نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | چوتھی قسط

مدارس اور دینی جدوجہد کی تحریک

عبد الہادی مجاہد by عبد الہادی مجاہد
7 جون 2025
in فکر و منہج, جون 2025
0

زیرِ نظر تحریر افغانستان سے تعلق رکھنے والے عالم، داعی اور فکری جنگ پر دقیق نظر رکھنے والے مفکر فضیلۃ الشیخ مولوی عبد الہادی مجاہد (دامت برکاتہم)کی پشتو تصنیف ’مدرسہ او مبارزہ‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ کتاب بنیادی طور پر افغانستان میں مدارس اور دینی تعلیم کے نظام کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھی گئی ہے ، لیکن کتاب میں بیان کی گئی امت مسلمہ کی حالت اور اس حوالے سے جو مطالبہ ایک افغان عالم ِاور مدرسے سے کیا گیا ہے وہ درحقیقت باقی عالمِ اسلام کے علماء اور مدارس سے زیادہ مطلوب ہے۔ اس لیے کہ افغانستان میں تو آج ایک شرعی و اسلامی حکومت قائم ہو چکی ہے جبکہ باقی عالَمِ اسلام اس سے کہیں پیچھے ہے۔ اس کتاب کے اصل مخاطبین علماء و طلبہ ہیں جن کی تاریخ بالاکوٹ، شاملی، صادق پور اور دیوبند کے پہاڑوں، دروں، میدانوں اور مساجد و مدارس کے در و دیوار پر نوشتہ ہے! ومن اللہ التوفیق! (ادارہ)


عالم اسلام میں سیکولر حکومتوں کے تعلیمی نظام اور مغرب نواز ذرائع ابلاغ: مغربی تسلط کے دو خطرناک ہتھیار

مغربی استعماری قوتوں نے عالمِ اسلام کو زیر کرنے کے لیے ہر ممکنہ وسیلہ استعمال کیا، چاہے وہ عسکری ہو، خفیہ، سیاسی، معاشی، تعلیمی ہو یا فکری۔ ان تمام شعبوں میں انہوں نے کثیر سرمایہ کاری بھی کی ہے۔

افغانستان بھی انہی ممالک میں شامل ہے جس پر قبضہ کرنے کی راہ میں استعماری قوتوں نے خود کو تھکا ڈالا۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ افغانستان میں کبھی بھی حملہ آوروں کے قدم مضبوطی سے جم نہیں سکے اور ہر بار وہ یہاں سے شکست خوردہ اور شرمندہ واپس گئے، اس لیے ان استعمار پسندوں نے اپنی تحقیق اور تجربات کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جب تک افغانوں کو ان کے معنوی اقدار، اصلی اسلامی اور افغانی ثقافت سے جدا نہ کیا جائے، اور انہیں مغرب کے گمراہ کن اور غیر فطری کلچر میں مدغم نہ کیا جائے، تب تک افغانستان پر مستقل قبضہ ممکن نہیں۔

اسی بنیاد پر مغربی ممالک نے مدتوں پہلے ہی افغانستان میں تعلیم، افکار اور ثقافت کے میدان میں اپنی سرگرمیاں شروع کیں، تاکہ افغان عوام کو اپنے فکری، عقیدتی اور سیاسی اثرات کے تحت لے آئیں۔

افغانستان میں مغربی تعلیمی اور فکری اثرات کا دائرہ اس حد تک وسیع ہوا کہ سرکاری تعلیمی ادارے بھی مغربی ممالک کے زیرِ اثر آ گئے۔ ان اداروں کے نصاب میں مغربی زبانوں اور افکار نے جگہ بنا لی۔

مثال کے طور پر:

  • استقلال ہائی اسکول کو فرانسیسیوں نے،
  • امانی ہائی اسکول کو جرمنوں نے،
  • کابل پولی ٹیکنک کو روسیوں نے
  • اور کابل یونیورسٹی کو امریکیوں نے سپورٹ کیا۔

جہاں ان ہی ممالک کی زبانیں پڑھائی جاتی تھیں اور ان ہی کی ثقافت اختیار کرنے کی افغان طلبہ کو ترغیب دی جاتی تھی۔

جب نئی نسل میں سے مغرب نواز با اختیار حکمران اور صاحبِ اقتدار بنے، تو انہوں نے مکمل طور پر مغربی ثقافت اور گمراہی کے اسباب پھیلا دیے۔ انہوں نے بے دینی، فحاشی اور عریانی کی تشہیر کی، جس کے نتیجے میں لاکھوں افغان لڑکیوں اور عورتوں نے پردہ اور حجاب اتار پھینکا، اسی پر ہی بس نہیں بلکہ انہوں نے اسکولوں اور سرکاری دفاتر میں لڑکیوں اور خواتین کو ’’فیشن‘‘ اور ’’ماڈرنزم‘‘ کے نام پر قمیصیں چھوٹی کرنے اور شلواریں ترک کرنے کی ترغیب دی، جس کے باعث روزانہ ہزاروں افغان خواتین شہروں میں یورپی عورتوں کی طرح بے پردہ، چست پاجاموں میں، اور ننگے سر گھومتی پھرتی تھیں۔ اور یہ سب کچھ تمدن اور ترقی کے نام پر کیا جا رہا تھا۔

