نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | تیسری قسط

سورۃالعصر کی روشنی میں

عاصم عمر سنبھلی by عاصم عمر سنبھلی
30 مارچ 2024
in جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!, مارچ 2024
0

الٰہ کی تعریف

مناسب معلوم ہوتا ہےکہ کلمہ طیبہ کا مفہو م اختصار کے ساتھ بیان کردیا جائے۔

امام راغب اصفہانی﷫ فرماتے ہیں:

والٰہ جعلوہ اسماً لکل معبود لهم، وسموا الشمس إلاهۃ لاتخاذهم إیاها معبودا …… فالإلٰہ علیٰ هذا هو المعبود۔1

’’انھوں (یعنی کفار)نے ا پنے ہر ایک معبود کا نام الہ (معبود )رکھ دیا تھا، اور سورج کا نام بھی الٰہ رکھا تھا کیونکہ انھوں نے اسے‏بھی معبود بنالیاتھا…… چنانچہ یہ الہ وہ چیز ہے جس کی عبادت کی جائے‘‘۔

امام ابن جریر طبری﷫ آیتِ کریمہ ﴿ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي﴾ کے ذیل میں لکھتے ہیں:

أي شيء تعبدون … من بعد وفاتي؟ ﴿قالوا نعبد إلهك﴾، يعني به: قال بنوه له: نعبد معبودك الذي تعبده، ومعبود آبائك إبراهيم وإسماعيل وإسحاق،﴿إلها واحدا﴾

’’(حضرت یعقوب﷤ نے جب اپنے بیٹوں کو جمع کرکے پوچھا🙂 تم میری وفات کے بعد کس کی عبادت کروگے،تو ان(بیٹوں)نے کہا: ہم آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحٰق کے معبود کی عبادت کریں گے، جو کہ ایک الہ ہے‘‘۔

علامہ ابن جریر طبری﷫ نے بھی یہاں الہ کے معنی معبود سے کیے ہیں۔

امام فخرالدین رازی﷫ نے اپنی تفسیر میں فرمایا:‏

أما کفار قریش کانوا یطلقونہ في حق الأصنام۔

’’کفارِ قریش لفظ الہ کو اپنے معبودوں کے لیے استعمال کرتے تھے‘‘۔

امام ابن تیمیہ﷫ نے فرمایا:

الإلہ هو المعبود المطاع فھو إلہ بمعنیٰ مالوہ‎۔

’’الہ وہ معبود جس کی پیروی کی جائے (اللہ کے مقابلے میں) سو وہ الہ ہے جو معبود کے معنیٰ میں ہے‘‘۔

امام ابن قیم﷫ نے فرمایا:

الإلہ ھو الذي تألہ القلوب محبۃ وإجلالاوإنابۃ وإکراما وتعظیما وخوفا ورجاء وتوکلا۔

’’الہ وہ ہے جس کے ساتھ دل اٹکے رہیں، محبت وبڑائی میں، انابت واکرام میں،خوف ،امید اور توکل میں‘‘۔

شاہ عبد القادر جیلانی﷫ نے الہ کی تعریف یوں فرمائی ہے:

’’آج تو اعتماد کر رہا ہے اپنے نفس پر، مخلوق پر،اپنے دیناروں پر، اپنے درہموں پر، اپنی خرید وفروخت اور اپنے شہر کے حاکم پر، ہرچیز جس پر کہ تو اعتماد کرے ‏وہ تیرا معبود ہے، اور وہ شخص جس سے تو خوف کرے یاتوقع رکھے وہ تیرا معبود ہے، اورہر وہ شخص جس پر نفع و نقصان کے متعلق تیری نظر پڑے اور تو یوں سمجھے کہ حق تعالیٰ ہی اس کے ہاتھوں اس کا جاری کرنے والاہے،تو وہ تیرا معبود ہے۔2

جبکہ لا الٰہ الا اللہ میں معاہدہ ہی اس بات کا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو معبود کےدرجے پر نہیں بٹھایا جائے گا، تب جاکر یہ ایمان معتبر سمجھا جائے گا۔

