رہنا ہوگا، کیوں کہ نفرتوں کی شاخوں پر محبتوں کے پھول کبھی نہیں کھل سکیں گے۔

[روزنامہ منصف، حیدر آباد]


 

انڈیا

G20 کا سربراہی اجلاس

G20 بین الاقوامی اقتصادی تعاون کا سب سے بڑا فورم ہے جو دنیا کے ۱۹ بڑے ممالک اور یورپی یونین پر مشتمل ہے۔ ان ممالک کی تجارت عالمی تجارت کا اسّی فیصد ہے جبکہ ان ملکوں کی آبادی عالمی آبادی کا ساٹھ فیصد ہے۔ اس لحاظ سے ہندوستان بڑی معیشتوں میں پانچویں نمبر پر ہے۔ G20 کا اجلاس ہر سال کسی نہ کسی رکن ملک میں منعقد ہوتا ہے۔ اس سال اس کا انعقاد ہندوستان میں ہوا۔ جس کا میڈیا نے خوب زور و شور کے ساتھ پراپگنڈہ کیا۔ جہاں ایک طرف سرکاری میڈیا خوب اس کی تشہیر کر رہا ہے وہیں کچھ صحافی اور دانشور مودی حکومت کے رویے پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے مختلف کالم نویسوں کی آراء کے اقتباسات ملاحظہ ہوں:

ہم نے انسانوں کے دکھ درد کا حل ڈھونڈ لیا ہے……!!! | خیال اثر

جی 20 کانفرنس کتنی کامیاب ہوئی اور کتنی ناکام اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا، لیکن یہ طے ہے کہ ایک غیر ترقی یافتہ غریب ملک نے جو خطیر خرچ جی 20 کانفرنس کے لیے کیا ہے وہ تاریخ کا ایک ایسا تاریک ترین گوشوارہ ہے جس کے دریچوں سے کیا کھویا کیا پایا جیسے سرخیاں اور متن نکل کر بھوکے پیاسے ننگ دھڑنگ ہندوستانیوں کو حیرت و استعجاب میں مبتلا کیے جا رہے ہیں، کیونکہ دنیا کی ۲۰ بڑی معیشتوں کی میزبانی امسال حکومتِ ہند کے ذمہ رہی تھی جس پر مودی حکومت نے ۲۶ ہزار کروڑ کی اضافی رقم خرچ کی تھی۔ بے روزگاری اور مہنگائی کی ماری ہوئی ہندوستانی عوام کی خدمت عالی میں دیارِ ہند کا ذوق میزبانی اور یہ بے مثال قربانی کسی تازیانے سے کم نہیں کیونکہ آج بھی ہندوستان کے بیشتر پچھڑے ہوئے علاقوں کی بے کس و بے بس عوام چند روٹی کے ٹکڑوں اور پانی کے چند قطروں کے لیے ترس رہی ہے جب کہ جی ۲۰ میں شامل ممالک کو ہندوستان کی غریبی کا بدنما چہرہ دکھانے کی بجائے مودی حکومت نے ان پر ایسے دبیز پردے ڈال رکھے تھے کہ ہندوستان کا یہ کوڑھ زدہ حصہ تمام امیر ممالک کی نگاہوں سے چھپ جائے۔‘‘

[روزنامہ اردو ٹائمز]

جی ۲۰، اور نریندر مودی حکومت کے دعوے | پی چدمبرم

’’…دہلی کو بڑے پیمانہ پر سجایا سنوارا گیا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دہلی میں اس قدر سجاوٹ کی گئی کہ یہ سجاوٹ ایک شہر کے لیے بہت زیادہ تھی۔ …جی ۲۰ اجلاس میں ایک بات جو سب نے نوٹ کی وہ یہ ہے کہ سارے شہر میں ہر طرف ایک ہی چہرہ دکھائی دے رہا تھا۔ یہاں تک مہمان رہنماؤں کو کسی بھی بل بورڈ میں تھوڑی سی جگہ کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ ہر طرف مودی جی کی تصاویر پر مبنی بل بورڈ آویزاں کیے گئے تھے۔

…مودی جی کی سب سے بری خوبی یہ ہے کہ عکس بندی کے دوران کیمرہ کے فریم میں اپنے کسی وزیر کو جگہ نہیں دیتے بلکہ وہ اپنے کابینی رفقاء کو کیمرہ کے فریم میں ایک انچ جگہ دیے بغیر اس (فریم) پر پور ی طرح قبضہ کرنا اچھی طرح جانتے ہیں۔ جی ۲۰ اجلاس کے دوران ہمارے عزت ماب وزیر اعظم نے اپنی مرضی و منشاء کے عین مطابق میڈیا کو دور رکھا۔ انہوں نے نہ صرف خود میڈیا سے فاصلہ برقرار رکھا بلکہ ان کی حکومت نے اس امر کو بھی یقینی بنایا کہ امریکی صدر جو بائیڈن ان سے بات کرنے ان سے سوالات کرنے کے لیے بے چین صحافیوں سے کوئی سوال نہ کریں۔ مودی جی کی اس روش سے امریکی وفد اس قدر مایوس ہوا کہ ان لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ مسٹر جو بائیڈن کا اگلا پڑاؤ ویتنام ہوگا اور وہاں وہ جی ۲۰ سے متعلق سوالات کے جوابات دیں گے۔‘‘

