نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home فکر و منہج

کفار کا معاشی بائیکاٹ | پہلی قسط

اسلامی بائیکاٹ جدید جنگ کے تناظر میں

محمد ابراہیم لڈوک by محمد ابراہیم لڈوک
30 مارچ 2024
in فکر و منہج, مارچ 2024
0

اسلام کے خلاف جاری عالمی صہیونی جنگ کے تناظر میں اسلامی مقاطعہ کو سمجھنا، نافذ کرنا اور اس کی طرف دعوت دینا

محمد ابراہیم لَڈوِک

محمد ابراہیم لَڈوِک (زید مجدہ) ایک نو مسلم عالمِ دین ہیں جنہوں نے عالَمِ عرب کی کئی جامعات میں علم دین حاصل کیا۔ موصوف نے کفر کے نظام اور اس کی چالوں کو خود اسی کفری معاشرے اور نظام میں رہتے ہوئے دیکھا اور اسے باطل جانا، ثم ایمان سے مشرف ہوئے اور علمِ دین حاصل کیا اور حق کو علی وجہ البصیرۃ جانا، سمجھا اور قبول کیا، پھر اسی حق کے داعی بن گئے اور عالَمِ کفر سے نبرد آزما مجاہدین کے حامی اور بھرپور دفاع کرنے والے بھی بن گئے (نحسبہ کذلك واللہ حسیبہ ولا نزکي علی اللہ أحدا)۔ انہی کے الفاظ میں: ’میرا نام محمد ابراہیم لَڈوِک ہے ( پیدائشی طور پر الیگزانڈر نیکولئی لڈوک)۔ میں امریکہ میں پیدا ہوا اور میں نے علومِ تاریخ، تنقیدی ادب، علمِ تہذیب، تقابلِ ادیان، فلسفۂ سیاست، فلسفۂ بعد از نو آبادیاتی نظام، اقتصادیات، اور سیاسی اقتصادیات امریکہ اور جرمنی میں پڑھے۔ یہ علوم پڑھنے کے دوران میں نے ان اقتصادی اور معاشرتی مسائل پر تحقیق کی جو دنیا کو متاثر کیے ہوئے ہیں اور اسی دوران اس نتیجے پر پہنچا کہ اسلام ایک سیاسی اور اقتصادی نظام ہے جو حقیقتاً اور بہترین انداز سے ان مسائل کا حل لیے ہوئے ہے اور یوں میں رمضان ۱۴۳۳ ھ میں مسلمان ہو گیا‘، اللہ پاک ہمیں اور ہمارے بھائی محمد ابراہیم لڈوک کو استقامت علی الحق عطا فرمائے، آمین۔جدید سرمایہ دارانہ نظام، سیکولر ازم، جمہوریت، اقامتِ دین و خلافت کی اہمیت و فرضیت اور دیگر موضوعات پر آپ کی تحریرات لائقِ استفادہ ہیں۔ مجلہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ شیخ محمد ابراہیم لَڈوِک (حفظہ اللہ) کی انگریزی تالیف ’Islamic Boycotts in the Context of Modern War ‘ کا اردو ترجمہ پیش کر رہا ہے۔ (ادارہ)


مقدمہ

تمام حمد اور تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے، جو نہایت مہربان، رزق دینے والا اور پالنے والا، عطا کرنے والا اور روکنے والا ہے۔ درود و سلام ہو خاتم النبیین مصطفیٰ محمد بن عبداللہ ﷺ پر، آپ کے اہل و عیال پر اور آپ کے صحابہ پر، اور قیامت کے دن تک آنے والے ان تمام لوگوں پر جو تقوی و پرہیزگاری میں ان کی اتباع کریں۔

اللہ سبحانہ وتعالی، جو ہرکمی و خطا سے پاک ہے ، کا ارشاد ہے۔

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَّاَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ (الانفال: ۲۸)

’’اور یہ بات سمجھ لو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہیں، اور یہ کہ عظیم انعام اللہ ہی کے پاس ہے۔ ‘‘

اور اللہ عزوجل نے ہمیں حکم دیا ہے کہ

اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَالًا وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۝(التوبۃ:۴۱)

