نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | چوتھا درس

خواطر، نصائح اور تفسیر

احمد فاروق by احمد فاروق
10 نومبر 2023
in حلقۂ مجاہد, اکتوبر و نومبر 2023
0

الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علیٰ سید الانبیاء والمرسلین محمد و علیٰ آلہ و صحبہ و ذریتہ اجمعین اما بعد

فقد قال اللہ سبحانہ وتعالیٰ فی کتابہ المجید بعد أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمان الرحیم

﴿اِذْ يُغَشِّيْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لِّيُطَهِّرَكُمْ بِهٖ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطٰنِ وَلِيَرْبِطَ عَلٰي قُلُوْبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَ۝ اِذْ يُوْحِيْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰۗىِٕكَةِ اَنِّىْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۭسَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ۝ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَاۗقُّوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۚ وَمَنْ يُّشَاقِقِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ ۝ ذٰلِكُمْ فَذُوْقُوْهُ وَاَنَّ لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابَ النَّارِ ؀﴾ (سورۃ الانفال: ۱۱ تا ۱۴)

صدق اللہ مولانا العظیم،رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ، وَيَسِّرْ لِيْٓ اَمْرِيْ، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ، يَفْقَـــهُوْا قَوْلِيْ

سورۃ الانفال ہم پڑھ رہے ہیں۔ کل جو ہم نے دو آیات پڑھیں ان کے اندر بدر کے دن اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جو مسلمانوں کی نصرت فرمائی، ملائکہ نازل کر کے، اس کا ذکر تھا اور اس بات کا ذکر ہم نے پڑھا کہ فتح و نصرت اور مدد کرنا جنگوں میں، کفار کے مقابلے میں، یہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور وہی کافروں کے مقابلے میں مدد فرماتا ہے اور وہی ان پہ فتح دیتا ہے۔ اسی پس منظر میں بات آگے بڑھتی ہے اور اللہ سبحانہ وتعالی بدر کے دن کے مزید بھی کچھ مدد و نصرت کے مظاہراور جس انداز سے مدد کی اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرماتے ہیں۔

اِذْ يُغَشِّيْكُمُ النُّعَاسَ، کہ جب تم پر اونگھ چھارہی تھی، اَمَنَةً مِّنْهُ، اللہ کی طرف سے بطور سکون اور رحمت؛ تو یہ اگلی مدد ہے فرشتوں کے اترنے کے بعد جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بدر کے دن مسلمانوں کی فرمائی اور جس طرح فرشتوں کا اترنا آج تک جاری ہے اسی طرح یہ نصرت بھی آج تک جاری ہے کہ اللہ تعالیٰ جنگ کے موقعوں پہ سکینت کے لیے نیند طاری کردیتے ہیں یا اونگھ طاری کردیتے ہیں اور غالباً حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا قول ہے کہ اونگھ اگر نماز میں ہو تو شیطان کی طرف سے ہے اور اگر جنگ میں ہو تو اللہ کی طرف سے ہے۔ شیطان نماز میں غافل کرتا ہے اونگھ لا کے اور جنگ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ سکینت عطا فرماتے ہیں، خوف دور فرماتے ہیں، اونگھ لا کے۔ تو روایات میں آتا ہے کہ جنگ کے معرکے سے جو پچھلی رات ہوتی ہے وہ انتہائی خوف کی رات ہوتی ہے۔ جنگ کی نسبت جنگ کا جو انتظار ہے ، جو آخری لمحات ہیں وہ بے انتہا خوف کے اور نفس پر بے انتہا ثقیل ہوتے ہیں۔ لیکن ایک دفعہ جنگ شروع ہو جائے تو جنگ کا ایک اپنا ٹیمپو ہوتا ہے جو اپنے اندر کھینچ لیتا ہے اور ایک دفعہ گولیاں برسنا شروع ہوجائیں یا تلواریں چلنا شروع ہوجائیں تو جو بھی جنگ میں اترا ہواہے وہ اس بات کو جانتا ہے کہ گولی چلنے کی دیر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے خوف کو آسان فرمادیتے ہیں۔ مشکل لمحات اس سے پہلے انتظار کے لمحات ہوتے ہیں اور اس وقت شیطان کے وسوسے بھی عروج پر ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ جنگ سے پہلے پہلے قدم اکھاڑ دے، واپس لے جائے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ دلوں کے اوپر بھرپور وار اور حملے اس موقع پر کرے اور انسان کو سوچنے پر مجبور کرے کہ پتہ نہیں کیا ہوگا؟ واپس ہو سکوں گا کہ نہیں؟ ہماری قوت کیسی ہے؟ دشمن کی قوت کیسی ہے؟…… تو اس خوف اور اس پریشانی کے موقع پہ، جو پچھلی رات تھی اس پہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کے اوپر سکینت طاری فرمادی اور لشکر نے اطمینان سے آرام کیا اور ایسی حالت تھی اگلے دن بھی کہ صحابہ ؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے ہاتھوں سے تلواریں چھوٹ کر گر گر جاتی تھیں۔ اتنی اونگھ طاری تھی کہ تلواریں ہاتھوں سے گری جاتی تھیں۔ حالانکہ چلے ہیں اپنے سے تین گنا بڑے لشکر سے لڑائی کرنے کے لیے۔ تو ایسی حالت میں تو عموماً نیندیں اڑ جاتی ہیں۔ دنوں تک نیند نہیں آتی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے وہ سکینت نازل فرمائی اور اس کے ذریعے سے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور دلوں کو اطمینان بخشا اور طمانیت عطا فرمائی۔

