یہ تحریر شیخ ابو محمد مصری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’عمليات 11 سبتمبر: بين الحقيقة والتشكيك‘‘ سے استفادہ ہے، جو ادارہ السحاب کی طرف سے شائع ہوئی۔ باتیں مصنفِ کتاب کی ہیں، زبان کاتبِ تحریر کی ہے۔ کتاب اس لحاظ سے اہمیت سے خالی نہیں کہ اس میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے حوالے سے فرسٹ ہینڈ انفارمیشن ہے، کیونکہ اس کے مصنف خود ان واقعات کے منصوبہ سازوں میں سے ہیں۔ شیخ ابو محمد مصری شیخ اسامہ بن لادن کے دیرینہ رفقاء اور تنظیم القاعدہ کے مؤسسین میں سے ہیں اور بعداً تنظیم القاعدہ کے عمومی نائب امیر رہے یہاں تک کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے آپ کو محرم ۱۴۴۲ ھ میں نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔ مجلّے میں کتاب کا انتہائی اختصار سے خلاصہ نقل کیا جا رہا ہے، تاہم اسلام اور جہاد سے محبت رکھنے والے قلم کاروں سے کتاب کا کامل اردو ترجمہ اردو داں مسلمانوں کے سامنے پیش کرنے کی دہائی ہے۔(ادارہ)
صلیبی جنگیں نہ رکی ہیں اور نہ رکیں گی
افغانستان میں امیر المومنین ملا محمد عمر رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں امارتِ اسلامیہ کے قیام سے، جہاں شریعت نافذ کی گئی، سیکولر دساتیر اور قوانین کو رد کر دیا گیا اور جدید عالمی نظام میں شامل ہونے کی بجائے اپنی الگ شناخت قائم کی گئی، امارتِ اسلامیہ مغربی صلیبی ممالک اور سب سے بڑھ کر صلیب کے محافظ امریکہ کے لیے ہدف بن گئی۔ ان قوتوں نے براہِ راست اموال اور اسلحے سے امارتِ اسلامیہ کے مخالف گروہوں کی مدد شروع کی تاکہ افغانستان میں مقابل قوت کھڑی کی جائے اور امارت کو پورے افغانستان پر کنٹرول سےروکا جائے۔ اسی طرح ان قوتوں نے خلیجی عرب ممالک میں موجود اپنے آلۂ کاروں سے بھی کہا کہ وہ امارت کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعلقات کاٹ کر اس کے گرد گھیرا تنگ کریں۔ پھر خاص طور پر سعودی حکومت سے کہا گیا کہ وہ افغانستان سے حاجیوں کے آنے پر پابندی لگا کر امارت پر دباؤ بڑھائے، یہاں تک امارتِ اسلامیہ کا نام اور امیر المومنین کا لقب تک بدلنے پر زور دے۔ اسی طرح ان قوتوں نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ مستقل امارت سے متعلق معلومات فراہم کرے، تاکہ اس کے مطابق سیاسی وعسکری منصوبہ بندی کی جاسکے۔ پھر امارتِ اسلامیہ کی طرف سے حقوقِ انسانی کی خلاف ورزی، آزادیٔ نسواں کی پامالی کے نام پر اور شرعی حکومت کے مقابلے میں جمہوریت کی بحالی کے لیے امریکہ کی طرف سے بھی مستقل افغانستان پر حملے کی دھمکی دی جانے لگی۔
امارتِ اسلامیہ کی قیادت نے بھی اس وقت واضح کیا کہ امریکہ کی دھمکیاں دراصل اسلام کے خاتمے کے لیے ہیں نہ کہ طالبان کے خاتمے کے لیے۔ تنظیم القاعدہ نے بھی اپنی ادبیات میں یہ بات کہی کہ امریکہ کی دشمنی عقیدے کی دشمنی ہے اور امریکہ جو طالبان کے خلاف جنگ شروع کرنا چاہتا ہے یہ حقیقت میں صلیبی جنگوں کا تسلسل ہے۔ جدید زمانے کی مناسبت سے اس کی شکل نئی ہے، مگر ہدف وہی پرانا ہے۔ نیٹو کے سابق سیکرٹری ویلی کلاوس نے کہا تھا: ’’سوویت اتحاد کی جگہ اب نیٹو کا ہدف اپنی دشمنی کی وجہ سے ’اسلام‘ ہے‘‘۔1
عصرِ حاضر کی صلیبی جنگوں میں دینی، سیاسی اور اقتصادی اہداف کے حصول میں ناکامی کے باوجود مغربی قوتوں کے دلوں میں اب بھی صلیبی جذبات موجود ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی فتح مسلمانوں کو اپنے دین سے دور کرنے میں مضمر ہے۔ اسی ہدف کے تحت جدید زمانے میں امریکہ کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کے ذہنوں اور دلوں سے حقیقی اسلام کے مفہوم کو نکال باہر کیا جائےاور ان کے لیے اسلام کو بس مساجد کی دیواروں میں بند کر دیا جائے اور اگر کچھ بڑھے تو صرف نکاح، طلاق اور میراث کے پرسنل لاء کے اندر محدود کر دیا جائے۔ جبکہ اسلام کا کامل مفہوم جس میں شعائر بھی ہیں اور قوانین بھی اور جن کی تنفیذ کے لیے حکومت اور اسلامی خلافت کا احیاء ضروری ہے، اسے شدت پسند نظریہ بنا کر پیش کیا جائے۔
