زیر نظر تحریر شیخ منصور شامی (محمد آل زیدان) شہید کے آٹھ عربی مقالات کا اردو ترجمہ ہے۔ آپ محرم ۱۴۳۱ھ میں وزیرستان میں شہید ہوئے۔ یہ مقالات مجلہ ’طلائع خراسان‘ میں قسط وار چھپے اور بعد ازاں مجلے کی جانب سے محرم ۱۴۳۲ھ میں کتابی شکل میں نشر ہوئے۔ ترجمے میں استفادہ اور ترجمانی کا ملا جلا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ مترجم کی طرف سے اضافہ کردہ باتوں کو چوکور قوسین [] میں بند کیا گیا ہے۔ (مترجم)
مسلمان کی عظمت ووقعت
قریش کےدو افراد اس سریے میں گرفتار ہوئے،قریش نے انہیں رہا کروانے کے لیے فدیے کی رقم بھیجی،رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ہم تاوان لے کر انہیں نہیں چھوڑیں گے،جب تک ہمارے دونوں گمشدہ ساتھی(حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور عتبہ بن غزوانؓ) ہم تک نہ پہنچ جائیں؛کیونکہ ہمیں ڈر ہے تم ا نہیں نقصان پہنچاؤگے،سو اگر تم نے انہیں قتل کیا تو ہم بھی تمہارے دونوں قیدی قتل کردیں گے‘‘۔چنانچہ جب حضرت سعد و عتبہؓ بعافیت مدینہ پہنچ گئے تب آپﷺ نے ان دونوں کا فدیہ قبول فرماکر انہیں چھوڑا۔ (البدایہ والنہایہ)
اس سے پتہ چلا کہ کافر قیدی کو فدیہ لے کر رہا کرنا جائز ہے،خواہ فدیے میں نقد رقم لی جائے یا کوئی اور چیز،اس کے جواز کے دلائل بے شمار ہیں۔
اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان کی جان بچانا مال ودولت کے حصول پر مقدم ہے،مومن کی جان انمول ہے،دنیا کا مال اس کا بدل نہیں ہوسکتا۔
دوگمشدہ صحابہؓ کی حفاظت کے لیے آپﷺ نے دو اقدام کیے،ایک تو یہ کہ قیدیوں کا فدیہ نہیں لیااور انہیں اپنی تحویل میں رکھا اور دوسرا یہ کہ صحابہؓ کو نقصان پہنچانے کی صورت میں ان دونوں کے قتل کی دھمکی دی۔
لہٰذا مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ مسلمانوں کی حفاظت اور مسلم قیدیوں کی رہائی کے لیے ہر جائز و ممکن قدم اٹھائیں،کسی بھی صورت میں کسی بھی مسلمان کو کفار کا تختۂ مشقِ ستم بننے کے لیے بے یار ومددگار نہیں چھوڑا جاسکتا،[بلکہ اگر کسی کافر پر کوئی مسلمان زیادتی کرے تو بھی اسلامی عدالت اس کا فیصلہ کرے گی، کافروں کی عدالت میں مقدمہ نہیں پیش کیا جائےگا، مثلاً: مومن کسی کافر مستامن یا معاہد کو ماردے تو اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا، البتہ تعزیری سزا دی جاسکتی ہے]۔
کافر کا حق مارنے کی وجہ سے اُس مسلمان کو کفار کے حوالے کردینا ناقابلِ معافی جرم ہے۔اس سے بڑی عار و شرم اور کیا ہوگی کہ اب باقاعدہ فتوے دیے جارہے ہیں: ’’نائن الیون کے مجرموں کے خلاف کارروائی جائز ہے اور ان مجرموں کو ’عالمی انصاف‘ کے کٹہرے میں لا کر سزا دینا ’واجب‘ہے‘‘۔
بخدا! یہ تو کفار کے ساتھ کھلی دوستی اور موالات ہے۔
مومنوں کی [اللہ سے ]اجر کی امید
مشہور سیرت نگار امام ابنِ اسحٰق ؒ فرماتے ہیں: حرمت والے مہینے میں قتال کی وجہ سے مسلمانوں کو لاحق ہونے والی پریشانی جب وحی کے نزول سے زائل ہوگئی تو انہیں یہ امید ہونے لگی کہ اس قتال پر انہیں اجر بھی ملے گا۔ [سبحان اللہ! کیا کہنے حضراتِ صحابہ کرام ؓ کے اللہ جل جلالہ کے ساتھ حسنِ ظن کے!] ان کے اس حسنِ ظن پر سورہ بقرہ کی یہ آیت نازل ہوئی:
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰه ِ ۙ اُولٰۗىِٕكَ يَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰه ِ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ (البقرۃ: 218)
’’جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا، تو وہ بے شک اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں، اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔‘‘ (البدایہ والنہایہ)
اللہ جل جلالہ نے اس آیت میں اس سریے کے شرکاء کو ان سے صادر ہو نے والی خطا کے باوجود ایمان ،ہجرت اور جہاد کے اوصاف کے ساتھ ذکر فرمایا ہے، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اگر مجاہدین اخلاص کے ساتھ جہاد کریں ،گناہ سے بچنے کی کوشش بھی کریں ،لیکن اس کے باوجود بھی ان سے کوئی غلطی صادر ہوجائے تو ان کی تمام جہادی کوششوں کو کالعدم قرار دے کر انہیں اللہ کی رحمت سے محروم قرار نہیں دیا جائے گا، بلکہ اللہ کی رحمت سے امّید رکھنی چاہیے کہ ان کی خطا بخش دی جائے گی، ایک نادانستہ غلطی کی وجہ سے کسی کی تمام اچھائیوں کو نظرانداز کرنا درست طرزِ عمل نہیں۔
بہت ظالم ہیں وہ لوگ جو مجاہدین کی تمام بھلائیوں، قربانیوں اور کارناموں کو بھلا کر ان کی غلطیوں کو اچھالتے ہیں، انہیں برے برے القاب دے کر بدنام کرتے ہیں، اور اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ان کے پورے جہاد کو ہی غلط، بے نتیجہ اور عذاب کا باعث قرار دیتے ہیں، شہیدی نوجوانوں کوجہنم کا ایندھن قرار دیتے ان کی زبانوں پر لرزہ نہیں آتا۔ بے شک ایسے لوگ ظالم اور مایوسی پھیلانے والے ہیں، خود بھی جہاد نہیں کرتے، دوسروں کو بھی روک کر مجاہدین کو نقصان پہنچاتے ہیں، یقیناً ان سے آخرت میں اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
حکم لگانے میں انصاف کرنا چاہیے
یہ سریہ اور اس کی بابت نازل ہونے والی آیات غلطیوں سے نمٹنے کا طریقہ سکھاتی ہیں، غلطی کرنا انسان کی فطرت ہے، لہٰذا اگر وہ غلطی سے نمٹنا نہ سیکھے تو دوسری مرتبہ پہلے سے بڑی غلطی کرے گا، جیسے غلطی سے کسی کی آنکھ میں کچھ چلا جائے اور وہ اس تکلیف کو دور کرنے کے لیے کوئی غلط دوا آنکھ میں ڈال کر آنکھ سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے۔
لیکن اخطاء سے تعامل کا طریقہ بیان کرنے سے بھی پہلے ہم یہ دیکھنا چاہیں گے کہ اصل غلطی کہاں ہوئی تھی اور اس واقعے کی بابت کن کن لوگوں کی کیا کیا رائے تھی اور اللہ تعالیٰ نے کیا فیصلہ فرمایا؟
غلطی حرمت والے مہینے میں کفار کے خلاف قتال کرنے کی تھی،ابتدائے اسلام میں حرمت والے مہینوں میں لڑنے کی ممانعت تھی، لیکن بعد میں یہ ممانعت سورۂ توبہ کے نزول کے وقت منسوخ ہوگئی، جمہور علماء کے نزدیک اب ان مہینوں میں بھی قتال جائز ہے اور یہی صحیح ہے۔
اس خطا کے بارے میں لوگوں کے مختلف موقف تھے اور اس کی وجہ نقطۂ نظر کا اختلا ف تھا۔
رسول اللہﷺ نے اس فعل کو غلط قرار دیا، ارشاد فرمایا: ’’میں نے تمہیں حرمت والے مہینے میں قتال کانہیں کہا تھا‘‘۔ لیکن قیدیوں اور مالِ غنیمت کی بابت آپ ﷺ نے وحی کا انتظار کیا اور جب تک وحی نہیں آئی معاملے کو جوں کا توں رہنے دیا۔ (البدایہ والنہایہ)
