نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | تیسری قسط

مدارس اور دینی جدوجہد کی تحریک

عبد الہادی مجاہد by عبد الہادی مجاہد
25 مئی 2025
in فکر و منہج, اپریل و مئی 2025
0

زیرِ نظر تحریر افغانستان سے تعلق رکھنے والے عالم، داعی اور فکری جنگ پر دقیق نظر رکھنے والے مفکر فضیلۃ الشیخ مولوی عبد الہادی مجاہد (دامت برکاتہم)کی پشتو تصنیف ’مدرسہ او مبارزہ‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ کتاب بنیادی طور پر افغانستان میں مدارس اور دینی تعلیم کے نظام کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھی گئی ہے ، لیکن کتاب میں بیان کی گئی امت مسلمہ کی حالت اور اس حوالے سے جو مطالبہ ایک افغان عالم ِاور مدرسے سے کیا گیا ہے وہ درحقیقت باقی عالمِ اسلام کے علماء اور مدارس سے زیادہ مطلوب ہے۔ اس لیے کہ افغانستان میں تو آج ایک شرعی و اسلامی حکومت قائم ہو چکی ہے جبکہ باقی عالَمِ اسلام اس سے کہیں پیچھے ہے۔ اس کتاب کے اصل مخاطبین علماء و طلبہ ہیں جن کی تاریخ بالاکوٹ، شاملی، صادق پور اور دیوبند کے پہاڑوں، دروں، میدانوں اور مساجد و مدارس کے در و دیوار پر نوشتہ ہے! ومن اللہ التوفیق! (ادارہ)


فصلِ اوّل: عالمِ اسلام میں اغیار کی تعلیم اور اس کے نتائج

قوموں اور نظاموں کی تعمیر و تخریب میں تعلیم، افکار اور ثقافت کا کردار

تعلیمی نصاب ہر قوم کے دینی، اخلاقی، سماجی اور وجدانی تعمیر کے لیے ایک سانچہ ہوتا ہے۔ سانچہ جیسا بنایا گیا ہو اور اس میں جو نقش و نگار کندہ کیے گئے ہوں، وہی اُس قوم کی دینی، اخلاقی، سماجی، ادبی اور وجدانی ساخت میں نمایاں نظر آتے ہیں۔

اگر تعلیمی نصاب کے مفاہیم اور اقدار اپنے (مقامی) ہوں، تو اُس نصاب کے طلبہ اور اس کی بنیاد پر پروان چڑھنے والی نسل بھی اپنی قوم کے اقدار اور اُس کے سماجی نظام سے وفادار ہوگی اور اگر تعلیمی نصاب کے مفاہیم اور اقدار غیروں کے ہوں، تو اس نصاب کو پڑھنے والے طلبہ بھی غیروں کے وفادار اور اُن کی اتباع کرنے والے ہوں گے۔

ہر قوم کی بقا، آزادیاور عزت مندی کے اسباب اور عوامل اُس قوم کی ثقافت اور معنوی اقدار میں پوشیدہ ہوتے ہیں اور جو قوم اپنی ثقافت اور معنوی اقدار سے ہاتھ دھو بیٹھے، وہ اپنا وجود بھی کھو بیٹھتی ہے، نہ وہ دیگر اقوام سے مقابلہ کر سکتی ہے اور نہ ہی اُن میں ضم ہونے سے خود کو بچا سکتی ہے۔

تعلیمی نصابوں کا مواد عمومی طور پر دو قسم کے مفاہیم پر مشتمل ہوتا ہے:

  1. قواعد یا فارمولے

  2. دینی اور سماجی مفاہیم

قواعد یا فارمولے، چاہے وہ لسانی (گرائمر یا ادبی) قواعد ہوں یا سائنسی و تجرباتی علوم کے فارمولے، تمام انسانوں کے درمیان مشترک ہوتے ہیں۔ یہ قواعد اور علوم کسی قوم کے دین، عقیدے، اخلاق، ذوق، وجدان، سماجی ساخت یا قومی اقدار سے متعلق نہیں ہوتے، لہٰذا ان میں کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔

اگر کوئی قوم دوسرے سے (علمی) قواعد یا فارمولے حاصل کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ ضروری ہے کہ قومیں ایک دوسرے سے یہ علوم حاصل کریں تاکہ ان کو سیکھ کر تمام اقوام مادی اور لسانی ارتقاء کی راہ پر گامزن ہوں۔ اور اگر وہ ایسا نہ کریں، تو وہ انسانی مشترکہ علوم اور تجربات سے اپنا حصہ نہ لے سکیں گے، اور شعوری طور پر خود کو ترقی کے قافلے سے پیچھے رکھ کر دوسروں کے محتاج بنا دیں گے۔

لیکن دینی اور سماجی مفاہیم وہ چیزیں ہیں جو مختلف قوموں کی سماجی شناخت اور ان کے دینی و فکری تشخص کا تعین کرتے ہیں اور معاشرے و افراد کے معنوی اقدار کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایسے مفاہیم ہر قوم اور ملت کے دیگر اقوام سے جداگانہ ہوتے ہیں، اور یہی فرق حکمِ الٰہی کے مطابق بھی ہے اور انسانی فطرت کے تقاضوں کے بھی عین مطابق بھی ہے۔

دوسری جانب دینی و سماجی مفاہیم اور معنوی اقدار ایسی چیزیں ہیں جن کی حفاظت قومیں اپنی ذمہ داری سمجھتی ہیں، انہیں اپنے تعلیمی نصاب میں پڑھاتی ہیں، اور آگاہی و ذہن سازی کے سماجی نظاموں اور ذرائع کے ذریعے اپنی نسلوں کو منتقل کرتی ہیں۔ اسی طرح وہ ان اقدار کی مادی و معنوی حفاظت کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار رہتی ہیں۔

