ایک لمحہ آئے گا کہ جب ہر زندہ چیز کا وجود ختم ہوجائے گا، حیات کی ہر قسم موقوف ہو جائے گی۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ﴾ (سورۃ الرحمان: ۲۶)
’’ جو کوئی بھی اس (زمین) پر ہے فنا ہونے والا ہے ‘‘۔
سطح زمین پر موجود ہر وجود مرجائے گا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿مَا يَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً تَاْخُذُهُمْ وَهُمْ يَخِصِّمُوْنَ ﴾ (سورۃ یس: ۴۹)
’’ یہ لوگ نہیں انتظار کر رہے مگر ایک چنگھاڑ کا ‘ وہ انہیں آپکڑے گی اور یہ (اسی طرح) جھگڑ رہے ہوں گے ‘‘۔
قیامت اچانک آئے گی
یہ اس قدر اچانک ہوگا کہ ابھی لوگ کسی مباحثے اور مناظرے میں مشغول ہی ہوں گے کہ سب کچھ تھم جائے گا۔ اپنے گھر والوں کو کوئی نصیحت کرنے کا کوئی وقت ملے گا اور نہ ہی کسی نامکمل کام کو مکمل کرنے کا۔ جب وہ وقت آجائے گا، جب قیامت واقع ہوجائے گی تو سب کچھ بند ہوجائے گا؛ زندگی کی ہر قسم کا خاتمہ ہوجائے گا۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ تَوْصِيَةً وَّلَآ اِلٰٓى اَهْلِهِمْ يَرْجِعُوْنَ ﴾ (سورۃ یس: ۵۰)
’’ پھر نہ تو وہ کوئی وصیت ہی کرسکیں گے اور نہ ہی اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ کر جاسکیں گے۔ وہ تو بس ایک زور دار چنگھاڑ تھی ‘ تو جبھی وہ سب بجھ کر رہ گئے ‘‘۔
جب قیامت آجائے گی تو سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ یہ اتنا اچانک آئے گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
وَقَدْ نَشَرَ الرَّجُلَانِ ثَوْبَهُمَا بَيْنَهُمَا فَلَا يَتَبَايَعَانِهِ وَلَا يَطْوِيَانِهِ وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَةُ وَقَدْ انْصَرَفَ الرَّجُلُ بِلَبَنِ لِقْحَتِهِ فَلَا يَطْعَمُهُ وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَةُ وَهُوَ يَلِيطُ حَوْضَهُ فَلَا يَسْقِي فِيهِ وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَةُ وَقَدْ رَفَعَ أَحَدُکُمْ أُکْلَتَهُ إِلَی فِيهِ فَلَا يَطْعَمُهَا (بخاری)
’’( قیامت اس قدر جلد آجائے گی کہ) دو آدمیوں نے کپڑا کھولا ہوگا لیکن وہ خرید و فروخت نہیں کرسکیں گے اور نہ اسے لپیٹ ہی سکیں گےجبکہ ایک آدمی اپنی اونٹنی کا دودھ لے کر آرہا ہوگا اور وہ اسے پی نہیں سکے گا، اور قیامت اس حال میں آجائے گی کہ ایک شخص اپنا حوض تیار کررہا ہوگا اور اس سے پانی نہیں پی سکے گا۔ اور قیامت آجائے گی جبکہ ایک آدمی اپنا لقمہ اپنے منہ کی طرف اٹھائے گا اور وہ اس کو کھا نہیں سکے گا ‘‘۔
قیامت کیسے آئے گی؟
قیامت صور میں پھونک مارنے سے آئے گی۔ صور کا ذکر قرآن پاک میں کئی جگہ آیا ہے۔ صور ایک سینگ ہے، بگل،اور اسے اللہ رب العزت کے مقرب فرشتے اسرافیل علیہ السلام نے تھام رکھا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسرافیل علیہ السلام کو دیکھا اور آپ نے فرمایا:
’’صور پھونکنے والا فرشتہ اس وقت سے تیار عرش کی طرف دیکھ رہا ہے جب سے اسے صور دیا گیا ہے اور وہ آنکھ بھی نہیں جھپک رہا کہ کہیں اسی اثنا میں اسے حکم نہ دے دیا جائے‘‘۔ (مستدرک حاکم)
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں سے یہ مشاہدہ فرما لیا کہ فرشتے کی بڑے چمک دار ستاروں کی مانند روشن نگاہیں اللہ رب العزت کے عرش کی جانب جمی ہیں، اللہ رب العزت کے حکم کے انتظارمیں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل سے دنیا کی ہر شے کی رغبت و چاہت بالکل ہی ختم ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کَيْفَ أَنْعَمُ وَقَدْ الْتَقَمَ صَاحِبُ الْقَرْنِ الْقَرْنَ وَحَنَی جَبْهَتَهُ وَأَصْغَی سَمْعَهُ يَنْتَظِرُ أَنْ يُؤْمَرَ أَنْ يَنْفُخَ فَيَنْفُخَ قَالَ الْمُسْلِمُونَ فَکَيْفَ نَقُولُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ قُولُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَکِيلُ رَبّنَا عَلَی اللَّهِ تَوَکَّلْنَا (جامع ترمذی)
’’ میں کس طرح آرام کروں جب کہ صور پھونکنے والے نے صور کو منہ لگایا ہے۔ وہ اپنی پیشانی جھکائے اور کان لگائے انتظار کررہا ہے کہ کب اسے پھونکے کا حکم دیا جائے اور وہ پھونکے۔ مسلمانوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم کیا کہیں (اس وقت) ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہو (یعنی ہمیں اللہ کافی ہے وہ بہترین وکیل ہے، ہم اپنے رب اللہ پر ہی توکل کرتے ہیں)‘‘۔
یعنی کیفیت یہ ہے کہ صاحب الصور صور منہ میں لیے تیار کھڑے ہیں، نگاہیں عرش کی طرف اور کان حکم کی طرف متوجہ تو اس وقت کس طرح دنیا کی کسی چیز میں دلچسپی لی جا سکتی ہے جبکہ مجھے خوف ہے کہ کسی بھی وقت صور میں پھونک مار دی جائے گی۔
کس دن صور میں پھونک ماری جائے گی؟
جمعے کے دن۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ فِيهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ (مسلم)
