سات اکتوبر، ۲۰۲۳ء کا سورج امتِ مسلمہ پر فتح و ظفر کی نوید کے ساتھ طلوع ہوا۔اس روز انبیائے کرام کے وطن و مسکن اور قبلۂ اول و مسجدِ اقصیٰ جہاں محبوب صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے کم و بیش سوا لاکھ انبیاءُ اللّٰہ (علیہم الصلاۃ و السلام) کی امامت کروائی تھی ، وہ مقدس سرزمین جسے صلیب و صہیون کے پجاری پچھلی ایک صدی سے اپنے نجس قدموں سے روند رہے ہیں، میں ایک طوفان برپا ہوا۔ ایک ایسا طوفان جو ماضی کی طرح اہلِ کفر و طغیان کے لیے عذابِ الٰہی اور اہلِ اسلام و ایمان کے لیے رحمت تھا۔ مجاہدینِ فلسطین نے اس طوفان کا نام ’طوفان الأقصیٰ‘ رکھا اور دنیا بھر کے صلیبی و صہیونی اس طوفان کی زد میں آ کر بلبلانے لگے۔
طوفان الأقصیٰ عذاب و رحمت کے ساتھ ایک گھنیری آزمائش کا نام بھی ہے۔ یہ آزمائش راقم و قاری کی ہے، ہلکے اور بوجھل کی، فقیر و غنی کی، قائم و جالس کی، خطیب و سامع کی، عالم و عامی کی۔ طوفان الأقصیٰ دراصل ایک نفیرِ عام ہے۔ فرضِ عین جہاد کی نفیرِ عام۔زمینیں مقبوضہ ہیں، خلافتِ اسلامیہ کا سقوط ہو چکا ہے، عدوِ صائل سرحد پر نہیں ہمارے ملکوں کے دار الحکومتوں پر اپنے ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کو نافذ کیے ہوئے ہے، گوانتانامو سے صدائیں آ رہی ہیں، مسجدِ اقصیٰ یہود کے گھیرے میں ہے، حرمِ مدینہ میں حضور علیہ ألف صلاۃ وسلام اپنے روضۂ اطہر میں اس سبب تکلیف میں ہیں کہ یہودِ نامسعود مسجدِ نبویؐ میں دندنا رہے ہیں، حرمِ مکہ سے چند کلومیٹر دور صلیبی، صہیونی، مشرک اپنے عسکری و معاشی اڈوں میں موجود ہیں، عافیہ جیسی بہنیں کفار کی قید میں صبح و شام برہنہ کی جاتی ہیں، یہ سبھی علتیں جہاد فی سبیل اللّٰہ میں مال و جان کھپا دینے کی نفیر ہیں۔
اگر اہلِ ایمان میں سے کسی کے پاس پہلے جہاد فی سبیل اللّٰہ میں دامے، درمے، قدمے، سخنے حصہ نہ ڈالنے کا عذر تھا، تو سبھی کو خبر ہو کہ وہ عذر ختم ہو چکا ہے! یہ وقت امتِ مسلمہ کے امتحان کا وقت ہے۔ ایک الٰہی پکار پر لبیک کہنے کا وقت! امتِ مسلمہ کے ہر ہر فرد پر، بنا کسی تفریق کے جہاد فرضِ عین ہے۔
غزّہ پر ہونے والی حالیہ وحشت ناک بمباریوں کے بعد اور ملتِ کفر کے اسرائیل کے ساتھ جمع ہو کر یہودِ نامسعود کی پیٹھ ٹھونکنے کے بعد، طاغوتِ اکبر امریکہ کی اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کے بعد، دنیا بھر کے کلمہ گوؤں کے لیے کوئی عذر باقی نہیں بچتا کہ وہ آج کی اس ’عالمی جنگ‘ میں پیچھے بیٹھ سکیں! (سوائے اس کے کہ جو عذر خود اللّٰہ کی شریعت نے مقبول ٹھہرائے ہیں)
ہم امتِ مسلمہ کے ہر ہر فرد کو، ہر مرد اور ہر عورت کو نفیرِ عام دیتے ہیں کہ وہ جہاد کی پکار پر لبیک کہے۔ اسرائیل و امریکہ کے خلاف جنگ صرف اسرائیل و امریکہ میں نہیں لڑی جائے گی، پوری دنیا میدان ہے اور آج کی اس دنیا میں کوئی اسرائیلی، کوئی امریکی، کوئی یورپی و غیر یورپی صہیونی مامون نہیں، پس ان حربی کفار کے سفارت خانوں کی کوئی حرمت نہیں، ان کے شہریوں کی کوئی حرمت نہیں، انہیں دنیا بھر میں جہاں پائیں جہنم کا ایندھن بنائیں!جو بارود و بائیولوجیکل ہتھیار پائے تو ان کو استعمال کرے، جو کلاشن کوف و چاقو سے ان کفار پر حملہ کر سکے تو کرے، جو ہتھوڑوں اور زنجیروں سے ان کے سر پھاڑ سکے وہ پھاڑے، جو یہ نہ کر سکے تو تحریر و بیان اس کا ہتھیار ہیں اور یہ بھی نہ ہو تو دعا کرنا بھی اس وقت واجبِ شرعی ہے۔
جب اپنے دل کے ٹکڑے اور گوشۂ جگر کو سینے سے چمٹائیں، ان کے گال و پیشانی چومیں ،ان کے لیے میوے اور مٹھائیاں لائیں، ہاتھوں سے نوالے بنا بنا کر کھلائیں، تو اس رشتے کو یاد رکھیے جو محمد رسول اللّٰہ (علیہ صلاۃ اللّٰہ وسلام) نے ہمیں ساحلِ نیل سے خاکِ کاشغر تک کے بچوں سے عطا کیا ہے۔ یاد رکھیے! غزّہ میں بستے لاکھوں بچوں کے ذہن میں، مشرق و مغرب کے ممالک میں بستے، راقم و قاری جیسے لوگوں کے متعلق ایک ہی خیال ہے، وہ سوچ رہے ہیں ’کتنا ٹھنڈا ہے اپنوں کا خون‘، ہم پر ہیروشیما یا اس سے بھی زیادہ بارودی مواد برسا، یہ دیکھتے رہے، لیکن، ان کا ارادہ عزم میں اور نعرہ عمل میں نہیں بدل رہا؟!
ہم مجلۂ ہٰذا کے اس خاص شمارے کو، امتِ مسلمہ کے لیے بطورِ نفیرِ عام، مجاہدینِ فلسطین[خصوصاً مجاہدینِ ’کتائب القسام‘ اور مجاہدینِ ’سرایا القدس‘ وغیرہ (نصرهم اللّٰہ)] سے اظہارِ یکجہتی اور جہادِ فلسطین میں ابتدائی و حقیر سےحصے کے طور پر ’طوفان الأقصیٰ ‘ کے عنوان سے پیش کر رہے ہیں، اللّٰہ ﷻ سے دعا ہے کہ وہ اس کاوش کو قبول و مقبول فرمائیں!
اللھم وفقنا لما تحب وترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وارضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی
اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!
٭٭٭٭٭