انتساب
فخرِ اسلام ، مجددِ اسلامی نظام ،امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد کے نام …… جنھوں نے امتِ مسلمہ کو دینی حمیت و غیرت کے معنیٰ اس وقت سکھائے جبکہ اس کے معنیٰ صرف کتابوں تک محدود کردیے گئے تھے…… جنھوں نے اسلامی نظام کو نافذ کرکے اس کو مسجد و مدرسے کی چاردیواری سے باہر کا راستہ دکھایا …… جنھوں نے ایک مسلمان کی عزت کی خاطر اپنی ساری قوم کے مستقبل کو داؤ پر لگادیا…… اور بالآخر جنھوں نے فرعونِ وقت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا ۔
محسنِ انسانیت، مجددِ جہاد، شیخ اسامہ بن لادن کے نام…… جنھوں نے پچاس سے زائد ٹکڑوں میں بٹی امت کو ایک امت بنانے کے لیے اپناخونِ جگر جلایااور اس غم میں اپنا تن من دھن، یہاں تک کہ آل و اولاد تک وار دی…… جنھوں نے امت کے چند جوانوں کو اکٹھا کرکے فرعونِ وقت امریکہ کا غرور اور اس کی عظمت کے مینارے زمیں بوس کیے اور خفیہ ڈوریں ہلانے والوں کی خفیہ کمین گاہوں کو ان کی قبر بنادیا…… اوردنیا کو یہ پیغام دیا کہ تمام کفری قوتیں مل کر بھی اس امت کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔
امیرنا شیخ ایمن الظواہریکے نام…… جس کی حدی خوانی نے کاروانِ ہجرت و جہاد کو اس وقت لٹنے ،بھٹکنے اور گم ہوجانے سے بچالیاجبکہ منزل سامنے نظر آرہی تھی…… اور کمین گاہ انتہائی خطرناک تھی…… محمد ﷺ کا رب اس حدی میں برکت ڈالے…… جو ابھی بھی ساربانوں کو جادہ ٔ منزل پر چلنے کی تلقین ہی نہیں کر رہا بلکہ قافلوں کو اچک لیے جانے کے خطرات اور کمین گاہوں سے بھی باخبر کر رہا ہے…… جس کی آواز عالمی قافلہ جہاد کے لیے مشعلِ راہ بنی ہوئی ہے …… جس نے اس قافلۂ جہاد کے لیے اپنی شریکِ حیات، اپنے بچے، بچیوں کے سہاگ…… اس راہ نوردی میں قربان کردیے۔
ان اسیرانِ اسلام کے نام…… جنھوں نے سلاخوں کے پیچھے بھی اپنی سوچ و افکار کو کفر کے جبری نظام ِ جمہوریت کا اسیر نہیں بننے دیا جبکہ بہت سے جیلوں سے باہر بھی کفری نظام کے اسیر بنے رہے۔
شہداء کے نام…… جنھوں نے کفری جمہوری نظام کے مقابلے اپنے لہو سے اسلامی نظام کی راہ ہموار کی…… اللہ انھیں امت کی جانب سے بہترین بدلہ دے کہ اب اس شاہراہ پر قافلے ہی قافلے نظر آرہے ہیں۔
علمائے حق اور داعیانِ شریعت کے نام…… جنھوں نے اپنی زبان ،قلم حتیٰ کہ جان بھی محمد ﷺ کی لائی شریعت کو نافذ کرنے کے لیے وقف کردی۔
اور ان دیوانوں کے نام…… جو اپنے پیارے نبی ﷺ کی ناموس اور ان کی لائی شریعت کا دفاع کر رہے ہیں…… پُر عزم، پُر امید…… فتح کے آثار سامنے دیکھ لینے کے باوجود بھی فتح و شکست سے بے نیاز…… شریعت یا شہادت کا سفر جاری رکھے…… محمد ﷺ اور ان کی شریعت کے دشمنوں پر قہرِ الٰہی بن کر برس رہے ہیں۔ جن کے عزم و حوصلے نے عالمی کفری قوتوں کو شکست سے دوچار کیا ہے…… اور ان کے پہاڑ جیسے بلند افکار و نظریات کے سامنے مغربی فلسفہ حیات شکست کھارہا ہے۔