جہاں ایک طرف تعلیم، فکر اور ثقافت قوموں کی مادی و معنوی بقا اور تسلسل کی ضمانت کے عوامل ہوتے ہیں، وہیں دوسری طرف یہی تعلیم، فکر اور ثقافت جب غیروں کے قبضے میں چلے جائیں تو قوموں کی مادی و معنوی تباہی کے اسباب بھی فراہم کرتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی فاتح قوم کسی قوم و ملک پر قابض ہوتی ہے، تو سب سے پہلے اُس کے تعلیمی نصاب میں مداخلت کرتی ہے، اور اُسے اس انداز میں ڈھالتی ہے کہ اُن کے اپنے مقاصد کی تکمیل یقینی ہو جائے۔

اسلامی دنیا میں حالیہ فکری و تعلیمی یلغار کا پس منظر

گزشتہ ڈیڑھ صدی سے، جب عالم اسلام کے مختلف ممالک کے تعلیمی نصاب اور ذہن سازی کے لیے ثقافتی و ابلاغی ذرائع اہلِ مغرب اور روسیوں کے زیرِاثر اور کنٹرول میں چلے گئے، تو اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی ذہن سازی کا عمل اور سماجی ثقافت کی تشکیل کے ادارے اور ذرائع ایسے سیاسی اور ثقافتی ذمہ داران کے ہاتھوں میں چلے گئے جو سیکولر مغرب اور کمیونسٹ سوویت یونین کے نظریات سے متاثر تھے۔

ان سیاسی، تعلیمی اور ثقافتی ذمہ داران نے عالمِ اسلام میں کفری نظریات کے پھیلاؤ کی راہ ہموار کی، جس کے نتیجے میں شریعتِ ربانی کی بالادستی ختم ہو گئی، عالم اسلام پر غیروں کے منظورِ نظر افراد مسلط ہو گئے اور ایسے مغرب نواز سیاسی نظام قائم ہوئے جنہوں نے اپنے تمام وسائل شریعت محمدی کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ بننے کے لیے استعمال کیے۔

عالمِ اسلام پر مسلط مغرب نواز اور کمیونسٹ نظاموں نے نہ صرف سیاست، ثقافت، اور تعلیمی نظام و نصاب کے ذریعے پورے عالمِ اسلام میں شریعت کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں بلکہ مسلم اقوام پر سوویت یونین کے ’’کمیونزم‘‘، مغرب کے ’’فاشسٹ لبرل ازم‘‘، امریکہ کے ’’پریگماٹزم‘‘ اور ’’صلیبیت‘‘ اور موجودہ یورپ کی سیاسی منافقت یعنی ’’میکیاولیزم‘‘ جیسے تمام ظالمانہ نظاموں کے تجربات کیے۔

ان نظاموں نے اسلامی دنیا کی خود مختاری ختم کر دی اور مسلمان اقوام کو سیاسی، عسکری، اقتصادی، ثقافتی اور سماجی لحاظ سے روسیوں، یورپیوں اور امریکیوں کی کاسہ لیسی پر مجبور کر دیا۔

قوموں پر تعلیم کے ذریعے قبضہ جمانے کی سب سے واضح مثال ہندوستان میں برطانوی استعمار کے تعلیمی نصاب کے بانی ’’لارڈ میکالے‘‘ کی حکمت عملی تھی، جس نے کہا تھا:

’’ہمیں ہندوستان میں ایک ایسی نسل تیار کرنی چاہیے، جن کا رنگ اور خون تو ہندوستانی ہو، لیکن ان کی فکر، ذوق اور اخلاق برطانوی ہو، تاکہ وہ برصغیر کی اس وسیع آبادی کو زیر کرنے میں ہماری خدمت انجام دے سکے۔‘‘

لارڈ میکالے کی تعلیمی حکمتِ عملی صرف ہندوستان تک محدود نہ تھی، بلکہ وسیع پیمانے پر تمام نوآبادیاتی اسلامی ممالک میں نافذ کی گئی، جس کے خطرناک نتائج برآمد ہوئے اور اس کے تباہ کن اثرات نے فکر، ثقافت، سیاست اور عسکریت کے میدانوں میں پوری اسلامی دنیا کو مغرب کا تابع بنا دیا۔ بہت سے مسلمان فکری اور عملی لحاظ سے حقیقی اسلام سے ہٹ گئے اور مغربی طرزِ فکر و عمل کو اپنا لیا۔

عرب دنیا کو زیر کرنے کے لیے بھی برطانوی استعمار نے تعلیم کو بطور آلہ استعمال کیا۔ جب ۱۸۸۲ء میں مصر برطانیہ کے ہاتھوں سقوط کا شکار ہوا، تو اُس وقت برطانوی حکومت نے مصر میں تعینات اپنے گورنر لارڈ کرومر سے کہا کہ برطانوی تسلط کو مضبوط بنانے کے لیے جس چیز کی بھی ضرورت ہو، وہ مرکزی حکومت سے مانگ لے۔

لارڈ کرومر نے برطانیہ سے فوجی وسائل یا افواج طلب کرنے کے بجائے ’’تعلیمی ماہرین‘‘ مانگے۔ برطانوی حکومت نے اس درخواست کے جواب میں لارڈ کرومر کے پاس ڈوگلس ڈنلوپ کو بھیجا، جو مسیحی الٰہیات (Christian Theology) کی شاہی فیکلٹی سے فارغ التحصیل ایک عیسائی عالم تھا۔

