غرض کوئی بات ہو اپنے نفس پر عمل نہ کیجیے، جو چیزیں کھٹکتی ہوں چاہے کہیں سن بھی لیا کہ بھائی اس معاملے میں کچھ گنجائش ہے، سنی سنائی بات پر عمل نہ کیجیے۔ اگر شیخ عالم ہے تو اس کو خط لکھیے کہ میرا ایک عمل ہے، میں ایسا کرتا ہوں، اس سلسلہ میں آپ کی کیا رائے عالی ہے؟ اور اگر شیخ بہت بڑا عالم و مفتی نہیں ہے تو اہل فتاویٰ سے رجوع کیجیے لیکن اپنی طبیعت سے مسئلے مت بنائیے ورنہ سمجھ لیجیے کہ اگر کوئی ایک مسئلہ میں بھی شریعت کے خلاف چلے گا تو اس کا سلوک طے نہیں ہوسکتا، نہ اس کے وظیفوں میں اثر آسکتا ہے۔ خدا جزائے خیر دے حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب کو، فرمایا کہ جو لوگ گناہ نہیں چھوڑتے اور وظیفے خوب پڑھ رہے ہیں تو وظیفوں میں اثر کیسے آئے؟ وظیفوں سے رحمت کا ٹرک آگیا اور گناہ اور نافرمانی سے خدا کے غضب کا ٹرک سامنے کھڑا ہوگیا اور سائیڈ نہیں دے رہا ہے۔ آپ بتلائیے کہ سلوک طے ہوگا اس کا؟ اللہ تعالیٰ ولی اسی کو بناتا ہے جو صاحبِ تقویٰ ہوتا ہے۔
تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ شیطان جب دیکھتا ہے کہ یہ شخص فلاں جگہ سے دین سیکھتا ہے تو اس کے دل میں اس دینی مربّی سے کوئی نہ کوئی بدگمانی ڈال دیتا ہے، پھر وہ آنا جانا چھوڑ دیتا ہے۔ یہ شیطان کا بہت بڑا ہتھیار ہے، بدگمانی ڈال کر دینی مرکزوں سے اور دین کے خادموں سے دور کر دیتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اگر کسی دینی خادم سے آپ کو مناسبت نہیں ہے اس کے پاس مت جائیے، کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہر شیخ کو اپنا شیخ تسلیم کرلیں، اگر غلطی سے اصلاح کا تعلق بھی کرلیا تو آپ شیخ بدل لیجیے، کسی دوسرے شیخ کے پاس جائیے لیکن بلادلیل بدگمانی نہ کیجیے، اس کی غیبت بھی نہ کیجیے۔
بدگمانی پر اب میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ الٰہ آباد میں حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے، ان کے ایک مرید جن کا یہاں کراچی میں جنرل اسٹور بھی ہے انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ میں ایک بہت بڑے افسر کو مولانا کی خدمت میں لے گیا کہ یہ مولانا سے متاثر ہوجائے گا، ان سے استفادہ کرنے لگے گا، گناہ چھوڑ دے گا، اللہ والا بن جائے گا۔ عشاء کے بعد وہاں گئے۔ اس وقت مولانا بادام اور پستہ کھا رہے تھے، دعا وغیرہ کے بعد واپس ہوئے تو راستے میں انہوں نے بڑی امیدوں کے ساتھ پوچھا کہ جناب مولانا کی زیارت سے آپ پر کچھ اثر ہوا، کچھ اللہ کی محبت میں اضافہ ہوا، آپ مولانا سے کچھ متاثر ہوئے؟ تو کہنے لگے جو تاثر پہلے تھا وہ بھی ختم ہوگیا۔ کہنے لگے کیوں؟ کہا کہ اللہ والے تو وہ ہیں جو سوکھی روٹی پانی میں ڈال کر کھاتے ہیں، یہ بادام و پستہ اڑا کر اللہ والے کیسے ہوگئے۔ بتائیے حد ہے اس جہالت کی! انہیں جہالتوں سے شیطان راستہ مارتا ہے۔ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر ذکر کرنے والا دودھ نہیں پیے گا، سر میں تیل نہیں لگائے گا اور اگر دماغ میں خشکی بڑھ جائے گی تو خدا کے یہاں اس کی پکڑ ہوگی کہ تم نے ہماری دی ہوئی مشین استعمال کی مگر اس میں تیل کیوں نہیں ڈالا؟ جسم اللہ کی امانت ہے، اگر یہ جسم خدا کی امانت نہ ہوتا اور ہم خود اپنی جان کے مالک ہوتے تو خودکشی جائز ہوجاتی۔ یہ بہت بڑی دلیل ہے کہ ہم ان کے ہیں، امانت دار ہیں، اپنے جسم کے ہم مالک نہیں ہیں۔ اس لیے اپنی جان کو ہلاک نہیں کرسکتے، اسی لیے خودکشی حرام ہے۔
تو میرے دوست نے ہنس کر کہا کہ پستہ بادام کھانے سے وہ بدگمان ہوگئے اور کہا کہ ہم نے تو یہی سنا تھا کہ اللہ والے سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھاتے ہیں۔ ہاں کھاتے تھے کسی زمانے میں جبکہ ہر سال خون نکلوانا پڑتا تھا۔ آج سے سات آٹھ سو برس پہلے ایک زمانہ ایسا تھا کہ انسان کے جسم میں اتنا خون ہوتا تھا کہ اگر وہ سال میں خون نہ نکلواتے تو سر میں درد رہنے لگتا تھا اور رگیں تڑپنے لگتی تھیں۔ اب زمانہ آگیا خون چڑھوانے کا، کمزوری کا۔ ’’میڈ اِن ڈالڈا‘‘ ہوگیا انسان۔ اب اصلی گھی ملتا ہے؟ ارے گھی کیا ملے گا اب تو اصلی ہوائیں نہیں ملتیں۔ ڈیزل بھری ہوائیں ہیں کراچی کی۔ اس زمانے میں اگر ہم اچھی غذا نہ کھائیں گے تو دین کی خدمت کیسے کریں گے؟ حکیم الامت اپنے زمانے میں آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے پانچ روپے کا خالی ناشتہ کیا کرتے تھے۔ اس زمانے کا پانچ آج کا پچاس ہے یا نہیں، اور کیا کرتے تھے ناشتہ؟ موتی کا خمیرا، بادام مغزیات اور ایسی تمام قیمتی چیزوں کا ہوتا تھا وہ ناشتہ۔ میرے شیخ نے مجھ سے فرمایا کہ پندرہ سو کتابوں کے مصنف حضرت حکیم الامت جب تصنیف فرماتے تھے تو بادام پیس کر اس کی ٹکیہ سر پر رکھتے تھے، چار چار گھنٹے تک کتاب لکھ رہے ہیں اور دماغ بادام کا تیل چوس رہا ہے ورنہ اتنا بڑا کام ہوتا؟ اگر جان نہ ہو تو کہاں سے جان دے کوئی۔ بھئی قربانی کے بکرے کو بھی تو موٹا تازہ ہونا چاہیے نا! اپنے کو اگر ہم موٹا تازہ نہ کریں تو ہماری قربانی مریل ڈنگر کی قربانی ہوگی۔ اس لیے اگر اچھا کھائیے تو اللہ کے لیے کھائیے۔ مرغی کا سوپ پیجیے، انگور کھائیے لیکن خدا کی راہ میں اپنی طاقت کو فدا کیجیے۔ اپنی طاقت کو بیلوں کی طرح مسٹنڈے ہوکر غیرُاللہ کی محبت میں اور اللہ کی نافرمانی میں استعمال کرنا ناشکری ہے۔ اپنی طاقت اور پہلوانی کو اللہ کی راہ میں فدا کیجیے۔
پہلوانی پر یاد آیا کہ میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایسے قصے سناتے تھے کہ جب ان کی یاد آتی ہے تو دل تڑپ جاتا ہے کہ ہائے ؎
اڑ گئی سونے کی چڑیا رہ گیا پَر ہاتھ میں
ایک دفعہ کچھ قصے پہلوانوں کے بیان کیے اور یہ واقعہ سنایا کہ حضرت جنید بغدادی بھی پہلوان تھے۔ اس وقت وہ اللہ والے نہیں تھے، صرف پہلوانی کی روٹی کھاتے تھے، شاہی پہلوان تھے۔