[روزنامہ اردو ٹائمز]


 

فرانس

فرانس کے سکولوں میں عبایہ پر پابندی

فرانس کی حکومت نے سکولوں میں مسلمان طالبات پر عبایہ یا گاؤن پہن کر آنے پر پابندی لگا دی ہے جس کی وجہ سے سیکڑوں مسلمان طالبات کو عبایہ یا گاؤن پہننے کی وجہ سے سکولوں میں داخلے سے روک دیا گیا ہے۔ فرانس کے مسلمانوں نے وہاں کی عدالت عالیہ میں اس حکم نامے کے خلاف کیس دائر کیا ، لیکن وہاں کی عدالت نے حکومتی اقدام کو برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا۔ یہ قانون بھی فرانس میں حکومتی سطح پر بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کا ہی ایک مظہر ہے۔

ایک طرف ایران میں حجاب کی پابندی پر پورا مغرب ایسے تڑپ رہا ہے جیسے عورت سے جینے کا ہی بنیادی حق چھینا جا رہا ہے، افغانستان میں امارت اسلامیہ کو عورتوں کے حقوق کے بارے میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو دوسری طرف فرانس میں مسلمان طالبات پر ان کے عبایہ کی وجہ سے تعلیم کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں۔

فرانس میں چہرے کے پردے پر تو ۲۰۰۴ء سے ہی پابندی ہے ، اب حکومت بتائے گی کہ کس طرح کا لباس پہننے کی اجازت ہے۔ اسی فرانس میں اگر کوئی بالکل بے لباس بھی نکل آئے تو اسے آزادی حاصل ہے لیکن خصوصاً مسلمان عورت کے لیے اپنے آپ کو ڈھانپنے پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ اس ضمن میں ڈھیلے ڈھالے گاؤن نما کپڑے مثلاً میکسی وغیرہ پہنی ہو تو پہلے سکول انتظامیہ یہ دیکھے گی کہ آیا طالبہ مسلمان ہے یا غیر مسلم۔ اگر غیر مسلم ہے تو اسے اجازت ہو گی اور اگر مسلمان ہے تو اس پر ’’مذہبی بنیاد‘‘ پر لباس منتخب کرنے کی بدولت پابندی ہو گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہاں کے مسلمان کب تک اس ذلت و رسوائی کے ماحول میں جیتے رہیں گے؟ کل نقاب پر پابندی آج عبایہ کے خلاف اقدام… آگے مزید کس چیز کا انتظار ہے؟

عالمی میڈیا پر مسلمان خصوصاً مسلمان خواتین غم و غصے کا شکار ہیں۔ اس سلسلے میں ایک مضمون سے اقتباس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔

Global hypocrisy on display after French schools abaya ban | Nadeine Asbali

’’جب پورے ایران میں مظاہرے پھوٹ پڑے اور خواتین نے ریاست کی طرف سے حیا کے قوانین کے متعصبانہ اور متشدد اطلاق کے خلاف اپنے حجاب اتار پھینکے تو پوری مغربی دنیا اٹھ کھڑی ہوئی۔

اعلیٰ سطح کی حقوق نسواں کی علمبرداروں نے ایران کی خواتین کے لیے روتے ہوئے اپنی ویڈیوز پوسٹ کیں۔ یورپی سلیبریٹیوں(celebrities) نے اظہارِ یکجہتی کی خاطر اپنے سر منڈوا لیے۔ عورتوں نے ٹک ٹاک پر اور عوامی مقامات پر سر کے سکارف جلائے۔

لیکن حال ہی میں ایک اور ریاست نے اس سے ملتا جلتا قانون منظور کیا ہے، یہ قانون کا تعلق بھی ان تفصیلات کے ساتھ ہے کہ عورتوں کو کس طرح کا لباس پہننا چاہیے۔ فرانسیسی حکومت نے ریاستی سکولوں میں عبایہ پر پابندی عائد کر دی ہے، حتیٰ کہ حالیہ دنوں میں اسلامی لباس میں آنے والے طلباء کو اجتماعی طور پر سکول سے باہر کر دیا گیا۔

لیکن اس سب میں عبایہ پابندی پر عالمی ردّ عمل ہے جو سب سے زیادہ چونکا دینے والا ہے۔ اور عالمی ردّ عمل سے میری مراد اس کا نہ ہونا ہے۔

شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ، اس بار، یہ کوئی مسلمان حکومت نہیں تھی جو خواتین کو کیا انتخاب کرنا چاہیے اس کی ہدایات جاری کر رہی تھی۔ آخر کار، فرانس جنگ اور جبر سے وابستہ مشرق وسطیٰ کی کسی قوم سے تعلق رکھنے کی بجائے ، روشن خیال، ترقی پسند( یعنی دوسروں سے برتر) مغربی دنیا کا حصہ ہے ۔ یا ہوسکتا ہے یہ مخصوص جنسی اصول رجعت پسند مذہبی معیارات رکھنے والے کسی غصے والے، بھورے، داڑھی والے آدمی کی بجائے سوٹ پہنے ہوئے ایک سفید فام آدمی نے آزادی کے نام پر بنائے ہیں۔

وجہ جو بھی ہو، یہ خاموشی بہرا کر دینے والی ہے۔ جہاں ایران کے معاملے میں عالمی سطح پر اخلاقی غم و غصہ پایا جاتا تھا، ذاتی اور وسیع تر سیاسی دونوں سطحوں پر، اس بار کچھ بھی نہیں ہے۔ کہاں ہیں وہ ’انفلوئینسرز‘ (Influencers) جو اپنے بہترین میکسی لباس پہن کر فرانس میں اس پابندی سے متاثر ہونے والی مسلم خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں؟ کہاں ہیں وہ سلیبریٹیز (celebrities) جو خواتین کے حقوق کی پامالی کے خلاف فرانس کے بائیکاٹ کا اعلان کریں؟

حقیقت یہ ہے کہ فرانس کے معاملے میں دنیا بالکل گونگی ہو گئی ہے کیونکہ حقوق نسواں، یا کم از کم اس کی (زیادہ سفید فام) مغربی شکل کو، جب معاملہ مسلمان عورت کا آتا ہے تو، بہت مسئلہ ہوجاتا ہے۔

لباس کے طور پر عبایہ کے بارے میں آپ کی اپنی ذاتی رائے سے قطع نظر، اس پابندی کے بارے میں تھوڑا سا کھوج لگائیں تو اس کی منافقت، مضحکہ خیزی اور سراسر نسل پرستی کھل کر سامنے آجائے گی۔ میکسی لباس کیا ہے اور ایک عبایہ کیا ہے اس کا تعین کیسے کیا جائے سوائے یہ دیکھنے کے کہ اسے پہننے والا ’’مسلمان‘‘ کیسا لگتا ہے؟ اور اگر لباس کے غیر قانونی ہونے کا انحصار اس بات پر ہے کہ اسے کون پہن رہا ہے تو پھر یہ ناقابل تردید اسلاموفوبیا کے علاوہ اور کیا ہے؟

اگر آپ کی فیمنزم خواتین کو حجات اتارتے ہوئے دیکھ کر بھڑکت اٹھتی ہے لیکن جب وہی مسلمان خواتین اپنے آپ کو ڈھانپنے کا انتخاب کرتی ہیں تو آپ کی فیمنزم کو کوئی فرق نہیں پڑتا تو پھر آپ کی فیمنزم سفید فام عورتوں کے علاوہ کسی کی خدمت نہیں کر رہی۔ اور جیسا کہ دنیا فرانس کی مسلم خواتین کے جسموں پر مسلسل کریک ڈاؤن کے بارے میں خاموشی اختیار کر رہی ہے، اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے آپ سے پوچھیں کہ ہم کچھ خواتین کے انتخاب کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ حمایت کے لائق کیوں دیکھتے ہیں؟‘‘

[The New Arab]

٭٭٭٭٭

Previous Post

تاتاریوں کی یلغار اور مظلوم امت

Next Post

’سیلف ڈیفنس!‘

Related Posts

علاجے نیست
عالمی منظر نامہ

علاجے نیست

17 اگست 2025
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے!
عالمی منظر نامہ

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے!

17 اگست 2025
اخباری کالموں کا جائزہ | اگست ۲۰۲۵ء
عالمی منظر نامہ

اخباری کالموں کا جائزہ | اگست ۲۰۲۵ء

16 اگست 2025
خیالات کا ماہنامچہ | جولائی ۲۰۲۵ء
عالمی منظر نامہ

خیالات کا ماہنامچہ | اگست ۲۰۲۵ء

14 اگست 2025
اسرائیل اور امریکہ میں شیطان پرستی اور بچوں کا قتل
عالمی منظر نامہ

اسرائیل اور امریکہ میں شیطان پرستی اور بچوں کا قتل

14 جولائی 2025
اخباری کالموں کا جائزہ | جولائی ۲۰۲۵ء
عالمی منظر نامہ

اخباری کالموں کا جائزہ | جولائی ۲۰۲۵ء

13 جولائی 2025
Next Post
’سیلف ڈیفنس!‘

’سیلف ڈیفنس!‘

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version