عبادت کس کی؟

مذکورہ تفصیل سے یہ بات سمجھ میں آگئی کہ الٰہ کے معنیٰ معبود کے ہیں ،یعنی جس کی عبادت کی جائے۔اس کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عبادت کی تعریف بھی سمجھتے چلیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں عبادت کے معنیٰ یہی سمجھے جاتے ہیں کہ کوئی کسی کو سجدہ کرے یا کسی کی پوجا کرے۔حالانکہ شریعت کی اصطلاح میں عبادت کا مفہوم اس سے کہیں وسیع ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللّٰهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴾ [التوبة: 31]

’’ انھوں نے اللہ کے بجائے اپنے احبار (یعنی یہودی علماء) اور راہبوں (یعنی عیسائی درویشوں) کو خدا بنا لیا ہے۔ اور مسیح ابن مریم کو بھی، حالانکہ انھیں ایک خدا کے سوا کسی کی عبادت کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ۔ وہ ان کی مشرکانہ باتوں سے بالکل پاک ہے‘‘۔

­یہ آیت ان عیسائیوں کے بارے میں نازل ہوئی جنھوں نے قانون سازی (حرام وحلال،قانونی و غیر قانونی) کا اختیار اپنے راہبوں کو دے دیا تھا۔ جسے وہ حلال کہہ دیتے، ان کے ماننے والے بھی اسے حلال کرلیتے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسے حرام کیا تھا، اسی طرح جس چیز کو ان کی مقتدر قوتیں اور اشرافیہ حرام کہتی، لوگ بھی اسے حرام کہنے لگ جاتے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس چیز کو حلال کیا تھا۔

اس آیت کے شانِ نزول میں اکثر مفسرین نے یہ واقعہ نقل کیا ہے:

جب یہ آیت نازل ہوئی تو عدی بن حاتم﷜ (جو پہلے عیسائی تھے) نے آپ ﷺ سے فرمایا: یا رسول اللہ! ہم نے ان(راہبوں)کو رب تو نہیں بنایا تھا؟

آپ ﷺ نے فرمایا :

أَلَيْسَ يُحَرِّمُونَ مَا أَحَلَّ اللَّهُ فَتُحَرِّمُونَهُ وَيَحِلُّونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فَتَسْتَحِلُّونَهُ“؟ قَالَ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: “فَتِلْكَ عِبَادَتُهُمْ“۔3

’’کیا نصاریٰ ایسانہیں کرتے تھے کہ اللہ کے حلال کیے کو راہب حرام قرار دیتے تم اسے حرام مان لیتے،اور اللہ کے حرام کردہ کو وہ حلال کرتے تم بھی اس کو حرام کرلیتے‘‘۔

تو عدی بن حاتم﷜ نے فرمایا: جی ہاں! ہم ایسا ہی کرتے تھے۔

آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہی تمہارا ان راہبوں کی عبادت کرنا تھا‘‘۔

نبی کریم ﷺ نے اس کی تفسیر میں واضح طور پر سمجھادیا کہ کسی کو قانون ساز ی کا حق دے دینا، اس کی عبادت کرنا ہے۔

’عبادت‘ کے ’معنیٰ‘؛ مفسرین کے اقوال میں

مفسرین کرام نے عبادت کرنے کے معنی ٰ مندرجہ ذیل بیان کیے ہیں:

امام ابو بکر جصاص﷫

فقہائے احناف کے سرخیل اما م ابو بکر جصاص﷫ (305 – 370ھ، بمطابق 917 – 980ء) فرماتے ہیں:

ثم قلدوا هَؤُلَاءِ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ فِي التَّحْلِيلِ وَالتَّحْرِيمِ وَقَبِلُوهُ مِنْهُمْ وَتَرَكُوا أَمْرَ اللّٰهِ تَعَالَى فِيمَا حَرَّمَ وَحَلَّلَ صَارُوا مُتَّخِذِينَ لَهُمْ أَرْبَابًا إذْ نَزَّلُوهُمْ فِي قَبُولِ ذَلِكَ مِنْهُمْ مَنْزِلَةَ الْأَرْبَاب۔4

