اللہ نے کائنات کو یوں تو عجائب سے بھر دیا ہے۔ ہر سو اس کی قدرت گری کے جلوے ہیں۔ تاہم اللہ کے تخلیق کردہ ان عجائب میں انسانی عقل کا ایک اپنا ہی مقام ہے۔ کئی نئے عجائب تو اس انسانی عقل نے بنا کر دکھا دئیے ہیں، وہ سائنسی ترقی ہو یا تعمیرات کے عجائب سب کے سب دراصل اللہ کی عطا کی گئی عقل کے کرشمے ہیں۔ ہر دور میں عقل کو انسانی ترقی ، تمدن ، سیاست اور عسکریت میں خاص دخل رہا ہے۔ تاہم دور حاضر جسے دجال کے خروج کی تیاریوں کا دور بھی مانا جاتا ہے اس حوالے سے ایک الگ ہی مثال قائم کیے ہوئے ہے۔ زمانہ قدیم میں بلکہ ایک ڈیڑھ صدی قبل تک بھی عموماً غنیم پر حملہ کر کے اسے زیر کیا جاتا تھا۔ فریقین میں اپنی اپنی بساط کے مطابق تیاری کرنے پر تصادم ہوتا تھا جو فریق طاقتور ثابت ہوتا تھا اور دوسرے کو میدان کار زار میں پچھاڑ دیتا تھا وہی تسلط جمانے کا حق دار ٹھہرتا تھا۔ گویا سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہوتا تھا ہر گروہ کے افراد اپنا پورا پورا زور فاتح بننے پر لگاتے تھے۔ جو غدار ہوتا تھا اسے معلوم ہوتا تھا کہ وہ ضمیر کا سودا کر چکا ہے اور اپنی ملت سے غداری کا مرتکب ہو رہا ہے۔ تاہم عصر حاضر میں ابلیسی قوتوں نے یہ دجل ممکن کر دکھایا ہے کہ ایک انسان پورے اخلاص سے کام کر رہا ہوتا ہے لیکن اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی توانائیاں دشمن کے پلڑے کا وزن بڑھا رہی ہیں۔ علامہ اقبال نے ذیل میں درج اشعار میں موجودہ حالات کی کیا عمدہ تصویر کشی کی ہے۔
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے ساز بدلے گئے
ہوا اس طرح فاش رازِ فرنگ
کہ حیرت میں ہے شیشہ بازِ فرنگ
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے
گیا دورِ سرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کر مداری گیا
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
دلِ طورِ سینا و فارا ں دو نیم
تجلی کا پھر منتظر ہے کلیم
مسلماں ہے توحید میں گرم جوش
مگر دل ابھی تک ہے زنار پوش
تمدن، تصوف، شریعت، کلام
بتانِ عجم کے پجاری تمام
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
لبھاتا ہے دل کو کلامِ خطیب
مگر لذتِ شوق سے بے نصیب
مومن کی تو یہ شان ہوتی ہے کہ وہ ایمان کی بصیرت سے آئندہ آنے والے حالات کی بھی پیش بندی کر لیتا ہے کجا یہ کہ ماضی و حال بھی کسی کی عینک کے زاویے سے دیکھے۔ آج دجالی طاقتیں ایسا ماحول پیدا کر چکی ہیں جہاں اہل ایمان انجانے میں اپنا وزن کفر اور شیطان کے پلڑے میں ڈال رہے ہیں۔
امت کا ایک گروہ رسوم کو عبادات سمجھ کر انہی کو کل دین بنائے بیٹھا ہے اور سارا زور دیگر سے ان رسوم کی حقانیت تسلیم کروانے پر صرف کر رکھا ہے۔ کفر کے مظالم اس کی سازشیں اور دین پر حملوں سے یکسر چشم پوشی ہے۔ کئی ایسے ہیں جو اوہام اور شخصیت پرستی کو دین بنا کر مال اور وقت کی پونجی بے دین اور فاسق و فاجر اشخاص پر لٹانے کو دینی خدمت سمجھے بیٹھے ہیں۔ کئی دشمن کے بنائے ہوئے نظاموں میں اپنے لیے خیر کی تلاش میں زندگی وقف کیے بیٹھے ہیں۔ کئی تو ایسے ہیں جو انسانی حقوق کے نام پر بنائے گئے ڈھکوسلوں کو مذہب اور دین کی اصل خدمت سمجھ بیٹھے ہیں۔ ان کے نزدیک نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ حتیٰ کہ جہاد فی سبیل اللہ کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ کائنات کے بدترین ظالم و جابر لوگ ا ن کو یہ پڑھا چکے ہیں کہ غزہ میں جاری انسانیت سوز مظالم ہوں یا کشمیر و برما کی داستان ظلم، افغانستان میں لاکھوں انسانوں کے قاتل ہوں یا شام کی بیٹیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والے، ان سب کے مظالم سے چشم پوشی کر کے خواتین کو بے حیاء بنانے کی مہمات اور اللہ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی کرنے والے مجرموں کی وکالت اصل انسانیت ہے۔ ان کے نزدیک انسانیت فقط یہ ہے کہ لوگوں کو فکر آخرت سے موڑ کر حرص و ہوس کا پجاری بنا دیا جائے۔ لیکن افسوس وہ اس سب کو حق گوئی اور بعض اوقات تو اللہ کے پسندیدہ کام کہتے ہیں۔ کیسی ناقص عقل اور کیسے ناقص افکار ہیں۔
اسی طرح امت کی توانائیاں ایک دوسرے سے لڑنے میں صرف کی جا رہی ہیں۔ فروعی اختلافات کو مقصد زندگی بنا کر طاغوت کے مقابل کھڑے ہونے میں مجرمانہ غفلت کیسی دین داری ہے؟
مذہب وہ واحد چیز نہیں جس میں امت آپس میں باہم دست و گریباں ہے بلکہ کفار کی کھینچی گئی یہ لکیریں جن کا مقید آج کا مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی خیر خواہی اس لیے بھول بیٹھا ہے کیونکہ وہ لکیر کے اس پار موجود ہے۔ وطن پرستی ہی کے بت کا سہارا لے کر جہاں وطنی فوجوں سے شریعت کی خواہش رکھنے والوں پر مظالم کروائے جاتے وہیں، دنیا بھر میں بسنے والے مواخاتِ مدینہ کے وارثین کو الگ کر رکھا ہے، ان میں پھوٹ ڈالی گئی ہے۔ آج کا مسلمان تقویٰ کی بنیاد پر نہیں بلکہ وطنی لکیروں کی بنیاد پر دوسرے مسلمان سے اپنے اخلاص اور محبت کی بنیادیں استوار کرتا ہے۔
آپسی تقسیم کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ زبان کی بنیاد پر بھی نفرتوں کا بازار گرم ہے۔ وہ قوم جو عربی، عجمی، فارسی، ترک یا خراسانی کی بنیاد پر نہیں بلکہ کلمہ لا الہ الااللہ کی بنیاد پر کندھے سے کندھا ملا کر بہادری کے جوہر دکھایا کرتی تھی آج بنیان مرصوص کے مفہوم سے ناآشنا ہو چکی ہے، بلکہ اسے بھی وطنیت کے اسلامی لبادے کے طور پر استعمال کرتی نظر آتی ہے۔
کسی کو یہ فلسفہ تھامنے میں راحت محسوس ہوتی ہے کہ محض انفرادی عبادات کل دین ہیں اور کفر کی حاکمیت کے مقابلے میں اعلائے کلمۃ اللہ کی کوئی حاجت ہی نہیں۔ یہ اس قوم کی فکری پستی کی انتہا ہے جس کے اسلاف نے چار دانگ عالم میں اسلام کا پھریرا لہرایا تھا۔
کیا کھیل کود کو کوئی مسلمان اوڑھنا بچھونا بنا سکتا ہے؟ کیسے ملک کا نام روشن کرنے کے لاحقے نے اسے جائز اور مقصود بنا دیا۔
حتیٰ کہ موسیقی تک کو بطور پیشہ اپنا کر اس پر منعقد مقابلہ جات میں انعام یا کامیابی کو کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔
مذہبی جماعتوں کو کیسے کسی ایک دینی حکم کو کل سمجھ کر باقی جمیع احکام سے غفلت کی لوری سنا دی جاتی ہے۔ عالمی سیاست کی بساط پر کفر کیا چالیں چل رہا ہے اس سب سے بے خبر اکثر مذہبی جماعتیں ان کے کارکنان بشمول بعض قائدین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں اس قدر منہمک نظر آتے ہیں گویا ان سے زیادہ ضروری فریضہ کسی کے ذمہ ہی نہ ہو۔
تعلیمی اداروں میں جتنی تحقیق ہوتی ہے یا سائنسی پیش رفت ہوتی ہے اس تمام کا ریکارڈ ایک مربوط نظام کے تحت اہل مغرب کو بھیجا جاتا ہے۔ ایسا نظام وضع کر دیا گیا ہے اگر ہزاروں سال بھی اس ڈگر پر چلتے رہیں تو اہل مغرب، جو گمراہی کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں، ان کے ہی پیچھے چلنا پڑے گا، سائنس یا ٹیکنالوجی میں ان سے سبقت کا موقع ہی موجود نہیں۔