ڈوگلس ڈنلوپ نے مصر کے لیے ایک ایسا تعلیمی نظام اور نصاب تیار کیا جس نے نہ صرف الازہر کے تعلیمی اور روحانی اثرات کو ختم کیا، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مصر میں ایک ایسی نسل پروان چڑھائی، جس نے ملک کے مستقبل کو اسلام سے بیگانہ کر دیا اور انگریزوں کے رنگ میں رنگ دیا۔ جب مصر کا تعلیمی نصاب سیکولر ہو گیا، تو اس کے بعد تقریباً پوری عرب دنیا کے تعلیمی نصاب بھی سیکولر بنا دیے گئے، اور اُن کے حکمران بھی مغرب کے راستے پر چل پڑے، جو کہ آج تک اسی راہ پر گامزن ہیں۔

اسی حکمتِ عملی کے تحت انیسویں اور بیسویں صدی میں نوآبادیاتی قوتوں جیسے برطانیہ، فرانس، روس، پرتگال، سپین اور اٹلی نے عالمِ اسلام کے اپنے نوآبادیاتی علاقوں میں ایسی نسلیں تیار کیں، جو ظاہری طور پر استعمار کے خاتمے کے بعد بھی سالہا سال تک اپنے ممالک میں نوآبادیاتی پالیسیوں کے نفاذ اور تسلسل کی ضمانت بن گئیں۔

اور یہی وہ نسل تھی جو استعمار کے تیار کردہ نصاب کے ذریعے پروان چڑھی، اور اسلامی شریعت و اسلامی اقدار کو ختم کرنے میں نوآبادیاتی قوتوں سے بھی زیادہ سرگرم اور سخت گیر ثابت ہوئی۔

اس نوآبادیاتی تعلیمی حکمتِ عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جتنا زیادہ اسلامی ممالک میں اسکول، یونیورسٹیاں اور دیگر تعلیمی ادارے بنتے گئے، اُتنا ہی لوگ اسلام سے دور ہوتے چلے گئے، اور معاشرے فکری گمراہی اور اخلاقی انحطاط کی طرف بڑھنے لگے۔ ان اسلامی ممالک کے حکمران، جو انہی نوآبادیاتی نصابوں کی پیداوار تھے، غلامی کو آزادی پر ترجیح دینے لگے، اور ان کی نظر میں وہ تمام لوگ جو آزادی اور حریت کے خواہاں اور اس کے لیے کوشش کرتے ہیں، وہ رجعت پسند، بنیاد پرست، اور تہذیب کے دشمن ہیں، جن کی سزا جیل، جلاوطنی یا قتل کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔

بیسویں صدی کے آغاز سے جب سے امریکہ نے عالمِ اسلام اور عمومی طور پر مشرق پر غلبے کی کوششیں شروع کیں، تب سے ہی اس نے مسلمانوں پر سیکولر (لادینی) تعلیم کو مسلط کرنے کی خطرناک کوششیں بھی شروع کر دیں، اور اس میدان میں وہ یورپی نوآبادیاتی ممالک سے بھی آگے نکل چکا ہے۔

امریکیوں نے عالمِ اسلام کے تقریباً تمام تعلیم و تربیت کے اداروں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنے نصاب، ضوابط، قوانین اور تعلیمی ماحول کو سیکولر (لادین) بنیادوں پر قائم کریں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہی دین ہے جو لوگوں کو مغرب کے ملحد نظریات اور نوآبادیاتی استعمار کی سامراجی خواہشات کے خلاف کھڑا کرتا ہے اور انہیں مزاحمت کی طاقت بخشتا ہے۔

امریکہ نے جب افغانستان پر فوجی یلغار کی تو یہاں بھی یہی طریقہ اپنایا، اور اپنے قبضے کے دوران تین مرتبہ افغانستان کا تعلیمی نصاب تبدیل کیا۔ ہر بار تبدیلی میں تدریجی طور پر وہ مضامین نکال دیے گئے جو طلبہ کو حقیقی اسلام، جہاد، مزاحمت، آزادی، اور کفار سے نفرت کے مفاہیم سکھاتے تھے۔ ان مفاہیم کی جگہ امریکہ نے منظم انداز میں ایسے نظریات شامل کیے جو نسلِ نو کو جہاد اور مزاحمت کی روح سے محروم کر دیں، اور لاشعوری طور پر انہیں ہر چیز میں مغرب سے جُڑنے اور متاثر ہونے کی ترغیب دیں۔

تعلیم کو سیکولر بنانے کے طریقے

مغرب نے ابتدا میں مندرجہ ذیل دو راستوں سے اسلامی ممالک میں تعلیم کو لادین (سیکولر) بنانے کی کوششیں شروع کیں:

  1. مغربی ممالک نے ایک منظم حکمت عملی کے تحت اُن مسلمان نوجوانوں کو، جو اعلیٰ تعلیم کے لیے مغرب گئے تھے، صرف سائنسی علوم ہی نہیں بلکہ مغربی ثقافت اور مادی فلسفے میں بھی تربیت دی۔ ان ممالک نے مختلف ذرائع اور اسکالرشپس کے ذریعے ذہین اور باصلاحیت نوجوانوں کو چُنا، انہیں مغرب میں مدعو کیا، اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد انہیں اپنے نوآبادیاتی ممالک میں اختیارات سونپے۔

