بیان: PR_119_AQS
تاریخ:7 شعبان المعظم 1445 ھ بمطابق 17فروری 2024ء
ہندوستان میں مساجد کی شہادتوں کی بابت
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین، أما بعد
پچھلے چند ہفتوں سے ہندوستان کے مختلف علاقوں، دہلی، بنارس، ہلدوانی وغیرہ میں قدیم مساجد کو عملاً گرانے یا ان کو گرانے کے لیے قانونی چارہ جوئی کا سلسلہ جاری ہے۔ مساجد، اللہ ﷻ کے گھر ہیں اور اسلامی معاشرے کے مراکز ہیں، ان کی تقدیس سے امتِ مسلمہ کا بچہ بچہ واقف ہے اور ان کی تقدیس اور مسلمانوں کے مساجد سے فی اللہ لگاؤ کو کفار بھی بخوبی جانتے ہیں۔ مساجد میں ناپاک انداز سے گھسنے اور ان پر حملہ کرنے سے قبل کفار سو بار سوچا کرتے تھے، اور مساجد کا انہدام…… تو ایسا تو سوچنا بھی اہلِ کفر کے لیے محال ہوتا تھا۔ ماضی و حال میں، خصوصاً ہندوستان کے اندر مساجد و مدارس کی توڑ پھور، جلاؤ گھیراؤ اور انہدام و شہادتیں، دراصل ہم اہلِ ایمان کی اپنی کمزوری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے:
’’عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوشِكُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ الْأُمَمُ مِنْ كُلِّ أُفُقٍ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ عَلَى قَصْعَتِهَا قَالَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمِنْ قِلَّةٍ بِنَا يَوْمَئِذٍ قَالَ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ وَلَكِنْ تَكُونُونَ غُثَاءً كَغُثَاءِ السَّيْلِ يَنْتَزِعُ الْمَهَابَةَ مِنْ قُلُوبِ عَدُوِّكُمْ وَيَجْعَلُ فِي قُلُوبِكُمْ الْوَهْنَ قَالَ قُلْنَا وَمَا الْوَهْنُ قَالَ حُبُّ الْحَيَاةِ وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ.‘‘ (مسند أحمد)
’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’ عنقریب ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں دنیا کے ہر کونے سے مختلف قومیں تمہارے خلاف ایک دوسرے کو اس طرح دعوت دیں گی جیسے دسترخوان کی طرف بلایا جاتا ہے‘، ہم نے عرض کیا ’یا رسول اللہ ! (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا اس زمانے میں ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوگا ؟‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’اس زمانے میں تمہاری تعداد تو بہت زیادہ ہوگی لیکن تم لوگ سمندر کے خس و خاشاک کی طرح ہوگے، تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب نکال لیا جائے گا اور تمہارے دلوں میں ’’وہن ‘‘ڈال دیا جائے گا‘، ہم نے پوچھا کہ ’’’وہن ‘‘سے کیا مراد ہے ؟‘، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’زندگی کی محبت اور موت سے نفرت‘۔‘‘
اسی طرح ایک دوسری روایت میں ’وَہَن‘ کا معنیٰ یہ بیان ہوا ہے:
قَالُوا: وَمَا الْوَهَنُ؟ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: ’’حُبُّكُمُ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَتُكُمُ الْقِتَالَ‘‘ (مسند أحمد)
’’پوچھا گیا کہ ’یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)’’وہن ‘‘سے کیا مراد ہے ؟‘، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’دنیا سے تمہاری محبت اور قتال فی سبیل اللہ (جہاد فی سبیل اللہ) سے نفرت‘۔‘‘
آج ہندوستان میں ’ہنومان‘ و ’گنیش‘کے پجاری جو اس قدر ’شیر‘ ہو گئے کہ مساجد کو مسمار کر کے ان پر رام مندر تو کہیں کسی اور نامِ بد سے منسوب مندر اور مساجد کے احاطے کو تقسیم کر کے دراصل ’مساجدُ اللہ‘ ہی میں پوجا پاٹ کر رہے ہیں، تو اس کا سبب یہی ہے کہ کل تک مسلمانوں کو جھک جھک کر نمسکار کرنے اور جزیہ دینے والوں کے دلوں سے مسلمانوں کا رعب نکل چکا ہے۔ یہ رعب کیوں نکلا اور ہنومان و گنیش کے پجاری کیسے اس قدر شیر ہو گئے تو اس کا سبب ہمارے دلوں میں ’وَہَن‘ کی بیماری کا دخول ہے۔ دنیا اور اس دنیوی زندگی سے محبت اور موت سے نفرت پیدا ہو گئی ہے حالانکہ موت کے بعد ہی لقاءُ اللہ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں جامِ کوثر اور جنت عطا ہو گی ۔ پھر کراہیت صرف موت سے نہیں بلکہ جہاد و قتال سے بھی اور یہی بیماریٔ وہن ہے!
