نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | فروری 2024

خباب ابن سبیل by خباب ابن سبیل
28 فروری 2024
in دیگر, فروری 2024
0

آئی ایس آئی نے بھارت کو کشمیری مجاہدین کے انتقامی حملے کی مخبری کی

بھارتی جریدے ’’دی پرنٹ‘‘نے ایک خبر میں انکشاف کیا ہے کہ کشمیری مجاہد رہنما ذاکر موسی شہید ﷫ کی بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہادت کے جواب میں کشمیری مجاہدین ایک انتقامی کاروائی ترتیب دے چکے تھے۔ پلوامہ واقعے کے بعد سے پاکستان بھارت مذاکرات معطل تھے جبکہ اس وقت کا پاکستانی آرمی چیف قمر جاوید باجوہ لندن میں ایک انتہائی خفیہ اور اہم مذاکرات آئی ایس آئی اور را کے درمیان کامیاب بنانے کے لیے کوشاں تھا۔ اسی نیت سے مذکورہ حملے کی منصوبہ بندی کی انٹیلی جنس معلومات پاکستانی آئی ایس آئی نے بھارت کو پہنچائی۔ بھارت نے اس انٹیلی جنس معلومات کو سنجیدگی سے لیا اور مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن کیا گیا۔ اس کے بعد اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن میں دوسری دفعہ ایسی ہی اطلاع دی گئی۔ بھارتی را کے افسر نے اس متعلق بتایا کہ تب ہمیں یقین ہوگیا کہ پاکستانی آرمی چیف مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے ایسا کررہے ہیں۔ لندن مذاکرات ۲۰۱۸ء میں آئی ایس آئی کے میجر جنرل اسفندیار علی اور را کے آر کمار کے درمیان ایک ہوٹل میں شروع ہوئے۔ اس کے علاوہ غیر رسمی ملاقاتیں بنکاک ، مسقط اوردوحہ میں بھی ہوتی رہیں۔ پلوامہ واقعے کے سبب بھارتی حلقے مذاکرات کے حق میں نہیں تھے البتہ قمر باجوہ مذاکرات کے لیے کوشش کرتے رہے۔

یہ سروے ہے یا امریکی پروپیگنڈہ ؟

ذرا ملاحظہ تو کیجیے کہ وائس آف امریکہ اردو اس نام نہاد سروے کی شہ رخی کس طرح لگا رہا ہے :

’’عام تاثر کے برعکس نوجوانوں کی اکثریت کو انتخابات شفاف ہونے کی امید، فوج پر اعتماد۔‘‘

یعنی یہ بات کتنی مضحکہ خیز اور لطیفے سے کم نہیں ہے کہ جب الیکشن کے متعلق پورے ملک میں مختلف مکتبۂ فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی اکثریت کی رائے یہی ہے کہ یہ الیکشن پاکستان کی تاریخ کے متنازع ترین الیکشن ہوں گے اور فوج سب کچھ پہلے سے طے کیے ہوئے ہے، تو پھر امریکی نشریاتی ادارے کو آخر کیا تکلیف ہوئی جو یہ چورن بیچنے آگیا؟ وائس آف امریکہ اور اپسوس کے اس نام نہاد سروے کے نتائج بھلا کیا ہیں ؟ نوجوانوں کی بڑی اکثریت ووٹ دینا چاہتی ہے، الیکشن صاف اور شفاف ہوں گے، فوج سب سے قابلِ اعتماد ادارہ ہے۔ پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے کی حامی ہے اور بھارت سے بہتر تعلقات کی خواہش مند ہے۔ یعنی یہ سروے نہ ہوا امریکہ کی خطے سے متعلق خواہشات ہوگئیں، سروے کے نام پر جن کی وہ زبردستی پروجیکشن چاہ رہے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ امریکہ پاکستانی فوج کو اب بھی پاکستان میں سیاہ و سفید کا مالک دیکھنا چاہتا ہے اس لیے فوج کی گرتی ساکھ کو ایسے پروپیگنڈہ سروے کے ذریعے بہتر کرنا چاہتا ہے۔