امریکہ کی طرف سے تنظیم کے خاتمے اور اس کے قائد کی گرفتاری کی ناکام کوششیں
اسلام دشمنی امریکی ریاستی اداروں کی اساس ہے اور عالمِ اسلامی کی دعوتی وجہادی تحریکات سے دشمنی امریکہ کی قومی سلامتی کا اہم ترین اصول ہے۔ پھر بالخصوص تنظیم القاعدہ…… اس کی قیادت، افراد اور فکر…… سے دشمنی امریکی سیاست کا اہم رکن ہے جسے اس نے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام سے اپنا رکھا ہے۔ پھر یہ دشمنی اس وقت مزید بڑھ گئی جب تنظیم نے صومالیہ میں اپنے قائدین اور افراد کو بھیجا تاکہ وہاں امریکی حملے کے مقابلے میں مضبوط محاذ قائم کیا جائے۔ یہاں تک کہ صومالیہ کی دینی تحریکات کے تعاون سے تنظیم کو امریکہ کے مقابلے کئی معرکوں میں کامیابی ملی، جن میں سب سے اہم معرکہ موغادیشو میں ’ھول وذاق‘ کا معرکہ تھا جس کی قیادت موغادیشو کے ممتاز جہادی قائد اور صومالیہ کے بڑے قبائل میں سے ایک قبیلہ ’ھبرجدیر‘ میں تنظیم کے مسؤول ’شیخ عبداللہ سہل‘ نے کی۔ اس کارروائی کا نتیجہ کئی امریکی فوجیوں کا قتل تھا جس کے بعد وائٹ ہاؤس نے صومالیہ سے فوری انخلاء کا فیصلہ کیا۔ البتہ یہ فیصلہ امریکہ اور القاعدہ کے درمیان جنگ کے خاتمے کا فیصلہ نہیں تھا، بلکہ یہ فریقِ واحد کی طرف سے جنگ بندی تھی تاکہ ایک دوسرے میدان میں تنظیم کے خاتمے کی کوشش کی جائے جہاں امریکیوں کے پاس بہتر موقع دستیاب تھا۔
تنظیم کی سوڈان سے افغانستان کی طرف منتقلی کے پہلے دن سے امریکیوں نے منصوبہ بندی شروع کردی کہ کس طرح تنظیم کے قائد، دیگر قائدین اور افراد کو نشانہ بنایا جائے۔ اور یہ منصوبہ بندی تنظیم کی طرف سے مشہور اعلانِ جنگ سے بھی پہلے شروع تھی جو تورا بورا کی پہاڑیوں سے کیا گیا تھا اور جس میں جزیرۂ عرب سے امریکیوں کو نکال باہر کرنے کا وجوب بیان کیا گیا تھا۔
امریکہ ہی ہے جس نے ابتداء کی
ذیل میں ہم جن واقعات کی طرف اجمالی طور پر اشارہ کرنے جا رہے ہیں، وہ اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ امریکیوں نے دشمنی اور زیادتی کی ابتداء کی اور افغانستان میں طالبان اور تنظیم القاعدہ کے خاتمے کے لیے بار بار کوششیں کیں۔ یہ واقعات درج ذیل ہیں:
۱۔ تنظیم کی افغانستان منتقلی سے ہی امریکیوں نے اپنے آلۂ کاروں کے ذریعے تنظیم پر کاری ضرب لگانے کا فیصلہ کیا اور یہ ضرب تنظیم کے قائد شیخ اسامہ بن لادن رحمۃ اللہ علیہ کے اغواء کی صورت میں تھی۔ اس کام کے لیے جلال آباد کے والی حاجی قدیر نے اہم کوشش کی۔ یہ شخص شیخ یونس خالص رحمۃ اللہ علیہ کی جہادی جماعت سے تعلق رکھتا تھا، مگر یہ جہادی صف سے نکل کر صلیبی مغرب کی آلۂ کار ی پر راضی ہوا۔ اس کا منصوبہ یہ تھا کہ شیخ اسامہ اور تنظیم کے دیگر قائدین کو صوبے کے مرکزی شہر میں کھانے کی دعوت پر بلایا جائے اور وہاں آسانی کے ساتھ یہ کام کر دیا جائے۔ شیخ اسامہ رحمۃ اللہ علیہ کی معذرت کرنے کے باوجود یہ شخص شیخ یونس خالص رحمۃ اللہ علیہ کی تنظیم کے بعض معتمد افراد کے ذریعے دعوت پر بلانے پر مصر رہا، یہاں تک کہ آخری مرتبہ اس نے میدانی قائد شہید ’معلم اول گل‘2 کے گھر پر ہماری موجودگی کے دوران اصرار کیا۔ جس کے بعد یہ راز کھل گیا3 کہ حاجی قدیر امریکیوں کے کہنے پر دراصل شیخ اسامہ کے اغواء یا قتل کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کی کوشش یہیں رک نہ گئی، بلکہ بعد میں باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا کہ یہ شخص تنظیم کے افراد کی رہائشی جگہ پر حملے کی بھی منصوبہ بندی کر رہا تھا، مگر قبائلی مصالح کی وجہ سے ناکام ہوا۔
۲۔ ۱۹۹۷ء میں شیر علی نامی افغانی شہری کو گرفتار کیا گیا جو پہلے ہمارے ساتھ باورچی کے طور پر کام کرچکا تھا۔ اسے افغانی آلۂ کار گروہوں کی طرف سے بھرتی کیا گیا تھا تاکہ شیخ اسامہ رحمۃ اللہ علیہ کو قتل کرے۔ اسے طالبان کے ایک فرد کے طور پر ہماری طرف بھیجا گیا، تاہم ہمارے رہائشی علاقے میں پہنچتے اور تعارف ہوتے ہی اس پر شدید خوف کی علامتیں ظاہر ہونے لگیں، چنانچہ اسے پکڑ لیا گیا اور اس نے منصوبے کا اعتراف کرلیا۔ پھر اسے طالبان کے حوالے کردیا گیا، تاکہ وہ اپنی عدالت میں اس پر مقدمہ چلائیں۔