’’ حضرت ابو ہریرہؓ سے روا یت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بہترین دن جس میں سورج نکلتا ہے جمعے کا ہے؛ اسی دن آدمؑ کو پیدا کیا گیا تھا اور اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا اور اسی میں انھیں اس سے نکالا گیا (خلا فت ارضی سونپی گئی ) اور قیامت بھی جمعے کے دن ہی برپا ہوگی ‘‘۔
ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تمام دن میرے سامنے پیش کیے گئے، میں نے دیکھا کہ جمعے کا دن ایک سفید آئینے کی مانند ہے، بہت ہی روشن اور شفاف؛ مگر پھر میں نے دیکھا کہ اس کے درمیان ایک گہرا دھبہ ہے، میں نے پوچھا کہ یہ دھبہ کیسا ہے؟ تو مجھے بتایا گیا کہ یہ قیامت ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ فِيهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيهِ أُهْبِطَ وَفِيهِ تِيبَ عَلَيْهِ وَفِيهِ مَاتَ وَفِيهِ تَقُومُ السَّاعَةُ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ إِلَّا وَهِيَ مُسِيخَةٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ مِنْ حِينَ تُصْبِحُ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ شَفَقًا مِنْ السَّاعَةِ إِلَّا الْجِنَّ وَالْإِنْسَ (ابو داؤد)
’’ سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے ، جمعے کا دن ہے۔ اس میں آدم پیدا کیے گئے ، اسی میں ان کو زمین پر اتارا گیا ، اسی میں ان کی توبہ قبول کی گئی ، اسی دن ان کی وفات ہوئی اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ جمعہ کے دن صبح ہوتے ہی تمام جانور قیامت کے ڈر سے کان لگائے ہوئے ہوتے ہیں حتیٰ کہ سورج طلوع ہوجائے ، سوائے جنوں اور انسانوں کے ۔ ‘‘
صرف ہم انسان ہی ہیں جو غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں۔ حیوانات کو بھی فکر ہے، وہ بھی آگاہ ہیں کہ قیامت کی گھڑی قریب آلگی ہے اور جمعے کے دن وہ پریشان ہوتے ہیں جبکہ ہم انسان جمعے کے دن بھی اپنے معمولات اسی طرح بے فکری سے نمٹاتے رہتے ہیں، گویا قیامت کی گھڑی نے کبھی آناہی نہیں ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللّٰهُ ۭ ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ (سورۃ الزمر: ۶۸)
’’اور (قیامت کے روز) صور میں پھونک ماری جاوے گی سو تمام آسمان اور زمین والوں کے ہوش اڑ جاویں گے مگر جس کو خدا چاہے پھر اس (صور) میں دوبارہ پھونک جاوے گی تو دفعتاً سب کے سب کھڑے ہوجاویں گے اور (چاروں طرف) دیکھنے لگیں گے۔ ‘‘
مستثنیٰ کون ؟
یہ آیت بتاتی ہے کہ صور کی آواز سے تمام کی تمام مخلوق بے ہوش ہوجائے گی ماسوا جسے اللہ چاہے۔ یعنی اس میں استثنا موجود ہے۔ کوئی مخلوق ایسی ہے جو صور کی آواز سے اپنے ہوش نہیں کھوئے گی۔ وہ کون سی مخلوق ہے؟ بعض علما فرماتے ہیں کہ وہ جنت میں حور العین ہے، بعض کہتے ہیں کہ وہ جنت کے غلمان ہیں، بعض کہتے ہیں کہ وہ جبرئیل اور میکائیل علیھما السلام ہیں، بعض کہتے ہیں کہ وہ حاملین عرش ملائکہ ہیں، بعض کہتے ہیں کہ یہ شہدا ہوں گے، بعض کچھ کہتے ہیں اور بعض کچھ اور …… مگر امام قرطبیؒ اس بحث کا خلاصہ یوں بیان کرتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک رائے کے حق میں بھی کوئی دلیل موجود نہیں ہے لہٰذا یہ سب ممکنات میں سے ہیں۔
نیز یہ کہ ہمیں اتنا علم دے دیا گیا ہے جتنا ہمیں درکار ہے؛ ہم یہ جانتے ہیں کہ وہ مستثنیٰ مخلوق جو بھی ہو، وہ بہرحال ہم نہیں ہیں لہٰذا اس کی تفصیل میں جانے اور بحث میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ جتنے علم کی ہمیں ضرورت ہے وہ ہمارے پاس موجود ہے اور جس کی تفصیل ہمیں نہیں بتائی گئی اس کی ہمیں ضرورت ہی نہیں تھی اسی لیے نہیں بتایا گیا۔ یہ اسلام کا بہت اہم اصول ہے۔ ہمیں عملی سوچ رکھنی چاہیے اور اتنا علم ہمیں ضرور حاصل کرنا چاہیے جو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ہمارا مددگار ہو۔اور یہی وجہ ہے کہ جب ایک بدو مسجد میں داخل ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ یہ شخص ایسے وقت میں مسجد میں داخل ہوا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کاٹ کر سوا ل پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف توجہ نہ فرمائی اور اپنی گفتگو جاری رکھی۔ وہ شخص مصر رہا اور دوبارہ پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا۔ اس نے تیسری مرتبہ پوچھا، قیامت کب آئے گی؟اس وقت تک صحابہ کرام ؓ نے بےچین ہوکر اس شخص کو خاموش کرانے کی کوشش شروع کردی تھی کیونکہ وہ یہ سمجھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے جواب نہیں دے رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شخص کا سوال مناسب نہیں معلوم ہوا۔ لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بیان مکمل فرما لیا تو دریافت کیا کہ وہ سوالی کہاں ہے جو قیامت سے متعلق سوال کررہا تھا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سوال کا جواب ایک اور سوال کے ذریعے دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا: مَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟تم نے اس کے لیے کیا تیاری کررکھی ہے؟ تم قیامت کا وقت کیوں جاننا چاہتے ہو؟ تمہیں تو وہ جاننا چاہیے جو تمہارے کام آئے یعنی یہ کہ تم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ اکثر ہم لوگ ایسے علوم کے حصول میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں جن کے ذریعے نہ ہمارے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے نہ کمی اور جو ہمارے اعمال صالحہ کو بڑھانے یا گھٹانے میں معاون نہیں بنتا، اور یہ وہ علم ہے جو نافع نہیں ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا سکھائی ہے:
اللَّهُمَّ إِنِّا نَسْئَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا وَنَعُوذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ
’’اے اللہ! ہم تجھ سے علم نافع کا سوال کرتے ہیں اور غیر نافع علم سے تیری پناہ چاہتے ہیں‘‘۔
عَنْ أَنَسٍ قَالَ ……فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى قِيَامُ السَّاعَةِ وَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ قَالَ أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ السَّاعَةِ قَالَ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ وَمَا أَعْدَدْتَ لَهَا قَالَ مَا أَعْدَدْتُ لَهَا مِنْ كَثِيرِ عَمَلٍ لَا صَلَاةٍ وَلَا صِيَامٍ إِلَّا أَنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ (مسند احمد)
’’ حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ …… ایک مرتبہ ایک دیہاتی آیا اور کہنے لگایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! قیامت کب قائم ہوگی ؟ اس وقت اقامت ہوچکی تھی اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نماز پڑھانے لگے، نماز سے فارغ ہو کر فرمایا کہ قیامت کے متعلق سوال کرنے والا آدمی کہاں ہے ؟ اس نے کہا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں یہاں ہوں؛ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا تم نے قیامت کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے کہا کہ میں نے کوئی بہت زیادہ اعمال؛ نماز، روزہ تو مہیا نہیں کر رکھے البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان قیامت کے دن اس شخص کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ وہ محبت کرتا ہے‘‘۔
صور کتنی مرتبہ پھونکا جائے گا؟
بعض علما کہتے ہیں کہ دو مرتبہ صور پھونکا جائے گا اور القرطبی اور ابن حجر عسقلانی کی بھی یہی رائے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دو مرتبہ چنگھاڑ کی آواز آئے گی۔ پہلی آواز کے ساتھ ہر زندہ چیز مرجائے گی، جسے الساعۃ کہا جاتا ہے؛اور پھر دوسری چنگھاڑ کے ساتھ سب دوبارہ زندہ ہوجائیں گے اور یہ البعث کہلاتی ہے۔ بعض دیگر علما کہتے ہیں کہ صور میں تین مرتبہ پھونک ماری جائے گی۔ اس میں پہلی الفزع ہے، یعنی خوف کا پھونکا جانا جو مخلوق کے دلوں میں خوف پیدا کردے گی۔ دوسری پھونک الساعۃ ہے جس سے ہر زندہ چیز موت سے ہمکنار ہوجائے گی۔اور تیسری البعث ہے جس سے تمام مخلوق دوبارہ زندہ ہوجائے گی؛ اور یہ رائے ابن کثیر، ابن تیمیہ، قاضی ابوبکر العربی اور بعض دیگر علما کی ہے۔
البعث والنشور
اللہ رب العزت نے اسے یوں بیان فرمایا ہے:
﴿وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمْ يَنْسِلُوْنَ قَالُوْا يٰوَيْلَنَا مَنْۢ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا ۆھٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمْ جَمِيْعٌ لَّدَيْنَا مُحْضَرُوْنَ ﴾ (سورۃ یس: ۵۱ تا ۵۳)
’’ اور (پھر دوبارہ) پھونکا جائے گا صور تو یکایک یہ اپنی قبروں میں سے نکل کر اپنے رب کے حضور (پیش ہونے کے لیے) چل پڑیں گے۔ (اور گھبرا کر) کہیں گے ہائے ہماری بدبختی ! کس نے اٹھا کھڑا کیا ہمیں ہماری خواب گاہوں سے ؟ ارے ! یہ تو وہی ہے جس کا وعدہ کیا تھا رحمٰن نے اور سچ فرمایا تھا رسولوں نے۔ نہیں ہوگی یہ مگر ایک چنگھاڑ کہ یک لخت وہ سب کے سب ہمارے سامنے حاضر کردیے جائیں گے۔ ‘‘
دیکھیے! وہ کہیں گے کہ کس نے ہمیں ہماری نیند سے جگا دیا؟جب انسان سو رہا ہوتا ہے تو بدترین حالت یہ ہے کہ وہ حیران پریشان اٹھے۔ سویا ہوا انسان ہمیشہ آہستہ آہستہ اور سکون سے جاگنا چاہتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے کہ جب آپ کسی کو پریشان کرکے نیند سے جگائیں تو وہ ہڑبڑا کر اٹھتا ہے اور اس کو اپنے گردو پیش کی خبر ہونے میں اور اپنے ماحول میں واپس آنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ اب تصور کریں کہ قبروں میں طویل نیند سے جب لوگ بیدار ہوں گےاور ان اچانک کھل جانے والی قبروں سے باہر نکلیں گے تو انہیں کیا دکھائی دے گا؛ وہ پہاڑوں کو پھٹتے، سمندروں کو بھڑکتے، چاند ستاروں اور سیاروں کو اپنے مدار کو چھوڑ کر ادھر ادھر گرتے دیکھیں گے، سورج کو عین اپنے سر کے اوپر پائیں گے، ان کے قدموں تلے زمین لرز رہی ہوگی اور ان کے سروں پر دکھائی دینے والا آسمان چرچرا کر کھلتا جارہا ہوگا اور ان کے ارد گرد لوگ ایسے بھاگتے جارہے ہوں گے گویا وہ نشے میں مدہوش ہوں؛ مگر اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں کہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے، بلکہ اللہ کے عذاب کی شدت انہیں ہوش وحواس سے بےگانہ کردے گی؛وَمَا هُمْ بِسُكٰرٰي وَلٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِيْدٌ ۔ تصور کریں کہ اس وقت ان لوگوں کی کیا حالت ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ وہ کہیں گے ، يٰوَيْلَنَا ، ہائے ہماری بدبختی ! اللہ رب العزت اس آیت میں لوگوں کی کیفیت سے آگاہ فرماتے ہیں؛ مگر اس آیت سے پہلے میں یہ چاہوں گا کہ آپ میرے ساتھ مابعد کا تصور کریں۔
ذرا تصور کریں کہ ایک بچہ ہےجو قبر سے نکل کر آرہا ہے۔ یہ بچہ ایک سال کی عمر میں فوت ہوگیا تھا۔اسے دفن کردیا گیا تھا اور اب یوم البعث وہ اپنی قبر سے نکل کر آرہا ہے۔وہ محض ایک سال کا ہے۔یہ بچہ اپنی قبر سے بھاگتا ہوا نکلے گا اور اقوام دنیا کو اپنے گھٹنوں کے بل جھکا ہوا دیکھے گا؛ ہر ایک پسینے سے شرابور ہوگا اور کسی کا پسینہ اس کے گھٹنے تک، کسی کا اس کی کمر تک، کسی کا اس کے سینے تک، کسی کا اس کے کندھے تک ہوگا اور بعض ایسے بھی ہوں گے جو اپنے پسینے میں غرق ہوں گے، سورج سوانیزے پہ ہوگا، زمین ان کے قدموں تلے لرز رہی ہوگی، پہاڑ دھول بن کر اڑے جارہے ہوں گے، سمندر آگ پکڑ رہے ہوں گے، آسمان چرچرا کر وا ہورہا ہوگا، چاند ستارے گر گر جارہے ہوں گے ……آپ کا کیا خیال ہے کہ اس ایک سال کے بچے کی یہ سب دیکھ کر کیا کیفیت ہوگی؟ اس بچے کے ساتھ کیا ہوگا؟ اللہ وسبحانہ وتعالیٰ ہمیں قرآن میں اس کا جواب بتاتے ہیں:
﴿فَكَيْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيْبَۨا ﴾ (سورۃ المزمل: ۱۷)
’’ سو تم اس دن (کی مصیبت) سے کیسے بچو گے، جو بچوں کو بوڑھا کردے گا ، ‘‘
اس بچے کے بالوں کا رنگ بدل جائے گا……اس کے بال سفید ہوجائیں گے، کیوں؟ قیامت کے دن کی دہشت کی وجہ سے جس کا مشاہدہ وہ کرےگا ۔ اس بچے نے کوئی گناہ نہیں کیا ہوگا۔ وہ اس حالت میں دنیا سے گیا ہوگا کہ اس کا اعمال نامہ بالکل صاف ہوگا، اس نے کوئی گناہ نہیں کیا ہوگا، تب بھی اس کے بال سفید ہوجائیں گے…… تب ہمارے ساتھ کیا ہوگا جو دن رات گناہوں پر اصرا ر کیے جاتے ہیں اور اللہ رب العزت کے سامنے توبہ نہیں کرتے اور نادم نہیں ہوتے۔ وہ یوم العظیم ہوگا، یوم القیامۃ!
بعث بعد الموت (دوبارہ اٹھایا جانا) کیسے ہوگا؟
جب سب کچھ تباہ ہوجائے گا اور زندگی کی کوئی قسم باقی نہیں رہے گی تو اللہ رب العزت آسمان سے بارش نازل فرمائیں گے اور ہم اپنے بیجوں سے اگیں گے۔ہمارے بیج کیا ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حدیث شریف میں ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمارے جسم کا ہرحصہ گل سڑ جائے گا اور تحلیل ہوجائے گا سوائے ہماری ریڑھ کی ہڈی کے نچلے حصے میں ایک چھوٹے سے جزو کے ۔ یہ حصہ اپنی حالت پر باقی رہے گا اور ہم اسی بیج سے دوبارہ اگیں گے۔
پس اللہ سبحانہ وتعالیٰ آسمان سے ایک سیال مادہ برسائیں گے، وہ پانی نہیں ہوگا بلکہ کوئی اور چیز ہوگی اور ہم اس ننھے سے بیج سے دوبارہ اگ جائیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بخاری شریف کی ایک حدیث میں فرماتے ہیں:
مَا بَيْنَ النَّفْخَتَيْنِ أَرْبَعُونَ …… ثُمَّ يُنْزِلُ اللَّهُ مِنْ السَّمَائِ مَائً فَيَنْبُتُونَ کَمَا يَنْبُتُ الْبَقْلُ لَيْسَ مِنْ الْإِنْسَانِ شَيْئٌ إِلَّا يَبْلَی إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا وَهُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْهُ يُرَکَّبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (بخاری)
’’ دونوں صور پھونکنے کے درمیان چالیس کا وقفہ ہوگا؛[پوچھا گیا کیا چالیس سال مراد ہیں یا چالیس ماہ یا چالیس دن؟ آپ نے جواب نہیں مرحمت فرمایا۔ لہٰذا ہم نہیں جانتے کہ دو صور کے مابین کتنا وقت ہوگا]۔ پھر اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی برسائے گا جس سے لوگ اس طرح اگیں گے جس طرح سبزہ اگتا ہے۔ انسان کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی، سب گل سڑ جائے گا، سوائے ریڑھ کی ہڈی کے اور اسی سے قیامت کے دن تمام مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی‘‘۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ نباتات کا اگنا اور انسانوں کا اگنا ایک سا عمل ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں اللہ رب العزت دوبارہ اٹھائے جانے کا تذکرہ فرماتے ہیں وہاں اس عمل کو پودوں کے اگنے کے عمل سے مربوط کرتے ہیں۔
﴿وَاللّٰهُ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ الرِّيٰحَ فَتُـثِيْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰهُ اِلٰى بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَاَحْيَيْنَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ كَذٰلِكَ النُّشُوْرُ﴾ (سورۃ فاطر: ۹)