پھر اگلی مدد اللہ نے یہ فرمائی کہ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لِّيُطَهِّرَكُمْ بِهٖ آسمان سے تم پر پانی برسایا تاکہ تمہیں اس کے ذریعے پاک کردے؛ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطٰنِ اور شیطان کی چال یا شیطان کی ڈالی ہوئی گندگیاں اور وساوس تم سے دور کردے۔ پس منظر اس بات کا یہ ہے کہ جو اونگھ طاری ہوئی، جو نیند طاری ہوئی پچھلی رات کو تو وہ اتنی زیادہ تھی کہ مفسرین لکھتے ہیں کہ بیشتر مسلمان صبح اٹھے تو حالت جنابت میں تھے۔ یعنی اتنی سکون کی نیند تھی جو پچھلی رات کو آئی؛ اور یہ بھی ایسا واقعہ نہیں ہے جو اس دور تک ہی محدود ہے۔ اس دور میں بھی ساتھی عین بمباریوں میں، جیٹ جہازوں کے نیچے،…… افغانستان پر جب حملہ ہوا اور مورچوں میں جو ساتھی شدید ترین بمباری سہہ رہے تھے تو وہاں بھی ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں۔ اسی طرح افغانستان کے اندر مختلف کارروائیوں میں یا یہاں قبائل کے علاقوں میں کارروائیوں کے اندر ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں کہ جو حیرت کا باعث ہیں کہ کیسی سکینت اور کیسی اطمینان کی نیند اللہ سبحانہ و تعالیٰ جنگ کے میدان میں نصیب فرماتے ہیں۔ تو صحابہؓ کی صبح اس حال میں ہوئی اور پانی کی قلت تھی۔ زمین پھسلنے والی تھی، قدم اس پر جمتے نہیں تھے۔ پانی وہاں موجود نہیں تھا اور شیطان کے وسوسے زوروں پہ تھے۔ شیطان نے دلوں میں یہ بات ڈالی اور بعض دلوں سے وہ بات زبانوں پر بھی آئی اور پھیلنا شروع ہوگئی کہ ہم کیسے مقابلہ کریں گے جبکہ ہم تو اس وقت پاکیزگی کی حالت میں بھی نہیں ہیں۔ نمازوں کے لیے بھی ہمارے پاس وضو کے لیے کافی پانی موجود نہیں ہے کہ اپنے جسموں کو صاف کریں اور ہم کیسے مقابلہ کریں گے جبکہ جنگ کے اندر پینے کے پانی کی ضرورت پڑے گی تو ہم پیاس سے مارے جائیں گے ۔ تو شیطان نے یہ ساری باتیں دلوں میں ڈالنا شروع کیں اور قدموں کو اکھاڑنا شروع کیا۔ اور پھر یہ بات بھی کہ تمہارے درمیان اللہ کے نبیﷺ موجود ہیں؛ (نعوذ باللہ) اگر یہ واقعی سچے ہوتے تو پھر تمہارے ساتھ یہ معاملہ کیوں ہورہا ہوتا! تم تو ایک جنگ لڑنے چلے ہو، کیا پتہ موت آجائے ، ایسی حالت میں آئے گی……!!! اللہ کے نبیﷺ اور خود اللہ کی ذات پہ ایمان متزلزل کرنے کے لیے شیطان نے دلوں پہ حملے شروع کیے ۔ تو اس موقع پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بارش نازل فرمائی؛ لِّيُطَهِّرَكُمْ بِهٖ اس لیے کہ تم اپنے جسموں کو پاک کرو اس سے ۔ تو اتنی بارش ہوئی کہ پانی بہنے لگا اور مسلمانوں نے گڑھے بنا بنا کر اپنے اطراف پانی محفوظ کیا۔ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطٰنِ اور اتنا پانی اترا کہ اس کی وجہ سے شیطان کے ڈالے ہوئے سارے وسوسے دُھل گئے اور جو حملے وہ دلوں پہ کررہا تھا، اللہ نے ان کا توڑ فرمادیا۔ تو اللہ تعالیٰ جنگ میں مختلف مراحل سے گزار کے مجاہد کی تربیت کرتا ہے؛ پہلے ایک نصرت آرہی ہے، فرشتے آرہے ہیں، اونگھ آرہی ہے لیکن پھر اسی اونگھ سے اللہ تعالیٰ ایک آزمائش میں مبتلا کرتے ہیں، اُسی آزمائش سے پھر اللہ بارش برسا کے نکالتے ہیں…… ہر طرح کے حالات پے در پے آتے ہیں یہاں تک کہ انسان حالات کی تبدیلی سے نا گھبرائے اور اپنے رب سے جڑ جائے اور اس جہاد کی عبادت کے ساتھ اتنا مضبوط رشتہ بنالے کہ شیطان کے حملے اس کی استقامت پہ، اس کی مضبوطی پہ اور اس کے ارادے پہ اثرانداز نہ ہوسکیں۔

تو بارش آئی اور اس بارش نے جسموں کو بھی پاکیزہ کیا اور دلوں کو بھی پاکیزہ کیا اور دلوں کے اندر جو وساوس جگہ پارہے تھے ان کو دور کردیا۔ بارش کا ویسے بھی ایک اپنا پاکیزہ اثر ہوتا ہےــ جو رحمت کی بارش ہوتی ہے، دلوں کی گرمردنی کی کیفیت ہو تو صرف ارد گرد کا ماحول ہی نہیں جاگتا خود مزاج میں بھی شگفتگی اور تازگی آجاتی ہے بارش کے ساتھ اور یکا یک بجھا ہوا دل بھی جاگ اٹھتا ہے۔