کُشتی جیت لی اور شاہ کے خزانے سے پاگئے لاکھ روپے۔ جب کھا پی گئے اور پیسہ ختم ہوا تو پھر کہیں کُشتی لڑ لی۔ ایک دفعہ ایک نہایت کمزور سید صاحب آئے اور کہا کہ میں جنید بغدادی سے کُشتی لڑوں گا۔ سب ہنسنے لگے کہ بھائی آپ تو بڑے میاں ہیں اور کمزور بھی ہیں۔ انہوں نے کہا دیکھنا میں ایسا داؤ ماروں گا کہ جنید بغدادی بھی یاد کریں گے، حالانکہ اتنے کمزور تھے کہ چلنے میں کانپ رہے تھے۔ بادشاہ نے منظور کرلیا۔ جب اکھاڑے میں جنید بغدادی اترے تو وہ بڑے میاں بھی اترے کانپتے ہوئے لیکن کان میں کہا کہ دیکھو میں سید ہوں، میری اولاد کو فاقے ہو رہے ہیں، اگر تم آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کی محبت میں، نبی کی محبت میں اپنی آبرو کو ہار جاؤ تو یہ انعام مجھے مل جائے گا، تمہاری آبرو تو جائے گی لیکن سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم تم سے خوش ہوجائیں گے۔ بس اتنا سنتے ہی جنید بغدادی نے یہ سودا سستا سمجھا ؎
محبت کی بازی وہ بازی ہے دانشؔ
کہ خود ہار جانے کو جی چاہتا ہے
بس انہوں نے زور دکھانے کی کچھ ایکٹنگ کی جس کو نوراکشتی کہتے ہیں اور گر گئے دھڑ سے۔ جب وہ گر گئے تو بڑے میاں چڑھ گئے اور مکے مار رہے ہیں مگر وہ اللہ کی محبت میں برداشت کر رہے تھے، بڑے میاں سارا انعام لے گئے۔ اسی رات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا، فرمایا کہ اے جنید! تو نے میری محبت میں اپنی عزت کو بیچا ہے، میں تیری عزت کا سارے عالَم میں ڈنکا پٹوا دوں گا، آج سے تیرا نام اولیاء اللہ میں شمار کر لیا گیا ہے۔
تو میں یہ عرض کر رہا تھا دوستو! کہ بدگمانی بہت بڑی خطرناک بیماری ہے، اس سے بچیے۔ بدگمانی سے شیطان دینی خادموں سے محروم کر دیتا ہے۔ اس کی اب میں اور وضاحت کرتا ہوں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پانی کی ٹونٹی میں کسی نے پاخانہ لگا دیا اور اس کے بعد گلاس میں پانی لے کر پینے لگا تو کہتا ہے کہ اوہو! بڑی بدبو ہے آج تو پانی میں۔ کے ڈی اے (KDA) نے دھوکا دے دیا۔ ارے کے ڈی اے نے دھوکا نہیں دیا، آپ نے جو ٹونٹی میں پاخانہ لگایا ہے یہ اس کی بدبو ہے، پانی تو صاف آرہا ہے۔ اسی طرح اپنی بدگمانی کی وجہ سے انسان کو دین کے خادم حقیر اور برے نظر آتے ہیں۔ برائی ان میں نہیں ہے بلکہ خود اس میں ہے جو بدگمانی کر رہا ہے۔ اس بدگمانی سے حق اس کو باطل نظر آرہا ہے۔ واقعی بات یہ ہے کہ جب اللہ کا فضل نہیں ہوتا تو اچھی چیز بری نظر آنے لگتی ہے۔ دیکھیے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک میں سورج چلتا ہوا نظر آتا ہے اور ابوجہل کہتا تھا کہ میں نے ایسی بری شکل دنیا میں نہیں دیکھی، نعوذ باللہ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قلب مبارک پر اللہ تعالیٰ کا فضل تھا تو ان کی بصیرتِ صحیحہ کی وجہ سے ان کی بصارت بھی صحیح فیصلہ کر رہی تھی اور ابوجہل اس فضل الٰہی سے محروم تھا، اس کی اندھی بصیرت کی وجہ سے اس کی بصارت بھی غلط فیصلہ کر رہی تھی۔