’’(جہاد کے لیے) نکل کھڑے ہو، چاہے تم ہلکے ہو یا بوجھل، اور اپنے مال و جان سے اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔ ‘‘

حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:

مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ، وَأَبْغَضَ لِلَّهِ، وَأَعْطَى لِلَّهِ, وَمَنَعَ لِلَّهِ، فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ (ابو داود)

’’جس نے اﷲ کی خاطر محبت کی، اﷲ کی خاطر غصہ کیا، اﷲ کے لیے دیا، اور اﷲ کی رضا مندی کے پیش نظر نہ دیا تو اس نے ایمان کو کامل کر لیا۔‘‘

اس کتاب کو لکھنے کا مقصد مسلمانوں کو جہاد فی سبیل اللہ پر ابھارنا ہے، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے۔

فَقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّكُفَّ بَاْسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَاللّٰهُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّاَشَدُّ تَنْكِيْلًا (النساء: ۸۴)

’’لہٰذا ( اے پیغمبر) تم اللہ کے راستے میں جنگ کرو، تم پر اپنے سوا کسی اور کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ہاں مومنوں کو ترغیب دیتے رہو، کچھ بعید نہیں کہ اللہ کافروں کی جنگ کا زور توڑ دے۔ اور اللہ کا زور سب سے زیادہ زبردست ہے اور اس کی سزا بڑی سخت۔ ‘‘

جہاد فی سبیل اللہ، اللہ عزوجل کی طرف دعوت کے مؤثر ترین طریقوں میں سے ایک ہے۔جہاد کی دعوت ہمارے اس دور میں اسلام کی جانب دعوت کے اہم ترین حصّوں میں شامل ہے ، کیونکہ یہ نہ صرف اسلام کا انتہائی اساسی جزو ہے (عمارتِ اسلام کی چوٹی) بلکہ یہ وہ فریضہ بھی ہےجس سے سب سے زیادہ کوتاہی و غفلت برتی جاتی ہے۔

اس غفلت کی وجوہات میں سر فہرست دلوں میں وہن (دنیا کی محبت اور موت سے کراہیت) کا ہونا ہے۔ اس بیماری کا علاج ، جس کی جڑ خود کمزوریٔ ایمان سے نکلتی ہے، اللہ عزوجل کے احکامات کی بجاآوری میں اضافہ،اس کے منع کردہ امور سے اجتناب، مسلسل استغفار اور ہدایت کی دعا میں پنہاں ہے۔

يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ(سنن الترمذی ۲۱۴۰)

’’اے دلوں کے الٹنے پلٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ ۔‘‘

چونکہ جہاد فی سبیل اللہ رحمتِ خداوندی اور ہدایت کے حصول کا سب سے سیدھا راستہ ہے، اس لیے شیطان اور اس کے ساتھی لوگوں کو اس سے باز رکھنے کے لیے مسلسل اس راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں اہل جہنم کے بارے میں فرماتے ہیں۔

الَّذِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَيَبْغُوْنَهَا عِوَجًا وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ كٰفِرُوْنَ (الاعراف: 45)

’’جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکتے تھے، اور اس میں ٹیڑھ نکالنا چاہتے تھے، اور جو آخرت کا بالکل انکار کیا کرتے تھے۔ ‘‘

در حقیقت جہاد کا دروازہ، جو کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بے پایاں رحمت کے حصول کا دروازہ بھی ہے، چوپٹ کھلا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ الکریم اور الجواد ہیں۔ مگر شیطان اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے پھیلائے گئے شبہات کے نتیجے میں آج لوگوں کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھ بیٹھی ہے کہ آج کے دور میں جہاد کا دروازہ بند ہوچکا ہے، جس کے سبب ہم میں سے بہت سے لوگ بے بسی و لاچاری کے احساسات میں مبتلا ہیں۔ بہت سے مسلمان متاسفانہ کہتےہیں کہ ’’کاش فلسطین کی سرحد ہمارے ساتھ لگتی، تو ہم جا کر لڑتے‘‘یا ’’کاش حکومتیں ہمیں فلسطین جا کر لڑنے کی اجازت دے دیں‘‘۔