کفار کے مسلسل حملوں اور عسکری قبضے کے زور سے مسلمان عورتوں سے نہ تو حیا چھینی جا سکی اور نہ ہی ان کا پردہ ختم کیا جا سکا، لیکن وہ افغان جو مغربی ثقافت میں پلے بڑھے اور اسی رنگ میں رنگ دیے گئے، انہوں نے ہی افغان خواتین سے ان کے کپڑے بھی اتار دیے۔

حقیقت یہ ہے کہ افغانی معاشرے کو گمراہ کرنے میں اندرونی ’’ثقافتی‘‘ عناصر نے بیرونی ’’فرنگیوں‘‘ سے کہیں زیادہ خطرناک کردار ادا کیا۔

ان لوگوں نے ملک کے نشریاتی ادارے اور میڈیا مکمل طور پر مغربی ثقافت کی ترویج کے لیے وقف کر دیے تھے۔

انہوں نے شہری علاقوں میں نوجوانوں کی ایک ایسی نسل تیار کی، جسے مغرب کی زوال پذیر اور بے روح ثقافت، اسلام اور افغانی تہذیبی اقدار سے زیادہ محبوب اور بہتر نظر آتی تھی۔

امریکیوں نے ہمارے ملک پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارا نصابِ تعلیم اور ذرائع ابلاغ بھی اپنے قبضے میں لے لیے تھے۔

جب آخری بار امریکہ اور برطانیہ نے دیگر مغربی طاقتوں کی مدد سے ہمارے ملک و ملت پر ایک بار پھر عسکری یلغار کی، تو انہوں نے ملک کی آزادی اور خود مختاری کو ختم کر دیا، ہزاروں بےگناہ انسانوں کو شہید کیا، عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کر دیا، اور افغانوں کی سیاسی و ثقافتی تقدیر کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

اس کے بعد انہوں نے اپنے ساتھ ایسے مغرب نواز افغانوں کو شامل کیا، جنہوں نے ان کے تمام جرائم کو سندِ جواز فراہم کی، اور اس استعماری حملے کو افغان قوم کے لیے آزادی، جمہوریت، تمدن اور ترقی کے ناموں سے متعارف کروایا۔

امریکہ نے افغانستان پر اپنے قبضے کے دوران تعلیم کو افغان عوام کے تسخیر کے لیے ان طریقوں سے استعمال کیا:

  1. امریکہ نے اپنے قبضے کے دوران تین مرتبہ افغانستان کے تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں کیں او ر نصاب سے جہاد، دفاع، شہادت، غیرت، آزادی، اسلامی نظام، کفار سے نفرت، امتِ مسلمہ کے اتحاد اور دینی تعلیمات و سائنسی دریافتوں کے درمیان تعلق جیسے اہم اسلامی تصورات کو حذف کر دیا۔

ان کے بدلے میں انہوں نے نصاب میں امن، جمہوریت، مغربی نقطۂ نظر سے انسانی حقوق، خواتین کی آزادی، مرد و زن کے اختلاط، موسیقی، رقص، ثقافت کے نام پر افغانی خرافات اور روایات کے احیاء، مغربی طرز کی سول سوسائٹی کا تعارف، ہیومینزم کے فلسفے کے مطابق تمام انسانوں کو یکساں سمجھنے، کفار کے ساتھ سیاسی، ثقافتی، اخلاقی و سماجی اقدار کو اپنانے، اور مغربی یا مغرب نواز شخصیات کے تعارف جیسے مضامین شامل کیے۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ ان لوگوں کے ہاتھوں انجام پایا، جو خود کو سابقہ مجاہدین اور اسلامی فکر کے محافظ سمجھتے تھے۔ انہوں نے جہاد اور ہجرت کے ماحول میں مہاجرین اور مجاہدین کے چندوں سے ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کی تھیں، لیکن آخرکار وہ اپنی ساری تعلیم و تجربے سمیت قابض حکومت کے اداروں میں دشمن کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو گئے۔

امریکیوں نے اپنے پسندیدہ تصورات کو زیادہ تر ادبی، سماجی، تاریخی، ثقافتی، اور معاشرتی علوم کے مضامین میں اس طرح شامل کیا کہ غیر شعوری طور پر اور بڑی آسانی سے نسلِ نو انہیں قبول کر لے اور ان کی سوچ و فکر کا انداز ہی بدل جائے۔

  1. جب امریکی افغانستان میں داخل ہوئے، تو انہوں نے ملک کے تعلیمی ماحول کے دروازے ہر کسی کے لیے کھول دیے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر فرد یا ادارہ اپنی مرضی کے تعلیمی ادارے، پرائیویٹ اسکول، یونیورسٹیاں، اور قلیل و طویل المدتی کورسز قائم کرنے لگا، اور ان اداروں میں ہر ایک نے اپنی مرضی کے نصاب کو شاملِ تدریس کیا۔

مغربی ممالک اور تنظیمیں جو ان تعلیمی اداروں کے پیچھے کارفرما تھیں، انہوں نے ایک طرف تو افغانستان کے تعلیمی نصاب کو اسلامی اقدار سے محروم کیا، اور نصاب میں شامل دینی کتب کی اشاعت کے لیے مالی امداد بند کر دی، تاکہ نئی نسل اسکول کے نصاب میں بھی دینی تعلیم سے محروم رہے۔ دوسری طرف، انہوں نے معاشرے کے مالدار طبقے کے بچوں کو اپنے افغان حامیوں کے ذریعے نجی تعلیمی اداروں میں جمع کیا، تاکہ وہاں انہیں درآمد شدہ مغربی نصاب کے مطابق تیار کیا جا سکے۔

