اکیسویں صدی کا آغاز بڑی گھن گرج کے ساتھ مسلم دنیا پر نائن الیون کی آڑ میں، ٹوٹ پڑنے سے ہوا تھا۔ مسلمان، امریکی صدر بش جونیئر کی چنگھاڑتی دھمکیوں بھری تقاریر سے دبک کر رہ گئے۔ مسلمان دہشت گرد، جہاد دہشت گردی قرار پایا ۔ اقوام متحدہ نے اس وقت امریکی لونڈی کا کردار ادا کرتے ہوئے پہلے افغانستان اور پھر عراق پر حملوں کی راہ استوار کی۔ شام نشانہ بنا اور عین غزہ کے سے حالات 2011 ء کے بعد وہاں پیدا کیے گئے۔ اصطلاحات کی بوچھاڑ نے ہمیں دیوار سے لگا دیا۔ جمہوریت، روشن خیالی، اعتدال پسندی، آرٹ، کلچر، رواداری، ڈائیلاگ، برداشت (Tolerance) پڑھا سنا کر ہماری گو یا گردن بھی دبوچ لی۔ اس دوران مغربی روشن خیالی اور برداشت کا عملی مظاہرہ مسلم دنیا نے مغرب میں ملکوں ملکوں دیکھا۔ شانِ رسالت ﷺ میں بدترین گستاخیوں اور قرآن پاک جلانے کے لا منتہا سلسلوں نے ’رواداری‘ اور برداشت کا عجب منظر دکھایا۔ 2021ء تک دنیا بدل چکی تھی۔ حملہ آور امریکی اتحادی فوجیں تابوت اٹھائے ایک ایک کر کے رخصت ہوئیں۔ پھر امریکہ کو بھی شکست خوردہ، امریکی جھنڈا لپیٹے واپس جاتے دیکھا گیا۔
2023 ء میں 7 اکتوبر طوفان الاقصیٰ شدید بگولوں کی صورت اٹھا اور دنیا ایک مزید نئے دور میں داخل ہو گئی۔ مظلوم فلسطینی 1948ء سے قابض اسرائیلی فوجوں کے ہاتھوں لا منتہا قتل و غارت گری اور مہاجرت، گھروں سے محرومی سہ رہے تھے۔ مسجد اقصٰی اور بیت المقدس اسرائیلی آہنی پنجے تلے تھے۔ اچانک دبے پسے فلسطینیوں کے غیر متوقع اقدام نے اسرائیل کو باؤلا کر دیا۔ اور اب پونے دو سال سے تمام بین الاقوامی اصطلاحات، قوانین، ادارے سبھی کچھ زیر و زبر ہو گیا۔ فلسطین پر ایٹمی حملے سے کہیں زیادہ اذیت ناک، ہولناک درندگی اور وحشت کا ارتکاب ہوا۔ مگر کہیں دہشت گردی کا ذکر نہ آیا۔ اسرائیل لاشیں بھنبھوڑ کر، انہیں اعضا ء سے محروم کر کے چیتھڑے ٹرکوں میں بھر کر پھینک گیا مگر وہ مہذب، روشن خیال، روادار، برداشت کا اعلیٰ نمونہ ہی رہا۔ وہی افغانستان پر سارا جدید اسلحہ آزمانے، جنازوں، باراتوں پر حملہ کرنے والے امریکہ نے اسرائیل کو اسلحے سے لاد دیا۔ 23 لاکھ غزہ کی آبادی پر امریکہ، بڑے یورپی ممالک نے جو بارود کی فراہمی کے تسلسل سے قیامت برپا کی، اس نے پوری دنیا پر دہلا ڈالنے والے حقائق کھول دیے۔ مسلم ممالک تو 2001 ء سے جو سہمے تو آج تک چپکے بیٹھے اللہ کے احکام بھلا کر جہاد کو دہشت گردی گرداننے کے خوف سے نہ نکلے! عقل کے اندھے بن کر امریکہ کی جی حضوری میں جو لگے تو نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ اب خون آشام ٹرمپ پر اربوں ڈالر بر سائے۔ اسلامی روایات روند کر غزہ کی عورتوں، بچوں کے قاتل کو اپنی قوم کی بیویاں، بیٹیاں میزبانی ،دل بہلاوے کو پیش کر دیں۔ یہ ضرور ہے کہ اس حالیہ جنگ میں دنیا بھر کے عوام جاگ اٹھے ہیں۔ سوشل میڈیا پر خلقِ خدا شرق تا غرب سرا پا دشنام طرازی ہے۔ مسلمانوں کی غیرت (بہت سے ممالک میں جبر کی بنا پر عملاً کچھ نہ کر پائے بھی تو) آتش فشاں کی طرح ابل ابل پڑتی ہے۔ مغربی و دیگر غیر مسلم ممالک کا خصوصاً با شعور طبقہ مظاہروں، تقاریر، تحریروں کے ذریعے حقائق کھول کر بیان کر رہا ہے۔ سبھی حکمرانوں کو منہ چھپانا پڑتا ہے۔
