اللہ کی معرفت کی راہ میں اللہ کی صفات کو پہچاننا لازم ہے۔ بےشک اللہ کی تمام صفات اس کی شان رفیع کے لائق اعلیٰ اور برتر ہیں۔ انہی صفات جلیلہ میں سے ایک عظیم صفت اللہ کا بے نیاز ہونا بھی ہے۔ یعنی وہ تو غنی ہے وہ بے پرواہ ہے۔ جیسا کہ سورۃ اخلاص میں توحید کے اظہار کے ساتھ اس صفت کو متصل بیان فرمایا:
قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ۚ اَللّٰهُ الصَّمَدُ ۚ (سورۃ الاخلاص: ۱،۲)
’’آپ فرما دیجیے وہ اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔‘‘
پس تحقیق کہ اللہ نے واضح کر دیا کہ ہر لحاظ سے وہ اکیلا ہی ہے اور اس کی مرضی پر کسی کی مرضی غالب نہیں، اس کی چاہت برتر ہے، وہ جو چاہے کرے، جیسا چاہے حکم فرما دے، جس کے ساتھ جیسا چاہے معاملہ فرمائے۔
یہ بات تو ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جسے رب کی رضا چاہیے اسے رب کی مرضی اور منشاء ہی کے مطابق خود کو ڈھالنا ہو گا۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ افعال تو میری مرضی کے مطابق ہوں، نیکیوں کی ترتیب تو من چاہی ہو، لیکن رب کی رضا اور اعلیٰ درجات حاصل ہوں تو وہ خوب جان لے کہ اللہ بے نیاز ہے۔ جس کام کو اس نے نفل رکھا ہے اسے نفل کے درجے میں سمجھنا ہو گا۔ کوئی لاکھ چاہے مستحب عمل مستحب ہی رہے گا، فرض کے درجے پر سبقت نہیں پا سکتا۔ جس وقت اور جن حالات میں اللہ کے جو احکام ہیں انہی کی بجا آوری لازم ہے۔ احکام خداوندی کے سامنے من مرضی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا ۭ (سورۃ الاحزاب: ۳۶)
’’اور جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا حتمی فیصلہ کر دیں تو نہ کسی مومن مرد کے لیے یہ گنجائش ہے نہ کسی مومن عورت کے لیے کہ ان کو اپنے معاملے میں کوئی اختیار باقی رہے ۔ اور جس کسی نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ، وہ کھلی گمراہی میں پڑ گیا ۔‘‘
کسی کو کوئی اختیار نہیں ان امور میں اپنی رائے پر عمل کا جس میں اللہ اور اس کے رسول نے حکم فرما دیا۔ صرف مباح کا وہ دائرہ ہے جہاں گنجائش رکھی گئی ہے۔ لیکن جو رب کی رضا کا حقیقی متلاشی ہے وہ تو مباح امور میں بھی مزاجِ رسول اور شریعت کے مزاج کو دیکھ کر تقوی کے اعلیٰ معیار پر رہنا چاہتا ہے۔ یہی ایک مومن کی شان ہے کہ نفس کی چاہت کو مباح امور میں بھی غالب نہ آنے دیا جائے بلکہ جہاں گنجائش رکھی گئی ہے وہاں بھی وہ عشق حقیقی کی راہ کا مسافر فقط اپنے رب کی رضا کا متلاشی رہے ۔
ہم اس امر کے مکمل قائل ہیں کہ دین کا کوئی بھی کام ہو باعث خیر ہی خیر ہے۔ اجر و ثواب کے علاوہ خیر و برکت اور دنیاوی و اخروی بھلائی مقدر ہو گی ان شاءاللہ۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ دین کے سب کام ایک دوسرے کے مقابل نہیں بلکہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔
تاہم یہ سوال ذہن میں ضرور ابھرتا ہے کہ اگر خطۂ برصغیر کی مثال لیں تو بلا مبالغہ کروڑوں لوگ ہیں جو دعوتِ دین اور تبلیغِ دین سے وابستہ ہیں اور بلاشبہ ان سب کی جدوجہد ان کی اپنی زندگیوں میں اور معاشرے میں باعث خیر و بھلائی ہے۔ لیکن کیا یہ سوال موجود نہیں کہ اس قدر کثیر تعداد میں داعیانِ اسلام اور تحریک ِصوم و صلوۃ کے کارکنان کی شب و روز محنت، ان کا مجاہدۂ نفس، ان کے وقت اور مال کی قربانیاں، سب کچھ ہونے کے نتیجے میں ہونا تو یہ چاہیے کہ معاشرے میں فسق و فجور ختم ہو جاتا اور ہر شخص عابد و زاہد نظر آتا یا کم سے کم غالب اکثریت ایسی ہوتی۔ لیکن اس کے برعکس معاشرہ دن بدن جہالت، گمراہی، فحاشی و عریانی اور بد اعمالیوں کا شکار ہو رہا ہے۔ مساجد میں نمازیوں کی تعداد کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔
چلیں یہ امت اعمال میں تو کمزور ہو سکتی ہے لیکن اپنے آقا و مولیٰ ﷺکی محبت سے ہر خاص و عام سرشار ہے، الحمدللہ۔
یہی وجہ ہے کہ شمع ختمِ نبوت ﷺ کے پروانے ہر گلی نہیں بلکہ ہر مسلم گھر میں موجود ہیں۔ جن کے لیے ناموسِ رسالت اور ختمِ نبوت کا تحفظ ان کی جان و مال، والدین اور اولاد، سب سے بڑھ کر ہے۔ جیسا کہ ایمان کا لازمی تقاضا بھی ہے: حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ.1
”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا، جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔“
یہ بات عام مشاہدہ ہے کہ مسلمان کچھ بھی برداشت کر سکتا ہے لیکن پیغمبر کی شان میں گستاخی تو کجا ادنی سی بےادبی بھی برداشت نہیں کر سکتا اور ہمہ وقت اس کی خاطر کٹ مرنے کو تیار رہتا ہے۔ اس سلسلے میں ختم نبوت و ناموس رسالت کے لیے چلنے والی تحریکات شاہد ہیں کہ ہزاروں جانوں کی قربانی غیور مسلمانوں نے بخوشی دی۔
جب اس سلسلے میں الحمد للہ آج کے دور میں بھی ایسی حساسیت موجود ہے، اتنی تعداد میں مستقل جماعتیں موجود ہیں، ان ممالک میں جہاں کفر کی مکمل عمل داری ہے وہاں قوانین تک منظور کروا لیے گیے ہیں، پھر بھی مقصود اصلی حاصل کیوں نہیں ہو پا رہا؟ یعنی گستاخی کا سلسلہ رک نہیں رہا ہے اور منکرین ختم نبوت کا رسوخ بھی روز بروز بڑھ رہا ہے، یہاں تک کہ لوگوں کے ارتداد کا بھی منظم سلسلہ جاری ہے۔ صرف پاکستان کے اداروں کی رپورٹ کے مطابق چار لاکھ اکاؤنٹ سوشل میڈیا پر گستاخانہ سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ جبکہ کہیں تو عدالتیں گستاخوں کو سزا سنا بھی دیتی ہیں اور کہیں غازیانِ اسلام گستاخوں کو ان کے انجام سے دوچار کر کے جہنم روانہ کر دیتے ہیں۔ لیکن چہ جائیکہ گستاخی جس کا آج سے چالیس پچاس سال پہلے پوری دنیا میں اگر کوئی واقعہ ہوتا تو پوری امت کا غم و غصہ انتہا پر ہوتا تھا۔ آج یہ فعلِ قبیح نجس وجود کفار کے لیے اتنا آسان کیسے ہو گیا؟
حضراتِ صحابہ کرام کی محبت و عقیدت اہل ایمان کو گھٹی میں ملی ہے لیکن اتنی بڑی اور فعال جماعتوں کے ہوتے ہوئے حضرات صحابہ کرام کے متعلق شکوک و شبہات پھیلانے کا سلسلہ اور منظم گستاخی معمول بنتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا ہی نہیں اب تو اس گمراہی کا سلسلہ وسیع ہو کر سر عام مباحثوں اور گمراہ کن پروپیگنڈہ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جبکہ صحابہ کے دیوانوں کی ایک ایک جماعت بھی ہزاروں شہداء پیش کر چکی ہے۔ کئی صاحبِ عزیمت علمائے کرام کی شہادتیں اس مشن پر قائم رہنے کی وجہ سے ہوئیں۔ اتنی قربانیوں کے بعد بھی منکرین صحابہ کی پیش قدمی چہ معنی دارد؟
الغرض آج جس بھی دینی شعبہ کو دیکھا جائے کم و بیش یہی صورت حال درپیش ہے۔
امت کے مخلصین جو اس سلسلے میں امت کی قیادت فرما رہے ہیں یا وہ جانباز جو اپنا مال اور وقت یہاں تک کہ جانیں بھی لٹا رہے ہیں یہ ضرور سوچیں کہ آخر کس چیز کی کمی ہے ۔ کیا ایسا عمل کریں کہ جو ان عظیم مقاصد کے حصول میں معاون ہو۔