اغیار کے درسی نصابوں سے تربیت یافتہ نسلیں چاہتی ہیں کہ افغانستان مستقبل میں اسی طرح غیروں کے راستوں پر گامزن ہو جائے جیسے عالمِ اسلام کے دیگر ممالک ہو چکے ہیں۔

  1. امریکیوں نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت افغانستان کی عوام پر ایسا تعلیمی نصاب مسلط کیا جو اسلوب، تدریسی طریقوں اور معلومات کے لحاظ سے افغانستان کے موجودہ جنگ زدہ تعلیمی نظام کے اساتذہ اور طلبہ کی سطح اور حالات سے میل نہیں کھاتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ تو موجودہ اساتذہ اس غیر ملکی نصاب کو صحیح طریقے سے پڑھا سکے اور نہ ہی طلبہ اس سے صحیح طور پر استفادہ کر پائے، جس سے استاد، شاگرد اور ان کے والدین سب کو ذہنی اضطراب کا سامنا کرنا پڑا۔ اور جب تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کی وزارتوں اور نظام میں انتظامی اور اخلاقی کرپشن بھی شامل ہو گئی، تو نتیجہ ’’تعلیم‘‘ کی بجائے ’’جہالت‘‘ کا نکلا، جو کہ مغرب کا طویل المدتی مقصد تھا۔ کیونکہ مغرب اور دیگر دشمنانِ اسلام نہیں چاہتے کہ افغان عوام ترقی کریں، بلکہ وہ ہمیشہ افغانوں کو محتاج اور غلام رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اگر وہ تعلیم کے نام پر کوئی مدد فراہم کرتے بھی ہیں تو وہ صرف اتنی ہوتی ہے کہ لوگ فکری، ثقافتی اور اخلاقی لحاظ سے ان کے تابع رہیں۔

عوام کی فکری تسخیر: حملہ آوروں کا بڑا مقصد

حملہ آور کفری ممالک ہمیشہ سے یہ کوشش کرتے ہیں کہ پورے عالمِ اسلام کو اپنے قابو میں کریں اور یہاں کے تمام اختیارات و اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے جنگوں اور سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سافٹ پاوَر (Soft Power) کے استعمال کا بھی سہارا لیا ہے، اور جنگ کے مقابلے میں سافٹ پاوَر (Soft Power) کے استعمال سے انہیں زیادہ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔

سافٹ پاوَر (Soft Power) کی مختلف شکلیں

سافٹ پاوَر کی کئی شکلیں ہیں، جن میں اہم ترین سیاسی تعلقات، تعلیمی سرمایہ کاری، اچنبھے خیالات، عقائد اور نظریات کا پرچار، پروپیگنڈا مشینری کا استعمال، اقتصادی سرگرمیاں، مختلف منصوبوں اور اداروں کے ذریعے عوام تک براہ راست رسائی حاصل کرنا، حملہ آوروں کی موجودگی کے فوائد لوگوں کو باور کرانا اور عام افراد کی ذہن سازی شامل ہیں۔

رائے عامہ کی تشکیل

رائے عامہ کی تشکیل حملہ آوروں کے لیے سب سے اہم ہے، کیونکہ جب تک عوام ذہنی طور پر حملہ آوروں کے خلاف ہوتے ہیں، تب تک نہ تو حملہ آوروں کے ایجنڈے اور پروگرامز کامیاب ہو سکتے ہیں اور نہ ہی عوام ان کے خلاف مزاحمت سے دستبردار ہو سکتے ہیں۔

حملہ آور قوتیں اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات اٹھاتے ہیں:

کٹھ پتلی حکومتوں کا قیام

حملہ آور قوتیں اُن ممالک میں، جن پر وہ قابض ہو چکی ہوں، کٹھ پتلی حکومتیں قائم کرتی ہیں تاکہ ان کے ذریعے مذکورہ ممالک کے تمام سول اور عسکری اداروں کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کر سکیں۔ ان حکومتوں کے ذریعے ایسے قوانین، ضوابط، طریقہ کار، معیار اور اصول وضع کیے جاتے ہیں جن کے نفاذ سے ایک طرف حملہ آوروں کے مقاصد کی راہ ہموار ہوتی ہے، اور دوسری طرف تمام شہری و عسکری شعبوں میں مخالفت اور مزاحمت کی راہ روک دی جاتی ہے۔

اور اگر کوئی ان اصولوں اور قوانین کی مخالفت کرتا ہے، تو اسے مجرم قرار دے کر سزا دی جاتی ہے، چاہے وہ اپنی مؤقف میں سچا ہی کیوں نہ ہو۔

بااثر افراد کی وفاداریاں خریدنا

حملہ آور یہ کوشش کرتے ہیں کہ جن عوام پر وہ قابض ہیں، ان میں سے دین فروش، گمراہ، دنیا پرست اور منصب کی لالچی مذہبی شخصیات، یا روحانیت کے جھوٹے دعویداروں کو خرید لیں تاکہ ان کی فتاویٰ اور حمایت کے ذریعے اپنے ناجائز قبضے اور موجودگی کو سندِ جواز فراہم کر سکیں۔

اسی طرح وہ ان زرخرید افراد کے منفی پروپیگنڈے کے ذریعے، جو دین کے نام پر مجاہدین کے خلاف بولتے ہیں، عوام کو جہاد اور مجاہدین کے بارے میں شکوک و شبہات میں ڈالیں، تاکہ لوگ مزاحمت سے دستبردار ہو جائیں۔