مفت بجلی کے جھوٹے اعلانات

پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ دنوں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ پیپلز پارٹی حکومت بننے کے بعد ۳۰۰ یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو بجلی مفت فراہم کرے گی۔ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے بھی اعلان کیا گیا کہ حکومت بننے کے بعد ان کی کوشش ہو گی کہ صارفین کو ۲۰۰ یونٹس استعمال کرنے پر بجلی مفت فراہم کی جائے۔ پچھلی دو دہائیوں میں جس طرح بجلی کے بڑھتے بلوں نے عوام کی کھال کھینچی، ان مسائل کے حل کے لیے کوئی حقیقی روڈ میپ دینے کے بجائے الیکشن کے دنوں میں ایسے دعوے سننے کے بعد یہ کہنا درست ہوگا کہ پاکستان کی سیاست میں جھوٹ بولنا سب سے آسان کام ہے۔ یہ دعویٰ ایسا ہی ہے کہ ملک ریاض ، جہانگیر ترین ، زرداری و نواز شریف الیکشن کے بعد اپنی تمام جائیداد حکومت پاکستان کو عطیہ کرنے کی یقین دہانی کرائیں۔ توانائی کے شعبے میں کام کرنے والے ادارے ریوینیوبلز فرسٹ میں کام کرنے والے ماہر توانائی مصطفیٰ امجد نے ایک نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے اس اعلان کو حقیقت کے منافی قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں بجلی کے شعبے کی جو صورتحال ہے اس میں تو ایسے کسی وعدے پر عمل ممکن ہی نہیں ہے۔

پاکستان میں کی پیڈ فونز کی بندش کا منصوبہ

وزارت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی اور ٹیلی کام نے سمارٹ فون کی رسائی کو بڑھانے کی ایک سمری کابینہ کو بھجوائی ہے جس کے تحت سادہ موبائل فون اور ٹو جی انٹرنیٹ استعمال کرنے والے موبائل فونز کا استعمال بند کر دیا جائے گا۔ اس پالیسی کا بنیادی مقصد عام آدمی تک سمارٹ فون پہنچانا اور چھوٹے کاروباری افراد کو ای کامرس کی جانب لانا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ای کامرس کے فروغ کے لیے ایسے اقدامات کسی ترقی یافتہ ملک نے نہیں کیے تو پھر یہاں اس ترکیب کے پیچھے کیا منطق ہے؟ کہیں کچھ اور منصوبہ بندی تو نہیں ہے؟ سمارٹ فونز کے لازمی استعمال کی ایک مثال ہمارے پاس مقبوضہ مشرقی ترکستان کی ہے جہاں کمیونسٹ چینی حکومت ایغور مسلمانوں کی حرکات و سکنات ۲۴ گھنٹے مانیٹر کرنے کے لیے سمارٹ فونز کے استعمال کو لازمی قرار دیتی ہے۔ چینی حکومت مستقبل میں لوگوں کی حرکات سکنات کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی نظام بنارہی ہے، مثال کے طور پر کسی بھی ایغور شخص کے چہرے کو شناخت کرکے اسے ایک خاص کیٹگری میں رکھا جائے گا اور اس کیٹگری کے مطابق ہی اسے مخصوص حقوق حاصل ہوں گے۔ جبکہ چینی شہری کو کیمرہ شناخت کرنے کے بعد الگ کیٹگری میں رکھے گا۔ اسی طرح کسی بھی صحافی کو پہچان کر کیمرہ الگ کیٹگری میں رکھے گا اور اسی مطابق ڈیل کرے گا۔ پاکستان میں فروخت ہونے والے چینی برینڈ کے اینڈرائیڈ فونز کے صارفین کا مشاہدہ ہے کہ فون انہیں دوسرے فونز کی بنسبت زیادہ اشتہارات دکھاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق چینی کمپنیاں پابند ہیں کہ وہ صارف کا ڈیٹا حکومت کے ساتھ شیئر کریں اب چینی حکومت اس ڈیٹا کو کن مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے صرف منافع کے حصول اور مارکیٹنگ کے لیے یا کوئی اور مقصد بھی ہے، یہ انتہائی تشویش کی بات ہے۔ پنجاب کے سیف سٹی پراجیکٹ میں چینی کمپنی ہواوے نے سروسز فراہم کی ہیں۔ اپریل ۲۰۱۹ء کی ایک خبر کے مطابق ہواوے کمپنی نے پاکستان میں سی سی ٹی وی کے کیبنٹس میں وائی فائی مواصلاتی کارڈ نصب کیا تھا۔ جس سے پاکستانی حکام بےخبر تھے۔ انہوں نے یہ کارڈ اس وقت ہٹایا جب اس کا علم پراجیکٹ کے سٹاف کو ہوا۔