مسلم آبادی والے ممالک کی افواج یا تو وطنی نعروں سے تربیت یافتہ ایسی افواج ہیں جو مذہب کے مفہوم اور اسلام کے مفادات سے یکسر ناآشنا لکیروں کے دفاع کے لیے ہیں یا انہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ اللہ کے دین کے لیے اٹھنے والی ہر آواز کو درندگی اور سفاکی سے کچل دیا جائے۔ عوام کو انجان رکھ کر یا اعلانیہ بہر صورت ان حکمرانوں کا غلام رکھا جائے جو خود طاغوتی طاقتوں کے غلام ہوں۔
لیکن ایسے افراد جو ان افواج یا اداروں کا حصہ ہیں وہ اس ساری خدمت کو ہرگز شیطان کی خدمت نہیں سمجھتے بلکہ اسے سرکاری خطیبوں یا واعظین کی تشریحات کے مطابق افضل عبادت گردانتے ہیں۔
ایک بدنصیب گروہ وہ لوگ ہیں جو دین کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں اور صوم و صلوٰۃ کی بھی پابندی کرتے ہیں۔ لیکن انہیں ہدف کے تعین اور جذبات کو صحیح رخ پر ڈالنے کی سعادت نصیب نہیں ہو رہی بلکہ ان کی توانائیاں بھی کفر ہی کے مفادات کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں۔ مثلاً خوارج زمانہ کو ایک ہتھیار کے طور پر دنیا بھر میں کفار استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے جذبات ان کی آنکھوں پر پٹی کی طرح باندھ دئیے جاتے ہیں اور قتل ناحق کی حرمت ان کی آنکھوں سے محو کر دی جاتی ہے۔ وہ ہر مسلمان پر کفر کے فتوے بلا جھجک صادر کرتے ہوئے کفار کو چھوڑ کر مسلمان اور علماء تک کے قتل کے درپے ہیں۔ کچھ نوجوانوں کو ادارے اچک کر ان سے اپنے مخالفین کو دین کے نام پر قتل تک کروا دیتے ہیں اور آخر میں سارا ملبہ دین اور جہاد پر ڈال دیا جاتا ہے۔
ایسے میں امت کی بنیادی ضروریات میں سیاسی شعور شامل ہے تا کہ امت کے مفادات کا شعور عام کیا جا سکے۔ ایک مسلمان کو معلوم ہو کہ اس کا ہدف کیا ہونا چاہیے اور اسے کسی عنوان کے پیچھے بھاگنے کے بجائے ٹھوس حقائق اور علم و کردار کی بنیاد پر راہ کا تعین کرنا چاہیے۔
الحمد للہ دنیا خیر سے خالی نہیں اگر آج بھی کوئی نیت کرے اور اخلاص سے اللہ کے حضور میں راہ ہدایت پر چلنا مانگے تو دنیا بھر میں مجاہدین کا نظم اور مجموعات کفر سے بر سر پیکار ہیں۔ وہ ہر چیز پر قادر رب کیسے فاصلے مٹا کر اسے قافلہ حق کا راہ رو کر دے گا یہ اس کے تصور میں بھی نہ ہو گا۔
اس وقت تو امریکہ ہی عالمی کفر کا سرغنہ ہے۔ دنیا بھر میں اس کے مفادات ہیں۔ ان مفادات کو سمجھنا اور ان کے خلاف متحرک ہونا سادہ سا لائحہ عمل ہے۔ اسی طرح معاشرے میں خیر کو عام کرنا، بے حیائی کا تدارک اور ہر معاملے میں شریعت کی موافقت اختیار کرنا وہ سچا اور سیدھا راستہ ہے جو سیدھا جنت تک جاتا ہے۔ مایوسی کبھی ایک مومن کے شایان شان نہیں ہو سکتی۔ اگرچہ حالات کٹھن ہیں لیکن یہی تو دہرے اجر کا ذریعہ ہے۔
اللہ کے دین کا نفاذ وہ واضح اور اعلی مقصد ہے جسے نصب العین بنانا بہت سے لغو کاموں سے اور کئی فتنوں سے انسان کو محفوظ بنا دیتا ہے۔ لیکن محض دعوے اور حقیقت کے فرق کو سمجھنا اور ہر آن ہر گھڑی رب کی بارگاہ میں دعاگو رہنا یہی وہ کلیہ ہے جو حق کو سمجھ کر صحیح سمت کے انتخاب میں معاون ہے۔
اللہ امت مسلمہ کی مدد و نصرت فرمائے جادۂ حق کا سفر طے کرنا نصیب فرمائے۔ آمین
٭٭٭٭٭