یہ تحریر تنظیم قاعدۃ الجہاد في جزیرۃ العرب سے وابستہ یمن کے ایک مجاہدلکھاری ابو البراء الاِبی کی تالیف ’تبصرة الساجد في أسباب انتكاسۃ المجاهد‘ کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے ایسے افراد کو دیکھا جو کل تو مجاہدین کی صفوں میں کھڑے تھے، لیکن آج ان صفوں میں نظر نہیں آتے۔ جب انہیں تلاش کیا تو دیکھا کہ وہ دنیا کے دیگر دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟یہ تحریر ان سوالوں کا جواب ہے ۔(ادارہ)
چھبیسویں وجہ: پروگرام اور پلان نہ ہونے کا بہانا
یہ بہانا بنانا کہ مجاہدین کے پاس کوئی پروگرام اور پلان نہیں ہے۔ اور اس حوالے سے بزرگوں اور امراء کو ملامت کرنا۔ اور ان کی طرف سے تیار چیز آنے کا انتظار کرتے رہنا۔ اس شخص نے خود کسی دن یہ نہیں سوچا کہ وہ اپنے چھوٹے ماحول میں کوئی پروگرام یا پلان بنائے۔ بلکہ انتظار میں ہی بیٹھا رہ جاتا ہے۔ اگر وہ چاہتا کہ خاص اپنے لیے کوئی کام انجام دے تو اس کے لیے دسیوں منصوبے بنا ڈالتا، اور اس کام کے حوالے سے ماہرین سے رجوع کرتا۔
جالسن نے کہا: ”کاہلوں سے طریق کار اور ذرائع کی ترقی کے لیے نئی سوچ کا انتظار نہ کرو۔ جو ایسا سوچے تو اس نے وہم اور خوابوں پر بھروسہ کیا“۔ جو دعوت اور جہاد کے غم کو اپنا غم نہ بنائے اور اسی غم میں نہ سوئے اور نہ جاگے تو یہ نا ممکن ہے کہ وہ دعوت و جہاد کی ترقی کے لیے کوئی نئی سوچ سوچ سکے اور اس میں پیش رفت کرسکے۔
اللہ تعالیٰ سید قطب پر رحم فرمائے جب انہوں نے فی ظلال القرآن میں لکھا:
”وہ مسلم جماعت جو رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہی اس کے موقف پر قرآنی تبصرہ سے ہمیں ایک اور حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ وہ مسلم جماعت جس میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والے مرد شامل تھے۔ یہ حقیقت دوبارہ سے اسلامی زندگی کے احیاء میں ہمارے لیے بہت مفید ہے ۔ اللہ کی مدد سے۔ اللہ تعالیٰ کا منہج اٹل ہے۔ اس کی اقدار اور پیمانے بھی اٹل ہیں۔ لوگ اس منہج سے کبھی دور ہو جاتے ہیں اور کبھی قریب۔ لوگ تصور کے اصول اور سلوک کے اصول میں غلطی بھی کرتے ہیں اور درست بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی کوئی بھی غلطی منہج کی غلطی نہیں گردانی جاتی۔ اور نہ ہی اس سے منہج کی اٹل اقدار اور پیمانوں میں کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ جب انسان تصور اور سلوک میں غلطی کرتا ہے تو قرآن انہیں غلط قرار دیتا ہے۔ جب وہ انحراف کرتا ہے تو اسے انحراف شدہ قرار دیتا ہے۔ لیکن ان کی غلطی اور انحراف سے چشم پوشی نہیں کرتا۔ چاہے ان کی منزلت اور مرتبہ کتنا ہی اونچا کیوں نہ ہو۔ وہ خود ان کے انحراف کے سبب منحرف نہیں ہوتا۔
ہمارے لیے اس میں یہ سبق ہے کہ شخصیات کو بری کرنے کا مطلب منہج کو مسخ کرنا نہیں ہے! امت مسلمہ کے لیے خیر یہ ہے کہ اس کے منہج کے مبادی سالم، روشن اور فیصلہ کن ہوں؍ اٹل؍ قطعی۔ جبکہ ان مبادی میں غلطی کرنے والوں یا انحراف کرنے والوں کو وہی لقب دینا چاہیے جس کے وہ مستحق ہیں چاہے وہ جو بھی ہوں۔ ان کی غلطیوں اور انحراف کا جواز پیش کرنے کے لیے منہج کو ہرگز نہ منحرف کیا جائے اور نہ ہی اس کے اقدار اور پیمانوں کو تبدیل کیا جائے۔ کیونکہ یہ تحریف اور تبدیلی اسلام کے لیے زیادہ خطرناک ہے بنسبت بڑی سے بڑی مسلم ہستیوں کو غلط یا منحرف قرار دینے سے۔ منہج شخصیات سے بڑھ کر ہے۔ اسلام کی تاریخی واقع حال مسلمانوں کی طرف سے ہونے والا ہر قسم کا فعل اور ہر قسم کی صورت حال نہیں ہے۔ بلکہ وہ ہر فعل اور ہر وہ صورت حال ہے جو سو فیصد منہج، اور اس کے اٹل مبادی ، اقدار کے موافق تھا۔ اور جو ایسا نہ تھا وہ غلطی اور انحراف ہے جس کا اسلام سے تعلق نہیں اور نہ ہی اسے اسلامی تاریخ قرار دیا جا سکتا ہے۔ بلکہ اس کا تعلق ان افراد سے ہے جن سے وہ صادر ہوا۔ اور ایسے افراد کی وہی صفت بیان کرنی چاہیے جس کے وہ مستحق ہیں۔ غلط، منحرف یا اسلام سے خارج۔