پیارے والدین کے نام…… جنھوں نے میری پرورش اور تعلیم و تربیت میں اپنا آپ کھپادیا، اللہ کی جنت میں ملاقات کے یقین پر…… میری راہِ ہجرت و جہاد کی جدائی کے غم کو اللہ کی رضا کے لیے برداشت کیا۔
شہداء کی ان تمام ماؤں کے نام…… جنھوں نے اپنے حال کو امت کے مستقبل پر قربان کردیا…… جو روزِ محشر اپنے جگر پاروں سے ملاقات کا یقین رکھتی ہیں جس دن کوئی کسی کے کام نہ آئے گا …… تب یہ شہداء اپنے والدین کو لے کر جنت میں داخل ہوں گے۔
تمہید
الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی سید المرسلین وعلیٰ آلہ واصحابہ أجمعین، أما بعد
سورۂ عصر…… قرآنِ کریم کی یہ چھوٹی سی سورت انسان کو غفلت سے بیدار کرنے کے لیے کافی ہے، اگر کسی کے پاس کان ہوں جو سنتے ہوں، دل ہو جو سمجھتا ہو اور عقل ہو جو نفع و نقصان کی تمیز کرسکتی ہو اور آنکھیں ہوں جن کی بینائی پر خواہشات کے پردے نہ پڑ گئے ہوں۔
یہ سورت…… انسان کو فرداً فرداً بھی غفلت سے بیدارکر رہی ہے اور بطورِ معاشرہ بھی اسے وہ راز سکھارہی ہے جسے اختیار کرکے کوئی بھی معاشرہ مضبوط اخلاقی بنیادوں اور اعلیٰ اقدار کا حامل بن جاتا ہے۔
یہ سورت…… انسان کو اصلاحِ معاشرہ کا وہ گر سکھارہی ہے جسے اختیار کرکے پسماندہ و درماندہ اقوام عظمت و سربلندی کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہیں، اور جنھیں چھوڑ کر اوجِ ثریا پر بیٹھی اقوام بھی پستی و زوال سے نہیں بچ سکتیں۔
یہ سورت…… کمزوروں کو حق گوئی کی قو ت عطا کرتی ہے، اور اس حق پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے پر ابھار رہی ہے۔
یہ سورت …… مسلمانوں کے اندر ایما ن و یقین کی شمعیں جلاتی ہے، انھیں علم کے نور سے منور کرکے ہمہ وقت عمل کے لیے متحرک کرتی ہے، کمزور و ناتواں مسلمانوں میں جذبۂ عمل پیداکرتی ہے۔
یہ سورت…… کمزوروں کو جہدِ مسلسل اور کچھ کر گذرجانے پر ابھار رہی ہے کہ تم ہی ہو جو ذلت کی پستیوں میں پڑی انسانیت کو عزت و عظمت کی راہ پر ڈال سکتے ہو…… تباہی و بربادی کے دہانے پر کھڑی دنیا کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتے ہو…… یہ تم ہی ہو جو انسان کو شیطان کی سجائی شکار گاہ سے بچاکر رحمٰن کی جنتوں کی طرف لے جاسکتے ہو۔
یہ سورت…… امتِ مسلمہ کو وتواصوا بالحق (ایک دوسرے کو حق کی تلقین) وتواصوا بالصبر (ایک دوسرے کو ثابت قدمی کی تلقین) کی یاد دہا نی کراکے مستقبل میں انسانیت کی قیادت اور انسانی معاشرے کو اپنے رنگ میں رنگنے کا رازبتارہی ہے۔