یہاں تک کہ امریکہ ……وہی امریکہ کہ جو فلسطین پر صہیونی قبضے کے پیچھے اصل منبعِ قوّت ہے……اسی امریکہ میں مقیم مسلمانوں پر بھی ایسے امام مقرر ہیں جن کی منظوری کفار نے دی ہو۔ یہ امام ان کو بتاتے ہیں کہ کافر امریکیوں پر اور ان کی جنگی مشین پر ضرب لگانا’’شدت پسندی‘‘،’’دہشتگردی‘‘،’’غدّاری و بےوفائی‘‘اور ’’معاہدے کی خلاف ورزی‘‘ہے۔ بھلا یہ کون سا معاہدہ ہے ؟ کس سے کیا گیا؟ کس نے اسے منظور کیا؟اور کیا یہ شرعاً درست ہے بھی یا نہیں؟ کیا یہ کفار واقعی ہمیں تحفظ فراہم کر رہے ہیں یا پھر یہ اسلام کے خلاف اپنے ممالک میں بھی اور مسلم ممالک میں بھی ایک جنگ برپا کیے ہوئے ہیں؟؟مسلم ممالک میں علمائے سوء ان حکمرانوں کے دفاع میں دلائل گھڑنے میں مصروف ہیں جن کی اسلام سے بغاوت اور کفار کی غلامی روز بروز مزید عیاں ہوتی جا رہی ہے۔

خود بھٹکے ہوئے اور دوسروں کو بھٹکانے والے علمائے سوء کی جانب سے پھیلائے گئے شبہات کی وجہ سے بہت سے مسلمان کوئی عملی قدم اٹھانے سے ہچکچاتے رہتےہیں ۔جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم ایک خطرناک اور تباہ کن گھن چکّر میں پھنس جاتے ہیں۔اللہ سبحانہ وتعالی کے احکامات سے روگردانی ایمان میں کمی کا سبب بنتی ہے، اور ایمان کی یہ کمی اللہ تعالیٰ کےمزید احکامات سے غفلت برتنے کا باعث بن جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ حکمرانوں اور قائدین کے روپ میں منافقین اور کفار کے ایجنٹ ہم سے جھوٹ بول رہے ہیں، مگر ہمارا ایمان اس قدر کمزور ہوتا ہے کہ ہم کوئی بھی عملی قدم اٹھانے اور ایسی ناگزیر قربانیاں دینے سے قاصر ہوتے ہیں کہ جو کفار کو ہماری زمینوں سے بے دخل کرنے اور مسلمانوں کو ان کی عزّت و وقار اور شوکت لوٹانے کے لیے ضروری ہیں۔

جس قدر وسیع پیمانے پر فریضۂ جہاد سے کوتاہی و غفلت برتی جاتی ہے اسی قدر جہادِ فی سبیل اللہ کی ضرورت شدید تر ہوتی جاتی ہے ۔ کسی نظر انداز کیے ہوئے باغ کی طرح، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عمل کی ضرورت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔جیسے طویل غفلت کا شکار کسی باغ کے مہکتے پھولوں اور پھل دار درختوں پر جنگلی بوٹیاں قابض ہو جاتی ہیں اور سبزہ و ہریالی کو خود رَو پودے اور نکمی جھاڑ پھونس ڈھانپ لیتی ہے ۔ جتنا طویل عرصہ اس باغ کی کاٹ چھانٹ اور صفائی کے کام سے غفلت برتی جائے گی، اسی قدر باغ کی خوبصورتی اور آرائش بحال کرنے کا کام بڑھتا چلا جائے گا۔