اپنے دین ، مقدسات، مساجد و مدارس، اپنی ناموس و عزت، چادر و چاردیواری کا دفاع مقدور بھر اسباب سے کرنا، عقلاً و شرعاً فرض ہے۔ یہ کہاں ممکن ہے کہ ہندوستان ، ہندو راشٹر، آمُو سے برہماپترا تک اکھنڈ بھارت بنایا جا رہا ہو اور اس کا مقابلہ سیکولر نعروں اور سیکولر طریقوں سے کیا جاسکے؟ یہ کہاں ممکن ہے کہ بھگوا دہشت گرد تلواریں، نیزے اور بھالے لے کر نکلیں، دیو ہیکل ہتھوڑوں اور بلڈوزروں سے ہمارے گھر اور مساجد مسمار کریں اور اس کا مقابلہ چند مظاہروں یا اسی نظام کے تخلیق کردہ طریقوں سے کیا جا سکے؟
گھر واپسی سے مساجد کی شہادت تک۔ کلمہ گو اہالیانِ ہندوستان کے پاس حل صرف اللہ ﷻ کی شریعت سے تمسک ہے۔ دلوں سے وَہَن کو نکال کر حُبِ آخرت اور حُبِ شہادت کے راستے کا انتخاب حل ہے۔ جہاد کے لیے قوت تیار کرنا، مقامی سطحوں پر منظم ہونا اورجوانوں کی منظم ٹولیوں کی صورت اپنی مساجد اور علاقوں کا دفاع حل ہے۔ اس دفاع کی خاطر جو پستول و کلاشن کوف تک رسائی پائے تو وہ اس کو اپنے دفاع میں استعمال کرے، جو زنجیروں اور ہتھوڑوں، چاقوؤں اور خنجروں کو جمع کر سکے، یہی اس کے ہتھیار ہیں!
ہندوستان میں اہالیانِ دین کے لیے راستہ، مدِ مقابل سے دوستی، مفاہمت، سول سوسائٹی سے وابستہ امیدیں اور حکمران ہندو کی چاپلوسی نہیں۔بس دو راستے ہیں، ایک وہی اول الذکر جس پر ہندوستان کے اہالیانِ دین مجموعاً اس وقت چل رہے ہیں اور دوسرا راستہ مزاحمت و مقاومت کا راستہ ہے۔ موت نے تو بہر صورت آنا ہے، فیصلہ یہ کرنا ہے کہ ہم مظلومانہ شہادتیں دیں گے یا کچھ کر کے، اپنے دین و ناموس اور مقدسات و مساجد کی حفاظت کرتے ہوئے شجاعت و بہادری سے جان دیں گے۔ بغیر مزاحمت کیے اپنا خون پیش کرنا کچھ بھی سود مند نہیں، نہ یہ عقل کی بات ہے نہ شریعت کا طریقہ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نظام میں موجود اصل ظالموں اور جابروں کو نشانہ بنایا جائے اور عوام کو کچھ نہ کہا جائے۔ جو چھیڑے اس کو چھوڑیں نہ اور جو آپ کے خلاف صف آرا نہیں ہے اس کو اس کے حال پر رہنے دیں۔
امید ہے کہ اگر مزاحمت و مقاومت کا راستہ اختیار کر لیا جائے تو اللہ ﷻ کی مدد و نصرت شاملِ حال ہو جائے اور زمینی حقائق اہلِ اسلام کے حق میں ہو جائیں، ورنہ کم از کم شرعی مکلفیت تو ادا ہو ہی جائے گی ۔ طریقِ شریعت پر چل کر دنیا میں نہ سہی آخرت میں تو سرخروئی حاصل ہو ہی جائے گی۔ ہم آخرت میں تو یہ جواب دینے کے قابل ہو سکیں گے کہ ہم مساجد کے گرائے جانے پر خاموش نہ بیٹھے تھے اور نہ ہی ہم نے بے سود و غیر مؤثر راستوں کا انتخاب کیا تھا!
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ (سورة محمد:7)
’’ اے ایمان والو ! اگر تم اللہ ( کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا، اور تمہارے قدم جما دے گا۔ ‘‘
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین وصلی اللہ تعالیٰ علی نبینا الأمین!