’’پھر وہ (نصاری) حلال کرنے اور حرام کرنے میں اپنے احبار و راہبوں کی پیروی کرنے لگے،اور اس (فعل ) کو ان کی جانب سے قبول کر لیا،اور اللہ کے حکم کو چھوڑ دیا جو کچھ اللہ نے حرام و حلال کیا تھا۔ اس طرح نصاریٰ ان راہبوں کو ’رب‘ بنانے والے بن گئے، کیونکہ ان نصاریٰ نے راہبوں کو امر (قانون) قبول کرنے میں رب کے رتبے پر فائز کردیا تھا‘‘۔

امام ابو سعود﷫

امام ابو سعود﷫ (898 – 982ھ) فرماتے ہیں:

﴿أَرْبَابًا من دُونِ الله﴾ بأن أطاعوهم في تحريم ما أحله الله تعالى وتحليلِ ما حرمه۔5

’’[انھوں نے اپنے علماء و راہبوں کو رب بنالیا تھا]وہ اس طرح کہ وہ (یہود و نصاریٰ) اپنے بڑوں کی بات مانتے تھے،حرام و غیر قانونی بنانے میں جسے اللہ نے حلال و قانونی بنایاتھا، اور حلال و قانونی کرلینے میں جسے اللہ نے حرام و غیر قانونی کہا تھا‘‘۔

اس سے آگے فرماتے ہیں:

﴿إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إلها واحدا﴾ عظيمَ الشأنِ هو الله سبحانه وتعالى ويطيعوا أمرَه ولا يطيعوا أمرَ غيرِه بخلافه فإن ذلك مُخِلٌّ بعبادته تعالى

’’انھیں حکم کیا گیا تھا کہ وہ اللہ کے حکم و قانون کی پیروی کریں، اس کے مخالف کسی غیر کے حکم و قانون کی پیروی نہ کریں، کیونکہ ایسا کرنا اللہ کی عبادت میں خلل و نقصان کرنا ہے‘‘۔

علامہ آلوسی﷫

علامہ آلوسی﷫ (1217-1270ھ، 1802-1854ء)نے اسے عبادت ہی کے منافی قرار دیا ہے:

ويطيعوا أمره ولا يطيعوا أمر غيره بخلافه فإن ذلك مناف لعبادته جل شأنه۔

’’اللہ نے انھیں یہ حکم دیا کہ وہ اللہ کا حکم مانیں، اس کے مخالف اس کے غیر کا حکم نہ مانیں کیونکہ ایسا کرنا اللہ کی عبادت کے منافی ہے‘‘۔

امام رازی﷫

امام رازی﷫ (544 – 606ھ، بمطابق 1150 – 1210ء) نے رب بنانے کے معنیٰ کو اور واضح کرکے بیان کردیا تاکہ لوگ اچھی طرح اس کا مطلب سمجھ سکیں، فرماتے ہیں:

الْمَسْأَلَةُ الثَّانِيَةُ: الْأَكْثَرُونَ مِنَ الْمُفَسِّرِينَ قَالُوا: لَيْسَ الْمُرَادُ مِنَ الْأَرْبَابِ أَنَّهُمُ اعْتَقَدُوا فِيهِمْ أَنَّهُمْ آلِهَةُ الْعَالَمِ، بَلِ الْمُرَادُ أَنَّهُمْ أَطَاعُوهُمْ فِي أَوَامِرِهِمْ وَنَوَاهِيهِمْ۔6

’’اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ رب بنانے سے یہ مراد نہیں کہ انھوں نے اپنے علماءو راہبوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا شروع کردیا تھا کہ وہ عالم کے معبود ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ احکامات اور پابندیوں میں ان(راہبوں ) کی اطاعت کرتے تھے ‘‘۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں احکامات و پابندیوں میں کسی کی اطاعت کرنا اس کی عبادت کرنا ہے اور اسے معبود کے درجے پر فائز کرنا ہے۔

امام ابو اللیث سمرقندی﷫

امام ابو اللیث سمرقندی﷫ (وفات 375ھ،بمطابق 985ء) فرماتے ہیں:

أَرْباباً مِنْ دُونِ اللّٰهِ، يعني: اتخذوهم كالأرباب يطيعونهم في معاصي الله۔7

’’یعنی انہوں (یہود و نصاریٰ) نے اپنے بڑوں کو رب کی طرح بنالیا تھا کہ وہ اللہ کی نافرمانیوں میں ان کی بات مانتے تھے‘‘۔