مسلمانوں کے دو گروہ ہوگئے، مدینہ والوں نے اہلِ سریہ کے اس فعل پر ناگواری کا اظہار کیا، جبکہ مکہ میں موجود مسلمانوں نے اس خبر کو قریش کا الزام سمجھ کر اس کی تاویل کی کہ یہ واقعہ شعبان میں ہوا ہے [قریش موقع سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کوبدنام کرنا چاہتے تھے]۔ (البدایہ والنہایہ)
کفارِ مکہ نے کہا: محمد(ﷺ)اور اس کے ساتھیوں نے محترم مہینوں کی حرمت کوپامال کیا، خون بہایا، مال لوٹا اور قیدی بھی بنایا۔ (البدایہ والنہایہ)
اپنے حسد اور دشمنی کی وجہ سے یہودِ مدینہ نے بھی موقع غنیمت جانا، اور ایک فال نکالی۔ عمروبن حضرمی کو واقد بن عبد اللہؓ نے قتل کیا تھا، سو انہوں نے دشمنی کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے یہ فال نکالی: عمرو نے جنگ کو آباد کیا (لفظ عمر کا مادہ آبادی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے)، حضرمی جنگ میں حاضر ہوا (حضر کا مطلب ہے حاضر ہونا)، واقد نے جنگ کی آگ بھڑکائی (واقد کا مطلب ہے آگ بھڑکانے والا)، [اس فال سے وہ اپنے بیمار ذہنوں کو یہ تسکین دے رہے تھے کہ اب سارا عرب مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوگا اور وہ پھر سے مدینہ کے بادشاہ گر ومختارِ کل بن جائیں گے]۔
اس فعل کو غلط مسلمان بھی کہتے تھےا ور کفار بھی، لیکن دونوں کے غلط کہنے میں زمین آسمان کا فرق تھا، مسلمان اسے غلط اس وجہ سے کہہ رہے تھے کہ یہ ان کے دین کے احکام کی خلاف ورزی تھی [کفار کے طے کردہ (اقوامِ متحدہ کے) اصولوں کی بنیاد پر انہیں غلط نہیں قرار دے رہے تھے]، اور اس کے باوجود ان مسلمانوں سے ان کی ایمانی اخوت و محبت بحال و برقرار تھی، اس میں کوئی فرق نہیں آیا تھا، جبکہ کفار کی تو مسلمانوں سے دیرینہ دشمنی تھی، وہ موقع کی تلاش میں تھے اور اب اس سے فائدہ اٹھا رہے تھے، حالانکہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ محترم مہینوں اور حدودِ حرم میں جو جرائم وہ کرچکے ہیں اور اب بھی کررہے ہیں ان کے مقابلے میں مسلمانوں کی یہ غلطی کچھ بھی نہیں، ان کا مسلمانوں کی اس غلطی کو اچھالنا ’بی مینڈکی کو بھی زکام ہوا‘ والی بات ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل فرماکر کفارِ مکہ کو آئینہ دکھادیا:
يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْهِ ۭ قُلْ قِتَالٌ فِيْهِ كَبِيْرٌ ۭ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَكُفْرٌۢ بِهٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۤ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۭ (البقرۃ: 217)
’’لوگ آپ سے حرمت والے مہینے کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس میں جنگ کرنا کیسا ہے؟ آپ کہہ دیجیے کہ اس میں جنگ کرنا بڑا گناہ ہے، مگر لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنا، اس کے خلاف کفر کی روش اختیار کرنا، مسجد حرام پر بندش لگانا اور اس کے باسیوں کو وہاں سے نکال باہر کرنا اللہ کے نزدیک زیادہ بڑا گناہ ہے، اور فتنہ قتل سے بھی زیادہ سنگین چیز ہے۔‘‘