اس کے ایک ایک لفظ کودل کی آنکھوں سے پڑھیے…… اس میں کیسا یقین و اعتماد بھرا ہے کہ کمزوری و ضعف کے باوجود یہ اپنے مقابل تمام تہذیبوں اور ثقافتوں کو چیلنج کر رہی ہے کہ بظاہر کامیاب و کامران نظر آنے والی تہذیبیں سب خسارے اور فکری بانجھ پن کا شکار ہیں…… جبکہ یہ دعوت…… اسلامی نظام کی دعوت…… جسے یہ امت لے کر اٹھی ہے، جسے محمد ﷺ کے متوالے لے کر اٹھے ہیں، واحد کامیابی کی ضمانت ہے…… اس کے علاوہ کامیا بی و نجات کا کوئی راستہ نہیں…… کوئی معاشرہ، کوئی قوم اورکوئی بھی تہذیب اس سے ہٹ کر کامیاب نہیں ہوسکتی…… اس کے مقدر میں خسارہ ہی خسارہ ہے…… اس کا ہر پل،ہر لمحہ، ہر گھڑی خسارے کا شکار ہے، اس کی زندگی کساد بازاری کا شکار ہونے والی ہے۔
چنانچہ امام رازی سورۂ عصر کی تفسیرمیں نقل کرتے ہیں کہ سلف میں سے کسی کا فرمان ہے کہ اس سورت کے معنیٰ میں نے برف بیچنے والے سے سیکھے، جو برف بیچتے ہوئے آوازیں لگارہا تھا:
’ارحموا من يذوب رأس ماله۔ ارحموا من يذوب رأس ماله ‘۔
’’اس شخص پر ترس کھاؤ جس کا سرمایہ پگھلاجارہا ہے۔ اس شخص پر ترس کھاؤ جس کا سرمایہ پگھلاجارہا ہے‘‘۔
میں سمجھ گیا کہ اس سورت میں خسارے کے معنیٰ یہی ہیں۔
گویا دنیا ایک بازار ہے اوراس میں بسنے والے تاجر…… اور زندگی کی سانسیں ان کا سرمایہ…… اب کس کا سرمایہ نفع بخش رہا اور کون خسارے کا شکار ہوا…… کس کی زندگی کامیاب رہی اور کس کی زندگی کساد بازاری کا شکار ہوگئی…… یہ بہت معلوم ہونے والا ہے۔
آئیے…… اس سورت سے اپنے ایمان کو مضبوط کریں تاکہ فتنوں کی اس بارش میں ایمان و اعمالِ صالحہ کی چھتری نصیب ہوسکے۔
آئیے…… اس سورت سے اپنے ایمان کو تازہ کریں تاکہ ہم عالمی کفری یلغار کے سامنے جم کر کھڑے رہ سکیں۔
آئیے…… ان تین آیتوں میں ڈوب کر اس احساسِ کمتری سے نکل آئیں جس میں دجالی میڈیا نے آج کے نوجوان کو ڈبودیا ہے۔
آئیے…… عالمی کفری قوتوں کے خوف سے تھر تھر کانپتے جسموں کو اس گرمادینے والی سورت سے حرارت دیجیے تاکہ اللہ کی توحید کا نعرہ زبانوں پر جاری ہوسکے۔
آئیے…… شریعت کی دشمن فوجوں اور ایجنسیوں کی قتل گاہوں میں ا س سورت کا اعلان کردیجیے کہ محمدﷺ کی لائی شریعت کی تلقین اور اس پر ڈٹ جانے کی وصیت ہی اس قرآن کی لاج رکھ سکتی ہے۔
آئیے…… اس سورت کے معنیٰ میں غور کرتے ہیں جس کے بارے میں امام شافعی فرماتے ہیں:
لو لم ينزل غير هذه السورة لكفت الناس لأنها شملت جميع علوم القرآن۔
’’اگر قرآن میں صرف یہی ایک سورت ہوتی تو اکیلے ہی تمام انسانیت کے لیے کافی تھی، کیونکہ اس میں تمام علومِ قرآن ہیں‘‘۔
أعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
وَالْعَصْرِ (1) إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ (2) إِلَّا الَّذِينَ اٰمَنُوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (3)
زمانے کی قسم۔ انسان درحقیقت بڑے گھاٹے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں اور ایک دوسرے کو حق بات کی نصیحت کریں، اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کریں۔
وَالْعَصْرِ