ان نوجوانوں نے واپس آ کر انہی مغربی نظریات کو، جن پر وہ وہاں تربیت پا چکے تھے اور جنہیں وہ اپنا چکے تھے، اسلامی ممالک میں نصاب، قوانین، اور نظام کے ذریعے نافذ کیا، اور اپنے ملکوں کے تعلیمی نصاب انہی مغربی افکار پر قائم کر دیے۔

افغانستان میں اس قسم کے افراد کی ایک واضح مثال خود کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی کی ہے، جو بیروت کی امریکی یونیورسٹی میں امریکی منصوبہ سازوں کے ہاتھوں تربیت یافتہ تھا، اور کئی مراحل سے گزرنے کے بعد انہی امریکیوں کے ذریعے افغانستان کا صدر مقرر کیا گیا، تاکہ یہاں امریکی اہداف اور ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے وسیع میدان ہموار کرے اور ان مقاصد کے لیے پوری تندہی سے کام کرے۔

  1. استعماری ممالک نے اپنے نوآبادیاتی علاقوں میں ایسے اسکول، یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے قائم کیے جن کا نصاب، اساتذہ، قواعد و ضوابط اور تمام تر نظام براہِ راست نوآبادیاتی حکمرانوں کے کنٹرول میں تھا۔ ان اداروں میں زیر تعلیم طلبہ اکثر ان ملکوں کے بااثر خاندانوں اور حکومتی اہلکاروں کی اولاد ہوتے تھے، جو وراثتی طور پر نظام و حکومت میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔

ان دونوں طریقوں کے نتیجے میں ایسے تعلیمی ذمہ داران، اساتذہ، مفکرین اور فوجی اہلکار پیدا ہوئے جنہوں نے اسلام دشمنی اور مادی زندگی کے فلسفے کو منظم طریقے سے مغربی اقوام سے سیکھا ہوا تھا، اور اس نظریے کے لیے کام کرنا، اس کی نشرواشاعت اور اسے فروغ دینا ترقی اور روشن خیالی کے عنوان سے اپنا مشن اور باعثِ فخر سمجھتے تھے۔

عالمِ اسلام میں مغرب نواز قوتوں کا تسلط اس بات کی ضمانت فراہم کرتا ہے کہ اسلامی ممالک کی تمام سیاسی، اقتصادی، فوجی، تعلیمی، فکری اور ثقافتی سرگرمیاں مغرب کی مرضی کے مطابق ترتیب دی جائیں گی۔ اسلامی ممالک میں وہ تمام عوامل جو ان شعبوں میں مغرب کے اہداف کی تکمیل میں رکاوٹ بنتے ہیں، انہیں ختم کر دیا جائے گا۔ یہی صورتحال عالمِ اسلام کے مختلف ممالک میں بار بار دیکھی گئی۔

مغربی تعلیمی مشیروں نے تعلیمی نظام کو کیسے دین کے خلاف استعمال کیا؟

تمام اسلامی ممالک میں استعماری مغربی ممالک نے اپنے تعلیمی ماہرین اور مشیروں کو مختلف دباؤ یا تعلیمی امداد فراہم کرنے کے بدلے یا دیگر طریقوں سے تعلیمی نصابوں سے وہ تمام مفاہیم نکالنے کے لیے کام پر لگایا، جو استعمار کے اہداف کی تکمیل میں رکاوٹ بنتے تھے۔

پہلے مرحلے میں ان نکالے گئے مضامین میں سب سے پہلے اسلامی تاریخ کو نکالا گیا، اور اس کے بعد قرآن کریم کی آیات، احادیث نبویہ اور وہ تمام نظریاتی مواد کو یا تو مکمل طور پر نصاب سے نکال دیا گیا، یا اس انداز میں مسخ یا جزوی طور پر پیش کیا گیا کہ وہ اسلام کے بارے میں کسی بھی فائدے کے مقابلے میں زیادہ نقصان دہ ثابت ہوں۔

ایک طرف تو نصابِ تعلیم سے اسلامی مفاہیم نکالے گئے، تو دوسری طرف عالمِ اسلام کے نصابوں میں مغربی دنیا کی سیاسی، اقتصادی، فکری اور اخلاقی اقدار کو وسیع پیمانے پر جگہ دی گئی، اور کوشش کی گئی کہ تعلیم یافتہ افراد کے سامنے مغرب کو ایک ’’مثالی‘‘ معاشرے کے طور پر پیش کیا جائے، جس کے نتیجے میں مشرق اور اسلام سے ایک منفی تصور قائم ہوا، جبکہ مغربی اقدار سے مرعوب اور اسے اپنانے پر فخر کرنے والی نسل کو پروان چڑھایا گیا۔

سرکاری تعلیمی نصابوں میں دین کی عدم قبولیت کو معیار بنانے کی سازش

ہر تعلیمی ادارے میں پڑھنے والے طلبہ اپنے ماحول سے اثر لیتے ہیں اور جو کچھ اپنے ادارے میں ماحول پاتے ہیں، اسی معیار کے مطابق خود کو ڈھالتے ہیں۔

مغرب نے عالمِ اسلام کے تمام ممالک کے تعلیمی نصابوں میں اسلام کے اثرات کو ختم کرنے یا کم سے کم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے کو استعمال کیا، اور ۱۹۷۷ء میں یونیسکو (اقوام متحدہ تعلیمی، علمی و ثقافتی تنظیم) کے دائرہ کار میں ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا ۔ اس ادارے کی سربراہی اقوام متحدہ میں برطانیہ کا سابق سفیر لارڈ کیراڈن کر رہا تھا۔ اس ادارے کے ۳۵ ارکان تھے جن میں سے ۱۰ اسلامی ممالک کے ’’سیکولر‘‘ حکومتی نمائندے تھے، اور باقی ۲۵ ارکان اسرائیل اور مغربی ممالک کے تھے۔

