یہاں درج فاضل لكهاريوں کے تمام افکارسے ادارہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
یا منافقت تیرا ہی آسرا……فیض اللہ خان صاحب نے لکھا
ایرانی انقلاب کے بعد مسلم خطوں کی شامت آئی ہوئی ہے۔ ابتدا پاڑه چنار سے ہوئی، پنڈی سیکریٹریٹ کا گھیراؤ ہوا، ایک حنفی اکثریتی ملک میں ’’تحریک نفاذ فقہ جعفریہ‘‘ نام کی تنظیم کھڑی کردی گئی۔
عراق کے ساتھ دس سال کی لاحاصل جنگ رہی اور غاصب ریاست کا اسلحہ ایران کو ملتا رہا۔ بیروت کی امل ملیشیاء حزب خدا میں تبدیل ہوئی، حسن نصر اللہ نے ایرانی معاونت سے لبنان کو ایسے گھیرے میں لیا کہ طاقتور وزیراعظم تک کو حملہ کرکے اڑا دیا گیا۔
عراق میں امریکی اترے تو ایران اتحادی کے طور پہ موجود تھا، وہاں آمر اور اہل تشیع کے قاتل صدام کے اقتدار کا خاتمہ ایران نواز حکومت کی صورت میں ہوا۔ الحشد الشعبی کے نام سے ایران نواز گروه جمع ہوئے اور انبار و موصل میں بدترین تباہی پھیلائی گئی۔ نوری المالکی وزیراعظم تھا جب ان شہروں میں احتجاج پہ بیٹھے عمائدین پہ حشد الشعبی کے درندے چھوڑ دیے گئے، ٹینک چڑھا دیے گئے۔
دمشق، حلب، ادلب میں بشار جیسے کائنات کے بدترین آمر کیخلاف عوامی تحریک اٹھی تو بیروت تا بغداد، پاڑه چنار تا بامیان ایرانی جتھے بھاگے بھاگے پہنچے اور روسی تعاون سے دس لاکھ شامی کاٹ ڈالے۔
زینبیون، فاطمیون کے دستے آگے بڑھ کر قتل عام کرتے رہے۔ قُدس فورس کا قاسم سلیمانی شامی مسلمانوں کی تحریک کو کچلنے کا ذمہ دار تھا ایک دن امریکی حملے میں عراق میں مارا گیا۔
یمن کے حوثیوں سے سعودی عرب کی لڑائی کے پیچھے بھی ایرانی امداد، پیسہ، اسلحہ تھا۔
کہانیاں سنیں تو ایرانی بتاتے ہیں دراصل یہ سب قُدس کی آزادی کے لیے کر رہے ہیں جبکہ اصل میں تو مکہ مدینہ ساسانی ریاست کے ماتحت کرنا ہے۔
کیا خبر ہماری زندگیوں میں وہ دن آئے گا بھی یا نہیں کہ ہم خبر سنیں پڑھیں دیکھیں کہ ایران نے بلوچستان ، دمشق ، بغداد ، کردستان ، صنعاء ، بيروت کو چھوڑ کر غاصب ریاست کی طرف بھی دو ڈھائی میزائل بھیجے ہیں۔
تہذیبوں کا تصادم……خالد محمود عباسی صاحب نے لکھا
سلیبریٹیز کی عدت میں شادیوں کو ’’تہذیبوں کے ٹکراؤ‘‘ میں نرمی لانے والے سوشل انجینیرنگ پروگرام کے تناظر میں دیکھیں تو یہ عمل مسلم تہذیبی اقدار کو مغربی طرز پر بدل دینے کا نہایت مؤثر طریقہ کار نظر آئے گا۔
مروا دیا……طلحہ احمد صاحب نے لکھا
ایک فلسطینی ماں کی ویڈیو نظر سے گزری، اس کا جوان بیٹا صہیونی فوج کی بمباری میں شہید ہو گیا اور وہ کہتی ہے الحمد للہ ہمیں اللہ کافی ہے۔ ہمارا دشمن بزدل ہے آسمان سے میزائل مارتا ہے کبھی میدان میں سامنے آتا تو بات تھی۔
ذہن میں بس ایک ہی بات آئی کہ فلسطینیوں نے مروا دیا……
جس طرح کی آزمائش ان پر ہے اگر ہم پر آئی تو کیا بنے گا؟ ایمان اور عمل کا جو معیار فلسطینیوں کا ہے یہ تو ’’النفس المُطْمَئِنَه‘‘ والے ہیں۔ پھر سوچا اور اپنے گھر پر نظر دوڑائی اور زندگی کی تمام آسائشوں کو دیکھا ایسا معلوم ہوا جیسے ایمان اور شکر دونوں کبھی زندگی میں تھے ہی نہیں۔
بس ایک بات کا یقین ہو گیا کہ امتحان تو ان کا تھا ہی نہیں امتحان تو ہمارا ہے۔
اظہار یکجہتی……طاہر اسلام عسکری صاحب نے لکھا
شرکاء کا جذبہ قابل تحسین ،مگر مجھے لگتا ہے کہ تہذیب جدید نے ہمیں بے ضرر احتجاجی پروگراموں کا عادی بنا کر ہماری ذہنی تسکین کا اہتمام کر دیا ہے، کہ ایسے قوموں کو آزادی ملنا ہوتی تو آج تک کوئی قوم غلامی کی زنجیروں میں جکڑی نہ ہوتی……
اس کا حل کچھ اور ہے جسے سمجھتے سب ہیں مگر اسے زبان پر لانا بھی آج ہمارے لیے ممکن نہیں رہا۔
سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار
غلامی سے بتّر ہے بے یقینی!!!
جس کا کام اسی کو ساجھے ……عثمان جامعی صاحب نے لکھا
’’کیا سیاسی جماعتوں کو پاکستان توڑنے کی اجازت دے دی جائے‘‘، جنرل عاصم منیر
بالکل بھی نہیں، بلکہ جس کا کام اسی کو ساجھے!
آزمائش شرط ہے……محمد بلال صاحب نے لکھا
اصل لطیفہ تو یہ ہے
ملک بھر کے بحریہ ٹاؤنز میں لاکھوں افراد کو زمین مکان فلیٹ فارم ہاؤسز بیچنے، دستر خوان، اسپتال چلانے، فلائی اوور بنانے، بیشمار جرنیلوں کرنیلوں ججوں سیاستدانوں سیکریٹریوں اینکروں صحافیوں اور کالم نگاروں کو نوکریوں پہ رکھنے والے، ملک ریاض اور ان کے صاحبزادے کے نام پہ کوئی زمین ہے نہ گاڑی ہے نا ہی مکان۔ بھئی اس لامکان آدمی کو وزیر اعظم بنوادو یہ کوئی بھی چکر کرکے پاکستان کا پاسپورٹ اوپر سے چوتھے نمبر پہ لے آئیگا۔
ڈائری……خالد انعام صاحب نے لکھا
جنہیں سوات سے گل مکئی (ملالہ ) کی ڈائری ملی تھی انہیں غزہ سے کسی کی ڈائری نہیں ملی ؟؟؟
جس میں بمباری کے قصے ہوں
جس میں بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں کی داستان ہو
جس میں اجڑی ہوئی ماں کی سسکتی آہ ہو
جس میں تباہ حال فلسطین کا ذکر ہو!