۳۔ برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود کی طرف سے اس زمانے میں افغانستان میں عرب مجاہدین کی واپسی کے خلاف بیانات جاری ہوئے اور مغرب کے ساتھ اس بات کا وعدہ کیا گیاکہ ان عرب مجاہدین کی موجودگی کے علاقوں میں اگر ان کا قبضہ ہوا تو وہ ان مجاہدین کو ان کے اپنے ملکوں کے حوالے کردیں گے۔
میں کہتا ہوں کہ جب دشمن تنظیم کے خاتمے اور اس کی قیادت کے قتل کی منصوبہ بندی کر رہا تھا، جبکہ ابھی تنظیم نے اس پر کوئی حملہ نہیں کیا تھا تو کیا تنظیم کو یہ حق حاصل نہ تھا کہ وہ دشمن پر قبل از وقت ضرب [preemptive strike] لگائے جو اس کے منصوبے ناکام کردے؟ کیا اپنے دفاع میں قبل از وقت حملے کا یہ حق صرف عالمی ٹھیکیداروں کو حاصل ہے؟ اب غلامی کا زمانہ گزر چکا ہے اور کھیل کے قوانین بدل چکے ہیں، مجاہدین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دشمن پر ایسی قبل از وقت ضرب لگائیں جس کے ذریعے وہ ہر اس ممکنہ حملے سے پیشگی اپنا دفاع کرسکیں جس کا انھیں خطرہ ہو۔ یہ وہ نبوی سنت [علی صاحبہا الصلوۃ والسلام] ہے جسے زندہ کرنا ضروری ہے۔ طلحۃ اور سلمۃ بن خویلد کے خلاف سیدنا ابو سلمۃ کا سریہ، خالد بن سفیان ہذلی کے خلاف سیدنا عبد اللہ بن اُنیس کا سریہ، دومۃ الجندل کے قبائل پر دھاوا اور غزوہ حنین جس کا سبب مالک بن عوف نضری کی تیاری تھی، یہ سب نبوی سنت ہے۔
آج کی امریکی بالادستی کے زمانے میں اپنے دفاع میں پیشگی حملے کا حق صرف طاقت ور مغربی غنڈوں کے لیے محفوظ ہے یا پھر وہ اپنے جن آلۂ کار وں کو یہ حق دے دیں۔ ’نوم چومسکی‘ ریاستی اور امریکی دہشت گردی پر بات کرتے ہوئے طنزاً کہتاہے: ’’جب تک ہم (یعنی امریکی) اس طرح کا حملہ کریں تو یہ دہشت گردی نہیں ہے۔ فلسطین میں جو کچھ صہیونی نظام کر رہا ہے وہ دہشت گردی نہیں ہے جب تک اسے امریکی مدد حاصل ہے‘‘۔4
۴۔ ۱۹۹۷ء میں جب امیر المومنین ملا محمد عمر رحمۃ اللہ علیہ کے امر پر تنظیم قندھار شہر کی طرف وہاں کے مشہور ایئر پورٹ کے رہائشی علاقے میں منتقل ہوگئی جو کئی سکیورٹی چوکیوں کے ذریعے محفوظ تھا، امریکیوں نے مضافات کے قبائل میں اپنے آلۂ کار وں کے ذریعے ایک چوکی کے کماندان کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ پھراس نے چند ماہ میں اپنے ماتحت کئی محافظوں کو…… بڑی رقم اور خارج کے سفر کی لالچ دے کر…… اپنے ساتھ ملا لیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ شیخ اسامہ رحمۃ اللہ علیہ کے قافلے پر بڑی کمین لگائی جائے جس میں شیخ اسامہ کو اغواء کرکے فوری مضافاتی قبائل تک پہنچایا جائے، جو آگے امریکیوں کے ساتھ طے شدہ صحرائی علاقے میں انھیں پہنچائیں گے جہا ں سے امریکی انھیں جہاز میں پہلے پاکستان یا کسی عربی ملک تک لے جائیں گے اور پھر وہاں سے امریکہ منتقل کردیں گے۔ امریکی کانگریس کی رپورٹ میں میری بیان کردہ بات سے ملتی جلتی بات کہی گئی ہے، البتہ انھوں نے کہا ہے کہ یہ منصوبہ اس لیے ناکام ہوا کہ اس میں کامیابی کے صرف ۳۰ فیصد امکانات تھے اور قوی امکان تھا کہ شیخ اسامہ کو زندہ نہیں پکڑا جاسکے گا اور قتل کرنا پڑے گا۔ مگر ہمارا مشاہدہ یہ رہا کہ طالبان نے یہ منصوبہ افشاء کرلیا تھا اور مذکورہ فرد اور اس کے تمام ساتھیوں کو پکڑ لیا تھا، جس کی وجہ سے منصوبہ ناکام ہوگیا۔
۵۔ ۱۹۹۸ء میں قندھار کے شہرِ نو علاقے میں اس گھر پر بمباری کا منصوبہ بنایا گیا جس میں شیخ اسامہ رہتے تھے۔ مگر یہ سازش اپنے ابتدائی مراحل میں ہی پکڑی گئی اور فوری گھر خالی کردیا گیا۔