اس ادارے نے اس موضوع پر کام کیا کہ کیسے تعلیمی نصابوں میں مختلف مذاہب کے مشترک نکات پر توجہ مرکوز کی جائے اور نصابوں میں ایسے مواد اور مفاہیم کی روک تھام کی جائے جو ’’دین‘‘ کو اخلاقی معیار کے طور پر پیش کرتے ہوں۔

اس ادارے نے تمام اسلامی ممالک کی نصاب کمیٹیوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ اپنے نصاب کو اس طرح ترتیب دیں کہ اسلام کا اثر کم سے کم ہو یا مکمل طور پر ختم ہو جائے، اور اس کی جگہ دیگر نظریات جیسے ’’نسلی شناخت‘‘، ’’وطنیت‘‘، ’’ لسانیت‘‘، ’’رسم و رواج کی اہمیت‘‘ وغیرہ کو تعلیمی نصاب میں قومی نظریات کی طور پر شامل کیا جائے۔

اس ادارے کی سرگرمیوں کی ایک مثال مصر میں یہ تھی کہ نصاب کی تبدیلی سے پہلے مصر کے تاریخ کے مضمون میں ’’فرعونی تاریخ‘‘ کا حصہ صرف۷۵ صفحات تھا، لیکن تبدیلی کے بعد یہ ۳۱۷ صفحات تک پہنچ گیا۔ اسی طرح تبدیلی سے پہلے نصاب میں تاریخِ اسلام کا حصہ ۲۰۷ صفحات تھا، لیکن تبدیلی کے بعد یہ حصہ صرف ۳۵ صفحات تک محدود ہو گیا۔

یہی فارمولا تقریباً تمام اسلامی ممالک میں لاگو کیا گیا، کیونکہ اگر اس حکم کی تعمیل نہ کی جاتی تو مذکورہ ممالک کو ’’یونیسکو‘‘ کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا۔

عالمِ اسلام میں مغربی طرز کے تعلیمی ادارے: امریکہ کی سٹریٹیجک جنگ کے خفیہ لشکر

مغربی ممالک نے عالمِ اسلام پر مغرب نواز حکومتوں کے ذریعے اپنے اثر و رسوخ اور عالمی تعلیمی و ثقافتی اداروں میں اپنی برتری کو استعمال کرتے ہوئے عالمِ اسلام میں مغربی تسلط کے لیے سب سے خطرناک ہتھیار تیار کیا، جو کہ عالمِ اسلام کے تعلیمی نظام اور نصاب میں تبدیلی کی صورت میں تھا۔ اور جب تک یہ آلہ مغرب کی مرضی کے مطابق چلتا رہے گا، اس کے نتائج بھی ویسے ہی آئیں گے جیسے مغرب چاہتا ہے۔

امریکہ کا ایک اہم پالیسی ساز شخص رابرٹ سیٹلوف، جو امریکی ’’نیو کنزرویٹیوز‘‘ (عیسائی انتہاپسندوں) کے گروپ کا رکن اور واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کا سابقہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہے، جو اسلامی ممالک کے بارے میں امریکی حکومت کو مشورے دیتا ہے اور پالیسی سازی میں رہنمائی فراہم کرتا ہے، عالمِ اسلام میں مغربی طرز تعلیم کی افادیت کے بارے میں لکھتا ہے کہ عرب ممالک میں امریکی تعلیمی ادارے صرف اعلیٰ سطح کے تعلیمی ادارے نہیں ہیں، بلکہ یہ امریکہ کی سٹریٹیجک جنگ کے خفیہ لشکر ہیں جو عرب اور اسلامی معاشروں کو امریکی بنانے کے لیے کام کرتے ہیں۔

رابرٹ سیٹ لوف کا یہ امریکی خفیہ لشکر واقعی میں بغیر کسی جنگ کے پورے عالمِ اسلام کو امریکہ کے لیے فتح کر چکا تھا۔ کیونکہ یہ تعلیمی نظام مسلمانوں کی نئی نسلوں سے مغرب کا ایسا تعلق بناتا تھا جو ہر چیز میں آنکھیں بند کر کے مغرب کے راستے پر چل رہے تھے۔ اور انہی مغربی مشیروں کی نگرانی میں جو اسلامی ممالک کے ثانوی و اعلیٰ تعلیمی اداروں اور دیگر تعلیمی و تربیتی اداروں کے لیے نصاب تیار اور لاگو کیے گئے، ان سے مسلمانوں کی نئی نسلوں سے حقیقی اسلام چھپایا گیا، اور اس کی جگہ وہ کچھ پیش کیا گیا جو یا تو اسلام نہیں تھا، یا ایک تحریف شدہ، مسخ شدہ اور مغرب کا پسندیدہ اسلام تھا جس کے پیروکار حقیقی اسلام اور سچے مسلمانوں کی نسبت مغربیوں کے زیادہ وفادار تھے۔

مغرب مسلمانوں کے تعلیمی نصاب کو تبدیل کرنے میں روسیوں کی طرح جلد بازی نہیں کرتا، بلکہ اس انگریزی مقولے کے مطابق’’slow but sure‘‘(کام آہستہ آہستہ کرو لیکن اس انداز میں کہ اس کا اثر یقینی ہو)، آہستہ آہستہ اور بتدریج مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے نصاب کو تبدیل کرتا ہے۔

