نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

عالمی شپنگ کمپنی سے معاہدہ: پس پردہ محرکات کیا ہیں؟

اریب اطہر by اریب اطہر
26 مئی 2025
in پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!, اپریل و مئی 2025
0

وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی شپنگ کمپنی کی پاکستان میں 2 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ گزشتہ سال A. P Moller – Maersk کے ساتھ طے کی گئی یادداشتوں کو جلد از جلد معاہدوں کی شکل دی جائے۔ مرسک کمپنی اس سرمایہ کاری سے پورٹ قاسم اور کراچی پورٹ پر گہرے پانی کے کنٹینر ٹرمینلز تعمیر کرنے کے ساتھ ساتھ پورٹ انفراسٹرکچر کو اپگریڈ کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اس سے قبل گزشتہ سال ستمبر کے مہینے میں مرسک شپنگ لائن نے سکیور لاجسٹک کو پاکستان میں اپنا پارٹنر مقرر کیا تھا۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب پاکستان سے ہمدردی اور فقط تجارت کے فروغ کے لیے ہو رہا ہے یا پس پردہ دوسرے محرکات بھی ہیں۔ اگر یہ واقعی سرمایہ کاری ہے تو کیا یہ قرضے کی صورت میں ہے؟ اگر قرضے کی صورت میں نہیں ہے تو کیا اس سرمایہ کاری کے بدلے پورٹ جیسے قیمتی اثاثے کو کلی یا جزوی طور پر بیچا جا رہا ہے؟ پاکستان پر قابض فوجی اشرافیہ اپنے عمل سے بارہا یہ ثابت کر چکی ہے کہ غیرملکی کمپنیوں اور حکومتوں سے معاہدوں کے وقت انہیں ملکی مفادات کی رتی برابر پرواہ نہیں ہوتی بلکہ ان کا مقصد فقط ذاتی فوائد سمیٹنا ہی ہوتا ہے۔ Confessions of an Economic Hitman کا مصنف جان پرکنز بھی اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ وہ بطور کنسلٹنٹ حکومتوں کو ایسے ترقیاتی منصوبوں کی رپورٹس بنا کر دہتے ہیں جن کی کلائنٹ ریاست کو قطعی ضرورت نہیں ہوتی تھی لیکن ان کا مقصد کلائنٹ ریاست کو ایسے پروجیکٹس میں الجھانا ہوتا تھا جس کے لیے وہ قرض کے جال میں پھنس جاتے۔

گوگل کا آے آئی گہرے پانیوں کے کنٹینر ٹرمنلز کے متعلق کہتا ہے:

“فوجی کارگو اکثر گہرے سمندر کے کنٹینر ٹرمینلز کو مؤثر نقل و حمل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔  یہ ٹرمینلز فوج کو درکار بڑے حجم اور متنوع قسم کے سامان کو سنبھالنے کے لیے ضروری بنیادی ڈھانچہ اور سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ فوجی کارگو میں سامان، رسد اور عملے کی ایک وسیع تعداد شامل ہوتی ہے، جس میں اکثر بڑے پیمانے پر، کنٹینرائزڈ شپنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ فوج اپنے لاجسٹکس آپریشنز کو سپورٹ کرنے کے لیے گہرے پانی تک رسائی اور اچھی طرح سے تیار کنٹینر ٹرمینل انفراسٹرکچر کے ساتھ اسٹریٹجک بندرگاہوں پر انحصار کرتی ہے۔  ملٹری سی لفٹ کمانڈ بحری جہاز، جو فوجی سامان کی نقل و حمل کرتے ہیں، کو اکثر کنٹینر ٹرمینلز کی گہرے پانی کی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ گہرے سمندر کے کنٹینر ٹرمینلز ضروری سہولیات فراہم کرتے ہیں، جیسا کہ کرینیں، بحری جہازوں کے اندر اور باہر کارگو کو مؤثر طریقے سے لوڈ اور اتارنے کے لیے۔‘‘ 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نام نہاد سرمایہ کاری کا محرک کوئی نئی جنگ ہے جس میں پاکستان کو کردار ملنا ہے یا پاکستان کی سرزمین ایک بار پھر سے استعمال ہونی ہے؟ کیا موجودہ سیاسی حکومت کو اس کا ادراک بھی ہے؟