یعنی اللہ کی نافرمانی میں جو اپنے افسروں اور حاکموں کا حکم مانتے ہیں، وہ انھیں رب بناتے ہیں۔

امام بغوی﷫

یہی بات امام بغوی﷫( وفات 516 ھ، بمطابق 1222ء) نے فرمائی ہے:

قُلْنَا: مَعْنَاهُ أَنَّهُمْ أَطَاعُوهُمْ فِي مَعْصِيَةِ اللّٰهِ وَاسْتَحَلُّوا مَا أَحَلُّوا وَحَرَّمُوا مَا حَرَّمُوا، فَاتَّخَذُوهُمْ كَالْأَرْبَابِ۔8

’’ہم نے کہا:اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ نصاریٰ نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے معاملے میں اپنے راہبوں کی بات مانی، اور راہبوں نے جسے حلال کہا اسے حلال جانا اور جسے حرام کہا اسے حرام مانا، پس انھوں نے اپنے راہبوں کے ساتھ رب کا معاملہ کیا‘‘۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی﷫

حضرت تھانوی﷫ (۱۹ اگست۱۸۶۳ء ۔4جولائی 1943ء)’بیان القرآن‘ میں فرماتے ہیں:

’’یعنی ان کی اطاعت تحلیل اور تحریم میں مثل طاعتِ خدا کے کرتے ہیں کہ نص پران کے قول کوترجیح دیتے ہیں اور ایسی اطاعت بالکل عبادت ہے پس اس حساب سے وہ ان کی عبادت کرتے ہیں‘‘۔

مفتی محمد شفیع صاحب﷫

مفتی محمد شفیع صاحب﷫ (21 شعبان 1314ھ۔10شوال 1396ھ، بمطابق 25 جنوری 1897ء۔ 6اکتوبر 1976 ) تفسیر ’معارف القرآن‘ میں فرماتے ہیں:

’’( آگے افعال کفریہ کا بیان ہے کہ ) انھوں نے ( یعنی یہود و نصاری نے ) خدا ( کی توحید فی الطاعۃ) کو چھوڑ کر اپنے علماء اور مشائخ کو ( باعتبارِ اطاعت کے) رب بنا رکھا ہے ( کہ ان کی اطاعت تحلیل اور تحریم میں مثل اطاعتِ خدا کے کرتے ہیں کہ نص پر ان کے قول کو ترجیح دیتے ہیں اور ایسی اطاعت بالکل عبادت ہے‘‘۔

مفتی شفیع صاحب﷫ اس تعلق کو واضح طور پر عبادت بیان فرمارہے ہیں۔

مولانا عاشق الٰہی بلند شہری﷫

مولانا عاشق الٰہی بلند شہری﷫ (وفات 1343ھ بمطابق 1999ء) تفسیر ’انوار البیان‘ میں فرماتے ہیں:

’’جب تحلیل و تحریم کا اختیار صرف اللہ ہی کو ہے جو خالق اور مالک ہے تو اس کے سوا جو کوئی شخص تحلیل و تحریم کےقانون بنائے اور اپنے پاس سے حلال و حرام قرار دے، اس کی بات ماننا اور فرمانبرداری کرنا اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں شریک بنانا ہوا۔ جیسے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنا اس کی عبادت ہے، اسی طرح ان امور میں غیر اللہ کی فرمانبر داری کرنا جو اللہ تعالیٰ کی شریعت کے خلاف ہیں یہ ان کی عبادت ہے، چاہے انھیں سجدہ نہ کریں، چونکہ ان جاری کیے ہوئے احکام کے ساتھ فرمانبرداری کا وہی معاملہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کے ساتھ ہونا چاہیے اس لیے ان کی اتباع اور اطاعت کو عبادت قرار دیا‘‘۔