۶۔ اسی سال سعودی عرب سے آئے ہوئے ایک نوجوان کو گرفتار کیا گیا جو اصلاً بخارا کا تھا ، جس کا خاندان دو دہائیاں قبل اشتراکی ظلم سے بچنے کے لیے سعودی عرب گیا تھا اور وہاں وقتی اقامت پر موجود تھا۔ اس وقت کے ریاض کے امیر سلمان بن عبد العزیز نے اس نوجوان کو یہ پیشکش کی کہ اسے سعودی شہریت دیں گے اور ایک ملین سعودی ریال انعام دیں گے اگر وہ شیخ اسامہ کو قتل کردے۔ اس کا طریقہ یہ طے ہوا کہ وہ مجاہدین کے روپ میں وہاں چلا جائے اور جب بھی پہلی فرصت ملے اپنے پستول سے شیخ اسامہ کو گولیاں مار دے اور بھاگ کر قریبی سعودی سفارتخانے تک خود کو پہنچا دے جو اسے محفوظ واپس منتقل کر دیں گے۔ اسے اس کے اعتراف کے مطابق سعودی عرب میں ہی اچھی تربیت دی گئی۔ تاہم اس کے مجاہدین کےیہاں پہنچتے ہی، اور شیخ اسامہ کے متعلق بہت سوالات کرتے اور مشکوک قسم کی جلد بازی کی حرکتوں کے سبب پکڑلیا گیا اور اس نے ابتدائی تحقیق میں ہی سب کچھ کا اعتراف کرلیا۔ بعد میں اسے مزید تحقیق اور فیصلے کے لیے طالبان کے حوالے کردیا گیا۔ میں خود بعد میں قید خانے میں اس سے ملنے کئی دفعہ گیا، وہ نوجوان جو دیکھنے میں نہایت دیندار تھا، حقیقت میں اس سے بالکل مختلف تھا، سگریٹ پینے کا عادی، بے نمازی تھا جیسا کہ مجھے قیدخانے کے محافظوں نے بتایا۔
۷۔ ۱۹۹۹ء میں ایک شامی نوجوان کے ذریعے شیخ اسامہ کے متعلق معلومات جمع کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ نوجوان متحدہ عرب امارات سے آیا تھا جہاں کے ایک خفیہ ادارے نے اسے یہ کام سونپا تھا، بعد اس کے کہ اس کے ساتھ غلط حرکات کرکے اس کی ویڈیو بنائی گئی تھی، جیسا کہ اس نے خود بتایا، اور بڑی رقم اور امارات کی شہریت کا وعدہ کیا گیا تھا۔ تاہم اس کے یہاں پہنچنے کے آغاز کے دنوں میں ہی اسے گرفتار کرلیا گیاکیونکہ اس کا طریقۂ واردات غیر ماہرانہ تھا جس سے وہ فوراً مشکوک ہوگیا۔
۸۔ ۱۹۹۹ء کے اواخر میں اردن کی حکومت نے مغربی آلۂ کار وں کی صف میں خود کو شامل کرتے ہوئے منصوبہ بنایا۔ منصوبہ یہ تھا کہ شیخ اسامہ بن لادن رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ ابو حفص الکماندان (صبحي أبو ستۃ) رحمۃ اللہ علیہ کی رہائش گاہوں کی دقیق معلومات جمع کی جائیں تاکہ ان کو ہدف بنایا جاسکے۔ اس کام کے لیے اردن نے ایک سابقہ مجاہد ابو مبتسم اردنی کو اپنا ایجنٹ بنایا اور اسے مجاہدین کی طرف بھیجا۔ اس کے یہاں پہنچتے ہی اردنی مجاہدین میں اس کے متعلق شکوک پیدا ہوگئے، خاص طور پر شیخ ابو مصعب زرقاوی رحمۃ اللہ علیہ کو،تاہم کوئی صورت نہیں تھی کہ شک کو یقین میں بدلا جائے۔ اسی دوران وہ ایک دن اردن رابطہ کرنے کے لیے کابل آیا اور کال سینٹر میں گھسا۔ اتفاق سے اسی کال سینٹر میں قریبی کیبن میں دو معزز مجاہدین ابو السمح مصری اور ابو الحسن القاری موجود تھے۔ رابطے کے دوران ابو مبتسم کی آواز بلند ہوگئی، یہ سوچتے ہوئے کہ شاید قریب میں عربی جاننے والا کوئی دوسرا فرد نہیں ہے۔ اس رابطے کے دوران ابو مبتسم نے اردنی رابطہ کاروں کو بتایا کہ وہ ہدف کے بہت قریب پہنچ چکا ہے۔ یہ کال کرنے کے بعد وہ کابل میں تنظیم کے مہمان خانے میں پہنچا تو اس کے ساتھ ہی دونوں دوسرے بھائی اور محمد صلاح مصری بھی مہمان خانے کے مسؤول سے جاملے اور اسے ساری تفصیل بتا دی۔ چنانچہ ابو مبتسم کو گرفتار کرکے لوگر میں تنظیم کے معسکر بھیج دیا گیا جہاں ابتدائی تفتیش میں اس نے ساری کہانی سنادی اور بتایا کہ کس طرح اسے نیچ حرکات کرواکر بلیک میل کرکے ایجنٹ بنایا گیا ہے۔ اس کے بعد اسے طالبان کے حوالے کردیا گیا جہاں عدالت میں اس پر کیس چلاکر اسے سزا سنائی گئی۔ اس کی سفارش کے لیے اس کی والدہ اور بھائی افغانستان آئے، مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ بالآخر قندھار پر امریکی حملے کے وقت یہ شخص قید سے نکلا۔