واضح رہے کہ مرسک کمپنی اسرائیل کے ملٹری سازوسامان اور بم سے لے کر جہاز اور پارٹس تک کی شپمنٹس کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب سپین جیسے یورپی ملک نے بھی مرسک کی شپمنٹس کو بلاک کیا اور اعلان کیا کہ وہ ان شپمنٹس کو جانے نہیں دے گا جو اسرائیل کے لیے اسلحہ وغیرہ لے جا رہی ہیں۔

یہ اہم پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مذہبی حلقوں کی جانب سے کہیں ڈھکے چھپے الفاظ میں تو کہیں براہ راست پاکستانی فوج کو مخاطب کر کے غزہ کے متعلق انہیں ان کا فرض یاد دلایا جا رہا ہے۔ جو یہ کام فوج سے امید لگاتے ہوئے کر رہے ہیں ان کے خلاف فوج نے کردار کشی کی مہم چلوا دی ہے ۔ اور یہ بات تو طے ہے کہ فوج اور اس کے ماتحت ادارے ہر حربہ اور ہتھکنڈا اپنائیں گے تاکہ اس نئی سوچ اور فکر کو کچلا جا سکے۔ راولپنڈی میں ایک واقعے میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کے ایف سی فرنچائز میں گھس کر جس انداز سے توڑ پھوڑ کی گئی، جو زبان استعمال کی گئی وہ حلیہ ، طور طریقے اور زبان کسی بھی طرح سے کسی مذہبی جماعت کے کارکن کی نہیں لگتی تھی۔ مقصد شاید یہی تھا کہ ایسی تصویر پیش کی جائے کہ علماء کی جانب سے صہیونی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیلیں معاشرے میں انتشار اور تخریب کا سبب بن رہی ہیں۔ اور یہ پہلی بار نہیں ہوا ۔ سکیورٹی ادارے یہ ہتھکنڈے کئی بار مختلف سیاسی جماعتوں کے خلاف استعمال کر چکے ہیں ۔ جہاں وہ کسی احتجاج کے اندر شامل ہو کر عوامی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں اور پھر اس کا ذمہ دار اس احتجاج کرنے والی جماعت کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ ٹی ایل پی کے احتجاجوں میں بھی ہوا اور تحریک انصاف کے احتجاجوں میں بھی۔

بہرحال دینی سیاسی جماعتوں کی جانب سے پاکستانی فوج سے جو نرم گرم لہجوں میں غزہ کی مدد کے لیے استدعا کی جا رہی ہے، فوج اس سلسلے کو روکنے کے لیے کیا سازشیں گھڑے گی یہ شاید بہت جلد ہی سامنے آ جائے گا، البتہ چند حقائق ان تمام طبقات کے سامنے رکھنا بہت ضروری ہیں جو غزہ کے لیے پاکستانی فوج سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔

پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک پاکستانی فوجیوں نےاقوام متحدہ کی فوج میں شامل ہو کر 23 ممالک میں خدمات فراہم کی ہیں۔

اس وقت بھی فوج و پولیس کے 3 ہزا کے قریب پیس کیپرز اقوام متحدہ کے تحت ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو، جنوبی سوڈان، وسطی افریقی جمہوریہ، قبرص، مغربی صحرائے کبریٰ اور صومالیہ کے نام نہاد امن مشنز میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ماتحت 27 افسران سمیت 171 پاکستانی فوجیوں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ کیا ان آپریشنز کے لیے کسی بھی سیاسی حکومت نے فیصلہ کیا کہ کہاں کہاں فوج کو جانا چاہیے اور کہاں نہیں؟