کفار تو اپنی طرف جھوٹے الزامات گھڑ کر اسلام اور مسلمانوں کوبدنام کرتے رہتے ہیں، لہٰذا جب انہیں مسلمانوں کی کسی حقیقی برائی کا پتہ چلتا ہے تو ان کی خوشی دیدنی ہوتی ہے، چھوٹی سی غلطی کو بڑھاچڑھا کر بیان کرتے ہیں، کفار کا یہ طرزِ عمل انوکھا اور قابلِ تعجب نہیں، کیونکہ جب کفر جیسی سب سے بڑی برائی کرسکتے ہیں تو دیگر گناہ تو اس سے چھوٹے ہیں، ان کاارتکاب بہت معمولی بات ہے۔ تعجب تو ان اہلِ اسلام بلکہ اربابِ دستار پر ہے جو کفار کے اُگلے ہوئے کی جگالی کرتے ہیں، انہی کے الزامات کو نہ صرف دہراتے ہیں، بلکہ شرعی جواز ودلائل سے بھی آراستہ کرتے ہیں، یقیناً ان کا پروپیگنڈا کفار کے پروپیگنڈے سے زیادہ مضر ہے، کیونکہ کفار کی اہلِ اسلام سے دشمنی کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔
مسلمان اگر کوئی غلطی بھی کرتا ہے تو اسے وہ سزا دی جائے گی جو شریعت نے مقرر کی ہے، یہ نہیں کہ اس کے خلاف کفار کا ساتھ دیا جائے۔ جب غلطی کے باوجود مسلمانوں کے خلاف کا فر کا ساتھ نہیں دیا جاسکتا، تو اگر مسلمان حق پر ہو تو کافر کا ساتھ دینا کس شرعی دلیل کی رو سے درست ہوسکتا ہے؟
یہ ’اربابِ فضیلت‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اس بنیادی قاعدے سے بھی ناواقف ہیں کہ ’’جب انکار کے نتیجے میں بڑا منکر پیدا ہورہا ہو تو انکارِ منکر ناجائز ہے‘‘۔ لہٰذا انہیں چاہیے کہ پہلے آداب اور طریقہ سیکھیں پھر انکارِ منکر کریں، اور اگر وہ واقف ہیں تو پھر کس دلیل کی رو سے مجاہدین کی غلطیوں کو اس طرح بڑھاچڑھا کر پیش کرتے ہیں، جس سے عامۃ المسلمین جہاد سے ہی بدکنے اور خوف کھانے لگے ہیں؟
الغرض!درج بالا واقعے سےمندرجہ ذیل دروس حاصل ہوتے ہیں۔
۱۔ مجاہدین بھی دیگر عام مسلمانوں جیسے انسان ہیں، ان سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں، وہ معصوم نہیں ہوتے، مجاہد یا متقی ہونے کے لیے ’غلطیوں سے پاک ہونا‘ ضروری بھی نہیں، اللہ رب العزت قرآنِ کریم میں متقیوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ ۠ وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ڞ وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰي مَا فَعَلُوْا وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ (آل عمران: 135)
’’اور یہ (متقی)وہ لوگ ہیں کہ اگر کبھی کوئی بےحیائی کا کام کر بھی بیٹھتے ہیں یا (کسی اور طرح) اپنی جان پر ظلم کر گزرتے ہیں تو فوراً اللہ کو یاد کرتے ہیں کہ اور اس کے نتیجے میں اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا ہے بھی کون جو گناہوں کی معافی دے؟ اور یہ اپنے کیے پر جانتے بوجھتے اصرار نہیں کرتے۔‘‘
اس آیت نے صاف بتادیا کہ متقی بننے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ انسان سے غلطی ہی نہ ہو، البتہ یہ ضروری ہے کہ جب بھی ہو توانسان توبہ کرلے، اس پر ڈٹا نہ رہے۔
حضرت انس راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:
’’ہر انسان خطا کار ہے (یعنی ہر انسان گناہ کرتا ہے علاوہ انبیائے کرام کے کیونکہ وہ معصوم عن الخطاء ہیں) اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی) [مشکوۃ شریف: جلد دوم: حدیث نمبر 873 متفق علیہ]
۲۔ کسی صورتحال کے بارے میں حکمِ شرعی معلوم نہ ہوتو توقف کرکے پہلے حکم معلوم کرنا چاہیے، جب تک حکم معلوم نہ ہو کوئی اقدام نہیں کرنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے قافلے کے سامان اور قیدیوں میں کوئی تصرف نہیں کیا، جب وحی نازل ہوئی اور شرکائے سریہ کا خوف دور ہوا تو آپﷺ نے قیدیوں اور سامان کو لے لیا۔ (البدایہ والنہایہ)