’’ اور اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے پھر وہ اٹھا لیتی ہیں بادلوں کو ‘ پھر ہم ہانک دیتے ہیں اس (بادل) کو ایک ُ مردہ زمین کی طرف پھر ہم اس سے اس زمین کو زندہ کردیتے ہیں اس کے مردہ ہوجانے کے بعد } ” اسی طرح سے ہوگا (تمہارا) اٹھایا جانا بھی۔ ‘‘
لہٰذا اللہ رب العزت ہمیں متوجہ کرتے ہیں کہ کس طرح ایک مردہ زمین پر اللہ رب العزت بارش برساتے ہیں جس سے وہ لہلہا اٹھتی ہے…… وہ مردہ زمین زندہ ہو جاتی ہے…… اور اللہ فرماتے ہیں کہ اسی طرح تمہارا (دوبارہ) اٹھایا جانا بھی ہوگا، بعینہ اسی طرح تم بھی دوبارہ اپنے بیجوں سے اگائے جاؤگے۔
سب سے پہلے کس کو قبر سے اٹھایا جائے گا؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جن کی قبر مبارک مدینہ منورہ میں ہے؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ پہلی ہستی ہوں گے جنہیں ان کی قبر سے اٹھایا جائے گا۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ (مسلم)
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں قیامت کے دن (تمام) اولاد آدم کا سردار ہوں گا، پہلا شخص ہوں گا جس کی قبر کھلے گی‘‘۔
ایک اور صحیح حدیث میں ایک مسلمان اور ایک یہودی کے نزاع کا واقعہ مذکور ہے۔ یہودی نے کہا کہ میں اس رب کی قسم کھاتا ہوں جس نے موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل فرمائی۔اس پر مسلمان نے اسے مارا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی کرنے لگا۔ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت لے کرگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سارا قصہ سن کر) فرمایا کہ مجھے موسیٰ علیہ السلام پر ترجیح نہ دو کیونکہ میں قبر سے نکلنے والا پہلا شخص ہوں گا مگر میں موسیٰ علیہ السلام کو اللہ رب العزت کا عرش تھامے ہوئے پاؤں گا۔لہٰذا میں نہیں جانتا کہ وہ الساعۃ (پہلی مرتبہ صور پھونکے جانے )سے بے ہوش ہوئے تھے یا نہیں۔ اس حدیث کا کیا معنی ہے کہ مجھے موسیٰ علیہ السلام پر فضیلت نہ دو؟ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بہت سی احادیث میں یہ فرمایا کہ وہ کل انسانیت کے سردار ہیں، مذکورہ بالا حدیث میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ، نیز ہمارا ایمان ہے کہ انبیا علیہم السلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ سب سے بڑھ کر ہے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہیں چاہتے کہ ہم کسی کافر سے جھگڑے کے وقت ان کی اس فضیلت کا اظہار کریں کیونکہ اس طرح ہم محض اس کافر کو تکلیف دینے کی خاطر اللہ کے انبیا کا درجہ گھٹانے کا باعث بنیں گے۔کیونکہ اللہ کے تمام انبیا سے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم منسوب ہے نہ کہ یہودی اور نصرانی۔ موسیٰ علیہ السلام امت اسلام سے منسوب ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو یہودیوں کو عاشورا کا روزہ رکھتے پایا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اس روز اللہ رب العزت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجات عطا فرمائی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام پر ہمارا حق ان سے زیادہ ہے، لہٰذا ہمیں اس دن کا روزہ رکھنا چاہیے۔ لہٰذا ہمیں کسی یہودی یا عیسائی سے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے نبی سے بہتر ہیں ؛ نہیں! اس طرح ہم اللہ کے نبیوں کا درجہ گھٹا کر بیان کرنے کا باعث بن جاتے ہیں؛ ہمیں اللہ کے تمام انبیا کا احترام اسی طرح کرنا ہے جیسا کہ ان کا حق ہے اور کفار کے ساتھ اس قسم کے نزاع میں نہیں پڑنا، اگرچہ ہمارا ایمان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ رب العزت نے اپنی تمام مخلوق پر فضیلت عطا کی ہے۔
الحشر: اللہ رب العزت سب کو اکٹھا فرمائیں گے
خواہ کوئی انسان خلائے بسیط میں مرا ہو یا کسی سمندر کی تہہ میں کھو گیا ہو یا کسی زندان، تہہ خانے یا تنگ و تاریک کسی کوٹھڑی میں پڑا ہو…… اللہ رب العزت سب کو یکجا فرمائیں گے۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿… اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يَاْتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ﴾ (سورۃ البقرۃ: ۱۴۸)
’’ …جہاں کہیں بھی تم ہو گے اللہ تم سب کو جمع کر کے لے آئے گا یقیناً اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے‘‘۔
تم کسی چٹان کے وسط میں ہو یا سمندر کی تہہ میں یا دور کہیں خلائے بسیط میں…… اللہ رب العزت تم سب کو اکٹھا فرما لے گا کیونکہ کل کائنات اللہ کی ہے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً ۙ وَّحَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا﴾ (سورۃ الکہف: ۴۷)
’’ اور جس دن ہم چلائیں گے پہاڑوں کو اور تم دیکھو گے زمین کو صاف چٹیل اور ہم سب کو جمع کرلیں گے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے ‘‘۔