دینی علم سے منسوب افراد اور نام نہاد روحانیت کے پیروکار درحقیقت حملہ آوروں کی ’’مذہبی فوج‘‘ ہوتے ہیں، جو نہایت کم قیمت پر دشمن کے لیے بہت بڑی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ ان افراد کے اس خطرناک کردار کو دیکھتے ہوئے، جو وہ اسلامی معاشرے کے خلاف ادا کرتے ہیں، نبی کریم ﷺ نے بھی اپنے دور میں مدینہ منورہ میں ان کی قائم کردہ ’’مسجدِ ضرار‘‘ کو گرا دیا تھا اور ان کے مرکز کو ختم کر دیا تھا۔

امریکیوں اور ان کے اتحادیوں نے بھی افغانستان پر قبضے کے بعد بالکل اسی طرح کیا، اور کچھ دنیا پرست واعظین، مفاد پرستوں اور دین سے منسوب افراد کو اس مقصد کے تحت اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز کیا تاکہ ان کے ذریعے اپنے پیغامات عوام تک پہنچائیں اور لوگوں کو قابض قوتوں کے زیر سایہ زندگی گزارنے پر آمادہ کریں۔

لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس قوم کی جہاد سے محبت اور مجاہدین کی مؤثر پیغام رسانی کے باعث، قابض قوتیں اپنے اس مقصد میں ناکام رہیں۔

پروپیگنڈے اور عوامی ذہن سازی کے لیے ثقافتی و سماجی شخصیات کو خریدنا

امریکہ نے اس مقصد کے لیے اپنے وسائل بھرپور طریقے سے استعمال کیے، اور وزارتِ اطلاعات و ثقافت کے امور بھی ایسے افراد کے حوالے کیے جو خلوص نیت کے ساتھ مغرب کے سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی مقاصد کے لیے کام کر رہے تھے۔

ان مغرب نواز افراد نے اپنے آقاؤں کے ثقافت کو متعارف کرانے کے لیے نئے جریدے، اخبار، رسالے، ثقافتی ادارے، ریڈیو اسٹیشنز اور کیبل ٹی وی چینلز متعارف کروائے۔ وہ دن رات اس کوشش میں تھے کہ کس طرح امریکی اور یورپی حملہ آوروں کو افغان عوام کے لیے نجات دہندہ ثابت کریں۔

مغرب نے ہماری اسلامی تہذیب و ثقافت کو مسخ کرنے کے لیے اپنے ریڈیو پروگراموں میں کئی گنا اضافہ کیا۔ مثال کے طور پر، امریکہ کا ’’ د امریکہ غگ‘‘(Voice of America)، ’’بی بی سی‘‘، ’’آزادی ریڈیو‘‘، ’’املان غگ ریڈیو‘‘(آوازِ املان ریڈیو) اور دیگر ریڈیو چینلز جو پہلے ۲۴ گھنٹوں میں افغانوں کے لیے صرف ایک یا دو گھنٹے نشریات پیش کرتے تھے، جنگ کے دوران ان سب نے مجموعی طور پر ایک دن میں سینکڑوں گھنٹے نشریات کیں اور مختلف پروگراموں کے ذریعے افغانوں کی ثقافت کو تبدیل کرنے کے لیے کام کیا۔

’’بی بی سی‘‘، ’’د امریکا غگ‘‘، ’’املان غگ‘‘ اور ’’آزادی ریڈیو‘‘ نے جنگ کے دوران افغانوں کے سب سے مؤثر اور مشہور لکھاریوں، صحافیوں، نئے ادیبوں اور ثقافتی شخصیات کوکرایے پر بھرتی کیا، حتیٰ کہ بعض ایسے لکھاریوں کو بھی اپنے لیے استعمال کیا جنہوں نے کسی زمانے میں جہادی نشریات میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔

تعلیمی نظام میں حملہ آوروں کے حق میں تبدیلی

حملہ آور کفار نے اپنے حملے کے فوراً بعد، نئی نسل کی تعلیم کے لیے ہمارے ملک کے سب سے اہم تعلیمی مراکز پر قابو پا لیا۔ تعلیمی نصاب میں سے وہ تمام تصورات و نظریات نکال دیے گئے جو جہاد، اسلامی تاریخ، آزادی اور کفار کے ساتھ دشمنی سے متعلق تھے۔ اور یہ سب کچھ ایسے لوگوں کے ذریعے کیا گیا جو ایک زمانے میں اسلامی تنظیموں اور ثقافتی مراکز چلانے کے قابل فخر کارنامے بھی سر انجام دے چکے تھے، لیکن بعد میں وہ کفار کے ڈالروں کی لالچ میں آ گئے اور پوری بے شرمی کے ساتھ امریکی مشیروں کی نگرانی میں استعماری حکومت کے لیے ثقافتی اور تعلیمی ملیشیا کا کردار ادا کرنے لگے۔

امریکیوں نے افغانستان پر قبضے کے بعد یہاں وزارتِ تعلیم و تربیت میں وہ نصاب نافذ کیا جو امریکہ کی ’’نبراسکا یونیورسٹی ‘‘(University of Nebraska) نے افغانستان کے لیے تیار کیا تھا۔