کسی باغ کی دیکھ بھال ہی کی طرح، جتنے کم افراد فریضۂ جہاد کی ادائیگی کا بوجھ اٹھانے کے لیے آگے بڑھتے ہیں، اسی قدر بھاری ان کا بوجھ ہو جاتا ہے۔ یہ کام درحقیقت پوری امّت کا کام ہے، مگر وہ افراد بہت ہی کم ہیں جو اس فرض کو نبھانے کے لیے نکلتے ہیں۔ پھر وہ بھی جو اس فرض کو ادا کرنے کا عزم و ارادہ کرتے ہیں، وہ بھی شکوک و شبہات اور مخمصے کا شکار رہتے ہیں کہ کیا کریں اور کیسے کریں۔ اس باغ کی صفائی کرنے والے ان خدشات میں گھرے رہتے ہیں کہ کہیں جڑی بوٹیاں اکھاڑتے اکھاڑتے وہ باغ کے گلابوں اور انجیروں کو نقصان نہ پہنچا بیٹھیں۔ جو اس کام میں اترتے ہیں وہ اپنے آپ کو تھکا کر چُور کر لیتے ہیں، اس کے باوجود ان کی محنت کا ثمرہ بمشکل دکھائی دیتا ہے۔شیاطینِ جن و انس ان کی کامیابیوں پر پردے ڈالنے،ان کوچھوٹا اور غیر اہم ثابت کرنے اور انہیں چھپانے میں ہمہ دم کوشاں رہتے ہیں، جس کے سبب بہت سے باہمت مسلمان بھی اپنے آپ کومفلوج محسوس کرتے ہیں۔

پھر صورتحال محض ترکِ جہاد تک بھی محدود نہیں رہی، بلکہ اس سے بڑھ کر اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ جہاں اکثر مسلمان بالواسطہ یا بلا واسطہ کفری طاقتوں کی جنگی سرگرمیوں میں تعاون کر رہے ہیں۔ ہم کفار کے زیرِ انتظام مکڑی کے جال کی طرح بُنے معاشی نظام میں اس طرح جکڑے جا چکے ہیں کہ ہماری محنت مزدوری ، ہمارے ٹیکس، اور ہماری خرید وفروخت ، سب ہمارے دشمنوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اس مصیبت کی شدت کا اندازہ محبوب ِ الٰہی ﷺکے الفاظ پر غور کرنے سے کیا جا سکتا ہے:

المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ(صحیح البخاری ۶۴۸۴)

’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘

یہ بڑی حد تک ایک انوکھی صورتحال ہے۔ امّ القریٰ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف کی جانے والی مبارک ہجرت سے لے کر آج تک مسلمان کبھی بھی اس حد تک محکومی و غلامی کا شکار نہیں رہے۔اپنے آپ کو اس صورتحال سے نکالنے کے لیے ہمیں ایسے مجتہدین کی ضرورت ہے جو اللہ عزوجل کی شریعت کا عمیق فہم رکھتے ہوں اور جو اپنے علم کو آج کے زندہ حقائق پر منطبق کر نے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

مع الاسف کہ آج ایسی قیادت کی شدید قلّت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا

إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنْ النَّاسِ وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا(صحیح المسلم ۲۶۷۳)

’’اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں سے چھینتے ہوئے نہیں اٹھائے گا بلکہ وہ علماء کو اٹھا کر علم کو اٹھا لے گا حتیٰ کہ جب وہ (لوگوں میں) کسی عالم کو (باقی) نہیں چھوڑے گا تو لوگ (دین کے معاملات میں بھی) جاہلوں کو اپنے سربراہ بنا لیں گے۔ ان سے (دین کے بارے میں) سوال کیے جائیں گے تو وہ علم کے بغیر فتوے دیں گے، اس طرح خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ۔‘‘

وہ علماء جو اپنے علم کو اپنی زندگیوں میں لاگو کرتے ہیں انہیں قتل کر دیا جاتاہے۔وہ علماء جو حق بات کہنے سے نہیں جھجکتے انہیں قید کر دیا جاتا ہے، ان کی کردار کشی کی جاتی ہے، انہیں بدنام و رسوا کیا جاتا ہے اور ان کی تقریر و تحریر پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دشمن گمراہ اور بھٹکے ہوئے لوگوں کی آوازیں خوب اونچی اور بڑھا دیتے ہیں تاکہ ان کے شور میں حق پرستوں کی آوازیں دبا دی جائیں۔نظامِ تعلیم سیکولر نظام اور دینی تعلیم میں منقسم ہے۔ ایک ایسا سیکولر نظام جس کا دینی اصولوں سے کوئی لینا دینا نہیں اورایک ایسی دینی تعلیم کہ جس کا موجودہ حقائق سے تعلق یا واسطہ بہت کم ہے۔ یوں ایسے علما ء اور طلبہ تیار کیے ہی نہیں جا سکتے کہ جو ہماری موجودہ صورتحال کو سمجھنے اور امّت کو اس سے باہر نکالنے کے لیے تدبیر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