اللہ رب العزت تمام مخلوق کو جمع فرمائیں گے؛ حتی کہ جانوروں کو بھی۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ﴾ (سورۃ التکویر: ۵)
’’اور جب وحشی جانور اکٹھے کئے جائیں گے ‘‘۔
حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ یوم حشر کو اللہ رب العزت تمام مخلوق کو اکٹھا فرمائیں گے؛ وحشی جانوروں، پرندوں حتی کہ حشرات الارض کو بھی، اور اللہ رب العزت اس روز عدل فرمائیں گے کہ اللہ رب العزت کی صفت العدل ہے۔ اور اسی عدل کی وجہ سے اللہ رب العزت سینگوں والی بکری سے بغیر سینگوں والی بکری کا بدلہ دلوائیں گے۔ دنیا میں سینگوں والی بکریاں بھی ہوتی ہیں اور بغیر سینگوں والی بھی ، لہٰذا سینگوں والی بکریاں اپنے سینگوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بغیر سینگ والی بکری کو مارتی ہیں؛ ابو ہریرہؓ نے فرمایا کہ اللہ رب العزت بغیر سینگ والی بکری کو اس کا بدلہ دلوائیں گے اور جب تمام تنازعات حل ہوجائیں گے تو اللہ رب العزت ان تمام درندوں اور جانوروں سے فرمائیں گے کہ مٹی ہوجاؤ اور وہ مٹی ہوجائیں گے؛ اور یہ وہ موقع ہے کہ جب کافر کہے گا يٰلَيْتَــنِيْ كُنْتُ تُرٰبًا، کافر کہے گا کہ کاش میں کبھی زمین کی پشت پر نہ چلا ہوتا ، کاش میں کبھی زندہ ہی نہ رہا ہوتا، کاش میں کبھی پیدا ہی نہ ہوتا، کاش میں مٹی ہوجاتا۔یہ کافر جو دنیا کے معاملات میں اس قدر ہوشیار تھا، جو مال جمع کرنے میں اس قدر چوکس تھا، جو دنیا سے لطف اندوز ہونے کا ہر فن جانتا تھا…… وہ کافر کہے گا کہ کاش میں نے کبھی زندگی گزاری ہی نہ ہوتی، کاش میں کبھی پیدا ہی نہ ہوا ہوتا اور کاش میں مٹی ہوجاتا۔ الحشر لوگوں کا دوبارہ اکٹھا کیا جانا ہے جس کے بارے میں ہم نے کچھ بات کی۔
لوگ کس حال میں دوبارہ اٹھائے اور اکٹھے کیے جائیں گے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
إِنَّکُمْ مَحْشُورُونَ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا ثُمَّ قَرَأَ ﴿کَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا کُنَّا فَاعِلِينَ﴾ (بخاری)
’’ تم لوگ حشر میں ننگے پاؤں، ننگے جسم اور بن ختنہ اٹھائے جاؤ گے۔ پھر آپ نے(سورۃ انبیاء کی) اس آیت کی تلاوت کی (ترجمہ) ((جیسا کہ ہم نے پیدا کیا تھا پہلی مرتبہ، ہم ایسے ہی لوٹائیں گے۔ یہ ہماری طرف سے ایک وعدہ ہے جس کو ہم پورا کر کے رہیں گے)) ‘‘۔
پس اللہ رب العزت انسانوں کو بعینہ اسی حالت میں لوٹا دیں گے جس میں وہ تخلیق کیے گئے تھے۔ جب ہم پیدا ہوئے تھے تو ہم ننگے پاؤں، ننگے بدن اور غیر مختون تھے، اللہ رب العزت ہمیں دوبارہ ہماری فطری حالت کی طرف لوٹا دیں گے۔جب عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ سنا کہ انسان برہنہ اٹھائے جائیں گے تو انہیں خیال آیا کہ مرد اور عورتیں تو یکجاہوں گے ! لہٰذا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ! الرِّجَالُ وَالنِّسَائُ يَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَی بَعْضٍ؟ فَقَالَ الْأَمْرُ أَشَدُّ مِنْ أَنْ يُهِمَّهُمْ ذَاکِ (بخاری)
’’ اللہ کے رسول ! کیا مرد، عورتیں ایک دوسرے کو دیکھتے ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : اس وقت معاملہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہوگا، اس کا خیال بھی کوئی نہیں کرسکے گا‘‘۔
لوگ اس وقت دوسری فکروں میں غلطاں ہوں گے، انہیں اس کی پروا ہی نہیں ہوگی کہ لوگ برہنہ ہیں؛ بلکہ انہیں تو شاید اس کا ادراک بھی نہ ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ معاملہ اس سے زیادہ سنگین ہوگا۔ اس وقت لوگ ایک دوسرے کو نہیں گھورتے ہوں گے۔ جب سب لوگ برہنہ اٹھائے جائیں گے تو پھر اللہ رب العزت انہیں لباس پہنائیں گے۔
سب سے پہلے کسے لباس پہنایا جائے گا؟
وَإِنَّ أَوَّلَ الْخَلَائِقِ يُکْسَی يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِبْرَاهِيمُ (بخاری)
’’ سب سے اول حضرت ابراہیم کو لباس پہنایا جائے گا ‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جس شخص کو لباس پہنایا جائے گا وہ ابراہیم خلیل اللہ ہوں گے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں جنت کا لباس پہنایا جائے گا۔ اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بعد مجھے لباس پہنایا جائے گا اور وہ جنت کا لباس ایسا ہوگا کہ اس کے مثل کسی کا لباس نہ ہوگا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس بہترین ہوگا مگر سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو لباس پہنایا جائے گا۔اور یہ وہ رحمت اور انوکھا اعزاز ہے جو اللہ رب العزت نے اس شخص کو عطا کیا جسے اللہ رب العزت نے تنہا ایک امت کے مثل قرار دیا۔
ارض محشر
اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ﴾ (سورۃ ابراہیم: ۴۸)
’’ اس دن کو یاد رکھو جس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب اللہ واحد وقہار کے حضور پیش ہوں گے ‘‘۔