تو یہ بارش اتری وَلِيَرْبِطَ عَلٰي قُلُوْبِكُمْ اور یہ بارش اللہ نے اس لیے بھی اتاری تاکہ تمہارے دلوں کو اللہ تعالیٰ جما دے یا ا ن کو مضبوط کر دے۔ علامہ سعدیؒ لکھتے ہیں کہ دلوں کا ثبات جسم کے ثبات کی بنیاد ہے ۔ اگر دل مضبوط ہوں گے تو جسم بھی کھڑا رہے گا۔ اگر دل میں کمزوری آجائے گی تو جسم جتنا بھی مضبوط ہو وہ مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ آپ نے دیکھے ہیں امریکی فوجیوں کے ڈیل ڈول؛ ہمارے ایک عام ساتھی سے دو دو تین تین گنا بڑا جسم ہوتا ہے۔ لیکن جب میدان میں سامنا ہوتا ہے تو ایک پندرہ سولہ سالہ افغانی بچے کا وہ مقابلہ نہیں کرسکتا۔ تو یہ دل کا فرق ہے ۔ ایک کے دل میں ایمان ہے ، ایک کے دل میں کفر ہے۔ اسی طرح ایمان اور ایمان میں بھی فرق ہے۔ حسب ایمان اللہ سبحانہ و تعالیٰ ثبات دیتے ہیں۔ کیسے کمزور کمزور، یعنی جسم کے لحاظ سے بالکل نحیف ساتھی دل کی صفائی اور دل کے اللہ سے جڑے ہونے کی بنیاد پہ بعض اوقات جیلوں میں ایسی ایسی عجیب تعذیب سہہ لیتے ہیں کہ جو بڑے بڑے مضبوط ساتھی، بڑے بڑے سمجھ دار اور فہیم ساتھی ، پرانے و تجربہ کار ساتھی نہیں سہہ پاتے۔ تو دل کی صفائی ہی وہ اصل جس کے اوپر باقی جسم کی طہارت اور مضبوطی کا انحصار ہے۔ اسی لیے آج کافر نے ہمارے دلوں پہ حملہ کیا ہے۔ امت کے دلوں کو گندا اور غلیظ کردیا ہے۔ اس کی آنکھوں سے اتنی غلاظت اس کے اندراتاری ہے، اس کے کانوں سے اتنی غلاظت اس کے سینے میں انڈیلی ہے کہ مسلمان نوجوان شہوتوں اور غلاظتوں میں ڈوب کر ختم ہوجائے اور وہ اس سے اعلیٰ کسی چیز کے بارے میں، اس سے پاکیزہ کسی فکر کے بارے میں نہ سوچ سکتا ہو، ماسواکوئی غم اس کے سینے میں نہ بس سکتا ہو۔ ظاہری بات ہے کہ ایک ہی دل میں فحش تصویریں اور اسی دل میں رب کی محبت جمع ہونا مشکل بات ہے۔ ایک ہی دل میں آخرت کی تڑپ ، اللہ سے ملاقات کا شوق اور اسی دل کے اندر وہ ساری غلاظتیں جو آج میڈیا پھیلا رہا ہے، جو نیٹ کے ذریعے پھیل رہی ہیں، ان دونوں چیزوں کا اکٹھا ہوجانا، وہ سارے شک کے بیج جو گمراہ سکالرز آآ کر بیٹھ کے ٹی وی کے ذریعے پھیلا رہے ہیں…… وہ ساری چیزیں اکٹھی ایک دل میں نہیں جمع ہو سکتیں۔ تو اس نے دل پہ حملہ کیا ہے کہ امت کے دل کمزور ہوجائیں اور جب دل کمزور ہوتے ہیں مسلمانوں کے تو خود بخود قدم میدان سے اکھڑ جاتے ہیں ۔ جنگ میں آنا تو بہت دور کی بات ہے، آنے سے پہلے ہی امت شکست تسلیم کرلیتی ہے۔ بہت بڑا ایک طبقہ میدان میں اترنے کو ہی محال خیال کرنے لگتاہے، اس لیے کہ دل کی حفاظت کا اہتمام پہلے دن سے نہیں کیا۔ تو دل کی حفاظت پہ کھڑی ہے اس امت کی مضبوطی۔ اپنے دلوں کی حفاظت کریں گے ہم اور اپنے دلوں کو شیطان کے حملوں سے بچائیں گے، اس کی خاطراپنی کانوں پہ، اپنی آنکھوں پہ اور اپنی زبانوں پہ پہرے بٹھائیں گے،اس کے اندر گندگی داخل نہیں ہونے دیں گے تو ان شاءاللہ تعالیٰ اللہ بھی ایسے پاکیزہ دلوں پہ نصرت اتاریں گے۔ تو یہ وجہ ہے کہ اللہ نے بدر کے موقع پر اونگھ طاری کی، اللہ تعالیٰ نے بارش اتاری، اللہ نے فرشتے بھیجے تاکہ تمہارے دلوں کو اللہ مضبوط کردیں۔ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَ اور دل مضبوط ہوں گے تو اسی کے ذریعے اللہ تعالیٰ قدموں کو بھی جمائیں گے، قدم بھی مضبوط ہوں گے۔ تو ایک دل کی مضبوطی کی وجہ سے قدم مضبوط ہوئے اور ایک خود اس بارش کی وجہ سے کہ مسلمانوں کی طرف جو زمین تھی وہ پھسلنے والی زمین تھی لیکن بارش ہوئی تو وہ تھوڑی نرم ہوئی اور قدم جمنا شروع ہوگئے۔ اور دوسری طرف ، کافروں کی طرف زمین ایسی تھی کہ پانی آنے کی وجہ سے وہ کیچڑ والی ہوگئی ، اس کے اندر پاؤں پھنسنے لگے، نقل و حرکت میں ان کو مشکل ہونے لگی؛ تو دہری نصرت تھی جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے اس موقع پہ (جنگ سے قبل) اور جنگ کے موقع پہ بھی آئی۔ ویسےخالص عسکری اعتبار سے بھی دیکھیں تو زمین اور بارش یہ سب انتہائی اہم فیکٹر ہوتے ہیں ۔ بعض اوقات پوری جنگوں کا فیصلہ اس بات پہ ہوا کہ ٹینکوں کی پیش رفت بارش سے دلدل اور کیچڑوالی زمین ہونے کی وجہ سے رک گئی۔ تو اس کے اندر خود جو عسکری سبق پوشیدہ ہیں وہ اپنی جگہ موجود ہیں اور اسی لیے ہر معرکے پہ جانے سے پہلے، کارروائیوں کا موسم چننے سے پہلے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کون سا موسم ہے؟ حرکت کب کی جاسکتی ہے؟ وغیرہ۔ خود ہم جانتے ہیں کہ جب تشکیلات کا وقت آتا ہے تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ بارش ہے کہ نہیں ہے، برف ہے کہ نہیں ہے…… اس لیے کہ اس اعتبار سے اپنا سامان بدلنا پڑتا ہے، اپنے آپ کو اس کے مطابق تیار کرنا پڑتا ہے ، سواری بھی اسی اعتبار سے چننی پڑتی ہے ۔ تو یہ ذیلی اسباق اس کے اندر ویسے پوشیدہ ہیں ساتھ ہی ساتھ۔