جرمنی نے ’’امانی لیسہ‘‘(جرمن کالج) کو دو اعشاریہ پانچ ملین ڈالرز کے اخراجات سے دوبارہ فعال کیا، کیونکہ جرمنوں کو یہ علم تھا کہ ’’امانی لیسہ‘‘ سے فارغ ہونے والا شخص بالآخر کسی عہدے تک پہنچے گا، اور پھر وہ ان کے مفاد میں کام کرے گا۔

فرانس نے بھی ’’استقلال لیسہ‘‘ کے امور اپنی زیر نگرانی لے لیے۔

اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں، غاصب امریکیوں نے کابل میں ’’امریکی یونیورسٹی‘‘ کا منصوبہ شروع کیا، جس طرح بیروت، قاہرہ اور استنبول کی ’’امریکی یونیورسٹیاں‘‘ مغربی حمایت یافتہ حکومتوں کے لیے اہلکار تیار کرتی ہیں۔ جب مئی۲۰۱۱ء میں اس یونیورسٹی کے تجارت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور پبلک منیجمنٹ (انتظامِ عامہ) کے شعبوں میں بیچلرز ڈگری کے حامل طلبہ کا پہلا بیج فارغ ہو رہا تھا، تو اس تقریب میں دیگر یورپی اور امریکی اعلیٰ حکام کے ساتھ افغانستان میں امریکی سفیر ’’کارل ایکن بیری‘‘(Karl W. Eikenberry) نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے یونیورسٹی کے نئے فارغ التحصیل طلبہ کی تعریف کی اور مزید کہا کہ:

’’یہ یونیورسٹی منصوبہ رکھتی ہے کہ مستقبل میں اپنی مزید شاخیں افغانستان کے دیگر صوبوں جیسے ہرات اور قندھار میں بھی کھولے، تاکہ افغانستان میں ایک ایسی نسل تیار ہو جو افغانستان اور خطے میں معیشت، تجارت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، قانون اور حکمرانی کے شعبوں میں قیادت کا کردار ادا کرے۔‘‘

مغربی اصطلاح میں اعتدال پسند مسلمانوں کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا

مغرب نے افغانوں کے خلاف فکری اور ثقافتی میدان میں کام کرنے کے لیے جتنے بھی مغرب نواز افغانوں کو اپنے ساتھ ملایا تھا، ان سے کوئی شکایت نہیں تھی کیونکہ وہ لوگ پچھلے وقتوں میں بھی دشمن کے صف میں کھڑے تھے اور افغان عوام انہیں اغیار کے ایجنٹ کی نظروں سے دیکھتے تھے۔ اور آج بھی وہ حملہ آوروں کے صف میں کھڑے ہیں اور افغانوں کے خلاف ہر سطح پر جنگ میں ملوث ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام یہ تھا کہ ایک اور گروہ، جو کہ دانشور و اہل ثقافت کہلائے جاتے تھے، جو کمیونزم کے خلاف جہاد کے دوران اپنے آپ کو اسلامی اور افغان ثقافت کا حامی سمجھتے تھے، اور جہاد اور پناہ گزینی کے زمانے میں مسلم و عرب اداروں کی مالی مدد سے اپنے آپ کو اچھے اور متحرک مسلمانوں کے طور پر پیش کرتے تھے، بعد میں وہ بھی مغربی ’’ثقافتی افراد‘‘ کی طرح حملہ آوروں کی خدمت میں جُت گئے۔

ان افراد نے جہاد اور مجاہدین کے خلاف منفی پروپیگنڈہ شروع کیا اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ حملہ آور کفار کی حمایت میں مغربی جمہوریت کے لیے راہ ہموار کی۔ اس خدمت کے بدلے میں انہوں نے ڈالر اور دیگر مراعات حاصل کیں، اور اپنی دانست میں اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو ’’مزین‘‘ کرلیا۔

حقیقت یہ ہے کہ ان دانشوروں نے کفار کے تحت قائم کی گئی تعلیمی انتظامیہ میں اپنے مفاد کے لیے کام کیا، اور اس طرح سے انہوں نے عوام کو گمراہ کرنے میں اپنا کردار ادا کیا، اور کفار کے خلاف جاری متفقہ جہاد اور مجاہدین کے خلاف شکوک و شبہات پھیلائے، جس کا فائدہ بالآخر ان کے مغربی آقاؤں کو پہنچا۔ کاش ان لوگوں نے واقعی وہ ’’فقہ‘‘ سمجھی ہوتی جس کا وہ دعویٰ کرتے تھے، اور اس پر عمل کرتے تو اپنی قیمتی صلاحیتوں کو واقعی اسلامی نظام کی خدمت میں لگا پاتے۔

یہ لوگ جو امریکیوں کے زیرِ سایہ قائم شدہ حکومت میں کام کر رہے تھے اور اس قابض حکومت کے تعلیمی منصوبوں کو چلا رہے تھے، حقیقت میں ’’سیکولر روشن خیالوں‘‘ سے بھی زیادہ غلط مؤقف پر کھڑے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی سوچ کو لوگوں کے سامنے اسلام کے نام پر پیش کر رہے تھے، لیکن حملہ آور قابض کفار اور ان کے افغان حامیوں کے خلاف فرض جہاد کے بارے میں نہ صرف اپنے شرعی فریضے سے منہ موڑے ہوئے تھے، بلکہ انہوں نے افغان دیندار نوجوانوں کے دلوں میں بھی اس حوالے سے شک و شبہات پیدا کر دیے تھے۔