اب دوسری وضاحت سنیے! ایک عورت اپنے بچے کا استنجا کرا رہی تھی، عورتیں چھوٹے بچے کا پاخانہ ہاتھ سے دھوتی ہیں، اتنے میں معلوم ہوا کہ چاند نظر آگیا، وہ بھی جلدی سے چاند دیکھنے لگی اور عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ اپنی انگلی کو ناک پر رکھ لیتی ہیں۔ تو دوسری عورت سے اس نے کہا کہ بہن اس دفعہ تو عید کا چاند بہت ہی سڑا ہوا نکلا ہے، سخت بدبو ہے۔ اس نے کہا کہ بے وقوف چاند میں بدبو نہیں ہے، تیری انگلی میں بدبو ہے جس پر بچے کا پاخانہ لگا رہ گیا ہے، تو اپنی انگلی کو دھو لے۔ ان قصوں کو قصے نہ سمجھیے، یہ عبرت کی داستانیں ہیں ۔ ان سے سبق لیجیے ورنہ اہلُ اللہ کا چراغ کوئی نہیں بجھا سکتا۔ میں پھر ببانگِ دہل کہتا ہوں کہ حق تعالیٰ جس چراغ کو روشن کرنا چاہتا ہےاسے کوئی نہیں بجھا سکتا، ایسے ایسے بدگمانی کرنے والے مرگئے لیکن اللہ تعالیٰ نے جس کو چمکانے کا فیصلہ کرلیا، اس کو کوئی نہ بجھا سکا ؎
چراغے را کہ ایزد بر فروزد
برآں کو تف زندریشش بسوزد
جس چراغ کو اللہ روشن کرتا ہے، جو اس کو پھونک مار کر بجھانا چاہتا ہے خود اس کی ہی داڑھی جل جاتی ہے۔ اللہ اپنے خاص بندوں کا چراغ ضائع نہیں ہونے دیتا۔ اس لیے ساری دنیا کی وہ پروا نہیں کرتے۔ بس اولیاء اللہ کو اور ان کے خادموں کو ایک ہی غم ہوتا ہے کہ کہیں اللہ ہم سے ناراض نہیں ہے۔ اس غم کے ہوتے ہوئے ساری دنیا کے غموں سے وہ آزاد ہوتے ہیں۔
اب آپ کو ایک واقعہ اور سناتا ہوں۔ ایک حبشی، موٹے موٹے ہونٹ، لمبے لمبے دانت والا افریقہ کے جنگل میں جارہا تھا۔ راستے میں کسی کا آئینہ گر گیا تھا، اس میں اس کو اپنی شکل نظر آئی۔ دیکھا کہ کالے رنگ کا ایک آدمی بڑے بڑے دانت، موٹے موٹے ہونٹ سامنے ہے آئینہ کے اندر۔ تب بڑی زور سے ڈانٹتا ہے آئینہ کو کہ کمبخت یہ تیرے کالے کالے موٹے موٹے ہونٹ اور ایسی خراب شکل ہے جبھی تجھے کوئی جنگل میں پھینک گیا ہے۔ اگر تو حسین ہوتا تو تجھے الماری میں سجا کر رکھتا۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حبشی کو آئینہ میں اپنی شکل نظر آئی لیکن وہ آئینہ کو برا سمجھ رہا تھا۔ اسی طرح جو لوگ دین کے خادموں کے متعلق بلادلیلِ شرعی محض اپنے خیالات سے بدگمانی کرتے ہیں وہ اصل میں ان کے باطن کی شکل ہوتی ہے جو ان کو اللہ والوں میں نظر آتی ہے۔ اس لیے اس بیماری سے خاص طور پر پناہ مانگیے، بزرگانِ دین اور علمائے ربّانیّین سے بدگمان نہ ہوں، پھر دیکھیے کتنا ملتا ہے۔ جس کو جتنا ہی زیادہ حسن ظن ہوتا ہے بزرگانِ دین سے، اس کو اتنا ہی زیادہ فیض ہوتا ہے۔ یہ بات شیخ العرب والعجم حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ضیاء القلوب میں لکھی ہے کہ جس کو اپنے دینی مربّیوں سے جتنا زیادہ نیک گمان ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی اس کو اپنا فضل، رحمت اور فیض عطا کرتے ہیں، اور حسن ظن تو ہر مومن سے ہونا چاہیے لیکن جو دین کے خادم ہیں ان سے اگر حسن ظن نہیں ہوگا تو ایسے شخص کا تو راستہ مارا گیا، اسے کچھ نہیں ملے گا۔