مطلق زمانے کی قسم ہے۔یا عصر کا وقت مراد ہے ۔یا امت محمدیہ ﷺ کا زمانہ مراد ہے، کیونکہ اس امت کی عمر کی مثال عصر تا مغرب ہے۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا بَقَاؤُكُمْ فِيمَا سَلَفَ قَبْلَكُمْ مِنْ الْأُمَمِ كَمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ۔1
حضرت سالم بن عبد اللہ حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’تمہاری بقایا مدت پہلی امتوں کے مقابلے ایسی ہے جیسے عصر کی نماز سے غروب ِ آفتاب تک کا وقت‘‘۔
جس امت پر پہاڑوں جیسی ذمہ داری ڈالی گئی ہو اور وقت اتنا تھوڑا ملا ہو…… سو اس امت کو جھنجوڑا جارہا ہے کہ تمہارے پاس وقت بہت تھوڑا ہے ،اور وقت بھی ایسا جس میں ہبڑ دھبڑ ہوتی ہے، ہر ایک جلدی میں ہوتا ہے۔
دن کے آخری وقت میں اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ اے انسان غفلت سے بیدا رہو جا……کیونکہ شام جب ڈھلنے لگتی ہے…… ’سائے‘ ساتھ چھوڑ دینے کے لیے دراز ہونا شروع ہوجاتے ہیں…… چرند و پرند بھی اپنے نشیمن، اپنے گھونسلوں کی جانب پلٹنے لگتے ہیں۔
سو اے انسان! اگر تجھے کچھ عقل ہے تو دیکھ کہ تیری زندگی کی شام ڈھلا چاہتی ہے،تیرا سایہ تک تیرا ساتھ چھوڑ نے والا ہے…… تجھے تو اس کا بھی علم نہیں دیا گیا کہ تیری زندگی کی شام کب ڈھل جائے…… پھر بھی تیری غفلت…… اپنی منزل سے غفلت…… اپنے مالک کے سامنے جا کھڑا ہونے سے لاپرواہی کس قدر نادانی ہے؟
والعصر! دن کا آخری وقت…… اے انسان !اس ڈوبتے سورج کو دیکھ کہ چند ساعات پہلے یہی سورج تھا جس کی چکاچوندھ کی کوئی تاب نہ لاسکتا تھا، کوئی آنکھ اس کی طرف دیکھنے کی سکت نہیں رکھتی تھی، جس کی تمازت و حدت سے جسم پانی پانی ہوتے تھے…… لیکن اس عروج کے بعد اس کے زوال و غروب کا منظر بھی دیکھ…… چنانچہ اے طاقت و دولت کے نشے میں مدہوش انسان! اے جوانی پر ناز کرنے والے نوجوان! اے شباب کے سحر میں کھوئی مسلمان بہن! اس عروج کے بعد زوال کو بھی سامنے رکھ…… اور اپنے مالکِ حقیقی کے سامنے ابھی سے جھک جا کہ اس کے علاوہ کسی کو دوام نہیں…… سب زوال و فنا ہوجانے والے ہیں…… زندگی کی چند سانسوں کی صورت میں جو سرمایہ دے کرتجھے بھیجا گیا ہے، اسے کامیاب تجارت میں لگادے، یا مکمل اسے اس کے مالک کو ہی بیچ ڈال او ر پھر اس سودے کو وفا کرجا…… وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ……کہ یہی کامیابی کی ضمانت ہے۔
إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ
پہلی آیت میں زمانے کی قسم کھانے کے بعد بھی انسان کے گھاٹے میں ہونے کا اعلان کئی تاکیدوں کے ساتھ کیا جارہا ہے۔
- إنَّ کی تاکید کے ساتھ : یعنی اس بات میں کوئی شبہ ہی نہیں ،بلکہ یہ بات یقینی ہے ۔
- لَفِيْ خُسْرٍ یعنی گھاٹے میں ہے۔ خاسر نہیں کہا کہ نقصان اٹھانے والا ہے، بلکہ گھاٹے میں ڈوبا ہوا ہے۔