زمین بدل دی جائے گی، یہ موجودہ حالت میں نہیں رہے گی۔بعض تبدیلیاں جو زمین میں واقع ہوں گی وہ یہ ہیں کہ اسے پھیلا دیا جائے گا۔ یہ کرہ کی صورت میں نہیں رہے گی۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ؛ مدت کا معنی چپٹا کرنا اور پھیلانا ہے۔ اور جب زمین پھیلا دی جائے گی تو فزکس کے اصول کے تحت اس کی کشش ثقل ختم ہوجائے گی وَأَلْقَتْ مَا فِيهَا وَتَخَلَّتْ اور وہ اپنے اندر موجود تمام چیزوں کو چھوڑ دے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَی أَرْضٍ بَيْضَائَ عَفْرَائَ کَقُرْصَةِ النَّقِيِّ (مسلم)
’’لوگوں کا حشر قیامت کے دن سفید، چٹیل زمین پر ہوگا جو سفید گیہوں کی روٹی کی طرح ہوگی‘‘۔
عفراء ماند یا پھیکے کو کہتے ہیں۔ یعنی زمین اس روز چمکتی ہوئی سفید نہیں ہوگی بلکہ پھیکے سفید رنگ کی ہوگی۔اور نقی ، نفیس اور صاف ستھری خالص ریت کو کہتے ہیں یعنی زمین کی مٹی بہت صاف اور نفیس ہوگی۔ اور ایک اور حدیث کے مطابق زمین پھیلا کر ہموار کردی جائے گی؛ آپ تصور کریں کہ جب زمین پھیلا دی جائے گی تو وہ کس قدر وسیع ہوجائے گی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کےباوجود ابن آدم کے پاس کوئی جگہ نہیں ہوگی بجز اس جگہ کے جہاں وہ کھڑا ہوگا۔ بے شک زمین پھیلا دی جائے گی، مگر جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ تمام مخلوق کو…… انسانوں، جنات، جانوروں، پرندوں اور حشرات الارض سب کو اکٹھا فرمائیں گے تو وہ اس قدر پر ہجوم ہوگی کہ انسان کے پاس دو قدم رکھنے کے سوا کوئی جگہ نہ ہوگی۔لوگ اس روز اس ازدحام میں دبے جاتے ہوں گے۔
یوم قیامت کی بعض تفصیلات
قیامت کا دن؛ گو کہ وہ ایک دن ہی ہوگا مگر بہت پر ہیبت دہشت ناک دن ہوگا۔ یہاں ہم اس دن کی دہشت اور خوف کی کچھ علامات بیان کریں گے۔وہ علامات کے جن کے ذریعے ہمیں اس دن کی کٹھنائیوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
اللہ رب العزت نے یوم قیامت کو ایک عظیم دن ، ثقیل دن اور مشکل دن کہہ کر بیان کیا ہے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿أَلَا يَظُنُّ أُولَٰئِكَ أَنَّهُم مَّبْعُوثُونَ لِيَوْمٍ عَظِيمٍ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ (سورۃ المطففین: ۴،۵)
’’ کیا ذرا بھی خیال نہیں کرتے یہ لوگ کہ بےشک وہ اٹھائے جانے والے ہیں؟ ایک عظیم دن (کی پیشی) کے لیے؛ وہ دن کہ کھڑے ہوں گے لوگ رب العالمین کے حضور‘‘۔
اور اللہ رب العزت نے اسے یوم ثقیل یعنی بوجھل، بھاری دن کہہ کر بیان فرمایا۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ اِنَّ هٰٓؤُلَاۗءِ يُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ وَيَذَرُوْنَ وَرَاۗءَهُمْ يَوْمًا ثَــقِيْلًا ﴾ (سورۃ الدھر: ۲۷)
’’یہ لوگ تو (دنیا کی) فوری چیزوں سے محبت کرتے ہیں اور اپنے آگے جو بھاری دن آنے والا، اسے نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ ‘‘
﴿وَيَوْمَ نَحْشُرُھُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا مَكَانَكُمْ اَنْتُمْ وَشُرَكَاۗؤُكُمْ ۚفَزَيَّلْنَا بَيْنَھُمْ وَقَالَ شُرَكَاۗؤُھُمْ مَّا كُنْتُمْ اِيَّانَا تَعْبُدُوْنَ﴾ (سورۃ یونس: ۲۸)
’’ اور یاد کرو اس دن کو جس دن ہم سب کو اکٹھا کریں گے پھر ہم شرک کرنے والوں کو حکم دیں گے کہ تم اور تمہارے شرکاء اپنی جگہ ٹھہرو۔ پھر ہم ان کے درمیان تفریق کریں گے اور ان کے شریک کہیں گے، تم ہم کو تو نہیں پوجتے تھے ‘‘۔
وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ يَقُوْلُ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اَهٰٓؤُلَاۗءِ اِيَّاكُمْ كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ (سورۃ سبا:۴۰)
’’ اور (وہ دن بھی یاد رکھنے کے قابل ہے) جب اللہ ان سب کو جمع کرے گا، پھر فرشتوں سے پوچھے گا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے رہے ہیں ؟ ۔ ‘‘
قَالُوْا سُبْحٰنَكَ اَنْتَ وَلِيُّنَا مِنْ دُوْنِهِمْ ۚ بَلْ كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ الْجِنَّ ۚ اَكْثَرُهُمْ بِهِمْ مُّؤْمِنُوْنَ (سورۃ سبا:۴۱)
’’ وہ عرض کریں گے پاک ہے تو ہمارا تعلق تو صرف تجھ سے ہے، نہ کہ ان سے اصل یہ ہے کہ یہ لوگ جنات کو پوجا کرتے تھے ان میں سے اکثر اعتقاد بھی انہیں پر رکھتے تھے۔ ‘‘
وَاِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَاُمِّيَ اِلٰــهَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَيْسَ لِيْ ۤ بِحَقٍّ ڲ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ ۭ تَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِيْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِكَ ۭاِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ (المائدہ:۱۱۶)