ایسے لوگوں کو یا تو دل کا روگ لاحق تھا یا ان کی بصیرت اتنی کمزور ہو چکی تھی کہ وہ آزادی اور غلامی کے درمیان واضح فرق کو بھی دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر تھے۔

ان اہلِ دانش (روشن خیال مذہبی طبقے) نے یا تو مغرب کی مکاری کو سمجھا ہی نہیں تھا، یا پھر وہ خود بدنیت لوگ تھے، جنہوں نے ’’ہر چیز میں اعتدال‘‘ کے نعرے کے تحت اسلام کے اصولوں (ثوابت) کو بھی پامال کیا، اور شعوری طور پر دشمن کی صف میں کھڑے ہو گئے۔ اگر ایسا نہیں تھا، تو صلیبی حملہ آوروں کے سائے تلے اسلامی تہذیب و ثقافت کی خدمت چہ معنی دارد؟

مجموعی طور پر تاریخی تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ’’ثقافتی فرنگی‘‘( مغرب زدہ روشن خیال مسلمان) مسلمان اقوام کو مغرب کے تابع بنانے میں ’’جنگی فرنگیوں‘‘ ( عسکری استعماریوں) سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ کیونکہ عسکری استعماری تو کسی قوم کے افراد کو قتل کرتے ہیں، جبکہ یہ ثقافتی استعماری اس قوم کے دین، عقیدہ، اقدار اور روحانی بقا کو ہی مٹا دیتے ہیں۔

جب تک مجاہدین اور اسلامی نظام کی جانب سے تعلیم، افکار اور تہذیب و ثقافت کے میدانوں میں بھرپور انداز سے ہمہ جہت اور مسلسل عملی اقدامات نہ کیے جائیں، اور جب تک اسلامی تعلیمات کے مطابق مضبوط دینی نصاب اور مؤثر میڈیا کا نظام قائم نہ ہو، اُس وقت تک عالمِ اسلام کی صورتحال دشمنوں کے فائدے اور مسلمانوں کے نقصان میں چلتی رہے گی۔ مسلمانوں کے بچے ہمیشہ اُنہی کی پیروی کریں گے جن کی کتاب ان کے ہاتھ میں ہو گی، اور جن کے میڈیا پروگرام وہ دیکھتے اور سنتے ہوں گے۔

اس راستے میں سب سے پہلا اور اہم قدم یہ ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نصابوں میں کفر اور گمراہی کے نظریات، اشکال اور حربوں کی مکمل شناخت کرائیں، اور پورے حوصلے اور بصیرت کے ساتھ ان کے بارے میں نئی نسل کو اسلامی شرعی مؤقف بیان کریں اور اس معاملے میں کسی کی خوشنودی یا ملامت کی پروا نہ کریں۔

پر امن جدو جہد کی مسلسل ور وسیع پیمانے پر تبلیغ

ایک طرف جہاں مغربی طاقتیں اسلامی ملکوں پر قبضے اور مسلم اقوام کو زیر کرنے کے لیے اپنی جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی اور سب سے تباہ کن جنگی ہتھیار استعمال کرتی ہیں، اور مختلف خوفناک حربوں کے ذریعے عوام کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ ان کے اندر سے مزاحمت کی روح کو ختم کریں اور انہیں یا تو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کریں یا میدان چھوڑنے پر آمادہ کریں، وہاں دوسری طرف انہی مظالم کا شکار بننے والی قوموں کو اپنے کارندوں کے ذریعے ’’صبر‘‘، ’’برداشت‘‘، ’’اعتدال‘‘ اور ’’عدم تشدد‘‘ کے ذریعے جدوجہد کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔

وہ کوشش کرتے ہیں کہ ان اقوام کو اس بات پر قائل کریں کہ مسلح مزاحمت کا کوئی فائدہ نہیں، اور اگر وہ آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے سب سے بہتر اور محفوظ راستہ وہی ہے جو خود استعماری قوتوں نے اپنے قانون کے دائرے میں طے کیا ہو، یعنی سیاسی سرگرمیاں، برداشت، شہری اقدامات اور عدم تشدد پر مبنی جدوجہد۔

مغربی استعمار اپنے زیرِ تسلط مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی غرض سے انہیں عدم تشدد کی جدوجہد کے میدان میں گاندھی، نیلسن منڈیلا اور باچا خان (عبدالغفار خان) کی مثالیں پیش کرتا ہے۔ حالانکہ گاندھی اور منڈیلا دونوں عقیدے کے لحاظ سے کھلے کافر تھے، اور عبدالغفار خان ایک ایسا شخص تھا جس نے برطانوی استعمار کے زیرِانتظام پشاور میں عیسائی مشنری اسکول سے تربیت حاصل کی تھی اور بعد میں کمیونزم کی طرف مائل ایک سیکولر قوم ‌پرست رہنما بن گیا تھا۔

گاندھی، منڈیلا اور باچا خان کی جدوجہد کبھی بھی استعمار کے خلاف کوئی دینی تحریک نہ تھی، اور نہ ہی ان لوگوں نے استعمار کے دین، ثقافت یا تمدن سے اختلاف کیا تھا۔ گاندھی اور منڈیلا نے تو آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی اپنے نظام حکومت مغربی اصولوں پر قائم کیے اور اپنی اقوام کو مغربی قوانین کے مطابق چلایا۔ عبدالغفار خان کے پیروکاروں نے بھی ابتدا میں اشتراکی نظریات کے تحت سوویت یونین کی حمایت کی، اور اس کے زوال کے بعد انہوں نے امریکہ کی ہمنوائی اختیار کی، ایسے وقت میں جب امریکہ تقریباً پوری اسلامی دنیا میں اسلام پسندوں کے خلاف بے رحم خونریز جنگ چھیڑ چکا تھا۔