اعلیٰ ترین یو نیورسٹیوں میں کہرام مچا ہوا ہے۔’ سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ‘ والی ایک نئی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ بادشاہی اور فراڈ جمہوریت کا نقاب اتر چکا ہے جہاں عوام کی سرے سے کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اسلام غزہ کی بنا پر مقبولیت پا رہا ہے۔ جو اللہ کی حکمرانی تلے عوام کے تحفظ کا حقیقی نظام ہے۔ جبکہ سرمایہ دارانہ نظام سب پیسے کا کھیل ہے۔ عوام کو ٹیکسوں سے نچوڑا جاتا ہے۔ حکمران جمہوریت کے نام پرپیسہ لگا کر کرسیوں پر براجمان ہوتے اور اربوں میں کھیلتے ہیں۔ تعیش بھری اپنی زندگی اور ظلم و جبر بھری دنیا کے عوام کی زندگی میں آگ بھرنے اور زہر گھولنے کے ذمہ دار یہی ہر ملک کے فراعنہ اور نما رود ہیں۔
نہایت چابک دستی سے،’ عوام کی حکومت‘ ، ’ عوام کے ذریعے‘ کے جھانسے میں جمہوریت ایک نہایت مہنگا کھیل ہے۔ 5.5 ارب ڈالر امریکی 2024 ء کے انتخابات پر خرچ ہوئے۔ کمالا ہیرس کو 56 فی صد بڑی مچھلیوں (رؤساء) سے حاصل ہوا جبکہ ٹرمپ کی 68 فیصد مدد رؤسائے اعظم بشمول ای لون مسک سے حاصل ہوئی۔ سو کون سے عوام اور کیسی جمہوریت؟ دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے، والی کہانی جو امریکہ میں ہے وہی ہماری بچہ جمہورا نام نہاد جمہوریت میں ہے۔ وہاں بھی سینیٹر اسی طرح کرسی تک پہنچتے ہیں۔ مثلاً امریکی سینٹرزنے 1.38 ارب ڈالر اپنے انتخابات کے لیے مہیا کیے، سو سرمایہ دارانہ نظام کی حکمرانی میں پیسہ بولتا ہے۔ تمام تر اصطلاحات اسی طرح کھل کر اندر سے کر یہہ صورت سامنے ہیں۔ غزہ نے اخلاق و کردار کا گھناؤنا پن کھول کر رکھ دیا ہے۔ خود اہل غزہ، ایمان، اسلام، صبر و ثبات، حق کی پہچان دنیا کو دینے میں کامیاب ہو چکے۔ آخرت کو باذن اللہ کما ہی چکے۔ دنیا بھر میں کفر کے جھوٹے پراپیگنڈے طشت ازبام کر دیے۔
نیتن یاہو اور اس کی درندگی پر دنیا دیوانی ہو کر رو اور کراہ رہی ہے۔ دلوں کا قرار سبھی عوام کا شرق تا غرب لٹ چکا ہے۔ گزرتے وقت، تمام تر سہولتوں کا غزہ سے مکمل چھن جانا، سب کے باوجود حیرت انگیز، دم بخود کر دینے والے صبر جمیل کے صحابہ کرام جیسے نمونہ ہائے عمل دلوں کی دنیا میں فتوحات کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ بچوں کی ڈاکٹر آلاء النجار کا یک بیک وحشی اسرائیلی بمباری سے 7 بچوں کی جلی ہوئی لاش وصول کرنا۔ ایک بچہ اور ڈاکٹر باپ جل کر زخمی انتہائی نگہداشت میں داخل، دو بچے لاپتہ! مگر ڈاکٹر الاء، مکمل با پردہ حافظۂ قرآن زیرِ لب قرآنی آیات، اللہ سے راز و نیاز کرتی بے مثل، با وقار صبر و ثبات، اللہ کی رضا پر راضی ہے۔ بہن نے اس سے کہا آلاء بچے چلے گئے ہیں۔ جواباً قرآن کی آیت سناتی ہے۔ ’(نہیں!) بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے حضور رزق پا رہے ہیں‘۔ نیتن یا ہو اور مودی شکست خوردہ ہیں۔ فتح یابی مال و اسباب، اسلحے، فوجوں کی کثرت اور درندگی کی صفات کی فراوانی سے نہیں، اخلاق و کردار، رب کائنات پر ایمانِ کامل، صبرِ جمیل اور آخرت ، حسنِ خاتمہ کی خاطر اپنا سب کچھ لگا دینا جھونک دینا اصل فتح ہے! اور اہل ایمان کے پاس ہر جگہ جذبے آج بھی زندہ و فراواں ہیں۔
سرمایہ داروں کا عوام کی خون پسینے کی کمائی اپنے عیش و عشرت اور فخر و تکبر پر لٹانا چند روزہ زندگی میں بھی تباہی لاتا ہے (یہودی شیرون اور اب بائیڈن پھیلے کینسر میں گھرا، غزہ پر موت برسانے میں شراکت کار) اور آخرت ہولناک بناتا ہے۔ یہاں ایک اور جلا ہو ا فلسطینی باپ، جس کے بیوی بچے ،والدہ سب شہید ہو گئے نیتن یاہو کی فوج کے شعلوں میں، قابل دید ہے۔ مسکرا مسکرا کر کہتا ہے۔’ ایک باپ اپنی اولاد کو بہترین آرام دہ مستقبل دینے کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ الحمد للہ میرے گھر والوں کو وہ مل گیا۔ اونچی جنتوں میں دائمی زندگی، میں بھی وہیں جاملوں گا!‘ ’یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے۔‘ مستقبل، مسلمانوں کے کھربوں پر ڈاکہ مار کر عالمی حکمرانوں کا اپنی حکومتوں، سیاستوں کی سیج سجانا نہیں ہے۔ حقیقی، اخروی مستقبل کی کہانی اہل غزہ سے پوچھو! یحییٰ سنوار کا چھوٹا سا گھر جس میں مہمانوں کی گنجائش بھی بمشکل تھی۔ جبکہ یحییٰ حکومت غزہ کا سربراہ تھا۔ جب متوجہ کیا گیا تو کہنے لگے: مہمانوں کے لیے دفتر حاضر ہے۔ میرا ایمان ہے کہ یہاں گھر جتنا چھوٹا ہوگا، آخرت کا گھر اتنا ہی بڑا ہو گا! اسی لیے یہ سب بے قرار رہتے ہیں اپنے اصل گھر جانے کو۔ ہم نے دنیا آباد اور آخرت برباد کر رکھی ہے سو آبادی سے ویرانے میں جانے سے گھبراتے ہیں! جدائی پر بین ڈالتے دھاڑیں مارتے ہیں۔ اہلِ غزہ جانے والوں پر مطمئن و پر سکوں شاداں و فرحاں رہتے ہیں! بات تو ایمان کی ہے!
پاکستان کو بھی اب 3 روزہ جنگی جھڑپ کی کامیابی منا ئے چلے جانے سے نکل کر فوری مودی کے برے عزائم سے نمٹنے کی تیاری، اندرونی مسائل مدبرانہ، متحمل انداز میں سلجھانے اور رجوع الی اللہ کی ضرورت ہے۔ کامیابی اسی ذات سے وابستہ ہے! یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ اللہ کی غیر معمولی مدد سے ہم فتح یاب ہوئے اور ساتھ ہی ہم نے پی ایس ایل میں شرمناک، حیا سوز رقص و سرود سے اللہ کی ناراضگی مول لی۔ یہ غیر معمولی طوفان بلا سبب نہیں!
[یہ مضمون ایک معاصر روزنامے میں شائع ہو چکا ہے۔ مستعار مضامین، مجلے کی ادارتی پالیسی کے مطابق شائع کیے جاتے ہیں۔ (ادارہ)]
٭٭٭٭٭