مغربی نوآبادیاتی ممالک نے یونیسکو اور دیگر اداروں کے ذریعے اسلامی ممالک کے نصاب اور تعلیمی نظام میں چند بنیادی تبدیلیاں کیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

  1. مسلم ممالک میں مغربی زبانوں اور ادب کا فروغ اور پھر ان زبانوں کو تعلیم اور سیاست کی زبانیں بنانا۔ مغرب نے اس ذریعے سے اپنے تمام سیاسی، سماجی، اخلاقی اور فلسفیانہ مفاہیم اور نظریات مسلمانوں کی نئی نسل کے سامنے رکھے، اور نئی نسل کو اسلام، اسلامی تاریخ، اسلامی تہذیب، اسلامی اخلاقیات اور اسلامی سماجی قدروں سے دور کر دیا، جس کے نتیجے میں مغربی ثقافت اور معلومات ان کے لیے اصل بن گئیں، اور اسلامی معلومات ان کے لیے ایسی چیز بن گئیں جسے وہ عملی زندگی اور ترقی میں اہمیت نہیں دیتے۔

  2. انگریزی زبان کے پھیلاؤ اور مذکورہ مقصد کے حصول کے لیے افغانستان پر قبضے کے دوران صرف کابل شہر میں انگریزی زبان سیکھنے کے ۱۱۰۰ مراکز فعال تھے، جہاں ہر کورس میں ہزاروں شاگردوں کو مغربی ثقافت اور انگریزی زبان سکھائی جاتی تھی۔ اسی تناسب سے صوبوں میں بھی ان زبانوں کے تدریسی مراکز فعال تھے ۔1

  3. نصاب میں دینی اور اسلامی سماجی موضوعات کی مقدار کم کی گئی، اور ان کے بجائے رسوم، فن، مغربی طرز کی شہری اور سماجی تعلیمات اور مغرب کی تاریخ اور ترقی کو شامل کیا گیا۔

  4. زبانوں اور ادب کی کتابوں کو دینی مواد اور مفاہیم سے خالی کر دیا گیا، اور دینی مفاہیم کو بے معیار، بے روح اور حقیقت سے بعید شکل میں صرف ’’دینیات‘‘ کی کتابوں تک محدود کر دیا گیا۔

  5. نصاب سے اسلامی فتوحات، اسلامی تمدن کے دنیا پر احسانات اور اسلامی شخصیات کے بارے میں معلومات ہٹا دی گئیں، اور ان کی جگہ یورپ اور امریکہ کی تاریخ، مغربی افواج کی فتوحات، مغربی مشہور شخصیات، فلسفیوں، شاعروں، موجدوں، سیاسی رہنماؤں، فوجی افسران اور عالمِ اسلام میں سیکولر اور مغرب نواز افراد کو مسلمانوں کی نئی نسلوں کے لیے ’’ماڈل‘‘ اور قابلِ تقلید شخصیات کے طور پر متعارف کرایا گیا۔

مغرب کی ان تمام تعلیمی کوششوں نے اسلام کو ایک نامکمل، تحریف شدہ اور ایک ناکام دین کی شکل میں نئی نسل کے سامنے پیش کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نئی نسل میں اسلام کے بارے میں بے رغبتی اور مغربی فلسفے کے نظریات کو قبول کرنے کا رجحان پیدا ہوا۔ اور یہ ایک فطری بات ہے کہ اگر کوئی طالب علم کسی چیز میں بے رغبت ہو، تو وہ اس کی حفاظت کے لیے قربانی کیوں دے گا؟ یا پھر وہ ان مغربی یا روسی فلسفوں اور نظریات کی پیروی کیوں نہیں کرے گا جن کے ذریعے اس کی تربیت کی گئی ہو اور اسی پر پروان چڑھایا گیا ہو؟

عالمِ اسلام کے تعلیمی ادارے: مغربی ثقافت، نظریات اور طرزِ حیات کی نمائش گاہیں

آج کل عالمِ اسلام میں استعماری طاقتوں کے تربیت یافتہ افراد کے ہاتھوں قائم کیے گئے تعلیمی اداروں نے مکمل طور پر مغربی ممالک کے کلچر اور طرزِ زندگی کی نمائش گاہ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اس لیے کہ تعلیمی اداروں کے ماحول کو مجموعی طور پر اسلام اور اسلام پسندی سے محروم رکھا گیا ہے، ان تمام تعلیمی اداروں اور ان کے ہاسٹلز میں مذہبی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے یا تو مساجد بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، یا پھر انہیں اس طرح محدود اور غیر اہم رکھا گیا ہے کہ ان کا تعلیمی ماحول اور طلباء کے رویے پر کوئی واضح اثر نہیں ہوتا۔ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ تعلیمی ذمہ داران تعلیمی ماحول میں مساجد، دینی اجتماعات اور طلباء کی دینی پختگی سے خوفزدہ ہیں۔

افغانستان کی تمام سرکاری یونیورسٹیوں اور مدارس میں ایک بھی بنیادی مسجد نہیں بنائی گئی، لیکن اس کے مقابلے میں ہر یونیورسٹی اور کالج میں سینما، تھیٹر اور کھیل کے میدانوں کی سہولتیں فراہم کی گئیں، اور ان میں طلباء اور نوجوانوں کے لیے مغربی ثقافت کی بے حیا فلمیں اور ڈرامے دکھائے جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اہلِ علم، موجدین اور محققین کے بجائے ہمارے تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں سے بڑے پیمانے پر کمیونسٹ، مغرب پرست اور دوسرے قوم پرست اور بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے افراد فارغ التحصیل ہوئے، جنہوں نے ملک میں اغیار کے افکار و نظریات متعارف کروائے، اور پھر اپنے اقتدار کے دوران جبر و ظلم کے ذریعے ان خیالات کو لوگوں پر مسلط کیا۔ نتیجتاً افغانوں کی زندگی انقلابات، بغاوتوں اور بے چینی کی طوفانی لہر میں گم ہو گئی، اور اس کے باعث لاکھوں افغان مسلمانوں کی ہلاکت کے اسباب و عوامل پیدا ہوئے۔