احقر کی بھی اس سلسلے میں ایک رائے ہے جس میں غلطی کا امکان ہو سکتا ہے اور ہمیشہ اپنی اصلاح کے لیے اکابرینِ امت کی جانب توجہ رہتی ہے الحمدللہ
دست بستہ گزارش یہ ہے کہ آج دین کے ان شعبوں میں وہ نتائج اس لیے نہیں مل رہے کیونکہ کہیں نہ کہیں محنت کے رخ کا تعین کرنے میں کمی رہ گئی ہے۔ صرف چند لمحات کے لیے سوچیں اگر اسلامی نظام نافذ ہو تو کیا کوئی ختم نبوت کا منکر یا زندیق باقی رہ سکتا ہے؟ کیا ایک صحیح معنوں میں اسلامی ریاست میں ناموس صحابہ کے لیے عوام کو تحریکیں چلانے اور قربانیاں دینے کی ضرورت ہوتی ہے؟ کیا اسلامی ریاست میں تمام کاروبار اور بازار نماز کے اوقات میں بند نہیں کر دئیے جاتے اور ہر شخص جانب مسجد رواں دواں ہوتا ہے یا ریاستی اہلکار اس پر اللہ کی شریعت کے مطابق حکم نافذ نہیں کرتے؟ اسلامی ریاست میں بہن بیٹیوں کی زندگی کو عفت و پاکدامنی کا گہوارہ نہیں بنا دیا جاتا؟ اس کی تازہ مثال امارت اسلامیہ افغانستان کے حالیہ اقدامات ہیں۔ پوری دنیا کے کفار اور ان کے چیلے ہر طرح کا منفی اور جھوٹا پروپیگنڈہ بھی کر کے دیکھ چکے، پریشر بھی آزما کر دیکھ لیا، لیکن عالی قدر امیر المومنین کے احکام میں امت کی بیٹیوں کی پاکیزگی اور عفت کی حفاظت کے سلسلے میں کوئی سمجھوتہ نہ کروا سکے۔ گویا اسلامی ریاست بےحیائی اور فحاشی و عریانی سے بھی اسلامی معاشرے کی نگہبانی کرتی ہے۔
دیگر بھی جملہ مقاصد جن کے لیے کثیر افرادی و مالی وسائل خرچ کیے جا رہے ہیں اسلامی ریاست کے حصول سے با آسانی حاصل ہو سکتے ہیں۔
پھر سب سے بڑھ کر اس حقیقت کا انکار بھی علمی و عقلی طور پر ممکن نہیں کہ منشائے خداوندی بھی یہی ہے کہ اہل ایمان کلمہ پڑھنے کے بعد اہم ترین فریضۂ اقامت دین کی جدوجہد کو لازم پکڑیں۔
جب رب کا حکم بھی یہی ہے اور اس ذریعے سے دیگر تمام عظیم مقاصد کا حصول بھی ممکن ہے، جو تمام تر کوششوں اور قربانیوں کے باوجود حاصل نہیں ہو پا رہے، تو سلیم الفطرت اور خوش بخت مسلمان بھائیوں سے التماس اور التجا ہے ہمیں اپنی محنت کا رخ اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد کی جانب موڑنے کی ضرورت ہے۔ ان شاء اللہ یہی محنت ایک دن بفضل خدا خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے عظیم نصب العین تک امت کو لے جائے گی۔ ہم یکسوئی تو پیدا کریں اور علمائے کرام کی رہنمائی میں رب کی منشاء کو پہچاننے کی تو کوشش کریں۔ ورنہ جس طرح ہم الگ الگ محاذوں پر تقسیم قوت کے ساتھ محنت کر رہے ہیں، بلاشبہ اللہ سے اس سعی پر اجر کے امیدوار تو ضرور ہیں، لیکن ان عظیم مقاصد کے حصول کی خاطر ہمیں جہاد فی سبیل اللہ کے فریضے کی طرف لوٹنا ہو گا۔ اس مبارک راہ پر بھی شہادتیں تو ہوتی ہیں لیکن یہ وہ راستہ ہے جس پر قربانی کم اور ثمر زیادہ ملتا ہے۔ سو سو سال سے قائم جماعتوں کے لیے امارت اسلامیہ افغانستان کی جدوجہد میں بہت سے اسباق ہیں۔ آج اگر خطۂ صومال آزادی کے دروازے تک آ پہنچا ہے تو یہ جہاد فی سبیل اللہ ہی کی برکت ہے۔
جب کام اللہ کے لیے کرنا ہے تو ضد کیسی اور تعصب کیسا؟ جس میں اس کی رضا ہو، بندے کو وہی منہج اپنانا چاہیے اور پیکرِ تسلیم و رضا بن کر دنیا و آخرت میں کامیابی سمیٹنی چاہیے اور اگر اپنی عقل یا رائے کو مقدم جانے گا تو پھر یہ بھی خوب خوب جان لے کہ وہ اللہ بے نیاز ہے!
٭٭٭٭٭
1 صحيح البخاري: 15 (متفق علیہ)