یہ وہ کوششیں تھیں جن کے بارے میں عموماً تنظیم القاعدہ کی قیادت اور بعض افراد ہی باخبر تھے، تاہم امریکی ریاستی اداروں نے خود اُن تمام کوششوں کونہ چھپایا جو انھوں نے اس سارے عرصے میں شیخ اسامہ رحمۃ اللہ علیہ اور تنظیم القاعدہ کے خلاف انجام دیں، خواہ وہ عسکری نوعیت کی تھیں یا ڈپلومیٹک۔ امریکہ کی طرف سے گیارہ ستمبر کی تحقیق پر مکلف کمیٹی جو ۱۲۵ ارکان پر مشتمل تھی…… جن میں سے ۵ ارکان ریپبلکن پارٹی کے تھے اور ۵ ڈیموکریٹ پارٹی کے…… نے اپنی جاری کردہ رپورٹ میں وہ تمام کوششیں بیان کردیں جو اس سارے عرصے میں امریکی ریاست کی طرف سے کی گئیں۔ اس رپورٹ کے بعض صفحات شیخ ایمن الظواہری نے اپنی کتاب ’فرسان تحت رایۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم‘ میں عربی زبان میں ذکر کیے ہیں، میں وہیں سے بعض باتیں یہاں نقل کررہا ہوں۔5
۱۔ ڈپلومیٹک سطح پر رچرڈ کلارک…… جو ۱۹۹۷ء سے ۲۰۰۱ء تک انسدادِ دہشت گردی کے لیے امریکہ کا نیشنل سکیورٹی کوآرڈینیٹر رہا، اس نے القاعدہ کی طرف سے امریکہ کے لیے کسی بھی قسم کے خطرے کو زائل کرنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ طالبان پر اثر انداز ممالک…… مثلاً پاکستان، سعودی عرب، عرب امارات اور ازبکستان…… کے ذریعے طالبان کو مجبور کیا جائے کہ وہ بن لادن کو امریکہ یا کسی عربی ملک کے حوالے کردیں تاکہ اس پر مقدمہ چلایا جائے6، اور یہ دباؤ بڑھانے کے لیے افغانستان میں عسکری کارروائیاں بڑھائی جائیں۔ تاہم امریکہ کے مرکزی عہدیداروں کے یہاں عسکری کارروائیوں کی بات کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی، کہ اس کام سے شیخ اسامہ کی عوامی مقبولیت مزید بڑھ جائے گی، البتہ سفارتی کوششوں پر اتفاق ہوا۔
۲۔ ۲۰ اگست ۱۹۹۸ء کو…… نیروبی اور دار السلام میں امریکی سفارتخانوں پر مبارک حملوں کے بعد…… امریکہ نے شیخ اسامہ بن لادن اور آپ کے معاونین کے قتل کی کوشش میں خوست میں تنظیم کے معسکرات پر کئی میزائل داغے، جس کے نتیجے میں چند مجاہدین شہید ہوئے۔ امریکہ نے اس آپریشن کو ’لامتناہی رسائی‘ [operation infinite reach] کا نام دیا۔ پھر جنرل ہنری شیلٹن نے حکم دیا کہ بمباری جاری رکھی جائے۔ کلنٹن کا میلان تھا کہ امریکی سفارتخانوں پر حملے کے جواب میں اپنی ساخت اور شہرت کو بچانے کے لیے کئی فضائی حملے کیے جائیں۔ تاہم خصوصی حملوں کے امریکی ادارے سے وابستہ وزارتِ دفاع کے بعض نمائندوں نے آٹھ اجزاء پر مشتمل منصوبہ پیش کیا، جس میں محض فضائی حملوں پر اکتفا نہ کیا گیا تھا، بلکہ تمام عسکری امکانیات کو بروئے کار لاتے ہوئے بہت سی کارروائیوں کےکرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
۳۔ جون ۱۹۹۹ء میں امریکہ کی طرف سے پاکستان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ طالبان کو شیخ اسامہ بن لادن کو حوالے کرنے پر مجبور کرے اور نواز شریف کے دورۂ امریکہ کے دوران کلنٹن کے ساتھ اس کی بات ہوئی۔ نواز شریف نے یہ تجویز پیش کی کہ پاکستانی فوج زمینی حملہ کرکے شیخ اسامہ کو گرفتا رکرے گی اورامریکہ نے اتفاق کیا کہ وہ متعلقہ فوجیوں کو ٹریننگ کرائیں گے۔ لیکن اللہ کے فضل اور توفیق کے بعد مجاہدین کی بیدار مغزی سے یہ منصوبہ قبل از عمل ہی ناکام ہوگیا۔
۴۔ دسمبر ۱۹۹۸ء میں جنرل شیلٹن اور جنرل اینتھونی زینی نے امریکی نیشنل سکیورٹی کونسل کی سکیورٹی کمیٹی میں یہ منصوبہ رکھا کہ امریکی خصوصی افواج کے دستے بن لادن اور اس کے ساتھیوں کی موجودگی کے علاقے پر اس طرح حملے کریں گے کہ اس کی عکس بندی بھی کی جائے، تاکہ امریکی قوت اور سطوت کا مظاہرہ کیا جاسکے۔
۵۔ دسمبر ۱۹۹۸ء کے آخر میں امریکی سکیورٹی اداروں نے فیصلہ کیا کہ وہ حاجی حبش کے گھر…… المعھدالشرعي کے مرکز…… پر حملہ کریں گے جہاں شیخ اسامہ رحمۃ اللہ علیہ سویا کرتے تھے، مگر اس خوف سے کہ حملے میں عام شہری اور قریبی مسجد کو نقصان نہ پہنچے اور مبادا کہ شیخ اسامہ وہاں نہ ہوں، حملہ نہ کیا گیا۔
میں کہتا ہوں کہ یہ امریکہ کے مکروہ چہرے پر لیپا پوتی ہے، وگرنہ امریکہ نے کہاں بے گناہوں اور معصوموں کی جانوں کی پروا کی ہے۔ کیا ہیروشیما اور ناگاساکی کے سارے رہائشی فوجی تھے؟ کیا ویتنام کے تین ملین لوگ فوجی تھے؟ کیا عراق میں امریکہ نے صرف فوجیوں کو مارا؟ کیا گواٹیلاما، ہیٹی، کوریا اور کمبوڈیا میں صرف فوجیوں کو مارا گیا؟ یا پھر یہ تاریخ کی ملمع سازی اور حقائق کو بدلنا ہے؟