پھر امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر پاکستان نے اپنے جتنے فوجیوں کی جانیں پیش کیں وہ بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کی ویب سائٹ کے مطابق 2001ء سے 2019ء کے دوران مارے جانے والے پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد سات ہزار ایک سو ستائیس (7127) ہے اور گزشتہ چند سالوں میں سکیورٹی فورسز کی ہلاکتوں میں جتنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے وہ شاید فوج کی امریکہ کے لیے دی جانے والی بیس سالہ قربانیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا۔ پھر یہ پرفارمنس دیکھتے ہوئے بھی کسی کو ان کے متعلق شک ہونا چاہیے کہ یہ کس صف میں کھڑے ہیں؟ عالمی صلیبی و صہیونی استعمار سے ان کے اخلاص کی سطح کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ استعماری قوتیں اس خطے سے شکست کھا کر بھاگ چکی ہیں اور اب اپنے اس غلام کو جنگ کے نام پر اس طرح فنڈز نہیں دے رہیں جس طرح افغان جنگ کے دوران انہیں آنکھیں بند کر کے دیا جاتا رہا۔ عقلی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ ممکن تھا کہ یہ فنڈز بند ہو جانے کے بعد اس جنگ سے توبہ تائب ہوجاتے۔ لیکن ان کی ڈھٹائی دیکھیے کہ انہیں جو کمی جنگ کے نام پر ملنے والی امداد کی بندش کے سبب پیش آئی وہ کمی انہوں نے اسی ملک کی عوام کا خون نچوڑ کر پوری کر لی لیکن اپنی صف بدلنا گوارا نہیں کیا۔ امریکی جنگ میں بیش بہا قربانیوں کے باوجود یہ امریکیوں سے جنگی ہیلی کاپٹر مانگتے ہیں لیکن وہ انہیں نہیں ملتے۔ یہ ترکی سے معاہدہ کرتے ہیں تو امریکہ ترکی کو دھمکی دیتا ہے کہ وہ ان ترک ہیلی کاپٹروں کے لیے انجن کی سپلائی روک دے گا۔ مجبوراً یہ چینیوں کے پاس جاتے ہیں، مہنگے ترین ہیلی کاپٹرز خریدنے جن کا استعمال انہوں نے فقط بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں کرنا ہے۔

تاریخ نظر انداز کرنے والے ہمارے بعض احباب فوج کے سیاہ کارناموں کو مشرف اور چند جرنیلوں کی جھولی میں ڈالتے ہیں کہ سب کچھ ان کا ہی کیا دھرا ہے۔ جبکہ سچ یہ ہے کہ یہ فوج اپنی ابتدا اور پیدائش سے ایسی ہی تھی، ہاں نائن الیون اور بش کی دھمکی کے بعد انہیں یہ ظاہر کرنا پڑا تھا کہ یہ کس صف میں ہیں اور رہیں گے۔ ان کی مکروہ سیاہ تاریخ کی ابتدا قیام پاکستان نہیں بلکہ انگریزوں کی برصغیر میں آمد سے ہوئی۔ اگر پاکستان کے مذہبی طبقات کے سامنے فوج کی قیام پاکستان سے قبل کی تاریخ کو سامنے رکھا جائے تو انکے نزدیک برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور کے فوج کے مظالم کا الزام موجودہ پاکستانی فوج کو نہیں دیا جا سکتا ۔ جبکہ آئی ایس پی آر کی اپنی دستاویزی فلموں میں قیام پاکستان سے قبل کی اپنی تاریخ کو فخریہ own کیا گیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس دور میں لڑی جانے والی جنگوں میں برطانوی فوجیوں کی قبروں کو بطور یادگار سنبھالا جاتا ہے ۔ چند سال قبل ایسی ہی ایک قبر کا دورہ کرنے کے لیے برطانوی فوجی آئے تو ٹیلی ویژن پر فخریہ نشر کیا گیا کہ یہاں باغیوں کے خلاف جنگ کی گئی تھی۔ اس خبر کے نشر ہونے کے بعد وہیں ایک پشتون ردّعمل میں ایک تنقیدی ویڈیو بناتا ہے ۔ جس پر سکیورٹی ادارے اسے اٹھا کر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ بہرحال یہاں ہم قیام پاکستان کے بعد کے چند ایک تاریخی واقعات کا ذکر کرنا چاہیں گے جس سے یہ سمجھنے میں آسانی رہے گی کہ اس فوج کا مسئلہ چند جرنیلوں کا نہیں۔

قیوم نظامی اپنی کتاب ’جرنیل اور سیاستدان تاریخ کی عدالت میں‘ میں لکھتے ہیں:

’’برٹش انڈیا لائبریری لندن کے ریکارڈ کے مطابق برصغیر کی آزادی کے بعد برطانوی حکومت نے ان تمام سول اور فوجی ملازمین کو ریٹائر کر دیا جو ہندوستان میں فرائض سر انجام دیتے رہے تھے۔ جب جبری ریٹائر ہونے والے افسروں نے احتجاج کیا تو انہیں بتایا گیا کہ برطانیہ میں ’آقائی‘ ذہنیت کو سروسز میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت اور پاکستان انگریز دور میں خدمات انجام دینے والے سول اور ملٹری افسران کو برقرار رکھنے پر مجبور تھے کیونکہ انکے پاس متبادل سروس کیڈر موجود نہیں تھا ۔‘‘

میجر جنرل شاہد حامد اپنی تصنیف Disastrous Twilight میں لکھتے ہیں:

’’آزادی سے چند روز پہلے دہلی میں فوجی افسروں سے ملاقات کی ایک تقریب منعقد کی گئی ۔ فوجی افسران محمد علی جناح سے سوال کر رہے تھے اور جناح جواب دے رہے تھے۔ ایک افسر نے جب پاکستان میں پروموشن کے امکانات کے بارے میں سوال کیا تو میں قائد کے چہرے سے اندازہ لگا سکتا تھا کہ انہوں نے اسے پسند نہیں کیا۔ اس فوجی افسر کے سوال سے یہ بات بخوبی عیاں تھی کہ انہیں پاکستان کی آزادی کی خوشی کم تھی مگر اپنی پروموشن (ترقی) کی فکر زیادہ تھی۔‘‘

ڈاکٹر عائشہ جلال اپنی کتاب The State of Martial Rule میں لکھتی ہیں:ـ

’’مئی 1950ء میں امریکی دورے کے دوران لیاقت علی خان نے کہا کہ اگر امریکہ پاکستان کی سرحدوں کے دفاع کی ضمانت دے تو پاکستان کے لیے بڑی فوج کے دفاع کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘‘

لیاقت علی خان کو ایک جلسے میں اس طرح قتل کیا جاتا ہے جس کے تمام انتظامات فوج کے ہاتھ میں تھے ، قاتل سید اکبر کو موقع پر قتل کیا جاتا ہے۔ لیاقت علی خان قتل کیس کی تفتیش کرنے والے آئی جی سپیشل برانچ اعزازالدین کے مطابق قاتل سید اکبر کو سی آئی ڈی اہلکار ایبٹ آباد سے راولپنڈی لایا تھا۔ دورانِ تفتیش موت سائے کی طرح ان کا پیچھا کرتی، روز ایکسیڈینٹ ہوتے بالآخر جہاز سمیت بم سے اڑا دئیے گئے۔ سید اکبر کو موقع پر ہی قتل کر کے کیس ختم/ خراب کرنے والے ڈی ایس پی کو خانیوال میں مخدوم پور پہوڑاں روڈ پر ایک چک میں 10 مربع زرعی اراضی سے نوازا گیا۔ اس کی اولادیں آج بھی عیش کر رہی ہیں۔ قاتل سید اکبر کی بیوہ کو بنگلہ الاٹ کیا گیا اور جدید سہولیات دی گئیں۔

مشاہد حسین ، اکمل حسین Pakistan Problems of Governance میں لکھتے ہیں:

’’جب بریگیڈئیر غلام جیلانی ملٹری اتاشی نامزد ہو کر امریکہ رخصت ہونے لگے تو کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے انہیں بلایا اور ہدایت دی کہ تمہاری بنیادی ذمہ داری پنٹاگون کے ساتھ ملٹری ایڈ کے تعلقات استوار کرنا ہے، تم ان (امریکیوں) سے براہ راست ڈیل کرنا اور پاکستانی سفیر کو اعتماد میں نہیں لینا، ہم اس قسم کے حساس معاملات میں سویلین پر اعتماد نہیں کرسکتے۔‘‘