اسلام کی تاریخ ان مسلمانوں کی تاریخ نہیں جو محض نام یا زبان کی وجہ سے مسلمان ٹھہرے۔ اسلامی کی تاریخ لوگوں کے تصورات اور سلوک اور ان کے روزہ مرہ زندگی اور معاشروں کے نظام میں اسلام کے حقیقی مطابقت کی تاریخ ہے۔ اسلام ایک اٹل محور؍مرکز ہے جس کے گرد لوگوں کی زندگی ایک لگے بندھے دائرے میں گھومتی ہے۔ اگر وہ اس دائرے سے نکل جائیں یا اس محور کو یکسر ترک کر دیں تو اس دن اسلام اور ان کا کیا لینا دینا؟ اور کیوں ان کے اعمال اور کرتوتوں کو اسلام گردانا جائے یا ان کے ذریعے اسلام کی تشریح کی جائے۔ بلکہ خود انہیں کیوں مسلمان گردانا جائے جب وہ اسلام کے منہج سے نکل چکے ہوں، اور اپنی زندگی میں اسے نافذ کرنے سے انکار کیا ہو۔ وہ تو مسلمان تب تھے جب وہ اس منہج کواپنی زندگی میں نافذکرتے تھے۔ نہ یہ کہ ان کے نام مسلمانوں کے تھے، اور نہ اس لیے کہ وہ اپنے منہ سے کہتے تھے کہ ہم مسلمان ہیں۔ یہ وہ چیز تھی جسے اللہ سبحانہٗ و تعالی ٰنے چاہا کہ مسلم امت سیکھ لے۔ جب وہ مسلم جماعت کی غلطی واضح کر رہے تھے اور اس میں نقص اور ضعف کی نشاندہی کر رہے تھے۔ پھر اس کے بعد اس پر رحم بھی فرما رہے تھے اور معاف بھی کر رہے تھے۔ اور آزمائش کے میدان میں اس نقص اور ضعف سے پیدا ہونے والی صورت حال سے بھی اسے بری کر دیا۔“
ابو سعد عاملی فرماتے ہیں:
”جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس کچھ ہے وہ ہر پیشکش میں عیب نکالتے ہیں۔ اور ہمت باندھنے؍ اٹھ کھڑے ہونے کی ہر کوشش کا انکار کرتے ہیں۔ اور تمام ذمہ داریوں سے دامن چھڑاتے ہیں۔ اور بہانہ یہ بناتے ہیں کہ قیادت اہل ہی نہیں ہے کہ وہ ذمہ داریاں سونپے۔
اَنّٰى يَكُوْنُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ (البقرۃ: 247)
’’اسے ہم پر بادشاہی کا حق کیونکر ہوسکتا ہےاور بادشاہی کے مستحق تو ہم ہیں اور اس کے پاس تو بہت سی دولت بھی نہیں۔‘‘
اللہ کی قسم یہ طور طریقے ہیں ۔
لتتبعن سنن الذين من قبلكم حذو القذة بالقذة
”اللہ کی قسم تم سابقہ اقوام کے طور طریقوں کی پیروی کرو گے۔ جیسے ایک جوتا دوسرے کے برابر ہوتا ہے۔“
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جب کہ اس سے پہلے وہ مطالبہ کر رہے تھے اور اللہ سے دعا کر رہے تھے کہ کسی کو بھیجیں جو ان کی قیادت کرے تاکہ وہ اس ذلت اور خواری سے خلاصی حاصل کر لیں۔
ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ (البقرۃ: 246)
’’آپ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کردیں تاکہ ہم خدا کی راہ میں جہاد کریں۔‘‘
یا آج کل کی زبان میں: بر حق جماعتیں کب بنیں گی تاکہ ہم ان میں شامل ہوں، ان کا ساتھ دیں اور ان کے مخلص سپاہی بنیں۔ لیکن جب یہ جماعتیں سامنے آتی ہیں، اور آگے بڑھتی ہیں اور لوگوں کو شامل ہونے کے لیے پکارتی ہیں، تو یہی لوگ نکلتے ہیں تاکہ ان جماعتوں کو اپنی تیز زبانوں سے کاٹیں: انہیں کس نے حق دیا ہے کہ ہماری نمائندگی کریں؟ انہیں کیا اختیار کہ وہ آگے بڑھیں؟ کیا ان کے پاس اتنے قابل افراد ہیں کہ وہ قیادت سنبھالیں؟ کیا ان کے پاس مطلوب علم شرعی ہے کہ وہ فتاویٰ جاری کریں اور اس طرح کے کام انجام دیں؟ اور اس قسم کی بے تکے بہانے اور شیطانی دلیلیں پیش کریں۔ بالکل جیسے بنی اسرائیل نے اس سے قبل کہا تھا: اسے ہم پر بادشاہی کا حق کیونکر ہوسکتا ہے،بادشاہی کے مستحق تو ہم ہیں۔ لیکن دوسری زبان اور دوسرے زاویے سے۔
جب قربانی اور عمل کے میدانوں میں ان قیادتوں کی سچائی ظاہر ہوتی ہے، اور یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے مواقف درست تھے، اور وہ اپنے اصولوں پر ثابت قدم رہے، شبہات اور طاغوت کے ورغلانے سے بچے رہے، تو ایسے لوگوں کے پاس لیت و لعل کے طریقوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ ۚ لَوْلَآ اَخَّرْتَنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ (النساء: 77)
’’تو نے ہم پر جہاد (جلد) کیوں فرض کردیا تھوڑی مدت اور ہمیں کیوں مہلت نہ دی۔‘‘
یہ ڈرپوکوں کے طور طریقے ہیں۔ مزاحمت سے بھاگنے کے ذرائع ہیں۔ ذلت، پستی اور ہر قسم کی ادنیٰ زندگی میں پڑے رہنے کی خواہش ہے۔“
٭٭٭٭٭