اِذْ يُوْحِيْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰۗىِٕكَةِ یعنی یاد کرو اس وقت کو جب تیرا رب فرشتوں کی طرف یہ وحی کررہا تھا اَنِّىْ مَعَكُمْ کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ۔ دو لشکر ہیں آمنے سامنے پیارے بھائیو! ایک لشکر وہ کہ جس کو شیطان کہتا ہے إِنِّي جَارٌ لَّكُم کہ میں تمہارا پڑوسی ہوں، تمہارا ساتھی ہوں اور ایک وہ لشکر ہے جس کو اللہ فرماتے ہیں اَنِّىْ مَعَكُمْ کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ۔ تو یہ اللہ کے اولیاء اور شیطان کے اولیاء کی جنگ ہے اور دونوں طرف نصرت کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی موجود ہے لیکن اللہ کی نصرت کا سہارا جس نے پکڑ لیا تو لَنْ فِصَامَ لَھَا وہ نہ ٹوٹنے والا سہارا ہے اور جس نے شیطان کا سہارا پکڑا تو سورۃ الانفال میں ہم آگے جا کر پڑھیں گے کہ جب فیصلہ کن مرحلہ آتا ہے تو شیطان کہتا ہے اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّنْكُمْ اِنِّىْٓ اَرٰي مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّىْٓ اَخَافُ اللّٰهَ کہ میں تم سب سے بری ہوں، مجھے وہ نظر آرہا ہے جو تمہیں نظر نہیں آرہا؛ یعنی مجھے اللہ کے فرشتے اور نصرتیں اترتی ہوئی نظر آرہی ہیں، میں نہیں اس کا مقابلہ کرسکتا، میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ تو یہ فرق ہے کہ کس نے کس کا سہارا پکڑا؛ وقتی طور پہ اللہ کے سہارے سے منہ پھیرنے والے چاہے کتنےہی مضبوط نظر آرہے ہوں اور اللہ کا سہارا جنہوں نے پکڑا ہو وہ کتنے ہی کمزور نظر آرہے ہوں لیکن جس نے جس پر اعتماد کیا فیصلہ بالآخر اسی کے اوپر ہونا ہے ۔ بظاہر کمزور نظر آنے والوں نے اگر اللہ کا سہارا پکڑ لیا تو وہ بالآخر مضبوط ہیں ۔ بظاہر مضبوط نظر آنے والوں نے بھی اگر شیطان کا سہارا پکڑا تو بالآخر ذلیل و خوار ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی فرمائی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا پس تم ایمان والوں کو مضبوط کرو ، ان کو ثبات بخشو۔ مفسرین کہتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ ان کے دلوں میں جرأت اور ہمت ڈالو، حوصلہ ان کے سینوں میں القا کرو۔ علامہ سعدی ؒ کہتے ہیں کہ حوصلہ الہام کرو ان کے سینوں میں کہ اس کی وجہ سے ان کے قدم جمیں۔ تو پیارے بھائیو! وہ جو دلوں کی کیفیات ہیں کہ جنگ کے موقع پہ ایک کمزور سے بھائی کو بھی اللہ ثبات دیتے ہیں تو اس کے پیچھے یہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا mechanism ہے جو کام کر رہا ہے ۔ ایک پورا نظام ہے کہ اللہ فرشتوں کو حکم دیتے ہیں اور فرشتے کمزور دل کو بھی، جب وہ اللہ کی یاد میں مشغول ہو، اللہ کی طرف متوجہ ہو اور اللہ کے لیے نکلا ہو تو اس کمزور سے دل کو بھی اللہ تعالیٰ مضبوط کردیتے ہیں ۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جن حالات میں ایک مجاہد رہتا ہے، بالخصوص اگر آزمائش کے مراحل ہوں، وہ ایسے حالات ہیں کہ بشری طاقت سے باہر ہے ان غموم کو ، ان ہموم کو ، ان مشکلات اور آزمائشوں کو سہنا۔ اگر کوئی انسان دنیا کی زندگی گزار رہا ہو ، اوراس کو ہر دوسرے دن اپنے کسی دوست، اپنے کسی رشتے دار، اپنے کسی کزن ، اپنے کسی چاچا ، اپنے کسی ماما کے مارے جانے کی ، قتل ہونے کی، ایکسیڈنٹ کی، روزانہ کی بنیاد پہ خبریں مل رہی ہوں تو وہ کتنے دن اس کو سہے گا! بالآخر پاگل ہوجائے گا، لیکن جہاد کے اندر ایسے مراحل آتے ہیں کہ سالوں تک یومیہ ایسی خبریں آتی ہیں اور ہر خبر میں کوئی نہ کوئی دل کا ٹکڑا ، کوئی نہ کوئی جاننے والا ، ایسے لوگ جو آپ کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں ، ایسے لوگ جو آپ کو آپ کے سگے بھائیوں سے آپ کے سگے رشتے داروں سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں، ان کی شہادت کی نا صرف خبریں آتی ہیں بلکہ ایسے حال میں آتی ہیں کہ بعض دفعہ جسم کا کوئی ٹکڑا تک نہیں ملتا جس کو آپ دفنا سکتے ہوں، جنازوں میں شریک ہونے تک کا موقع نہیں ملتا۔ تو یہ کیا چیز ہے جو ایک بشر کے دل کو یہ طاقت بخشتی ہے؟ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عطا کردہ سکینت ہے کہ جو اتنی بڑی بڑی آزمائشوں کو سہنے کے لیے ایک چھوٹے سے گوشت کے لوتھڑے کے اندر اتنی قوت بھر دیتی ہے کہ وہ ان ساری آزمائشوں کو سہنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ ورنہ انسان انسان ہے مضبوط سے مضبوط نظر آنے والا انسان بھی بس اتنا ہی چھ فٹ کا ، پانچ فٹ کا جسم رکھتا ہے اور یہی گوشت کا لوتھڑا اس کے جسم کے اندر بھی ہے ۔ لیکن فرق یہ ہے کہ کون سا دل اللہ کے ساتھ مربوط ہے ۔ کون سا دل اللہ کی طرف متوجہ ہے۔ تو جس کا نہیں متوجہ ہو گا اس کا حال یہ ہوگا کہ وہ میدان سے کوسوں دور بیٹھا ہوگا، اس کا اس جنگ سے، جس طرح عربی میں کہتے ہیں، لا ناقۃ لہ و لا جمل، اس کا دور پار کا بھی اس سے واسطہ نہیں ہوگا اس کے باوجود وہ وہاں بیٹھ کے کانپ رہا ہوگا کہ کہیں مجاہدین کے کسی کام کی وجہ سے امریکہ یوں نہ کردے ہمارے ساتھ، اور مجاہدین کے کسی کام کی وجہ سے ہم پہ کوئی آفت نہ آجائے۔ جن کا حال قرآن کھینچتا ہے کہ نَخْشَىٰ أَن تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ ہم ڈرتے ہیں اس بات سے کہ کہیں کوئی آفت ہمارے اوپر نہ آجائے اور جیسا کہ منافقین کی صفت قرآن بتاتا ہے کہ جہاں بھی کوئی اونچی آواز آجائے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے خلاف کوئی کام ہوا ۔ اس حد تک کمزور دل، چوہے کا دل ہوجاتا ہے کہ جو اللہ سے غافل ہوجاتا ہے ۔ اللہ اس کے اندر رعب ڈال دیتے ہیں ، وہن ڈال دیتے ہیں، کمزوری ڈال دیتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف وہ دل نظر آتے ہیں جن کے پیچھے ساری دنیا گھوم رہی ہے۔ وہ پانچ چھ فٹ کا بندہ ہوگا؛ اس کا نام کسی Most wanted list میں بھی لکھا ہوگا؛ اس کے سر پہ کروڑوں ڈالر بھی لگائے ہو ں گے انہوں نے اور ساری دنیا کی ایجنسیاں اس کے پیچھے گھوم رہی ہوں گی؛ اس کے سر پہ چھ چھ ڈرون بھی گھوم رہے ہیں اور وہ اطمینان کی نیند سو رہا ہے ۔ تو کیا فرق ہے دونوں کے اندر؟ آپ خود دیکھتے ہیں یہاں بازاروں میں گھومتے پھرتے مجاہدین کو ۔ ان مجاہدین کو کہ جن کو پتا ہے کہ ساری خبریں ان ہی کے گرد گھومتی ہیں ۔ صبح و شام وزیرستان ، وزیرستان کی بات ہورہی ہوتی ہے۔ تو جس کے اوپر خبر گھوم رہی ہے وہ آرام سے بیٹھا ہوتا ہے اور اس کے رشتے دار بے چارے ٹینشن کھا رہے ہوتے ہیں ، اس کے جاننے والوں کا خوف کے مارے حال خراب ہورہا ہوتا ہے کہ پتہ نہیں کیا ہوجائے گا؛ لیکن جس پہ آنی ہے وہ مجاہد عجیب مخلوق ہوتی ہے ، وہ اس سارے کو بالکل ایسا لے رہا ہوتا ہے کہ جیسے کچھ ہے ہی نہیں ۔ اللہ کی طرف متوجہ ہونا اللہ کی رحمت ہے ۔ یہ اللہ کی رحمت ہے اپنے مجاہد بندوں پر کہ اللہ تعالیٰ اتنی مشکل عبادت ان کے لیے آسان کردیتے ہیں اور ان کے دلوں کو اتنا مضبوط کردیتے ہیں کہ عقلِ انسانی سمجھنے سے قاصر ہے اس پورے فلسفے کو کہ یہ کیسے ہورہا ہے سب کچھ۔ کافروں کا فوجی چھ مہینے کے لیے میدان میں آتا ہے۔ Maximum (زیادہ سے زیادہ) جو extension (توسیع) ان کو ملتی ہے وہ ایک سال کے لیے ہوتی ہے۔ تو اس ایک سال کے اندر اندر حسبِ فوج ہے؛ امریکی فوج کی تو غالب اکثریت واپس جانے تک پاگل ہو چکی ہوتی ہے اور یہ وہ اکثریت ہے جو کسی نہ کسی رپورٹ میں آگئی، جو کسی نہ کسی کلینک میں چلی گئی اپنا علاج کرانے۔ باقی جس کے اوپر ذہنی ڈینٹ لگے لیکن کہیں گیا نہیں علاج کرانے اس نے بس ویسے شراب زیادہ پینا شروع کردی ، نشے میں اضافہ کردیا،وہ تعداد اس کے علاوہ ہے جو کسی حساب میں نہیں آتی۔ تو وہ چھ آٹھ ماہ کی باری نہیں سہہ سکتے۔ بہترین گاڑیوں میں نکلتے ہیں ، ان کو ہر قسم کی protection (حفاظت) حاصل ہوتی ہے۔ ان کے اوپر ہیلی کاپٹر ہوتےہیں، بکتربند گاڑیاں ہوتی ہیں ، جن پہ گولیاں ویسے ہی اثر نہیں کرتیں ۔ کیمپوں میں ہوتے ہیں تو اتنے بڑے کیمپ ہیں ، bunker ( قرار گاہیں) بنے ہوئے ہیں کہ ان میں خوف کھانے کی کیا بات ہے؟ لیکن ان سے وہ نہیں سہا جاتا اور مجاہد بے چارہ بے سر و سامان اتنی بڑی قوت کے سامنے کھڑا ہوا ہوتا ہے، ایک کلاشن کندھے پہ لے کے گھوم رہا ہوتا ہے لیکن وہ ٹینشن سے خالی ہے۔ تو یہ رب کی رحمت ہے جہاد کرنے والوں کے لیے ، اللہ کے دین کے راستے پہ چلنے والوں کےلیے کہ اللہ دلوں کو مضبوط کرتے ہیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ ان کو ثبات بخشو، ان کو مضبوط کردو۔