جبکہ خسارہ ہر انسان کے اعتبار سے مختلف ہے، کسی کو مکمل خسارہ… دنیا بھی گئی اور آخرت بھی۔
جیسا کہ قرآن نے اعلان کیا:
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللهَ عَلَى حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انْقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةَ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ﴾ [الحج: 11]
’’اور لوگوں میں وہ شخص بھی ہے جو ایک کنارے پر رہ کر اللہ کی عبادت کرتا ہے ۔ چنانچہ اگر اسے (دنیا میں ) کوئی فائدہ پہنچ گیا تو وہ اس سے مطمئن ہوجاتا ہے اور اگر اسے کوئی آزمائش پیش آگئی تو وہ منہ موڑ کر (پھر کفر کی طرف) چل دیتا ہے ۔ ایسے شخص نے دنیا بھی کھوئی اور آخرت بھی ۔ یہی تو کھلا ہوا گھاٹا ہے ۔ ‘‘
کوئی شیطان کے حکم پر خواہشات اور دنیا کی لمبی چوڑی امیدوں کے پیچھے پڑ کر خسارے کا شکار ہوا:
﴿وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِ وَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِنْ دُونِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا﴾ [النساء: 119]
’’اور میں انھیں راہ راست سے بھٹکا کر رہوں گا، اور انھیں خوب آرزوئیں دلاؤں گا، اور انھیں حکم دوں گا تو وہ چوپایوں کے کان چیر ڈالیں گے ، اور انھیں حکم دو ں گا تو وہ اللہ کے دین میں تبدیلی کریں گے۔ اور جو شخص اللہ کے بجائے شیطان کو دوست بنائے اس نے کھلے کھلے خسارے کا سودا کیا۔‘‘
کسی کو دنیا میں تھکنے کے بدلے دنیا تو مل گئی لیکن ابدی آخرت کا مکمل خسارہ ہاتھ آیا۔فرمایا:
﴿وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَٰتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَفْسُقُونَ﴾ [الأحقاف: 20]
’’اور اس دن کو یاد کرو جب ان کافروں کو آگ کے سامنے پیش کیا جائے گا (اور کہا جائے گا کہ ) تم نے اپنے حصے کی اچھی چیزیں اپنی دنیوی زندگی میں ختم کر ڈالیں اور ان سے خوب مزہ لے لیا، لہذا آج تمہیں بدلے میں ذلت کی سزا ملے گی ، کیونکہ تم زمین میں ناحق تکبر کیا کرتے تھے ، اور کیونکہ تم نافرمانی کے عادی تھے۔ ‘‘
خسارےکا شکار ہونے والوں کی یہ ایک اور قسم ہے۔ فرمایا:
﴿قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا (103) الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ﴾ [الكهف: 103، 104]
’’آپ کہہ دیجیے کیا ہم تمہیں ان لوگوں کے بارے میں نہ بتائیں جو اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارے میں رہے،یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوششیں دنیا کی زندگی ہی میں برباد ہوگئیں،اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ وہ تو بڑا اچھا کام کر رہے ہیں۔ ‘‘
(جاری ہے،ان شاءاللہ)
٭٭٭٭٭
1 صحيح البخاري؛ باب من أدرك رکعۃ من العصر قبل الغروب