کراچی کے Cool Assistant Commissioner کا ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ

اسسٹنٹ کمشنر ہاضم نے اپنے ایکس اکاؤنٹ (سابقہ ٹوئٹر)پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ میں نہ ہی نوکری اور نہ ہی پاکستان چھوڑ رہا ہوں میری کلاسز آن لائن ہوں گی۔ موصوف کے اسسٹنٹ کمشنر بننے پر پاکستانی میڈیا نے تو جیسے سپیشل ٹرانسمیشن شروع کررکھی تھی، جس میں ایک طرف ان کے سٹائلش ہونے کو اجاگر کیا جارہا تھا تو دوسری طرف ان کی انسان دوستی کے قصیدے پڑھے جارہے تھے۔ موصوف کی فحش تصاویر اور ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل رہیں، جو اس ہم جنس پرست شیطان کی اصلیت بیان کرنے کے لیے کافی تھیں۔ ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ موصوف ایک پارک کا قبضہ کسی پرائیویٹ پارٹی (قبضہ مافیا) کو دلوانے کے لیے اہل علاقہ سے لڑ جھگڑ رہے تھے۔ یہ سب کچھ انہی دنوں میں ہوا جب ٹرانس جینڈر بل کے خلاف مذہبی سیاسی جماعتوں نے پارلیمنٹ اور سینٹ میں خوب مزاحمت کی۔ اس جمہوری نظام کی خباثت کو سمجھنے کا اس سے بہتر کیس نہیں ہوسکتا تھا کہ ٹرانس جینڈر بل کے خلاف اتنی مزاحمت کے باوجود معاملے کو قانونی پیچیدگیوں میں نہ صرف الجھادیا گیا بلکہ ایک چال یہ چلی گئی کہ سندھ کے بلدیاتی الیکشن کے قوانین میں ترمیم کرکے ٹرانس جینڈرز کے لیے بھی نشستیں مقرر کردی گئیں۔ اب وہ مذہبی جماعت جو اس معاملے پر سب سے زیادہ ایکٹو تھی، جس نے سب سے زیادہ مزاحمت کی، وہی جماعت خود کو سیاسی دنگل میں برقرار رکھنے کے لیے مجبور ہوئی کہ وہ بھی مخصوص نشست پر خواجہ سرا کو کھڑا کرے۔ جب راستہ کھل گیا تو یقینی بات ہے کہ ٹرانس جینڈرز کو پی پی یا کوئی اور سیکولر جماعت الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ دے دے گی۔ میڈیا پر بھی ایسے افراد کی پبلسٹی جاری ہے۔ یہ فتنہ آنے والے دنوں میں کیا گل کھلائے گا اس کو سوچتے ہوئے بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔دجال کے ایجنٹوں کی جانب سے سیاسی نظام ، بیوروکریسی اور میڈیا میں ان شیطانوں کی پذیرائی سے نوجوان نسل کو یہی شیطانی پیغام دینا مقصود ہے کہ یہ راہ اختیار کرلو تو دنیا آپ پر نچھاور ہوگی ۔

جرائم کی شرح میں اضافہ اور کراچی پولیس کا کردار

کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر موبائل چھیننے اور ڈکیتیوں کے درجنوں واقعات ہونا کوئی آج کا مسئلہ نہیں ہے۔ کراچی کے رہائشی یہ خبریں سننے کے عادی ہوچکے تھے اب تو یہ حالت ہے کہ کراچی پولیس اپنے محکمے ہی کے ریٹائرڈ افسران کو لوٹنے سے بھی نہیں کتراتی ۔ بلدیہ ٹاؤن میں ریٹائرڈ پولیس افسرکے گھرمیں ڈکیتی کرنے کے الزام میں سی ٹی ڈی پولیس کےایک انسپکٹر کو جبری ریٹائر اور ۴ پولیس اہلکاروں کوملازمت سے برطرف کردیا گیا۔ سی ٹی ڈی آپریشن سندھ کے اہلکاروں نے ۲۹نومبرکوسادہ لباس میں سعید آباد تھانے کےعلاقے بلدیہ ٹاؤن میں ریٹائرڈ پولیس افسربشیرحسین کےگھرپرچھاپہ مارا تھااوران کے بیٹے کوتشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ریٹائرڈ پولیس افسرکے گھرسے نائن ایم ایم پستول،سونا اور۲لاکھ نقدی لے اڑے تھے۔ ایک اور واقعے میں کراچی پولیس کے اے ایس آئی کو شاہ فیصل کالونی میں منشیات فروشی کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس کے مطابق ملزم منظوراحمد سے ایک کلو ایک سو دس گرام چرس برآمد کی گئی۔ ملزم عزیز بھٹی تھانے میں تعینات رہا ہے اور پہلے بھی منشیات فروشی کے الزامات میں گرفتار ہوچکا تھا۔ کچھ عرصہ قبل ایک کیس ایسا بھی سامنے آیا جس میں سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے نوجوان موٹر سائیکل سواروں کو نہ رکنے پر گولی مار دی اور انہیں ڈکیت ظاہر کیاگیا۔ بعد میں زخمی ہونے والے نوجوان کے اہلخانہ کی جانب سے بتایا گیا کہ اہلکاروں کے سادہ کپڑے ہونے کے سبب نوجوان نے انہیں موبائل چھیننے والا سمجھا اس لیے نہیں رکے۔ جب کیس کی مزید تحقیق کی گئی تو پتہ چلا وہ شخص پولیس افسر کا پرائیویٹ کارندہ تھا اور لوٹ مار میں ملوث تھا۔

امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے جرائم کے واقعات میں پولیس افسران کی ملی بھگت پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے ساڑھے تین کروڑ عوام کے محافظ ہی عوام کی جان و مال کے دشمن بن گئے ہیں۔ اسٹریٹ کرائمز کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، شہر میں ڈکیتی کا چوتھا واقعہ ہوا جس میں پولیس کے اہلکار ملوث ہیں۔ پولیس نے کرپشن کا بازار گرم کیا ہوا ہے اور سپاہی سے لے کر ڈی ایس پی تک سب کرپشن کے نظام میں ملوث ہیں اور اس نظام کی سرپرستی کرنے والے سسٹم میں موجود ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے سینئر کرائم رپورٹر فہیم صدیقی اور مبشر فاروق نے حال ہی میں ہوشربا انکشافات پر مبنی ایک پروگرام رفتار کے یوٹیوب چینل کے لیے ریکارڈ کروایا ہے۔ دونوں نے کراچی میں اپنے صحافتی کیرئر کی بہت سی ہوش اڑا دینے والی باتوں کا انکشاف کیا۔ فہیم صدیقی کہتے ہیں کہ پولیس انہیں جعلی مقابلوں سے پہلے بتا کر لے جاتی تھی کہ آئیں آکر فوٹیج بنالیں۔ کئی دفعہ فوٹیج بنوانے کے بعد انہیں یاد آتا کہ ہتھکڑیاں تو اتاری نہیں تھیں۔ مبشر فاروق بتاتے ہیں ماضی میں ایک دفعہ کراچی پولیس کے ایسے بدکردار زانی شرابی اہلکاروں کی فہرست بنی جو منشیات سمیت بہت سے جرائم پیشہ گروہوں کے ساتھ منسلک تھے۔ بجائے اس کے کہ ان کے خلاف تادیبی کاروائی ہوتی انہیں مختلف ایجنسیوں اور سیاسی جماعتوں نے استعمال کرنا شروع کردیا۔ بڑے اشتہاری ملزموں کے جعلی مقابلوں کے لئے انکاؤنٹر اسپیشلسٹ سمجھے جانے والے افسران میں جوا کھیلا جاتا تھا کہ کون فلاں کے جعلی انکاؤنٹر میں کامیاب ہوگا۔ ان میں ایک انکاؤنٹر اسپیشلسٹ راؤ انوار بھی تھا۔ راؤ انوار کو ایک قتل میں ملوث ہونے کے سبب ڈی آئی جی کراچی نے تھانے سے ہٹا کر وہاں دوسرے افسر کی پوسٹنگ کر دی۔ راؤ اس وقت سب انسپکٹر تھا۔ جب راؤ سے چارج لینے ایک دوسرا ا ہلکار اس تھانے میں جاتا ہے تو راؤ اسے اپنے ٹارچر سیل میں الٹا لٹکاتا ہے اور پھر کہتا ہے تو کون ہوتا ہے مجھ سے چارج لینے والا۔ میں اپنی پوسٹنگ خود کرواتا ہوں۔ یہ بات جب ڈی آئی جی تک پہنچتی ہے تو وہ راؤ کی معطلی کے آرڈر جاری کرتا ہے۔ اب اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف ڈی آئی جی کو فون کرتے ہیں کہ راؤ کو بحال کرو۔ ڈی آئی جی کے انکار پر وہ ڈی آئی جی کو استعفی کا کہتے ہیں۔ ایک راؤ انوار کے کیس سے ہی اندازہ لگا لیجیے کہ جو پولیس اہلکار خفیہ ایجنسیوں کے لیے کام کرتے ہیں انہیں پھر کتنی چھوٹ ملتی ہے اور ان کی کتنی طاقت ہوتی ہے کہ وزیراعظم تک اس کے لیے منتیں کرتا پھرتا ہے۔ یہ صورتحال قریباً ہر سرکاری محکمے میں ہے جہاں اگر کسی نچلے درجے کے اہلکار پر بھی خفیہ ایجنسیوں کا دست شفقت ہے تو پھر اس ادارے کا سربراہ بھی اس معمولی اہلکار کے سامنے بے بس و لاچار ہوگا۔ کراچی، جسے پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، یہاں سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں سے پولیس ، خفیہ ادارے ، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی سے منسلک جرائم پیشہ افراد سب ہی بھتہ وصول کرتے ہیں، جس کا اثر یہ نکلا ہے کہ پچھلی دو دہائیوں میں بہت سے صنعتکار یہاں سے فیکٹریاں ختم کرکے اپنا سرمایہ بنگلہ دیش لے گئے ہیں۔