۶۔ فروری ۱۹۹۹ء میں سی آئی اے کی تجویز پر امریکی صدر کلنٹن نےشمالی اتحاد کو شیخ اسامہ کی گرفتاری اور قتل کا منصوبہ سونپا۔
میں کہتا ہوں کہ شمالی اتحاد کا قائد احمد شاہ مسعود وائٹ ہاؤس کے ساتھ تعاون پر تیار تھا، جیسا کہ سی آئی اے کے چیف جورج ٹینیٹ کی گواہی ہے کہ سی آئی اےنے احمد شاہ مسعود سے ۱۱ ستمبر کے حملوں سے قبل تنظیم القاعدہ کے امیر شیخ اسامہ بن لادن کے تعاقب کے لیے مدد پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم ۱۱ ستمبر کے حملوں سے قبل ہی مسعود کے قتل نے اس منصوبے پر پانی پھیر دیا۔ جورج ٹینیٹ نے یہ گواہی امریکی کانگریس کی ۱۱ ستمبر کی تحقیق کی خصوصی کمیٹی کے سامنے دی اوراخباروں میں بھی نشر ہوئی۔
۷۔ امریکیوں کا گمان ہے کہ مئی ۱۹۹۹ء میں انھوں نے قندھار میں شیخ اسامہ کا پانچ دن تعاقب کیا اور ارادہ تھا کہ ان پر میزائل داغے جائیں، مگر پھر حملہ نہ ہوسکا۔
۸۔ ۲۵ جون ۱۹۹۹ء کو امریکی نیشنل سکیورٹی کے مشیر سینڈی برجر نے سکیورٹی کمیٹی کو شیخ اسامہ بن لادن پر حملے کی تجویز پر بات چیت کی دعوت دی۔ اس سے قبل اسی سال امریکی کانگریس کی قیادت نے شیخ اسامہ کے مراکز اور طالبان کے حکومتی مراکز پر حملوں کی تجویز دے رکھی تھی۔ لیکن مراکز کے قرب وجوار میں عام آبادی کے نقصان پہنچنے کے خدشے کے سبب اس تجویز پر عمل نہ ہوسکا۔
۹۔ جولائی ۱۹۹۹ء میں امریکی صدر کلنٹن نے امارتِ اسلامیہ افغانستان کو دہشت گردوں کی محافظ ریاست قرار دیا۔ میں کہتا ہوں کہ یہ کیٹیگرائزیشن تو امریکیوں کی ہے۔ ہم امریکہ یا کسی بھی دوسرے کو یہ حق نہیں دیتے کہ وہ اپنی سوچ وفکر کے مطابق صف بندی کرتا پھرے۔ ہم تو صرف شریعت کے عطا کردہ اوصاف کو تسلیم کرتے ہیں، اس کے علاوہ کی ہمیں کوئی پروا نہیں۔ ہاں! ہمیں فخر ہے کہ ہم امریکیوں کو دہشت میں مبتلا کرتے ہیں۔
۱۰۔ امریکہ کے دباؤ پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اکتوبر ۱۹۹۹ء میں قرارداد (رقم ۱۲۶۷) پاس کی جس میں کہا گیا کہ افغانستان تیس دن کے اندر شیخ اسامہ کو حوالے کر دے، وگرنہ اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔
۱۱۔ اکتوبر ۱۹۹۹ء میں امریکی انسدادِ دہشت گردی کے ادارے سے وابستہ افسران پنج شیر کی وادی میں طیارے میں آئے اور احمد شاہ مسعود سے ملاقات کی اور اس نے یقین دہانی کرائی کہ وہ شیخ اسامہ سے متعلق معلومات بھی فراہم کرے گا اور انھیں گرفتار کرنے کی بھی کوشش کرے گا۔
۱۲۔ دسمبر ۱۹۹۹ء کے آخر میں جنرل زینی پرویز مشرف سے ملا اور اس پر زور دیا کہ وہ شیخ اسامہ کے مسئلے کے حل کے لیے فوری اقدامات کرے۔ جنوری ۲۰۰۰ء میں امریکہ کا اسسٹنٹ وزیرِ خارجہ کارل اینڈر فرتھ اور امریکہ کے انسدادِ دہشت گردی کے ادارے کا کوآرڈینیٹر جنرل مائیکل شیہان اسلام آباد میں مشرف سےملے اورمشرف نے انھیں بتایا کہ وہ عنقریب ملا عمر سے ملے گا اور شیخ اسامہ کے مسئلے میں ان پر دباؤ ڈالے گا۔ مارچ ۲۰۰۰ء میں امریکی صدر کلنٹن مشرف سے ملا اور یہی بات کہی۔ مارچ ہی کے اختتام پر انڈر سیکرٹری آف اسٹیٹ تھومس پیکرینگ اسی مقصد سے پاکستان آیا۔ جون ۲۰۰۰ء میں سی آئی اے کا چیف جورج ٹینیٹ بھی اسی مقصد سے پاکستان آیا اور مشرف کے ساتھ طے ہوا کہ انسدادِ دہشت گردی کی ٹیم بنائی جائےگی تاکہ سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے درمیان کوششوں کو منظم کیا جاسکے۔
۱۳۔ دسمبر ۲۰۰۰ء میں بش صدر کلنٹن سے ملا، اس کی صدارت کے خاتمے سے قبل، تاکہ امریکی سلامتی کو درپیش خطرات اور خارجہ سیاست پر مشورہ کرے، اس میں کلنٹن نے بش سےکہا: ’’میرا خیال ہے کہ تمہارے لیے سب سے بڑا خطرہ بن لادن اور القاعدہ کی صورت میں ہوگا۔ اور مجھے سب سے زیادہ اس پر ندامت ہے کہ میں بن لادن کے معاملے میں کامیاب نہ ہوسکا، حالانکہ میں نے کوشش بہت کی‘‘۔