اللہ کی نصرت بھی دیکھیں کہ ایک طرف مجاہد کو مضبوط کیا اور دوسری طرف سَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ ،اللہ فرماتے ہیں، میں کافرو ں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا۔ تو دونوں طرف ، دونوں کے دلوں کے اوپر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم سے اثرات ہورہے ہیں ۔ ایک کے دل پہ اللہ کے حکم سے سکینت اور ایک کے دل پہ اللہ کے حکم پر رعب اور یہی کُل جنگ ہے ۔ آپ کسی عسکری تعریف کے مطابق بھی دیکھیں تو جنگ کا فیصلہ ہی اس بات پہ ہوتا ہے کہ نفسیاتی طور پہ کون زیادہ مضبوط کھڑا ہوا ہے۔ جو رعب میں آگیا ، جس نے دوسرے پہ اپنا رعب طاری کردیا، جنگ ختم ہوگئی اس کے بعد، چاہے اس کے پاس کتنی بھی طاقت کیوں نہ ہو ۔ نوّے ہزار ہوتے ہیں اس کے بعد بھی ہتھیار ڈال دیتے ہیں؛ یہ کس چیز کا اثر ہے؟ یہ وہن ہے دلوں کے اندر ، کمزوری ہے، بے مقصد چیز کی خاطر لڑ رہے ہیں۔بڑی بڑی فوجیں شکست کھا جاتی ہیں…… کروڑوں کی فوجیں…… ! روس کے پاس کیا کمی تھی؟ لیکن اللہ تعالیٰ نے بکھیر دیا اس کو خس و خاشاک کی طرح؛ جیسے اس کے پاس کوئی چیز ہی نہ ہو۔ تو یہ فرق ہے کہ ایک طرف اللہ نے ثبات دیا اور دوسری طرف کافروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، سَاُلْقِيْ میں خود، اللہ کی نصرت براہ راست آتی ہے، اللہ کا وعدہ ہے إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا اللہ دفاع کرتے ہیں ایمان والوں کا؛ تو اللہ خود فرماتے ہیں کہ میں؛ یہاں پہ فرشتے بھی نہیں آتے درمیان میں، اللہ فرماتے ہیں کہ میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا عن قریب یا ڈال دیا ہے یا ڈالنے لگا ہوں؛ سَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ اور یہ رعب پیارے بھائیو ! جنگ کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ مفسرین نے بھی لکھا ہے کہ اللہ کی جنود میں وہ سب سے بڑی جند ہے، اللہ کے لشکروں میں وہ سب سے بڑا لشکر ہے جس کے ذریعے اللہ کسی کی نصرت فرماتے ہیں کہ اس کا رعب دوسروں پہ ڈال دیں اور حدیث میں آتا ہےــ ہم ان نبیﷺ کے امتی ہیںــ نُصِرْتُ بِالرُعْبِ مَسِیْرَۃَ شَھْرٍ کہ میری رعب کے ذریعے مدد کی گئی ایک مہینے کی مسافت تک۔ یعنی ایک مہینے کی مسافت پہ دشمن ہوتا تو اس کے دل پہ رسول اللہ ﷺ کا رعب پڑ جاتاتھا۔ پس جو بھی اللہ کے نبی ﷺ کی سنت کی جتنی بھی اتباع کرے گا ، جو بھی اپنے اخلاق میں ، اقوال میں ، عقائد میں ، افکار میں جتنا رسول اللہ ﷺ سے مشابہت اختیار کرے گا اتنا اللہ کے دشمنوں پر اس کا رعب ہوگا، اتنا انسان اس سے ہیبت کھائیں گے اور حدیث میں بھی یہی آتا ہے کہ جو اللہ سے خوف کھاتا ہے، سب لوگ اس سے خوف کھاتے ہیں اور جو لوگوں سے خوف کھاتا ہے تو وہ سب چیزوں سے خوف کھانے لگتا ہے ۔ تو یہ چیز ذہن میں رکھنے کی ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ کی سنت کے اتباع کا براہ راست نتیجہ یہ ہوتا ہے، اور اپنی آنکھوں سے انسان اس کے نتائج دیکھتا ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے علمائے حق ہوں یا ایسی شخصیات ہوں کہ جنہوں نے اپنی زندگیوں کو شریعت کے سانچے میں ڈھالا ہو، وہ ایک ایک آدمی کسی غار میں بھی چھپا بیٹھا ہوتا ہے تو کافر اس کے نام سے لرز رہے ہوتے ہیں۔ محض خود رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تو خاص نہیں رہا یہ معاملہ۔ حضرت ابوبکر ؓ آئے، حضرت عمر ؓ آئے، وہ مسلمان قائدین کہ جن کے ناموں سے وہ وہاں بیٹھ کے یورپ والے کانپا کرتے تھے، مائیں اپنے بچوں کو ڈرایا کرتی تھیں؛ اور اسی امت میں صلاح الدین ایوبؒی آئے، ابن تیمیہؒ آئے ، عز ؒبن عبدالسلام آئے۔ ایسے ایسے جرنیل اللہ نے اس امت کو دیے، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص، حضرت ابو عبیدہؓ ، حضرت خالد ؓبن ولید کہ جن کے نام سے کافر گھبرایا کرتے تھے؛ تو یہ رعب اس چیز سے وابستہ ہے کہ کون کتنا متابع ِ شریعت ہے، کون کتنا شریعت کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتا ہے، اتنا ہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کافروں پر اس کا رعب ڈالیں گے۔ بالعکس ہے؛ اگر انسان شریعت سے دور ہونا شروع ہوجائے اور دنیا کی خاطر ،یا کافروں کی قربت کی خاطر یا یہ سمجھنے کی خاطر کہ شاید اس سے میں بلند ہوں گا ، اپنے آپ کو کافروں کے رنگ میں رنگ ڈالے ، شریعت سے دوری اختیار کرے، مغرب کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگے، تو وہ جو چاہ رہا ہوتا ہے اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے ۔ اس کا خیال ہوتا ہے کہ وہ اس طرح بلند ہورہا ہے، بالحقیقت اللہ کے ہاں وہ جتنا ذلیل ہورہا ہوتا ہے سو ہو رہا ہوتا ہے ، دنیا میں بھی ذلیل ہورہا ہوتا ہے ۔ کافر بھی اسے جوتے کی نوک پہ رکھتے ہیں۔ بڑے بڑے حکمران ہمارے نظر آتے ہیںــ کہنے کو بڑے بڑے کہ جن کو دنیا بڑے بڑے کہتی ہے، جن کو میڈیا بڑا بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے، ان کی وقعت کافروں کے نزدیک اپنے کتے سے بھی زیادہ نہیں ہوتی۔ وہ حکمران ان کو اتنی بھی حیثیت نہیں دیتے ۔ ان سے کام لیا تو ٹشو کی طرح پھر پھینک دیا کسی کوڑے دان میں۔ پوچھا بھی نہیں کدھر دفن ہوئے، کدھر مرے ، جیتے تھے کہ مرتے تھے، کس حال میں تھے۔ اس کے برعکس حال ہے ایک مجاہد کا؛ وہ کسی پہاڑی میں ہو جہاں بھی ہو…… وہ ایک مثال ہی کافی ہے ، عیدا خان کے ہوٹل کی مثال۔ بش اس کے اوپر بیان جاری کرتا ہے کہ ہم نے اس عیدا خان کو پکڑ لیا کہ جس کا ہوٹل تھا جہاں پر ساری القاعدہ آکر بیٹھتی تھی۔ بش کا پتہ نہیں کیا خیال ہوگا کہ عیداخان کا ہوٹل کیا فائیو سٹار ہوٹل ہوگا؟ کتنے منزلہ ہوگا؟ وہ ایک چائے کا کھوکھا تھا شکئی کے علاقے میں اور وہاں جو چند مجاہد آتے وہ بیٹھا کرتے تھے ۔ تو امریکہ کے صدر نے خاص طور پر عیدا خان کے اس ہوٹل کا ذکر کیا ۔ اللہ تعالی نے عیدا خان رحمہ اللہ کو ، جو بعد میں شہید ہوئے، بلند کرنا تھا۔ وہ معروف ترین انصار میں سے تھے مجاہدین کے، بعد میں اپنے علاقے میں ڈرون حملے میں شہید ہوئےاپنے گھر کی تقریباً تمام خواتین و بچوں سمیت ۔ تو اللہ نے بلند کرنا تھا ان کا ذکر۔ اللہ نے شکئی کے ایک دیہات میں ایک چائے کا کھوکھا چلانے والے کا نام پوری دنیا میں مشہور کردیا اور جس کو اللہ تعالیٰ نے پست کرنا ہو اور جس کا خوف اللہ نے دلوں سے نکالنا ہو تو ان کا حال وہ ہوتا ہے کہ کبھی نواز شریف یہاں سے اٹھا کر پھینک دیا گیا ملک سے باہر تو دس سال وہ واپس نہیں پھٹک سکتا ۔ وہ پرویز جو کبھی یہاں کا سربراہ بناپھرتا تھا وہ چار دفعہ اعلان کرتا ہے کہ میں ملک واپس آؤں گا ، میں یوں کروں گا لیکن وہ قدم نہیں رکھ پاتا ۔ ذلیل ، حقیر ہو کے رہ گیا آخر (اور اسی ذلت میں مرا)۔ ایوب خان اپنے دور میں کیا ہوا کرتا تھا، پھر ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مرا۔ سکندر مرزا یہاں کیا ہوا کرتا تھا ؟ باہر کس حالت میں مرا ۔ تو ایسے لوگ کہ جن کو زمین بھی نہیں ملی کہ کوئی ان کو دفن کرے، کوئی ان کا جنازہ پڑھے، کوئی ان کے حق میں دعائے مغفرت یا کلمہ ِ خیر کہنے والا دنیا میں ہو۔ تو یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ حضرت عمر ؓ نے جو فرمایا کہ اللہ نے ہماری عزت اسلام میں رکھی ہے، اگر ہم نے اسلا م کے سوا کسی چیز میں عزت تلاش کی تو ہم ذلیل ہوجائیں گے؛ پس یہی حق ہے۔

