قیامت کے دن پیش آنے والے بعض واقعات
قبل قبض الارض و طئ السماء:
اس روز اللہ سبحانہ و تعالیٰ زمین کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیں گے اور پھر اللہ رب العزت آسمان کو کاغذی یا چرمی طومار(رول کیا ہوا کاغذ یا چمڑا) کی مانند لپیٹ دیں گے؛ اللہ رب العزت کے لیے اس کائنات کا اختتام اس کا انجام اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ کاغذ کا گولا بنا کر پھینکنا۔
جب ہم آسمانوں کی بات کرتے ہیں تو ہم محض اس ماحول کی بات نہیں کررہے ہوتے کہ جس میں ہم رہتے بستے ہیں…… بلکہ یہ اس سے بہت بڑی ایک دنیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ سات آسمان ہیں اور ہم سب سے نیچے والے آسمان یعنی آسمان دنیا کے نیچے بستے ہیں۔ جتنے ستارے ہمیں اس آسمان پر دکھائی دیتے ہیں اور جن کے بارے میں ماہرین فلکیات ہمیں بتاتے ہیں…… وہ سب کے سب ہماری اس دنیا سے کھربوں نوری سال کے فاصلے پر ہیں…… اور یہ سب کے سب محض اس ایک آسمان دنیا کے ستارے ہیں۔
آپ جانتے ہیں کہ زمین سے ستاروں کا فاصلہ کلومیٹروں اور میلوں سے نہیں ماپا جاتا…… یہ فاصلہ اس قدر طویل ہے کہ اس کی پیمائش روشنی کی رفتار کے ذریعے کی جاتی ہے۔ روشنی تین لاکھ کلومیٹر یا تقریباً اٹھارہ ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے…… یہ فی سیکنڈ رفتار ہے…… لہٰذا کسی ستارے سے زمین تک روشنی کو پہنچنے میں چند نوری سال کا عرصہ درکار ہے۔ ہماری اس زمین سے نزدیک ترین ستارہ سورج ہے…… اس کے بعد جو نزدیک ترین ہے اس کے اور زمین کے مابین سوا چار نوری سال کا فاصلہ ہے۔ بعض ستارے ہماری اس زمین سے ہزاروں نوری سال کے فاصلے پر ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں کہ ان کے اور اس دنیا کے مابین کھربوں نوری سال کا فاصلہ ہے…… جی ہاں! یہ تب جب کہ روشنی کی رفتار تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے…… اس صور ت میں اس ستارے سے روشنی زمین تک پہنچنے میں ایک کھرب نوری سال لگیں گے…… اور یہ تمام کے تمام ستارے محض اس ایک آسمان دنیا کے ہیں؛ کہ اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ
﴿وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ﴾ (سورۃ الملک: ۵)
’’ اور ہم نے قریب والے آسمان کو روشن چراغوں سے سجا رکھا ہے ‘‘۔
اللہ سبحانہ تعالیٰ کے لیے یہ محض زینت ہے…… وہ وسیع کائنات کے جس کو سمجھنے کی ابھی تک کوشش ہی کی جارہی ہے …… اس کی حیثیت اللہ رب العزت کے نزدیک محض زینت کی سی ہے، سجاوٹ …… آرائش …… جو قیامت کے دن اللہ رب العزت کے ہاتھوں لپیٹ دی جائے گی…… یہ تو آسمان دنیا ہوا جب کہ علما فرماتے ہیں کہ اس سے اوپر والے آسمان کے سامنے آسمان دنیا کی وسعت و حیثیت کا تناسب ایسے ہے جیسے ایک صحرا میں پڑا ہوا ایک چھلّا۔ اور یہ تمام آسمان قیامت کے دن اللہ رب العزت اپنے ہاتھوں میں لپیٹ لیں گے……… ہم اللہ رب العزت کی قدرت کا درست اندازہ لگا ہی نہیں سکتے۔ اس موضوع پر سوچیں…… اتنا سوچیں جتنا سوچ سکتے ہیں مگر پھر بھی نتیجہ یہی نکلے گا کہ ہم اللہ رب العزت کی ذات بابرکات کا درست اندازہ نہیں لگا سکتے…… یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت قرآن عظیم الشان میں فرماتے ہیں:
﴿وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ ڰ وَالْاَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌۢ بِيَمِيْنِهٖ﴾ (سورۃ الزمر: ۶۷)
’’ اور ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر ہی نہیں پہچانی جیسا کہ اس کی قدر پہچاننے کا حق تھا، حالانکہ پوری کی پوری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی، اور سارے کے سارے آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے‘‘۔
اللہ رب العزت انہیں طومار کی مانند لپیٹ لیں گے۔
﴿يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاۗءَ كَـطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ﴾ (سورۃ الانبیاء: ۱۰۴)
’’ اس دن (کا دھیان رکھو) جب ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ دیں گے جیسے کاغذوں کے طومار میں تحریریں لپیٹ دی جاتی ہیں ‘‘۔
زمین کے ساتھ کیا ہوگا؟
ہم نے ذکر کیا تھا کہ اللہ رب العزت زمین کو پھیلا دیں گے؛ مدّت الارض ، نیز
﴿فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ نَفْخَةٌ وَّاحِدَةٌوَّحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةً فَيَوْمَىِٕذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَةُ﴾ (سورۃ الحاقۃ: ۱۳ تا ۱۵)
’’ پھر جب ایک ہی دفعہ صور میں پھونک مار دی جائے گی۔ اور زمین اور پہاڑوں کو اٹھا کر ایک ہی ضرب میں ریزہ ریزہ کردیا جائے گا۔ تو اس دن وہ واقعہ پیش آجائے گا جسے پیش آنا ہے‘‘۔
﴿وَتَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوْشِ﴾ (سورۃ القارعۃ: ۵)
’’ اور پہاڑ دھنکی ہوئی رنگین اون کی طرح ہوجائیں گے‘‘۔
پہاڑوں کو اس شدت سے ریزہ ریزہ کیا جائے گا کہ وہ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوْشِ، نرم دھنکی ہوئی روئی یا اون کی طرح ہوجائیں گے اور گرد بن جائیں گے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿ وَاِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْ ﴾ (سورۃ المرسلٰت: ۱۰)
’’ اور جب پہاڑ (ریت بنا کر) اُڑا دیے جائیں گے ‘‘۔
سمندروں کے ساتھ کیا ہوگا؟
اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿ وَاِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ ﴾ (سورۃ الانفطار: ۳)
’’ اور جب سمندرپھاڑ دیے جائیں گے‘‘۔
اور یہ بھی فرماتے ہیں:
﴿ وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ ﴾ (سورۃ التکویر: ۶)
’’ اور جب سمندروں کو بھڑکایا جائے گا‘‘۔
فُجِّرَتْ ہےپھاڑنا اور پھٹنا اور سُجِّرَتْ ہے جلنا یعنی اس میں آگ لگی ہوگی۔ لہٰذا دنیا کے سمندر پھٹ بھی رہے ہوں گے اور جل بھی رہے ہوں گے۔پانی کے ساتھ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اب اس دور میں ہم اس بات کو کسی قدر سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کیسے ہوگا…… اور تمام علم تو محض اللہ رب العزت ہی کے پاس ہے اور وہی ہر معاملے کی حقیقت سے واقف ہیں۔