لہٰذا ان تینوں شخصیات کے افکار اور ان کی سیاسی جدوجہد کی نوعیت مسلمانوں کے لیے کبھی بھی کفار کے مقابلے میں کوئی قابلِ تقلید ماڈل نہیں بن سکتی، کیونکہ وہ ’’اسلامی جہاد‘‘ جو مسلمانوں کی ہمہ گیر آزادی اور اسلامی نظام کے قیام کے لیے شروع کیا جائے، اس کا عقیدہ، نظریہ اور حکمتِ عملی بھی اسلام ہی سے اخذ ہونی چاہیے نہ کہ محض آزادی کے نام پر ایسی تحریک بنائی جائے جس کا اصل نتیجہ فکری، سیاسی، ثقافتی اور سماجی لحاظ سے مغرب کی گود میں دوبارہ گرنا ہو، اور اسلامی غلبے و نفاذِ شریعت کے خلاف کھڑے ہونے کی صورت اختیار کرے۔

جب مغربی طاقتیں مسلمانوں کے خلاف شدید جنگ میں الجھ گئیں اور انہیں بھاری نقصانات کا سامنا ہوا، تو انہوں نے کوشش کی کہ افغان مسلمانوں کی نئی نسل کو گاندھی، منڈیلا اور عبدالغفار خان کے راستے پر ڈال کر انہیں شرعی جہادی جدوجہد سے روک دیں، اور یوں مقبوضہ علاقوں کے مورچے نوجوانوں سے خالی کر ديں۔

سول سوسائٹی کے نام پر مغرب پرست عناصر کو معاشرے میں جگہ دینا

اسلامی معاشروں اور ملکوں میں جو لوگ ’’سول سوسائٹی‘‘ کے نام پر سرگرم ہیں، وہ خود کو اپنی عوام کے نمائندے اور غیر سرکاری خدمت گزار ظاہر کرتے ہیں، جو عوام کے حقوق کے حصول کے لیے حکومت سے مطالبات کرتے ہیں اور لوگوں کے لیے سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ’’سول سوسائٹی‘‘ کا تصور اور اس کی تشکیل مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام میں انہی استحصالی سرمایہ داروں اور بڑی کمپنیوں نے اس لیے کی ہے تاکہ ایک طرف، یہ سول سوسائٹی کے کارکنان کو معمولی سرمایہ دے کر انہیں اپنے مفادات کے لیے بطور ثقافتی و سماجی سرگرم کارکن استعمال کریں، تاکہ وہ سطحی کاموں کے ذریعے معاشرے کے مظلوم طبقے کو دھوکہ دیں اور لوگوں کی توجہ ان بڑے سرمایہ داروں کے اقتصادی جرائم سے ہٹا دیں، اور دوسری طرف، یہی لوگ سیکولر نظریات کے حامل بن کر دینی معاشروں اور اسلامی اقدار کے خلاف کھڑے ہوں اور اُن کی راہ میں رکاوٹ بن جائیں۔

مغربی ممالک میں سول سوسائٹی کے نام پر سرگرم افراد نے دونوں کام کیے، انہوں نے دینی شعائر، عبادات اور اقدار کے خلاف جدوجہد کو اپنی سرگرمیوں کا محور بنایا اور اس طرح مغربی سیکولر معاشرے میں اپنے لئے جگہ بنائی۔ بعد میں یہی سرگرمیاں مغربی ممالک نے اپنے اثر و تسلط کے تحت اسلامی ممالک میں بھی منتقل کر دیں۔

جب مغربی ممالک نے افغانستان پر قبضہ کیا، تو یہاں انہوں نے دیکھا کہ معاشرے میں دینی حمیت اور مغربی قوتوں سے نفرت موجود ہے، اور انہیں یہ دونوں چیزیں ختم کرنی ہوں گی۔ اسی لیے انہوں نے اپنے مفاد کے تحت عوامی ذہن سازی، شہریوں میں مغربی اقدار کے فروغ اور اسلام پسندی کے خلاف کھڑا ہونے کے مقصد کے تحت یہاں بھی سول سوسائٹی کے نام پر تنظیمیں قائم کیں۔ ان تنظیموں میں بے دین، اخلاقی طور پر گرے ہوئے افراد، مغربی تہذیب سے متاثر اور استعماری قوتوں کے حامیوں کو بھرتی کیا گیا اور انہیں پروپیگنڈے کے لیے ہر طرح کے وسائل فراہم کیے گئے۔

افغانستان میں لوگوں نے دیکھا کہ سول سوسائٹی کے سرگرم افراد نے پورے جوش و جذبے کے ساتھ استعماری قوتوں کا ساتھ دیا۔ انہوں نے حجاب کے خلاف اور مغربی ثقافت کے فروغ کے لیے مختلف سرگرمیاں کیں، ’’دین دار مسلمانوں‘‘ کا مذاق اڑایا، لیکن جانور نما انسانوں اور ان کی ثقافت کے احترام کے لیے محفلیں منعقد کیں۔ مختلف طریقوں سے انہوں نے غیر ملکی اداروں، مسیحی تنظیموں، مغربی سفارتخانوں اور بیرونی قابض افواج کی حمایت سے اپنی کوششوں اور سرگرمیوں کو جاری رکھا تاکہ اس قوم اور ملک میں مغرب کے مفاد کے لئے نئی نسل کی ذہن سازی کی جا سکے۔