تو پیارے بھائیو! یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نصرت ہے ۔ اللہ فرماتے ہیں کہ سَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْب کہ میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ پس وہ ایسے رعب کی حالت میں ہوں گے کہ تم ان کو پکڑ کے ان کی گردنوں پہ ضربیں لگاؤ، وَاضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ اور تم ان کی پور پور پہ مارو۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ اس آیت کے دو مخاطب ہوسکتے ہیں؛ ہوسکتا ہے کہ یہاں پہ خطاب فرشتوں سے ہو۔ تو فرشتوں کو کہا جارہا ہے کہ تم کافروں کی گردنوں پہ ضربیں لگاؤ اور تم کافروں کی پور پور پہ مارو۔ تو اگر فرشتوں سے خطاب ہے تو یہ دلیل ہے اس بات کی کہ بدر کے دن فرشتوں نے نا صرف مسلمانوں کے قدم جمائے اور ان کو سکینت بخشی بلکہ خود براہ راست جنگ میں حصہ لیا اور دیگر روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ صحابہ ؓ کہتے ہیں کہ ہم آگے بڑھتے تھے تو آسمان سے ایک کوڑا چلنے کی آواز آتی اور اس سے قبل کہ ہماری تلوار کافر کو لگتی، اس کی گردن اڑ کے جارہی ہوتی۔ اور ابھی ماضی قریب میں ہی میران شاہ کے اندر فوج کی لڑائی میں یہ واقعہ دیکھنے کو ملا بھی کہ ساتھی کہتا ہے کہ سب سے پہلے میں پہنچا اور میرے پہنچنے سے پہلے ہی گردنیں کٹی ہوئی پڑی تھیں فوجیوں کی ۔ تو جو بھی اللہ کے دین سے ٹکرائے گا اس کا یہی انجام ہوگا ۔ یہ اللہ کی نصرت ہے کہ یہ ایک ایسی عبادت ہے کہ جس کو ادا کرنے کے لیے ، جس میں مدد کرنے کے لیے فرشتے بھی لشکروں کے لشکر خود اترتے ہیں اور جنگ میں براہ راست حصہ لیتے ہیں کافروں کے مقابلے میں۔ دوسری طرف اگر اس کا معانی یہ لیا جائے کہ یہ مسلمانوں کو حکم ہے تو پیارے بھائیو! یہ آیت پھر ایک پوری نفسیات کا علاج کرتی ہے کہ یہاں اللہ سبحانہ و تعالیٰ خود ، صرف اتنا اجمالی حکم نہیں دے رہے کہ کافروں کو قتل کرو بلکہ اس کا اسلوب بھی سکھارہے ہیں کہ ان کی گردنوں پہ ضرب لگاؤ اور ان کی پور پور پہ مارو۔تو یہ اس پوری ذہنیت کو ہلا کر رکھ دیتا ہے جو اس نصاب اور نظام تعلیم نے بنائی، اس جدید دجالی معاشرے نے ہماری بنائی، میڈیا نے بنائی ، جو بھی مختلف ذرائع ہیں جن کو استعمال کرتے ہوئے یہ ذہن بنایا گیا کہ جس وجہ سے مرغی کو ذبح کرنا تک مشکل ہوتا ہے ایک مسلمان کے لیے، جس کی وجہ سے خون دیکھنا مشکل ہوتا ہے ایک مسلمان کے لیے۔ اس پورے ذہن کو شریعت نے تبدیل کیا اور اس ذہن کو یہ قوت بخشی۔ اس کو رب خود تعلیم دے رہا ہے، یہ چھوٹی بات نہیں ہے ، کسی عالم کی بات نہیں ہے صرف، حتیٰ کہ کسی صحابی کی بات بھی نہیں ہے، خود اللہ تعالیٰ تعلیم دے رہے ہیں کہ ان کی گردنوں پہ مارو۔ گردنیں مارنے پر جن کو اعتراض ہوتا ہے تو وہ جان لیں کہ یہ تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حکم ہے ۔ اس پہ اصلاً اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مجاہدین حکمتاً یہ مناسب نہ سمجھیں کہ اس کی ویڈیو بنا بنا کے جاری کریں ایک ایسے دور میں جہاں لوگوں کو دین کی بنیادی باتیں بھی نہیں معلوم اور یہ چیز ان کو دین کے سمجھنے میں مدد دینے کے بجائے الٹا ان کو دور کرتی ہے اس سے، لیکن اصلاً کیا شرعاً اس حکم میں کوئی مسئلہ ہے؟ شرعاً تو کوئی بھی مسٔلہ نہیں ہے اس حکم میں ۔ یہ اللہ کا حکم ہے کہ کافروں کی گردنوں پہ مارو؛ اور کیا جزا ہونی چاہیے اس کی کہ جو شخص اپنے رب کو نہیں مانتا اس کے دین کے خلاف جنگ کرنے نکلتا ہے، صرف ساکت ہو کے کسی کونے میں جاکر بھی نہیں بیٹھتا بلکہ ببانگ دہل دین کے خلاف جنگ کرنے کے لیے نکلتا ہے…… اس کی جزا کیا ہونی چاہیے؟ وہ اللہ کی زمین پہ ، اللہ کا کھا کے ، پھر اللہ کے ساتھ ہی ایسی غداری کرے تو گردن نہیں اڑے گی تو اور کیا ہونا چاہیے اس کے ساتھ؟ یہ وہ کینسر ہے کہ جس کا آپریشن ہونا چاہیے ۔ آپ بتائیے! یہود کے ساتھ کہ جنہوں نے ستّر سال سے فلسطین، اللہ کے محبوب ترین انبیا کی سرزمین کو یرغمال بنایا ہوا ہے ، جو رسول اکرم ﷺ کی معراج و اسریٰ کی یادگار کو اپنے نجس قدموں سے غلیظ کرتے ہیں، جس کو انہوں نے نیچے سے کھوکھلا کردیا ہے، جو غزّہ کی چھوٹی سی بستی کو گھیر کے ، مار مار کے وہاں پہ چھوٹے چھوٹے بچوں تک کو قتل کرتے ہیں…… تو ان کے ساتھ کیا ہونا چاہیے؟ وہ ایک کینسر ہیں جن کے ساتھ یہی علاج ہونا چاہیے کہ ایسی عبرت کا نشان بنا یا جائے کہ جس کے بعد کوئی اور ہمت نہ کر سکے یہ چیز دہرانے کی۔ پینسٹھ سال ہوگئے ہیں کشمیر کے اندر دن رات ظلم ہے جو مسلمانوں کے ساتھ وہاں کیا جارہا ہے، نہ عزتیں محفوظ ہیں ، نہ جان و مال محفوظ ہیں۔ پرانے قصوں کی صرف بات نہیں ہے، صرف اس ایک سال میں کتنے عصمت دری کے واقعات ہوچکے ہیں؟ تو ان لوگوں کے ساتھ کیا ہونا چاہیے سوائے اس کے کہ ان کی گردنیں کٹیں! تو جو ان کے ساتھ نرمی کی بات کرتا ہے ، جو ان کے ساتھ پیار محبت کی بات کرتا ہے، جو ان کے ساتھ میل ملاپ کی بات کرتا ہے، وہ امریکہ کہ جس نے امت کے اوپر یہ بد بخت سارے مسلط کیے ہیں جن کی وجہ سے آج امت اپنے دین سے دور ہوگئی ہے، جن کی وجہ سے یہ ساری گندگیاں، غلاظتیں ، فحاشیاں، بد عات اور شرکیات ہمارے معاشرے میں پھیل رہی ہیں تو اس امریکہ کا کیا علاج ہونا چاہیے؟ اس ذہن پہ حیرت اور تعجب ہے جو ذہن ابھی تک اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکا۔ یہ شرعی حقیقت کے ساتھ ساتھ ایک تکوینی حقیقت ہے کہ دنیا میں صرف پیار محبت کی باتوں سے اور ٹیبلوں پر بیٹھ کر آمنے سامنے، ہاتھ کھڑے کرنے اور ووٹنگ کرنے سے کچھ بھی نہیں بدلتا ہے۔ نہ تاریخِ انسانی میں آج تک کبھی اس طرح فیصلے ہوئے ہیں۔ وہ حق جو کمزور ہو ، جس کی نصرت کرنے کے لیے تلوار نہ موجود ہو تو وہ حق کہیں بھی آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ کسی عالم کی بات میں سن رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دو چیزیں نازل فرمائی ہیں اور دونوں آسمان سے نازل فرمائی ہیں؛ ایک قرآن نازل فرمایا ہے اور دوسرا حدید ’لوہا‘ نازل فرمایا ہے، اور یہ دو چیزیں ملتی ہیں …… حق ہو اور حق قوی ہو ، حق کے پاس قوت ہو، حق کے پاس اپنے دفاع کے لیے اور اپنے آپ کو پھیلانے کے لیے قوت ہو،تب جا کے دنیا میں فلاح قائم ہوتی ہے اور فساد کا خاتمہ ہوتا ہے لیکن حق موجود ہو اور قوی نہ ہو، قوت موجود ہو اور حق نہ ہو ، ہر دو صورت میں فساد ہوگا۔ لہٰذا مسلمان نوجوانوں کو اپنے ذہنوں کو اس کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے کہ یہ دین حق ہے ،یہ اللہ کی زمین ہے ، یہ رب کی مخلوق ہے اور یہاں اللہ کا نظام نافذ ہونا چاہیے۔ جو اسے برضا و رغبت قبول کرتا ہے اس کے لیے وہی سب کچھ ہے جو ہمارے لیے ہے اور ہمارے اوپر اس کے وہی سارے حقوق بنتے ہیں جو کسی اور مسلمان کے ہیں لیکن جو شخص اس راہ میں رکاوٹ ڈالے گا اور جو شخص اس کے خلاف برسر پیکار ہوگا تو وَاضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ پھر اس کی پور پور پر ضربیں لگائی جائیں گی۔

ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَاۗقُّوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ یہ سب اس لیے ہے کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کی وَمَنْ يُّشَاقِقِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ اور جو کوئی بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کرے گا تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں۔ تو یہ سمجھنے کی بات ہے کہ یہ جو ہماری نصرت ہوئی؛ ذٰلِكَ سے کیا مراد ہے کہ ’یہ‘ جو کچھ ہے یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کی ۔ یہ جو ہماری نصرت ہوئی یہ اس لیے ہوئی کہ ہم حق پہ تھے اور انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کی تھی اور یہ جو وہ ذلیل ہوئے ،اللہ نے ان کو عذاب دلوایا ، اللہ نے ان کو سزا دلوائی، اللہ نے ان کے ٹکڑے کروائے، ان کی گردنیں کٹوائیں، ان پہ فرشتے مسلط کیے، کافروں کی پٹائی بھی اسی لیے ہوئی کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کر رہے تھے ۔ تو فیصلہ جس بنیاد پہ ہورہا ہے وہ خالص ایک معنوی چیز ہے، وہ ایک مادی چیز نہیں ہے ۔ مادے کی بنیاد پہ فیصلہ نہیں ہو رہا۔ اللہ تعالیٰ اگر کسی گروہ کی نصرت کا فیصلہ کررہے ہیں اور کسی کی شکست اور ذلت کا فیصلہ کر رہے ہیں تو وہ اس بنیاد پہ کہ کون اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اتباع اور اطاعت کرتا ہے اور کون اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت اور ان کی مخاصمت کرتا ہے۔ تو اس کے اوپر پورے کا پورا یہ فیصلہ کھڑا ہے ۔ جتنا ہم مسلمان شریعت سے دور ہوں گے ، مسلمانی کے دعوے کے باوجود، اتنا اللہ کی نصرت کم ہوگی اور جتنا شریعت سے قریب ہوں گے اتنی ہی اللہ کی نصرت زیادہ ہوگی۔ جتنا ہمارا دشمن اللہ کے دین سے سرکشی میں آگے بڑھے گا ، جتنا اس کا ظلم ، اس کا فساد، اس کی گندگی آگے بڑھے گی اتنا زیادہ اس کی ہلاکت اور بربادی کا دن قریب آئے گا، اتنا زیادہ اللہ تعالیٰ ہمارے ہاتھوں ان کو عذاب دیں گے۔ پھر یہ عذاب کی بھی نوعیت دیکھ لیں ؛ یہ عذاب کا ایک جزو ہے جو دنیا میں اللہ نے ان کے لیے لکھا، فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ پہ آیت ختم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں۔ تو بظاہر کوئی عذاب تو نہیں نازل ہوا، آسمان سے پتھر نہیں برسے ، کوئی زمین نہیں دھنسی لیکن بدر کے دن جو ان کے ستّر بڑے بڑے لوگ قتل ہوگئے ، ان کی جڑ کٹی ایک دفعہ، ان کا زور ٹوٹا ، مسلمانوں کے ہاتھوں، اللہ اس کو اپنا عذاب کہہ رہے ہیں۔ تو یہ کافروں کے لیے اللہ کا ایک نظام ہے اور بالخصوص امتِ محمدیہ ﷺ کے لیے یہ اللہ نے باقی امتوں سے کہیں بڑھ کے رکھا ہے کہ امتو ں کو عذاب دینے کے لیے مسلمانوں کو ان پہ مسلط کرتے ہیں اور ان کے ذریعے سے ان کو عذاب دیا جاتا ہے قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ ان سے جنگ کرو اللہ تمہارے ہاتھوں ان کو عذاب دے گا۔