۱۴۔ فروری ۲۰۰۱ء میں بش نے مشرف کو لکھا کہ شیخ اسامہ بن لادن اور القاعدہ امریکہ کے لیے براہِ راست خطرہ ہیں جس کا سدِ باب ضروری ہے، اورمشرف پر زوردیا کہ وہ شیخ اسامہ اور القاعدہ کے معاملے میں امارتِ اسلامیہ پر اپنا اثر ورسوخ استعمال کرے۔ تاہم امریکیوں کی اپنی تصریحات کے مطابق ان تمام کوششوں کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔
۱۵۔ ٹومی فرینکس7 کہتا ہے کہ ستمبر ۲۰۰۱ء کے پہلے ہفتے میں، میں نے جورج ٹینیٹ کے ساتھ مل کر اور امریکی وزیرِ خارجہ کرسٹینا روکا کی مدد سے آئی ایس آئی کے چیف جنرل محموداحمد کے ساتھ ملاقات کی ترتیب طے کرنے میں کام کیا جو اس کے دورۂ واشنگٹن کے دوران ہونی تھی۔ میری ذمہ داری تھی کہ میں پاکستان اور طالبان کے تعلقات کی گہرائی کا جائزہ لوں اور اس امکان کا اندازہ لگاؤں کہ ہماری ایجنسی کے ساتھ تعاون بڑھا کر پاکستان اسامہ بن لادن اور القاعدہ تک پہنچ سکتا ہے یا نہیں۔ پس ۱۰ ستمبر ۲۰۰۱ء کو ملاقات طے پائی۔ ۱۰ ستمبر کو امریکی سکیورٹی اور پاکستانی سکیورٹی کے مندوبین کی ملاقات ہوئی اور تین مراحل پر مبنی منصوبے پر اتفاق ہوا۔
پہلا مرحلہ: امارتِ اسلامیہ افغانستان کی طرف وفد بھیجا جائے گا جو اسے آخری بار موقع دے گا۔
دوسرا مرحلہ: اگر پہلا مرحلہ ناکام ہواتو سفارتی دباؤ ڈالا جائے گا، جس کے ساتھ ساتھ امارتِ اسلامیہ کے تمام مخالف گروہوں کو خفیہ طور پر اکسایا جائے گا کہ وہ مقامی جنگ میں امارتِ اسلامیہ کے خلاف گھیرا تنگ کریں اور القاعدہ کے مراکز پر حملے کریں، اس دوران امریکہ امارت کے نظام کو گرانے کے لیے عالمی اتحاد قائم کرے گا۔
تیسرا مرحلہ: اگر اس کے باوجود امارتِ اسلامیہ کی سیاست نہ بدلی تو امریکہ خفیہ عمل کے ذریعے داخل سے امارت کے نظام کو الٹنے کی کوشش کرے گا۔
میں کہتا ہوں کہ تنظیم کے خاتمے اور تنظیم کے امیر کے قتل یا گرفتاری کی سابقہ تمام ناکام کوششوں کو دیکھتے ہوئے درج ذیل باتیں واضح ہوتی ہیں:
۱۔ امریکی ریاست من گھڑت بہانوں کی آڑ میں بین الاقوامی غنڈہ گردی، لوگوں کی لوٹ کھسوٹ اور حکومتوں کو گرانے کا ارتکاب کرتی ہے۔ ۲۰۰۲ء میں بش کی حکومت نے قومی سلامتی کی اسٹریٹیجی کا اعلان کیا کہ امریکہ کا حق ہے کہ وہ اس قدر قوت فراہم کرے جو دنیا پر امریکہ کی دائمی بالادستی کے لیے درپیش ہر خطرے پر قابو پاسکے۔
۲۔ مذکورہ بالا بات کی تاکید ان کا یہ قول کرتا ہے کہ ’ہماری افواج کو اس قدر مضبوط ہونا چاہیے کہ وہ ممکنہ مخالفین کو فوجی طاقت کی تعمیر جاری رکھنے سے روک سکے، تاکہ وہ امریکہ کے مساوی یا اس سے زیادہ قوت نہ پکڑسکیں‘۔
میں کہتا ہوں کہ یہ ’طاقت کے قانون‘ کا نظریہ ہے، جو کسی بھی دوسرے کو اپنے دفاع کا حق نہیں دیتا اور تمام بین الاقوامی قوانین کو لغو کردیتا ہے جو امریکی قوت اور بالادستی کے سامنے عاجز ہیں۔ گویا ’بین الاقوامی قانون‘ ’قوت کے قانون‘ کے سامنے ایک بے معنی عبارت ہے۔
۳۔ امریکی ریاست ’نیروبی اور دار السلام کے حملوں‘ سے بھی قبل تنظیم کے خلاف جنگ میں اور اس کے خاتمے کے لیے برسرِ پیکار تھی، احتمالی خطرے کے پیشِ نظر قبل از وقت ضرب لگانے کی صورت میں۔
۴۔ عالمِ اسلام کے خلاف امریکی صلیبی جنگ کسی جماعت یا تنظیم کی وجہ سے نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگ کہتے پھرتے ہیں۔ بلکہ یہ تمام وجوہات سے قبل ایک عقیدے کی جنگ ہے، جیسا کہ ہمیں ہمارے رب نے بتایا ہے:[وَلاَ يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىَ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُواْ] (البقرۃ:۲۱۷) ’’اور یہ کفار تمہارے خلاف ہمیشہ لڑتے رہیں گے، یہاں تک کہ یہ تمہیں تمہارے دین سے واپس پھیر دیں، اگر کرسکیں‘‘۔