فیس بک کے ذریعے بچوں کا استحصال

امریکی سینیٹ کی یہ سماعت بڑی ہائی ٹیک فرمز اور بچوں کے آن لائن جنسی استحصال کے موضوع پرتھی۔ زکربرگ اور اسپیگل سمیت پانچ سی ای اوز نے شرکت کی۔ ان میں لِنڈا یکارین (ایکس)، شاؤ زی چیو (ٹک ٹاک) اور جیسن سائٹرون (ڈس کارڈ) بھی شامل تھے۔ مارک زکربرگ کو اس بات پر سینیٹر جوش ہالے کی طرف سے شدید نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا کہ موجودہ سائنسی مواد سے سوشل میڈیا اور نئی نسل کی خراب ذہنی صحت کے درمیان کوئی براہِ راست تعلق ثابت نہیں ہوتا۔ اس سماعت کے موقع پر سینیٹ کا ہال سوشل میڈیا کے ہاتھوں شدید نقصان سے دوچار ہونے والے بچوں اور ان کے وکلاء سے بھرا ہوا تھا۔ جنوبی کیرولینا کی ری پبلکن سینیٹر لِنزے گراہم نے سوشل میڈیا پر زندگیاں تباہ کرنے کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے سی ای اوز سے کہا میں سمجھ سکتا ہوں کہ آپ نے یہ سب دانستہ نہیں کیا، مگر آپ کے ہاتھ خون سے آلودہ ہیں۔ ابتدائی کلمات میں ڈِک ڈربن نے کہا کہ بچوں کو لاحق خطرات کے رفع کرنے کی صورت نکالنا ہماری اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے ہائی ٹیک فرمز کے سی ای اوز سے کہا کہ ان کے پلیٹ فارمز اور ایپس نے ”شکاریوں“ کو بچوں کے جنسی استحصال کے نئے ہتھکنڈے فراہم کیے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اعتماد پیدا کرنے اور سب کے لیے معاملات کو محفوظ بنانے پر برائے نام توجہ دی گئی ہے۔ سارا زور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متوجہ کرنے اور زیادہ سے زیادہ منافع کمانے پر ہے۔