۳۔ مسلمان جب کسی دوسرے مسلمان کو انکارِ منکَر کرتا ہےتو اس کا سبب دینی حمیت ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود ان کے مابین ایمانی اخوت باقی رہتی ہے، جبکہ کفار کی طرف سے مسلمانوں پر کی جانے والی تنقید کاسبب بغض و کینہ ہوتا ہے۔
[لیکن اس کے باوجود کفار کے الزامات پر ایک مرتبہ ٹھنڈے دل سے غور کرلینا چاہیے، اگر وہ درست ہو ں اور شریعت بھی انہیں غلط کہتی ہو تو پھر اپنی اصلاح کرنابھی ضروری ہے، صرف اس وجہ سے کہ کافر نے غلطی پر تنبیہ کی ہے اصلاح کو ترک نہیں کیا جائے گا۔
مسندِ احمد میں صحابیہ حضرت قُتَیلہ ؓ کی روایت ہے: رسول اللہ ﷺکے پاس یہود کاایک عالم آیا اور اس نے کہا: ’’اے محمدﷺ! تم بہت اچھے لوگ ہو، اگر تم اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراتے‘‘۔ آپﷺ نے پوچھا: ’’سبحان اللہ! وہ کیا (شرک) ہے؟‘‘ اس نے کہا: ’’جب تم لوگ (یعنی مسلمان، نہ کہ رسول اللہﷺ) قسم کھاتے ہو تو ’کعبہ کی قسم‘ کہتے ہو‘‘۔ آپﷺ نے کچھ ٹھہرنے کے بعد ارشاد فرمایا: ’’اس شخص نے بات (ٹھیک) کی ہے، لہٰذا جو بھی قسم کھائے کعبہ کے رب کی قسم کھائے‘‘۔ پھر اس یہودی عالم نے کہا: ’’اے محمدﷺ! تم اچھے لوگ ہو، اگر تم اللہ کا ہمسر نہ بناؤ‘‘۔ آپﷺ نے پوچھا: ’’سبحان اللہ! وہ (ہمسر بنانا) کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا: ’’تم (مسلمان لوگ) کہتے ہو ’ماشاء اللہ و شئت‘ (جو اللہ چاہے اور آپ[یعنی محمدﷺ] چاہیں)‘‘۔ آپﷺ نے کچھ ٹھہرنے کے بعد ارشاد فرمایا: ’’اس شخص نے (ٹھیک) بات کی ہے، لہٰذا جو ’ماشاء اللہ‘ کہے وہ (مراتب میں) فاصلہ لاکر یوں کہے: ’ثم شئت‘ (جو اللہ چاہے، اس کے بعد جو آپ چاہیں)]
۴۔ مکہ میں مقیم مسلمانوں نے جس طرح اپنے بھائیوں کے حق میں تاویل کی کہ ’’انہوں نے رجب میں حملہ نہیں کیا، بلکہ شعبان کا چاند نظر آنے کے بعد جب حرمت والامہینہ باقی نہ رہا تو حملہ کیا‘‘، اس سے سبق ملتا ہے کہ مسلمان بھائی سے جب غلطی ہوجائے تو جہاں تک ممکن ہو اسے معذور سمجھنا چاہیے، بعض بزرگوں سے منقول ہے: ’’اپنے مسلمان بھائی کے لیے سو عذر تلاش کرو، پھر بھی کوئی عذر نہ پاؤ تو یہ کہو کہ شاید اس کاکوئی ایسا عذر ہو جس کا مجھے علم نہیں‘‘۔
یہ حکم اس وقت اور زیادہ مؤکد ہوجاتا ہے جب ناقد اپنی دوری کی وجہ سے براہِ راست معاملات سے واقف نہ ہواور جس ذریعے سے اس تک خبر پہنچی ہو وہ بھی معتبر نہ ہو، اللہ جل جلالہ نے تو ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ جب فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اسے خوب تحقیق اور چھان بین کے بعد قبول کر ناچاہیے، ارشادِ باری ہے:
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ (الحجرات: 6)
’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے، تو اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی سے کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا بیٹھو، اور پھر اپنے کیے پر پچھتاؤ۔‘‘
پھر اگر خبر لانے والا کافر ہو جس کے دل میں اسلام واہلِ اسلام سے نفرت کا آتش فشاں کھول رہا ہو تو اس کی خبر کیونکر قبول کی جاسکتی ہے!
افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد اسلام اور بالخصوص جہاد کے بارے میں کافروں اور نام نہاد مسلمان ملکوں کے ذرائع ابلاغ کی طرف سے نشر کی جانے والی منفی خبروں کو حقیقت جان کر من وعن قبول کرلیتی ہے، انہی خبروں کو بنیاد بنا کر مجاہدین کے بارے میں غیرمنصفانہ رائے قائم کرتی ہے۔
۵۔ یہود کے طرزِ عمل سے پتہ چلا کہ کفار کا اگرچہ کسی معاملے سے تعلق نہ بھی ہو تب بھی وہ مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے موقع کی تاک میں رہتے ہیں، اس کی وجہ ان کا مسلمانوں کے ساتھ حسد اور کینہ ہے۔
۶۔ سب سے قیمتی سبق جو سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہےوہ ربانی تفریق ہے جو دو خطار کے گروہوں کے درمیان کی گئی، ایک گروہ (مسلمان) کی نیکیاں سمندر کے برابر تھیں اور خطاؤں کے چند قطرے تھے، سو انہیں معاف کردیا گیا۔ دوسرا گروہ (کافر) گناہوں کے سمندر میں غرق تھا، سو انہیں معافی نہیں ملی۔ ارشادِ باری ہے:
وَمَا يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ ڏ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَلَا الْمُسِيْۗءُ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَتَذَكَّرُوْنَ (غافر: 58)
’’اور اندھا اور بینائی رکھنے والا دونوں برابر نہیں ہوتے، اور نہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے، وہ اور بدکار برابر ہیں، (لیکن) تم لوگ بہت کم دھیان دیتے ہو۔‘‘
اللہ جل جلالہ نے اپنے دوستوں اور دشمنوں کے مابین انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمایا،حرمت والے مہینے میں قتال کرنے کے گناہ سے انہیں بری قرار نہیں دیا، بلکہ کہاکہ یہ ایک گناہ کا کام ہے، لیکن اس کے مقابلے میں جو کچھ کفار کررہے ہیں (خود بھی اللہ کے ساتھ کفر کرنا، دوسروں کو بھی اسلام سے روکنا، مسجدِ حرام سے روکنا، حرم کے باسی مسلمانوں کو وہاں سے نکالنا، مسلمانوں کو ان کے دین سے برگشتہ کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا) وہ بڑے گناہ ہیں کہ ان کا آپس میں کوئی موازنہ نہیں۔ علاوہ ازیں مسلمانوں نے قصداً حرمت والے مہینے میں قتال نہیں کیا، بلکہ وہ سمجھے کہ رجب کا مہینہ ختم ہوگیاہے، اور قصداً بھی کیا ہو تب بھی اللہ نے انہیں معاف کردیا ، کیونکہ اس کے ساتھ انہوں نے توحید، اطاعت ، ہجرت اور آخرت کو ترجیح دینے جیسی بڑی بڑی نیکیاں کی ہیں۔ تو ان کو ان کافروں پر کیسے قیاس کیا جاسکتا ہے جو سراپا بدی وبرائی ہیں، ان میں خیر کا ذرہ بھی نہیں ہے۔ (زادالمعاد)
اشعار کی اہمیت
ابن ِ اسحاق کہتے ہیں: ’’مشرکین نے جب مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے پروپیگنڈا کیا کہ انہوں نے حرمت والے مہینے کی حرمت پامال کی ہے، تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اشعار میں اس کا جواب دیا‘‘۔ جبکہ دوسرے سیرت نگار ابن ہشام کہتے ہیں کہ یہ جوابی اشعار خود امیرِ سریہ حضرت عبداللہ بن جحشؓ کے ہیں۔
تعدون قتلا فی الحرام عظیمۃ
واعظم منہ لویریٰ الرشد راشد