’’ فائدہ: اب دورِ حاضر میں جبکہ آزاد منش لوگ اسلامی احکام پر چلنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں اور دشمنانِ اسلام سے متاثر ہیں، کہتے ہیں کہ حضرات علمائے کرام جمع ہو کر میٹنگ کریں، اور اسلامی احکام کے بارے میں غور و فکر کریں اور فلاں فلاں احکام کو بدل دیں یا ہلکا کر دیں اور فلاں فلاں حرام چیزوں کو حلال قرار دے دیں۔ یہ ان لوگوں کی جہالت اور حماقت کی بات ہے۔ اگر علماء ایسا کرنے بیٹھیں گے تو کافر ہو جائیں گے‘‘۔

مفسرین کی تفسیر کی روشنی میں اس آیت سے معلوم ہوا کہ:

  • اللہ کے ساتھ کسی ریاست یا ادارے یا عمارت کو یہ حق دے دینا کہ وہ جس چیز کو چاہیں قانونی(حلال)قرار دیں، اور جسے چاہیں غیر قانونی (حرام) قراردیں، ایسا کرنا اس ریاست یا ادارے یا عمارت کو اللہ کو چھوڑ کر معبود بنانا کہلائے گا۔

  • جو اللہ کےکسی حرام کوقانونی (حلال) قرار دیں… جیسے سود اور سودی مراکز (بینکوں) کو حلال یا آئینی قرار دینا، مسلمانوں کے خلاف کافروں کا تعاون کرنا، قرآن کے قانون کے خلاف فیصلہ کرتی عدالتوں کو مباح یا آئینی حیثیت دینا۔ ایسے لوگ اور ادارے گویا خود کو معبود بناتے ہیں۔

  • پھر جو کوئی کسی کی اس حیثیت کو تسلیم کرلے یا ان کی اطاعت کرنے لگے گویا یہ اس کی عبادت کرنے والا ہے۔

  • حرام اور اللہ کی نافرمانی کے کاموں میں کسی کی اطاعت کرنا، جیسے اپنے افسروں کے کہنے پر سودی اداروں، گانے بجانے کی محفلوں کی جگہوں پر ڈیوٹی دینا، نفاذِ شریعت (بنام دہشت گردی) کی اس جنگ میں مجاہدین کے خلاف لڑنا، یا کسی بھی طرح سے فوج و پولیس کا تعاون کرنا وغیرہ، اور

  • اپنے افسروں، اداروں یا پارلیمنٹ کے بارے میں یہ نظریہ رکھنا کہ وہ جو بھی حکم دیں ہمارے اوپر اس کی تعمیل واجب ہے، ایسا تعلق ان کی ’عبادت‘ کہلائے گا۔

فکر کا مقام

کیا جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کو یہی اختیار نہیں دیا گیا؟ اور کیا جمہوریت کے تمام ستون اور شارحین یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ قانون سازی کا اختیار تو پارلیمنٹ کے پاس ہے؟ نیز کیا جمہوری ریاستوں میں عملاً بھی ایسا ہی نہیں ہورہا کہ ریاست جسے چاہے حلال کردے، جس پر چاہے پابندی لگادے،اس کی اطاعت کو واجب قرار دیا گیاہے، اس کے خلاف کرنے کو ریاست کا ’مجرم‘ اور نہ ماننے والے کو ’باغی‘ کہاجاتاہے۔

حقیقی اور شفاف جمہوریت (مشرقی ہو یا مغربی) یہی ہے۔ اصل جمہوریت جسے کامیابی کی ضمانت کہا جاتا ہے اس کی روح ہی یہ ہے۔

کیا کوئی بھی چار چھ جماعتیں پڑھا اس کی تعریف نہیں جانتا؟ اصل او ر شفاف جمہوریت کی روح ہی یہ ہے کہ وہ تشریع (قانون سازی) کا حق مطلقاً پارلیمنٹ کو دیتی ہے۔

اب اگر کوئی یہ کہے کہ پارلیمنٹ ۷۳ء کے آئین کی پابند ہے، جس میں حاکمیتِ اعلیٰ اللہ کے لیے تسلیم کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ حاکمیتِ اعلیٰ کا اختیار اللہ کے لیے کس نے منظور کیا؟ اسی پارلیمنٹ نے۔اور کیا دنیا میں کوئی ایسی جمہوریت پائی جاتی ہے جس میں پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر اللہ کو یہ حق دیا جاسکتا ہو؟ جو بھی جمہوریت کی روح اور اس کی تعریف سے واقف ہے وہ اس کا جواب اچھی طرح جانتا ہے۔ اگر یہ نظام اتنا ہی اسلامی ہے اور یہ آئین اتنا ہی اسلامی ہے تو پھر حکمِ رجم(سنگسار) کو آئین کا حصہ بنانے کے لیےپارلیمنٹ کی منظوری کا محتاج کیوں بنایاگیا ہے؟ اور سود کے غیر قانونی (حرام) قرار دینے میں پارلیمنٹ کا بلکہ دو تہائی اکثریت کا انتظار کیوں؟

صاف ظاہر ہے کہ اس نظام میں کون حاکمِ اعلیٰ ہے؟ جو منظوری دے یا جسے منظوری کے قابل سمجھا جائے۔ اور منظوری ملے تو ٹھیک ورنہ رد بھی کردی جائے تو ایوان کے تقدس پر کوئی حرف نہیں آتا؟ فتدبر!

پھر یہ پارلیمنٹ بار بار اپنے عمل سے یہ ثابت کر رہی ہے کہ اس کے سامنے (العیاذ باللہ) اللہ کی حاکمیت کی کیا حیثیت ہے؟…… جیسے سود کا مسئلہ،شادی شدہ زانی کو رجم کا مسئلہ،مسلمانوں کے قتل میں کافروں کا ساتھ دینا، بے حیائی و الحاد پھیلانے والے ذرائع ابلاغ اور افراد کو تحفظ دینا، سودی نظام کی حفاظت کے لیے جنگ کو جائز بلکہ عبادت سمجھنا، شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والوں کے خلاف جنگ کو جہاد کہنا، اسلا م کے محکم فریضہ جہاد کو حرام (غیر قانونی) قرار دینا وغیرہ۔ ان تمام مسائل میں پارلیمنٹ نے ثابت کیا ہے کہ اس نظام کے ہوتے ہوئے حاکمیتِ اعلیٰ کا اختیار اسی کے پاس ہے، اللہ کے پاس نہیں، العیاذ باللہ۔

اس قدر واضح صورتحال کے علی الرغم اللہ کے دین، اس کے قرآن اور اس کے نبیﷺ کی لائی شریعت کے خلاف اتنی جرأت…… کہ ہر کفرپر اسلام کا لیبل لگاکر قبول ہے، اگر قبول نہیں تو صرف وہ شریعت جسے اللہ نے اپنے آخری نبی ﷺ کو دے کر بھیجا ہے۔ اسے من و عن آئین و قانون تسلیم کرنے کے خلاف دہشت گردی کی عالمی جنگ، نیشنل ایکشن پلان، آپریشن، بے گناہ مسلمانوں کا قتلِ عام، ان کے گھر بار سے انھیں نکال باہرکرنا…… اگر تمہارا نظام ہی اسلامی ہے تو قرآن کے نظام و قانون کو بغیر پارلیمنٹ کی منظوری کا محتاج بنائے تسلیم کیوں نہیں کرلیتے؟