اب اس کی ایک اور مثال عرض کرتا ہوں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ چند باتوں کا علم ہوجانے سے بعض لوگوں کو شیخ المشائخ بننے کا شوق پیدا ہوجاتا ہے۔ یعنی وہ دین کے بڑے بڑے خادموں کی بھی اصلاح شروع کردیتے ہیں حالانکہ ان کو سوچنا چاہیے کہ انسان ہر ایک کو تو شیخ نہیں بناتا، جس سے اس کی مناسبت ہوتی ہے، اس کا روحانی گروپ ملتا ہے اس کو اپنا بڑا بناتا ہے۔ لہٰذا ہر آدمی دوسرے کا شیخ بننے کی کوشش نہ کرے۔ اس پر ایک قصہ سناتا ہوں بہت مزے دار۔
مولانا فرماتے ہیں کہ ایک چوہا جارہا تھا اور اس کے قریب ہی ایک اونٹ بھی جارہا تھا جس کے گلے کی رسی زمین پر لٹک رہی تھی، اس کی رسی چوہے نے اپنے دانت سے دبا لی اور اس کے آگے آگے چلنے لگا۔ اونٹ اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ چوہے نے سمجھا کہ اتنا بڑا مرید آج میرا شکار ہوگیا، میرا جسم تو چھوٹا سا اور اونٹ اتنا بڑا، بس اس نے فخر سے اعلان کرنا شروع کردیا کہ اب میری شخصیت چمک جائے گی۔ اونٹ جیسا دیوہیکل، دیوقامت بھی آج میرا غلام بنا ہوا ہے۔ اونٹ بے چارہ اپنی قوت سے نزول کرکے آہستہ آہستہ اس کے ساتھ چل رہا تھا کہ ذرا چوہے صاحب کو دیکھتا ہوں کہ کب تک یہ ہماری مرشدی اور پیری کرتے ہیں۔ جب آگے ایک دریا پڑا تو اب چوہا وہیں رک گیا۔ اونٹ نے کہا کہ شیخ صاحب! جب آپ نے خشکی میں میری رہنمائی فرمائی ہے تو پانی میں بھی آپ میرے پیر رہیے، آپ رک کیوں گئے، ذرا آگے چلیے۔ چوہے نے کہا کہ حضور! پانی میں تو میری ہمت نہیں ہوتی۔ اونٹ نے کہا کہ اجی کوئی بات نہیں ابھی میں چلتا ہوں، اس نے ایک قدم آگے بڑھایا تو اس کے گھٹنے تک پانی تھا، اس نے کہا کہ اے میرے پیارے مرشد! گھبرا مت، ارے مرید کے گھٹنے تک ہی تو پانی ہے۔ چوہے نے کہا ارے جہاں تک تیرے گھٹنے کا پانی ہے وہ تو میرے سر سے کئی فٹ اونچا ہوجائے گا، میرے لیے تو وہ ایسا ڈباؤ ہے کہ اس میں میری کئی پشتیں ڈوب جائیں گی۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ جو چھوٹے اور نااہل اپنے اکابر کے مصلح اور رہبر بننا چاہتے ہیں ان کا حال اسی چوہے کی مانند ہے جو اونٹ کی رہبری کر رہا تھا۔ لہٰذا فرماتے ہیں کہ اس حماقت میں نہ پڑو۔