اگر اسلامی نظام کے پاس عوامی ذہن سازی کے لیے ایک مؤثر، جامع اور قابلِ عمل، ہمہ جہت حکمتِ عملی اور عملی پروگرام نہ ہوں، اور اس مقصد کے لیے اہل اور باصلاحیت افراد کو مقرر نہ کیا جائے، تو اس میدان میں ہماری غفلت اور مغربی طاقتوں کی سرگرمیاں مستقبل میں خطرناک اور ناقابلِ اصلاح نتائج کا باعث بن سکتی ہیں۔

مذکورہ بالا نکات سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ جب سے عالمِ اسلام میں تعلیم و تربیت کا نظام دین دار اور اسلام پسند افراد کے ہاتھ سے نکل کر مغربی یا مغرب نواز حکومتوں اور عناصر کے قبضے میں گیا ہے، تب سے مسلمانوں کو اپنے دینی، مذہبی، سیاسی، سماجی، عسکری اور معاشی میدانوں میں بڑے نقصانات اور سخت تکالیف کا سامنا رہا ہے۔ اور بجائے اس کے کہ سائنس، ٹیکنالوجی، انسانی اور سماجی علوم ہمارے معاشروں کو خوشحالی، آزادی، خودمختاری، کامیابی اور روحانی اطمینان عطا کرتے، مسلمان معاشرے ان علوم کی وجہ سے تکالیف، غلامی، اغیار کے تسلط، بدبختی اور اضطراب کا شکار ہو گئے ہیں۔

ان مشکلات کا سبب یہ نہیں کہ یہ علوم اور ٹیکنالوجی بذاتِ خود نقصان دہ ہیں، بلکہ اصل سبب یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایسے افراد کے ذریعے، دشمنوں کے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال ہوئے جو انہی اغیار کے افکار، ثقافت اور عقائد کے مطابق تربیت یافتہ تھے، اور جن کے نزدیک اغیار کے افکار، سیاسی اور سماجی اقدار اپنی اسلامی اقدار سے زیادہ اہمیت رکھتی تھیں۔

اب جبکہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم، اور اس کے بعد ہماری عوام کے جہاد، قربانیوں، صبر، اور حق پر ثابت قدمی کے نتیجے میں ایک بار پھر اسلامی نظام قائم ہو چکا ہے، اور اس نظام کی باگ ڈور بڑی حد تک اہلِ مدارس دینیہ کے ہاتھ میں ہے، اور پوری دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ اہل مدرسہ نے پورے بیس سال تک جنگ، سیاست، اسلام پسندی، آزادی کے حصول، مجاہدین کی تربیت، اور عالمی کفری فوجی اتحاد کے خلاف میدان میں پورے ہوش، حوصلے، صبر اور متانت کے ساتھ ڈٹ کر اپنے وجود کو منوایا اور اپنی اقدار کی حفاظت کی، تو یہ تمام باتیں اس بات کی دلیل ہیں کہ مدرسہ اب صرف کتابیں پڑھنے یا علمی سرگرمیوں کی ایک سادہ درسگاہ نہیں رہی، بلکہ یہ اسلام کی نشاةِ ثانیہ اور اس کے نفاذ کے لیے ایک جامع، زندہ، اور فعال کردار کا نام ہے، جسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے، مضبوط بنایا جانا چاہیے، اور پھیلایا جانا چاہیے۔

اب مدرسے کو دعوت، جہاد، سیاست، حکومت اور قوم کی قیادت کے فکری اور ادبی سانچے میں مزید ڈھالنے کی ضرورت ہے، اور اس سے متعلقہ افراد میں یہ صلاحیتیں بہتر طریقے سے پیدا کی جانی چاہییں کہ وہ دینی اور دنیاوی دونوں علوم کی اس انداز سے اصلاح کریں اور ترقی دیں کہ ان کے شاگرد ایک حقیقی اسلامی نظام کو چلانے کے قابل ہوں۔

اب سوال یہ ہے کہ مدرسے نے معاصر اسلامی جدوجہد میں کیا کردار ادا کیا ہے؟ اور کیوں اس کے کردار اور اثرات کی قدر کی جانی چاہیے؟ اور اس کی بعض خامیوں اور کمزوریوں کا علاج ایک سنجیدہ اور معاصر انداز میں کیسے کیا جائے؟ ان موضوعات پر اگلے باب میں چند نکات قارئین کے سامنے رکھے جائیں گے، امید ہے کہ متعلقہ حلقے ان پر توجہ دیں گے۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

Previous Post

ثكلتنا أمهاتنا إن لم ننصر رسول اللہ…

Next Post

مغلوبِ گماں تو ہے

Related Posts

اَلقاعِدہ کیوں؟ | چوتھی قسط
فکر و منہج

اَلقاعِدہ کیوں؟ | پانچویں قسط

13 اگست 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | چھٹی قسط

13 اگست 2025
کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط
فکر و منہج

کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط

13 اگست 2025
کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟
فکر و منہج

کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟

13 اگست 2025
ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!
فکر و منہج

ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!

17 جولائی 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | پانچویں قسط

13 جولائی 2025
Next Post
مغلوبِ گماں تو ہے

مغلوبِ گماں تو ہے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version