ماہِ حرام میں قتل کو جرم تم جانتے ہو
اس سے بھی بڑھ کر ہے ، اگر عقل کی بات مانتے ہو
صدودکم عما یقول محمد
وکفر بہ واللہ راء وشاہد
تمہار اانکار و روکنا محمدﷺ کے دیں سے
اللہ بھی دیکھ رہا ہے عرشِ بریں سے
واخراجکم من مسجد اللہ اہلہ
لئلا یریٰ للہ فی البیت ساجد
اورنکالا تم نے مسجد سے اللہ کے ولیوں کو
ترس گئی ہیں آنکھیں اب مصلیوں کو
فاناوان عیر تمونا بقتلہ
وارجف بالاسلام باغ وحاسد
ابن حضرمی کے قتل کی تم ہمیں لاکھ عار دلاؤ
بغض ،حسد اور افواہوں کے جھکڑ چلاؤ
سقینا من ابن الحضرمی رماحنا
بنخلۃ لما اوقد الحرب واقد
ہاں! لہو اس کا اپنے نیزوں کو ہم نے پلایا
واقدؓ نے’ نخلہ‘ میں آتشِ جنگ کو بھڑکا یا
دما وابن عبد اللہ عثمان بیننا
ینازعہ غل من القید عاند
عبداللہ کا بیٹا: عثمان بنا ہمارا قیدی
پہنادی ہم نے اسے ایک بوجھل بیڑی
جہاد باللسان بھی واجب ہے،ارشادِ نبوی ہے:
جاهدوا المشركين بأموالكم و أنفسكم و ألسنتكم
’’مشرکین سے مال، جان اور زبان کے ذریعے جہاد کرو۔‘‘
(مستدرک حاکم ،کتاب الجہاد)
اشعار کہنا بھی جہاد باللسان میں داخل ہے،نبی کریم ﷺ نے حضرت حسانؓ بن ثابت سے ارشاد فرمایا:
اھج المشرکین.
’’مشرکین کی برائی بیان کرو۔‘‘ (صحیح بخاری)
امام بخاری، مسلم اور احمد نے یہ حدیث روایت کی ہے کہ حضرت کعب ؓ نے عرض کیا:
اللہ نے شاعروں کے بارے میں (ان کے خلاف) قرآن کی آیات نازل کی ہیں۔ (یعنی سورۂ شعراء کی آیات:
وَالشُّعَرَاۗءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَ اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِيْ كُلِّ وَادٍ يَّهِيْمُوْنَ وَاَنَّهُمْ يَقُوْلُوْنَ مَا لَا يَفْعَلُوْنَ (الشعراء: 224-226)
’’رہے شاعر لوگ، تو ان کے پیچھے تو بےراہ لوگ چلتے ہیں۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں؟ اور یہ کہ وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں ہیں)۔
تو آپﷺ نے جواب دیا:
’’مومن اپنی تلوار اور زبان (دونوں) سے جہاد کرتا ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم ان (اشعار )کے ذریعے بھی گویا ان پر تیر پھینک رہے ہوتے ہو۔‘‘
حضرت عمار ؓ کہتے ہیں ہم ایک غزوہ میں تھے اور ہم نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ مشرکین ہمیں برا بھلا کہتے ہیں،آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
اهجوهم كما يهجونكم
’’ تم بھی اسی طرح ان کی برائیاں بیان کردو۔‘‘
کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس زمانے میں شاعری کس کام کی، لوگ اس میں دلچسپی نہیں رکھتے، ہمارے دشمنوں کی بھی سمجھ میں نہیں آتی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ شاعری کے بہت سے مقاصد ہیں۔
۱۔ ان میں سے ایک مقصد وہ ہے جو اوپر گزرا، یعنی اپنے اوپر عائد جہاد باللسان کے فریضہ کی ادائیگی۔