ہمیں ایک خاص حد تک سیاسی اور معاشی خود مختاری کی ضرورت ہے تا کہ ہم ایسے علماء تیار کر سکیں اور ان کو پلیٹ فارم مہیا کرسکیں جو آزادانہ وہ رہنمائی فراہم کر سکیں جو عمل کے لیے درکار ہے۔ لیکن اس حد تک آزادی و خودمختاری حاصل کرنے کے لیے بھی اولاً ہمیں ایسے علماء کی ضرورت ہے۔ شکست خوردگی نےہماری امت کوبے حد متاثر کیا ہے۔ ہم یا توایک دائمی ’ مکی دور‘ میں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں کہ جس میں ہم کلّی طور پر جنگ و قتال ترک کر دیتے ہیں، یا پھر ہم کفار ہی کی حکمت عملیاں اپنا تے ہوئے جمہوریت اور سیکولرزم جیسے مناہج اختیار کر لیتے ہیں،کہ جس دوران ہمارے ہاتھ سے توحید اور سنت دونوں ہی کا دامن چھوٹ جاتا ہے ۔

اس جال سے بچنے کے لیے ہمیں مسلم عوام کے لیے ایسے راستے تلاشنے کی ضرورت ہے کہ جن کے ذریعے وہ اسلام کی سیاسی قوّت کو دوبارہ قائم و محکم کرنے کی جدو جہد میں حصّہ لے سکیں۔ ہمیں ایسے طریقوں کی ضرورت ہے جن کے ذریعے کوئی بھی مسلمان،اپنے درجۂ ایمان، علم اور ہمت سے قطع نظر، اس جدوجہد میں حصہ لے سکے۔ ہمیں ایسے ذرائع کی ضرورت ہے جن کے ذریعے ہم اپنی سیاسی و معاشی قوت میں اضافہ کر سکیں اور اللہ سبحانہ وتعالی کی اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعے اپنے ایمان میں اضافہ کر سکیں۔ بائیکاٹ، اگرچہ اس مجموعی جدوجہد کا ایک چھوٹا اور ناکافی حصہ ہیں لیکن یہ اس سمت میں پہلا قدم بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر ہم اپنے کمزور ایمان، وسائل اور صلاحیت کی کمی اور صحیح طریقوں اور حکمت عملیوں کے حوالے سے شکوک وشبہات کا شکار ہونے کے سبب دشمن پر عسکری حملہ کرنے سے قاصر بھی ہیں، تو بھی ہم اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ اپنے دشمن کے لیے اپنی مدد اور تعاون جس قدر ممکن ہو کم کر لیں۔

اس کتاب(تحریر) کا مقصد باذن اللہ عزوجل مسلم مقاطعہ کی مقدار و معیار پر روشنی ڈالنا ہے۔ مقدار بایں معنیٰ کہ مسلمانوں کی کتنی تعداد اس میں حصہ لے رہی ہے، کتنے دشمن اس کا ہدف ہیں اور کتنے طریقے استعمال ہو رہے ہیں۔ جبکہ معیار اس معنی میں کہ کس طرح خریدوفروخت، کام کاج اور سرمایہ کاری کے طریقۂ کار کو بہتر بنا کر مجموعی اثرات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

بہت سے علماء نے بائیکاٹ(مقاطعہ) کو سراہا ہے اور اس کے شرعاً جائز اور مطلوب ہونے پر دلائل دیے ہیں، لیکن اس امر پر کم ہی توجہ دی گئی ہے کہ اس کا اصل طریقۂ کار اور اہداف کیا ہوں اور اس سے زیادہ سے زیادہ فوائد کیسے سمیٹے جائیں۔ اس تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ قارئین کو بائیکاٹ کی تحریض دلانے کے لیے اضافی ثبوت فراہم کیے جائیں تاکہ وہ خود بھی اس میں شریک ہوں اور دوسروں کو بھی اس کی جانب ترغیب دلانے کا سبب بنیں ۔ اس سب کا حتمی مقصد تو یہ ہے کہ کافر دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے اور ہماری جانب سے جو منافع اور فوائد اسے حاصل ہوتے ہیں، انہیں حتی المقدور کم کیا جائے۔ مسلمانوں کو پہنچنے والے فوائد میں اضافہ ہو اور جو نقصان ہم اٹھاتے ہیں اسے کم سے کم کیا جاسکے ۔