افغانستان اور عالمِ اسلام کے تعلیمی اداروں میں، جہاں اساتذہ، طلباء اور تعلیمی ذمہ داران ظاہری طور پر مغربی طرزِ زندگی، فیشن اور انداز سے متاثر دکھائی دیتے ہیں، اسی طرح وہ ان کے خیالات، عقائد، سیاسی نظریات اور رویوں سے بھی متاثر ہیں، اور ان لوگوں کا یہ اثر اسلامی ممالک میں دین اور عوام کے بارے میں ان کے فیصلوں اور اقدامات میں بھی نظر آتا ہے، جس کی وجہ سے یہ اغیار والی سوچ پچھلی ایک صدی سے عالمِ اسلام کو ہر چیز میں مغربی استعمار کا تابع بناتی آ رہی ہے۔

عالمِ اسلام میں تعلیمی ماحول کو مزید خراب کرنے کے لیے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے مخلوط نظامِ تعلیم کا سلسلہ رائج کیا گیا، جس نے مسلمان معاشروں کو خطرناک نتائج سے دوچار کیا۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم دراصل مغرب کے شیطانی جالوں میں سب سے خطرناک جال تھا، جس نے لاکھوں لڑکیوں اور نوجوانوں کو آسانی سے شکار کر لیا۔ یہ عمل نہ صرف اسلامی اقدار کے خلاف تھا بلکہ تعلیم اور تربیت کے خلاف بھی ایک پوشیدہ جنگ تھی، کیونکہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنی عمر کے اس عرصے میں مخالف جنس کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں، اور ان کی توجہ اس طرف بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس عمر میں یہ فطری کیفیت ہے جس پر انسان کو ملامت نہیں کیا جا سکتا۔ اسی وجہ سے شریعت نے اس خواہش کو کنٹرول کرنے کے لیے اصول و ضوابط وضع کیے ہیں، جن میں اختلاط سے اجتناب، حجاب کی پابندی، اور دونوں جنسوں کے درمیان رابطے کے مواقع کو کم کرنا شامل ہیں۔

لیکن دوسری طرف میڈیا، اغیار کا تیار کردہ نصاب، گمراہ کن ناولز، کہانیاں اور جنسی خواہش کو تحریک دینے والی ادبیات اور احتیاطی قوانین کی کمی نے ان رجحانات کو مزید تقویت دی، جس کے نتیجے میں نوجوان علم سے دور ہو کر عشق بازی اور ناجائز جنسی تعلقات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

مغربی طرز کے تعلیمی نظام اور نصاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اربابِ اقتدار

جب مغرب نے مغربیت (Westernization) کے ذریعے پورے عالمِ اسلام پر اپنا فکری اور ثقافتی غلبہ قائم کیا، تو افغانستان بھی تعلیمی لحاظ سے اس مغربیت (Westernization) اور اختلاط (mixing) کے فتنوں سے محفوظ نہ رہ سکا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہاں کا تعلیمی نظام، نصاب، ثقافت اور تعلیمی مقاصد بھی مغربی رنگ میں رنگ گئے، اور آہستہ آہستہ نئی نسل کے فکری اور تاریخی تعلقات کو ان کے اپنے معنوی اور سماجی اقدار سے کاٹ دیا گیا۔ انہیں یہ باور کروایا گیا کہ اگر افغان ترقی کی راہ پر گامزن ہونا چاہتے ہیں، تو انہیں سوچ، ثقافت، سیاست اور سماجی زندگی میں مغرب کی پیروی کرنی ہوگی، ورنہ مثبت تبدیلی کی کوئی اور راہ موجود نہیں۔

حالانکہ حقیقت میں ترقی اچھی طرزِ حکمرانی، علم اور صنعت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، اغیار کے افکار و ثقافت کو اپنانے اور ان کی اندھی تقلید سے نہیں۔

افغانستان میں پہلی بار اس غیرملکی فکر اور مغربی طرز کے تعلیمی نظام کا نظریہ محمود طرزئی نے متعارف کرایا، جو ’’سیکولر کمال ازم‘‘(Secular Kemalism) اور یورپی نظریات سے متاثر تھا۔ اس نے اپنے داماد، امان اللہ خان کے اقتدار، فکری دباؤ اور آمرانہ حکومت کے ذریعے ان مغربی نظریات کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی۔ اسی وجہ سے مغربی مصنفین اُسے افغانستان میں ’’سیکولرازم کا باپ‘‘ بھی کہتے ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ محمود طرزئی اور امان اللہ خان ملک میں مادی ترقی چاہتے تھے، لیکن مادی ترقی قوم کے دین و اقدار سے ہم آہنگ ہونی چاہیے، بد قسمتی سے ان دونوں میں نہ تو یہ شعور تھا اور نہ ہی وہ دینی اقدار کے حوالے سے سنجیدہ تھے، اس لیے ان کے مغرب نواز انتہا پسندانہ اقدامات نے مستقبل میں طویل بے ثباتی اور عوام و حکومت کے درمیان ٹکراؤ کی راہ ہموار کر دی۔ ان دونوں نے جن اقدامات کو ’’اصلاحات‘‘ کا نام دیا، وہ عملاً ’’فسادات‘‘ کی صورت میں ظاہر ہوئے۔