۲۔ ہمارے دشمنوں پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے، یہ بات درست نہیں کہ دشمن شاعری کا معنی نہیں سمجھتے، ہم ان کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں اور جن وسائل کو ان کے خلاف استعمال کرتے ہیں وہ ان کے بارے میں بعض مسلمانوں سے زیادہ جانتے ہیں، ہمیں یہ تک پتہ چلا ہے کہ جہادی مناظر کی عکس بندی کے ساتھ نشر ہونے والے جہادی ترانے جب ہمارے دشمن سنتے ہیں تو ان کی لے اور گھن گرج سے ان کے پتے پانی ہوجاتے ہیں، الفاظ بندوق کی گولی کی طرح انہیں لگتے ہیں۔ اگر ہم ان کی زبان میں ترانوں کا ترجمہ بھی کردیں تو وہ اور زیادہ مرعوب و خوفزدہ ہوں گے۔
۳۔ اس سے کم از کم اتنا تو ہوگا کہ دشمن یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ مجاہدین کے علاوہ امت کے دیگر طبقے [شاعر وادیب] بھی اس کے خلاف ہیں، اس سے اس کی پریشانی میں اضافہ ہوگا۔
۴۔ جہادی شاعری کا ایک مقصد اسلام و اہلِ اسلام کے دفاع پر مسلمانوں کو ابھارنا ہے، اور یہ حکمِ الٰہی [حرض المؤمنین علی القتال] (مومنوں کو جنگ پر ابھاریں) پر عمل کے ضمن میں آتا ہے۔ محاذوں پر برسرِ پیکار مجاہد نوجوانوں پر ہم نے ان ترانوں کا مفید ومثبت اثر دیکھا ہے۔
۵۔ تاریخ کاایک حصہ شاعری بھی ہے، اس کے ذریعے سنہری کارنامے اور ان کے ابطال تاریخ کے اوراق میں امر ہوجاتے ہیں۔ ہر دور میں شاعر حضرات دفاعِ امت کے معرکے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں، شاعر پوری امت کے جذبات کا ترجمان ہوتا ہے، اس کے الفاظ دشمن کے غیظ و غضب میں اضافہ کرتے ہیں [جو خود یہ باور کرا کے تسلی دے رہا ہوتا ہے کہ یہ مٹھی بھر لوگ ہیں جو ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے] جیسا کہ فرعون نے بنی اسرائیل کے بارے میں کہا تھا:
اِنَّ هٰٓؤُلَاۗءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِيْلُوْنَ وَاِنَّهُمْ لَنَا لَغَاۗىِٕظُوْنَ وَاِنَّا لَجَمِيْعٌ حٰذِرُوْنَ (الشعراء: 54-56)
’’(اورفرعون نے یہ کہلا بھیجا کہ) یہ (بنی اسرائیل) ایک چھوٹی سی ٹولی کے تھوڑے سے لوگ ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ہمارے دل جلائے ہوئے ہیں۔ اور ہم سب احتیاطی تدبیریں کیے ہوئے ہیں۔‘‘
ہم ہر مسلمان شاعر کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ اسلام کے دفاع، جہاد کی دعوت اور کفار کی برائیوں کو بیان کرنے میں اپنا فن وہنر استعمال کرے، یہ نیکی کا بہت بڑا دروازہ ہے، اگر آپ کو بندوق سے جہاد کرنے کاموقع میسر نہیں تو کم ازکم زبان سے تو ضرور جہاد کریں۔
موقع کی مناسبت سے میں یہاں اپنے ان بھائیوں سے چند گزارشات کرنا چاہتاہوں جو جہادی اور اسلامی ترانے تیار کرکے نشر کرتے ہیں۔ [پڑھنے کے لیے] اشعار کے انتخاب وقت ان کے معانی اور پیغام کو اولین اہمیت دیں، پھر وہ الفاظ بھی ایسے ہوں جو شاعری کے معیار پر پورے اترتے ہوں ، ذوقِ سلیم کے مطابق ہوں، پُرجوش اور بارعب، مردانگی سے بھر پور الفاظ ہوں، جس سے مسلمان جوش میں آجائیں اور کفار ہوش کھو بیٹھیں۔ اس کا صوتی آہنگ نسوانیت سے بالکل خالی ہوناچاہیے، تاکہ ہمارے کارناموں کی طرح ہمارے ترانے بھی مردانگی کے معیار پر پورا اتریں۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