فرانسیسی کسانوں کا انوکھا ملک گیر احتجاج

فرانس میں کسانوں کی جانب سے ملک بھر میں اور یورپین یونین کے صدر مقام برسلز میں کم اجرت کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ فرانس بھر کے کسانوں کا کہنا ہے کہ غیر ضروری ضوابط، بڑھتے ہوئے اخراجات اور دیگر مسائل کسانوں کے لیے پریشان کن ہیں۔ کسانوں کی جانب سے احتجاج کے نتیجے میں املاک اور ٹریفک سگنلز کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ احتجاج کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ زرعی پالیسیاں کسانوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔ فرانسیسی کسانوں کی یونین رورل کوآرڈینیشن نے یورپی یونین کی جانب سے مسلسل بڑھتے ہوئے ضوابط اور کم آمدنی کے خلاف شرکت کرتے ہوئے یورپی یونین کے ہیڈ کوارٹر برسلز میں بھی احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔ بطور احتجاج کسانوں نے سرکاری دفتروں اور اہم عمارتوں کے سامنے بدبودار زرعی کوڑا ڈال دیا۔ احتجاج کا یہ طریقہ کار دیکھتے ہوئے دل میں خواہش جاگی کہ کاش پاکستان میں بھی کسان یوں منظم ہوکر جرنیلوں کے زرعی زمینوں کے قبضے اور بیجوں اور کھاد کی اجارہ داری کے خلاف فوجی چھاؤنیوں پر دھاوا بول دیں۔ فرانسیسی کسانوں کے احتجاج کی ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پادری کسانوں کی ہمت بڑھانے کے لیے ان کے راستے میں مذہبی رسومات ادا کررہے ہیں۔ پاکستان میں مظلوموں کی ہمت کیوں نہیں بندھائی جاتی ؟ کیوں نہیں ظالم کے خلاف کھڑا ہونے کی ترغیب دی جاتی ؟

انڈیا میزائل بردار امریکی ’پریڈیٹر ڈرون‘ حاصل کرنے والا پہلا غیر نیٹو ملک بن گیا

امریکہ نے ۳۱انتہائی جدید پریڈیٹر ڈرونز اور اس میں استعمال ہونے والے مخصوص ساخت کے میزائل اور لیزر بم انڈیا کو فروخت کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ ایم کیو ۹ بی سکائی گارڈین ساخت کے 31 ڈرون اور میزائلوں اور دیگر متعلقہ ساز وسامان کی قیمت تقر یباً چار ارب ڈالر ہے۔ انڈیا امریکی کانگریس کی منظوری کے بعد آئندہ چند مہینوں میں میزائلوں سے لیس پرڈیٹر ڈرونز حاصل کرنے والا پہلا غیر نیٹو ملک ہو گا۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں اس ساخت کے مسلح ڈرون کسی ملک کے پاس نہیں ہیں۔ جدید ساخت کے سکائی گارڈین پریڈیٹر ڈرون امریکہ کی جنرل ایٹومکس ایروناٹیکل کمپنی بناتی ہے۔ اس کی ویب سائٹ کے مطابق ایم کیو – ۹ بی سکائی گارڈین ڈرون جدید ترین ڈرون طیارہ ہے۔ اس کے ذریعے پوری دنیا میں خفیہ معلومات، جاسوسی اور نگرانی کی جا سکتی ہے۔ یہ مصنوعی سیارے کے توسط سے فضا میں ہر طرح کے موسم اور دن اور رات میں ۴۰ گھنٹے سےزیادہ دیر تک پرواز کر سکتا ہے۔ یہ زمین، سمندر اور فضا میں اپنے ہدف کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ’دی لاسٹ وار‘ کے مصنف اور دفاعی تجزیہ کار پروین ساہنی کا کہنا ہے کہ انڈیا امریکہ کی انڈو پیسیفک اسٹریٹجی کا حصہ ہے۔ ان ڈرونز کو انڈیا کے ہاتھوں فروخت کرنے کے پیچھے امریکہ کا مقصد یہ ہے کہ انڈیا بحر ہند میں اس تجارتی راستے پر نظر رکھے جہاں سے چین کی ساری تجارت چلتی ہے۔ تاکہ کسی خطرے کی صورت میں اس راستے کا بلاکیڈ کیا جا سکے۔ انڈیا کو بحر ہند میں ایک بڑا خطہ نگرانی کے لیے دے دیا گیا ہے۔ اس نگرانی کی جو تفصیلات آئیں گی اس کا زیادہ فائدہ امریکہ اور نیٹو ممالک کو ہوگا، امریکہ اور اس کی اسٹریٹجی کو ہو گا۔ا س طرح کے ڈرون کا استعمال امریکہ نےپاکستان، افغانستان، یمن، صومالیہ، شام اور عراق وغیرہ میں ٹارگٹڈ کلنگ اور مخصوص اہداف کو تباہ کرنے کے لیے کیا تھا۔ حال ہی میں اسرائیل نے بھی ان کا استعمال کیا ہے۔