ایک ذرّہ نے پہاڑ سے کہا کہ اے پہاڑ! میں ذرا تجھ کو آزماؤں گا، اپنی ترازو میں تجھ کو تولوں گا۔ پہاڑ نے کہا کہ اے ذرّے! جب تو مجھے اپنی ترازو پر رکھے گا تو تیری ترازو ہی پھٹ جائے گی، تو مجھے وزن نہیں کرسکتا۔ لہٰذا اپنے مربّیوں کو جن کی صحبتوں میں باادب بیٹھتے ہو جانچو مت۔ حسن ظن سے فائدہ اٹھائیے، اگر ان سے فائدہ اٹھانا ہے تو حسن ظن سے اٹھا سکتے ہو، اور مناسبت نہیں ہے تو نہ اپنا وقت ضائع کرو اور نہ اس کا ضائع کرو۔ مان لو کسی شخص کو، کسی صاحبِ نسبت اللہ والے سے مناسبت نہیں ہے، اس کو وہاں اللہ کی محبت میں اضافہ نہیں ہوتا اور دل میں برے خیالات آتے ہیں کہ یہ شخص تو کچھ بھی نہیں، بالکل چکرباز معلوم ہوتا ہے، تو ایسے شخص کا وہاں جانا اپنی زندگی کو ضائع کرنا ہے۔ بھئی جب خون کا گروپ نہ مل رہا ہو تو اس کا خون چڑھانا اپنے آپ کو ہلاک کرنا ہے۔ اس مربّی کو چھوڑ کر اس شخص سے تعلق کرو جس سے تمہارے خون کا گروپ مل رہا ہو یعنی جس سے مناسبت ہو۔ البتہ گستاخی اور بدگمانی کسی سے نہ کرو۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے راستے کی بنیاد سر سے پیر تک ادب پر ہے۔
حکیم الامت نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر اپنے شیخ کی کوئی بات سمجھ نہ آرہی ہو، اس کی اصلاحات، اس کی گرفت، اس کا احتساب سمجھ میں نہ آرہا ہو تو سمجھنا چاہیے کہ شیخ جس مقام سے بول رہا ہے اس مقام تک میری رسائی نہیں ہے، ہم اس مقام تک نہیں پہنچے جس مقام سے شیخ دیکھ رہا ہے۔ یہ وہ سبق ہے جو کہ اکسیر ہے۔ اس پر عمل کرے تو آدمی کبھی گمراہ نہیں ہوسکتا۔
اس پر اب ایک قصہ سناتا ہوں۔ مولانا ظفر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے سگے بھائی مولانا سعید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تھانہ بھون میں ایسا زبردست وعظ بیان کیا کہ سارا مجمع جھوم گیا۔ ایسا وعظ تھا کہ جیسے حکیم الامت بول رہے ہوں۔ لوگوں نے حضرت کو بتایا کہ حضرت آج تو آپ کے بھانجے نے کمال کردیا۔ مولانا سعید احمد نے ایسا بیان کیا جیسے آپ کا بیان ہوتا ہے۔ حضرت سمجھ گئے کہ اتنی تعریفیں سن کر نفس تو پھول گیا ہوگا۔ سوچا کہ ابھی دیکھتا ہوں کہ شکل پر آخر کیا اثر ہے کیونکہ جب نشہ آتا ہے کبر کا، بڑائی کا، تو چال میں، آنکھوں میں اور چہرے پر اس کے اثرات آجاتے ہیں جیسے بخار آجائے تو بخار تو جسم کے اندر ہوتا ہے لیکن چہرہ بھی لال ہوجاتا ہے، جب غصہ آتا ہے تو آنکھیں لال ہوجاتی ہیں، آنکھوں کی سرخی بتاتی ہے کہ خیریت نہیں ہے۔
لہٰذا اس دن مولانا سے چلنے میں تھوڑی سے غلطی ہوگئی، مجمع سے گزرتے ہوئے کسی کے پیر لگ گیا۔ بس حضرت نے اتنا ڈانٹا کہ نالائق بے وقوف ایذا رسانی کرتے ہو، ذرا بھی خیال نہیں کرتے۔ تمہارا پیر کیوں لگا اس سے؟ اور نہ جانے کیا کیا فرمایا۔ تھوڑی دیر بعد کسی نے پوچھا کہ حضرت غلطی تو ذرا سی تھی اور انہوں نے جان بوجھ کر بھی نہیں کی، چلنے میں ذرا سا پاؤں لگ گیا بغیر ارادہ کے، مگر آپ نے اتنا کیوں ڈانٹا، یہ تو اتنی بڑی غلطی نہیں تھی۔ فرمایا کہ غلطی واقعی اتنی بڑی نہیں تھی لیکن مجھے ایک پچھلے مادّہ کا آپریشن کرنا تھا جو وعظ کے بعد ان کے دل میں کبر و عجب کا پھوڑا پیدا ہوگیا تھا، مجھے اس پر نشتر لگانا تھا۔ اس چھوٹی سی غلطی کو تو میں نے بہانا بنایا ہے۔ اس لیے اللہ والے بعض اوقات چھوٹی سی غلطی پر زیادہ ڈانٹ دیتے ہیں اور کبھی بڑی سے بڑی غلطی پر مسکرا کر ٹال دیتے ہیں۔ لہٰذا بدگمانی نہ کیجیے کہ صاحب چھوٹی سے غلطی پر اتنا خفا ہوگئے اور بڑی غلطی پر خیال بھی نہیں کیا۔ بس یہی سوچیے کہ شیخ جس مقام سے تربیت کررہا ہے اس مقام تک ہماری رسائی نہیں ہے۔ ورنہ اگر استاد نے کہا کہ پڑھو الف اور ب، اور شاگرد کہتا ہے الف کھڑا کیوں ہے اور ب لیٹا کیوں ہے؟ تو بتائیے کہ یہ پڑھ سکے گا! استاد کہے گا کہ بس تشریف لے جائیے، آپ کی قسمت میں سبزی منڈی لکھی ہوئی ہے، آپ گوبھی بیچیے، اگر علم تمہاری قسمت میں ہوتا تو تم تقلید کرتے۔ اس لیے شروع میں تقلید کی جاتی ہے بعد میں سارے مسائل خود حل ہوجائیں گے۔ جب نورانی قاعدہ پڑھ لے گا اور قرآن ختم ہوجائے گا تو خود پڑھنے لگے گا لیکن کوئی شروع ہی میں محقق بنے کہ الف کھڑا کیوں ہے اور ب لیٹا کیوں ہے اور ب کے نیچے ایک نقطہ کیوں ہے اور ت کے اوپر دو نقطے کیوں ہیں۔ تو آپ بتلائیے کہ پڑھ سکے گا یہ شخص؟ بنیادی طور پر تعلیم کا بین الاقوامی قاعدہ ہے کہ شروع میں صرف تقلید کی جاتی ہے اپنے معلم اور استاد کی۔ دنیا میں جتنے عقل مند ہیں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ صاحب بچے کو حق حاصل ہے پوچھنے کا، جرح و قدح کا، تحقیق و اجتہاد کا۔ اسی طرح اللہ والوں کے سامنے اپنے کو اسی بچے کی مانند سمجھیے جو کچھ نہیں جانتا۔ جو شخص بزرگانِ دین کے مقابلے میں اپنی کوئی رائے رکھتا ہے، ان پر اعتراض کرتا ہے، بدگمانی کرتا ہے، اللہ کے راستے میں اسے کچھ نہیں مل سکتا۔ ان حماقتوں کا سبب اکثر جہالت ہوتی ہے۔ خدا پناہ میں رکھے، جہالت کا کوئی علاج نہیں اور حماقت کا بھی کوئی علاج نہیں ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک احمق سے بھاگے جا رہے تھے۔ کسی نے کہا کہ حضور آپ تو نبی ہیں، آپ نابینا کی آنکھوں پر ہاتھ پھیر دیتے ہیں تو وہ بینا ہو جاتا ہے، کوڑھی کے جسم پر ہاتھ پھیرتے ہیں تو اس کا کوڑھ اچھا ہوجاتا ہے پھر اس احمق سے کیوں بھاگ رہے ہیں، اس کے سر پر بھی ہاتھ پھیر دیجیے۔ تو کیا جواب دیا؟ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ کوڑھی کو اللہ کے حکم سے اچھا کرسکتا ہوں، میرے ہاتھوں میں اللہ نے معجزہ رکھا ہے، نابینا کو بینا کرسکتا ہوں لیکن حماقت اور بے وقوفی چونکہ قہرِ خداوندی ہے اس لیے اللہ کے قہر کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں۔