تو پیارے بھائیو! ہم آلے ہیں ۔ ہم اللہ کے ہاتھ میں اور اللہ کے نظام کے آلے ہیں جن کے ذریعے اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان کافروں کو عذاب دے رہا ہے۔ امریکہ کو اس کے ظلم کا ، اس کے فساد کا اور اس کے کفر کا عذاب مل رہا ہے ۔ پاکستانی فوج کو اس کے ظلم ، فساد اور کفر کا عذاب مل رہا ہے اور اسی طرح جتنے لوگ بھی کفر کی صف میں کھڑے ہیں ان کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمارے ہاتھوں سے عذاب دے رہاہے۔ ہم خود کچھ بھی نہیں ہیں ۔ ہمارے اپنے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ اللہ کے بنائے ہوئے منصوبوں کے مطابق یہ ساری گاڑی چلتی ہے ۔ لال مسجد کے بعد رخ مجاہدین کا پھر گیا پاکستانی فوج کی طرف تو یہ کسی کی منصوبہ بندی سے نہیں پھرا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے ہاںــ نحسبہ کذالک اللہ بہتر جانتے ہیں اس امر کو، لیکن جو ہمیں سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے ظلم کا پیمانہ ایسی جگہ تک پہنچ گیا تھا ، اس فوج کے فساد کا پیمانہ ایسی جگہ تک پہنچ گیا تھا اور یہ جرم اللہ کے ہاں بھی اتنا ناقابل برداشت تھا کہ اللہ نے حالات ایسے بنائے کہ مجاہدین چاہتے یا نہ چاہتے ان کو جا کے ان سے ٹکرانا پڑا۔ پوری فضا ایسی بن گئی کہ جا کے ان سے ٹکرانا پڑا۔ اللہ کے ہاں صرف یہ ساٹھ سال نہیں بلکہ جب سے انگریز نے اس فوج کی بنیاد رکھی ہے تب سے اب تک اس نے جو فساد کیے، جتنی خلافتیں گروائیں، جتنی عزتیں لوٹیں، جتنے مسلمانوں کو شہید کیا…… یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے اس کے بدلے کا آغاز ہے۔ اس کی جزا ہے جو دنیا میں ملنا شروع ہوئی اور اللہ فرماتے ہیں ذٰلِكُمْ فَذُوْقُوْهُ یہ تو ابھی چکھو وَاَنَّ لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابَ النَّارِ اور کافروں کے لیے آخرت میں بھی آگ کا عذاب ہے ۔ یہ تو صرف دنیا کا عذاب ہے جو بہت ہی ہلکا ہے آخرت کے عذاب کے مقابلے میں، تو یہ نہیں برداشت ہو رہا تم سے ۔ توبہ کرلو! نہیں کروگے تو پھر آخرت میں بھی کفر کرنے والوں کے لیے عَذَابَ النَّارِ آگ کا عذاب ہوگا ۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان آیات کے مفہوم کو سمجھنے او ر ان کے مطابق عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائیں ۔

سبحانک اللھم و بحمدک نشھد ان لا الہ الا انت نستغفرک و نتوب الیک و صلی اللہ علی النبی

Previous Post

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: بائیس(۲۲) اور تئیس (۲۳)

Next Post

موت وما بعد الموت | چودھواں درس

Related Posts

نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری
حلقۂ مجاہد

نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری

17 اگست 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: پینتیس (۳۵)

14 اگست 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | پندرھواں درس

12 اگست 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | چودھواں درس

14 جولائی 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)

14 جولائی 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: تینتیس (۳۳)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: تینتیس (۳۳)

9 جون 2025
Next Post
موت وما بعد الموت | سترھواں درس

موت وما بعد الموت | چودھواں درس

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version