’’ اور (وہ وقت بھی قابل یاد رکھنے کے ہے) جب اللہ فرمائے گا، ف 351 ۔ کہ اے عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم (علیہ السلام) کیا تم نے لوگوں سے یہ کہہ دیا تھا کہ ” خدا کے علاوہ مجھے اور میری والدہ کو بھی معبود بنالو “ ؟ (عیسیٰ (علیہ السلام)) عرض کریں گے، پاک ہے، ف 353 ۔ تو میرے لیے یہ کسی طرح بھی ممکن نہ تھا کہ میں ایسی بات کہہ دیتا جس کا مجھے کوئی حق ہی نہ تھا اگر میں نے کہا ہوتا تو یقیناً تجھے اس کا علم ہوتا۔ تو جانتا ہے جو کچھ میرے دل میں ہے، اور میں نہیں جانتا جو کچھ تیرے دل میں ہے، بیشک تو ہی تو ہے پوشیدہ چیزوں کا خوب جاننے والا۔ ‘‘
مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِيْ بِهٖٓ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّيْ وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ ۭواَنْتَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ (سورۃ المائدۃ:۱۱۷)
’’ میں نے تو ان سے کچھ بھی نہیں کہا تھا بجز اس کے کہ جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا یعنی یہ کہ میرے اور اپنے پروردگار اللہ کی پرستش کرو۔ میں ان پر گواہ رہا جب تک میں ان کے درمیان رہا پھر جب تو نے مجھے (دنیا سے) اٹھا لیا (جب سے) تو ہی ان پر نگران ہے اور تو تو ہر چیز پر گواہ ہے۔ ‘‘
اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۚ وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (سورۃ المائدۃ:۱۱۸)
’’ تو اگر انہیں عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں۔اور اگر تو انہیں بخش دے تو بھی تو زبردست ہے حکمت والا ہے۔‘‘
قَالَ اللّٰهُ هٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِقِيْنَ صِدْقُهُمْ ۭ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ (سورۃ المائدۃ:۱۱۹)
’’ اللہ فرمائے گا آج وہ دن ہے جب سچوں کے کام ان کا سچ آئے گا۔ ان کیلئے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ ہمیش کو رہیں گے اللہ ان سے خوش رہا اور وہ اللہ سے خوش رہے، یہی بڑی کامیابی ہے۔ ‘‘
وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ جَمِيْعًا فَقَالَ الضُّعَفٰۗؤُا لِلَّذِيْنَ اسْـتَكْبَرُوْٓا اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ ۭ قَالُوْا لَوْ هَدٰىنَا اللّٰهُ لَهَدَيْنٰكُمْ ۭ سَوَاۗءٌ عَلَيْنَآ اَجَزِعْنَآ اَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِنْ مَّحِيْصٍ (سورۃ ابراہیم:۲۱)
’’ اور اللہ کے سامنے سب (ہی) پیش ہوں گے۔ پھر کمزور لوگ ان سے کہیں گے جنہوں نے بڑائی کی تھی کہ ہم تو تمہارے تابع تھے۔ سو کیا تم ہم سے اللہ کے عذاب کا کچھ جزء ہی ہٹا سکتے ہو؟ تو وہ کہیں گے اگر اللہ نے ہم ہی کو راہ (بچنے کی) بتائی ہوتی تو ہم تمہیں بھی راہ بتا دیتے (اور اب تو) ہم دونوں کے لیے برابر ہے خواہ ہم چیخیں چلائیں خواہ ہم صبر کریں، (بہرحال) ہمارے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ ‘‘
وَاللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا ۙ وَّجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ (سورۃ النحل:۷۸)
’’ اور اللہ ہی نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹ سے نکالا اس حال میں کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور تمہارے لیے سماعت اور بینائی اور دل پیدا کئے تاکہ تم شکر گزار بنو۔ ‘‘
وَلَيَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ ۡ وَلَيُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ (العنکبوت:۱۳)
’’ اور یہ لوگ اپنے گناہ اپنے اوپر لادے ہوں گے اور اپنے گناہوں کے ساتھ کچھ اور گناہ بھی۔ اور ان سے قیامت کے دن باز پرس ہو کر رہے گی جیسی جیسی باتیں یہ گڑھتے رہتے تھے ‘‘
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ بِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَلَا بِالَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ ۭ وَلَوْ تَرٰٓى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ښ يَرْجِــعُ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضِۨ الْقَوْلَ ۚ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِيْنَ اسْـتَكْبَرُوْا لَوْلَآ اَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِيْنَ 31 (سبا)
’’ اور کافر کہتے ہیں کہ ہم نہ اس قرآن کو مانیں گے اور نہ اس سے پہلی کتابوں کو اور آپ کاش وہ وقت دیکھیں جب یہ ظالم اپنے پروردگار کے رو برو کھڑے ہوں گے ایک دوسرے پر بات ڈال رہا ہوگا۔ ادنی درجہ کے لوگ بڑے لوگوں سے کہہ رہے ہوں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور ایمان لے آئے ہوتے ‘‘
قَالَ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْٓا اَنَحْنُ صَدَدْنٰكُمْ عَنِ الْهُدٰى بَعْدَ اِذْ جَاۗءَكُمْ بَلْ كُنْتُمْ مُّجْرِمِيْنَ (سورۃ سبا: ۳۲)
’’ جو بڑے بنے ہوئے تھے ان سے کہیں گے جنہیں کمزور سمجھا گیا تھا کہ : کیا ہم نے تمہیں ہدایت سے روکا تھا جبکہ وہ تمہارے پاس آچکی تھی ؟ اصل بات یہ ہے کہ تم خود مجرم تھے۔ ‘‘
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی صحبہ وسلم
٭٭٭٭٭