بندگی کے عظیم اعمال میں سے ایک اسلام اور مسلمانوں کی حمایت ہے، اورسرکشی و نافرمانی کی بدترین شکلوں میں سے ایک حربی کفار کی مدد اور حمایت کرنا ہے۔ جب اللہ سبحانہ وتعالی کسی کو اطاعت کے کاموں میں لگنے کی توفیق بخشیں، تو یہ اس انسان سے اللہ تعالیٰ کی محبت کی علامت ہے۔ اسی کے برعکس ،مراسمِ عبودیت ادا کرنے سے قاصرہونا اللہ سبحانہ وتعالی کی ناراضگی کی علامت ہے۔ جہاد کی طرف پلٹنے سے، چاہے اس سمت چھوٹے چھوٹے قدم ہی کیوں نہ اٹھائے جائیں، ہم امید کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی کی رحمت اور مغفرت کی طرف بڑھیں گے، اور ہم اس بات کی امید کر سکتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی ہمیں اپنے فرائض سے کوتاہی برتنے پر معاف فرما دیں گے۔ بعون اللہ امید ہے کہ یہ کام ہمارے دلوں کو اللہ کی راہ میں اطاعت و قربانی کے مزیداور عظیم تر کاموں کے لیے کھول دے گا ۔

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے اس دین کے لیے جو قربانیاں پیش کیں، یہ بائیکاٹ تو ان کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ مگر ہمارا پروردگار نہایت مہربان ہے، وہ ایک فاحشہ عورت کی صرف اس عمل پر بخشش کر دیتا ہے کہ اس نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا اور وہ ایک شخص کو صرف اس بات پر پکڑ بھی سکتا ہے کہ اس نے ایک بلی کو بھوکا باندھے رکھا یہاں تک کہ وہ مر گئی۔ ہمیں چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی حقیرنہیں سمجھنا چاہیے۔

فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ ۝ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ۝(الزلزلہ ۸۔۹)

’’چنانچہ جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی، وہ اسے دیکھے گا۔‘‘

میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے اطاعت و فرمانبرداری کے ان چھوٹے چھوٹے اعمال کو بڑے اعمال کا پیش خیمہ اور سبب بنا دیں ، ہمارے اعمال کے پلڑوں کو جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے بھاری کر دیں۔میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمیں اپنے دشمنوں کی ان چالوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے جو وہ ہمیں حق سے دور کرنے اور ہم سے لڑنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ہمیں اپنی حکمت اور قدرت سے ان کی ظاہری و پوشیدہ جارحیت کا مقابلہ اور توڑ کرنے کے قابل بنا دیں۔ میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کے درمیان سیاسی، معاشی، عسکری، روحانی، جذباتی اور فکری بھائی چارے اور روابط کو مضبوط کر دیں تاکہ وہ دشمنانِ اسلام کا مقابلہ ایک جسدِ واحد کی صورت میں مل کرکر سکیں، آمین۔

والحمد لله رب العالمین!

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

Previous Post

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | تیسری قسط

Next Post

کیا مغربی فکر و اداروں کی اسلامائزیشن ممکن ہے؟ | حصہ اول

Related Posts

مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | ساتویں قسط

26 ستمبر 2025
اَلقاعِدہ کیوں؟ | چوتھی قسط
فکر و منہج

اَلقاعِدہ کیوں؟ | چھٹی قسط

26 ستمبر 2025
اَلقاعِدہ کیوں؟ | چوتھی قسط
فکر و منہج

اَلقاعِدہ کیوں؟ | پانچویں قسط

13 اگست 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | چھٹی قسط

13 اگست 2025
کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط
فکر و منہج

کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط

13 اگست 2025
کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟
فکر و منہج

کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟

13 اگست 2025
Next Post
کیا مغربی فکر و اداروں کی اسلامائزیشن ممکن ہے؟ | حصہ سوم

کیا مغربی فکر و اداروں کی اسلامائزیشن ممکن ہے؟ | حصہ اول

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version