آپ کو اللہ کا واسطہ…… چند دن کی زندگی کی خاطر اللہ کی آیات کو نہ بیچیے…… اللہ کی آیات کو ان کے محمل و مصداق سے ہٹاکر تحریفِ کلمات اللہ کا جرم نہ کیجیے…… اگر تواصوا بالحق کی ہمت نہیں اور کوئی عذر ہے تو پھر اتنا تو کیجیے کہ زبانوں کو بند کرکے بیٹھ جائیے…… حق کا اعلان نہیں کرسکتے، حق کی تائید نہیں کرسکتے، حق کا ساتھ نہیں دے سکتے تو کم از کم کفر کو اسلام تو ثابت نہ کیجیے…… مقتدر قوتوں اور خفیہ ایجنسیوں کے خوف سے کفر و اسلام کو ایک تو نہ کیجیے…… اکثر کفر اورکچھ اسلام کے ملغوبے کو اسلام تو نہ قرار دیجیے…… ہمیں آپ پر خفیہ ایجنسیوں کے دباؤ اور آپ کی ’مجبوریوں‘ کاعلم ہے۔ بس کیجیے…… اللہ کے لیے بس کیجیے…… کفر و تکفیر کی بحثوں میں کفر و اسلام کو گڈ مڈ نہ کیجیے…… یہ تمام اہلِ سنت والجماعت جانتے ہیں کہ کسی قول و فعل کا کفر ہونا الگ بات ہےاور اس کے مرتکب کی تکفیر ایک دوسرا مسئلہ ہے۔ اس سے ہم سو فیصد اتفاق کرتے ہیں کہ کسی موجبِ کفر فرد کی تکفیر کرنے میں جو احتیاطیں علمائے اہلِ سنت نے بیان کی ہیں، یہی ہمارا عقیدہ ہے اور الحمد للہ ہم اس پر آج بھی قائم ہیں…… لیکن آپ تو کفر کو اسلام ثابت کرنا چاہتے ہیں اور کفر کے دفاع میں دلیل موانع تکفیر والی دے رہے ہیں…… اس فرق کو ملحوظ رکھیے کہ کسی کفر میں مبتلا شخص کی تکفیر کرنے میں تمام احتیاطیں اختیار کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ کفریہ قول و فعل اسلام بن جاتا ہے، اسے خوب اچھی طرح سمجھ لیجیے…… آپ اس تمام بحث میں جان بوجھ کر خلطِ مبحث کر رہے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ اچھی طرح واقف ہے…… آپ افراد کو کفر سے بچانے کے لیے ان کے کفر کو ہی اسلام ثابت کرنا چاہتے ہیں جو کہ اہلِ سنت والجماعت میں سے کسی کا بھی عقیدہ نہیں ہے…… اللہ کے ساتھ کھلے کفر کو اسلام ثابت کرنا…… یہ نصاریٰ کے اس قول سے بھی بھاری ہے…… جو انھوں نے اللہ کا بیٹا بنانے کے بارے میں کہا:

﴿وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا (88) لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا (89) تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا (90) أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا (91) وَمَا يَنْبَغِي لِلرَّحْمٰنِ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا ﴾ [مريم: 88-۔ 92]

’’اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدائے رحمن کی کوئی اولاد ہے۔ (ایسی بات کہنے والو!) حقیقت یہ ہے کہ تم نے بڑی سنگین حرکت کی ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ اس کی وجہ سے آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ٹوٹ کر گر پڑیں۔ کہ ان لوگوں نے خدائے رحمن کے لیے ا ولاد ہونے کا دعوی کیا ہے۔ حالانکہ خدائے رحمن کی یہ شان نہیں ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو‘‘۔

سو صریح نظامِ کفر(جمہوریت)کو اسلامی ثابت کرنا کتنا بھاری جرم ہے، کاش کہ آپ اس کا اندازہ کرسکتے۔

(جاری ہے،ان شاءاللہ)

٭٭٭٭٭


1 المفردات في غریب القرآن؛ ج ۱، ص ۲۱‏‎

2 بحوالہ تاریخِ دعوت و عزیمت؛ حصہ اول

3 تفسير البغوي – طيبة (4/ 39)

4 أحكام القرآن للجصاص ت قمحاوي (4/ 300)

5 تفسير أبي السعود = إرشاد العقل السليم إلى مزايا الكتاب الكريم (4/ 60)

6 التفسير الكبير (16/ 31)

7 تفسير السمرقندي = بحر العلوم (2/ 53)

8 تفسير البغوي (4/ 39)

Previous Post

طوفان الاقصیٰ کی کاروائیوں کا مختصر جائزہ

Next Post

کفار کا معاشی بائیکاٹ | پہلی قسط

Related Posts

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | گیارہویں قسط
جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | بارہویں اور آخری قسط

14 جولائی 2025
اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | گیارہویں قسط
جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | گیارہویں قسط

9 جون 2025
جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | دسویں قسط

26 مئی 2025
اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | چوتھی قسط
جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | نویں قسط

31 مارچ 2025
اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | چوتھی قسط
جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | آٹھویں قسط

14 مارچ 2025
اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | چوتھی قسط
جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | ساتویں قسط

15 نومبر 2024
Next Post
کفار کا معاشی بائیکاٹ | پہلی قسط

کفار کا معاشی بائیکاٹ | پہلی قسط

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version