افغانستان میں اغیار کے افکار سے متاثر اور تربیت پانے والے حکمرانوں اور اسلام مخالف نظامِ حکومت نے ایسے حالات اور قوانین وضع کیے، جن کی وجہ سے عوام اور نظام کے درمیان مسلسل جنگ کی کیفیت پیدا ہوئی۔ صورت حال یوں تھی کہ عوام اپنے معنوی اور سماجی تشخص کے تحفظ پر اصرار کر رہے تھے، لیکن سیکولر حکمران مغرب کے راستے پر عوام کو چلانے کے لیے زبردستی اپنے درآمد شدہ قوانین نافذ کر رہے تھے۔ اس کے نتیجے میں عوام اور حکومت کے درمیان مسلسل ٹکراؤ جنم لیتا رہا، جو آج تک جاری ہے۔

مذکورہ صورت حال ایک بار امان اللہ خان کے دورِ حکومت میں پیش آئی، جو ترکی کے مصطفیٰ کمال کی ’’دین دشمنی‘‘ کا عملی نمونہ تھا۔ مغرب سے درآمد شدہ نظریات اور فلسفیانہ مفاہیم کا نتیجہ ان ’’فسادات‘‘ کی صورت میں نکلا، جنہیں وہ ’’اصلاحات‘‘ کہتا تھا۔ اس کے بعد اس سے بھی بدتر نتائج ظاہر شاہ اور داوود خان کے ادوار میں سامنے آئے، جب کمیونسٹ اور مغرب نواز جماعتیں، اور پھر ان ہی جماعتوں کے ذریعے کمیونسٹ اور سیکولر حکومتیں برسرِ اقتدار آئیں۔

افغانوں نے ہر بار ان اغیار کے تربیت یافتہ سیکولر افراد کے جرائم کی قیمت لاکھوں شہداء کی قربانی دے کر ادا کی ہے، مگر ابھی تک معاشرہ لا دین نظریات کے جرائم اور منفی اثرات سے پاک نہیں ہوا۔ بلکہ ہر نئے مرحلے میں ان حکمرانوں نے، جو بیگانہ افکار اور ثقافت میں تربیت پائے ہوئے تھے، ملک اور قوم کو ایسے نئے فتنوں اور سیاسی و سماجی بحرانوں سے دوچار کیا ہے کہ ماضی کے بحران عوام بھول جاتے ہیں۔

اور یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ ان کے حکمران دینِ اسلام کی حقیقی روح اور تعلیمات کے مطابق تربیت یافتہ نہیں، بلکہ وہ بیگانہ فکر اور ثقافت میں پروان چڑھے ہیں اور انہی کے اقدار کے قائل و معتقد ہیں۔

عوام کی ذہن سازی میں مغربی طرزِ تعلیم کا کردار

افغانستان اور دیگر اسلامی ممالک میں مغربی افکار پر مبنی تعلیم نے نہ صرف لا دینی نظاموں کو جنم دیا، بلکہ لاکھوں ایسے افراد بھی تیار کیے جو بظاہر تو مسلمان کہلاتے ہیں، لیکن ان کی زندگی کے تقریباً تمام پہلو دینی ہدایات سے ہٹ کر، سیکولرازم، کمیونزم، لبرل ازم اور وضَعی (یعنی انسانوں کے بنائے ہوئے) قوانین کے مطابق ڈھلے ہوئے ہیں۔

ایسے افراد ہمیشہ خود کو امتِ مسلمہ کا حصہ سمجھتے ہیں، مگر ان کے اعمال اور کوششیں ہمیشہ کفار کے مفادات کے لیے وقف رہی ہیں۔ انہوں نے عملاً اپنی وفاداری اسلام کے بجائے مغرب اور مغربی نظریات کے ساتھ جوڑی ہے، اور انہی کے صفوں میں شامل رہے ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عالمِ اسلام میں مغربی طرز کے تعلیم یافتہ حکمرانوں اور تعلیمی ذمہ داروں نے تعلیمی نصاب کے مضامین اور موضوعات اس انداز سے منتخب کیے ہیں کہ طالب علم ان نظاموں کی خدمت کو اپنا فرض سمجھیں، اور اسلامی نظام کے قیام کا نہ ان کے دل میں کوئی احساس باقی رہے، نہ ہی اس کی طاقت یا جذبہ ان میں موجود ہو۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

1 (بی بی سی ریڈیو کی ویب سائٹ کی اس رپورٹ کے مطابق جو 23 اپریل 2017 ءکو انگریزی زبان کے عالمی دن کے حوالے سے شائع ہوئی تھی۔)

Previous Post

خلافت کن صفات کے حامل لوگوں کے ہاتھوں قائم ہوتی ہے؟

Next Post

اللہ الصمد

Related Posts

اَلقاعِدہ کیوں؟ | چوتھی قسط
فکر و منہج

اَلقاعِدہ کیوں؟ | پانچویں قسط

13 اگست 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | چھٹی قسط

13 اگست 2025
کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط
فکر و منہج

کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط

13 اگست 2025
کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟
فکر و منہج

کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟

13 اگست 2025
ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!
فکر و منہج

ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!

17 جولائی 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | پانچویں قسط

13 جولائی 2025
Next Post
اللہ الصمد

اللہ الصمد

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version