اماراتی خبر رساں ایجنسی ’وام‘ کے مطابق متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید نے اپنے اسرائیلی ہم منصب گیدون ساعر کے ساتھ ملاقات کی ہے ۔ یہ مسلم معاشروں کی بے حسی ہی ہے جو ان حکمرانوں کو اتنی ہمت دے چکے ہیں کہ یہ ایسے وقت میں بھی اسرائیل سے یارانے بنانے سے نہیں شرما رہے جب اسرائیل بے دریغ قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے۔
حماس کے ترجمان اسامہ حمدان ﷿نے بھی اپنے ایک بیان میں انکشاف کیا کہ اماراتی جاسوسوں کا نیٹ ورک ڈاکٹروں اور طبی عملہ کی آڑ میں فلسطینیوں کے جاسوسی کے لئے داخل ہوا تھا ۔ امارات کی ہلال احمر نامی تنظیم کی 50 ’’ڈاکٹروں‘‘ پر مشتمل ایک ’’امدادی‘‘ ٹیم مصری سرحد کے راستے (رفح بارڈ) سے گزشتہ دنوں غزہ پہنچی تھی۔ اماراتی ہلال احمر کی اس ٹیم نے غزہ کے مختلف علاقوں میں فیلڈ ہسپتال قائم کر کے زخمیوں کا علاج معالجہ شروع کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم غزہ کے مختلف علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد یہ ٹیم اسی رفح بارڈر سے واپس مصر پہنچ گئی۔ اماراتی ہلال احمر کے مذکورہ ڈاکٹروں کے بارے میں غزہ میں امدادی سرگرمیاں سر انجام دینے والے اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے مصری ڈاکٹروں نے پہلے روز ہی کہا تھا کہ اماراتی ڈاکٹر مشکوک سرگرمیوں میں مصروف ہیں، تاہم ان کی جاسوسی کا انکشاف اس وقت ہوا، جب یہ ٹیم اپنی ایمبولینس سمیت تمام طبی آلات کو وہیں پر چھوڑ کر واپس مصر آ گئی۔ ابتدائی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ امدادی ٹیم میں شامل 50 افراد میں سے ایک بھی ڈاکٹر نہیں تھا، بلکہ یہ امارات کی خفیہ ایجنسی کے اہلکار تھے، جو حماس کی جاسوسی کرنے کے لیے اسرائیلی مشن پر غزہ پہنچے تھے۔ حماس کی ذیلی تنظیم القسام بریگیڈ کو پہلے دن بھی اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے مصری ڈاکٹروں نے بتایا تھا کہ اماراتی ’’ڈاکٹروں‘‘ کو اپنے پیشے میں کوئی خاص مہارت حاصل نہیں۔ اس مشن کی ذمہ داری محمد دحلان کو سونپی گئی تھی جو کہ ابوظہبی کے شیخ محمد بن زاید کا سلامتی کا مشیر ہے۔ مذکورہ فلسطینی نژاد شخص پہلے الفتح کا رہنما رہ چکا ہے۔ حماس کے ایک اور اہم ذریعے نے القدس کو بتایا کہ محمد دحلان کا رابطہ تنظیم کے ایک عہدیدار سفیان ابو زائدہ نے کرا کر یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ اماراتی حکومت اپنے فلسطینی بھائیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ماہر ڈاکٹروں پر مشتمل ایک ٹیم بھیجنا چاہتی ہے، جو ہر قسم کے جدید طبی آلات سے لیس ہو گی۔ القدس کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس ٹیم کے تمام ارکان ابوظہبی ریاست کے انٹیلی جنس ادارے کے اعلیٰ عہدیدار ہیں۔ ادھر الشروق نے اپنی ویب سائٹ پر ایک اماراتی ’’ڈاکٹر‘‘ کی دو تصویریں پوسٹ کی ہیں، جن میں غزہ کے الاقصیٰ ہسپتال کے نزدیک قائم کیے گئے طبی کیمپ میں ’’ڈاکٹر‘‘ بن کر کام کرنے والے شخص کو ابوظہبی میں فوجی وردی پہن کر اعلیٰ حکام کے ساتھ میٹنگ کرتے دکھایا گیا ہے۔ الشروق نے بھی کہا ہے کہ اس ٹیم میں شریک تمام امدادی کارکنان ابوظہبی کے انٹیلی جنس اہلکار تھے۔ واضح رہے کہ اماراتی ہلال احمر کے حوالے سے اس انکشاف کے بعد الجزیرہ کے اس دعوے کی تصدیق ہو گئی ہے، جو اس نے گزشتہ دنوں کیا تھا کہ امارات نے اسرائیل کو پیشکش کی تھی کہ وہ حماس کا خاتمہ کر دے تو غزہ پر ہونے والی فوجی کارروائی کے تمام اخراجات امارات برداشت کرے گا۔ اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد امارات نے الجزیرہ کو ’کذاب‘ قرار دیا تھا۔ الجزیرہ نے یہ بھی کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات کو غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں کے بارے میں پیشگی اطلاع تھی، تاہم گزشتہ دنوں اسرائیلی عبرانی ٹی وی چینل ٹو نے بھی الجزیرہ کی اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو پیشکش کی تھی کہ وہ غزہ پر فوجی کارروائی کے تمام اخراجات برداشت کرے گا، بشرطیکہ اسرائیل حماس کو تباہ کردے۔
عبرانی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق، متحدہ عرب امارات نے گزشتہ سال کے دوران اسرائیلی افسران اور فوجیوں کی سب سے زیادہ ٹریول ہسٹری کو ریکارڈ کیا، حتیٰ کہ غزہ میں اسرائیل کی جنگ کے دوران بھی۔ اسرائیلی افسران اور سپاہیوں کے لیے متحدہ عرب امارات پسندیدہ مقام بن چکا ہے، دبئی اب ان شہروں کی فہرست میں سر فہرست ہے جن کا وہ سردیوں میں دورہ کرنے کا انتخاب کرتے ہیں، جس نے ایتھنز، روم اور نیویارک جیسے بڑے یورپی اور امریکی مقامات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ عبرانی ویب سائٹ ’ماکو‘ نے رپورٹ کیا کہ تقریباً ایک لاکھ سولہ ہزار اسرائیلیوں نے متحدہ عرب امارات کا سفر کیا، جو کہ حالیہ مہینوں میں بین گوریان ہوائی اڈے سے ہونے والی تمام روانگیوں میں سے 10 فیصد سے زیادہ ہے۔ یہ تعداد متحدہ عرب امارات کو بطور ترجیح نمایاں کرتی ہے خاص طور پر اسرائیلی فوج کے افسران اور فوجیوں میں، جو فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود ابوظہبی کو محفوظ پناہ گاہ سمجھتے ہیں۔ ابوظہبی میں اسرائیلی سفارت خانہ غزہ پر اسرائیل کے حملے کے آغاز کے بعد سے عرب دنیا میں واحد مکمل طور پر کام کرنے والا اسرائیلی سفارت خانہ ہے۔
دریں اثنا، بہت سے ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو کم سے کم رکھا ہے یا اسرائیلی قتل عام کی وجہ سے انہیں جزوی طور پر منقطع کر دیا ہے۔ سیاسی فوائد کے علاوہ، متحدہ عرب امارات اسرائیلیوں کے لیے اہم لاجسٹک فوائد فراہم کرتا ہے۔ کم لاگت والی ایئر لائن Fly Dubai دبئی اور تل ابیب کے درمیان روزانہ آٹھ پروازیں چلاتی ہے، جو ایمریٹس ایئرلائنز کے ذریعے چلائی جانے والی روزانہ کی پروازوں کی تعداد کے برابر ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسرائیلیوں کی خاص طور پر فوجیوں کی متحدہ عرب امارات میں آمد ابوظہبی اور تل ابیب کے درمیان اعلیٰ سطح کی ہم آہنگی کی عکاسی کرتی ہے۔ واضح رہے کہ ابوظہبی میں اسرائیلی ربی تزوی کوگن کو قتل کر دیا گیا تھا ۔ جسکے بعد امریکہ میں متحدہ عرب امارات کے سفیر نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ خلیجی عرب ریاست کے خلاف جرم ہے، جس نے 2020ء میں اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی اور تجارتی تعلقات قائم کیے تھے۔ اس قتل میں ملوث تین ازبک باشندوں کی ترکی سے گرفتاری کے بعد انہیں متحدہ عرب امارات کے حوالے کیا گیا تھا جہاں انہیں سزائے موت سنائی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ قتل کے اس واقعے کے باوجود اسرائیلیوں کی خلیجی ریاست کی طرف سفر کے مسلسل بہاؤ میں کوئی کمی نہیں آئی۔ یہ اس بات کی نشاندہی بھی کرتا ہے کہ کس طرح متحدہ عرب امارات غزہ میں ان کی فوج کی طرف سے کیے جانے والے جرائم سے قطع نظر، اسرائیلیوں کے لیے مؤثر طریقے سے ایک پسندیدہ سیاسی اور سیاحتی مقام بن گیا ہے۔
٭٭٭٭٭