۵۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو گرانے کی مستقل کوششیں طالبان کی قوت اور امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے خطرے کے سبب نہ تھیں، بلکہ حکومت کے اس اسلامی ماڈل کے خاتمے کےلیے تھیں، تاکہ کہیں یہ پڑوسی ممالک میں بھی قائم نہ ہوجائے۔ جنرل ویلسی کلارک کہتا ہے: ’’جو کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہم افغانستان ۱۱ ستمبر کے انتقام کے لیے آئے ہیں تو وہ اپنی غلطی درست کرلے۔ ہم تو اس مسئلے کے سبب آئے ہیں جس کا نام اسلام ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ اسلام آزاد مثال کے طور پر قائم ہو جہاں مسلمان یہ طے کریں کہ اسلام کیا ہے، بلکہ ہم ہیں جو طے کریں گے کہ اسلام کیا ہے‘‘۔
۶۔ تنظیم القاعدہ اور طالبان کے خاتمے کے امریکی منصوبے ۱۱ ستمبر کے حملوں سے ایک دن قبل تک نہیں رکے تھے۔ یہ امریکی سکیورٹی اداروں کی کمزوری کی دلیل ہیں جن کے بارے میں بعض لوگوں کا گمان ہے کہ وہ ہر پیش آنے والے واقعے سےقبل ہی اس کی معلومات رکھتےہیں۔سی آئی اے کا چیف جورج ٹینیٹ کانگریس کے سامنے گواہی دیتے ہوئے کہتا ہے: ’’ہم اپنی کوششوں کے باوجود ۱۱ ستمبر کے حملہ آوروں میں کوئی اختراق پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوئے‘‘۔
۷۔ امریکہ کو ہدف بنانا اور اس پر مستقبل میں ایسے حملے کرنا جو ۱۱ ستمبر کے حملوں سے بھی قوت اور تاثیر میں زیادہ ہوں، ممکن بات ہے، بشرطیکہ اللہ پر اچھا بھروسہ کرنے کے بعد عزم اور دقیق منصوبہ بندی موجود ہو۔
۸۔ عالمی صلیبی قوتوں کے خلاف جہادی طریقے پر مداومت شرعاً واجب ہے، اور یہی اپنے مقدسات کی آزادی کا مختصر ترین طریقہ ہے۔
۹۔ صہیونی صلیبی قوتوں کے ساتھ معرکے کی حقیقت سے ناواقفیت امت کے ساتھ دھوکہ اور تاریخی حقائق سے منہ موڑنا ہے۔
۱۰۔ صلیبی دشمن کی شکست کا واحد راستہ قوت حاصل کرنا اور……بتوفیقِ الٰہی…… جہاد فی سبیل اللہ ہے۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
1 الموقف الشرعي من عملیات سبتمبر، شیخ سفر الحوالی [اللہ تعالیٰ انھیں رہائی دیں]
2 یہ ان مخلص قائدین میں سے تھے جنھوں نے جہادِ روس کے دوران اسلام اور مسلمانوں کے دفاع میں اپنی جانیں کھپائیں، بعد میں طالبان کی صف میں شامل ہوگئے اور خود کو امارتِ اسلامیہ افغانستان کا ایک سپاہی بنادیا۔
[معلم اول گل، جلال آباد میں شیخ اسامہ بن لادن اور دیگر مہاجر مجاہدین کے انصار تھے۔ دسمبر ۲۰۰۱ء میں گرفتار کر لیے گئے تھے اور آپ کو گوانتانامو کے جیل خانے میں قید کر دیا گیا تھا۔ نو (۹) سال گوانتانامو میں قید کاٹنے کے بعد انہیں گوانتانامو میں فروری ۲۰۱۱ء میں شہید کر دیا گیا اور سبب موت قلبی حملہ بتائی گئی۔ (ادارہ)]
3 اس منصوبے کی حقیقت پر شیخ یونس خالص رحمۃ اللہ علیہ کی تنظیم کے ایک قائد آگاہ ہوئے تھے جن کے ساتھ ہمارے جہادِ روس کے زمانے سے بہت قریبی تعلقات تھے، انھوں نے ہی ہمیں اس سے خبردار کیا۔ سکیورٹی وجوہات کے سبب میں ان کا نام یہاں ذکر نہیں کر رہا۔
4 Media Control: The Spectacular Achievements of Propaganda, Noam Chomsky
5 چونکہ مختلف تاریخوں کی بہت سی مماثل کوششوں کا ذکر مصنف نے کیا تھا اور چونکہ کاتبِ تحریر نے کامل اردو ترجمہ نہیں، بلکہ استفادہ کی ذمہ داری اٹھائی ہے، سو اختصار کےسبب ان میں سے بھی اہم کوششوں کو ذکر کیا جارہا ہے۔ تمام اصل کتاب میں دیکھیے۔ (کاتب)
6 سعودی سفیر ’العمری‘ نے اس بات کے لیے شیخ یونس خالص رحمۃ اللہ علیہ پر دباؤ ڈالا، جس وقت ہم لوگوں کی عام موجودگی جلال آباد میں تھی، لیکن شیخ یونس خالص رحمۃ اللہ علیہ نے اسے جواب دیا کہ ’اگر جزیرۂ عرب سے بھیڑ بکریاں بھی ہمارے پاس آجائیں اور ہم سے حفاظت کا مطالبہ کریں تو ہم ان کی حفاظت کریں گے، پھر بھلا ہم اپنے ان بھائیوں کی کیوں حفاظت نہ کریں جو ہمارے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے اور اپنےخون اور مال سے قربانی دی‘۔ اسی طرح ملا عمر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس دباؤ کو رد کر دیا تھا اور ترکی الفیصل ناکام واپس لوٹا تھا، حالانکہ وہ اپنے ساتھ بوئنگ ۷۳۷ جہاز بھی لایا ہوا تھا کہ اس میں القاعدہ کے تمام افراد کو بٹھا کر ساتھ لے جائے گا۔
7 یہ وہ امریکی فوجی جنرل تھا جس کی قیادت میں افغانستان پر امریکی حملہ ہوا۔ (کاتب)