بنارس کی گیان واپی مسجد میں ہندوؤں کو پوجا کی اجازت

انڈیا میں بنارس کی ایک عدالت نے گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں ہندوؤں کو پوجا کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ بعض ہندوؤں نے مقامی عدالت میں پٹیشن دائر کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ مسجد ایک قدیم مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی اس لیے مسجد کی جگہ مندر کو بحال کیا جائے۔ عدالت کے فیصلے کے بعد ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر جین نے کہا ’جس طرح جج کے ایم پانڈے نے ۱۹۸۶ءمیں ایودھیا کے رام مندر ( بابری مسجد ) کا تالا کھولنے کا حکم دیا تھا۔ میں آج کے اس حکم کو اسی تناظر میں دیکھتا ہوں۔

ہندو تنظیموں کی فہرست میں جو مسلم عمارتیں اور عبادت گاہیں ہیں، ان میں دلی کا لال قلعہ، قطب مینار، پرانا قلعہ، جامع مسجد اور آگرہ کا تاج محل بھی شامل ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ بابری مسجد طرز کے مزید تنازعوں سے ملک کو بچانے کے لیے اس وقت کی کانگریس حکومت نے ۱۹۹۱ء میں مذہبی عبادت گاہوں کے تحفظ کا ایک قانون پارلیمنٹ میں منظور کیا۔ لیکن اس قانون کے ہوتے ہوئے بھی ہندو انتہاپسند تنظیموں کی جانب سے مساجد کو نشانہ بنائے جانے اور جھوٹے دعووں کی بنیاد پر مساجد کو مسمار کرنے کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے۔

نئی دہلی میں ایک اور تاریخی مسجد منہدم کر دی گئی

اخونجی نامی یہ صدیوں پرانی مسجد مہرولی کے قریب سنجے ون نامی علاقے میں واقع تھی جسے ۱۹۷۰ء کی دہائی میں دستاویزات میں گرین بیلٹ کے طور پر درج کیا گیا تھا اور ۱۹۹۴ء میں اسے ریزرو فوریسٹ کا درجہ دے دیا گیا تھا، جہاں کسی بھی قسم کی نئی تعمیر کی اجازت نہیں ہوتی۔

لیکن ۳۰ جنوری کی صبح دہلی میں شہری منصوبہ بندی اور ترقی سے وابستہ محکمے دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) کے اہلکاروں کی قیادت میں پولیس اس مقام پر پہنچی اور مسجد، ملحقہ مدرسے اور قبرستان کو منہدم کردیا۔ مہرولی اور ۲۰۰ ایکڑ پر پھیلے ہوئے قریبی علاقوں کو ’ہیریٹیج ایریا‘ سمجھا جاتا ہے اور یہاں ۱۰۰ سے زیادہ تاریخی عمارتیں اور دیگر اسٹرکچر موجود ہیں، مثلا قطب مینار کمپلیکس، جمالی کمالی مسجد، غیاث الدین بلبن کا مقبرہ اور قطب الدین بختیار کاکی کی درگاہ۔ مدرسے کے ایک استاد نے بتایا کہ پورا کمپلیکس مکمل طور پر مسمار ہو چکا ہے اور ملبے میں کئی کتابیں بھی دبی ہوئی ہیں۔

مزمل سلمانی نے، جو ایک این جی او کی جانب سے مدرسہ میں کام کرتے تھے، بتایا کہ ’’مدرسہ مسمار کرنے کے بعد جب وہاں رہنے کی کوئی جگہ نہیں بچی تو بچوں کو قریبی عیدگاہ میں منتقل کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ قبرستان کو بھی مسمار کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے حال ہی میں دفن کی گئی کئی لاشیں بھی متاثر ہوئیں۔

٭٭٭٭٭

Previous Post

جنوری 2024ء

Next Post

سوشل میڈیا کی دنیا سے…… | فروری 2024

Related Posts

اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | اگست 2025

17 اگست 2025
اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025

14 جولائی 2025
اِک نظر اِدھر بھی! | جون 2025
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | جون 2025

9 جون 2025
اِک نظر اِدھر بھی | اپریل و مئی 2024
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | اپریل، مئی 2025

27 مئی 2025
اِک نظر اِدھر بھی | اپریل و مئی 2024
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | مارچ 2025

31 مارچ 2025
اِک نظر اِدھر بھی | اپریل و مئی 2024
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | جنوری و فروری 2025

14 مارچ 2025
Next Post
سوشل میڈیا کی دنیا سے…… | فروری 2024

سوشل میڈیا کی دنیا سے…… | فروری 2024

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version