لہٰذا دوستو! خدائے تعالیٰ سے ہم سب کو دین کا فہم مانگنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی سمجھ عطا فرمائے۔ یہ سمجھ ایسی چیز ہے کہ اگر یہ بگڑ جائے تو بڑے سے بڑا ولی اللہ اس کو برا معلوم ہوگا، لہٰذا جب سارے معالجوں اور حکیموں سے دشمنی ہوجائے گی تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ یہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائے گا، یہ قلتِ فہم اور حماقت قہرِ خداوندی ہے جس کا علاج حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے پیغمبر کے پاس بھی نہیں، اسی کی وجہ سے پھر کبر آتا ہے۔ جس کو بڑائی کا مرض ہو تو سمجھ لو احمق ہے۔ میرے شیخ اوّل حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ کبر ہمیشہ بے وقوفوں کو ہوا کرتا ہے ورنہ بتائیے کہ فیصلہ تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے یہ ابھی سے اپنے کو بڑا سمجھ رہا ہے۔ فیصلہ تو مالک کے ہاتھ میں ہوتا ہے بندے کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ کیوں صاحبو! غلام کو کیا حق ہے کہ اپنی قیمت خود لگا لے؟ بندے کی قیمت تو مالک لگائے گا قیامت کے دن۔ لہٰذا بندہ وہ ہے جو اپنی شان کچھ نہ سمجھے اور عام مومنین کو اور خصوصاً کسی خادمِ دین کو حقیر نہ سمجھے۔ ہاں یہ ضرور اختیار ہے کہ اگر آپ کو کسی سے مناسبت نہ ہو اس کی مجلس میں ہرگز نہ جائیے، نہ اپنا وقت ضائع کیجیے نہ اس کا وقت ضائع کیجیے، جہاں مناسبت ہو وہاں جائیے، اب اس سے زیادہ کیا سہولت ہوسکتی ہے۔
ہاں جس سے دین کا ایک حرف سیکھا ہو ہمیشہ اس کا ادب کیجیے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جس نے مجھے ایک حرف علم سکھا دیا میں اس کا غلام ہوں۔ اور دین سیکھنے کے بعد پھر اس سے بدگمانی کرنا اور اس کی اصلاح کے لیے نسخے تجویز کرنا ایسا ہی ہے جیسے چوہا اونٹ کی رہنمائی کررہا تھا۔ اپنی طرف سے تو ہم کو اپنے بڑوں سے حسن ظن رکھنا چاہیے۔ وہ دینی مربّی خود نہیں کہے گا کہ میں بڑا ہوں لیکن ان واقعات سے سبق لینا چاہیے کہ ہم اپنے بزرگوں کو اپنے نیک گمان سے سب کچھ سمجھیں۔ ایک بار مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بھئی میں تو کچھ بھی نہیں ہوں، پھر فرمایا کہ خدا کی قسم! میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ ایک بے وقوف نے کہا کہ میاں جب یہ کچھ بھی نہیں ہیں تو ہمیں کیا ملے گا ان سے۔ حالانکہ یہی ان کے بہت کچھ ہونے کی دلیل تھی ؎
کچھ ہونا مرا ذلت و خواری کا سبب ہے
یہ ہے مرا اعزاز کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں
اچھا بس اب دعا کیجیے کہ اے خدا! ہمیں اپنے بڑوں کا ادب نصیب فرما، جن سے ہم دین سیکھتے ہیں ان کا ہمیں ادب نصیب فرما۔
اے خدا جوئیم توفیق ادب
اے خدا! ہم سب کو ادب کی توفیق نصیب فرما۔
بے ادب محروم ماند از فضل رب
اے خدا! ہم کو بے ادبی کی وجہ سے اپنے فضل سے محروم نہ فرما یعنی ہم کو بے ادبی سے محفوظ فرما اور ہم سب کو اللہ والی حیات نصیب فرما۔
اے خدا! ہمیں اپنے بزرگوں کے سامنے اپنے نفس کو مٹانے کی توفیق نصیب فرما۔ ہماری دنیا وآخرت بنا دیجیے، تقویٰ کی حیات نصیب فرما دیجیے۔
وَصَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ
بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ
٭٭٭٭٭