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سنہ 1953ء سے تیزی سے بہتر ہونا شروع ہوئے۔ جہاں سنہ اکاون تک پاکستان کو چند کروڑ ڈالرز امریکی امداد ملتی تھی، سنہ 1953ء میں پچاس کروڑ سالانہ سے زیادہ ہوئی، سنہ 1955ء تک دو ارب ڈالرز اور سنہ 1963ء میں تین ارب ڈالرز کے قریب تھی۔ جب جنرل ایوب کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی تو اس نے امریکی سی آئی اے کے ایک خفیہ منصوبے میں شمولیت اختیار کر لی۔ یہ یو-2 جاسوس جہازوں کی پروازیں تھیں جن کا مقصد سویت یونین سے فوجی معلومات جمع کرنا تھا۔

ڈینس ککس جو 1957ء تا 1959ء اور پھر 1969ء تا 1971ء پاکستان میں امریکی سفارت خانے میں تعینات رہااپنی کتاب United States and Pakistan (1947ء-2000ء) میں لکھتا ہے :

’’امریکی تعاون حاصل کرنے کے لیے ایوب خان اس حد تک آگے چلا گیا کہ اس نے ایک امریکی اہلکار کو کہا کہ اگر آپ چاہیں تو ہماری آرمی آپ کی آرمی بن سکتی ہے۔‘‘

قارئین کو یہ سن کر بھی حیرانگی ہو گی کہ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ بھی پہلی دفعہ مشرف نے نہیں بلکہ سکندر مرزا نے امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہی لگایا تھا۔

سکندر مرزا نے 7 فروری 1955ء کو نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:

’’ہم اسلام کے بارے میں بے لگام نہیں ہو سکتے۔ سب سے پہلے پاکستان ہے اور سب سے آخر میں بھی پاکستان ہے۔‘‘

“We cannot run wild on Islam, it is Pakistan first and Pakistan last.”

ایف ایس اعجاز الدین The White House and Pakistan میں لکھتے ہیں :

’’جنرل یحییٰ نے یکم اگست 1969ء کو لاہور میں امریکہ کے صدد نکسن سے علیحدگی میں ملاقات کی اور وزارت خارجہ کو اعتماد میں نہ لیا۔ اس طرح جنرل یحییٰ نے جنرل ایوب کی روایت کو جاری رکھا۔ جنرل ایوب اقتدار کے دوران بڑی طاقتوں سے ذاتی تعلقات استوار کرنے میں ذاتی دلچسپی لیتے رہے اور اداروں کو منظم اور مستحکم نہ ہونے دیا۔‘‘

آج بھی چاہے دفاع کا معاملہ ہو، خارجہ پالیسی ہو یا تجارت، پاکستان کی فوجی اشرافیہ کے تمام فیصلے فقط ذاتی فوائد سمیٹنے تک ہی محدود رہتے ہیں۔ ایسے میں ان سے یہ امید لگانا کہ یہ غزہ کے لیے کچھ کر پائیں گے دیوانے کا خواب ہی ہے اور کچھ نہیں۔

٭٭٭٭٭

Previous Post

عمر ِثالث | چھٹی قسط

Next Post

اسلام مخالف بھارتی حربے اور کشمیری مسلمانوں کی ذمہ داری

Related Posts

اٹھو پاکستان! بیٹی پکار رہی ہے
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

اٹھو پاکستان! بیٹی پکار رہی ہے

13 اگست 2025
کلمے کے نام پر بنے ملک کے دارالامان میں بے آبرو ہوتی قوم کی بیٹیاں
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

کلمے کے نام پر بنے ملک کے دارالامان میں بے آبرو ہوتی قوم کی بیٹیاں

13 اگست 2025
فوجی اشرافیہ کی صہیونیت: پاکستانی فوج غزہ کا دفاع کیوں نہیں کرتی؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

فوجی اشرافیہ کی صہیونیت: پاکستانی فوج غزہ کا دفاع کیوں نہیں کرتی؟

13 اگست 2025
سوات سانحے کا ذمہ دار کون؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

سوات سانحے کا ذمہ دار کون؟

10 جولائی 2025
عمر ِثالث | ساتویں قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | ساتویں قسط

9 جون 2025
سیکولر مزاحمت اور نظام مسائل کا حل نہیں
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

سیکولر مزاحمت اور نظام مسائل کا حل نہیں

7 جون 2025
Next Post
اسلام مخالف بھارتی حربے اور کشمیری مسلمانوں کی ذمہ داری

اسلام مخالف بھارتی حربے اور کشمیری مسلمانوں کی ذمہ داری

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version