ہائیڈروجن، ہیلیئم اور یورانیم جیسے ایٹم ٹوٹ اور پھٹ سکتے ہیں اور ان کے پھٹنے کے نتیجے میں جوہری ردعمل ہوتا ہے جس سے دھماکہ ہوتا ہے اور آگ لگتی ہے۔ یہ ایٹم اپنے اندر بہت قوت رکھتے ہیں۔ ہائیڈروجن یا یورانیم کی بہت تھوڑی سی مقدار ایک طاقت ور بم بنانے کے لیے کافی ہے۔ اور اس کے محض چند ٹن ایک پورے شہر کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اب تصور کریں کہ دریاؤں اور سمندروں میں ہائیڈروجن کے ایک ایک ایٹم میں یہ جوہری رد عمل بیک وقت ہونے لگے تو کیا ہوگا؟یہ ایٹم جوہری ردعمل میں ٹوٹنا شروع ہوجائیں گے اور ان کی وجہ پھٹاؤ اور آگ لگنی شروع ہوجائے گی۔ لہٰذا اس پورے کرہ ارض پر ہر سمندر اور دریا بھڑک رہا ہوگا قیامت کے دن۔
آسمان کے ساتھ کیا ہوگا؟
سب سے پہلی چیز جو واقع ہوگی وہ یہ کہ آسمان حرکت کرنا اور کانپنا شروع ہوجائے گا۔
﴿ يَوْمَ تَمُوْرُ السَّمَاۗءُ مَوْرًا ﴾ (سورۃ الطور: ۹)
’’ جس دن آسمان تھر تھرا کر لرز اٹھے گا‘‘۔
جب زلزلہ آتا ہے تو بڑی عمارتیں لرزنے لگتی ہیں اور لرزنے کے نتیجے میں چٹخنے لگتی ہیں اور ٹوٹنے لگتی ہیں۔ پس اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿ اِذَا السَّمَاۗءُ انْفَطَرَتْ ﴾ (سورۃ الانفطار: ۱)
’’ جب آسمان چر جائے گا‘‘۔
اور
﴿ اِذَا السَّمَاۗءُ انْشَقَّتْ ﴾ (سورۃ الانشقاق: ۱)
’’ جب آسمان پھٹ پڑے گا‘‘۔
آسمان لرزتا اور تھرتھراتا رہے گا ، يَوْمَ تَمُوْرُ السَّمَاۗءُ مَوْرًا، اور انسان اسے آگے پیچھے ہلتے ہوئے دیکھ سکے گا، اور پھر ایک بڑی عمارت کی طرح وہ ادھر ادھر سے چٹخنے لگے گا، اِذَا السَّمَاۗءُ انْفَطَرَتْ ، آسمان میں سوراخ نمودار ہونے شروع ہوجائیں گے، اِذَا السَّمَاۗءُ انْشَقَّتْ اور وہ پھٹ جائے گا، چر جائے گا اور بالآخر یہ ہوگا کہ
﴿ وَانْشَقَّتِ السَّمَاۗءُ فَھِيَ يَوْمَىِٕذٍ وَّاهِيَةٌ ﴾ (سورۃ الحاقۃ: ۱۶)
’’ اور آسمان پھٹ جائے گا تو وہ اس دن بہت بودا سا ہوجائے گا‘‘۔
یعنی وہ پھٹتا اور چرتا چلا جائے گا یہاں تک کہ بہت کمزور پڑ جائے گا اور پھر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا۔
سورج چاند اور ستاروں کا کیا ہوگا؟
﴿ اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ. وَاِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ. ﴾ (سورۃ التکویر: ۱، ۲))
’’ جب سورج لپیٹ دیا جائے گا۔ اور جب ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گریں گے ‘‘۔
اور
﴿ وَاِذَا الْكَوَاكِبُ انْـتَثَرَتْ ﴾ (سورۃ الانفطار: ۲)
’’ اور جب ستارے جھڑ پڑیں گے‘‘۔
سورج لپیٹ دیا جائے گا اور اپنی روشنی کھو دے گا۔ چاند گہنا جائے گا اور اپنے مدار سے گرجائے گا اور ستارے اپنے مدار کھو دیں گے اور ہمارے اردگرد گرنا شروع ہوجائیں گے۔
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی صحبہ وسلم